ترک فوج شامی صوبے ادلب ميں داخل

پچھلے دنوں ترکی، روس اور ايران کی ثالثی ميں شام ميں ’ڈی اسکليشن زونز‘ کے قيام کے سلسلے ميں طے پانے والے سمجھوتے کے تحت ترک افواج شام کے شمال مغربی صوبے ادلب ميں داخل ہو گئی ہيں۔ ترک افواج کا ايک قافلہ جہاديوں کے زير کنٹرول شامی صوبے ادلب ميں داخل ہو گيا ہے۔ اس پيش رفت کی تصديق شامی امور پر نگاہ رکھنے والے مبصر ادارے سيريئن آبزرويٹری فار ہيومن رائٹس نے کر دی ہے۔ يہ فوجی قافلہ اب حلب کے مغربی حصے کی جانب گامزن ہے۔ تاحال يہ واضح نہيں کہ یہ قافلہ کتنا بڑا ہے اور اس بارے ميں ابھی تک انقرہ نے بھی باقاعدہ کوئی بيان جاری نہيں کيا ہے۔ قبل ازيں اسی ہفتے کے آغاز پر ترک فوج نے اپنے ايک بيان کے ذريعے مطلع کيا تھا کہ ادلب ميں آپريشن کے ليے چيک پوسٹيں تعمير کی جائيں گی۔

پچھلے ہفتے ترک صدر رجب طيب ايردوآن نے بھی کہا تھا کہ ترک افواج کی حمايت سے شام ميں سرگرم ترکی نواز باغی ’حيات تحرير الشام‘ نامی جہادی اتحاد کے خلاف عسکری مہم کی قيادت کريں گے۔ يہ آپريشن در اصل ايران، روس اور ترکی کی ان کوششوں کا حصہ ہے، جن کا مقصد آستانہ مذاکراتی امن عمل کے تحت شام ميں ’تشدد ميں کمی‘ کے ليے مخصوص علاقوں کا قيام ہے۔ امن عمل کا طويل المدتی مقصد شام ميں قيام امن ہے تاہم ابتدائی طور پر اس جنگ زدہ ملک ميں چار ’ڈی اسکليشن زونز‘ کے قيام پر اتفاق ہوا تھا۔ اس سلسلے ميں تين ’ڈی اسکليشن زونز‘ پہلے ہی مقرر کيے جا چکے ہيں، جن ميں سے ايک دارالحکومت دمشق کے پاس، دوسرا وسطی حمص ميں اور تيسرا جنوبی شام ميں واقع ہے۔ ان زونز کی نگرانی روسی ملٹری پوليس کے سپرد ہے۔ ادلب صوبے ميں اکثريتی علاقوں پر ’حيات تحرير الشام‘ کا کنٹرول ہے۔

حصولِ تعلیم کے لیے پُرخطر سفر

ایک شکستہ حال سڑک کئی دیہات کے لوگوں کے لیے مشکلات کی باعث بننے کے ساتھ ساتھ بچوں کے اسکول چھوڑ دینے کا سبب بھی بنتی جا رہی ہے۔ چنیوٹ میں موجود بھوانہ-امین پور نہ صرف چنیوٹ کے دو بڑے قصبوں کو ملاتی ہے، بلکہ بھوانہ قصبے کو امین پور قصبے کے ذریعے فیصل آباد سے بھی ملاتی ہے جو کہ 2000ء میں تعمیر کی گئی تھی لیکن جلد ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی اور دو سال کے عرصے کے اندر ہی اس سڑک کا زیادہ تر حصہ ٹوٹ کر پتھروں کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکا تھا۔

یہ سڑک نہ صرف سینکڑوں دیہات کو بھوانہ کے تحصیل ہیڈ کوارٹرز سے ملاتی ہے بلکہ اسی سڑک پر موجود اسکولوں کے ہزاروں طلباء بھی گزر کر اسکول جاتے ہیں جن میں گورنمنٹ گرلز ہائی اسکول چک 184 اور بوائز ہائی اسکول چک 237 جے بی اور کئی پرائمری اور ایلیمنٹری شامل ہیں جو اس سڑک پر واقع ہیں۔ ان دیہات کے لوگ گزشتہ 15 برس سے اذیت کا شکار ہیں مگر یکے بعد دیگرے تین صوبائی حکومتیں بھی اس مسئلے کو حل نہیں کر سکیں جبکہ یہ علاقہ قومی اسمبلی کی نشست این اے 86 اور پنجاب اسمبلی کی نشست پی پی 74 کا حصہ ہے۔

چنیوٹ کے چک 237 جے بی کے ایک عمر رسیدہ کسان غلام علی کے مطابق اس علاقے سے الیکشن میں کامیاب ہونے والے ممبر قومی اسمبلی اور ممبر صوبائی اسمبلی دونوں ہی نے انتخابات کے بعد سے اب تک یہاں کا رخ نہیں کیا۔ سڑک کی خستہ حالی کی وجہ سے دونوں قصبوں کے درمیان پبلک ٹرانسپورٹ بھی بند ہو چکی ہے۔ ٹرانسپورٹ مالکان اب بھوانہ – جامی آباد – امین پور روڈ کو ترجیح دیتے ہیں جو اس سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔ تاہم علاقے میں موجود ہائی اسکولز چھوٹے دیہات سے 10 سے 15 کلومیٹر دور تھے اور پبلک ٹرانسپورٹ ہی طلباء کے لیے اسکولوں تک پہنچنے کا واحد ذریعہ تھا، چنانچہ جب سے ٹرانسپورٹ بند ہوئی ہے تب سے بچوں کی تعلیم کو دھچکا لگا ہے۔

علاقہ مکینوں نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس علاقے طلبہ تو پھر بھی صبح کسی نہ کسی طرح اپنے اسکولوں تک پہنچ جاتے ہیں مگر طالبات کو اسکولوں تک پہنچنے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے اور انہیں اپنی تعلیم کو مکمل طور پر چھوڑنا پڑ رہا ہے۔ پنجاب کے محکمہ تعلیم کے ایک مقامی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ لڑکیوں کے اسکولوں میں داخلے حقیقتاً ٹرانسپورٹ کی کمی کی وجہ سے کم ہوتے جا رہے تھے تاہم پھر بھی محکمہ تعلیم کسی نہ کسی طرح والدین کو اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے کے لیے قائل کرنے کی کوشش میں ہے۔

پنجاب ہائی ویز سب ڈویژنل آفیسر (مینٹیننس اینڈ ریپیئر) منظور احمد نون نے ڈان کو بتایا کہ ان کا محکمہ صوبے کے مرکزی ہائی وے کی دیکھ بھال اور مرمت پر توجہ دیے ہوئے ہے جو چنیوٹ کو دوسرے بڑے شہروں سے ملاتا ہے۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ 24 کلومیٹر طویل سڑک ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے جبکہ اس کا 4 کلومیٹر کا حصہ مکمل طور پر ناقابلِ استعمال ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ محکمے نے حکومتِ پنجاب سے مرمت کے لیے 3 کروڑ روپے کے فنڈز جاری کرنے کی درخواست کی ہے، اور جیسے ہی فنڈز جاری کر دیے جائیں گے تو اس کی مرمت پر کام شروع کر دیا جائے گا۔

یہ خبر 14 اکتوبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

قدرتی آفات کے سبب سالانہ اوسطاً چودہ ملين افراد بے گھر

شديد بارشوں، سيلابی ريلوں، زلزلوں اور طوفانوں جيسی قدرتی آفات کے سبب ہر سال اوسطاﹰ چودہ ملين افراد بے گھر ہو رہے ہيں۔ ايسی آفات سے متاثر ہونے والے افراد کی سب سے زيادہ شرح ايشیائی ملکوں ميں ہے۔ تازہ ترين اعداد و شمار کے مطابق قدرتی آفات کے نتيجے ميں ہر سال اوسطاً چودہ ملين افراد بے گھر ہو رہے ہيں۔ يہ انکشاف اقوام متحدہ کے دفتر برائے ’ڈزاسٹر رسک ریڈکشن‘ (UNISDR) اور جنيوا ميں قائم ’انٹرنل ڈسپليسمنٹ مانيٹرنگ سينٹر‘ (IDMC) کی جانب سے جاری کردہ ايک رپورٹ ميں کيا گيا ہے۔ رپورٹ ميں خبردار کيا گيا ہے کہ جيسے جيسے عالمی سطح پر آبادی ميں اضافہ اور موسمياتی تبديليوں کے اثرات بڑھ رہے ہيں، مستقبل ميں بے گھر ہونے کے خطرات اور بھی زيادہ کشيدہ ہو سکتے ہيں۔

زلزلے، سونامی، سيلاب اور طوفان سے سب سے زيادہ افراد متاثر ہوں گے۔ متعلقہ ايجنسيوں کی پيشن گوئيوں کے مطابق ايسی قدرتی آفات سے متاثر ہونے والوں کا تناسب ايشيائی ممالک ميں زيادہ ہے، جہاں کی آبادی دنيا بھر کی مجموعی آبادی کا ساٹھ فيصد ہے۔ جن ملکوں ميں سب سے زيادہ افراد بے گھر ہوئے، ان ميں دس ميں سے آٹھ جنوب و جنوب مشرقی ايشيا ميں ہيں۔ ’ڈزاسٹر ریڈکشن‘ کے عالمی دن کے موقع پر جاری ہونے والی رپورٹ ميں مزيد بتايا گيا ہے کہ بھارت ميں سالانہ بنيادوں پر 2.3 ملين اور چين ميں 1.3 ملين افراد مختلف وجوہات کی بنا پر بے گھر ہو جاتے ہيں۔ اس ميں اُن افراد کے اعداد و شمار شامل نہيں، جو کسی ممکنہ خطرے کے سبب کسی آفت کے آنے سے قبل ہی اپنا گھر بار چھوڑ ديتے ہيں۔ اس رپورٹ کے مطابق اگر امريکا اور روس ميں ’ڈزاسٹر ریڈکشن‘ کے ليے مناسب حکمت عملی اختيار نہ کی گئی اور اس ضمن ميں اقدامات نہيں کيے گئے، تو امکانات ہيں کہ وہاں بھی بڑے پيمانے پر لوگ قدرتی آفات کی وجہ سے بے گھر ہو سکتے ہيں۔

کیلیفورنیا کی آگ ابھی تک بے قابو ہے

امریکی ریاست کیلیفورنیا کی آگ شدید سے شدید تر ہوتی جا رہی ہے۔ کئی دوسری ریاستوں اور چند ممالک سے بھی فائر فائٹرز اس آگ کو بجھانے کے لیے کیلیفورنیا پہنچ گئے ہیں۔ امریکی ریاست کیلیفورنیا کی جنگلاتی آگ کی لپیٹ میں آ کر ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 40 تک پہنچ گئی ہے۔ پہلے یہ تعداد چھتیس بتائی گئی تھی۔ انتظامی حکام کا کہنا ہے کہ آتشزدگی کا شکار علاقوں میں زخمیوں اور ممکنہ طور پر جلے ہوئے افراد کی نعشوں کی تلاش جاری ہے۔ یہ ٹیمیں اب ایسے علاقوں تک پہنچ رہی ہیں، جہاں پہلے آگ کی وجہ سے داخل ہونا ناممکن تھا۔ اس تلاش کے ساتھ ساتھ مسلسل پھیلتی آگ کے رقبے کو کنٹرول کرنے پر بھی ترجیحی بنیادوں پر کام ہو رہا ہے۔

بظاہراب تک اس میں اب تک کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے۔ ریاست کے شمالی حصے میں اس آگ کو لگے پانچ دن ہو گئے ہیں جس کے سبب تقریباً نوے ہزار افراد کو نقل مکانی کرنا پڑی ہے۔ ساڑھے پانچ ہزار سے زائد مکانات جل چکے ہیں۔ آگ اس وقت سترہ مختلف مقامات پر لگی ہوئی ہے۔ آگ پر قابو پانے کے لیے نو ہزار سے زائد فائر فائٹرز جدوجہد میں مصروف ہیں۔ ایک ہزار سے زائد فائر انجن مسلسل پانی کی سپلائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔

فضا سے بھی ہوائی جہاز اور ہیلی کاپٹر پانی اور آگ بجھانے والے مادے پھینک رہے ہیں۔ کئی رضاکار بھی آگ بجھانے والے عملے کے ساتھ شامل ہیں۔ وسیع پیمانے پر پھیلی اس آگ پر قابو پانے کے لیے امریکی ریاستوں نیواڈا، واشنگٹن، اڈاہو، مونٹانا، نیو میکسیکو اور اوریگن سمیت کئی دوسری ریاستوں کے فائر بریگیڈز کیلیفورنیا پہنچ کر آگ پر قابو پانے کی کوششوں میں شامل ہیں۔ آسٹریلیا اور کینیڈا سے بھی آگ پر قابو پانے کے ماہرین اور فائر فائٹرز کیلیفورنیا پہنچ گئے ہیں۔