سعودی عرب، اب پاکستانی کارکنوں کی جنت نہیں رہا

سعودی عرب سن ستر کی دہائی سے اب تک پاکستانی ملازمین کے لئے کسی ’جنت‘سے کم نہیں تھا۔ پرکشش تنخواہیں اورملازمتوں کے بے شمار مواقع انہیں وطن چھوڑ کر وہاں جا بسنے پر آمادہ کرتے تھے۔ وطن واپسی پر مہنگی سگریٹ کا پیکٹ ، گولڈن گھڑی اور گلے میں لٹکتی سونے کی زنجیر دور سے اس بات کا پتہ دیتی تھی کہ یہ شخص سعودی عرب سے چھٹیاں گزارنے وطن آیا اور بہت سا پیسہ اپنے ساتھ لایا ہے۔ اسے ملازمت کرتے کچھ ہی سال گزرتے کہ گھر میں غیر ملکی ٹوٹھ پیسٹ سے لیکرفریج اور اے سی تک ہر چیز کی فراوانی نظر آنے لگتی تھی ۔ وزیرمملکت اوور سیز پاکستانیز عبدالرحمٰن خان کانجو کہتے ہیں ’’سن 1970 سے 2017 تک بیرون ملک روزگار کے لئے جانے والے پاکستانیوں کی تعداد ایک کروڑ ایک لاکھ 30 ہزار سے کچھ زیادہ تھی۔ ‘‘

اس میں کوئی دو رائے نہیں بیرون ملک پاکستانیوں کی اتنی بڑے تعداد ملکی معیشت کے لئے آکسیجن کی حیثیت رکھتی ہے۔ ان افراد کا ملکی زر مبادلہ کے ذخائر میں بہت اہم کردار بنتا ہے. مگراب حالات ایسے نہیں رہے۔ ملازمین کی قسمتیں بدل دینے والا ملک ’سعودی عرب‘ اب کارکنوں کی ’جنت‘ نہیں رہا۔ وہاں کے بدلتے قوانین اور اس ملک کےاندرونی مسائل نے بیرون ملک مقیم افراد یا ملازمین خاص کر پاکستانیوں کی مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے۔ عبدالرحمٰن خان کانجو کہتے ہیں ’’ گزشتہ چار ماہ کے دوران خلیجی ریاستوں سے ملک بدر کئے گئے پاکستانیوں کی تعداد ایک لاکھ 17ہزار 3 سو 52 ہے۔ سب سے زیادہ ایک لاکھ 13 ہزار افراد سعودی عرب سے نکالے گئے ۔‘‘

لوگوں کی بڑی تعداد میں واپسی نے وہاں جانے کے خواہشمندوں کے پیروں میں بیڑیاں ڈال دی ہیں، اس کا سب سے بڑا نقصان ملکی معیشت پر پڑنے والے منفی اثرات کی صورت میں نکل رہا ہے۔ رواں سال ملازمت کے لیے سعودی عرب جانے والے پاکستانیوں کی تعداد 2016ء کے مقابلے میں صرف 17 فیصد رہ گئی ہے۔ رواں برس جنوری سے جون تک ملازمت کے لیے صرف 77 ہزار چھ سو افراد سعودی عرب گئے جبکہ 2016 میں یہ تعداد 4 لاکھ 62 ہزار سے بھی زائد تھی۔ سن 2012 سے 2017 تک کے دوران بیرون ملک جانے والے افراد کی تعداد پر نظر ڈالیں تو یہ 41 لاکھ 87 ہزار 195 تھی۔ گویا 2012ء کے بعد سے روز گار کی غرض سے سعودی عرب جانے والے افراد کی تعداد میں مسلسل کمی اور واپس آنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔

حال ہی میں وطن واپس آنے والے کراچی کے ایک شہری نے وائس آف امریکہ سے تبادلہ خیال میں بتایا کہ’’سعودی عرب کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی آ رہی ہے جس کی وجہ سے مملکت کو مالی مسائل کا سامنا ہے جبکہ گرتی ہوئی تیل کی قیمتوں کے سبب ایک جانب سعودی عرب کے موجودہ ولی عہد محمد بن سلمان غیر ملکی سرمایہ کاری کی غرض سے 500 ارب ڈالر کی خطیر رقم سے نیا شہر ’نیوم ‘ آباد کر رہے ہیں تو خلیج کی ایک اور ریاست اومان سیاحت کے شعبے کو فروغ دینے کے لئے ویزا پالیسی میں نرمی کا اعلان کر چکی ہے۔ غالباً یہی صورتحال دوسری ریاستوں کی بھی ہے ۔ میرے خیال میں مستقبل میں ان ریاستوں میں غیر ملکی ملازمین کے حیثیت سے نہیں بلکہ سرمایہ کار کی حیثیت سے ہی ان ریاستوں میں رہ سکیں گے ۔ ‘‘

ادھر ایک جرمن نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق ’یمن کی جنگ نے سعودی عرب کو معاشی طور پر بہت متاثر کیا ہے۔ اس کی معیشت تیل کی قیمتوں کے گرنے کی وجہ سے پہلے ہی مشکلات کا شکار تھی لیکن یمن جنگ نے اخراجات مزید بڑھا دیئے ہیں ۔ ان اخراجات کو کئی طرح کے ٹیکسز لگا کر اخراجات کو پورا کیا جا رہا ہے ۔‘‘ رپورٹ کے مطابق ’’صرف نوکری پیشہ پاکستانی ہی واپس نہیں آرہے بلکہ چھوٹا موٹا کاروبار کرنے والے پاکستانیوں کی مشکلات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ ’پہلے پاکستانی چھوٹے موٹے جنرل اسٹورز کھول لیا کرتے تھے۔ اب ایسے سارے اسٹوروں کو بڑے اسٹوروں میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ نئے اسٹور کھو لنے کے لئے پاکستانیوں کو مقامی افراد پر انحصار کرنا پڑے گا۔ وہاں کی حکومت نے بینکوں، موبائل کمپنیوں اور کئی شعبوں میں پہلے ہی سو فیصد سعودی افراد کو بھر دیا ہے۔ اب دوسرے شعبوں میں بھی مقامی افراد کو بھرتی کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے پاکستانیوں کی وطن واپسی میں ہر ماہ اضافہ ہورہا ہے۔‘‘

وسیم صدیقی

اُنھیں صرف شہریت دے دیجیے : طارق اے المعینا

اگلے روز اخبار سعودی گزٹ میں ایک خبر شائع ہوئی تھی۔ یہ سعودی عرب میں پیدا ہونے والے تارکینِ وطن کو درپیش مشکلات اور چیلنجز کے بارے میں تھی۔ یہ تارکینِ وطن محسوس کرتے ہیں کہ ان کا اس ملک سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ ایک تخمینے کے مطابق سعودی مملکت میں گذشتہ عشروں کے دوران میں بیس لاکھ کے لگ بھگ تارکینِ وطن پیدا ہوئے ہیں۔ ان میں سے بہت سے تارکین وطنِ کی دوسری اور تیسری نسل کی اولاد ہیں۔ ان کے والدین بھی یہیں پیدا ہوئے تھے۔
ان میں سے یہاں ایک کی کہانی بیان کی جاتی ہے۔ اس تارک ِوطن کا نام وسیم ہے۔ وہ چالیس سال سے زیادہ عرصے سے اس ملک میں مقیم ہے۔ وہ تین سال کی عمر میں اپنے بڑے بہن بھائیوں اور والدین کے ساتھ یہاں آیا تھا۔ وہ سب یہیں پلے بڑے اور سعودی اسکولوں میں تعلیم حاصل کی۔ انھوں نے تب تعلیم حاصل کی تھی جب کوئی کوئی سیکھنے کے مواقع سے فائدہ اٹھا سکتا تھا۔ آج وسیم جدہ میں ایک ضعیف العمر سعودی خاندان کا کاروبار سنبھالے ہوئے ہے۔

خاندانوں میں بالعموم اول خویش بعد درویش کی سوچ زوال کا آغاز ہوا کرتی ہے اور قوموں میں بھی اگر اس سوچ کو اپنا لیا جائے تو پھر ترقی اور افزودگی کا عمل رُک جاتا ہے اور قوم کی بند گلی کی جانب جانے کی راہ ہموار ہو جاتی ہے۔
وسیم کا اس خاندان کے ساتھ نوجوانی کے زمانے سے دیانت دارانہ تعلق قائم ہے اور اس کا یہ نتیجہ ہے کہ آج وہ ان کے تمام مالی امور کا ذمے دار ہے لیکن اب وسیم کو ایک بڑا اور سنگین مسئلہ درپیش ہے۔ وسیم کے والد نے 35 سال قبل اس کے بڑے بھائیوں اور بہنوں کو سعودی شہریت دلانے کے لیے درخواست دائر کی تھی اور وہ سعودی شہریت کے حصول میں کامیاب ہو گئے تھے لیکن وسیم کی اس وقت عمر کم تھی اور اس کے والد صاحب اس کی در خواست نہیں دے سکے تھے۔

پھر وقت گزرتا گیا اور ان کے والد کا انتقال ہو گیا۔ وسیم کی شہریت کے حصول کے لیے دائر درخواست بھی کھڑکی سے باہر چلی گئی۔ اس وقت شاید اس کے لیے یہ کوئی زیادہ مسئلہ نہیں تھا لیکن عمر ڈھلنے کے بعد جب اس نے اپنے خاندان کے ساتھ الگ سے عملی زندگی کا آغاز کیا تو تب تک اس کی شہریت کے حصول کے لیے درخواست کھوہ کھاتے لگ چکی تھی اور یوں اس کے لیے کئی ایک مسائل پیدا ہو گئے۔ پھر شہریت کے قوانین کو مزید سخت کر دیا گیا ۔ نئی قدغنیں عائد کر دی گئیں اور اس کی سعودی شہریت کے حصول اور یہاں مستقل طور پر بسنے کی خواہش غیر یقینی صورت حال سے دو چار ہو گئی۔

جب اس کے بچوں کی اسکول جانے کی عمر تھی تو پھر ان کا سرکاری اسکولوں میں جانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ آج اس کا ایک بیٹا پاکستانی اسکول سے فارغ التحصیل ہونے والا ہے تو وہ گومگو کی کیفیت سے دوچار ہے کہ وہ اپنے بچے کو کہاں سے اعلیٰ تعلیم دلوائے کیونکہ سعودی جامعات میں غیر ملکیوں کے داخلے پر قدغنیں عاید ہیں۔ وہ اپنے بیٹے کو بیرون ملک حتیٰ کہ پاکستان میں بھی اعلیٰ تعلیم کے لیے نہیں بھیج سکتا کیونکہ اس کا خاندان عشروں پہلے سعودی عرب آگیا تھا اور وہاں ان کے کوئی ایسے عزیز و اقارب نہیں جن کے پاس اس بیٹے کو بھیج سکے۔ دوسرا وہ بچہ سعودی عرب ہی میں پلا بڑا ہے اور پاکستان بھی اس کے لیے ایک اجنبی ملک ہو گا۔ اس کا کلچر اس کے لیے غیر مانوس ہو گا۔

سعودی عرب کے ورثے کو صرف اسی کے خون کے ذریعے محفوظ بنانے کی ذہنیت کو اب تبدیل کرنا ہو گا۔ سعودی عرب میں مقیم بہت سے دوسرے تارک وطن والدین ، مائیں اور باپ وسیم ایسی صورت حال سے دوچار ہیں۔ مغرب کے دور دراز ملکوں سے لے کر ایشیا کے اس آخری کونے تک سے تعلق رکھنے والے ان کے آباء و اجداد عشروں پہلے اس ملک میں اٹھ آئے تھے۔ وہ دولت کے حصول یا تیل کی آمدن کے عروج کے زمانے میں اپنا حصہ اینٹھنے کے لیے یہاں نہیں آئے تھے بلکہ ان میں سے بہت سے تو اس دور سے بھی پہلے یہاں آئے تھے۔ بہت سوں نے تو حجاز مقدس اور بہ الفاظ دیگر الحرمین الشریفین کی سرزمین میں مستقل طور پر رہنے کے لیے دشوار گزار سفر کیا تھا۔

لیکن آج وہ سب ایک مشکل صورت حال سے دوچار ہیں۔ انھیں ایسے فیصلہ کرنا پڑ رہے ہیں جن سے ان کے خاندان تقسیم ہو رہے ہیں۔ وہ یہاں سعودی کی حیثیت رہے، سعودی کی حیثیت سے انھوں نے تعلیم حاصل کی، سعودی کی حیثیت سے کام کیا، سعودی ہی کی حیثیت سے عبادت کی لیکن وہ سعودی نہیں ہیں اور انھیں سعودی کے طور پر قبول ہی نہیں کیا جا رہا ہے۔ ایسے لوگوں کو شہریت کے حصول کے لیے درپیش افسر شاہی کے چیلنجز بھی کوئی حوصلہ افزا نہیں ہیں۔
ستم ظریفی تو یہ ہے کہ ان میں سے بہت سے تارکین وطن تو کسی اور سرزمین کو اپنا وطن بھی قرار نہیں دے سکتے ہیں۔ اگر ان کے خاندان کی ان کی اپنی آبائی سرزمین میں پرورش ہوئی ہوتی تو وہ اس کے کلچر، زبان، خوراک اور ہر چیز سے مطا بقت رکھتے۔ اب جب ان کے بچے بڑے ہو چکے ہیں یا ہو رہے ہیں، انھیں مزید تعلیم یا ملازمتوں کی ضرورت ہے تو ان میں سے بعض بہ جبر و کراہ سعودی عرب سے اپنا بوریا بستر لپیٹنے اور اپنے معاشروں کو لوٹنے کی کوشش کریں گے جبکہ بعض ان مغربی ممالک کا رُخ کریں گے جن کی ثقافتیں ان کے مزاج سے زیادہ مطابقت رکھتی ہوں گی۔

غیر یقینی مستقبل کے شکار تارکین وطن کو شہریت دینے سے سعودی ویژن 2030ء کو تقویت ملے گی۔ نئے تارکین وطن پر بھی سرمایہ کاری کا اطلاق ہو گا
میں حکام کے سامنے یہ سوال رکھ رہا ہوں۔ کیا یہ درست نہیں ہو گا کہ جن لوگوں کو اس طرح کی غیر یقینی صورت حال کا سامنا ہے، ا نھیں مکمل شہریت یا اس کے حقوق دے دیے جائیں؟ اس سے ویژن 2030ء کو بھی تقویت ملے گی کیونکہ نئے تارکین ِوطن پر بھی سرمایہ کاری کا اطلاق ہو گا۔ چہ جائیکہ ترسیل زر کی شکل میں رقوم یہاں سے دوسرے ممالک میں منتقل کردی جائیں۔

ہم اس توانا ٹیلنٹ اور دولت کو اپنی سرزمین میں کیوں نہیں جذب کرتے اور اس کو غیرملکی سرزمین کی جانب جاتے ہوئے کیوں دیکھ رہے ہیں؟ اگر ہم اپنے معاشرے میں تنوع میں اضافہ کرتے ہیں اور اس کو مختلف ثقافتوں سے مزیّن کرتے ہیں تو اس سے سعودی قوم اور ملک ہی کو فائدہ پہنچے گا۔ ہمیں اس ملک کے ورثے کو صرف اسی کے خون کے ذریعے محفوظ بنانے کی ذہنیت کو اب تبدیل کرنا ہو گا۔ خاندانوں میں بالعموم اول خویش بعد درویش کی سوچ زوا ل کا آغاز ہوا کرتی ہے اور قوموں میں بھی اگر اس سوچ کو اپنا لیا جائے تو پھر ترقی اور افزودگی کا عمل رُک جاتا ہے اور قوم کی بند گلی کی جانب جانے کی راہ ہموار ہو جاتی ہے۔

طارق اے المعینا
طارق اے المعینا ،ایک سعودی لکھاری ہیں۔ ان کا یہ کالم پہلے اخبار سعودی گزٹ میں شائع ہوا تھا۔

پاکستانی تارکین وطن کے کرچی کرچی خواب

اچھے اور بہتر مستقبل کے لئے وطن چھوڑ جانے والے افراد پر بیرون ملک کیا گزرتی ہے اور انہیں کن حالات کا سامنا کرنا پڑا ہے ، اس کی عکاسی جرمن نشریاتی ادارے نے اپنی ایک رپورٹ میں کی ہے ۔ اپنے قارئین کی دلچسپی کے لئے ہم اسے ذیل میں شائع کررہے ہیں تاکہ انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے ایجنٹوں سے بچا جاسکے۔ ملاحظہ کیجئے:

بہتر مستقبل کے خواب کی تعبیر، بیت الخلا کی صفائی
جو ہزاروں پاکستانی تارکین وطن اپنے گھروں سے نکلے، ان کی منزل جرمنی و مغربی یورپی ممالک اور خواہش ایک بہتر زندگی کا حصول تھی۔ شاید کسی نے سوچا بھی نہ ہو گا کہ خطرناک پہاڑی اور سمندری راستوں پر زندگی داؤ پر لگانے کے بعد انہیں ایتھنز میں پناہ گزینوں کے ایک کیمپ میں بیت الخلا صاف کرنا پڑیں گے۔

ایجنٹوں کے وعدے اور حقیقت
زیادہ تر پاکستانی صوبہ پنجاب سے آنے والے تارکین وطن کو اچھے مستقبل کے خواب انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے ایجنٹوں نے دکھائے تھے۔ جرمنی تک پہنچانے کے ابتدائی اخراجات پانچ لاکھ فی کس بتائے گئے تھے اور تقریباً ہر کسی سے یہ پوری رقم پیشگی وصول کی گئی تھی۔ جب یہ پاکستانی شہری یونان پہنچے تو مزید سفر کے تمام راستے بند ہو چکے تھے۔ اسی وقت ایجنٹوں کے تمام وعدے جھوٹے اور محض سبز باغ ثابت ہوئے۔

پاکستانیوں سے امتیازی سلوک کی شکایت
شام اور دیگر جنگ زدہ ممالک سے آنے والے تارکین وطن کو بلقان کی ریاستوں سے گزر کر جرمنی اور دیگر مغربی یورپی ممالک جانے کی اجازت ہے۔ یورپی حکومتوں کے خیال میں زیادہ تر پاکستانی شہری صرف اقتصادی وجوہات کی بنا پر ترک وطن کرتے ہیں۔ اسی لیے انہیں یورپ میں پناہ دئیے جانے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں لیکن اکثر پاکستانیوں کو شکایت ہے کہ یونان میں حکام ان سے نامناسب اور امتیازی سلوک روا رکھے ہوئے ہیں۔

کیمپ میں رہنا ہے تو صفائی تم ہی کرو گے!
ایسے درجنوں پاکستانی تارکین وطن کا کہنا ہے کہ یونانی حکام نے مہاجر کیمپوں میں صفائی کا کام صرف انہی کو سونپ رکھا ہے۔ ان سے کہا گیا ہے کہ پاکستانی شہریوں کو بالعموم مہاجر کیمپوں میں رکھنے کی اجازت نہیں ہے تاہم انہیں وہاں عارضی قیام کی اجازت صرف اس شرط پر دی گئی ہے کہ وہاں صفائی کا کام صرف وہی کریں گے۔

پردیس میں تنہائی، مایوسی اور بیماری
سینکڑوں پاکستانی تارکین وطن اپنے یونان سے آگے کے سفر کے بارے میں قطعی مایوس ہو چکے ہیں اور واپس اپنے وطن جانا چاہتے ہیں۔ ان میں سے متعدد مختلف ذہنی اور جسمانی بیماریوں میں بھی مبتلا ہو چکے ہیں۔ ایک یونانی نیوز ویب سائٹ کے مطابق گزشتہ ہفتے دو پاکستانی پناہ گزینوں نے خودکشی کی کوشش بھی کی تھی۔

کم اور نامناسب خوراک کا نتیجہ
یونان میں پناہ کے متلاشی زیادہ تر پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ مہاجر کیمپوں میں انہیں ملنے والی خوراک بہت کم ہوتی ہے اور اس کا معیار بھی ناقص ۔ ایسے کئی تارکین وطن نے بتایا کہ انہیں زندہ رہنے کے لیے روزانہ صرف ایک وقت کا کھانا ہی میسر ہوتا ہے۔ ان حالات میں اکثر افراد ذہنی پریشانیوں کے ساتھ ساتھ جسمانی طور پر لاغر اور بیماریوں کا شکار ہو چکے ہیں۔

وطن واپسی کے لیے بھی طویل انتظار
بہت سے مایوس پاکستانی پناہ گزینوں کے لیے سب سے اذیت ناک مرحلہ یہ ہے کہ وہ اپنے پاس کوئی بھی سفری دستاویزات نہ ہونے کے باعث اب فوراً وطن واپس بھی نہیں جا سکتے۔ ان کے بقول ایتھنز میں پاکستانی سفارت خانے کی جانب سے لازمی جانچ پڑتال کے بعد انہیں عبوری سفری دستاویزات جاری کیے جانے کا عمل انتہائی طویل اور صبر آزما ہے۔

غریب الوطنی میں بچوں کی یاد
پاکستان کے ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والا اکتالیس سالہ سجاد شاہ بھی اب واپس وطن لوٹنا چاہتا ہے۔ تین بچوں کے والد سجاد شاہ کے مطابق اسے اپنے اہل خانہ سے جدا ہوئے کئی مہینے ہو چکے ہیں اور آج اس کے مالی مسائل پہلے سے شدید تر ہیں۔ سجاد کے بقول مہاجر کیمپوں میں کھیلتے بچے دیکھ کر اسے اپنے بچے بہت یاد آتے ہیں اور اسی لیے اب وہ جلد از جلد واپس گھر جانا چاہتا ہے۔

اجتماعی رہائش گاہ محض ایک خیمہ
دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے مہاجرین اور پناہ گزینوں کو یونانی حکام نے پختہ عمارات میں رہائش فراہم کی ہے جبکہ پاکستانیوں کو زیادہ تر عارضی قیام گاہوں کے طور پر زیر استعمال اجتماعی خیموں میں رکھا گیا ہے۔ یہ صورت حال ان کے لیے اس وجہ سے بھی پریشان کن ہے کہ وہ یورپ کی سخت سردیوں کے عادی نہیں ہیں۔

جب انتظار کے علاوہ کچھ نہ کیا جا سکے
یونان میں ان پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ وہ پاکستانی سفارت خانے کو اپنے لیے سفری دستاویزات کے اجراء کی درخواستیں دے چکے ہیں اور کئی مہینے گزر جانے کے بعد بھی اب تک انتظار ہی کر رہے ہیں۔ ایسےہی ایک پاکستانی شہری کے مطابق چند افراد نے بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرین سے بھی اپنی وطن واپسی میں مدد کی درخواست کی لیکن جواب ملا کہ واپسی کے لیے درکار سفری دستاویزات صرف پاکستانی سفارتی مراکز ہی جاری کر سکتے ہیں۔

پناہ نہیں، بس گھر جانے دو
یونان میں بہت سے پاکستانی تارکین وطن نے حکومت سے درخواست کی ہے کہ ان کی جلد از جلد وطن واپسی کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔ ان افراد کا دعویٰ ہے کہ ایتھنز میں پاکستانی سفارت خانہ ’بار بار کے وعدوں کے باوجود کوئی مناسب مدد نہیں کر رہا‘۔ احسان نامی ایک پاکستانی تارک وطن نے جرمن نشریاتی ادارے کو بتایا، ’’نہ ہم واپس جا سکتے ہیں اور نہ آگے، پس پچھتاوا ہے اور یہاں ٹائلٹس کی صفائی کا کام۔‘‘