کیا سپریم کورٹ نواز شریف کو نا اہل قرار دے گی؟

مشترکہ تحقیقاتی ٹیم یعنی JIT نے جو حتمی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کی ہے اُس کے مطابق بظاہر وزیر اعظم نواز شریف کیلئے آپشن انتہائی محدود ہو گئے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ نیب میں اُن کے خلاف مزید تحقیقات کے بعد اُنہیں اور اُن کے اہل خانہ کو نااہل قرار دئے جانے کے علاوہ کوئی اور امکان موجود نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وزیر اعظم نواز شریف اگر نا اہلی سے بچنا چاہتے ہیں تو واحد راستہ یہی ہے کہ وہ وزیر اعظم کے عہدے کے ساتھ ساتھ قومی اسمبلی کی رکنیت سے بھی مستعفی ہو جائیں، کیونکہ ایسا کرنے سے نااہلی کی کارروائی کا کوئی جواز باقی نہیں رہے گا۔

تاہم، معروف قانون داں اور وزیر اعظم نواز شریف کے بچوں کیلئے وکیل سلمان اکرم راجہ نے ’وائس آف امریکہ‘ کے ساتھ خصوصی بات چیت میں بتایا کہ یہ رپورٹ تفتیشی افسروں کی رائے پر مبنی ایک رپورٹ ہے اور اس رپورٹ کی بنیاد پر وزیر اعظم کو نا اہل قرار دینا مشکل ہو گا۔ سپریم کورٹ صرف یہ فیصلہ کر سکتی ہے کہ کیا کسی فوجداری عدلت میں اس پر مقدمہ چلایا جائے یا نہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ ایسی کوئی نظیر موجود نہیں ہے کہ کسی تفتیشی افسر کی رپورٹ پر سپریم کورٹ کوئی فیصلہ دے۔ تاہم، اُنہوں نے کہا کہ اگر سپریم کورٹ یہ طے کر لیتی ہے کہ اس رپورٹ پر ہی اسے فیصلہ کرنا ہے تو اس میں صرف چند ہفتے ہی درکار ہوں گے۔ لیکن، اس بات کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔

سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ JIT رپورٹ میں کوئی نئی بات نہیں ہے اور تفتیشی ٹیم نے معاملہ آگے نہیں بڑھایا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ جب سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے اپنا فیصلہ دیا تھا تو اُس فیصلے میں بھی یہی کہا گیا تھا کہ بہت سی چیزیں مبہم ہیں اور تمام واقعات واضح نہیں ہیں۔ اُس وقت شریف خاندان کی طرف سے عدالت میں یہ کہا گیا تھا کہ چالیس پچاس سال کے عرصے پر پھیلے ہوئے کاروبار کا تمام تر ریکارڈ پیش کرنا ممکن نہیں ہے اور اس رپورٹ میں بھی کچھ ایسی ہی صورت حال دکھائی دیتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اُس وقت پانچ میں سے تین جج صاحبان کا کہنا تھا کہ پیش کردہ ریکارڈ کی بنیاد پر کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہو سکتا۔ اگر اُس وقت پیش کی گئی تفصیلات میں اب بھی کوئی اضافہ نہیں کیا گیا ہے تو صرف یہی امکان باقی رہ جاتا ہے کہ مزید تفتیش کیلئے یہ معاملہ کسی اور عدالت میں بھیجا جائے اور یہ عدالت فوجداری ٹرائل کورٹ ہی ہو سکتی ہے۔

اُنہوں نے کہا کہ اس رپورٹ پر بہت سے اعتراضات سامنے آئیں گے۔ اس کیس کے حوالے سے سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار پر بھی سوال اُٹھائے جائیں گے۔ تاہم، اگر سپریم کورٹ نے فیصلہ کیا کہ اسے فوجداری عدالت میں بھیجا جائے تو فوجداری عدالت اپنا وقت لے گی۔ ممتاز قانون دان عاصمہ جہانگیر نے بھی میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ تفتیشی ٹیم شروع ہی سے متنازعہ رہی ہے اور اس کی رپورٹ کی بنیاد پر سپریم کورٹ کیلئے کسی فیصلے پر پہنچنا مشکل ہو گا۔ تاہم، سپریم کورٹ مزید تفتیش کیلئے یہ مقدمہ فوجداری عدلت میں بھیج سکتی ہے۔

رپورٹ میں البتہ واضح طور پر کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم اور اُن کے خاندان نے جن اثاثوں کی تفصیل پیش کی ہے اُن کے مطابق، شریف خاندان کی آمدنی اور اُن کے انداز زندگی اور اخراجات میں بہت زیادہ فرق پایا جاتا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُنہوں نے اپنے تمام تر اثاثے ظاہر نہیں کئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق، شریف خاندان کی مزید ’آف شور کمپنیوں‘ کی نشاندہی کی گئی ہے، جن میں متعدد دوسرے کمپنیوں کے علاوہ سعودی عرب میں قائم ہل میٹلز اسٹیبلشمنٹ اور برطانیہ میں قائم فلیگ شپ انویسٹ منٹ لمیٹڈ اور متحدہ امارات میں قائم کمپنی کیپٹل FZE شامل ہیں۔ ان کمپنیوں کے شدید نقصان میں ہونے کے باوجود ان کے ذریعے قرض اور تحائف پر مبنی خطیر رقوم کی ترسیل نواز شریف اور اُن کے بیٹے حسین کو کی گئیں تھیں۔

تفتیشی ٹیم کا کہنا ہے کہ ان کمپنیوں کو ’اسموک سکرین‘ کے طور پر استعمال کرتے ہوئے لین دین کو مخفی رکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ تفتیشی ٹیم میں شامل ایف آئی اے نے سیکورٹیز اینڈ ایکس چینج کمشن آف پاکستان کے چیئرمین ظفر حجازی پر یہ الزام بھی عائد کیا ہے کہ اُنہوں نے اپنے ماتحت عملے پر دباؤ ڈالتے ہوئے، حقائق کو وزیر اعظم نواز شریف کے حق میں تبدیل کر دیا اور یوں انصاف کی راہ میں حائل ہوئے۔ سپریم کورٹ کے حکم پر اُن کے خلاف ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے۔ سپریم کورٹ بینچ نے جنگ نیوز پیپر گروپ کو توہین عدالت کا مرتکب قرار دیتے ہوئے نوٹس بھیجا ہے۔

وزیر اعظم نواز شریف کی صاحب زادی نے حکومت کی جانب سے مشترکہ تفتیشی ٹیم کی اس رپورٹ کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔ اس کے فوراً بعد نواز شریف حکومت کے چار سینئر وزراء نے ایک پریس کانفرنس میں رپورٹ کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ ’’یہ رپورٹ عمران خان کے ایجنڈے کو پورا کرنے کیلئے تیار کی گئی ہے‘‘۔ بیشتر قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس رپورٹ کے نتیجے میں دونوں فریقین یعنی مدعا علیہ اور استغاثہ کے دلائل اور جوابی دلائل سنے بغیر سپریم کورٹ اس بارے میں کوئی فیصلہ جاری نہیں کرے گی۔

اب دیکھنا یہی ہے کہ جسٹس شیخ عظمت سعید، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس اعجاز افضل پر مشتمل سپریم کورٹ کا بینچ جس نے پانچ رکنی بینچ میں اکثریتی فیصلہ دیا تھا جس کے ذریعے وزیر اعظم نواز شریف اور اُن کے خاندان کو رقوم کی ترسیل ثابت کرنے کا ایک موقع فراہم کیا تھا، پیر کے روز سماعت کرتے ہوئے اس مشترکہ تفتیشی کمیٹی کی رپورٹ کے حوالے سے کیا لائحہ عمل طے کرتا ہے۔

شبّیر جیلانی
وائس آف امریکہ

جے آئی ٹی کی رپورٹ آ گئی، اب آگے کیا ہو گا ؟

سپریم کورٹ کے احکامات پر پاناما لیکس کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے جو اپنی حتمی رپورٹ پیر کو جمع کروائی ہے اس میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم پاکستان نواز شریف اور ان کے بچوں کے بیانات اور تحقیقات سے جو بات سامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ ان کے طرزِ زندگی اور معلوم آمدن میں بہت فرق ہے۔ اس رپورٹ کے بعد پاکستان میں اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے وزیراعظم سے فوراً مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے جبکہ حکومتی وزرا نے اس رپورٹ کو ردی کا ٹکڑا قرار دیا ہے۔

سپریم کورٹ اب اس معاملے کی سماعت 17 جولائی کو کرے گی اور عدالت نے فریقین سے کہا ہے کہ وہ اس سماعت پر نئے دلائل پیش کریں اور پہلے سے کہی گئی باتیں نہ دہرائی جائیں۔ اس معاملے پر بی بی سی اردو کے ریڈیو پروگرام سیربین میں بات کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس ریٹائرڈ طارق محمود نے کہا کہ اب جبکہ جے آئی ٹی کی رپورٹ آ چکی ہے تو اگلے مرحلے میں جس فریق کے بھی اس پر اعتراضات ہوں گے وہ انھیں تحریری شکل میں سپریم کورٹ میں داخل کرا دے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ اعتراضات داخل کروانے کی صورت میں ان پر بحث کی جائے گی اور انھی اعتراضات کی روشنی میں معاملے کو سنا جائے گا۔

انھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے دس جولائی کو یہ آبزرویشن دی ہے کہ فریقین کے وکلا دلائل کو دہرائیں نہیں بلکہ جے آئی ٹی کی رپورٹ کی روشنی میں اس پر بحث کریں۔ یہ بحث سننے کے بعد عدالت اس پر کوئی مناسب آرڈر دے سکتی ہے۔
مقامی میڈیا کے مطابق پاکستان مسلم لیگ کے وکلا اگلے چند دنوں میں جے آئی ٹی کی رپورٹ پر اپنے مفصل اعتراضات سپریم کورٹ میں داخل کروائیں گے۔
اس سوال کے جواب میں کہ اس عمل کے مکمل ہونے اور عدالت کا فیصلہ آنے میں کتنا وقت لگ سکتا ہے تو جسٹس ریٹائرڈ طارق محمود نے کہا کہ یہ کہنا فی الوقت مشکل ہے۔

انھوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ اگر ایک وکیل کسی ایک نکتے پر بےربط باتیں کر رہا ہے تو اس صورت میں تو اس روکا جا سکتا ہے لیکن اگر وہ بھاری بھرکم دلائل دے رہا تو پھر اسے روکنا مشکل ہو سکتا ہے۔ جسٹس ریٹائرڈ طارق محمود کا کہنا تھا ’اگر کوئی فریق یہ کہتا ہے کہ ہمارے ساتھ نا انصافی ہوئی ہے یا یہ یکطرفہ باتیں ہوئی ہیں تو اس صورت میں عدالت اس کے لیے مزید راستہ نکال سکتی ہے کیونکہ عدالت کے پاس اس کا اختیار ہے اور وہ اس بات کی پابند ہے کہ کسی کے ساتھ نا انصافی نہ ہو۔‘ ’اس لیے اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا یہ مختصر بھی ہو سکتا ہے اور طویل بھی اور یہ بھی ممکن ہے کہ عدالت ساری باتیں سننے کے بعد یہ کہے کہ ہم اس معاملے کو نیب میں بھیج دیتے ہیں۔‘

بشکریہ بی بی سی اردو

وزیر اعظم صاحب : کوئی معجزہ ہی آپ کو بچا سکتا ہے

وزیراعظم نواز شریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے وزیراعظم کو مشورے دیے اور کہا ہے کہ جو ہو رہا ہے اور جو کچھ ہونے جا رہا ہے کوئی معجزہ ہی آپ کو بچا سکتا ہے۔ اعلیٰ سطح ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ وزیر داخلہ کابینہ اجلاس میں کھل کر بولے، گلے شکوے بھی کیے، پارٹی کے ساتھ ماضی کے تعلقات کا اظہار بھی کیا اور وزیراعظم کو مشورے بھی دیے ،انھوں نے کہا کہ 1985 سے آپ کے ساتھ کھڑا ہوں، پارٹی کے ساتھ ہمیشہ وفاداری نبھائی ہے ، لیکن اب کچھ عرصے سے مشاورت کا عمل محدود کر دیا گیا ہے، جونیئر لوگوں کو آگے لایا گیا مجھے کسی مشاورتی عمل میں شامل نہیں کیا گیا۔

چوہدری نثار نے واضح کیاکہ جو کچھ ہو رہا ہے، خوشامدی مشیروں نے صورتحال کو اس مقام پر پہنچایا ہے، سارے معاملے کو مس ہینڈل کیا گیا ہے، سیاسی اور لیگل ٹیم اس معاملے سے اچھی طرح نہیں نمٹ سکی ہے، جو کچھ ہو رہا ہے اس میں کوئی معجزہ ہی آپ کو بچا سکتا ہے۔ میں تو صرف آپ کے لیے دعاگو ہوں۔ ذرائع نے بتایا کہ چوہدری نثار نے کچھ تاخیر سے پہنچنے کے بعد وزیرداخلہ نے چہرے پر مسلسل خفگی طاری کیے رکھی، انھوں نے صرف وزیراعظم سے سلام دعا کی اور کسی رکن سے بات نہیں کی۔

وزیراعظم کے خطاب کے بعد جب وزیرداخلہ کے بولنے کی باری آئی تو انھوں نے کھل کر اظہار کیا اور دل کی بھڑاس نکالی، بولے اداروں کے ساتھ تصادم نہیں ہونا چاہیے اور کوئی بہتر راستہ نکالنا چاہیے۔ انھوں نے اشاروں کنایوں سے یہ تاثر دیا کہ موجودہ صورتحال میں ان کا کوئی ہاتھ نہیں، جس کا بعض حکومتی لوگوں کی جانب سے اظہار کیا جا رہا ہے۔ چوہدری نثار نے کہا کہ ان حالات میں جو تقریریں ہوئی ہیں وہ نہیں ہونی چاہیئں تھیں، ذرائع کے مطابق وزیرداخلہ نے حالیہ اور ماضی کے کئی اہم واقعات کا بھی ذکر کیا، کہا کہ ایک بار انھوں نے وزیراعظم سے وزیرداخلہ بننے کی خواہش کی تھی، اس کے علاوہ انھوں نے وزیراعظم سے کوئی مطالبہ نہیں کیا ہے۔

ذرائع کے مطابق وزیر داخلہ نے طویل خطاب کیا، وزیراعظم نواز شریف نے چوہدری نثار سے کہا کہ ’’ اگر آپ کو کوئی تحفظات تھے تو بہتر ہوتا مجھ سے علیحدگی میں بات کر لیتے، اس فورم پر بات کرنے کے بجائے الگ سے بات کرنا زیادہ بہتر ہوتا،‘‘ اس کے بعد وزیرداخلہ اپنی نشست سے اٹھے اور اجلاس ختم ہونے سے پہلے ہی نکل گئے اور کہا کہ ’’ موجودہ صورتحال میں آپ کے لیے دعاگو ہیں۔‘‘

کیا شریف حکومت آج 1997 کی غلطی دوبارہ دہرائے گی ؟

بیٹے سے سخت تحقیقات کے بعد اب وزیر اعظم خود اس جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوں گے جو شریف خاندان کے بیرون ملک اثاثہ جات کی منی ٹریل کی تحقیقات میں مصروف ہے۔ اس ملک میں یہ ایک غیر معمولی موقع ہو گا کہ جب ملک کا سب سے بڑا رہنما تحقیقات کے لیے خود کو پیش کرے گا، البتہ یہ کسی کو نہیں معلوم کہ ان غیر معمولی تحقیقات کا نتیجہ کیا نکلے گا۔ جو باتیں شکوک شبہات کو پختہ کرتی ہیں، ان میں چند سرکاری محکموں کی جانب سے دستاویزات سے چھیڑ چھاڑ کے الزامات اور تحقیقات کو متنازع بنانے کی ایک منظم مہم شامل ہیں۔ حکمران جماعت کے ممبران کے اشتعال انگیز بیانات، تحقیقاتی کمیٹی کے ممبران اور تحقیقات کے نگران جج صاحبان کو ڈرانے دھمکانے کی حکمت عملی کا حصہ لگتے ہیں۔

جہاں سینیٹر نہال ہاشمی کی منی ٹریل کے تحقیق کاروں کو وارننگ اس قدر اشتعال انگیز اور واضح تھی کہ جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، وہاں عدلیہ کو ہدف بنانے والی مسلم لیگ ن کے دیگر رہنماؤں کی مسلسل دھواں دھار تقاریر کسی خطرے سے کم نہیں لگتیں۔ ایسے تبصروں پر جج صاحبان کے شدید غصے کا اندازہ جسٹس عظمت سعید کے اس ریمارکس سے لگایا جا سکتا ہے : “ایسا تو دہشتگرد اور مافیا کرتے ہیں۔” انہوں نے حکومت کو ’سیسیلیئن مافیا’ سے تشبیہہ بھی دی۔ کسی قسم کے سیاسی رد عمل سے بچنے کے لیے، پارٹی نے سینیٹر کو پارٹی سے نکال دیا، لیکن عدلیہ کو ہدف بنانے والے دیگر ممبران کو روکنے کی ابھی کسی قسم کی کوئی کوشش نہیں کی جا رہی ہے۔

ہم بھلے ہی اس نہج پر نہ پہنچے ہوں، مگر مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کا اشتعال انگیز لہجہ ہمیں 1997 میں نواز شریف کے دوسرے دورِ حکومت کے دوران سپریم کورٹ پر دھاوا بول دینے والا واقعہ یاد دلاتا ہے۔ دلچسپ طور پر، یہ واقعہ اس وقت پیش آیا تھا جب سپریم کورٹ نے اسی وزیر اعظم کو توہین عدالت کے ایک مقدمے میں پیشی کا حکم دیا تھا۔ اس معاملے نے اس وقت کے چیف جسٹس اور نئی منتخب وفاقی حکومت کے درمیان محاذ کھول دیا۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں کورٹ نمبر ایک کے باہر مرحوم اردشیر کاوسجی کے ساتھ باتیں کر رہا تھا تب ہی کابینہ کے چند وزراء کی سربراہی میں ایک مشتعل ہجوم سیکیورٹی حصار توڑتے ہوئے ہال میں داخل ہوا۔ سینئر جج صاحبان خود کو بچانے کے لیے ادھر سے ادھر بھاگنے لگے، وہ ہولناک منظر میں کبھی نہیں بھول سکتا۔

مشن پورا ہوا، رہنماؤں نے عمارت سے باہر نکلنے سے قبل فاتحانہ تقریر کی۔ اپنے رہنما کی مبینہ ذلت پر پارٹی وفاداروں کا شیدید غصہ یقینی طور پر خود بخود نہیں پیدا نہیں ہوا تھا، بلکہ یہ اعلٰی قیادت کے اکسانے پر پیدا کیا گیا تھا۔ بلاشبہ اس کا مقصد عدلیہ کی آزادی ختم کرنا تھا۔ بات یہیں پر ہی ختم نہیں ہوئی؛ اس کے بعد شریف حکومت نے سپریم کورٹ کے جج صاحبان کو منقسم کرتے ہوئے ایک سرگرم عمل چیف جسٹس کو ہٹانے کا منصوبہ بنایا۔ یہ ایک الگ طویل اور غلیظ کہانی ہے۔ سب سے زیادہ بدحواس کر دینے والی بات تو عدلیہ کے چند سینئر ممبران کی ہے جنہوں نے اعلٰی عدالت کے تقدس کو پامال کرنے والے اس حیران کن واقعے کو دفن کرنے میں اپنا کردار ادا کیا۔

عدالت پر دھاوا بولنے کا یہ واقعہ نواز شریف کی دوسری حکومت کے غرور کا نتیجہ تھا جو بھاری اکثیرت کے ساتھ اقتدار میں آئی تھی۔ صوبائی سطح پر پارٹی کنٹرول نے پارٹی کی سیاسی گرفت مزید مستحکم کر دی تھی۔ ایک کمزور اپوزیشن کے لیے اس دیو قامت طاقت سے مزاحمت کرنا بہت ہی مشکل تھا۔ سپریم کورٹ پر حملے نے انتظامیہ کی طاقت پر عدلیہ کے تمام ضابطوں کو ختم کر دیا یوں نواز شریف، بااختیار ’امیر المومنین’ بننے کے اپنے مقصد کے بہت قریب پہنچ گئے۔ تاہم 1999 کی فوجی بغاوت نے ان کے اس خواب کو حقیقت ہونے نہیں دیا۔

بلاشبہ، 1997 کا قصہ دہرانا نواز شریف کی تیسری حکومت کے لیے آسان نہیں ہو گا، لیکن حکمران جماعت کے ممبران کی جانب سے جاری ڈرانے اور دھمکانے کی اس مہم کو 1997 میں عدالت پر دھاوا بولنے کے واقعے سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ مقصد اب بھی وہی ہے: عدالت کو ملک کے سب سے طاقتور حکمران خاندان کے خلاف جاری قانونی کارروائی کو روکنا۔ شریف حکومت کی ‘سیسیلیئن مافیا’ سے تعبیر کی بات بھلے ہی حد سے زیادہ تنقیدی محسوس ہوئی ہو مگر حکومت کے ہنگامہ خیز طریقے بہت شرم ناک ہیں۔

بلاشبہ، جے آئی ٹی کی تشکیل کے حوالے سے چند اعتراض، خاص طور پر عسکری انٹیلیجنس اداروں کی شمولیت، جائز مانے جاسکتے ہیں مگر اسے تحقیقات میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے ایک بہانے کے طور پر ہر گز استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔ چند اپوزیشن پارٹیاں، خاص طور پر پی ٹی آئی، بھی جے آئی ٹی کو متنازع بنانے اور سپریم کورٹ پر دباؤ ڈالنے میں اپنا حصہ ڈال چکی ہیں۔ عدالت کے باہر سرکس لگا کر حکمران اور اپوزیشن ممبران کا ایک دوسرے کو گالیاں دینے کا عمل انتہائی شرم ناک ہے۔ اس جاری سیاسی محاذ آرائی اور چند حکومتی محکموں کے مبینہ عدم تعاون نے تحقیقات کاروں کے کام انتہائی مشکل بنا دیا ہے۔
بلاشبہ، پاناما گیٹ اسکینڈل کے حوالے سے اس انتہائی غیر معمولی تحقیقات کو ایسی تمام رکاوٹوں سے متاثر ہونے سے بچانے کا ذمہ اعلٰی عدالت کا ہے۔ یقیناً، ہر کسی کو مطمئن کرنا آسان نہیں۔ لیکن اس ملک میں ایک منصفانہ اور غیر جانبدارانہ تحقیقات یقیناً احتساب کے عمل کو تقویت بخشیں گی۔

یہ بات شاید سچ ہو کہ پاناما پیپرز اسکینڈل نے معاملات کو سب کے سامنے کھول کر پیش کر دیا ہے، لیکن شریف خاندان پر لندن میں مہنگی جائیدادوں کی خریداری کے الزامات نئے نہیں ہیں۔ پہلی بار ایسا معاملہ قریب دو دہائیوں پہلے ایک ایف آئی اے کی تحقیقاتی رپورٹ میں سامنے آیا جس میں مے فیئر اپارٹمنٹس کی ملکیت کے بارے میں تفصیلات فراہم کی گئی تھیں۔ پرویز مشرف کی فوجی حکومت میں قید کے دوران اسحاق ڈار نے مبینہ طور پر پیسوں کی منتقلی کے بارے میں اہم معلومات فراہم کی تھیں۔ اگرچہ وزیر خزانہ کے دعویٰ کے مطابق وہ بیان زبردستی دلوایا گیا تھا، مگر اب بھی معاملے کی تہہ تک تحقیقات کی جانے ضرورت ہے۔ سچ سامنے لانے کا واحد طریقہ اس اسکینڈل کی غیر جانبدار تحقیقات ہے، جس کے باعث پورے سیاسی نظام پر عوام کا اعتماد داؤ پر لگا ہوا ہے۔

بلاشبہ جے آئی ٹی ایک بہترین انتخاب نہیں ہے، مگر اقتدار میں بیٹھے افراد کے خلاف کارروائی کرنے میں ہماری تحقیقاتی ایجنسیوں کی نااہلی کے پیش نظر اعلٰی عدالت کے پاس اس کے سوا اور کوئی چارہ بھی نہیں بچا تھا۔ وزیر اعظم کے جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے سے ملک میں جمہوری عمل کمزور نہیں بلکہ مضبوط ہو گا۔ ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ جمعرات کو جب وزیر اعظم جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوں گے تب حکمران جماعت کس طرح کا رد عمل پیش کرے گی۔
مسلم لیگ ن کے حد سے زیادہ جوشیلے رہنماؤں اور حامیوں کو ماضی میں سپریم کورٹ پر دھاوا بولنے کے واقعے سے سبق حاصل کرنا چاہیے اور تحقیقات میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے اس قسم کے کسی ہتھکنڈے کو استعمال کرنے سے خود کو باز رکھنا ہو گا۔

زاہد حسین
یہ مضمون 14 جون 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔