نواز شریف، شیر سے کبوتر تک : وسعت اللہ خان

میاں جب جب باز بننے سے باز نہ آئے تب تب بازی چھنتی چلی گئی۔ چنانچہ اس بار انھوں نے جہاندیدہ لیگیوں کی درخواست پر اقبال کا شاہین احتیاطاً دوبئی میں چھوڑا اور مینارِ پاکستان کے سائے میں بازو پر کبوتر بٹھا لیا۔ یہ احتیاط بھی ملحوظ رکھی کہ کبوتر لقا نہ ہو کہ جس کی دم پنکھ کی طرح پھیلی اور گردن اکڑی ہوئی ہوتی ہے۔ بلکہ سادہ سا غٹرغوں ٹائپ باجرہ کھانے والا کبوتر ہو (باجرے کو براہِ کرم باجرہ ہی پڑھا جائے)۔ اس قدر پھونک پھونک کے تیاری کی گئی کہ اس بار جلسے میں نہ تو کوئی پنجرہ بند شیر نظر آیا اور نہ ہی یہ نعرہ لگا کہ ’دیکھو دیکھو کون آیا شیر آیا آیا‘۔ مبادا و خدانخواستہ کوئی یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ اگر میاں شیر ہے تو پھر ہم کون ہیں؟ میاں صاحب نے ابتدا میں ہی شکیل بدایونی کے دو الگ الگ مصرعہِ ثانی جوڑ کے ایک نیا شعر اسمبل کیا اور ادب سے نابلد اسٹیبلشمنٹ کی توجہ چاہی۔

کہاں سے چھیڑوں فسانہ کہاں تمام کروں
زرا نظر تو ملے پھر انہیں سلام کروں
مگر اسی غزل کا یہ سالم شعر احتیاطاً نہیں پڑھا

انہی کے ظلم کا شکوہ کروں زمانے سے
انہی کے حق میں دعائیں میں صبح و شام کروں

ان کی تقریر سے پہلے برادرِ خورد شہباز شریف نے ’امیدِ پاکستان، معمارِ پاکستان اور عظیم مدبر‘ کو مخاطب کر کے اشارہ دے دیا تھا کہ بڑے بھیا کے خطاب کی روح کیا ہو گی۔ انھیں اچھی طرح سمجھا دیا گیا تھا کہ آپ اب ماشااللہ تہتر برس کے ہیں۔ آپ کی صحت بھی پہلے جیسی نہیں۔ آپ کو شاید ایک بار اور بھاری ذمہ داریاں اٹھانا پڑ جائیں۔ لہذا ’ہر ادارہ اپنے اپنے آئینی دائرے میں رہ کر کام کرے‘ یا ’اپنے حلف کی پاسداری کرے‘ یا ’جمہوریت کو بار بار پٹڑی سے اتارنے والوں کا احتساب ہونا چاہیے‘ یا ’ووٹ کو عزت دو‘ جیسے گھاتک جملے ہرگز زبان پر نہیں آنے چاہییں۔ بس پولی پولی باتیں کرنی ہیں۔ مثلاً ’ہم سب کو ساتھ لے کے چلنا چاہتے ہیں‘، ’کسی سے انتقام نہیں لینا چاہتے‘، ’معیشت کو مل کے دلدل سے نکالیں گے‘، ’مہنگائی ختم کریں گے‘، ’ہمسائیوں سے تعلقات اچھے کرنے کی کوشش کریں گے‘، ’فلسطین اور کشمیر کے بارے میں اصولی موقف سے پیچھے نہیں ہٹیں گے‘، ’ہم زندہ قوم ہیں نیز نو مئی دوبارہ نہیں ہونے دیں گے‘ وغیرہ وغیرہ۔

گمان ہے کہ میاں صاحب کو لندن میں تین تصاویر بھی دکھائی گئی ہوں گی۔ عمران خان، ڈاکٹر عارف علوی اور انوار الحق کاکڑ کی۔ اور پھر فیصلہ میاں صاحب پر چھوڑ دیا گیا ہو گا۔ انھیں بریف کیا گیا ہو گا کہ یہ وہ پاکستان نہیں جو انھوں نے چار برس پہلے چھوڑا تھا۔ آپ کے تو صرف پلیٹلیٹس بدلے گئے۔ پاکستان کی تو پلیٹیں بدل دی گئیں۔ آپ تو خوش قسمت ہیں کہ آپ کو عدالت نے سزا سنائی اور عدالت نے ہی آپ کی گرفتاری کا حکم جاری کیا اور عدالت نے ہی آپ کو علاج کے لیے باہر بھیجا اور انھی عدالتوں نے آپ کو مجرم قرار دینے کے باوجود آپ کو عارضی ضمانت بھی دی تاکہ آپ بلا خوف و تردد سٹیج پر جلوہ افروز ہوں۔ انھیں ہیتھرو ایئرپورٹ پر بتایا گیا ہو گا کہ آپ سے مرتضیٰ بھٹو والا سلوک نہیں ہو گا کہ جو بے نظیر کی وزراتِ عظمی کے دوران تین نومبر انیس سو ترانوے کو کراچی ایئرپورٹ پر اترے تو دہشت گردی کے متعدد مقدمات میں اشتہاری مجرم قرار دیے جانے کے سبب انھیں سیدھا لانڈھی جیل پہنچا دیا گیا اور ان کی والدہ ایئرپورٹ پر ٹاپتی رہ گئیں۔

نہ ہی اس بار آپ اس حالت سے گزریں گے جب آپ کی اہلیہ لندن میں موت و زیست کی کش مکش میں تھیں مگر آپ اور آپ کی صاحبزادی جب چودہ جولائی دو ہزار اٹھارہ کو لاہور ایئرپورٹ پر اترے تو آپ دونوں کو مطلوب ملزم کے طور پر حراست میں لے کے اسلام آباد پہنچا دیا گیا۔ حتیٰ کہ آپ کے برادرِ خورد بھی ٹریفک سگنل پر مسلسل لال بتی کے سبب آپ کے استقبال کے لیے ایئرپورٹ نہ پہنچ سکے۔ میاں صاحب کو بتایا گیا ہو گا کہ فضا اگر آپ کے حق میں عارضی طور پر بدلی ہوئی لگ رہی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ پچھلا زمانہ بھی جوں کا توں لوٹ آئے گا۔ آج کے پاکستان میں آئین کے ورقوں کو پھاڑ کے جہاز بنا کے اڑانا ایک معمول ہے، عدالت ضرور ہے مگر ترازو ہوا میں جھول رہا ہے، گرفتاری اور ایف آئی آر ایک لگژری ہے۔ رات کو انسان سوتا ہے تو صبح بستر خالی ہوتا ہے۔ گھر والے بھی نہیں جانتے کہ بندہ چالیس روزہ چلے پر گیا ہے، شمالی علاقہ جات میں دوستوں کے ساتھ عیاشی کر رہا ہے یا کسی غار میں بیٹھا سوچ رہا ہے کہ مجھے یہاں سے اسلام آباد پریس کلب جانا ہے کہ کسی ٹی وی اینکر کو فون کرنا ہے یا کسی جہانگیر ترین کے گھر کی گھنٹی بجانی ہے۔

ہو سکتا ہے طیارے کی لینڈنگ سے پہلے میاں صاحب سے یہ ’قسم بھی چکوائی گئی ہو‘ کہ جلسے میں اقبال کے کسی ایسے شعر کا حوالہ نہیں دینا جس میں شاہین اڑ رہا ہو۔ حبیب جالب آج کے بعد آپ کے لیے شجرِ ممنوعہ ہے۔ زیادہ سے زیادہ آپ پروین شاکر پڑھ سکتے ہیں یا طبیعت بہت ہی مچلے تو غالب سے کام چلانا ہے۔ چنانچہ میاں صاحب نے اپنے تاریخی خطاب کا اختتام اس شعر پر کیا۔
غالب ہمیں نہ چھیڑ کہ پھر جوشِ اشک سے
بیٹھے ہیں ہم تہیہِ طوفاں کیے ہوئے
جس طرح چھ برس پہلے میاں نواز شریف کے خلاف کرپشن کیسز نمٹانے کے لیے ثاقب نثار نے نیب عدالتوں پر ایک نگراں جج مقرر کیا تھا، لگتا ہے واپس آنے والے میاں نواز شریف پر شہباز شریف کو نگراں مقرر کیا گیا ہے۔ تاکہ جب بھی بڑے میاں صاحب عالمِ جذب میں جانے لگیں تو ان کے کان میں برادرِ خورد سرگوشی کر دیں کہ بے شک انسان فانی ہے۔ جولیس سیزر کا کوئی چھوٹا بھائی نہیں تھا۔ لہذا اسے ایک مصاحب کی ڈیوٹی لگانا پڑی تھی کہ جب بھی میں دورانِ خطابت جوش میں آ کے بڑک بازی میں مبتلا ہوں تو تمھیں میرے کان میں بس یہ کہنا ہے ’سیزر تو لافانی نہیں ہے‘۔

میاں صاحب نے جلسے کے اختتام پر قوم کی خیر کے لیے اجتماعی دعا کروائی۔ ہماری بھی دعا ہے کہ اگر میاں صاحب کو چوتھی بار موقع ملے تو پہلے کی طرح اپنا دماغ لڑا کے دل سے فیصلے کرنے کے بجائے خود کو اس بار نگراں وزیرِ اعظم ہی سمجھیں تاکہ کوئی ایک مدت تو پوری ہو سکے کم از کم۔

وسعت اللہ خان

بشکریہ بی بی سی اردو

آٹے کا تھیلا اور ماہ رمضان

رمضان المبارک کا مقدس مہینہ اپنی تمام تر رحمتوں اور برکتوں کے ساتھ شروع ہے۔ مسلمان روزے رکھ رہے ہیں لیکن کھانے پینے کی اشیاء بہت ہی مہنگی ہو رہی ہیں، معیشت بیٹھ نہیں رہی بلکہ بیٹھ چکی ہے، ملازمتیں اور روزگار نہیں مل رہا، جیبیں خالی ہیں۔ مہنگائی کی دوسری بڑی وجہ مسلمان تاجر ہیں جو ان روزوں کا اجر اسی دنیا میں وصول کر رہے ہیں۔ روزہ داروں کو تو ثواب جب ملے گا، سو ملے گا لیکن جو لوگ کاروبار کرتے ہیں، انھوں نے ماہ رمضان کو بھی کاروبار بنا دیا ہے اور مال کی صورت ثواب لوٹ رہے ہیں، ایسا ہر سال ہوتا ہے، اس سال تو بہت ہو رہا ہے لیکن حکمرانوں کو اپنی پڑی ہوئی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہمارے یہ نام نہاد بڑے لوگ یک نکاتی ایجنڈے متفق ہو جاتے اور اپنی سیاست کو عید کے بعد تک اٹھا رکھتے اور جو فضول خرچی یہ اپنے جلسوں جلوسوں میں کر رہے ہیں، اسی رقم سے وہ روزہ داروں کی پیاس بجھاتے جس سے عوام میں ان کی پذیرائی بھی ہوتی اور وہ ثواب بھی کما لیتے ہیں لیکن ان بڑے لوگوں کو اجر و ثواب سے کیا غرض، ان کا اجر تو صرف اقتدار حاصل کرنا ہے۔ عوام کی حالت ناگفتہ بہہ ہے جس کی کسی کو کوئی پروا نہیں ہے۔

حکومت نے گو کہ رمضان میں کم وسیلہ گھرانوں کے لیے آٹے کے تین تھیلے مفت فراہم کرنے کا اعلان کیا اور پھر اس پر عملدرآمد بھی شروع کر دیا لیکن ابھی تک کی اطلاعات کے مطابق مفت آٹا فراہمی کی یہ اسکیم بدنظمی کا شکار ہے اور عوام کی ستم ظریفی کا یہ عالم ہے کہ بھوک مٹانے کے لیے آٹے کے حصول میں کئی مردو زن اپنی زندگی سے ہی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ہمارے وزیر اعظم جن کی انتظامی صلاحیتوں کا ایک زمانہ معترف ہے وہ عوام کو آٹے کی فراہمی کو رواں اور سہل بنانے کے لیے پنجاب بھر کے دورے کر رہے ہیں جب کہ ہمارے دوست نگراں وزیر اعلیٰ محسن نقوی اور وزیر اطلاعات عامر میر بھی اپنی مقدور بھر کوششوں سے اس کار خیر میں حصہ ڈال رہے ہیں لیکن بات بن نہیں پا رہی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت آٹے کی براہ راست فراہمی کے بجائے ان کم وسیلہ گھرانوں کو جو پہلے ہی حکومت کے امدادی پروگرام بینظیر انکم سپورٹ میں رجسٹرڈ ہیں ان کو براہ راست رقم ہی مہیا کر دیتی تو لوگ خود سے ہی آٹے کی خریداری کر لیتے لیکن نہ جانے حکومتوں کے وہ کون سے عقلمند مشیر ہوتے ہیں جو عوام کی سہولت کو بھی زحمت میں بدل کر حکومت کی نیک نیتی کو بدنامی میں بدل دیتے ہیں۔

آٹے کے دس کلو تھیلے کے حصول کے لیے ٹیلی ویژن پر جو مناظر دیکھے جارہے ہیں، اس کو دیکھ کر لگتا ہے کہ حکومت اس مفت آٹے کو عوام تک پہنچانے کا درست بندوبست نہیں کر پا رہی ہے۔ کوشش یقینا ہو رہی ہے لیکن وہ صلاحیت نہیں دکھائی دے رہی جوایسے کسی انتظام کے لیے ضروری ہوتی ہے۔ ادھر ہمارے عوام کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہو چکا ہے اور وہ ان دیکھے معاشی خطرات کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ جنس ذخیرہ کرنے کی جد جہد میں مصروف نظر آتے ہیں۔ کراچی میں ایک صاحب حیثیت شخص نے عوام کو سستا فروٹ اور سبزی فراہم کرنے کے لیے اسٹال لگایا جہاں پر ہر چیز دس روپے کلو فراہمی کا بندوبست کیا گیا لیکن ہوا یہ کہ اس سستے انتظام پر عوام نے ہلہ بول دیا اور اس اسٹال سے ہر چیز اٹھا کر لے گئے۔ کوئی کرے تو کیا کرے اور بے صبرے عوام کو کیسے سمجھائے کہ یہ سب کچھ انھی کے لیے کیا جا رہا ہے لیکن بات وہیں پر آکر ٹھہرتی ہے کہ بے کس اور مجبور عوام اپنے مستقبل سے مایوس ہیں اور یہ مایوسی اب اپنی حدوں کو پار کر چکی ہے اسی لیے اس طرح کے واقعات دیکھنے میں آرہے ہیں۔

پاکستان میں معاشی ابتری کی وجہ سے بے یقینی کی کیفیت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اس معاشی تنگدستی نے عام آدمی کی قوت خرید انتہائی کم کر دی ہے اور اس بار پہلی دفعہ ماہ رمضان میں عوام بہت زیادہ متاثر نظر آتے ہیں۔ عموماً رمضان المبارک میں مخیر حضرات بہت زیادہ صدقہ و خیرات کے علاوہ زکوۃ تقسیم کرتے ہیں لیکن چونکہ اب مستحقین کی تعداد میں حیرت ناک طور پر اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے اس لیے یہ زکوۃ بھی کم پڑتی نظر آتی ہے۔ رمضان کا پہلا عشرہ جاری ہے حکومت ابھی بھی متعلقہ محکموں کو فعال کر کے عوام کو مارکیٹ میں روز مرہ زندگی کی ضروری اجناس کی ارزاں نرخوں پرفراہمی کو یقینی بنا سکتی ہے اور آٹے کے ایک مفت تھیلے کے حصول کے لیے جس طرح دربدر ہو کر عوام اپنی جانیں گنوا رہے ہیں ان دلخراش مناظر سے بچا جا سکتا ہے۔ بات صرف نیک نیتی اور انتظامی صلاحیتوں کی ہے میاں شہباز شریف انتظامی صلاحیتوں سے مالامال ہیں لیکن اپنے سیاسی اتحادیوں میں گھر کر اپنی انتظامی صلاحیتوں کے ابھی تک وہ جوہر نہیں دکھا سکے جس کے لیے ان کے شہرت ہے۔ رمضان المبارک میں کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرانا اجر و ثواب کا افضل درجہ ہے اور میاں صاحب کواس ثواب سے محروم نہیں ہو نا چاہیے بے کس اور مجبور عوام کی دعائیں لینی چاہئیں۔

اطہر قادر حسن  

بشکریہ ایکسپریس نیوز

سری لنکا : زندگی اور موت کی کشمکش

سری لنکا کے دیوالیہ ہونے کے خدشات بہت پہلے سے نمایاں ہونا شروع ہو گئے تھے تاہم برسرِاقتدار پاکسے خاندان نے بروقت ہنگامی اقدامات نہ کیے جس کے باعث سری لنکن حکومت کو بالآخر دیوالیہ ہونے کا اعلان کرنا پڑا۔ فی الحقیقت بنگلہ دیش کے سوا جنوبی ایشیا کے تقریباً تمام ممالک دیوالیہ ہونے کے خطرات سے دوچار ہیں۔ نیپال نے بروقت ہنگامی اقدامات کر کے خطے کے دوسرے ملکوں کے لیے مثال قائم کی ہے جس کے بعد پاکستان نے بھی ہنگامی اقدامات کیے جن میں تعیشاتِ زندگی کی درآمد پر پابندی اور دیگر اقدامات شامل ہیں۔ دیوالیہ ہونے سے متاثرہ ملک کا پورا سماجی و معاشی ڈھانچہ متاثر ہوتا ہے جیسا کہ سری لنکا میں لوگ غذائی قلت اور ضروریات زندگی کے فقدان کے سبب زندگی اور موت کی کشمکش سے دوچار ہیں۔

سری لنکن صدر نے حال ہی میں ہنگامی معاشی کابینہ تشکیل دی ہے جس میں نو ارکان شامل ہیں جب کہ معیشت کی اہم ترین وزارت کا قلم دان نومنتخب وزیراعظم رانیل وکرما سنگھے نے اپنے پاس رکھا ہے۔ سری لنکا سیاحت پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے مگر کورونا کے باعث سیاحتی سرگرمیوں کا حجم سکڑ گیا تو زرمبادلہ کے ذخائر بھی کم ہوئے جس کے باعث ایندھن اور ادویات کی بھی شدید قلت پیدا ہو گئی ہے اور ملک میں معاشی سرگرمیاں سست روی کا شکار ہیں۔ نیپال بھی سیاحت پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے مگر مناسب وقت پر درست اقدامات پربتوں کے اس دیس کو دیوالیہ ہونے سے بچا نے میں مددگار ثابت ہوں گے۔ پاکستان بھی اس وقت ایسے ہی حالات سے دوچار ہے‘ حکومت ہنگامی اقدامات کر کے حالات کی بہتری کی کوشش کر رہی ہے‘ بلاشبہ یہ وقت سیاست کا نہیں بلکہ پوری قوم کے ملکی بقا کی جدوجہد پر متفق ہونے کا ہے تاکہ وطنِ عزیز میں سری لنکا کی طرح کے حالات پیدا نہ ہوں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ

خواجہ آصف کو قومی اسمبلی کی رکنیت سے نااہل قرار دے دیا گیا

اسلام آباد ہائی کورٹ نے وزیر خارجہ اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ آصف کو قومی اسمبلی کی رکنیت سے نااہل قرار دے دیا۔ جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس عامر فاروق پر مشتمل اسلام آباد ہائی کورٹ کے تین رکنی لارجر بینچ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما عثمان ڈار کی درخواست پر فریقین کے دلائل سننے کے بعد 10 اپریل کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا کہ خواجہ آصف نے 2013 میں قومی اسمبلی کی نشست این اے 110 پر پونے والے انتخابات کے لیے اہل نہیں ہیں، کیونکہ انہوں نے آئین کے ارٹیکل 62 (ون) (ویف) کے تحت مقرر کردہ شرائط پر پورا نہیں اترتے، اسی لیے انہیں نااہل قرار دیا جاتا ہے۔
عدالتِ عالیہ نے رجسٹرار کو خواجہ آصف کی نااہلی کے فیصلے کی کاپی الیکشن کمیشن کو ارسال کرنے کا بھی حکم دے دیا۔

فیصلے میں کہا گیا کہ عدالت کو منتحب نمائندوں کو نااہل کرنے کے لیے عدالتی اختیارات کا استعمال کرنا اچھا نہیں لگتا، سیاسی قوتوں کو اپنے تنازعات سیاسی فورم پر ہی حل کرنے چاہئیں۔ عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ سیاسی معاملات عدالتوں میں آنے سے دیگر سائیلین کا وقت ضائع ہوتا ہے۔ تحریک انصاف کے رہنما عثمان ڈار کی جانب سے خواجہ آصف کو آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت نااہل قرار دینے کے لیے دائر کی گئی درخواست دائر کی گئی تھی۔ پی ٹی آئی رہنما کی درخواست میں الزام عائد گیا تھا کہ وفاقی وزیر خارجہ نے متحدہ عرب امارات کی کمپنی میں ملازمت کے معاہدے اور اس سے حاصل ہونے والی تنخواہ کی تفصیلات 2013 کے انتخابات سے قبل ظاہر نہیں کیں اس لیے وہ قومی اسمبلی کی رکنیت کے مستحق نہیں۔

درخواست گزار کا موقف تھا کہ خواجہ آصف نے اپنے نامزدگی فارم میں اپنے تمام اثاثے ظاہر نہیں کیے اور غلط بیانی کی، خواجہ آصف صادق اور امین نہیں رہے اس لیے انہیں نااہل قرار دیا جائے۔ پی ٹی آئی رہنما عثمان ڈار کی درخواست پر پہلے جسٹس عامر فاروق کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی، تاہم بعد میں جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کی طرف سے معذرت کے بعد نیا بینچ تشکیل دیا گیا۔ جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں نئے بینچ نے روزانہ کی بنیاد پر کیس کی سماعت کرتے ہوئے دلائل مکمل ہونے اور دستاویزات کا جائزہ لینے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔

عدالت نے فریقین کو حکم دیا کہ مزید کوئی دستاویز پیش کرنی ہے تو تحریری درخواست کے ساتھ جمع کرائی جا سکتی ہے، جس کے بعد خواجہ آصف نے دبئی کی کمپنی کا خط پیش کیا۔ خط میں خواجہ آصف کی ملازمت کی تصدیق کی گئی اور بتایا گیا کہ کمپنی کی طرف سے ان پر دبئی میں موجودگی کی شرط عائد نہیں کی گئی، جب بھی ضرورت ہو تو فون پر خواجہ آصف سے قانونی رائے حاصل کر لی جاتی ہے۔ سماعت کے دوران پی ٹی آئی کے رہنما عثمان ڈار عدالت میں پیش ہوئے جبکہ ان کے ہمراہ دیگر مقامی رہنما بھی موجود تھے۔ دوسری جانب خواجہ آصف سمیت حکمراں جماعت کے کوئی بھی رہنما عدالت میں موجود نہیں تھا۔

بشکریہ روزنامہ ڈآن اردو

نواز شریف سیاست چھوڑ کر خود ساختہ جلاوطنی اختیار کر سکتے ہیں

برطانوی جریدے نے دعویٰ کیا ہے کہ نواز شریف سیاست چھوڑ کر خود ساختہ جلا وطنی اختیار کر سکتے ہیں، سعودی عرب میں تمام معاملات طے پا سکتے ہیں، سابق وزیر اعظم پر دباؤ ڈال کر شہباز شریف کو جاں نشین بنانے کا اعلان کرایا گیا۔ پل پل بدلتی سیاسی صورتحال پر بھی تبصرے جاری ہیں، لیگی قیادت سعودی عرب میں موجود ہے، اپوزیشن جماعتوں نے بھی اے پی سی بلا کر فیصلے کر لیے۔ جگہ جگہ نئے این آر او کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ کیا واقعی کوئی تبدیلی آنے والی ہے؟؟

برطانوی اخبار دی ٹائمز نے دعویٰ کیا ہے کہ حکمران جماعت کے سربراہ نواز شریف سیاست چھوڑ کر خود ساختہ جلاوطنی اختیار کر سکتے ہیں۔ اس حوالے سے سعودی عرب میں معاملات طے پانے کا امکان ہے۔ برطانوی اخبار کے مطابق نواز شریف نے سیاست چھوڑنے کی حامی بھر لی ہے۔ سابق وزیر اعظم نے دباؤ پر مریم نواز کے بجائے شہباز شریف کو اپنا جانشین بھی نامزد کیا۔ برطانوی اخبار نے دعویٰ کیا کہ خود ساختہ جلا وطنی پر نواز شریف کیلئے مقدمات سے چھٹکارا بھی ممکن ہے۔

اقتدار یا ملک ، کس کو بچانا ضروری ہے ؟

پاکستان کو سپورٹ کرنے والے کئی بین الاقوامی مالیاتی اداروں نے آئندہ کے لئے کسی بھی نئے قرضہ کی فراہمی کے لئے امریکی اشارے پر اپنے دانت تیز کرنے شروع کر دیئے ہیں تاکہ اگلے سال کی پہلی سہ ماہی میں اگر پاکستان کو ایک بار پھر IMF کے پاس کسی نئے قرضہ ( جس کی مالیت 5ارب ڈالر تک ہو سکتی ہے ) کے لئے جانا پڑے تو وہ اپنی پرانی مگر کچھ سختی کے ساتھ نئی شرائط منوانے پر زور دے سکتا ہے۔ اس وقت پاکستان میں جیسے سیاسی ایشوز پر سیاسی قائدین اور جماعتیں آپس میں تقسیم ہیں اور ہر جماعت اپنی اپنی بولی بول رہی ہے کسی کو جمہوریت سے پیار ہے اور کوئی الیکشن جلد کرانے کی جدوجہد میں ہے یہی صورتحال احتساب کے عمل کی ہے اس پر بھی ہر کوئی جماعت اپنی ہی پالیسی کا اظہار کر رہی ہے عین اس طرح ہمارے اقتصادی ماہرین کی اکثریت بھی IMF سے کسی نئے قرضہ کے حق اور مخالفت میں رائے دے رہے ہیں.

یہ بات اس حد تک تو ٹھیک ہے کہ ہمارا ملک قرضوں کے بڑھتے ہوئے بوجھ کو اپنی موجودہ اقتصادی صورتحال کے پس منظر میں ختم نہیں کر سکتا بلکہ بعض ماہرین تو اس خدشے کا اظہار بھی کر رہے ہیں کہ اگر ملکی و غیر ملکی قرضوں کا بوجھ جو اب تک 75 ارب ڈالر بتایا جا رہا ہے خدانخواستہ 80 ارب یا 90 ارب ڈالر کی حد کراس کر گیا تو پھر پاکستان کی خودمختاری، سلامتی اور ہمارے قومی اثاثوں کی حفاظت کے حوالے سے بین الاقوامی سطح پر کئی نئے مسائل کو جنم دے سکتا ہے، اللہ نہ کرے ایسے حالات پیدا ہوں لیکن اگر ملک میں زراعت اور صنعت کا شعبہ حکمرانوں اور ممبران پارلیمنٹ کے ریڈار پر نہیں آئے گا اور FBR اپنے ٹیکسوں کے نظام کو وسیع کرنے کے لئے جامع اصلاحات کر کے ٹیکس نیٹ کو ممبران پارلیمنٹ سے لیکر جاگیرداروں، وڈیروں اور بڑے بڑے کاروباری اداروں اور شخصیات سے ان کی پوری آمدنی پر پورا ٹیکس وصول نہیں کرے گا اس وقت تک بجلی چوری کی طرح ٹیکس چوری بھی بڑھتی رہے گی اور دونوں طرف صنعت و زراعت پر توجہ نہ دینے کی وجہ سے ہماری برآمدات میں اضافے کی کوئی حکمت عملی کامیاب نہیں ہو سکے گی ۔

اس وقت صرف پاور سیکٹر میں اصلاحات کے بڑے حکومتی دعوے سامنے آ رہے ہیں مگر بجلی کی قیمت سے جو صنعتی و تجارتی شعبہ کی لاگت بڑھتی جا رہی ہے اس پر حکمرانوں کے پاس کوئی جواب نہیں ہے اس سلسلہ میں بہتر یہ ہے کہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی فوری طور پر صنعت ، تجارت، ٹیکسیشن اور دیگر ماہرین کی ایک خود مختار ٹاسک فورس بنائیں جو ہر ماہ میں کم از کم ایک بار پاکستان کے حقیقی اقتصادی مسائل سے آگاہ کرے اور اس کی روشنی میں وزیراعظم ہر سہ ماہی میں مالی سال کے بجٹ کو ریویو کریں اس سلسلہ میں فیڈریشن کے نمائندوں کی مشاورت سے بڑی اچھی ٹاسک فورس بن سکتی ہے جس کے لئے فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز کے کرتا دھرتا افتخار علی ملک اور موجودہ صدر زبیر طفیل سمیت مختلف شخصیات سے مشاورت کر کے پاکستان کو بڑھتے ہوئے اقتصادی بحران سے نکالنے کا کام شروع کرنے کی ضرورت ہے ۔

ورنہ پاکستان میں روایتی اقتصادی پالیسیوں کے ذریعے ایڈہاک ازم کے ذریعے سیاسی نعرے لگائے جاتے رہیں گے۔ ابھی مسلم لیگ (ن) کی حکومت یہ نعرے لگا رہی ہے کل اور پارٹی و بنی گالہ یا بلاول ہائوس والے یہی کام کر سکتے ہیں اب تو کچھ اشارے ایسے بھی ملنے شروع ہو گئے ہیں کہ کسی ایک حد پر خاص جگہ پر پیپلز پارٹی کے لئے بھی ’’سافٹ کارنر‘‘ بنایا جا رہا ہے۔  بہرحال اس وقت حالات کا تقاضا ہے کہ سیاست سے ہٹ کر معیشت پر فوکس بڑھایا جائے۔ معیشت اگر ٹھیک ہو گی تو سیاست اور سیاسی کاروبار سب کچھ چلے گا اس سلسلہ میں وزیراعظم عباسی اگر چاہیں تو بہت کچھ کر سکتے ہیں کیونکہ وہ کارپوریٹ سیکٹر میں ایک کامیاب بزنس مین بھی ہیں انہیں معاشی فرنٹ پر قومی مقاصد کی زیادہ سمجھ بوجھ ہے لیکن اگر وہ کسی سے ”HONEST” ایڈوائس لیں گے تو پھر ہی بات بن سکتی ہے ورنہ خطرات اور خدشات کا سلسلہ بڑھتا رہے گا پھر اقتدار بچانے سے زیادہ ملک بچانے کی فکر لاحق ہو سکتی ہے۔

سکندر حمید لودھی

کیا کھیل ختم ہو گیا ہے؟

موجودہ حکومت کے قبل از وقت ختم ہونے کے حوالے سے اگرچہ کچھ عرصے سے افواہوں کی چکی بہت تیز چلتی آرہی ہے، یہ پلاٹ اب کافی پیچیدہ ہو چکا ہے اور اس کی وجہ سے اقتدار کے ایسے سویلین کھلاڑیوں میں تشویش پیدا ہو گئی ہے جو پہلے ایسی رپورٹس پر ہنس دیا کرتے تھے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر، میجر جنرل آصف غفور نے اگرچہ ہفتے کی پریس کانفرنس میں کسی غیر آئینی اقدام کی افواہوں کو مسترد کر دیا ہے لیکن وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے دو روز قبل اس یاد دہانی کا کوئی موقع ضائع نہیں کیا کہ پاکستان کو درپیش مسائل کا حل ٹیکنوکریٹ حکومت نہیں ہے۔ وہ ایک ہفتے میں تین مرتبہ یہ کہہ چکے ہیں۔

وزیراعظم جیسے عہدے کے حامل شخص کی طرف سے ایسی بات ہونا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ صورتحال معمول کے مطابق نہیں ہے۔ پردے کے پیچھے جو کھیل جاری ہے اس سے کچھ اشارے ملتے ہیں کہ معاملات کس طرح ہو رہے ہیں۔ وزیر اعظم کا جمہوریت پر لیکچر شروع ہونے سے کچھ قبل ایک ہائی پروفائل اجلاس منعقد ہوا تھا۔ یہ اسٹیبلشمنٹ کے ایک بااثر رکن اور سویلین سیٹ کے ایک اہم عہدے دار کے مابین ہوا تھا۔ سویلین کو بتایا گیا تھا کہ کھیل ختم ہو چکا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے بااثر رکن نے وضاحت کی کہ اتنی زیادہ گڑبڑ کے ساتھ حکومت جاری نہیں رہ سکتی۔ موجودہ سیٹ اپ کے خلاف معاشی اعداد و شمار چارج شیٹ میں سب سے اوپر ہیں۔ قومی خزانے کا خالی ہونا تشویش کی وجہ بتایا گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ اسٹیبلشمنٹ کا آنے والا منصوبہ ہے۔

کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی جانب سے قادیانی کمیونٹی کے خلاف کی جانے والی تلخ تنقید پر ناپسندیدگی بھی پہنچائی گئی جس میں مخصوص افراد کو ہدف بنانے کی نیت کار فرما تھی۔ پارلیمنٹ کی جانب سے فوج اور عدلیہ کو بھی قومی احتساب بیورو کے تحت لانے کو بھی متعلقہ حلقوں کی جانب سے تحسین کی نظر سے نہیں دیکھا گیا۔ مزید یہ بھی بتایا گیا کہ عدلیہ کے خلاف بے رحمانہ مہم اور اسے اسٹیبلشمنٹ سے جوڑنے کی کوشش کہ یہ نواز شریف کو نکالنے کے لئے کی گئی تھی، اس پر بھی ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا۔ اسی طرح قانون میں ترمیم کے ذریعے نااہل وزیراعظم کو پارٹی سربراہ کے طور پر واپس لانے کو بھی پسند نہیں کیا گیا۔

اسٹیبلشمنٹ کی بااثر شخصیت نے حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس حکومت کی ساکھ کیا ہو گی جسے عدالت سے ایک نااہل شخص ریمورٹ کنٹرول سے چلا رہا ہو۔ قبل ازیں قومی اسمبلی میں الیکشن بل 2017 کی منظوری کو وقت سے پہلے روکنے کی کوشش کی گئی، یہ بات الگ سے معلوم ہوئی ہے۔ سرکاری پارٹی کے ارکان کو پرائیوٹ نمبرز سے کالیں موصول ہوئیں جن میں ان پر زور دیا گیا کہ وہ اس قانون کی منظوری کا حصہ بننے سے باز رہیں، اس کوشش کو اعلی سیاسی سطح پر رابطوں کے ذریعے ناکام بنایا گیا۔ اپنے والد کی سیاسی وارث کے طور پر مریم نواز کے ابھرنے کے حوالے سے اسٹیبلشمنٹ کی بااثر شخصیت اور سویلین عہدے دار کے مابین ملاقات میں سوال اٹھایا گیا۔

اتفاق کی بات ہے کہ اس منصوبے پر مسلم لیگ ن کی بھاری بھرکم شخصیات نے بھی ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے اور ان کی شکایت ہے کہ خاندان سے باہر کے پارٹی ممبران کی تو بات ہی الگ ہے، نواز شریف تو پارٹی کے اندر اتفاق رائے پائے جانے کے باوجود اپنے بھائی کو اپنا جانشین بنانے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ موجودہ سیٹ اپ کو گھر بھیجنے کے منصوبے پر غور ہو رہا ہے، یہ کس طرح ہو گا؟ کسی کے پاس بھی مکمل تصویر نہیں ہے۔ اس سازش کے محرم راز حکام سے پس پردہ تبادلہ خیال سے ظاہر ہوتا ہے کہ براہ راست مداخلت کے آپشن کو ترجیح دینے پر غور نہیں کیا جا رہا۔ آرمی چیف کسی غیرآئینی قدم کے حق میں نہیں ہیں، یہ وہ نکتہ ہے جس کی توثیق ڈی جی، آئی ایس پی آر نے ہفتے کے روز پریس کانفرنس میں کی، جب انہوں نے کہا کہ جو کچھ بھی ہو گا وہ آئین کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے ہو گا۔

اس کے بجائے اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ عدلیہ ثالثی کا کردار ادا کرے۔ تبدیلی کے لئے دو ممکنہ منصوبے زیر غور ہیں۔ ایک، حکمران جماعت میں فارورڈ بلا ک کی تشکیل اور دوسرا، اسلام آباد کی جانب مارچ۔ پہلا منصوبہ اسی وقت روبہ عمل آسکتا ہے کہ جب عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے کے لئے حکمران جماعت میں سے کافی تعداد میں انحراف کرنے والے دستیاب ہوں۔ ایک کامیاب کوشش سے آخرکار نئے انتخابات کا مطالبہ پھوٹ سکتا ہے لیکن احتساب کے بعد، جس سے پارلیمنٹ کی منظوری سے قومی اتفاق رائے پر مبنی حکومت کی راہ ہموار ہو جائے گی۔ یہ منصوبہ کس قدر قابل عمل ہے اس کا کوئی بھی اندازہ لگا سکتا ہے۔

اگرچہ سرکاری ارکان پارلیمنٹ نے پارٹی سربراہ کے بارے میں قانون میں ترمیم پر رائے شماری سے روکنے کی کوشش کو ناکام بنا دیا لیکن حکمران جماعت کے لئے جو اشارے باہر آرہے ہیں وہ حوصلہ افزا نہیں ہیں۔ چار منحرفین کو مختلف محاذوں پر اپنا راستہ بنانے کا کام تفویض کیا گیا تھا اور ان کی کوششوں کے نتائج پیدا ہوئے ہیں۔ انہوں نے اسکور کو 50 تک لانے کا دعوی کیا ہے۔ کون اس گروپ کی قیادت کرے گا، اسے ابھی طے نہیں کیا گیا ہے۔ دوسرا منصوبہ جس پر غور کیا جا رہا ہے وہ ایک سیاسی جماعت کے ذریعے اسلام آباد پر چڑھائی کا ہے جیسا کہ 2014 میں ہوا تھا یا جس طرح 2016 میں محاصرے کی کال کے ذریعے کوشش کی گئی تھی۔ کوئی بھی ایشو احتجاج کا نکتہ بن سکتا ہے۔ شریف خاندان کی جانب سے احتساب عدالت میں شریف خاندان کے مبینہ تاخیری حربے، پولیس اور وکلا میں ہاتھا پائی یا اگلی سماعت پر کوئی بھی مہم جوئی بہانہ فراہم کر سکتی ہے۔
انصاف کی فراہمی میں رکاوٹیں پیدا کرنے کی کوشش کے طور پر عدلیہ پر تنقید بھی ایک وجہ بن سکتی ہے اور یہ مطالبہ ہو سکتا ہے کہ ن لیگ کی موجودہ حکومت کی موجودگی میں احتساب ممکن نہیں ہے۔

اس مطالبے کو مزید آگے بڑھانے کے لئے کوئی درخواست دائر کر سکتا ہے، جس میں عدالت سے استدعا کی جائے گی کہ دفعہ 190 کو لاگو کیا جائے جس کے تحت تمام ایگزیکٹو اور جوڈیشل حکام سپریم کورٹ کی معاونت کریں۔ لیکن یہ سوال اپنی جگہ برقرار ہے کہ کس طرح ٹیکنوکریٹ سیٹ اپ یا قومی اتفاق رائے سے بننے والی حکومت ان آپشنز کو استعمال کرکے قائم کی جائے گی۔ اس کا جواب اس منصوبے کے معمار کے پاس ہے۔ اس وقت آئین کے بجائے کنفیوژن بالاتر ہے۔ دی نیوز کو قابل بھروسہ ذرائع سے پتہ چلا ہے، مشرق وسطی کے دو ممالک نے نئے سیٹ اپ کے قیام کی صورت میں بیل آؤٹ پیکج پیش کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ آدمی یہی نتیجہ نکال سکتا ہے کہ ممکنہ تبدیلی کا منصوبہ نہ صرف اندرونی بلکہ بیرونی جہات بھی رکھتا ہے۔

نواز شریف کی جانب سے یمن کے لئے فوجی دستوں کی فراہمی سے انکار کو ابھی تک بھلایا نہیں گیا ہے۔ یہ اتفاقی مطابقت ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ اچانک بہتر تعلقات سے ہوئی ہے۔ افغان صدر پاکستان آر ہے ہیں جبکہ ’’را‘‘ اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہان کی لندن میں ملاقات اس عزم پر ختم ہوئی ہے کہ نفرت سے گریز جائے۔ کیا خطے میں تاریخی موقعے کو گرفت میں لینے کےلئے اسٹیج تیار کیا جا رہا ہے؟ پاکستان کو لوڈ شیڈنگ فری قرار دے کر سی پیک کے صلے کا آئندہ ماہ اعلان کیا جا رہا ہے۔ کیا پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت کے پاس اتنا وقت ہے کہ وہ اس کا سہرا اپنے سر باندھ سکے؟ آنے والا وقت دلچسپ ہے۔

عمر چیمہ

بشکریہ روزنامہ جنگ

آصف زرداری اور نواز شریف کا مک مکا ؟

سابق صدر آصف علی زرداری سے پوچھا کہ کیا آپ نے مسلم لیگ (ن) کی جنرل کونسل کے اجلاس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی تقریر سنی؟ زرداری صاحب نے بغیر کسی توقف کے کہا کہ اب میں نواز شریف کی کوئی بات نہیں سنتا اور موضوع بدلتے ہوئے بتانے لگے کہ قبائلی علاقے کے اراکین قومی اسمبلی سے ملاقات بڑی اچھی رہی۔ وہ سید خورشید احمد شاہ کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔ میں نے دوبارہ انہیں نواز شریف کی تقریر کی طرف متوجہ کیا اور کہا کہ انہوں نے آپ کا ذکر خیر کیا آپ کی صدارت کی مدت ختم ہونے پر وزیراعظم ہائوس میں منعقد کئے گئے الوداعی ظہرانے کا ذکر کیا اور گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کا ذکر کیا۔

میری باتیں سن کر آصف زرداری صاحب کا لہجہ کچھ تلخ ہو گیا۔ کہنے لگے تمہیں تو سب پتا ہے کچھ واقعات کے تم عینی شاہد ہو۔ میں باربار نواز شریف سے دھوکہ نہیں کھا سکتا، باربار زخم نہیں کھا سکتا اور پھر انہو ں نے پچھلے چار سال کے دوران پیپلزپارٹی کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں سے متعلق شکوے شکایتوں کا ڈھیر لگا دیا۔ آصف زرداری کہہ رہے تھے کہ ہم وفاق کی سیاست پر یقین رکھتے ہیں۔ جب وفاقی حکومت سندھ کے ساتھ زیادتی کرتی ہے تو ہم دبے لفظوں میں چوں چراں کر دیتے ہیں۔ گلا پھاڑ کر چیخ و پکار نہیں کرتے کیونکہ ہمیں خدشہ ہوتا ہے کہ کہیں ہم پر صوبائی تعصب پھیلانے کا الزام نہ لگ جائے لیکن نواز شریف کو کھلی چھٹی ہے۔ وہ روز سانحہ مشرقی پاکستان کا نام لے کر قوم کو ایک نئے سانحے سے ڈراتا ہے اور میرے پاس پیغام بھیجتا ہے کہ آئو سویلین اتھارٹی کے لئے متحدہ محاذ بنائیں لیکن اس مرتبہ میں دھوکہ نہیں کھائوں گا۔

نواز شریف ہمیشہ پیپلزپارٹی کے ساتھ ہاتھ ملا کر اپنی سیاسی پوزیشن مضبوط بناتا ہے اور پھر خاموشی سے کسی اور کے ساتھ ڈیل کر لیتا ہے۔ آج نواز شریف کو اسلام آباد کی احتساب عدالت کے باہر رینجرز کے آنے پر بڑا اعتراض ہے۔ جب ہم چیختے تھے کہ سندھ میں رینجرز ہمارے ساتھ زیادتی کرتی ہے تو نواز شریف کا وزیر داخلہ سینے پر ہاتھ مار کر کہتا تھا کہ میں رینجرز کے پیچھے کھڑا ہوں۔ آج اسحاق ڈار بڑا مظلوم بن رہا ہے جب وزیراعلیٰ سندھ کہتا تھا کہ ڈار صاحب سندھ کے فنڈز کم نہ کرو۔ سندھ کو اس کا حق دو تو وہ سنی ان سنی کردیتا تھا۔ ہمارے ساتھ جو کچھ بھی ہوا وہ نواز شریف کے وزیروں نے نواز شریف کی مرضی سے کیا اس لئے نواز شریف کو گرینڈ ڈائیلاگ کرنا ہے تو چوہدری نثار کے ساتھ کریں ہمارے ساتھ نہیں۔ آصف زرداری صاحب کی باتیں سن کر میں ان انتہائی باخبر لوگوں کے متعلق سوچنے لگا جن کا دعویٰ ہے کہ نواز شریف او ر آصف زرداری اندر سے ایک ہیں اور ایسے ہی دعوئوں کی بنیاد پر تحریک ِ انصاف نے قومی اسمبلی میں پیپلزپارٹی کے اپوزیشن لیڈر سید خورشید احمد شاہ کو ہٹانے کے لئے متحدہ قومی موومنٹ سے ہاتھ ملا لیا۔ جب سیاسی اور قومی فیصلے غلط اطلاعات اور غلط اندازوں کی بنیاد پر کئے جائیں تو نتائج بھی غلط نکلتے ہیں۔

نواز شریف اور ان کے مشیروں کا خیال ہے انہیں پیپلزپارٹی کی اتنی ضرورت نہیں جتنی پیپلزپارٹی کو مسلم لیگ (ن) کی ضرورت ہے۔ نواز شریف نااہلی کے باوجود پیپلزپارٹی کو ایسے شاہانہ انداز میں ڈائیلاگ کی دعوت دے رہے ہیں جیسے پیپلزپارٹی پر کوئی احسان کر رہے ہوں۔ پیپلزپارٹی اپنی غلطیوں کے باعث پنجاب میں شدید بحران کا شکار ہے۔ پنجاب میں پیپلزپارٹی کا کارکن اپنی پارٹی کی بجائے تحریک ِ انصاف کو ووٹ ڈالنے لگا ہے اور اس موقع پر پیپلزپارٹی نواز شریف سے ہاتھ ملا لے تو پنجاب میں اس کا مکمل صفایا ہو سکتا ہے۔ سویلین بالادستی کے لئے سیاسی جماعتوں کومشترکہ حکمت ِ عملی ضرو ر اختیار کرنی چاہئے لیکن یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ جب سیاسی قیادت اپنی غلطیوں کا اعتراف کرے گی۔

یہ تو ممکن نہیں کہ نواز شریف کے خلاف اسلام آباد میں دھرنا ہو تو پیپلزپارٹی جمہوریت کے ساتھ کھڑی ہوجائے دھرنا ناکام ہو جائے تو وفاقی حکومت پیپلز پارٹی کے رہنمائوں کی گرفتاریاں شروع کر دے۔ ان کے نام ای سی ایل پر ڈال دے اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت پیپلزپارٹی کو کرپشن کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کے مقدمات میں بھی پھنسا دے پھر جب نواز شریف پر دوبارہ مشکل وقت آئے تو پیپلزپارٹی سے توقع کی جائے کہ وہ جمہوریت کے نام پر دوبارہ نواز شریف کے ساتھ کھڑی ہو جائے۔ آصف علی زرداری ابھی نہیں بھولے کہ 2015 میں ان کی ایک تقریر پر تنازع کھڑا ہوا تو اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے ان کے ساتھ پہلے سے طے شدہ ایک ملاقات ہی منسوخ کر ڈالی تھی حالانکہ زرداری صاحب نے بھی سیاستدانوں پر جھوٹے الزامات لگانے والوں کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی بات کی تھی۔

مسلم لیگ (ن) نے نا صرف آصف زرداری کے ساتھ نواز شریف کی ملاقات منسوخ کرائی بلکہ زرداری پر اداروں کے خلاف جھوٹے الزامات لگانے کے بیانات بھی دیئے۔ آج کل پیپلزپارٹی کے کئی رہنما مسلم لیگ (ن) پر اداروں کے ساتھ محاذ آرائی کا الزام لگا رہے ہیں۔ نواز شریف پر احتساب عدالتو ں میں مقدما ت چل رہے ہیں اور وہ اپنی تقریروں میں ان مقدمات کا مذاق اڑا رہے ہیں لیکن ان کا گرینڈ ڈائیلاگ اس وقت تک آگے نہیں بڑھے گا جب تک وہ اپنی حالیہ غلطیوں پر معذرت نہیں کرتے۔ تحریک ِ انصاف ابھی تک بضد ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی نے آپس میں کوئی خفیہ مک مکا کر رکھا ہے لیکن بہت جلد تحریک ِ انصاف کو پتا چلے گا کہ اس کی سیاسی حکمت ِ عملی غلط اندازے پر مبنی تھی اور اس کے غلط نتائج نکلیں گے۔ اپوزیشن کے اختلافات کافائدہ صرف اور صرف حکومت کو ملے گا۔

آخر میں یہ عرض کرنا ہے کہ زرداری صاحب کو نواز شریف پر اعتماد نہیں اور نواز شریف کے خیال میں عمران خان بڑے مفاد پرست ہیں۔ سیاستدانوں نے ایک دوسرے پر گرد اڑا کر اپنا ہی نقصان کیا ہے لیکن اس کا مطلب یہ قطعاً نہیں کہ ریاستی اداروں میں موجود کچھ لوگ حب الوطنی کے نام پر قانون کو مذاق بنا دیں۔ 2 اکتوبر کو اسلام آباد کی احتساب عدالت میں رینجرز نے جو طرز ِ عمل اختیار کیا وہ ناقابل قبول ہے۔ رینجرز کو بتانا ہو گا کہ وہ کس کے حکم پر احتساب عدالت میں گئی؟ کچھ وفاقی وزرا اس معاملے کو دبانے کے چکر میں ہیں اور شنید ہے کہ انہیں نواز شریف کی تائید حاصل ہے۔ ان وزرا کا رویہ آصف علی زرداری کے اس موقف کی تصدیق کرتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) سویلین بالادستی کا نام تو لیتی ہے لیکن کام نہیں کرتی۔ خاموشی سے ڈیل کر لیتی ہے۔ رینجرز کا معاملہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے لئے چیلنج ہے انہیں حقائق سامنے لا کر بتانا ہے کہ وہ قانون کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں اور خفیہ ڈیل کا زمانہ گزر گیا۔

حامد میر

طالبانائزیشن

یہ کہانی ذوالفقار علی بھٹو اور علامہ اقبال کے صاحبزادے ڈاکٹر جاوید اقبال سے شروع ہوتی ہے لیکن ہم کہانی کی طرف جانے سے پہلے دنیا کی ایک بڑی حقیقت بیان کریں گے‘ہم انسان اگر مستقبل کی اچھی پلاننگ کرنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں پہلے ماضی کا تجزیہ کرنا چاہیے‘ انسان کبھی ماضی کے تجزیے کے بغیر مستقبل کی اچھی منصوبہ بندی نہیں کر سکتا اور یہ دنیا کی دس بڑی حقیقتوں میں سے ایک بڑی حقیقت ہے اور ہم جب تک این اے 120 کے ماضی کا تجزیہ نہیں کریں گے ہم اس وقت تک ملکی سیاست کا مستقبل طے نہیں کر سکیں گے‘ ہم اب واپس ذوالفقار علی بھٹو اور ڈاکٹر جاوید اقبال کی طرف آتے ہیں‘ بھٹو صاحب نے 30 نومبر1967ء کو لاہور میں پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی اور چند ماہ میں تاریخ کا دھارا بدل دیا۔

پیپلز پارٹی 1970ء تک مغربی پاکستان کی مقبول ترین جماعت بن چکی تھی‘ جنرل یحییٰ خان نے 7 دسمبر 1970ء کو ملکی تاریخ کے پہلے غیر جانبدار الیکشن کرائے‘ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی سیٹ کے لیے لاہور سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا‘ علامہ اقبال کے صاحبزادے ڈاکٹر جاوید اقبال نے بھٹو صاحب کے خلاف میدان میں اترنے کا اعلان کر دیا‘ یہاں پر سوال پیدا ہوتا ہے بھٹو صاحب نے پنجاب کا انتخاب کیوں کیا؟ اس کی وجہ تاریخ میں دفن ہے‘ موجودہ پاکستان کی ہزار سالہ تاریخ میں یہ پورا علاقہ اس شخص کے ہاتھ میں رہتا تھا جس کے پاس لاہور ہوتا تھا‘ بھٹو صاحب تاریخ فہم تھے‘ وہ اس حقیقت سے واقف تھے چنانچہ انھوں نے سندھی وڈیرا ہونے کے باوجود پنجاب بالخصوص لاہور کو اپنا مرکز بنا لیا‘ پارٹی کی ساری اٹھان لاہور سے ہوئی‘ بھٹو صاحب کا حلقہ موجودہ این اے 120 تک وسیع تھا‘ یہ حلقہ اصلی لاہوریوں کا گڑھ تھا۔

بھٹو صاحب کا خیال تھا یہ لوگ اگر میرے ساتھ کھڑے ہو گئے تو پورا لاہور میرے ساتھ ہو جائے گا اور اگر لاہور میرے پاس آ گیا تو پورا پنجاب میرا ہو جائے گا اور میں نے اگر پنجاب کو اپنی مٹھی میں لے لیا تو پھر پورا مغربی پاکستان اپنی پوری اشرافیہ اور پوری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ میرا ہو جائے گا اور یوں میں بڑی آسانی سے شیخ مجیب الرحمن کو مار بھگاؤں گا چنانچہ یہ گوالمنڈی کی گلیوں میں گھس گئے‘ ہم اب آتے ہیں ڈاکٹر جاوید اقبال کی طرف‘ یہ بھٹو صاحب کے خلاف کیوں میدان میں اترے اور انھوں نے بھی اس حلقے کا انتخاب کیوں کیا؟ اس کی دو وجوہات تھیں‘ پہلی وجہ کشمیری کارڈ تھا‘ گوالمنڈی اور اندرون لاہور کے اس علاقے میں کشمیریوں کی اکثریت تھی اور جاوید اقبال کشمیری تھے‘ دوسرا بھٹو صاحب کے مخالفین کو مقابلے کے لیے بھٹو جتنا بڑا امیدوار چاہیے تھا اور ڈاکٹر جاوید اقبال میں یہ خوبی موجود تھی چنانچہ یہ میدان میں اتر آئے‘ ڈاکٹر جاوید اقبال معاشی لحاظ سے کمزور تھے۔

الیکشن کے دوران لاہور کے دو بڑے تاجروں میاں محمد شریف اور سی ایم لطیف نے کھل کران کی مدد کی‘ میاں شریف اتفاق گروپ کے نام سے بڑا صنعتی گروپ چلا رہے تھے جب کہ سی ایم لطیف بیکو کے مالک تھے‘ میاں شریف نے ڈاکٹر جاوید اقبال کے ووٹرز کو ٹرانسپورٹ اور کھانا فراہم کیا تھا‘ الیکشن کے دن ڈاکٹر صاحب کے ہر ووٹر کو قیمے والے نان اور بریانی پیش کی گئی‘ ووٹروں کو گھر سے لانے اور ووٹ کے بعد گھر ڈراپ کرنا بھی ان کی ذمے داری تھی جب کہ الیکشن کے دوران پبلسٹی کے تمام اخراجات سی ایم لطیف نے ادا کیے‘ نتیجہ آیا تو بھٹو صاحب یہ الیکشن جیت گئے اور ڈاکٹر صاحب ہار گئے‘ بھٹو صاحب نے 78132 ووٹ حاصل کیے جب کہ ڈاکٹر جاوید اقبال کو 33 ہزار 921 ووٹ ملے یوں یہ حلقہ بھٹو صاحب کا ہو گیا‘ بھٹو کی حکومت بنی تو بھٹو نے جاوید اقبال کی سپورٹ کے جرم میں سی ایم لطیف اور میاں شریف کی فیکٹریاں قومیا لیں اور یوں یہ دونوں ایک ہی رات میں فٹ پاتھ پر آگئے۔

یہ حلقہ بعد ازاں بڑی مدت تک پاکستان پیپلز پارٹی کا قلعہ رہا‘ پارٹی نے 1977ء میں ملک محمد اختر کو ٹکٹ دیا‘ ملک اختر 58773 ووٹ لے کر جیت گئے‘ پارٹی نے 1985ء میں غیر جماعتی الیکشن کا بائیکاٹ کر دیا‘ میاں شریف اپنے بڑے صاحبزادے میاں محمد نواز شریف کومیدان میں لے آئے‘ یہ جیت گئے اور پھر جیتتے ہی چلے گئے‘ پیپلز پارٹی نے ہر الیکشن میں ان کا مقابلہ کیا‘ یہ ہر الیکشن ہاری مگر یہ ہمیشہ اچھے مارجن کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہی ہاں البتہ پارٹی کے ووٹرز 2013ء کے الیکشن میں ہمت ہار گئے‘ یہ پارٹی سے ٹوٹے اور پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ کھڑے ہو گئے یوں تحریک انصاف دوسرے نمبر پر آگئی‘ 17 ستمبر 2017ء آیا ‘ الیکشن ہوا اور پاکستان پیپلز پارٹی کے کشمیری امیدوار فیصل میر کے بیلٹ باکسز سے صرف 2520 ووٹ برآمد ہوئے‘ فیصل میر پروفیسر وارث میر کے صاحبزادے اور حامد میر کے بھائی ہیں‘ یہ پڑھے لکھے خاندان کے پڑھے لکھے نوجوان ہیں‘ یہ پیپلز پارٹی کے پرانے کارکن بھی ہیں لیکن الیکشن کے دن ان کا پڑھا لکھا ہونا کام آیا‘ کشمیری ہونا کام آیا اور نہ ہی انھیں پیپلزپارٹی کے پرانے کارکن ہونے کا فائدہ ہوا اور یہ زوال اس حلقے سے جس کی کشمیری عوام نے1970ء میں علامہ اقبال کے کشمیری صاحبزادے کو مسترد کر کے ایک ایسے شخص کو ووٹ دیا تھا جو وڈیرا تھا اور جو پنجابی زبان تک نہیں جانتا تھاایک خوفناک لمحہ فکریہ ہے۔

یہ لمحہ فکریہ صرف پاکستان پیپلز پارٹی تک محدود نہیں‘ یہ صورتحال پاکستان مسلم لیگ ن‘ پاکستان تحریک انصاف اور جماعت اسلامی تینوں کے لیے بھی یکساں الارمنگ ہے‘ لاہور جماعت اسلامی کا ویٹی کن سٹی ہوتا تھا‘ بانی جماعت مولانا مودودیؒ آخری سانس تک لاہوری رہے‘ وہ وقت ابھی زیادہ دور نہیں گیا جب لاہور کا ہر تیسرا شخص ’’جماعتیا‘‘ ہوتا تھا اور لاہورمیں اس وقت تک کوئی امیدوار کامیاب نہیں ہو سکتا تھا جب تک وہ منصورہ سے پروانہ حمایت حاصل نہیں کر لیتا تھا لیکن آج بھرپور مہم کے بعد جماعت اسلامی کے ایماندار‘ دین دار اور باکردار امیدوار ضیاء الدین انصاری کو صرف 592 ووٹ ملے‘ ضیاء الدین انصاری پرانے لاہوری ہیں‘ یہ وسیع خاندان کے مالک بھی ہیں لیکن نتائج سے ثابت ہوتا ہے انصاری صاحب کے اپنے خاندان نے بھی انھیں ووٹ نہیں دیے‘ جماعت اسلامی کا یہ زوال بھی لمحہ فکریہ ہے‘ عمران خان نے یہ الیکشن عدلیہ کے سہارے لڑا ‘ یہ بار بار فرما رہے تھے عوام 17 ستمبر کو ثابت کر دیں گے یہ عدلیہ کے ساتھ ہیں یا ڈاکوؤں کے ساتھ کھڑے ہیں۔

عمران خان اپنے سر پر پاناما کیس کی جیت کا تاج رکھ کر این اے 120 میں اترے‘ ڈاکٹر یاسمین راشد بھی باکردار اور پڑھی لکھی لاہورن ہیں‘ یہ محنتی بھی ہیں اور یہ نیک شہرت کی حامل بھی ہیں لیکن یہ خاتون نیک شہرت‘ تعلیم اور عدلیہ کے ڈھول کے باوجود جیت نہیں سکیں‘ انھوں نے 2013ء میں 52321 ووٹ لیے تھے‘ یہ پاناما کے فیصلے کے بعد حلقے میں آئیں تو ان کے ووٹ 47099 ہو گئے گویا 5222 ووٹروں نے عدلیہ کے فیصلے کے باوجود ان سے منہ موڑ لیا‘ یہ بھی الارمنگ ہے اور میاں نواز شریف 1985ء سے اس حلقے کے دولہا میاں ہیں‘ میاں نواز شریف نے 2002ء میں جدہ بیٹھ کر پرویز ملک کو ٹکٹ دیا اور عوام نے جنرل پرویز مشرف کے جبر کے باوجود شیر پر مہریں لگا دیں۔

میاں صاحب نے 2008ء میں بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد بلال یاسین بٹ کو ٹکٹ دیا‘ عوام نے بین بے نظیربھٹو کا کیا لیکن ووٹ میاں نواز شریف کو دیے‘ عوام نے 2013ء میں بھی نواز شریف کو 91666 ووٹ دے کر وزیراعظم بنوایا لیکن جب 17 ستمبر کو وفاداری اور محبت کے ٹیسٹ کا وقت آیا‘ جب میاں نواز شریف نے اپنی بیگم کو الیکشن کے لیے کھڑا کیا اور میاں صاحب کی صاحبزادی نے حلقے کے عوام سے ماں کے نام پر ووٹ مانگنا شروع کیے تو میاں صاحب کے ووٹ 91666 سے 61745 ہو گئے گویا 2017ء میں 2013ء کے مقابلے میں 12 فیصد ووٹر باہر نہیں آئے یا پھر انھوں نے بیگم کلثوم نواز کو ووٹ نہیں دیے‘ یہ نقطہ بھی الارمنگ ہے‘ یہ بھی لمحہ فکریہ ہے اور آخری لمحہ فکریہ ان تمام حقائق سے زیادہ قابل غور ہے۔

میاں نواز شریف کے حلقے میں دو نئی مذہبی جماعتوں نے اپنے امیدوار کھڑے کیے‘ لبیک یارسول اللہ کے امیدوار شیخ اظہر حسین رضوی تھے اور ملی مسلم لیگ نے شیخ محمد یعقوب کو الیکشن لڑایا‘ لبیک یارسول اللہ ممتاز قادری کے واقعے کے بعد معرض وجود میں آئی جب کہ ملی مسلم لیگ کے بانی حافظ سعید صاحب ہیں‘ یہ ان دونوں جماعتوں کا پہلا الیکشن تھا‘ لبیک یا رسول اللہ کے امیدوارشیخ اظہر حسین رضوی نے 7130 ووٹ حاصل کیے جب کہ ملی مسلم لیگ کے شیخ یعقوب کو 5822 ووٹ ملے‘ یہ دونوں جماعتیں بالترتیب تیسرے اور چوتھے نمبر پر آئیں‘یہ ملک کے کسی بڑے شہر سے اس نوعیت کی جماعتوں کی پہلی بڑی فتح ہے اور یہ فتح صرف تین ہفتوں کی مہم کا نتیجہ ہے اور یہ نتیجہ ثابت کر رہا ہے۔

مستقبل میں پاکستان مسلم لیگ ن‘ پاکستان تحریک انصاف‘ پاکستان پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کی غیر مقبولیت کا فائدہ ملی مسلم لیگ اور لبیک یا رسول اللہ جیسی تنظیمیں اٹھائیں گی اور یہ اس الیکشن کا سب سے بڑا لمحہ فکریہ ہے‘ یہ لمحہ فکریہ چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے عوام سیاسی جماعتوں اور مذہبی سیاسی جماعتوں دونوں سے مایوس ہو چکے ہیں‘ یہ اب برائی کو طاقت سے ختم کرنے والوں کے گرد جمع ہو رہے ہیں‘ یہ اب طالبانائزیشن کی طرف بڑھ رہے ہیں اور یہ ٹرینڈ اگر مستقبل میں جڑیں پکڑ گیا تو پھر ہم کہاں ہوں گے‘ آپ خود ہی سمجھ دار ہیں چنانچہ میرا مشورہ ہے آپ ملک کو اللہ کے آسرے پر چھوڑ دیں‘ آپ لوگ سب سے پہلے اپنے اپنے ہاؤس ان آرڈر کر لیں اس سے قبل کہ جن پوری طرح بوتل سے باہر آجائے اور آپ کے لیے ائیر پورٹ پہنچنا بھی مشکل ہو جائے۔

جاوید چوہدری

این اے 120 کا انتخابی معرکہ : فیصلے کی گھڑی قریب تر

پاکستان کی سیاسی تاریخ کے دلچسپ ترین انتخابی معرکے کے لیے میدان سج گیا ہے اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کی نا اہلی کے بعد خالی ہونے والی قومی اسمبلی کی نشست پر الیکشن کی تمام تیاریاں مکمل کی جا چکی ہیں۔ اس سلسلے میں این اے 120 کے لیے انتخابی مہم ختم ہونے کے ساتھ ہی کاؤنٹ ڈاؤن بھی شروع ہو گیا ہے۔

میدان میں ہے کون کون؟
قومی اسمبلی کے اس انتخابی حلقے سے الیکشن میں حصہ لینے کے لیے 44 امیدوار میدان میں اترے تھے۔ لیکن اصل مقابلہ صرف کلثوم نواز اور ڈاکٹر یاسمین راشد ہی کے مابین ہو گا۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی طرف سے سابق خاتون اول اور برصغیر کے معروف پہلوان گاما پہلوان کی نواسی 67 سالہ بیگم کلثوم نواز اس حلقے سے انتخاب میں حصہ لے رہی ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی کی فارغ التحصیل بیگم کلثوم نواز نے عملی سیاست میں سرگرمی سے حصہ لینا انیس سو ننانوے میں شروع کیا تھا، جب جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں ان کے شوہر نواز شریف کی حکومت برطرف ہو گئی تھی۔ کلثوم نواز مسلم لیگ (ن) کی عبوری صدر بھی رہی ہیں، وہ آج کل اپنی علالت کی وجہ سے لندن میں ہیں اور ان کی صاحبزادی مریم نواز نے ان کی انتخابی مہم کی سربراہی کی ہے۔

اس انتخابی حلقے سے پی ٹی آئی کی امیدوار پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی کابینہ کے ایک وفاقی وزیر ملک غلام نبی کی بہو ڈاکٹر یاسمین راشد ہیں، جو پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر ہیں اور فاطمہ جناح میڈیکل کالج لاہور میں گائناکالوجی کی پروفیسر بھی رہی ہیں۔ وہ تھیلیسیمیا کی بیماری کے شکار بچوں کی مدد کے لیے ایک غیر سرکاری فلاحی ادارہ بھی چلاتی ہیں۔ ڈاکٹر یاسمین راشد پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کی صدر بھی رہ چکی ہیں۔ انہوں نے 2013 کے انتخابات میں اسی حلقے سے نواز شریف کے اکانوے ہزار ووٹوں کے مقابلے میں باون ہزار ووٹ حاصل کیے تھے۔

اسی الیکشن میں پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے پیپلز سٹوڈنٹس فیڈریشن کے ایک سابق رہنما اور معروف صحافی وارث میر مرحوم کے صاحبزادے امیدوار ہیں تو جماعت اسلامی کی طرف سے اسلامی جمیعت طلبہ کے سابق رہنما اور لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق سینئیر نائب صدر ڈاکٹر ضیاا لدین انصاری بھی اس انتخاب میں حصہ لے رہے ہیں۔ جماعت الدعوہ کی سیاسی جماعت ملی مسلم لیگ کو الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ نہ ہونے کی وجہ سے اس انتخاب میں حصہ لینے کی اجازت نہ مل سکی تھی لیکن اس کے امیدوار قاری یعقوب شیخ، حافظ محمد سعید اور قائد اعظم کی تصاویر کے ساتھ اپنی انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔

ضابطہ اخلاق پر عمل نہ ہو سکا
اس انتخابی مہم میں الیکشن کمیشن کی طرف سے جاری کردہ ضابطہ اخلاق کی کھلم کھلا خلاف ورزی بھی دیکھنے میں آتی رہی۔ سیاسی رہنما اور وزراء غیر قانونی طور پر انتخابی مہم چلاتے رہے۔ انتخابی اخراجات کی قانونی حد بھی پیش نظر نہ رہی۔ سیاسی جماعتوں کی طرف سے ووٹروں کو تحائف، مفت کھانے اور مفت پٹرول کی فراہمی کی اطلاعات بھی ملتی رہیں۔اس کے علاوہ ووٹوں کی خرید و فروخت اور زیادہ ووٹوں کے حامل خاندانوں کو موٹر سائیکلوں کی فراہمی کی باتیں بھی سنی جاتی رہیں۔ اپنے علاقے میں انتخابی دفاتر کھولنے کے نام پر بھی ووٹروں کو نوازا گیا۔ الیکشن کمیشن 29 ہزار کے قریب غیر مصدقہ ووٹروں کی لسٹوں کا مسئلہ بھی حل نہ کر سکا۔ تاہم لاہور ہائی کورٹ نے  ان فہرستوں کو پبلک کرنے کا حکم دے دیا تھا۔

کون کتنے پانی میں؟
اگرچہ تمام سیاسی جماعتیں اپنی اپنی ممکنہ جیت کے دعوے کر رہی ہیں تاہم رائے عامہ کے جائزے بتا رہے ہیں کہ اس حلقے میں اصل مقابلہ مسلم لیگ نون اور پاکستان تحریک انصاف کے امیدواروں کے مابین ہی ہو گا۔ 1985 کے بعد سے اب تک اس انتخابی حلقے کو نواز شریف کی سیاسی طاقت کا گڑھ سمجھا جاتا رہا ہے۔ 1985 سے لے کر اب تک ہمیشہ اس حلقے میں شریف فیملی کا کوئی نہ کوئی امیدوار ہی بھاری اکثریت سے جیتتا رہا ہے۔

بشکریہ DW اردو