عراق جنگ : پندرہ سال بعد بھی بہت سارے سوالات جواب طلب ہیں

نو اپریل 2003ء کو بغداد میں صدام حسین کا مجمسہ مسمار کر دیا گیا تھا۔ جھوٹ کی بنیاد پر لڑی جانے والی اس جنگ کی وجہ سے ان پندرہ برسوں کے دوران کئی ہزار بے گناہ ہلاک ہوئے اور مشرقی وسطی کا پورا خطہ افراتفری کا شکار ہو گیا۔ نو اپریل 2003ء کو بغداد میں سابق عراقی صدر صدام حسین کے مجسمے کو مسمار کرنے کے موقع پر کھینچی جانے والی تصاویر انسانیت کی مشترکہ یادداشت میں پیوست ہو چکی ہیں۔ تاہم اب پندرہ سال بعد بھی بہت سارے سوالات جواب طلب ہیں۔ مثال کے طور پر عراق جنگ کے دوران کتنی ہلاکتیں ہوئیں؟ اندازے لگائے گئے ہیں کہ ڈیڑھ لاکھ سے پانچ لاکھ اس جنگ کی نذر ہوئے ہیں جبکہ اس حوالے سے کی جانے والی کئی ایک تحقیقاتی رپورٹس میں ہلاکتوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ بتائی جاتی ہے۔

اس کے علاوہ بمباری، خود کش حملوں اور دیگر پرتشدد کارروائیوں میں ملک کے بنیادی ڈھانچے اور طبی شعبے کو پہنچنے والے نقصانات کا بھی ابھی تک صحیح اندازہ نہیں لگایا گیا ہے۔ تاہم ایک بات سب پر واضح ہے کہ اس عسکری کارروائی کا جواز جھوٹ پر مبنی تھا۔ عراق جنگ کے حوالے سے پانچ فروری 2003ء کو سلامتی کونسل میں سابق امریکی وزیر خارجہ کولن پاؤل نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ صدام حسین کے پاس بڑے پیمانے تباہی پھیلانے ہتھیار ہیں، صدام حکومت بین الاقوامی دہشت گردی کی پشت پناہی کرتی ہے اور وہ جوہری ہتھیار بنانے کی کوششوں میں ہے۔ یورپی خارجہ امور کے سربراہ اور نیٹو کے سابق سیکرٹری جنرل خاویر سُولانا کے مطابق 43 ویں امریکی صدر جارج بش کی انتظامیہ جنگ چاہتی تھی اور عراق جنگ کی بنیاد 9 ستمبر سن 2011 سے پہلے ہی رکھ دی گئی تھی۔ ان کے بقول بش نے دوبارہ صدر منتخب ہونے کے بعد ہی عراق کو سلامتی کی اپنی پالیسی میں ترجیحاً شامل کیا تھا۔

Leave a comment