ایڈولف ہٹلر : عروج سے زوال تک

ایڈولف ہٹلر آسٹریا کے شہر برائونا میں 1889ء میں پیدا ہوا۔ نوجوانی میں اس نے عملی زندگی کا آغاز ایک ناکامیاب مصور کی حیثیت سے کیا۔ بعدازاں وہ ایک پرجوش جرمن قومیت پرست بن گیا۔ جنگ عظیم اول میں وہ جرمن فوج میں بھرتی ہوا، زخمی ہوا اور اسے شجاعت کے مظاہرے پر میڈل ملے۔ جرمنی کی شکست نے اسے صدمہ پہنچایا اور برہم کیا۔ 1919ء میں جب وہ تیس برس کا تھا، وہ میونخ میں ایک چھوٹی سی دائیں بازو کی جماعت میں شامل ہوا، جس نے جلد ہی اپنا نام بدل کر نیشنل سوشلسٹ جرمن ورکرز پارٹی (مختصراً ’’نازی‘‘ جماعت) رکھ لیا۔ ترقی کرتے ہوئے، اگلے دو برسوں میں وہ اس کا غیر متنازعہ قائد بن گیا۔ ہٹلر کی زیر قیادت نازی جماعت جلد ہی طاقت ور ہو گئی۔

نومبر 1923ء میں اس نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے لیے ایک کودیتا کی کوشش کی، جسے ’’میونخ بیئرپال پوش‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ ناکام رہا جس کے بعد ہٹلر کو گرفتار کر لیا گیا۔ اس پر غداری کا مقدمہ چلا اور اسے سزا ہوئی۔ تاہم ایک سال سے بھی کم جیل کاٹنے کے بعد اسے رہا کر دیا گیا۔ 1928ء میں بھی ’’نازی‘‘ مختصر سی جماعت تھی۔ تاہم عظیم عالمی کساد بازاری کے دور میں جرمن عوام سیاسی جماعتوں سے بیزار ہونے لگے۔ اس صورت حال میں نازی جماعت نے خود کو متبادل کے طور پر پیش کرتے ہوئے اپنی بنیادیں مضبوط کر لیں۔ جنوری 1933ء میں چوالیس برس کی عمر میں ہٹلر جرمنی کا چانسلر بن گیا۔ چانسلر بننے پر اس نے تمام مخالف جماعتوں کو زبر دستی دبانا شروع کر دیا، اورآمر بن بیٹھا۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ سب کچھ عوامی رائے اور قوانین کے مطابق ہوا۔ بس سب کچھ تیزی کے ساتھ کیا گیا۔

نازیوں نے مقدمات کا تکلف بھی ضروری نہیں سمجھا۔ بیشتر سیاسی حریفوں پر تشدد کو استعمال کیا گیا اور انہیں زدو کوب کیا گیا، بعض کو مار دیا گیا۔ تاہم اس کے باوجود عالمی جنگ کی شروعات سے پہلے چند سالوں میں ہٹلر کو جرمنوں کی بڑی اکثریت کی حمایت حاصل رہی، کیونکہ اس نے بے روزگاری کا خاتمہ کیا اور معاشی خوشحالی لایا۔ پھر وہ دوسرے ملک فتح کرنے لگا جو وہ جنگ عظیم دوم کا سبب بنا۔ ابتدائی فتوحات اسے لڑائی کے چکر میں پڑے بغیر حاصل ہوئیں۔ انگلستان اور فرانس اپنی معاشی بدحالی کے باعث مایوس تھے اور امن کے خواہاں تھے۔ اسی لیے انہوں نے ہٹلر کے کسی کام میں مداخلت نہیں کی۔

ہٹلر نے ورسیلز کا معاہدہ منسوخ کیا اور جرمن فوج کو ازسرنو منظم کیا۔ اس کے دستوں نے مارچ 1936ء میں رہائن لینڈ پر قبضہ کیا، مارچ 1938ء میں آسٹریا کو جبری طور پر خود سے ملحق کر لیا۔ اس نے ’’سوڈبٹن لینڈ‘‘ کو بھی ستمبر 1938ء میں الحاق پر رضا مند کر لیا۔ یہ چیکو سلواکیہ کا ایک قلعہ بند علاقہ تھا جو ایک معاہدے سے ہٹلر کے پاس چلا گیا۔ اس بین الاقوامی معاہدے کو ’’میونخ پیکٹ‘‘ کہتے ہیں۔ برطانیہ اورفرانس کو امید تھی کہ یہ سب کچھ لے کر وہ پرامن ہو جائے گا لیکن ایسا نہ ہوا۔

ہٹلر نے اگلے چند ماہ میں مزید حصہ بھی غصب کر لیا۔ ہر مرحلے پر ہٹلر نے مکاری سے اپنے اقدامات کے جواز گھڑ لیے اور دھمکی بھی دی۔ اس نے کہا، اگر کسی نے مزاحم ہونے کی کوشش کی، تو وہ جنگ کرے گا۔ ہر مرحلے پر مغربی جمہوریتوں نے پسپائی اختیار کی۔ انگلستان اورفرانس نے البتہ پولینڈ کے دفاع کا قصد کیا، جو ہٹلر کا اگلا نشانہ تھا۔ ہٹلر نے اپنے دفاع کے لیے اگست 1939ء میں سٹالن کے ساتھ ’’عدم جارحیت‘‘ کے معاہدے پر دستخط کیے (دراصل یہ ایک جارحانہ اتحاد تھا۔ جس میں دو آمر اس امر پر متفق ہوئے تھے، کہ وہ پولینڈ کو کس شرح سے آپس میں تقسیم کریں گے)۔ نو دن بعد جرمنی نے پولینڈ پر حملہ کیا۔ اس کے سولہ روز بعد روس بھی حملے میں شامل ہو گیا، اگرچہ انگلستان اور فرانس بھی اس جنگ میں کود پڑے، لیکن پولینڈ کو شکست فاش ہوئی۔ 1940ء ہٹلر کے لیے بہت اہم برس تھا۔

اپریل میں اس کی فوجوں نے ڈنمارک اور ناروے کو روند ڈالا۔ مئی میں انہوں نے ہالینڈ، بلجیم اور لکسمبرگ کو تاخت و تاراج کیا۔ جون میں فرانس نے شکست کھائی لیکن اسی برس برطانیہ نے جرمن ہوائی حملوں کا دلیری سے مقابلہ کیا۔ برطانیہ کی مشہور جنگ شروع ہوئی۔ ہٹلر کبھی انگلستان پر قابض ہونے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ اپریل 1941ء میں ہٹلر کی فوجوں نے یونان اور یوگوسلاویہ پر قبضہ کیا۔ جون 1941ء میں ہٹلر نے عدم جارجیت کے معاہدے کو تارتار کیا اور روس پر حملہ آور ہوا۔ اس کی فوجوں نے بڑے روسی علاقے پر فتح حاصل کی۔ لیکن وہ موسم سرما سے پہلے روسی فوجوں کو نیست ونابود کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ ہٹلر بیک وقت روس اورانگلستان سے برسرپیکار تھا، اس کے باوجود وہ دسمبر 1941ء میں امریکہ پر بھی حملہ آور ہو گیا۔

کچھ عرصہ پہلے جاپان پرل ہاربر میں امریکی بحری چھائونی پر حملہ کر چکا تھا۔ 1942ء کے وسط تک جرمنی یورپ کے ایک بڑے حصے پر قابض ہو چکا تھا۔ تاریخ یورپ میں کسی قوم نے کبھی اتنی وسیع سلطنت پر حکمرانی نہیں کی تھی۔ مزید برآں اس نے شمالی افریقہ کے بیشتر حصہ کو بھی فتح کیا۔ 1942ء کے دوسرے نصف میں جنگ کا رخ بدل گیا۔ جب جرمنی کو مصر میں العلمین اور روس میں سٹالن گراڈ کی جنگوں میں شکست کی ہزیمت اٹھانی پڑی۔ ان نقصانات کے بعد جرمنی کی عسکری برتری کا زوال شروع ہوا۔ جرمنی کی حتمی شکست گو اب ناگزیر معلوم ہو رہی تھی، لیکن ہٹلر نے جنگ سے دست بردار ہونے سے انکار کر دیا، ہولناک نقصانات کے باوجود سٹالن گراڈ کی شکست کے بعد قریب دو برس یہ جنگ جاری رہی۔ 1945ء کے موسم بہار میں تلخ انجام وقوع پذیر ہوا۔ 30 اپریل کو برلن میں ہٹلر نے خودکشی کر لی۔ سات روز بعد جرمنی نے ہتھیار پھینک دیے۔ متعدد وجوہات کی بنا پر یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہٹلر کی شہرت باقی رہے گی۔ ایک تو اس لیے کہ اسے تاریخ کے بدنام ترین افراد میں شمار کیا جاتا ہے۔

مائیکل ہارٹ

ہٹلر نے ناروے پر کیسے قبضہ کیا ؟

پولینڈ کی فتح نے ہٹلر کی فوج اور شہری آبادی دونوں میں شادمانی کی لہریں دوڑا دیں۔ وارسا سے جنگجو خوش خوش واپس آئے تاکہ فتح کے ہار وصول کریں۔ ان کے شہری ہم وطن جوش و خروش میں دیوانے ہو رہے تھے۔ برق رفتار جنگ کے ذریعے سے ہٹلر نے اپنی بالغ نظری ساری دنیا پر آشکار کر دی تھی۔ یقیناً لندن اور پیرس دونوں کو تقدیر کا نوشتہ دکھا دیا گیا تھا۔ اب صرف یہ باقی رہ گیا تھا کہ جلد سے جلد صلح کا انتظار کیا جائے لیکن اس کا کوئی سراغ نہ تھا۔ امریکی ولیم شائیرر برلن میں مقیم تھا۔ اس نے ایک نشری تقریر میں کہا: یہاں بعض لوگوں کا خیال ہے کہ جنگ سکینڈے نیویا تک پھیل سکتی ہے۔

برلن میں آج یہ اطلاع ملی کہ گزشتہ ہفتے کم از کم نو تباہ کن برطانوی جہازوں کا ایک بیڑا ساحل ناروے کے پاس ٹھہرا ہوا ہے اور جو جرمن بار بردار جہاں لوہا لا رہے تھے ان پر انتباہی گولے پھینکے گئے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ غیر جانبدار، خصوصاً سکینڈے نیویائی ملک بھی اس جنگ کھینچ لیے جائیں۔ اس وقت تک ہٹلر کی فتوحات زیادہ تیز نہیں تھیں اور اس مسئلے نے نازک صورت اختیار نہیں کی تھی لیکن مغرب کی بڑی طاقتوں کے خلاف جنگ کے لیے اسے رسد کے ایک سے زیادہ مرکز درکار تھے۔

لوہے کی ضرورت بڑھی ہوئی تھی۔ اعلیٰ درجے کا خام لوہا سویڈن سے مغربی جانب بھیجا جاتا تھا اور ریل کے ذریعے سے ناروے کی بندرگاہ نارویک پہنچتا تھا۔ جہاں سے جرمن بار بردار جہازوں میں لاد کر اسے سکا گاراک لایا جاتا تھا۔ ناروے کا بیڑا ان جہازوں کی حفاظت کرتا تھا اس سلسلے میں یہ اصول پیش نظر رکھا گیا کہ ناروے غیر جانبدار ملک ہے اس کے پانیوں میں سے متحارب ممالک کے جہازوں کی آمدورفت برابر جاری رہنی چاہیے اور کسی کو گزند نہ پہنچنا چاہیے۔ ہٹلر کہتا تھا کہ لندن قواعد جنگ کا پورا احترام کرے گا لیکن اس کے نزدیک اس معاملے کو حالات پر چھوڑ دینا بہترین طریق عمل نہ تھا۔

اسے یہ بھی خیال تھا کہ ممکن ہے برطانیہ ناکہ بندی کے حلقے کو توسیع دے کر سویڈن سے لوہے کی رسد ختم کر دے اور ناروے کے پانیوں میں سے جہاز ڈنمارک ہوتے ہوئے جرمنی نہ پہنچ سکیں۔ لہٰذا اس نے 1939ء ہی میں حکم دے دیا تھا کہ ڈنمارک اور ناروے پر حملے کے لیے نقشے تیار کر لیے جائیں۔ لندن نے آٹھ اپریل 1940ء کو ناروے لکھ بھیجا تھا کہ ہم نے ناروے کے پانیوں میں سے ان جہازوں کا بے مزاحمت گزرنا روک دینے کا فیصلہ کر لیا ہے جن پر جنگ کا سامان لدا ہوتا ہے۔ یہ اطلاع بھی دی گئی تھی کہ ساحل کے ساتھ ساتھ بحری سرنگیں بچھائی گئی ہیں کہ خالص ناروے کے جہازوں کی آمدورفت میں کوئی مداخلت نہ ہو اور وہ ساحل کے ساتھ ساتھ جہاں چاہیں ٹھہریں۔

حکومت ناروے نے فوراً مطالبہ کیا کہ بحری سرنگیں اٹھالی جائیں۔ ساتھ ہی برلن سے یہ خوفناک بیان شائع ہوا: ’’سردی بہت بڑھ گئی ہے، جرمنی صورت حال دیکھ رہا ہے جرمنی کی نظر ڈرامے پر ہے جرمنی نے صورت حال کے مقابلے کے لیے اپنا فیصلہ محفوظ رکھا ہے۔” پانچ بجے صبح جرمنی کے سفیر مقیم اوسلو نے ایک یادداشت وزیرخارجہ کے حوالے کی جس کا مضمون یہ تھا کہ ناروے کا نظم و نسق فوراً جرمنی کے حوالے کر دیا جائے، کیونکہ اتحادی اس پر قبضے کی تیاری کر چکے ہیں۔ وزیرخارجہ نے یہ مطالبہ غصے سے ٹھکرا دیا۔

چند گھنٹے کے اندر اندر جرمنوں نے ناروے پر حملے شروع کر دیے۔ جرمن جہاز اوسلو کے سب سے بڑے ہوائی اڈے پر بم برسانے لگے اور بار بردار طیاروں کے جھنڈ ملک کے مختلف حصوں پر چھا گئے۔ چند گھنٹوں میں ہر بندرگاہ، ہر ہوائی اڈا اور پانچ چھ اہم مراکز جرمنوں کے قبضے میں آگئے۔ چار بجے تک سبز پوش جرمن فوجیں بندرگاہ موس سے چل کر 35 میل کا فاصلہ طے کرنے کے بعد اوسلو کے بازاروں میں پہنچ گئیں اور سرکاری عمارتوں پر قبضہ کر لیا۔ خشکی میں تو فتح و تسخیر فیصلہ کن ثابت ہوئی لیکن سمندر میں جرمنوں کو بھاری قیمت ادا کرنی پڑی۔ تاہم یہ ضرب ناروے کی تسخیر سے نازیوں کو نہ روک سکی۔

حکومت اوسلو چھوڑ کر شمالی جانب چلی گئی۔ شہر کی نصف آبادی بھی ساتھ ہی نکل گئی۔ بادشاہ ہاکون ہفتم جابجا بھاگتا پھرتا تھا۔ جرمن جہاز اس کا تعاقب کرتے رہے۔ آخر وہ انگلستان پہنچ گیا ، جہاں اس نے جلاوطنی میں ایک حکومت قائم کر لی۔ نو اپریل 1940ء کو بعد دوپہر جرمنی کی سرکاری ایجنسی نے اعلان کر دیا کہ سابقہ حکومت نے اپنے اختیارات میجر کوئزلنگ کے حوالے کردیے ہیں۔ شام کے ساڑھے آٹھ بجے کوئز لنگ نے ریڈیو سے ایک اعلان نشر کیا جس میں لوگوں کو ہدایت کر دی گئی کہ مزاحمت روک دو، املاک کی مجرمانہ بربادی سے احتراز کرو۔ ساتھ ہی ناروے کی فوج کو ہدایت کی کہ وہ (نئی) قومی حکومت کا حکم مانے۔

کوئزلنگ کی سرگرمیوں نے نازی حملے کامیاب کرانے میں مدد دی تھی۔ کوئز لنگ 1932ء سے 1933ء تک ناروے کا وزیر جنگ رہا۔ اس نے غداری کی، اور یوں ناروے ہٹلر کے کنٹرول میں چلا گیا۔ نازیوں نے صرف کوئزلنگ پر انحصار نہیں کیا بلکہ اس نے اپنے خفیہ آدمی پہلے بھی مختلف مقامات پر بھیج رکھے تھے۔ برطانوی خفیہ ادارے ہٹلر کی منصوبہ بندی کاسراغ نہ لگا سکے۔

لوئس ایس سنائیڈر

جنگ عظیم دوم : ہٹلر نے پولینڈ کو کیسے تاراج کیا ؟

یکم ستمبر 1939ء، طلوعِ سحر،جنگ کا کوئی اعلان نہ کیا گیا۔ ہٹلر کی زبردست جنگی مشن کی پہلی طوفانی موجیں پولینڈ کی مغربی سرحدوں سے داخل ہوئیں۔ مشرقی پروشیا، پومی رینیا، سلیشیا اور سلوواکیا سے بیک وقت نازی فوجیں شدید تیزی اور تندی سے پیش قدمی کرتی ہوئی وارسا کی طرف بڑھیں۔ دوسری جنگ عظیم کی یہ پہلی بڑی مہم تھی۔ اسے ان حملوں کا پیش خیمہ سمجھنا چاہیے جو آگے چل کر ممالک زیریں اور دیگر پر ہوئے۔ موسم بڑی جنگجو صفوں کے لیے موزوں تھا۔

دریاؤں کا پانی انتہائی پست سطح پر پہنچ گیا تھا اور انہیں عبور کر لینا بہت سہل تھا۔ جرمن فوجوں کی پیش قدمی میں ایک دلدوز صحت و تنظیم نمایاں تھی۔ انہیں دیکھتے ہی 1914ء میں بیلجیم پر جرمن حملے کی یاد تازہ ہو رہی تھی۔ لیکن 1939ء کی یورش میں ایک خصوصیت تھی۔ اب وہ حالت نہ تھی کہ پیش قدمی کرتے ہوئے سپاہیوں کے بے شمار لشکر دن بھر میں صرف چند میل آ گے جائیں بلکہ برق رفتار جنگ کا یہ پہلا مظاہرہ تھا۔ مشینی دور کے ساتھ فوج کی مطابقت اس پیمانے پر پہنچ گئی تھی، جسے دیکھتے ہی ہوش و حواس گم ہو جاتے تھے۔ حملے کا فارمولا تباہی خیز حد تک سادہ تھا۔

اول، دشمن کی صفوں کے پیچھے پانچویں کالم کے ذریعے سے اپنے لیے راستہ ہموار کر لینا۔

دوم، ایک تیز اور اچانک ضرب کے ذریعے مخالف ہوائی قوت کو زمین ہی پر تباہ کر ڈالنا۔

سوم ہوائی جہازوں کی بمباری سے دشمن کی آمدورفت اور نقل و حمل کے وسائل کو نقصان پہنچانا۔

چہارم فوجی اجتماعات پر بمبار آب دوزوں سے ایسے حملے کرنا کہ ان میں افراتفری پھیل جائے۔

پنجم، سبک رفتار فوجیں، موٹر سائیکلوں پر دستے، ہلکے ٹینک اور موٹروں کے ذریعے سے نقل و حمل کرنے والی توپیں بھیجنا تا کہ تیزی سے دشمن کے علاقے میں گھس جائیں۔

ششم، بھاری ٹینکوں سے کام لینا تا کہ جا بجا وہ مشینی یورشوں کے لیے عقب میں جگہیں بنا لیں۔

سب سے آخر میں باقاعدہ فوج یعنی پیادہ سپاہ کا توپ خانے کے ساتھ آگے بڑھنا تا کہ مزاحمت ختم ہو جائے اور پیادہ فوج ہر اول سے مل جائے۔ اس پوری کارروائی میں فوجی ٹینک ایک کلیدی حربہ تھا۔ یہ پٹڑی والی بکتربند گاڑی تھی جو پہلے پہل انگریزوں نے 1916ء میں استعمال کی تھی، لیکن 1918ء تک اس کی حیثیت صرف اتنی تھی کہ پیش قدمی کرنے والی اس پیادہ فوج کے لیے ایک پناہ کا کام دیتی۔ مگر اب جرمنوں نے ٹینکوں کو توپ خانے کے متحرک بازو کی حیثیت میں استعمال کیا۔ ان جنگی کارروائیوں کا اہتمام جرمنی کے نہایت تجربہ کار فوجی قائدین کے ہاتھ میں تھا۔ جنرل والتھر فان برخش کماندار اعلیٰ تھا۔ جنرل فرینز ہالڈر اس کا چیف آف سٹاف تھا۔ جنرل فان رونسٹاٹ ان تین فوجوں کا کماندار تھا، جو جنوبی سمت سے حملہ کررہی تھیں۔

شمالی سمت سے دو فوجیں حملہ آور تھیں، جن کی کمان جنرل فیڈوفان بوک کے ہاتھ میں تھی۔ اس فوجی قیادت کے شان دار ہونے میں کلام کی کیا گنجائش تھی؟ حملہ آور جرمنوں کی تعداد پولستانیوں سے بہت زیادہ تھی۔ جرمن فوج کی تعداد کے متعلق مختلف لوگوں نے مختلف اندازے لگائے۔ علاوہ بریں مختلف مقاصد کے لیے جو فوجیں استعمال کی گئیں ان کے باب میں بھی اندازے مختلف رہے۔ بہرحال واضح ہوتا ہے کہ متصرف اور محفوظ فوجوں کو شامل کرتے ہوئے کل تعداد دس لاکھ سے زائد تھی۔ آتش بار اسلحہ کی تعداد میں جرمنی کی برتری کا تناسب دو ایک کا تھا لیکن ٹینک دشمن کے مقابلے میں بیس گنا تھے۔

رجسٹروں کے اعتبار سے پولستانی فوج کی تعداد بیس لاکھ تھی مگر اس فوج کی عام نقل و حرکت 31 اگست 1939ء یعنی حملے کے ایک روز پیشتر تک شروع نہ ہوئی۔ جب حملے کا زور بڑھا تو مقابلے پر پولستانی فوج صرف چھ لاکھ تھی۔ نازیوں کی برق رفتار جنگ کا سب سے پہلا منظر ہوائی حملوں کا تھا۔ جرمنوں کی ہوائی فوج پولستانیوں کے مقابلے میں تین گنا تھی۔ چودہ سو ہوائی جہاز جن میں غوطہ خور بمبار جہاز بھی شامل تھے، ان کے مقابلے میں پولستانی ہوائی جہاز صرف ساڑھے چار سو تھے۔ حقیقتاً کوئی ہوائی جنگ نہ ہوئی۔ جرمن حملوں کا مدعا یہی تھا کہ دشمن کے ہوائی جہاز زمین ہی پر تباہ کر دیے جائیں اور دو روز کے اندر اندر پوری ہوائی قوت تقریباً تباہ کر ڈالی۔ اس کے بعد بکتر بند جرمن فوج بے خطر آگے بڑھ سکتی تھی کیونکہ اوپر سے حملے کا کوئی اندیشہ باقی نہیں رہا تھا۔

لوئس ایل سنائیڈر

 (ترجمہ: غلام رسول مہر)

سٹالن گراڈ کی لڑائی : ایک ناقابل فراموش تاریخی واقعہ

دوسری جنگ عظیم میں مجموعی طور پر سات کروڑ افراد موت کی وادی میں اتر گئے لیکن اس جنگ میں سب سے اہم معرکہ سٹالن گراڈ میں ہوا جسے Battle of Stalingrad کہا جاتا ہے۔ اس لڑائی میں لاکھوں افراد مارے گئے۔ روسیوں نے بے پناہ جانی قربانیاں دے کر نازی ازم کو شکست سے دوچار کیا۔ اگر یہاں روس شکست کھا جاتا تو یقینی طور پر آج دنیا کا نقشہ کچھ اور ہی ہوتا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ روس اور جرمنی میں جنگ نہ کرنے کا معاہدہ ہو چکا تھا لیکن پوری دنیا پر حکومت کرنے کا خواب دیکھنے والے ہٹلر نے روس پر بھی یلغار کردی۔ یہ لڑائی 23 اگست 1942ء کو شروع ہوئی اور 2 فروری 1943ء کو اختتام پذیر ہوئی۔ جرمنی اور اس کے اتحادیوں نے سٹالن گراڈ پر قبضہ کرنے کیلئے روس کے شہریوں پر فضائی حملے بھی کیے۔

سٹالن گراڈ پر قبضے کیلئے جرمنی نے اگست 1942ء میں کوششیں شروع کر دیں۔ حملوں میں وہ بمباری بھی شامل تھی جس نے شہر کے زیادہ تر حصوں کو پتھروں اور اینٹوں میں تبدیل کر دیا. نومبر1942ء کے وسط تک جرمن فوجوں نے روسیوں کو خاصا پیچھے دھکیل دیا تھا۔ 19 نومبر 1942ء کو سرخ فوج نے آپریشن یورانس شروع کیا۔ اس کا مقصد ہنگری اور رومانیہ کی ان کمزور فوجوں کو نشانہ بنانا تھا جو جرمن فوجوں کا تحفظ کر رہی تھیں۔ ہٹلر نے اپنی فوج کو حکم دیا کہ وہ سٹالن گراڈ میں رہے اور آپس میں اتحاد پیدا کرے۔ اس نے کہا کہ فوج میں پھوٹ نہیں پڑنی چاہئے۔ دو ماہ تک سخت لڑائی ہوتی رہی۔ فروری 1943ء کے آغاز تک جرمن اور اس کی اتحادی فوجوں کے پاس گولہ بارود اور خوراک ختم ہو گئی اور پھر وہ تاریخی لمحہ آیا جب ان فوجوں نے ہتھیار پھینک دئیے۔ یہ لڑائی پانچ مہینے‘ ایک ہفتہ اور تین دن جاری رہی۔ اس لڑائی میں جوزف سٹالن کا کردار بہت اہم رہا۔ اس نے سٹالن گراڈ کے تمام شہریوں سے یہ کہا تھا کہ وہ شہر چھوڑ کر نہ جائیں۔

اسے اس بات کا یقین تھا کہ شہریوں کی موجودگی ان فوجیوں کی ہمت میں اضافہ کرے گی جو شہر کا دفاع کر رہے ہیں۔ شہریوں کو مختلف کاموں پر لگا دیا گیا۔ جرمنوں کی بمباری کی وجہ سے شہر کو بہت نقصان پہنچا۔ روسی فضائیہ کو بھی سخت نقصان پہنچا۔ 23 اگست کو جرمنی نے زبردست فضائی حملہ کیا جس کے نتیجے میں اس کو سخت نقصان برداشت کرنا پڑا۔ شہر کی جو تباہی ہوئی وہ تو اپنی جگہ لیکن جانی نقصان بھی بہت ہوا۔ حال یہ تھا کہ شہریوں کو رائفل کے بغیر ہی لڑائی پر بھیج دیا جاتا تھا۔ اس میں زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل تھے۔ طلبا نے بھی زبردست کردار ادا کیا۔ یہاں ان خاتون رضاکاروں کا ذکر بھی ضروری ہے جنہوں نے سٹالن گراڈ کی حفاظت کیلئے شاندار خدمات سرانجام دیں۔

اصل میں بات یہ تھی کہ روس کے پاس مردوں کی افرادی قوت کی کمی تھی اسی لئے عورتوں کو میدان میں آنا پڑا۔ اگرچہ جرمن فوجیں آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی تھیں لیکن یہ کبھی اہم جگہوں پر قبضہ نہ کر سکیں۔ جرمنوں نے فضائی طاقت‘ ٹینکوں اور بھاری توپ خانے کا استعمال کیا تا کہ شہر پر اپنا کنٹرول مضبوط کر سکیں۔ روسیوں نے بہت زیادہ تعداد میں توپخانے کی مدد لی۔ اس سے یہ ہوا کہ وہ اس قابل ہو گئے کہ جرمنوں کے اڈوں پر بمباری کر سکیں۔ اس لڑائی میں چھپ کر حملے بھی کئے گئے جن میں بہت زیادہ جانی نقصان ہوا۔ برطانوی مؤرخ انتونی بیوور نے لکھا ہے کہ روسی فوجوں اور عوام کی بہادری دیدنی تھی۔ سٹالن گراڈ کو بچانے کیلئے انہوں نے جس دلیری کا مظاہرہ کیا‘ اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ اس نے جوزف سٹالن کی بھی بے حد تعریف کی اور کہا کہ دراصل سٹالن نے روسیوں کو شجاعت اور بہادری کا سبق پڑھایا۔ یہ سٹالن تھا جس نے روسیوں کے یہ بات ذہن نشین کرا دی کہ اپنے ملک کے چپے چپے کی حفاظت کرنے کیلئے متحد ہو جائیں اور ملک کی حفاظت کیلئے جتنی قربانیاں بھی دینا پڑیں‘ وہ ان سے پیچھے نہ ہٹیں.

اس نے روسی عورتوں سے کہا کہ وہ اس لڑائی میں تاریخی کردار ادا کریں۔ انتونی بیوور نے مزید لکھا ہے کہ دراصل سٹالن گراڈ ہٹلر اور سٹالن کی عزت کا مسئلہ بن گیا تھا۔ دونوں نے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ کچھ بھی ہو جائے وہ سٹالن گراڈ سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ جرمنی کو اس بات کا احساس ہو گیا تھا کہ انہوں نے تکنیکی طور پر خاصی غلطیاں کی ہیں جن کی بنا پر روسیوں کو اپنا دفاع مضبوط کرنے کا موقع مل گیا۔ جرمنی کو ایک اور مصیبت کا سامنا تھا۔ اس کے اتحادی ہنگری اور رومانیہ کی فوجیں کمزور تھیں اور وہ اس لڑائی میں کوئی خاص کردار ادا کرنے سے قاصر تھیں۔ ایڈولف ہٹلر کو اس بات پر غصہ بھی تھا اور افسوس بھی کہ یہ فوجیں مطلوبہ کردار ادا نہیں کر رہیں۔ لیکن پھر اس نے یہ بھی کہا کہ جو بھی ہو‘ ہمیں سب کو ساتھ لے کر چلنا ہے۔ ہمیں اپنی توقعات کے شیش محل کو قائم رکھنا ہے۔ ہمیں کسی بھی صورت ناامید نہیں ہونا چاہئے. اس نے جرمن قوم کو بھی بارہا کہا کہ وہ ناامیدی اور مایوسی کے اندھیروں میں کبھی گم نہ ہوں بلکہ ہر وقت امید کی شمع جلاتے رہیں۔ اس نے اپنی جنگی حکمت عملی وضع کرتے ہوئے اس بات کی وضاحت کی کہ سٹالن گراڈ کی لڑائی میں فتح کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کا نقشہ تبدیل ہو جائے گا۔

یورپ کے علاوہ روس پر بھی جرمنوں کی حکومت ہو جائے گی۔ جو فلسفہ ہٹلر نے اپنی قوم کو دیا تھا وہ ہر صورت اسے عملی شکل دینا چاہتا تھا۔ یعنی جرمن قوم سب سے اعلیٰ قوم ہے جسے ساری دنیا پر حکومت کرنے کا حق ہے۔ کیونکہ وہ آریائی نسل سے ہے اور یہ نسل دنیا کی بہترین نسل ہے۔ سب سے اعلیٰ قوم جرمن ہے جس کا سب سے اعلیٰ لیڈر ہٹلر ہے اور نازی ازم یعنی فسطائیت ان کی زندگی کا محور ہے۔ آج محسوس ہوتا ہے کہ اگر فاشسٹ اپنے مقاصد میں قائم ہو جاتے تو دنیا کا کیا حشر ہوتا. امریکہ اور برطانیہ ویسے تو جنگ عظیم دوم کی فتح کا زیادہ تر کریڈٹ خود لیتے ہیں اور امریکہ نے اس موضوع پر کئی فلمیں بھی بنائیں جن میں اس نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ جنگ عظیم دوم میں اتحادیوں کی فتح میں امریکہ کا کردار سب سے اہم ہے لیکن یہ حیرت کی بات ہے کہ روس کے تاریخی کردار کا کبھی ذکر نہیں کیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ سٹالن گرڈ کی لڑائی میں روس نے جو کردار ادا کیا وہ کبھی نہیں بھلایا جا سکتا۔

عبدالحفیظ ظفرؔ