مگر یہ صرف اندازہ ہے میرا

 آپ سب کو نیا سال مبارک۔

میں نے سوشل میڈیا پر سالِ نو کے بارے میں ہر طرح کا عہد دیکھا۔’’ میں اس سال سگریٹ چھوڑ دوں گا ، والدین کو حج کراؤں گا ، میٹرک میں کم از کم تیسری پوزیشن کے لیے محنت کروں گی، نئے برس کے دوران تین اسٹریٹ چلڈرنز کو پڑھاؤں گا، اس برس ضرور میں رضیہ سے شادی کر لوں گا ، نامکمل مکان تعمیر کروں گا‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ مگر میں نے ایک بھی عہد ایسا نہیں دیکھا کہ ’’اس برس میں اپنے اہلِ خانہ کی نہ صرف بنیادی کوویڈ ویکسینیشن مکمل کرواؤں گا بلکہ آس پاس کے لوگوں سے بھی ضد کروں گا کہ وہ نہ صرف اپنی بلکہ ہر جاننے والے کی ویکسینشین کروائیں ۔‘‘ نئے سال کے ولولے اور قسمیں وعدے اپنی جگہ۔ مگر کوویڈ کا نیا ویرئینٹ ایمکرون بھی نئے سال میں ’’ میں اس برس سب سے زیادہ انسانوں کو متاثر کروں گا‘‘ کے عہد کے ساتھ گھس آیا ہے۔ اس کی رفتار پچھلے کسی بھی ویرئنٹ کے پھیلنے کی رفتار سے سات گنا زائد ہے۔

پاکستان میں اگرچہ سرکاری طور پر دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ تیس فیصد مجموعی آبادی اور چھیالیس فیصد بالغ آبادی کی ویکسینیشن مکمل ہو چکی ہے۔ جب کہ صوبہ پنجاب نے ستر فیصد اہل افراد کی ویکسینسیشن مکمل ہونے کا بھی دعویٰ کیا ہے۔ مگر ہاتھ کنگن کو آرسی کیا۔ دنیا ایمیکرون کے توسط سے کوویڈ کی پانچوں لہر میں پھنس چکی ہے اور پاکستان میں یہ لہر جنوری کے آخر سے تھپیڑے دینا شروع کر دے گی۔ جنھوں نے بنیادی ویکسینیشن بھی نہیں مکمل کروائی وہ سب سے پہلے زد میں آئیں گے۔ جنھوں نے بنیادی ویکسینیشن کروا لی ہے انھیں اس کے حملے سے بچنے کے لیے اب بوسٹر ڈوز لگوا لینی چاہیے۔ اگرچہ ویکسین شدہ افراد کے لیے ایمیکرون سے مرنے کا خطرہ کم بتایا جا رہا ہے اور یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ گزشتہ لہر میں پھیلنے والے ڈیلٹا ویرئینٹ کے مقابلے میں ایمیکرون پھیلنے کی رفتار سات گنا ہے مگر اس کا مہلک پن ڈیلٹا سے کم ہے۔ لیکن ایمیکرون پھیلنے کا عالمی چلن بتا رہا ہے کہ اس کا ہدف نسبتاً جوان آبادی ہے، اور یہی آبادی کسی بھی ملک کی معاشی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے۔ آگے آپ خود سیانے ہیں۔

عالمی ادارہِ صحت ( ڈبلیو ایچ او ) کے سربراہ ٹیڈروس گیبریسس نے کورونا نامی مصیبت کے دو برس پورے ہونے کے موقعے پر پریس کانفرنس میں ایک اور کورونا سونامی سے خبردار کیا ہے۔ اس وقت روزانہ عالمی سطح پر ایک ملین افراد وائرس کی اس نئی شکل سے متاثر ہو رہے ہیں۔ ایمیکرون نومبر کے شروع میں جنوبی افریقہ کے طبی ماہرین نے دریافت کیا تھا۔ مگر اس کا سب سے بڑا نشانہ اس وقت امریکا اور مغربی یورپ ہے۔ اس تیزی کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ اقوامِ متحدہ کے ایک سو چورانوے رکن ممالک نے گذرے برس کے شروع میں عہد کیا تھا کہ سال کے اختتام تک کم ازکم چالیس فیصد آبادی کی ویکسینیشن کا ہدف حاصل کر لیں گے۔ مگر بانوے ممالک اس ہدف کو حاصل نہ کر سکے۔ اب عالمی ادارہِ صحت کے سربراہ نے دنیا سے اپیل کی ہے کہ تمام متعلقہ ریاستی عمل دار نئے سال کے موقعے پر عزم کریں کہ اگلے چھ ماہ میں ستر فیصد آبادی کی ویکسینیشن کا ہدف حاصل کر لیا جائے گا۔

اس وقت عالمی سطح پر ایمیکرون سے متاثر لوگوں کی تعداد میں گیارہ فیصد فی ہفتہ یعنی چوالیس فیصد ماہانہ کے اعتبار سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اتنی رفتار اب تک کسی بھی کورونا وائرس کی نہیں رہی۔ نصف سے زائد متاثرین یورپی باشندے ہیں۔دنیا کا طبی ڈھانچہ کوویڈ کے پچھلے تھپیڑوں سے ادھ موا ہو چکا ہے۔ اوپر سے یہ تازہ قسم نازل ہو گئی ہے۔ تصور کریں کہ جن ممالک کا صحت ڈھانچہ پہلے ہی سے کمزور ہے ان پر کس قدر دباؤ ہو گا۔ ڈاکٹروں اور نیم طبی عملے پر ایک اور نیا بھاری دباؤ الگ گل کھلائے گا۔ نئے وائرس کے لیے اس سے زیادہ پر مسرت ماحول ممکن نہیں جب چند ممالک نے ضرورت سے زائد ویکسین ذخیرہ کر لی اور بہت سے ممالک اپنی آبادی کو ویکسین لگانے کے لیے پہلی خوراک بھی بمشکل مہیا کر پا رہے ہیں۔ امیر ممالک نے تیسری دنیا بالخصوص افریقی ممالک کو جو ویکسین مفت میں دان کی ہے اس میں سے بھی بیشتر مقدار ایکسپائر ہونے کے قریب ہے۔چنانچہ جنھیں یہ خیرات ملی وہ بھی اسے بلڈوز کر کے گڑھوں میں دبانے پر مجبور ہو رہے ہیں۔

مزید برآں ویکسین کی افادیت کے بارے میں منفی پروپیگنڈہ اور اس کے لیے سوشل میڈیا کا موثر استعمال بھی لاکھوں شہریوں کو شش و پنج کے وائرس میں مبتلا کیے ہوئے ہے۔ اس سے صرف ایک آدمی کنفیوز نہیں ہو رہا بلکہ اس منفی رجحان کے اثرات اس کے پورے خاندان اور اردگرد کے لوگوں پر بھی پڑتے ہیں۔ حالانکہ حقائق یہ بتا رہے ہیں کہ مرنے والوں کی اکثریت اب ان لوگوں پر مشتمل ہے جنھوں نے ویکسین ہی نہیں لگوائی۔ ان میں سے بہت سے وہ بھی ہیں جن کی عقل ٹھکانے پر لانے کے لیے خود کورونا کو زحمت کر کے ان کے جسم میں داخل ہونا پڑا۔ اور اب وہی اینٹی ویکسین لوگ سب سے زیادہ ویکسین نواز بن گئے ہیں۔ دو ہزار بیس میں کورونا سے دنیا بھر میں اٹھارہ لاکھ اور دو ہزار اکیس میں پینتیس لاکھ اموات ہوئیں، مگر یہ وہ اموات ہیں جن کا ریکارڈ موجود ہے۔

تاہم عالمی ادارہِ صحت کو امید ہے کہ دو برس کے تجربات کی روشنی میں دو ہزار بائیس اس عفریت سے مقابلہ کرنے کے لیے زیادہ بہتر پالیسی و تزویراتی ڈھانچہ مہیا کر سکتا ہے۔ بشرطیکہ ریاستیں پہلے سے زیادہ سنجیدگی اختیار کریں اور ویکسین کی دستیابی گزشتہ برس کی نسبت زیادہ سہل اور تیز رفتار ہو۔ ہو سکتا ہے نئے سال میں دنیا کے فیصلہ ساز اور دوا ساز کمپنیاں دیوار پر موٹا موٹا لکھا پڑھنے کے قابل ہو جائیں کہ جب تک آخری آدمی محفوظ نہیں ہو گا تب تک دنیا غیر محفوظ ہی رہے گی۔
سبھی چلتے رہیں گے ساتھ میرے
مگر یہ صرف اندازہ ہے میرا
جاوید صبا

وسعت اللہ خان

بشکریہ ایکسپریس نیوز

کوویڈ اتنی جلدی دفعان ہونے والا نہیں

ویسے تو پاکستان ہمیشہ سے ہی نازک دوراہے پر بتایا جاتا ہے مگر اگلے تین ماہ کے دوران پاکستان واقعی نازک دوراہے پر نظر آ رہا ہے۔ ایک جانب افغان سرحد کی طرف سے ناگہانی آ سکتی ہے تو دوسری جانب سے کوویڈ کا ڈیلٹا ویرینٹ ہمیں گھور رہا ہے۔ یہ بات اپنی جگہ حوصلہ افزا سہی کہ اکانومسٹ جریدے نے پاکستان کو پچھلے ڈیڑھ برس میں کوویڈ مینیجمنٹ کی اپنی مرتب کردہ عالمی فہرست میں حسنِ انتظام کے اعتبار سے سنگا پور اور نیوزی لینڈ کے بعد تیسرے درجے پر رکھا ہے۔ لیکن یہ فہرست ڈیلٹا ویرینٹ کے پھیلاؤ سے پہلے کی ہے۔ پاکستان نے یقیناً اب تک کوویڈ کی تین لہروں کو خوش اسلوبی سے جھیل لیا ہے مگر اب وزیرِ اعظم اور ان کی مینیجمنٹ ٹیم نے ڈیلٹا کی شکل میں چوتھی لہر کی خبر دی ہے جس کے آثار نمودار ہونے شروع ہو گئے ہیں۔ گزشتہ ماہ کے آخر میں کوویڈ متاثرین کی تعداد ہزاروں سے کم ہو کر سیکڑوں میں پہنچنے کے بعد اب پھر ہزاروں میں پہنچ رہی ہے اور جس رفتار سے چوتھی لہر آ رہی ہے اس کے سبب ہر ہفتے متاثرین کی تعداد دوگنی ہونے کی جانب تیزی سے سفر کر رہی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ نئے متاثرین میں سے پچاس فیصد ڈیلٹا ویرینٹ کا شکار ہوئے ہیں۔

کیا ہم واقعی ڈیلٹا کے مقابلے کے لیے تیار ہیں یا گزشتہ تین لہروں کی پسپائی کے سرور میں ہیں ؟ آثار یہی ہیں کہ ہم سرور میں ہیں۔ تمام تر حسنِ انتظام کے باوجود گزشتہ پانچ ماہ کے دوران بائیس کروڑ کی آبادی میں سے صرف پانچ ملین شہریوں کو ہی کسی بھی قسم کی کوویڈ ویکسین کی دو خوراکیں لگ پائی ہیں۔ جب کہ سرکاری ہدف اگلے پانچ ماہ میں سات کروڑ پاکستانیوں کی ویکسینیشن کا بتایا جا رہا ہے۔ موجودہ رفتار سے یہ ہدف حاصل کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ اس دوران اگر ڈیلٹا ویرینٹ کی لہر قابو سے باہر ہونے لگی تو نہ صرف یہ ہدف اور دور جا سکتا ہے بلکہ پچھلی کامیابیوں پر بھی پانی پھر سکتا ہے۔ فرض کریں ویکسینیشن کا ہدف حاصل ہو بھی جائے تب بھی آرام سے بیٹھنے کی گنجائش نہیں۔ کیونکہ یہ تو سب جانتے ہیں کہ ویکسینیشن کوویڈ سے ہونے والی اموات کے مقابلے میں ایک ڈھال کا کام کر رہی ہے۔ البتہ یہ ڈھال کتنے ماہ و سال کے لیے موثر ہے اور اگلی اضافی خوراک ( بوسٹر ) لینے کی ضرورت کتنے عرصے بعد پڑے گی کوئی نہیں جانتا۔

محض اندازے ہیں کہ فلاں ویکسین اتنے ماہ کے لیے موثر ہے اور فلاں ایک سے دو برس تک ہمیں بچا کے رکھے گی اور پھر تیسری ڈوز کی ضرورت پڑے گی۔ یعنی یہ ایک مستقل جنگ ہے جو اگلے کئی برس پوری دنیا کو انتھک لڑنی ہے۔ اور جنگ بھی گھمسان کی ہے۔ ایک نظریہ یہ ہے کہ اگر ستر فیصد آبادی کی ویکسینیشن ہو جائے تو باقی تیس فیصد بھی محفوظ ہو جائیں گے۔ دوسرا نظریہ یہ ہے کہ جب تک ہر انسان کی ویکسینیشن نہیں ہو جاتی تب تک ہم سب خطرے کے دائرے میں رہیں گے۔ اس تناظر میں حالات اور بھی مایوس کن ہیں۔ ترقی یافتہ اور دولت مند ممالک نے تو اپنی کم ازکم پچاس فیصد آبادی کی ویکسینشن مکمل کر لی ہے اور اگلے پانچ ماہ کے دوران وہ سو فیصد ہدف حاصل کرنے کے قریب ہیں مگر بہت سے ترقی پذیر ممالک میں ابھی ویکسینیشن شروع بھی نہیں ہوئی۔ بہت سے ممالک کا دار و مدار عالمی ادارہِ صحت کی کوششوں سے چندے اور خیرات میں ملنے والی ویکسین پر ہے۔

پاکستان جیسے ممالک ایک حد تک تو ویکسین خریدنے کی سکت رکھتے ہیں لیکن ان کی زیادہ تر امید کا محور امداد میں ملنے والی ویکسین کے گرد ہی رہے گا۔ تیز رفتار ویکسینشن کی راہ میں دوسری بڑی رکاوٹ تجارتی مفادات کو ویکسین کے معیار کے پردے میں آگے بڑھانے کی سیاست ہے۔ یعنی امریکا ، یورپی ممالک اور دولت مند عرب ریاستیں صرف اس ویکسینیشن کو تسلیم کرتے ہیں جس میں مغربی و امریکی ویکسین ساز کمپنیوں کی ویکسین استعمال ہو رہی ہے جیسے فائزر ، استرا زینیکا ، موڈرنا ، جانسن اینڈ جانسن وغیرہ۔ جن لوگوں نے چینی یا روسی ویکسین لگوائی ہے اسے مغرب تسلیم نہیں کرتا۔ اس امتیاز کی بنیاد کسی سائنسی ثبوت پر ہے یا یہ مشرق و مغرب کی سیاسی رقابت کی بنیاد پر ہے ؟ جو بھی وجہ ہو مگر اس کی زد میں ایک عام آدمی ہی آ رہا ہے۔ مثلاً میں گزشتہ ہفتے برطانیہ گیا تو وہاں کے صحت حکام نے میرا نادرا کا جاری کردہ ویکسینیشن سرٹیفکیٹ ماننے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ آپ نے چینی ویکسین لگوائی ہے جو ہمارے ہاں رجسٹرڈ نہیں لہٰذا آپ کو اپنے خرچے پر دس دن مخصوص ہوٹل میں قرنطینہ کرنا پڑے گا۔

اگر آپ نے ہماری منظور شدہ ویکسین لگوائی ہوتی تو پھر آپ گھر پر پانچ دن قرنطینہ کر سکتے تھے۔ چنانچہ مجھے ایک ہوٹل کے کمرے میں پہنچا دیا گیا۔  عالمی ویکسینیشن کی راہ میں دوسری اہم رکاوٹ مینوفیکچرنگ رائٹس اور لائسنسگ ہے۔ یعنی ویکسین ساز کمپنیاں ترقی پذیر غریب ممالک کو نہ تو برانڈڈ ویکسین کی مقامی تیاری کا لائسنس دے رہی ہیں اور نہ ہی ان کی ضرورت کے اعتبار سے ویکسین کی کھیپ تیار کر پا رہی ہیں۔ گویا غریب ممالک کو سہہ طرفہ مار پڑ رہی ہے۔ تیسری بڑی رکاوٹ خود وہ عوام ہیں جنھیں مرنا اور دوسروں کو وائرس سے متاثر کرنا تو منظور ہے مگر ویکسین لگوانا قبول نہیں۔ ان میں سے کئی لوگ نہ صرف خود ویکسین لگوانے کے قائل نہیں بلکہ جو لگوانا چاہتے ہیں انھیں بھی بھٹکانے اور گمراہ کرنے کو ثوابِ جاریہ سمجھ رہے ہیں۔

کبھی ویکسین کے حرام حلال ہونے کا سوال اٹھا دیا جاتا ہے تو کبھی اس مبینہ چپ سے ڈر لگتا ہے جو دراصل ویکسین کی آڑ میں ان کے جسم میں داخل کیا جا سکے۔ اس کے بعد دشمن ممالک کی ایجنسیاں اور بل گیٹس جیسے لوگ ان کی ہر سرگرمی پر نظر رکھ سکیں گے۔ بھلے ان کے پلے نظر میں آنے کے لیے کچھ ہو یا نہ ہو۔ جو ان دلائل سے گمراہ نہیں ہو سکتے انھیں یہ کہہ کر ڈرایا جاتا ہے کہ ویکسینیشن سے مردانہ قوت سلب ہو جاتی ہے۔ اس اطلاع پر سب سے زیادہ پریشان ہونے والوں میں نوجوان کم اور ستر برس سے اوپر کے بوڑھوں کی تعداد زیادہ ہے۔ بندہ ان سے پوچھے کہ بھائی صاحب آپ نے ویکسین آنے سے پہلے اس مخصوص شعبے میں کیا کیا تیر چلا لیے جو اب آپ کو اپنی رہی سہی قوت کھونے کا خیال ستائے جا رہا ہے۔ مگر یہ کہانیاں اور تھیوریاں ہمیشہ سے ہیں اور ہمیشہ رہیں گی۔ یہی کہانیاں اور وہمات خاندانی منصوبہ بندی کی مہم اور پولیو ویکسین کے بارے میں بھی پھیلائے جاتے رہے۔ آپ ان لوگوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے البتہ یہ لوگ آپ کا کچھ نہ کچھ ضرور بگاڑ سکتے ہیں اگر آپ کچے کانوں کے مالک ہیں۔

وسعت اللہ خان

بشکریہ ایکسپریس نیوز

کچھ افراد کو کورونا ویکسین کے مضر اثرات کا سامنا کیوں کرنا پڑتا ہے؟

کورونا وائرس کی ویکسین لگوانے کے بعد چند افراد کو وقتی طور پر اس کے مضر اثرات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، جس میں سر درد، تھکن اور بخار کی کیفیت شامل ہے۔ کسی بھی ویکسین سے انسانی جسم میں ردعمل پیدا ہونا ایک عام بات ہے جو مدافعتی نظام کے فعال ہونے کی علامت بھی ہے۔ خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق امریکی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن میں ویکسین چیف ڈاکٹر پیٹر مارکس نے اپنے حوالے سے کہا کہ ویکسین لگوانے کے اگلے دن وہ کسی بھی قسم کی سخت جسمانی سرگرمی میں شرکت کا منصوبہ نہ بنائیں۔ ویکسین کی پہلی خوراک لگوانے کے بعد ڈاکٹر مارکس بھی تھکاوٹ کا شکار ہو گئے تھے۔

ویکسین کے مضر اثرات کا سامنا کیوں کرنا پڑ رہا ہے؟
انسان کے مدافعتی نظام کے بنیادی طور پر دو بازو ہیں۔ جیسے ہی انسانی جسم میں کوئی چیز باہر سے داخل ہوتی ہے تو پہلا بازو فوراً حرکت میں آ جاتا ہے۔ خون کے سفید خلیے اس مقام پر اکھٹے ہو جاتے ہیں جو سوزش کا سبب بھی بنتے ہیں۔ سوزش کے باعث سردی، تھکن، جسم میں درد اور دیگر مضر اثرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مدافعتی نظام میں اس نوعیت کا تیز ردعمل عمر کے ساتھ کمزور ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بڑی عمر کے نوجوانوں کے مقابلے میں چھوٹی عمر کے زیادہ افراد کو ویکسین کے مضر اثرات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ چند اقسام کی ویکسین کے لگوانے سے بھی انسانی جسم میں زیادہ ردعمل رونما ہوا ہے۔ تاہم ہر شخص میں ویکسین کا مختلف ردعمل سامنے آیا ہے۔ اگر ویکسین کی پہلی یا دوسری خوراک کے بعد کسی بھی قسم کا ردعمل سامنے نہیں آیا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ویکسین اثر نہیں کر رہی۔

ویکسین کی خوارک سے مدافعتی نظام کا دوسرا حصہ بھی حرکت میں آ جاتا ہے جو جسم میں اینٹی باڈیز بنا کر وائرس سے حفاظت کرتا ہے۔ تاہم کورونا ویکسین سے ہونے والے تمام مضر اثرات معمول کی بات نہیں ہیں۔ ویکسین کی لاکھوں کی تعداد میں خوراکیں لگنے کے بعد صرف چند ہی سنگین خطرات سامنے آئے ہیں۔ ایسڑا زنیکا اور جانسن اینڈ جانسن کی ویکسین لگوانے والوں میں سے چند فیصد نے خون میں پھٹکیاں بننے کی شکایت کی ہے۔ تاہم نگران اداروں نے کہا تھا کہ ویکسین نہ لگوانے کے خطرات سے اس کے فوائد کہیں زیادہ ہیں۔ کچھ لوگوں کو ویکسین کے باعث الرجک ری ایکشن کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے۔ اسی لیے ویکسین لگوانے کے 15 منٹ بعد تک سنٹر میں انتظار کرنا چاہیے تاکہ کسی ری ایکشن کی صورت میں فوراً نمٹا جا سکے۔ حکام اس بات کا بھی تعین کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کیا دل کی وقتی سوزش فائزر اور موڈرنا جیسی ایم آر این اے ویکسین کا مضر اثر ہے۔ امریکی حکام نے فی الحال دل کی سوزش کی وجہ ویکسین نہیں قرار دی تاہم ان کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے سامنے آنے والی رپورٹس کو مانیٹر کیا جا رہا ہے۔

بشکریہ اردو نیوز

کورونا ویکسین کی دونوں خوراکوں کے درمیان وقفہ نقصان دہ نہیں ہے

کورونا ویکسین کی دوسری خوراک لینے میں تاخیر نہ صرف خوراک کی فراہمی کو جسم میں زیادہ وسیع پیمانے پر تقسیم کرنے کی اجازت دیتی ہے بلکہ دوسری خوراک دینے میں زیادہ وقت کا وقفہ حفاظتی قوت میں بھی اضافہ کرتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق ویکسین کی دونوں خوراکوں کے درمیان وقفہ نقصان دہ نہیں بلکہ فائدے مند ثابت ہوا ہے۔ نئی تحقیق بتاتی ہے کہ جب دوسری ویکسین دیر سے لگائی جاتی ہے تو وائرس سے لڑنے کے لئے تیار ہونے والی اینٹی باڈیز زیادہ ہو جاتے ہیں۔ ویکسین کی محدود فراہمی اور ویکسین کے منتظر ممالک کے لوگ تذبذب کا شکار ہیں اور مختلف افواہیں گردش کر رہی ہیں ۔ پہلی اور دوسری ویکسین ڈوز کے درمیان وقفہ کو دوگنا یا تین گنا کرنا بہتر ہے۔ سائنسدانوں نے بھی اب اس کی تصدیق کر دی ہے۔ سنگاپور میں ویکسین کی درمیانی مدت کے پہلے تین ہفتوں کو اب چھ سے آٹھ ہفتے کر دیا گیا ہے۔ اس کا مقصد اگست تک پوری اٹھارہ سے اوپر عمر کی آبادی کو ویکسین کی کم از کم ایک خوراک دینا ہے۔

انڈیا میں بھی ویکسین کی پہلی اور دوسری خوراک کے درمیان وقفہ کو 12 سے 16 ہفتوں تک کر دیا گیا ہے۔ 2020 میں جب تک ویکسینیشن شروع ہوئی، اس وقت تک خوراک میں طویل وقت کے وقفے کی یقین دہانی کے لئے کوئی ثبوت موجود نہیں تھا۔ اس کے بعد ممالک نے سب سے زیادہ خطرے والی آبادی کو ویکسین کی خوراک دینی شروع کی اور ان کی دوسری خوراک کے انتظار کو لیکر گارنٹی دی۔ برطانیہ نے سب سے پہلے ان رکاوٹوں کو 2020 کے آخر میں ایک بڑے پیمانے پر ختم کیا۔ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ پہلا شاٹ مدافعتی نظام کو متاثر کرتا ہے جس کی وجہ سے اس وائرس کے خلاف حفاظتی اینٹی باڈیز بننا شروع کر دیتے ہیں۔ اس ردعمل کو جتنا لمبا اور پختہ ہونے دیا جاتا ہے ، دوسرے بوسٹر شاٹ کا رد عمل اتنا ہی بہتر ہوتا ہے جو ہفتوں یا مہینوں بعد آتا ہے۔ دوسری طرف تیسری لہر خصوصی طور پر بچوں کو متاثر کرے گی۔ وہیں اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ COVID-19 انفیکشن والے زیادہ تر بچوں کو تیسری لہر میں شدید بیماری ہو گی۔

انتباہ کیا گیا ہے کہ دوسری لہر ختم ہونے کے بعد اگر ہم کوویڈ کے خلاف ویکسین مناسب طرز عمل پر جاری نہیں رکھتے ہیں تو تیسری لہر ممکن ہے کہ باقی غیر استثنیٰ افراد کو بھی متاثر کر دے۔ یونیسیف (UNICEF ) کی ایک رپورٹ کے مطابق جنوری 2020 سے لے کر مارچ 2021 تک 100 ممالک سے COVID-19 کے اعداد و شمار مرتب کیے گئے، اس وقت بچوں کے 80 ملین کیسوں میں سے 11 ملین (13 فیصد) بچوں میں کورونا کے اثرات پائے گئے تھے۔ مزید یہ کہ 78 ممالک میں 6,800 سے زیادہ بچے اور نو عمر نوجوان COVID-19 کی وجہ سے فوت ہو گئے۔ یکم جنوری سے 21 اپریل کے دوران اکٹھے کیے گئے سرکاری اعداد و شمار سے انکشاف ہوا ہے کہ کچھ ممالک میں کوویڈ کے 5.6 ملین تصدیق شدہ کیسوں میں سے تقریباً 12 فی صد 20 سال سے کم عمر کے افراد پائے گئے ہیں۔ بچوں میں ملٹی سسٹم سوزش سنڈروم انفیکشن کا اثر ہو سکتا ہے۔ کچھ ممالک میں ویکسین کو کسی بھی 18 سال سے کم عمر افراد میں استعمال کے لئے منظور نہیں کیا گیا ہے۔

جن لوگوں کو ذیابیطس ، ہائی بلڈ پریشر ، کینسر ، دل کی بیماری ، گردوں کی بیماری ، جگر (لیور کی بیماری) ، تھائیرائڈ ، امیونوس پریسو جیسی بیماری ہوتی ہے ان کو ویکسین ضرور لینا چاہئے کیونکہ ان پر وائرس کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کو ویکسین لیتے وقت بتانا چاہئے کہ وہ کیا دوائیں لے رہے ہیں۔ تاہم جس شخص کو ویکسین کی پہلی خوراک سے الرجی ہوئی ہو اسے اس کی دوسری خوراک نہیں لینی چاہئے۔ ایسے لوگ جو بخار ، کھانسی ، نزلہ ، بخار وغیرہ سے دوچار ہیں وہ اس وقت تک ویکسین نہیں لیں جب تک کہ وہ مکمل طور پر ٹھیک نہ ہو جائیں۔ جن لوگوں کے خون کے بہاؤ میں گڑبڑ ہے جیسے کہ جسم میں پلیٹ لیٹس کا کم ہونا یا اگر وہ کوئی ایسی دوا لے رہے ہیں جو خون کو پتلا کرتی ہے تو انہیں اس بارے میں ویکسین لینے سے پہلے ہیلتھ افسر کو آگاہ کرنا چاہئے۔

رانا حیات

بشکریہ دنیا نیوز

سنہ 2020 میں ویکیپیڈیا پر سب سے زیادہ کیا پڑھا گیا؟

ویکیپیڈیا نے رواں برس 2020 کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے 10 مضامین کی فہرست جاری کر دی ہے۔ رواں برس ویکیپیڈیا پر عالمی وبا کورونا وائرس کو ہی سب سے زیادہ پڑھا گیا دوسرا نمبر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا رہا۔

ویکیپیڈیا پر 2020 میں سب سے زیادہ پڑھے جانے والے مضامین

عالمی وبا کوویڈ 19
رواں برس ویکیپیڈیا پر سب سے زیادہ پڑھے جانے والے مضامین میں عالمی وبا کا نام سرفہرست رہا، کورونا وائرس کے پیج کو 8 کروڑ 30 لاکھ 40 ہزار 504 بار سے زائد بار پڑھا گیا۔

ڈونلڈ ٹرمپ
ویکیپیڈیا پر سال 2020 میں سب سے زیادہ پڑھے جانے والے مضامین میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا نمبر دوسرا رہا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پیج کو 5 کروڑ 54 لاکھ 72 ہزار 791 افراد نے پڑھا۔

اموات 2020
اس پیج کا رخ کرنے والوں کی تعداد 4 کروڑ 22 لاکھ 62 ہزار 147 تھی اس لحاظ سے یہ فہرست میں تیسرا نمبر لینے میں کامیاب رہا۔

کملا ہیرس
امریکی نائب صدر منتخب ہونے والی کملا ہیرس کے ویکیپیڈیا پیج پر 2020 میں آنے والے لوگوں کی تعداد 3 کروڑ 83 لاکھ 19 ہزار 706 رہی۔

جوبائیڈن
نومنتخب امریکی صدر جوبائیڈن کے ویکیپیڈیا پیج کا رخ کرنے والوں کی تعداد 3 کروڑ 42 لاکھ 81 ہزار 120 رہی۔

بشکریہ روزنامہ جنگ

کرونا وائرس کی نئی قسم میں نیا کیا ہے؟

کرونا وائرس کی نئی قسم کے بارے میں عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) کہنا ہے کہ انہیں ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ حالیہ دنوں میں رپورٹ ہونے والی کرونا وائرس کی نئی قسم زیادہ مہلک یا تیزی سے پھیلنا والا وائرس ہے۔ کرونا وائرس کی نئی قسم کے کیسز برطانیہ کے جنوبی حصے اور دارالحکومت لندن سے رپورٹ ہوئے تھے جس کے بعد متعدد ممالک نے برطانیہ سے آنے والی پروازوں پر پابندی لگا دی ہے۔ برطانیہ میں سامنے آنے والی کرونا وائرس کی نئی شکل جسے ‘وی یو آئی 202012/01’ کا نام دیا گیا ہے۔ اس کی تشخیص جنوبی برطانیہ کی کاؤنٹی کینٹ میں رواں ماہ 13 دسمبر ہوئی تھی۔ ابتدائی اندازوں میں سائنس دان یہ اندیشہ ظاہر کر رہے تھے کہ وی یو آئی پہلے سے موجود کرونا وائرس کے مقابلے میں 70 فی صد تیزی سے پھیلتا ہے۔ برطانیہ کے علاوہ جنوبی افریقہ میں بھی کرونا وائرس کی ایک نئی قسم کی تشخیص ہوئی ہے۔ تاہم عالمی ادارۂ صحت کے مطابق برطانیہ اور جنوبی افریقہ سے رپورٹ کیے جانے والے وائرس کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے اور وہ ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔

عالمی ادارۂ صحت کی تیکنیکی امور کی سربراہ ماریا وین کرخوو کے مطابق دونوں ممالک میں سامنے آنے والے وائرس میں یہ قدر مشترک ہے کہ وہ ایک وقت میں سامنے آئے ہیں۔ علاوہ ازیں ڈبلیو ایچ او کے مطابق اس نئی قسم کے 9 کیسز ڈنمارک جب کہ ایک، ایک نیدرلینڈ اور آسٹریلیا میں رپورٹ ہوئے ہیں۔ دوسری طرف ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس ایڈہینم گیبراسس کا کہنا ہے کہ وہ سائنس دانوں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں تاکہ یہ جان سکیں کہ کس طرح سے جینیاتی تبدیلیاں کرونا وائرس پر اثر انداز ہو سکتی ہیں۔  دریں اثنا میں ڈبلیو ایچ او کے ہیلتھ ایمرجنسی پروگرام کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر مائیکل ریان نے کہا ہے کہ اس وقت تک اس بارے میں شواہد موجود نہیں ہیں کہ یہ وائرس اپنی شدت میں تبدیلی لائے گا۔ اُن کے بقول تشخیص اور ویکسین کے معیار پہلے سے بہتر ہو رہے ہیں۔

کرونا کی نئی قسم کیا زیادہ مہلک ہے؟
برطانیہ سے رپورٹ کیے جانے والے وی یو آئی میں کرونا وائرس کے مقابلے میں لگ بھگ 23 تبدیلیاں دیکھی گئی ہیں۔ جن میں پروٹین میں اضافہ بھی شامل ہے جو کہ وائرس کے انسانی جسم میں داخل ہونے اور پھیلانے کا سبب ہے۔ برطانیہ کے وزیرِ صحت میٹ ہان کوک کا گزشتہ ہفتے کہنا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ جنوب مشرقی برطانیہ اور لندن میں وی یو آئی کی وجہ سے کرونا وائرس زیادہ تیزی سے پھیل رہا ہو۔ اس بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ ان کے بقول ہو سکتا ہے کہ وی یو آئی حال ہی میں منظور ہونے والی ویکسین کے خلاف مزاحمت کرے۔ برطانیہ کے چیف میڈیکل افسر کرس وٹی کا کہنا تھا کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ وی یو آئی کی وجہ سے زیادہ اموات واقع ہوتی ہیں۔ ان کے بقول اس بارے میں تحقیق جاری ہے۔

ویکسین وائرس کی نئی قسم کے خلاف کار آمد ہو گی؟
برطانوی سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یہ پتا لگانے میں کہ کرونا ویکسین، وی یو آئی کے خلاف بھی مؤثر ہو گی یا نہیں، تحقیق میں دو ہفتے لگ سکتے ہیں۔  تاہم وبائی امراض کے ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ پُر امید ہیں کہ کرونا وائرس کی تبدیل شدہ قسم ویکسین کی افادیت کو کم نہیں کرے گی۔ جو کہ جسم میں اینٹی باڈیز بنانے کے لیے تیار کی گئی ہے۔

کرونا کی نئی قسم سے بچوں کو کتنا خطرہ ہے؟
برطانوی خبر رساں ‘رائٹرز’ کے مطابق سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی نئی قسم سے بچوں کے بھی اتنے ہی متاثر ہونے کے خدشات ہیں جتنے کہ بڑی عمر کے افراد ہو رہے ہیں۔ واضح رہے کہ کرونا وائرس کی ابتدائی قسم سے بڑی عمر کے افراد، بچوں کے مقابلے میں زیادہ متاثر ہوتے رہے ہیں۔ برطانیہ میں اس نئے وائرس پر تحقیق کرنے والے ادارے ‘نر وی ٹیگ’ سے منسلک اور امپیریل کالج لندن سے وابستہ نیل فرگوسن کا کہنا ہے کہ یہ خدشات موجود ہیں کہ وائرس سے بچوں کے متاثر ہونے کی شرح زیادہ ہو۔ نری وی ٹیگ سے ہی منسلک وینڈی بارکلے کا کہنا ہے کہ یہ وائرس سامنے آنے کے بعد خدشہ ہے کہ اس سے زیادہ بچے متاثر ہوں گے۔

بشکریہ وائس آف امریکہ

شدید الرجی کے مریض کورونا ویکسین لے سکتے ہیں؟

وزارت صحت کے ترجمان ڈاکٹرمحمد العبدالعالی نے کہا ہے کہ وہ افراد جنہیں شدید الراجی کی شکایت رہتی ہے انہیں ویکسین لینے کی سفارش نہیں کریں گے۔ ویکسین لینے سے قبل ڈاکٹر کو اپنی حالت کے بارے میں آگاہ کریں۔ ویب نیوز اخبار 24 کے مطابق ترجمان وزارت صحت نے پریس کانفرنس کے دوران ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ وہ افراد جنہیں کھانے وغیرہ سے معمولی سی الرجی کی شکایت ہو انہیں ویکسین دی جاسکتی ہے، البتہ الرجی کے وہ مریض جن کی حالت نازک ہو جاتی ہے اور انہیں الرجی کی وجہ سے ہسپتال میں داخل کرانا پڑتا ہے یا وہ ہمیشہ اس مرض سے بچاؤ کے لیے اینٹی الرجی کے انجکشن لیتے ہیں ایسے مریضوں کے لیے ہم ویکسین لینے کی سفارش نہیں کر سکتے۔

دوسری جانب ویب نیوز عاجل کے مطابق ڈاکٹر عبدالعالی نے مزید کہا وائرس کے خلاف جو ویکسین دی جارہی ہے اس کی دوسری خوراک لینا انتہائی اہم ہے کیونکہ دوسری خوراک کے بعد ہی جسم اس مرض کے خلاف اینٹی باڈیز بنا کر قوت مدافعت پیدا کرتا ہے۔ دوسری خوراک کے حوالے سے ڈاکٹر عبدالعالی کا کہنا تھا کہ پہلی ویکسین کے 21 دن بعد دوسری خوراک دی جاتی ہے۔ وزارت کی جانب سے مقررہ صحتی ایپ پر رجسٹر کرنے کے بعد پروگرام کے مطابق دوسری خوراک کے لیے بھی شیڈول جاری کیا جاتا ہے۔ واضح رہے سعودی فوڈ اینڈ ڈرگ اتھارٹی نے مملکت کے لیے ’فائزر اور بائیو این ٹک کی ویکسین کی منظوری دی تھی۔ ویکسین لگانے کے لیے صحتی ایپ پر رجسٹریشن کا آغاز کیا گیا تھا جس کے تحت اب تک چار لاکھ کے قریب افراد نے خود کو رجسٹر کروایا ہے۔

بشکریہ اردو نیوز

کورونا وائرس کی ویکسین کی فراہمی، کئی بین الاقوامی تحقیقاتی کمپنیاں میدان میں

کورونا وائرس کی ویکسین کی فراہمی کے لیے کئی بین الاقوامی تحقیقاتی کمپنیاں میدان میں ہیں۔ ان ویکسینز میں ایک امریکی کمپنی فائزر اور جرمنی کے ادارے بائیو این ٹیک کے اشتراک سے تیار کی گئی ہے۔ دوسری امریکا کے ہی ادارے ماڈرنا اور تیسری برطانوی یونیورسٹی آکسفورڈ نے دوا ساز کمپنی آسٹرا زینیکا کے ساتھ مل کر بنائی ہے۔ برطانیہ میں کل لگائی جانے والی کورونا وائرس ویکسین سے الرجی کے 2 ممکنہ کیسز سامنے آئے ہیں۔ برطانوی ہیلتھ ریگولیٹری اتھارٹی نے ہدایت دی ہے کہ سخت الرجی کی ہسٹری والوں کو فی الحال فائزر ویکسین نہیں لینی چاہیے۔ برطانوی میڈیا رپورٹس کے مطابق گزشتہ روز ویکسین لگوانے والوں میں سے دو افراد پر ویکسین نے الرجک ری ایکشن کیا۔ ویکسین لگوانے والے دونوں افراد کا تعلق طبی عملے سے ہے اور ری ایکشن کا شکار دونوں افراد کو پہلے سے الرجی کی شکایت تھی۔

بشکریہ روزنامہ جنگ

کورونا ویکسین کب اور کیسے ملے گی؟

دواساز کمپنیوں فائزر انک، بائیو این ٹیک ایس ای اور موڈرنا انک نے کورونا وائرس کی ویکسین سے متعلق تجربات کے اعدادوشمار جاری کر دیے ہیں، جن میں بتایا گیا ہے کہ ویکسین بیماری سے بچانے میں 95 فیصد موثر ہے جبکہ دوا ساز کمپنی آسترا زینکا نے رواں ہفتے کہا تھا کہ اس کی ویکسین 90 فیصد تک موثر ثابت ہو سکتی ہے۔ اگر آنے والے ہفتوں میں ان میں سے کسی ویکسین کی منظوری دی جاتی ہے تو دواساز کمپنیوں کے مطابق فوراً ہی ویکسین کی فراہمی کا سلسلہ شروع کر دیا جائے گا اور حکومتیں اس کا فیصلہ کریں گی کہ کب کس کو اور کیسے دی جائے گی۔

دواساز کمپنیاں کب ویکسین کی فراہمی شروع کریں گی؟
فائزر، موڈرنا اور آسترا زنکا نے پہلے ہی ویکسین بنانا شروع کر دی ہے۔ فائزر کی جانب سے کہا گیا ہے کہ وہ 25 ملین افراد کے لیے ویکسین فراہم کرے گی۔  موڈرنا 10 ملین افراد اور آسترا زنکا 100 ملین سے زائد افراد کو ویکسین فراہم کرے گی۔ امریکی محکمہ دفاع اور سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونشن ملک میں ویکسین کی فراہمی کا انتظام سنبھالیں گے۔ ممکنہ طور پر دسمبر کے وسط میں 6.4 ملین ویکیسن کی خوراکیں ابتدائی طور پر جاری ہوں گی۔ برطانوی محکمہ صحت کے حکام جلد سے جلد منظور شدہ ویکسین کے لانے کا ارادہ رکھتے ہیں، توقع کی جا رہی ہے کہ دسمبر میں ویکسین متعارف کروائے۔ یورپ میں یہ ہر ملک پر منحصر ہے کہ وہ ویکسین کی فراہمی کب شروع کرے گا۔

امریکہ میں ویکسین کن کے لیے دستیاب ہو گی؟
امریکی ادارے سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول کا کہنا ہے کہ فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن سے اجازت ملنے کے بعد سب سے پہلے ویکسین 2.1 کروڑ طبی کارکنوں اور نرسنگ ہومز کے 30 لاکھ رہائشیوں کو دی جائے گی۔ اس کے بعد ان افراد کو ویکسین دی جائے گی جو گھروں سے کام نہیں کر سکتے، اسی طرح کورونا وائرس کے شدید متاثرہ مریضوں کو بھی ترجیج دی جائے گی۔ امریکی محکمہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ ویکسین تمام شہریوں کے لیے فارمیسیوں اور کلینکس میں اپریل سے دستیاب ہو گی۔ یہ ابھی واضح نہیں ہے کہ کب بچوں کے لیے کورونا وائرس کی ویکسین دستیاب ہو گی تاہم فائزر اور بائیو این ٹیک نے 12 سال کی عمر کے بچوں میں ویکسین کی ٹیسٹنگ کا عمل شروع کیا ہے۔

دیگر ممالک میں ویکسین کب تک دستیاب ہو گی؟
یورپی یونین، برطانیہ، جاپان، کینیڈا اور آسٹریلیا ویکسین کی منظوری سے متعلق کارروائی کا عمل تیز کر رہے ہیں۔ رواں برس آسترا زینکا کی بہت ساری خوارکیں برطانیہ پہنچنے کی توقع کی جا رہی ہے۔ برطانیہ میں صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ اگر ویکسین منظور ہوتی ہے تو دسمبر میں لوگوں کو ویکسین لگانا شروع کر دیں گے۔ بہت سے ممالک کا کہنا ہے ویکسین پہلے عمر رسیدہ افراد، فرنٹ لائن ورکرز اور شدید متاثرہ افراد کو دی جائے گی۔ اگلے سال کے آغاز میں اٹلی، بلغاریہ اور جرمنی میں فائزر اور بائیو این ٹیک کی جانب سے ویکسین کی فراہمی ممکن ہو سکے گی۔

ترقی پذیر ممالک میں ویکسین کی دستیابی کب تک؟
عالمی ادارہ صحت کی سربراہی میں ویکسین کی تیاری کے لیے بنائے گئے پلیٹ فارم کوویکس اور گاوی ویکسین گروپ امیر ممالک اور فلاحی اداروں سے غریب ممالک کے لیے ویکسین خریدنے اور مارکیٹ تک پہنچانے کے لیے فنڈز اکھٹے کر رہے ہیں دونوں اداروں نے اب تک دو بلین ڈالرز اکھٹے کیے ہیں۔ ان کا پہلا ہدف غریب ممالک کے تین فیصد افراد کو ویکسین دینا ہے جس کے بعد یہ 20 فیصد افراد کو ویکسین دیں گے۔ کوویکس اور گاوی نے آسترا زینکا سے ویکسین خریدنے کا ایک عارضی معاہدہ کیا ہے۔ آسترا زینکا کی ویکسین کے لیے فائزر کی ویکسین جیسا الٹرا کولڈ سٹوریج کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ابھی یہ واضح نہیں لیکن توقع ہے کہ 2021 میں جنوب مشرقی ایشیا اور افریقی ممالک میں یہ ویکسین یا تو مفت یا بہت ہی کم قیمت میں دستیاب ہو جائے گی۔

قیمتوں پر بات چیت
ویکسین سازوں اور حکومتوں نے مختلف قیمتوں پر بات کی ہے، جن میں سے تمام کو عوام کے علم میں نہیں لایا گیا ہے۔ حکومتوں نے کچھ ڈالرز سے لے کر 50 ڈالر تک دوا ساز کمپنی ایسٹرا زینیکا کی ایک خوارک اور فائزر کی دو خوراکوں کے لیے ادا کیے ہیں۔ بہت سے ممالک کا کہنا ہے کہ ان کے شہریوں کی ویکسین کے لیے حکومت پیسے دے گی۔

بشکریہ اردو نیوز

دنیا ایک بار پھر کورونا کی لپیٹ میں

پانچ کروڑ سے زیادہ افراد دنیا بھر میں کورونا وائرس سے متاثر ہو چکے ہیں۔ دوسری لہر میں اب تک 7.2 فیصد کا اضافہ ہو چکا ہے۔ اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ متاثر امریکا، میکسیکو، برطانیہ، برازیل، فرانس، جرمنی اور ہندوستان وغیرہ ہیں۔ پاکستان میں روزانہ کے متاثرین تین ہزار سے زیادہ ہو چکے ہیں۔ امریکا، برطانیہ اور روس میں ویکسین کی دریافت ہوئی ہے۔ اس وقت درست اعداد و شمار بتانا مشکل ہے اس لیے کہ تعداد میں تیزی سے روزانہ اضافہ ہو رہا ہے۔ موڈرینا کمپنی نے اعلان کیا ہے کہ یہ ویکسین 95 فیصد کارآمد ہے، یہ وائرس کو ختم کرے گی۔ فائزر اور جانسن اینڈ جانسن امریکی کمپنیوں نے بھی ویکسین بنا لی ہے، یہ 94.5 فیصد کامیابی کا دعویٰ کیا ہے۔ ایک کمپنی 22 ملین ویکسین فراہم کر سکتی ہے جب کہ دوسری 50 ملین ویکسین فراہم کر سکتی ہے۔

امریکی حکومت نے 1.1 ملین ویکسینز خریدنے کا اعلان کیا ہے۔ 1.1 ملین ویکسینز امریکا لینے کے بعد دوسرے ملکوں کو مل سکتی ہے۔ امریکا میں ایک روز میں ایک لاکھ لوگ متاثر ہوئے۔ روسی سائنسدان نے ایسی ویکسین دریافت کی ہے جو اینٹی باڈی پلازمہ 24 گھنٹے میں بنا سکتی ہے اور بھی کئی ملکوں کے سائنسدانوں نے ویکسین اور اینٹی باڈیز کی دوا دریافت کی ہے۔ شروع میں چین، اٹلی، اسپین اور ایران زیادہ متاثر ہوئے تھے جب کہ دوسری لہر میں ایسا نہیں ہے۔ وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے پی ٹی آئی کے جلسے روک دیے ۔ جب انتخابی مہم ختم ہوئی تو یہ اعلان کیا۔ جن ملکوں نے اسے اہمیت نہیں دی یا مذاق کے طور پر دکھایا چھپایا وہیں زیادہ پھیلا۔ جیساکہ امریکا، اٹلی، اسپین، بھارت، میکسیکو، برازیل، برطانیہ اور فرانس وغیرہ۔ جہاں احتیاط کی گئی وہاں رک گیا۔

جیساکہ بھوٹان، نیپال، چین، کوریا، ویتنام، کمبوڈیا، برما، لاؤس، یونان اور کچھ افریقی ممالک۔ جن کے پاس وسائل کم ہیں انھوں نے احتیاط کی اور روک لیا۔ جن کے پاس بہت وسائل ہیں، ایٹم بم بھی ہیں مگر کورونا کو روک نہیں پائے۔ ویسے تو وائرس خطہ، رنگ و نسل، مذہب، طبقہ اور زبان سے بالاتر ہے، کسی پر بھی حملہ آور ہو سکتا ہے، مگر ساتھ ساتھ طبقاتی بھی ہے۔ وہ ایسے جیسا کہ امریکا میں سیاہ فام لوگوں میں زیادہ پھیلا۔ اس لیے کہ وہ پسماندہ ہیں، غذا کی کمی ہے، بہتر ماحول میسر نہیں، تحفظات کا انتظام نہیں۔ چونکہ سیاہ فام سفید فاموں کے مقابلے میں غذائی قلت کا شکار ہیں، اس لیے کہ آمدنی اور وسائل کم ہیں۔ چونکہ بھرپور غذا حاصل کرنے سے قاصر ہیں اس لیے اینٹی باڈی یعنی قوت مدافعت کی کمی ہے۔ اس کے باعث اموات زیادہ ہوئیں۔ یہی صورتحال دنیا بھر میں ہے۔

پاکستان، ہندوستان، برازیل، میکسیکو اور برطانیہ وغیرہ میں ہے۔ مرنے والوں میں غریب، محنت کش اور پسماندہ لوگ قرنطینہ میں رہتے ہوئے غذائیت سے بھرپور کھانا نہیں کھا سکتے ہیں اس لیے ان میں قوت مزاحمت بہتر طور پر پیدا نہیں ہوتی ہے اور وہ وائرس کو شکست بھی نہیں دے سکتے ہیں۔ محنت کش اگر کورونا سے بچ جاتے ہیں تو پھر بھوک کے شکار ہوکر مر جاتے ہیں۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے مطابق رواں سال کی دوسری سہ ماہی میں ہی تیس کروڑ محنت کشوں کو اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھونا پڑا۔ اس سے قبل صرف سال کے پہلے تین ماہ میں تیرہ کروڑ لوگ اپنی نوکریوں سے فارغ کر دیے گئے۔ اس طرح غریب ممالک کے تقریباً 1.8 ارب غیر رسمی مزدوروں کو لاک ڈاؤن اور اس کے بعد پیدا ہوئی صورتحال کی وجہ سے غربت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ عالمی بینک کے مطابق ترقی یافتہ ممالک کی معیشت اس سال کے اختتام تک 7 فیصد تک سکڑ جائے گی اور مجموعی طور پر عالمی معیشت 5.2 فیصد تک سکڑ سکتی ہے، جب کہ زیادہ تر ممالک کی معیشتیں کساد بازاری کی لپیٹ میں رہیں گی۔

معیشتوں کی اس قدر ابتر صورتحال کے سب سے زیادہ بھیانک اثرات بھی محنت کش طبقے پر ہی پڑیں گے جو پہلے ہی ابتر صورتحال سے دوچار ہے۔ دوسری طرف وبا کی شروعات پانچ مہینوں میں صرف امریکی ارب پتیوں کی کل دولت میں 6.37 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے۔ جو دن بہ دن بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ آن لائن تعلیم یا مختلف اجناس کی آن لائن کھپت، کورونا وبا کے دوران بھی ان سرمایہ داروں نے ہر وہ حربہ استعمال کیا ہے جس سے ان کی دولت میں اضافہ ہو سکے۔ دولت میں اضافے کی یہ ہوس اس قدر شدت اختیار کر چکی ہے کہ آج ہمارا ایکو سسٹم بھی اس کی زد میں آچکا ہے۔ چین سے جس وبا کا آغاز ہوا وہ محض کوئی حادثہ نہ تھا بلکہ یہ فطرت میں پیدا کیے گئے بگاڑ ہی کا نتیجہ تھا جس کا خمیازہ آج پوری دنیا کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ پاکستان میں ایک ہفتہ میں 5 گنا کورونا کے متاثرین کا اضافہ ہوا ہے۔

عمران خان نے ہزارہ، حافظ آباد اور جی بی کے دورے کے بعد یعنی اپنا سیاسی دورہ مکمل کر کے اب جلسوں کے خاتمے کا اعلان کیا ہے۔ اب اگر حزب اختلاف جلسے کرنے جا رہی ہے تو وہ بھی جرم ہے۔ سوئٹزرلینڈ میں مزید 12 ہزار 839 افراد متاثر ہوئے۔ سوئیڈن کے حکام نے کورونا وائرس کے باعث سماجی تقریبات میں لوگوں کی تعداد کو 300 سے کم کر کے 8 کرنے کا اعلان کیا ہے۔ جنوبی کوریا میں 11 مزید امریکی فوجیوں کا ٹیسٹ مثبت آیا۔ برطانوی وزیر صحت نے کہا کہ حکومت ویکسین کی دستیابی کے بعد اسے لوگوں تک پہنچانے کے لیے منصوبے پر کام کر رہی ہے۔ بھارت کی سیاسی جماعت کانگریس کے مرکزی رہنما احمد پٹیل بھی وائرس کا شکار ہو گئے، یہ اعداد و شمار 19 نومبر 2020 تک کے ہیں۔ بھارت میں متاثرین کی تعداد 80 لاکھ 45 ہزار تک جا پہنچی ہے جب کہ مزید 447 اموات کے  بعد مجموعی ہلاکتیں ایک لاکھ 30 ہزار 109 ہو گئیں۔

امریکا میں متاثرین کی تعداد ایک کروڑ تیرہ لاکھ سے تجاوز کر گئی۔ جب کہ 2 لاکھ 51 ہزار افراد لقمہ اجل ہو چکے ہیں۔ برازیل میں متاثرین افراد کی تعدد 58 لاکھ 63 ہزار سے بڑھ گئی ہے۔ اب تک ایک لاکھ 65 ہزار 800 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ آسٹریا میں لاک ڈاؤن کا دوسرا مرحلہ، سعودی عرب کے علاقے نجران میں دوبارہ پابندیاں لگائی گئی ہیں۔ دنیا بھر میں کورونا وائرس سے 13 لاکھ 32 ہزار افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ کسی زمانے میں ٹی بی کے مرض کو لاعلاج قرار دیا جاتا رہا مگر اب اس کا باقاعدہ علاج ہوتا ہے۔ کینسر کا بھی علاج ہو رہا ہے مگر دھن والے کروا سکتے ہیں۔ اب بھی پولیو کی معذوریت سے بچانے کی دوا کے بجائے اسے نسل کو بڑھانے سے روکنے کی دوا بعض لاعلم حضرات قرار دیتے ہیں۔ کورونا کو بھی بہت سے لوگ اور حکمران اسے خطرناک نہیں سمجھتے اور مذاق اڑاتے ہیں۔ ہر دور میں ایسے لوگ ہوتے ہیں جو بیماریوں کے علاج کو فضول سمجھتے ہیں۔

ابوبکر الرازی جو فادر آف میڈیسن بھی کہلاتے ہیں جب چیچک کی دوا دریافت کی تو انھیں حکمرانوں نے جیل میں یہ کہہ کر قید کر دیا کہ چیچک کی تو بڑھیا ہوتی ہے اس نے کہاں سے دوا نکال لی؟ بیماری ہو، وبا ہو، ماحولیات ہو یا جنگ، ہر سانحے میں پیداواری قوتیں، محنت کش اور شہری کی اموات زیادہ ہوتی ہیں۔ اس وقت احتیاط سب سے بڑا علاج ہے۔ یونان اور مشرق بعید کے ممالک بہتر احتیاط کرنے کی وجہ سے کورونا کم پھیلا ہے۔ یہ عمل قابل تقلید ہے۔ یونان کی حزب اختلاف کی تجویز اور حکومت کی جانب سے ایک حد تک عمل کرنے پر بہتر نتائج آئے ہیں۔ انھوں نے پہلے مرحلے میں کوئی لاک ڈاؤن نہیں کیا۔ مل، فیکٹریاں، کارخانے، دکانیں سب کھلی رہیں، مگر فیکٹریوں میں ایک شفٹ میں 35 افراد کو کام کرنے کی اجازت دی تھی۔ ہر شفٹ کے ساتھ ایک ڈاکٹر ورلڈ ہیلتھ کے احکامات پر مکمل عمل کیا۔ اس سے بہتر نتیجہ نکلا۔

زبیر رحمٰن

بشکریہ ایکسپریس نیوز