ایردوان کی ثابت قدمی

یہ 16 ستمبر 1998 کی بات ہے ترک بری فوج کے سربراہ جنرل اتیلا آتش نے ترکی اور شام سے ملحقہ سرحدی علاقے حطائے کا دورہ کرتے ہوئے اس وقت شام میں مقیم دہشت گرد تنظیم ’’پی کے کے‘‘ کے سرغنہ عبداللہ اوجالان، جو ترکی کے اندر دہشت گرد کارروائیوں کو جاری رکھے ہوئے تھا، کو متنبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے اور شام کے اندر اس دہشت گرد کے خلاف کارروائی کرنے کے علاوہ کوئی اور چارہ کار باقی نہیں بچا ہے۔ ترک بری فوج کے کمانڈر انچیف کی دھمکی نے فوراً اپنا اثر دکھایا اور شام نے چند روز کے اندر اندر اوجالان کو مجبوری کے تحت ملک سے نکال باہر کیا اور ترکی نے شام پر چڑھائی کرنے کا جو فیصلہ کیا تھا اس کو ملتوی کر دیا، تاہم شام پر اس کی دھاک بیٹھ گئی۔

اس دوران امریکہ نے ترکی کے راستے اپنے فوجی دستے عراق بھجوانے اور ترکی کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اس دہشت گرد کو کینیا سے گرفتار کرواتے ہوئے ترکی کے حوالے کر دیا۔ اس وقت کی ایجوت حکومت نے دہشت گردوں کے سرغنہ کی گرفتاری کو کیش کرواتے ہوئے اپنی کھوئی ہوئی ساکھ کو بحال کروایا اور اس کے بعد ہونے والے عام انتخابات میں غیر متوقع طور پر کامیابی حاصل کرتے ہوئے ملک کا اقتدار ایک بار پھر حاصل کر لیا۔ شام کے اس وقت کے صدر حافظ الاسد کی وفات کے بعد بشار الاسد نے عنانِ اقتدار حاصل کیا اور پہلی بار ترکی اور شام کے تعلقات میں بڑی گرمجوشی دیکھی گئی جس کا سلسلہ تین چار سال تک جاری رہا لیکن سن 2011ء میں مشرقِ وسطیٰ میں ’’عرب بہار‘‘ کے نام سے شروع ہونے والی تحریک نے شام کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

اگرچہ اس وقت کے ترکی کے وزیراعظم اور موجودہ صدر ایردوان نے بشار الاسد سے اپنی دوستی اور برادرانہ تعلقات ہونے کی وجہ سے شام میں بھی جمہوری اصلاحات متعارف کروانے اور عوام میں اپنی مقبولیت کے ذریعے اقتدار جاری رکھنے کا مشورہ دیا لیکن شام کے اس ڈکٹیٹر، جس کی جڑیں ڈکٹیٹر شپ ہی سے سینچی گئی تھیں، کسی بھی صورت ملک میں ڈیمو کریسی اور جمہوری اقدار کو متعارف کروانے پر راضی نہ ہوئے جس پر ملک کے اندر ان کے خلاف نفرت پھیلتی چلی گئی اور ملک خانہ جنگی کا شکار ہو گیا اور اس وقت سے اب تک اس ملک میں امن قائم ہوتا ہوا دکھائی نہیں دیتا۔

اس کی وجہ ایران اور روس کا اس ملک میں قدم جمانا ہے۔ ایران اس طریقے سے سعودی عرب پر اپنا دبائو رکھتے ہوئے مستقل بنیادوں پر اس ملک میں رہنا چاہتا ہے جبکہ روس جس کا مشرقِ وسطیٰ میں کبھی اثرو رسوخ نہیں رہا، اب پہلی بار شام کے ذریعے نہ صرف اپنا فوجی اڈہ قائم کرنے میں کامیاب ہوا ہے بلکہ شام کے صدر بشار الاسد کے اقتدار کو بچاتے ہوئے اور انہیں نئی زندگی بخشتے ہوئے اس ملک پر اپنی گرفت قائم کر چکا ہے۔ ترکی اور امریکہ جو ہمیشہ ہی ایک دوسرے کے اتحادی رہے ہیں اور اب بھی اگرچہ اتحادی ہیں لیکن 15 جولائی 2016ء کی دہشت گرد تنظیم ’’فیتو‘‘ کی ناکام بغاوت کے بعد اس اتحاد میں دراڑیں پڑ چکی ہیں اور دونوں ممالک کے تعلقات نہ صرف سرد مہری کا شکار ہیں بلکہ دونوں ممالک ایک دوسرے کو اب شک و شبہات کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ ترکی جو کہ کچھ عرصہ قبل تک امریکہ کے تیار کردہ ’’عظیم تر مشرقِ وسطیٰ‘‘ پلان کی مکمل حمایت کرتا چلا آیا ہے اب اس پلان سے مکمل طور پر علیحدگی اختیار کر چکا ہے۔

امریکہ کو جب ترکی سے مشرقِ وسطیٰ سے متعلق اپنی باتیں منوانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تو اس نے دہشت گرد تنظیم ’’پی کے کے‘‘ اور اس کی شام میں موجود ایکسٹینشن ’’پی وائی ڈی اور وائی پی جی‘‘ کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا اور شام میں ان کی ٹریننگ کا بندوبست کرتے ہوئے تیس ہزار کرد فوجیوں پر مشتمل ’’ایس ڈی ایف‘‘ فورس تشکیل دینے کا بیڑا اٹھایا جس پر ترکی نے کئی بار امریکہ کو اس قسم کی فورس تشکیل دینے سے باز رہنے سے متعلق متنبہ بھی کیا لیکن امریکہ نے ترکی کی ایک نہ سنی اور اپنے پلان پر عمل درآمد کا سلسلہ جاری رکھا۔

ترک صدر ایردوان نے امریکہ کی اس ہٹ دھرمی کی پروا کیے بغیر شام کے علاقے عفرین میں موجود دہشت گردوں کا مکمل صفایا کرنے اور اپنی سرحدوں کو محفوظ بنانے کے لیے ’’شاخِ زیتون‘‘ کے نام سے فوجی آپریشن شروع کیا جس کے چند ہی روز بعد امریکی صدر ٹرمپ نے ترک صدر کو ٹیلی فون کرتے ہوئے فوجی آپریشن جلدازجلد ختم کرنے کا مطالبہ کیا جس پر ترک صدر ایردوان جو ’’جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ‘‘ پارٹی کے چیئرمین بھی ہیں، نے پارٹی کے مرکزی دفتر میں خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر کے مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم اپنے اہداف حاصل کیے بغیر اور علاقے میں دہشت گردوں کا مکمل صفایا کیے بغیر فوجی آپریشن ختم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے ہیں۔

ابھی فوجی کارروائی شروع ہوئے صرف چند دن ہوئے ہیں۔ ایسی بھی کیا جلدی ہے؟ میں صدر ٹرمپ سے پوچھتا ہوں، انہوں نے کتنی جلد افغانستان میں فوجی آپریشن مکمل کیا؟ وہ افغانستان میں بیس سال سے اور عراق میں اٹھارہ سال سے فوجی آپریشن جاری رکھے ہوئے ہیں اور جب ترکی اپنی سرحدوں کے تحفظ کے لیے فوجی کارروائی کر رہا ہے تو اس کو جلد از جلد ختم کرنے کو کہا جا رہا ہے۔‘‘ ترکی اپنے اس موقف پر سختی سے کاربند ہے اور اس نے عفرین کے قریب اسٹرٹیجک لحاظ سے بڑی اہمیت کے علاقے ’’جبلِ برصایا‘‘ پر قبضہ کرتے ہوئے اپنی پیش قدمی تیز تر کر دی ہے۔

امریکہ نے ترکی کو مزید آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے ترک حکام کو شام میں موجود دہشت گرد تنظیم ’’وائی پی جی اور پی وائی ڈی‘‘ کو مزید اسلحہ فراہم نہ کر نے کی یقین دہانی کروائی ہے۔ اس سلسلے میں امریکہ کی قومی سلامتی کے مشیر ایچ آر میک ماسٹر نے ترکی کے صدارتی ترجمان ابراہیم قالن سے ٹیلی فون پر بات چیت کرتے ہوئے یقین دہانی کرائی کہ علاقے میں برسر پیکار کرد دہشت گرد تنظیموں کو مزید اسلحہ فراہم نہیں کیا جائے گا لیکن ترکی نے ایک بار پھر امریکہ پر واضح کر دیا ہے کہ وہ اس وقت تک فوجی کارروائی جاری رکھے گا جب تک علاقے میں ایک بھی دہشت گرد موجود ہے۔

ترک فوجی دستوں نے 557 دہشت گردوں کا صفایا کر دیا ہے۔ ترکی نے ’’شاخِ زیتون‘‘ فوجی آپریشن کے ذریعے اب تک کئی ایک مقاصد حاصل کیے ہیں۔ ترکی نے شام اور عراق سے ملنے والی اپنی سرحدوں کو مستقبل کے لیے بھی محفوظ بنا لیا ہے۔ دوسرا مقصد بین الاقوامی طور پر اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت حاصل حقوق اور سلامتی کونسل کی 2005ء کی قرارداد نمبر 1624 اور 2014ء کی قرارداد نمبر 2170 اور2178 کے تحت، جس میں تمام ممالک کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہر ممکنہ اقدامات کرنے کے حقوق عطا کیے گئے ہیں، کے تحت فوجی آپریشن کرتے ہوئے بین الاقوامی رائے عامہ کی بھی ہمدردیاں حاصل کر لی ہیں اور بین الاقوامی قوانین ہی کے تحت اس فوجی آپریشن کو جاری رکھا ہوا ہے اور اسے اب تک علاقے میں پیش قدمی کرنے میں کسی رکاوٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہے۔

ڈاکٹر فر قان حمید

ترکی کا شام میں فوجی آپریشن

امریکہ نے شام میں دہشت گرد تنظیم ’’داعش‘‘ کے خلاف موثر کارروائی کرنے اور اس مقصد کے لئے ترکی میں برسر پیکار دہشت گرد تنظیم ’’پی کے کے‘‘ کی شام میں موجود ایکسٹینشن ’’پی وائی ڈی اور وائی پی جی‘‘ کو کچھ عرصے سے جدید اسلحے سے لیس کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا تھا۔ ترکی نے اسے ناقابلِ قبول قرار دیتے ہوئے توقع ظاہر کی تھی کہ امریکہ جلد ہی اپنی اس غلطی کا ازالہ کرے گا اور اپنے ستر سالہ اتحادی سے منہ نہیں موڑے گا۔ ترک وزارت خارجہ کے مطابق ’’وائی پی جی‘‘ کو مہیا کیا جانے والا ہر ایک ہتھیار ترکی کے لئے خطرہ ہے۔ ترکی کے صبر کا پیمانہ اس وقت لبریز ہو گیا جب شام میں امریکی دستوں کے کمانڈر کی جانب سے ترکی اور شام کی سرحدوں کے قریبی علاقے میں تیس ہزار کرد جنگجوئوں پر مشتمل ایک نئی سرحدی فورسSDF کی تشکیل دینےاورانہیں جلد ہی ٹریننگ دینے کا اعلان کیا جو جلتی پر تیل کا کام دے گئی.

ترک وزیر خارجہ مولو چاوش اولو نے فوری طور پر اپنے امریکی ہم منصب ٹِلرسن کو ٹیلی فون کرتے ہوئے ایسا نہ کرنے اور دہشت گرد تنظیموں کو مسلح کرنے سے باز رہنے سے متنبہ کیا اور واضح طور پر علاقے میں ان دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے کے لئے تنہا ہی ہر ممکنہ کارروائی کرنے سے بھی آگاہ کر دیا جس پر ٹِلرسن نے چاوش اولو کو اخبارات کی خبروں پر یقین نہ کرنےاور کسی نئی سرحدی فوج کو تشکیل دینے کا کوئی ارادہ موجود نہ ہونے سے آگاہ کیا لیکن ترک وزیر خارجہ نے شام میں امریکی کمانڈر کا بیان ان کے سامنے رکھ دیا۔ اس صورتِ حال پر امریکی وزیر خارجہ نےحالات کا نئے سرے سے جائزہ لینے کی یقین دہانی کروائی۔ لیکن اس کے باوجود امریکہ نے اپنے پرانے اتحادی ترکی کی پروا کیے بغیر شام میں اپنی پالیسی جاری رکھی اور کئے گئے وعدوں کی پاسداری نہ کی۔

ترکی نے اس صورتِ حال پر کہا کہ ترکی شمالی شام میں کرد جنگجوؤں کے حوالے سے امریکی یقین دہانی سے مطمئن نہیں اور اس نے تنگ آ کر 19 جنوری 2018 کو مقامی وقت کے مطابق رات سات بجے، شام کے ساتھ ملنے والے سرحدی شہر عفرین میں فضائی کارروائی کا آغاز کر دیا۔ اس فوجی آپریشن سے قبل ترک صدر ایردوان گزشتہ پندرہ دنوں سے اس بات کا برملا اظہار کرتے چلے آ رہے تھے کہ ’’ترک دستے اچانک شام میں داخل ہو سکتے ہیں‘‘۔ انہوں نے اس دوران روس اور ایران کے ساتھ قریبی رابطہ قائم کر رکھا تھا ۔ روس نے شام کی سرحدوں پر ترک طیاروں کی آمد روکنے کیلئےجدید ایس 400 اور ایس 500 قسم کے میزائل نصب کر رکھے ہیں اس لئے ترکی کو شام کے علاقے میں فضائی کارروائی کے لئے روس کی اجازت اور حمایت کی ضرورت تھی۔

اس مقصد کے لئے ترک مسلح افواج کے سربراہ جنرل حلوصی اقار اور خفیہ سروس MIT کے سربراہ حقان فدان نے ماسکو کا دورہ کیا اور روس کی مسلح افواج کے سربراہ اور دیگر اعلیٰ سرکاری حکام سے ملاقات کرتے ہوئے ترک طیاروں کو شام کی فضائی حدود میں داخل ہونے اور عفرین پر بمباری کرنے کی اجازت حاصل کی۔ اسی طرح ترکی نے شام میں شامی انتظامیہ کا مکمل ساتھ دینے والے ملک ایران سے بھی قریب رابطہ قائم کیا اور عفرین میں فضائی اور بری کارروائی سے متعلق معلومات فراہم کرتے ہوئے فوجی آپریشن سے متعلق اجازت حاصل کی۔ ایران نے اگرچہ ترکی کو شام میں فوجی آپریشن کرنے کی اجازت تو دے دی ہے لیکن اس کیساتھ ساتھ اپنے خدشات کا بھی اظہار کیا ہے۔ عفرین کے فوجی آپریشن سے قبل ترک وزارت خارجہ میں روس، ایران ، امریکہ، برطانیہ، فرانس اور چین کے علاوہ شام کے ہمسایہ ممالک کے سفیروں کو مدعو کرتے ہوئے عفرین میں شروع کئے جانے والے فوجی آپریشن سے متعلق معلومات فراہم کی گئیں۔

شام کے شہر عفرین جس پر کرد دہشت گرد تنظیموں ’’پی وائی ڈی اور وائی پی جی‘‘ نے امریکہ کی مدد سے 2012 سے سے قبضہ کر رکھا ہے علاقے میں مزید پیش قدمی کو روکنے کے لئے ترکی کے لئے ضروری ہو گیا تھا کہ وہ آپریشن کرے۔ اس لئے ترک مسلح افواج نے کرد دہشت گردف تنظیموں کے تین گروپوں کو نشانہ بنایا۔ صدر ایردوان نے اس فوجی آپریشن کی اطلاع دیتے ہوئے کہا کہ ’’عفرین میں ’’شاخِ زیتون‘‘ فوجی آپریشن شروع کر دیا گیا ہے۔ اگلی باری منبج کی ہو گی۔‘‘ منبج شام کا ترکی کے ساتھ سرحد کے قریب ایک دوسرا شہر ہے، جو دہشت گرد تنظیموں کے کنٹرول میں ہے اور عفرین سے مشرق کی جانب واقع ہے۔

ترک صدر ایردوان نے مزید کہا ہے کہ ’’عفرین میں دہشت گردوں کا مکمل صفایا کرتے ہوئے آپریشن کو جلد ہی مکمل کر لیا جائے گا ۔ ہم تنہا نہیں ہیں بلکہ ہمیں دنیا بھر کے مسلمانوں کی دعائیں حاصل ہیں اور ہم اس علاقے کو دہشت گردی سے پاک کرتے ہوئے اس کے باسیوں کے حوالے کر دیں گے۔ دہشت گرد تنظیمیں اس زعم میں نہ رہیں کہ انہیں امریکہ کی پشت پناہی حاصل ہے اور ترکی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔‘‘ ترک وزیراعظم بن علی یلدرم نے عفرین میں شروع کردہ فوجی آپریشن کے بارے میں کہا کہ کرد دہشت گرد تنظیموں کے خلاف جاری ملکی فوج کی کارروائی کے دوران ترک دستے شام میں داخل ہو گئے۔ ترک فورسز نے  پیپلز پروٹیکشن یونٹ (وائی پی جی) کے خلاف شام کے وقت فضائی کارروائی شروع کی تھی۔ ترک وزیر اعظم بن علی یلدرم نے استنبول میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ترکی افواج عالمی وقت کے مطابق صبح آٹھ بجکر پانچ منٹ پر عفرین ریجن میں داخل ہوئیں اور اس کارروائی کا مقصد دہشت گردوں کو ترک سرحد سے تیس کلو میٹر دور دھکیلنا ہے تاکہ دونوں ممالک کی سرحدوں پر ایک سیکورٹی زون قیام کیا جا سکے۔

ترک فضائیہ نے علاقے میں تا دمِ تحریر 153 ٹھکانوں کو نشانہ بناتے ہوئے انہیں مکمل طور پر تباہ کر دیا۔ فضائی آپریشن کے آغاز کے موقع پر ترک مسلح افواج کے سربراہ جنرل حلوصی اقار نے مسلح ہیڈکوارٹر میں بری، بحری اور فضائیہ کے سربراہان کے ہمراہ آپریشن سے متعلق معلومات فراہم کیں اور بری فوج کے آپریشن شروع ہونے کے موقع پر سرحدی علاقوں کا دورہ کیا۔ ترک مسلح افواج کے سربراہ جنرل حلوصی اقار نے امریکہ کی مسلح افواج کے سربراہ جنرل جوزف ڈونفورڈ اور روسی فوج کے سربراہ جنرل ویلری گراسیموف کو فوجی آپریشن سے متعلق معلومات دیں جس پر روسی فوج کے سربراہ نے علاقے سے روسی فوجیوں کے انخلا سے آگاہ کیا۔

اسی دوران ترک وزیر خارجہ نے اقوام متحدہ کو بھی اس کے چارٹرڈ اور بین الاقوامی قوانین کے تحت ترکی کو حاصل حقوق کی روشنی میں فوجی آپریشن کے آغاز کا بتایا۔ نیٹو کے سیکرٹری جنرل اسٹولٹن برگ کا کہنا ہے کہ ہر ملک کو اپنے دفاع کا پورا پورا حق حاصل ہے جبکہ فرانس کے وزیر خارجہ نے شام کے علاقے عفرین میں ترکی کی اس فوجی کارروائی کے خلاف ایک قرارداد پیش کی جس پر ترک وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ اس قرار داد کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کرنے سے یہ بات ظاہر ہو جاتی ہے کہ فرانس ترکی کے مخالف گروپ میں ہے۔ ترکی نے عفرین فوجی آپریشن کے دوران مقامی سطح پر تیار فوجی سازو سامان ہی زیادہ تر استعمال کیا ہے تاکہ امریکہ یا پھر مغربی ممالک کا فوجی سازو سامان استعمال کرنے سے کسی قسم کی پابندی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

ڈاکٹر فر قان حمید