برطانوی وزیرِ اعظم تھریسا مے کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام

برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے کے خلاف پارلیمان میں عدم اعتماد کی تحریک ناکام ہو گئی۔ اُن کے حق میں 200 اور مخالفت میں 117 ووٹ پڑے۔ تھریسا مے کے خلاف اُن کی اپنی جماعت ‘کنزرویٹو پارٹی’ کے ارکانِ پارلیمان نے تحریکِ عدم اعتماد پیش کی تھی۔ وزیرِ اعظم مے کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد ایسے وقت پیش کی گئی تھی جب وہ یورپی رہنماؤں کو برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی (بریگزٹ) کے بارے میں طے شدہ معاہدے پر نظرِ ثانی پر قائل کرنے کی کوششوں میں مصروف تھیں۔ تھریسا مے کی اپنی ہی جماعت کے کئی رہنما ‘بریگزٹ’ سے متعلق اس معاہدے کو مسترد کر چکے ہیں جس پر یورپی یونین کی قیادت اور وزیرِ اعظم مے نے کئی ماہ کی کوششوں اور مذاکرات کے بعد گزشتہ ماہ اتفاق کیا تھا۔

مذکورہ معاہدہ برطانوی پارلیمان کی منظوری سے مشروط ہے۔ لیکن اپنی ہی پارٹی کے ارکان کی شدید مخالفت کے بعد وزیرِ اعظم مے کو اس معاہدے پر پارلیمان میں ہونے والی رائے شماری عین وقت پر ملتوی کرنا پڑی تھی۔ تھریسا مے کے مخالف کنزرویٹو ارکان گزشتہ کئی ہفتوں سے ان کے خلاف پارٹی کے اندر عدم اعتماد کی تحریک لانے کی کوشش کر رہے تھے۔ لیکن انہیں مطلوبہ ارکان کی اکثریت حاصل کرنے میں دشواری کا سامنا تھا۔ حکمران جماعت کی پارلیمانی کمیٹی کے چیئرمین گراہم بریڈی نے اعلان کیا تھا کہ وزیرِ اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کو کل ارکان کے 15 فی صد کی مطلوبہ تعداد کی حمایت حاصل ہو گئی ہے۔

گراہم بریڈی نے بتایا کہ انہیں عدم اعتماد کی تحریک کے حق میں 48 ارکان کے خطوط مل گئے ہیں جس کے بعد انہوں نے اس بارے میں وزیرِ اعظم کو مطلع کر دیا ہے۔ تھریسا مے کی جماعت کے برطانوی پارلیمان کے ایوانِ عام میں 315 ارکان ہیں جن میں سے اگر 158 نے ان کی قیادت پر عدم اعتماد کیا ہوتا تو انہیں پارٹی کی قیادت چھوڑنا پڑتی۔ پارٹی کی قیادت چھوڑنے کے ساتھ ہی انہیں وزارتِ عظمیٰ سے بھی الگ ہونا پڑتا، چوں کہ کنزرویٹو پارٹی برطانوی پارلیمان کے 650 رکنی ایوانِ عام کی سب سے بڑی جماعت ہے۔ لہذا پارٹی کا قائد ہی وزیرِ اعظم بننے کا اہل ہے۔ وزیرِاعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد ایسے وقت پیش کی گئی تھی جب برطانیہ کے یورپی یونین سے علیحدگی میں چار ماہ سے بھی کم وقت رہ گیا ہے۔

برطانیہ 29 مارچ 2019ء کو یورپی یونین سے علیحدہ ہو جائے گا اور اگر اس سے قبل دونوں کے درمیان کوئی معاہدہ طے نہ پایا تو اس علیحدگی کے برطانوی معیشت پر بہت برے اثرات پڑ سکتے ہیں۔ بریگزٹ کے حامی کنزرویٹو ارکان کا موقف ہے کہ وزیرِ اعظم نے یورپی یونین کے ساتھ ایک انتہائی خراب معاہدہ کیا ہے جب کہ بریگزٹ کے مخالفین بھی وزیرِاعظم پر اسی قسم کے الزامات لگاتے ہیں۔ تھریسا مے کا کہنا ہے کہ ان کی حکومت نے یورپی یونین کے ساتھ ہر ممکن حد تک بہتر معاہدہ کیا ہے جس میں برطانیہ کے بیشتر مفادات کا تحفظ کیا گیا ہے۔ یورپی یونین کے ساتھ برطانیہ کے تعلقات کی نوعیت برطانوی سیاست خصوصاً کنزرویٹو پارٹی میں ہر دور میں متنازع مسئلہ رہا ہے اور یہی تنازع ماضی میں کنزرویٹو پارٹی کے تین سابق وزرائے اعظم ڈیوڈ کیمرون، جان میجر اور مارگریٹ تھیچر کے زوال کا سبب بنا تھا۔ وزیرِ اعظم کی قیادت کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پیش ہونے کے اعلان کے بعد ان کی کابینہ کے کئی وزرا نے اس اقدام پر تنقید کی ہے اور وزیرِ اعظم کی قیادت پر اعتماد کا اظہار کیا۔

Leave a comment