سمندر کی تہہ کے نیچے قائم چینل ٹنل انجینئرنگ کا شاہکار

برطانیہ اور فرانس کو انگلش چینل کے نیچے ایک 32 میل لمبی سرنگ ملاتی ہے۔جب دونوں ممالک نے فیصلہ کیا کہ برطانیہ اور فرانس کو ملانے کیلئے ایک سرنگ سمندر کی تہہ میں تیار کی جائے تو انجینئرز کے سامنے ایک بہت بڑا چیلنج تھا۔ نہ صرف یہ کہ انہیں دنیا کی طویل ترین سرنگوں میں سے ایک سرنگ تیار کرنی تھی بلکہ یہ بھی کہ اتنی لمبی سرنگ میں مسافر محفوظ رہیں۔ اس وقت سرنگوں میں آگ لگنے کے واقعات عام تھے۔ چناچہ اس مسئلے کا یہ حل نکالا گیا کہ سرنگ کے ساتھ ایمرجنسی حالات میں باہر نکلنے کا بھی ایک راستہ تیار کیا گیا۔ یہ دنیا کی دوسری سب سے بڑی ریل ٹنل ہے جو 1994ء میں مکمل ہوئی۔ سب سے زیادہ طویل سرنگ جاپان میں سیکن ٹنل کے نام سے موجود ہے۔ چینل ٹنل کو یورو ٹنل بھی کہا جاتا ہے، یہ تین سرنگیں ہیں ، دو ٹیوبز بڑے اور مکمل سائز کی ہیں جہاں سے ٹرین ٹریفک گزرتی ہے جبکہ ان دونوں ریل ٹیوبز کے درمیاں ایک چھوٹی سی ٹنل ہے جو ایمرجنسی میں باہر نکلنے کیلئے ہے۔

سرنگ میں کئی دوراہے بھی بنائے گئے ہیں جہاں سے ٹرینیں ایک ٹریک سے دوسرے ٹریک پر راستہ تبدیل کر سکتی ہیں۔ چینل ٹنل کا منصوبہ ایک بہت مہنگا منصوبہ تھا جس کیلئے خصوصی تیار کردہ ٹنل بورنگ مشینوں کو انگلش چینل سے سینکڑوں فٹ نیچے یہ طویل سرنگ کھودنے میں تین سال لگے۔ برطانیہ اور فرانس کے درمیان ایک مستقل راستہ بنانے کا منصوبہ متعدد بار پیش ہوا۔ نپولین بوناپارٹ کے دور حکومت میں 1802ء میں ایک سرنگ کی تجویز پیش کی گئی تھی جس میں ہوا کی گزرگاہ کے لئے چمنیاں بنائی جانے اور اسے گیس لیمپوں کے ذریعے روشن کرنے کا مشورہ دیا گیا لیکن اس وقت تکنیکی اعتبار سے یہ ڈیزائن ممکن نہ تھا۔1880ء کی دہائی میں ٹنل کے کچھ حصے بنائے گئے لیکن برطانوی فوج کے اس خدشے اور اعتراض کی بنا پر کہ اس کے ذریعے برطانیہ پر بیرونی حملہ آسان ہو جائے گا حکومت نے یہ منصوبہ ترک کر دیا۔

1974ء میں دوبارہ یہ منصوبہ شروع ہوا لیکن مالی مشکلات کی وجہ سے ملتوی کرنا پڑا۔ اس کے بعد جب برطانیہ ” کامن مارکیٹ‘‘ (سابقہ نام ” یورپی یونین‘‘) میں شامل ہوا تو ایک مستقل راستے کی ضرورت محسوس ہوئی چناچہ 1986ء میں برطانیہ اور فرانس کے ایک مشترکہ کنسورشیم ” یورو ٹنل‘‘ کو اس کی تعمیر کا ٹھیکہ دے دیا گیا کہ وہ گاڑیوں کی ترسیل کیلئے ایک ریل شٹل سروس اور ایک مسافر ٹرین کیلئے سرنگیں تیار کرے، چناچہ 1994ء میں یہ منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچا۔ سمندر کی تہہ سے تقریبا ً150 فٹ نیچے واقع چینل ٹنل بیسویں صدی میں انجینئرنگ کا اہم ترین کارنامہ ہے۔ جب یہ منصوبہ شروع کیا گیا تو اس وقت یہ دنیا کا سب سے مہنگا تعمیراتی منصوبہ تھا جس کی تکمیل پر 21 ملین ڈالر لاگت آئی۔ یہ اخراجات گولڈن گیٹ برج کی تعمیر پر ہو نے والے اخراجات سے 700 گنا زیادہ تھے۔

اس چینل کی تعمیر کے لئے جو بورنگ مشینیں استعمال ہوئیں وہ خود فٹ بال کے دو گراؤنڈز کی لمبائی سے زیادہ تھیں اور روزانہ 250 فٹ بورنگ کر سکتی تھیں۔ چینل ٹنل 50 کلومیڑ لمبی ہے جس میں سے 39 کلومیٹر لمبی سرنگ سمندر کی تہہ کے نیچے ہے۔ پہلے پانچ سالوں میں یہاں سے گزرنے والی ٹرینوں سے 28 ملین مسافروں نے سفر کیا اور 12 ملین ٹن سے زیادہ سامان ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچایا گیا۔ آج اس ٹنل میں سے ٹرینیں 100 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گزرتی ہیں جنہیں ایک سرے سے دوسرے سرے تک سرنگ پار کرنے میں صرف 20 منٹ لگتے ہیں۔ اس چینل کے افتتاح کے صرف ایک سال بعد ہی یہاں پہلا حادثہ پیش آیا جب فرانس سے آنے والی ٹرین میں آگ لگ گئی اور 31 مسافر یہاں پھنس گئے لیکن سروس (ایمر جنسی) ٹنل کی وجہ سے تمام لوگ بحفاظت یہاں سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔

عبدالوحید

بشکریہ دنیا نیوز

چین کے اس فلائی اوور نے سب کو دنگ کر دیا

فلائی اوور تو آپ نے بہت دیکھیں ہوں گے کیونکہ پاکستان میں انہیں بنانے کا رجحان کافی زیادہ ہے مگر چین کے اس پل کے منصوبے نے تو دنیا بھر کو دنگ کر کے رکھ دیا ہے۔ جی ہاں یہ دنیا کا سب سے پیچیدہ فلائی اوور منصوبہ ہے جس کی تصاویر نے انٹرنیٹ صارفین کے ذہنوں کو گھما کر رکھ دیا ہے۔ جنوب مغربی چین کے علاقے چونگ چنگ کے ضلع Nan’an میں تعمیر کیا جانے والا یہ منصوبہ اپنی مثال آپ ہے جس میں موجود سڑکوں کے لیے پانچ لیئرز ہیں. اس فلائی اوور کے ذریعے گاڑیاں 8 مختلف سمتوں کی جانب جا سکتے ہیں اور یہ 16 ہزار میٹر طویل ہے۔

انٹرنیٹ صارفین نے اس کی تصاویر کو دیکھ کر حیرت اور تجسس کا اظہار کرتے ہوئے سوال کیا ہے کہ آخر وہاں سے ڈرائیورز اپنی منزل کا تعین کیسے کریں گے یا راستے سے بھٹک جائیں گے۔ مگر چینی حکام نے ہر ایک کو یقین دہانی کرائی ہے کہ اس فلائی اوور کی کامیابی سے آزمائش کی جا چکی ہے جبکہ ٹریفک کی رہنمائی کے لیے اشارے بھی لگائے جائیں گے۔ حکام کے مطابق اگ کوئی ڈرائیور غلط سمت پر چڑھ بھی جائے تو بھی ایک کلو میٹر سے بھی کم فاصلے پر اس کے پاس درست سمت پر جانے کا آپشن موجود ہو گا۔

اس بڑے منصوبے کا آغاز 2009 میں ہوا اور اس کی تکمیل لگ بھگ 8 برسوں میں ہوئی۔ اور اس پر ٹریفک چلنے کا آغاز اگلے سال سے ہو رہا ہے مگر اس کی تصاویر نے لوگوں کا اشتیاق ابھی سے بڑھا دیا ہے۔