پاکستان میں ویڈیو شیئرنگ ایپلی کیشن ٹک ٹاک پر پابندی عائد کر دی گئی

پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے بالآخر شارٹ ویڈیو شیئرنگ ایپلی کیشن ٹک ٹاک کو نامناسب مواد نہ ہٹائے جانے پر ملک میں بند کر دیا۔ پی ٹی اے کی جانب سے جاری بیان کے مطابق ٹک ٹاک، دی گئی مدت کے دوران ایپلی کیشن سے نامناسب اور متنازع مواد کو ہٹانے میں ناکام رہا، جس کی وجہ سے ہی ٹک ٹاک کو ملک میں بند کیا جا رہا ہے۔ پی ٹی اے کے مطابق چینی ایپلی کیشن کی انتظامیہ کو بار بار متنازع اور نامناسب مواد ہٹانے کے لیے ہدایات جاری کی گئیں، تاہم ایپ انتظامیہ ایسا کرنے میں ناکام رہی۔ پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی کے مطابق متنازع اور نامناسب مواد کو نہ ہٹائے جانے کی وجہ سے ہی ٹک ٹاک پر 9 اکتوبر سے پابندی عائد کر دی گئی۔

خیال رہے کہ پی ٹی اے گزشتہ چند ماہ سے ٹک ٹاک انتظامیہ کو متنازع اور نا مناسب مواد کو ہٹانے سے متعلق احکامات جاری کرتی آ رہی تھی اور ایک موقع پر پی ٹی اے نے چند ایپس کو بند بھی کر دیا تھا۔ پی ٹی اے نے رواں برس جولائی میں ٹک ٹاک انتظامیہ کو نامناسب مواد پر ٹک ٹاک کو ‘حتمی وارننگ’ جاری کی تھی، علاوہ ازیں گزشتہ چند ماہ میں پی ٹی اے نے متعدد بار ایپ انتظامیہ کو غیر اخلاقی ویڈیوز ہٹانے کے نوٹسز بھی جاری کیے تھے۔ پی ٹی اے کی جانب سے نوٹسز جاری ہونے کے بعد ٹک ٹاک نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے پاکستان سے درجنوں متنازع ویڈیوز کو ہٹا دیا ہے جب کہ وہ اخلاقی اور اچھا مواد تیار کرنے کے لیے حکومت اور مواد تیار کرنے والے افراد کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار ہے۔

علاوہ ازیں ٹک ٹاک کو بند کرنے کے حوالے سے لاہور ہائی کورٹ میں عام شہری کی جانب سے درخواست بھی دائر کی گئی تھی۔ رواں برس جولائی میں دائر کی گئی درخواست میں کہا گیا تھا کہ ملک میں اس اپیلی کیشن کے استعمال کرنے والے 10 سے زائد افراد کی موت بھی واقع ہو چکی ہے۔ پاکستان میں ٹک ٹاک پر ایک ایسے وقت میں پابندی عائد کی گئی ہے جب کہ چند ہفتے قبل ہی پڑوسی ملک بھارت میں بھی اس پر پابندی عائد کی گئی تھی اور امریکا میں بھی اسے سخت پابندیوں کا سامنا ہے۔ امریکا نے بھی ٹک ٹاک کو قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دے رکھا ہے اور ٹک ٹاک کو دھمکی دی ہے کہ وہ اپنے امریکی اثاثے کسی امریکی کمپنی کو فروخت کرے یا کسی امریکی کمپنی کے ساتھ مل کر امریکا میں کام کرے، دوسری صورت میں اسے بند کر دیا جائے گا۔

جاوید حسین

پاکستان میں سائبر قوانین کا نفاذ ؟

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے پنجاب جوڈیشل اکیڈمی کے زیر اہتمام ’سائبر جرائم ایک عوامی مسئلہ‘ کے عنوان سے منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے بجا طور پر نشاندہی کی ہے کہ اس ضمن میں حکومت کو سخت ترین سائبر قوانین بنانا ہوں گے تاکہ ہماری خواتین اور دیگر متاثرین انٹرنیٹ کی بلیک میلنگ سے نجات حاصل کر سکیں۔ دنیا کی ہر ایجاد کے جہاں مثبت پہلو ہوتے ہیں وہیں منفی پہلو بھی ہوتے ہیں اور یہ ہم انسانوں پر منحصر ہے کہ اُس ایجاد کے مثبت پہلوئوں سے ہم اپنی اور دوسروں کی زندگی آسان بناتے ہیں یا منفی پہلوئوں سے دوسروں کی زندگی اجیرن کرتے ہیں۔ 

انٹرنیٹ نے جہاں انسان کی زندگی کو انتہائی تیز اور سہل بنا دیا ہے وہیں منفی ذہنیت کے حامل افراد اِس نعمت کو دوسروں کی زندگیاں برباد کرنے کے لیے بھی استعمال میں لاتے ہیں۔ ایسے افراد لوگوں کی پرائیویسی کی خلاف ورزی، ہیکنگ، سوشل نیٹ ورکس میں استحصال، معلومات انفراسٹرکچر پر سائبر حملے، سائبر دہشت گردی، مجرمانہ رسائی، فحش پیغامات، ای میلز، دھمکی آمیز پیغامات، ای میلز، ڈیٹا تک غیر قانونی رسائی حاصل کر کے سائبر کرائمز کے مرتکب ہوتے ہیں۔ پاکستان میں ہر گزرتے دن کے ساتھ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ فیس بک اور پیغام رسانی کی ایپ واٹس ایپ کے ذریعے بلیک میلنگ اور اکاؤنٹ ہیک کرنے جیسے سائبر کرائمز کی شرح میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ 

ڈیجیٹل سیکورٹی ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ اِس ضمن میں پہلے مرحلے میں موبائل فون اور کمپیوٹر کو منفی طور پر استعمال کرنے والے افراد کی اصلاح اور انہیں یہ باور کرانے کی کوشش کی ضرورت ہے کہ وہ کس قدر سنگین جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ 2016 میں پہلا قانون بنا کر سائبر کرائمز کے تدارک کیلئے جو قدم اٹھایا گیا تھا اُسے تیز کرنے کے ساتھ ساتھ وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا بھی لازم ہے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ