کشمیر کی خوبصورت وادی نیلم کی سیاحت کیسے کریں ؟

سیر و سیاحت کے فوائد کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ اور سیاحت میں جو لطف مستنصر حسین تارڑ کے سفر ناموں نے دیا ہے اس کا اپنا ہی لطف ہے۔ آج کل کی مصروف ترین زندگی میں ہر انسان کو سیاحت کیلئے سال میں کم از کم ایک ہفتہ ضرور نکالنا چاہیے۔ اور دنیا بھر میں بکھرے ہوئے قدرت کے شاہکاروں سے لطف اندوز ہونا چاہیے۔ مگر دنیا گھومنے سے پہلے اپنے پیارے پاکستان کی سیر و سیاحت کو پہلی ترجیح دیں ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے کیسے کیسے حسین قدرتی مناظر ہمارے ملک کو دیے ہیں آپ دیکھ کر دھنگ رہ جائیں گے۔ یہاں سمندر، پہاڑ، ریگستان، میدان، دریا، چشمے، آبشاریں کیا کچھ نہیں دیا اللہ تبارک وتعالیٰ نے۔ نیلم ویلی آزاد کشمیر کی خوبصورت ترین وادی ہے۔ طالب علمی کے دور میں اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے توست سے مجھے بھی اللہ تبارک وتعالیٰ نے پہلی مرتبہ 92-1991ء میں اس حسین وادی کے نظاروں کا موقع دیا۔ آج تک اس سفر کا سحر تاری ہے۔ ان دنوں بھارتی فوجی اکثر و بیشتر راہ گیروں پر فائرنگ کر کے اپنی دھشت بٹھانے کی ناکام کوشش کیا کرتے تھے جس کی وجہ سے مسافر رات کے اندھیرے میں اپنی گاڑیوں کی لائٹس بجھا کر کچھ علاقے عبور کرتے تھے۔

رات کے اندھیرے میں اٹھمقام سے شاردہ جاتے ہوئے ہماری گاڑی پر بھی انڈین آرمی نے فائرنگ کر دی۔ جس سے میرے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھا مسافر، جو پاک فوج کا جوان تھا اور ڈیوٹی پر جا رہا تھا شہید ہو گیا۔ اس شہید کا گرم گرم لہو میرے اوپر گرا ، جس کی گرمیش و خوشبو آج تک قائم ہے۔ جو آج بھی مجھے احساس دلاتا ہے کہ پاک فوج کے جوان، پاک دھرتی کی حفاظت کیلئے کس طرح اپنی جانوں کی قربانی دے کر ہمارا سکون و امن قائم رکھے ہوئے ہیں اور دشمن کے ناپاک ارادوں کو زمین بوس کر رہے ہیں۔ ڈرائیور کی دلیرانہ ڈرائیونگ کی وجہ سے مجھ سمیت باقی سب مسافر محفوظ مقام پر پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ واپسی کا سفر بھی بڑا دلچسپ رہا کیونکہ ہمارے شاردہ میں پڑاؤ کے دوران ہی طوفانی بارشوں کا سلسلہ شروع ہو گیا جس سے دریا بپھر گئے اور تمام پل بہا کر لے گئے۔ سلائڈنگ کی وجہ سے بیشتر جگہوں سے سڑک دریا برد ہو گئی۔

گاڑیوں کے لیے راستے بند ہو گئے۔ راقم نے راولپنڈی جمعیت کے ساتھی عبدالرحیم بھائی کے ساتھ شاردہ سے مظفرآباد تک پیدل ہی سفر کا آغاز کیا فجر سے مغرب تک پیدل تقریبآ پندرہ سے بیس کلومیٹر کا سفر طے کرتے رات کسی مسافر خانے یا سڑک کے کنارے سو جاتے صبح پھر چل پڑتے۔ یاد گار سفر تھا تقریباً پچہتر فیصد سفر پیدل اور پچیس فیصد سفر جیپوں پر طے کر کے بالآخر مظفرآباد پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ جس جگہ ہم پر جاتے ہوئے انڈین آرمی نے فائرنگ کی، واپسی پر پیدل وہاں سے گزرتے ہوئے دن کی روشنی میں بھارتی مورچوں کے سامنے ٹھیک اس جگہ نماز پڑھی جس کا بھی اپنا ہی لطف تھا۔ کچھ عرصہ بعد شیخوپورہ سے تعلق رکھنے والا میرا جگری دوست و شاگرد ریاض ناصر وٹو بھی اٹھمقام میں بھارتی گولہ باری سے شہید ہو گیا۔ نا جانے اور کتنے معصوم لوگ اس وادی میں انڈین آرمی کے ہاتھوں شہید ہوئے ہوں گے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ان کی شہادتوں کو قبول فرمائے، ان کے درجات بلند فرمائے اور مقبوضہ جموں و کشمیر کے مسلمانوں کو بھی بھارتی درندگی سے نجات دلانے۔

بہر حال انہیں شہادتوں کے نتیجہ میں آج نیلم ویلی میں کوئی خوف خطرہ نہیں پچھلے سال میرا بیٹا مصعب بن ناصر اپنے دوستوں کے ہمراہ شاردہ کیل وغیرہ کی سیر کر کے آیا ہے۔ اب گزشتہ کئی سالوں سے سیاح قدرت کے اس حسین شاہکار کا نظارہ کر رہے ہیں ۔ اسلامی جمعیت طلبہ کے سابق رہنما شبیر شہید و سردار ذوالفقار المعروف منشی کے آباؤ اجداد کے اس حسین علاقہ، خطہ زمین پر قدرت کی اس حسین وادی نیلم کی سیر و سیاحت کے خواہشمند لوگوں کی رہنمائی کے لئے بہت ہی پیارے دوست زاہد السلام بھائ نے کیا خوب رہنمائی فرمائی ہے، انہی کی زبانی ملاحظہ فرمائیں۔ وہ لکھتے ہیں۔ نیلم ویلی آزاد کشمیر کی سیاحت کا ارادہ رکھنے والے سیاح حضرات کی معلومات کے لیے عرض ہے کہ پاکستان کے کسی بھی شہر سے نیلم ویلی آنے کے لیے اسلام آباد سے پراستہ ایکسپریس ہائی وے مری سے ہوتے ہوئے آئیں۔

ایکسپریس ہائی وے کے اختتام پر بائٰیں جانب مری روڈ کے زریعے آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد کا سفر جاری رکھیں۔ (ہزارہ سے آنے والے معزز مہمان ایبٹ آباد مانسہرہ روڈ کا استعمال بھی کر سکتے ہیں)۔ اسلام آباد سے تقریباً 2 گھنٹے کے فاصلے پر نیلم ویو پوائنٹ کے نام سے دریا ئے جہلم کے کنارے مری والوں نے سیاحوں کو نیلم ویلی کا دھوکہ دینے کے لیے ایک کاروباری مرکز کھول رکھا ہے جس کا آزاد کشمیر یا نیلم ویلی سے سرے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یاد رکھیں یہ جگہ آزاد کشمیر یا نیلم ویلی قطعاً نہٰیں ہے لہٰذا دھوکہ کھانے سے بچیں۔ اسی مقام کے پاس کوہالہ پل کراس کرنے کے بعد آزاد کشمیر کی ریاست کا آغاز ہوتا ہے۔ کوہالہ سے تقریباً ایک گھنٹہ کے فاصلے پر مظفرآباد شہر واقع ہے۔ سیاح حضرات اپنے وقت کے حساب سے فیصلہ کر لیں کہ انہوں نے رات مظفرآباد میں قیام کرنا ہے یا نیلم ویلی کی طرف نکلنا ہے۔ عموماً رات کے وقت نیلم ویلی کا سفر سیاحوں کے لیے خطرناک ہوتا ہے۔

اگر آپ شام کے وقت مظفرآباد پہنچے ہیں تو رات مظفرآباد میں قیام کیجئے۔ مظفرآباد شہر میں 500 روپے فی کمرہ سے لے کر پی سی ہوٹل تک ہر معیار کے ہوٹلز موجود ہیں۔ اگر آپ دن کے وقت مظفرآباد پہنچے ہیں اور آپ کا ارادہ آگے بڑھنے کا ہے تو مظفرآباد شہر کی مرکزی شاہراہ یا براستہ نلوچھی گوجرہ بائی پاس روڈ چہلہ بانڈی کی طرف نکل جائیں ۔ چہلہ بانڈی سے نکل کر آپکا نیلم ویلی کا سفر شروع ہو جاتا ہے۔ چہلہ بانڈی سے تقریباً 4 گھنٹے کے فاصلے پر اٹھمقام کے مقام پر متعدد گیسٹ ہا ؤسز سیاحوں کی رہائش کے لیے موجود ہیں۔ رات کا قیام اٹھمقام میں کیجئے۔ اگر آپ کے پاس وقت ہے یا اٹھمقام میں رہائش کے لیے جگہہ موجود نہیں تو آپ اٹھمقام سے ایک گھنٹے کے فاصلے پر وادئ کیرن کے مقام پر بھی قیام کر سکتے ہیں۔ رات کے قیام کے بعد اگلی صبح ناشتہ وغیرہ کرنے کے بعد اگر آپکا ارادہ رتی گلی جھیل کا ہے تو کیرن سے تقریباً 45 منٹ کے فاصلے پر دواریاں گاؤں سے ایک لنک روڈ رتی گلی جھیل کی طرف جاتی ہے۔

اگر آپ کے پاس اپنی 4WD گاڑی نہیں ہے تو دواریاں سے جیپ کرائے پر لے لیں جو تقریباً 7 سے 8 ہزار روپے میں مل جاتی ہے۔ اگر آپکا پیدل ٹریکنگ کا ارادہ ہے تو اپنے ساتھ انسٹنٹ انرجی فوڈز جیسے انرجی بسکٹ، انسٹنٹ پاؤدر جوسز ، دودھ وغیرہ لازمی رکھٰیں۔ اس کے علاوہ آزاد کشمیر کی سوغات کلچہ بھی کافی کار آمد رہتا ہے۔ اگر آپ کے پاس اپنی 4WD گاڑی ہے تو بھی کوشش کریں کہ دواریاں سے کسی مقامی ڈرائیور کو ساتھ رکھ لیں جو مناسب دیہاڑی پر مل جائے گا۔ رتی گلی روڈ پر نا تجربہ کار حضرات خود ڈرائیونگ سے گریز کریں۔ دواریاں سے رتی گلی روڈ جہاں تک گاڑیاں جا سکتی ہیں تقریباً 12 کلومیٹر پر مشتمل ہے اور یہ 12 کلو میٹر کا فاصلہ تقریباً 2 گھنٹے میں طے ہوتا ہے۔ وہاں سے آگے تقریباً 2 گھنٹے کی پیدل ٹریکنگ کے بعد رتی گلی بیس کیمپ پر رات کا قیام کریں جہاں آپ اپنے ٹینٹ بھی لگا سکتے ہیں اور بصورت دیگر بیس کیمپ میں مناسب کرائے پر بھی ٹینٹ دستیاب ہوتے ہیں۔

رتی گلی بیس کیمپ میں رات کے قیام کے بعد صبح بیس کیمپ سے رتی گلی جھیل کی طرف پیدل ٹریکنگ کریں ۔ بیس کیمپ سے رتی گلی جھیل تقیباً 40 منٹ کے فاصلے پر ہے۔ اپنی زندگی کا حسین ترین دن رتی گلی جھیل پر گزار کر دن کو موسم کی صورتحال کا اندازہ کرنے کے بعد تقریباً 2 بجے واپس بیس کیمپ پہنچ کر واپس دواریاں کا سفر شروع کر دیجیے۔ شام کے تقریباً 7 بجے دواریاں پہنچ کر شاردہ کے لیے نکل جایئے۔ دواریاں سے شاردہ کا فاصلہ تقریباً 2.5 گھنٹے کا ہے۔ یاد رکھیں دواریاں سے آگے سڑک کی صورتحال زیادہ اچھی نہیں لہٰذا محتاط ڈرائیونگ کیجیئے۔ رات کا قیام شاردہ میں کیجیئے جہاں بہت سے ہوٹلز اور گیسٹ ہاؤسز موجود ہیں۔ اگر آپ کا آگے جانے کا ارادہ ہے تو انتہائی محتاط ڈرائیونگ کرتے ہوئے آپ شاردہ سے تقریباً 2.5 گھنٹے کے بعد کیل پہنچ جائیں گے۔ رات کیل میں قیام کے بعد اگلی صبح کیل سے بذریعہ چیئر لفٹ یا پیدل ٹریکنگ اڑنگ کیل کی خوبصورت وادی کا نظارہ کیجئے۔

شام کے تقریباً 3 بجے کیل واپس آکر کیل سے بذریعہ جیپ یا زاتی 4WD گاڑی تاؤ بٹ نکل جایئے۔ کیل سے تاؤبٹ کا فاصلہ تقریباً 40 کلومیٹر ہے جو تقریباً 4 گھنٹے میں طے ہو جاتا ہے۔ رات تاؤبٹ میں قیام کے بعد اگلی صبح تاؤبٹ کے قدرتی حسن سے لطف اندوز ہونے کے بعد اگر آپکا ارادہ واپسی کا ہے تو دن کو تقریباً 2 نجے واپس کیل کی جانب نکل آئیں۔ تقریباً 8 گھنٹے کی مسلسل مگر محتاط ڈرائیو کے بعد آپ واپس اٹھمقام پہنچ جائیں گے۔ بہتر یہی ہے کہ رات اٹھمقام میں قیام کیجیئے کیونکہ نیلم ویلی پہاڑی علاقہ ہے اور یہاں نیند کی حالت میں مسلسل ڈرائیو کرنا انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ رات اٹھمقام میں قیام کے بعد آپ اگلی صبح آرام سے مظفرآباد واپسی کا سفر کیجیے۔ نیلم ویلی آتے وقت اپنے ساتھ اپنی ضرورت کے مطابق گرم شالیں، کمبل، گرم کپڑے، کوٹ، ٹوپیاں، دستانے اور جرابیں ضرور رکھیں۔ اس کے علاوہ چونکہ نیلم ویلی میں ہسپتال وغیرہ تک جلدی پہنچنا ممکن نہیں ہے اس لیے اپنے ساتھ ایمرجنسی میڈیکیشنز جیسے بخار، زکام، دست، الٹی، قبض وغیرہ کی ادویات اور پٹیاں ، پا ئیوڈین بھی ساتھ رکھیں۔

اس کے علاوہ رتی گلی سطح سمندر سے انتہائی بلندی پر واقع ہے لہٰذا اپنی جلد کو الٹرا وائیلٹ شعاؤں سے بچانے کے لیے اچھے معیار کی سن بلاک کریمز کا استعمال بھی ضرور کیجیئے۔ آزاد کشمیر میں بہنے والے دریاؤں کی موجیں انتہائی طاقتور اور خطرناک ہوتی ہیں لہٰذا دریاؤں، ندی نالون میں اترنے سے گریز کیجیئے۔ ایک سیلفی یا کسی بھی نالے یا لکڑی کے پل پر ایک تصویر کا شوق آپ کی جان لے سکتا ہے۔ اپنی اور اپنے پیاروں کی جان کی حفاظت کیجیے۔اس کے علاوہ 4WD گاڑی کے علاوہ کوئی بھی گاڑی کچی یا سولنگ والی سڑکوں پر لے جانے کی کوشش مت کیجیئے کیونکہ یہ آپکی جان کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ براہ مہربانی کسی بھی علاقے کی سیر کے دوران اس علاقے کے قدرتی حسن کا خیال کیجیے اور اپنے ساتھ لائی ہوئی کھانے پینے کی اشیا کو وہاں پھینکنے کے بجائے کسی شاپنگ بیگ میں رکھ کر اپنے ساتھ واپس لے جایئے اور اپنے ذمہ دار اور با شعور شہری ہونے کا ثبوت دیجیئے۔ اس کے علاوہ کسی بھی علاقے کی سیر کے دوران وہاں کے مقامی لوگوں کی عزت اور پرائیویسی کا خیال رکھیئے اور بغیر اجازت کسی گھر یا عورت کی تصویر نہ بنائیے کہ یہ آپ کے لیئے جھگڑے اور بدمزگی کا سبب بن سکتا ہے۔

تمام معزز مہمانوں کو دل کی گہرائیوں سے نیلم ویلی میں خوش آمدید۔

شکریہ

کشمیر کی خوبصورت وادی نیلم کے بارے میں یہ معلوماتی مضمون فیس بک سے لیا گیا ہے۔

وینس : پانی کی سڑکوں پر چلتی بسوں کا شہر

دنیا میں بہت سارے شہر اپنے اوصاف کی نسبت سے مختلف ناموں سے مشہور ہو جاتے ہیں جیسے کراچی روشنیوں کا شہر، پشاور پھولوں کا شہر لاہور باغات کا شہر وغیرہ وغیرہ، لیکن اٹلی میں ایک ایسا شہر عرصہ دراز سے دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے جسکی پہچان ایک نہیں کئی ناموں سے ہے ، مثلاً ” اس شہر کو پانیوں کا شہر، پلوں کا شہر، روشنیوں کا شہر، تیرتا شہر نہروں کا شہر ،ایڈریاٹک کی ملکہ وغیرہ ۔ اٹلی کے شمالی حصے میں واقعہ اس شہر کو سیاحوں نے ” سیاحت کے ماتھے کا جھومر ‘‘ کا نام بھی دے رکھا ہے۔ اس شہر کی خوبصورتی اور اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا کہ ہر سال لاکھوں کی تعداد میں لوگ یہاں کھنچے چلے آتے ہیں۔ اس شہر کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اقوام متحدہ نے اس پورے شہر اور اس کی سمندری کھاڑی کو ” عالمی ورثہ‘‘ قرار دیا ہوا ہے۔ جی ہاں سیاحت کی دنیا کا یہ منفرد اور پر کشش شہر اٹلی کا وینس ہے۔ وینس کا نام اس کے قدیم ” وینیٹی‘‘ باشندوں کی نسبت سے اخذ کیا گیا تھا۔

جو دسویں صدی قبل از مسیح میں وہاں پر آباد تھے۔ تاریخی طور پر یہ شہر ریاست وینس کا صدر مقام ہوا کرتا تھا جسے صوبے کا درجہ حاصل تھا جس کے زیر انتظام 44 قصبے ہوا کرتے تھے۔ ریاست وینس زمانہ وسطی کی ایک بڑی بحری طاقت تھی اور ان علاقوں میں سے ایک تھی جہاں سے صلیبی جنگوں کا آغاز ہوا تھا۔ یہ اپنے زمانے کا ایک اہم تجارتی مرکز بھی تھا۔ جہاں ریشم ، اناج، مصالحہ جات وغیرہ کی تجارت ہوتی تھی۔ تیرہویں سے سترہویں صدی تک یہ آرٹ کے اہم مراکز میں بھی شمار کیا جاتا تھا۔ یہ اٹلی کا مردم خیز خطہ بھی تھا جس نے کئی نامور شخصیات کو جنم دیا۔ اگرچہ اس شہر کے وجود اور تاریخ بارے کوئی حتمی شواہد تو سامنے نہیں آئے تاہم مؤرخین علاقائی روایات اور دستیاب شواہد کو مدنظر رکھتے ہوئے اس نتیجہ تک پہنچے ہیں کہ رومی سلطنت پر بربریوں کے حملوں کے باعث پاڈو ، ایکو یلیا ، ٹریو لیو ،الٹینو اور کونکو رڈیا نامی شہروں کے لوگ نقل مکانی کر کے یہاں آ کر آباد ہوتے رہے۔ وینس نہروں کے منفرد جال اور بے شمار پلوں کے باعث دنیا بھر میں شہرت رکھتا ہے۔ وینس شہر 118 جزیروں کے جزیرہ نما پر مشتمل ہے جسے 150 نہریں جدا کرتی ہیں۔ جن جزیروں پر وینس آباد ہے اس کو کم وبیش 400 پلوں کے ذریعے آپس میں ملا دیا گیا ہے۔

ذرائع آمدورفت کی سہولیات
پرانے شہر میں نہریں ہی یہاں کی سڑکوں کا کام سرانجام دیتی ہیں کیونکہ ہر قسم کی آمدورفت پانی کے ذریعے یا پیدل ممکن ہے۔ جبکہ انیسویں صدی میں شہر کے دوسرے حصے کو ریل گاڑی کے ذریعے اٹلی کے دیگر شہروں تک رسائی دے دی گئی تھی جس سے ملک کے دیگر حصوں سے لوگ بشمول سیاحوں کے باآسانی وینس تک آ سکتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے وینس میں ریلوے سٹیشن بھی قائم کر دیا گیا تھا۔ جبکہ بیسویں صدی میں بذریعہ سڑک آمدورفت کا آغاز بھی کر دیا گیا تھا۔ اور اس شہر تک سڑک اور پارکنگ کی سہولت بھی مہیا کر دی گئی۔ چونکہ وینس میں سال بھر دنیا کے کونے کونے سے سیاحوں کی آمد کا سلسلہ جاری رہتا ہے اس لئے سیاحوں کی آسانی کیلئے وینس کی معروف شخصیت مارکوپولو کے نام سے منسوب ایک ائیر پورٹ بھی وینس کے ساحل سے تھوڑے فاصلے پر تعمیر کیا گیا ہے جہاں سے صرف 7 منٹ میں مسافروں کو واٹر بسوں کے ذریعے ہوائی اڈے تک پہنچا یا جا سکتا ہے۔ مارکو پولو ائیر پورٹ جدید سہولیات سے آراستہ اٹلی کے تین مصروف ترین ہوائی اڈوں میں شمار ہوتا ہے۔

جبکہ شہر میں شمال سے داخلے کیلئے خشکی کے ان راستوں کے علاوہ باقی شہر میں ذرائع آمدورفت قدیم روائتی طرز کے مطابق ہے جو پانی کے ذریعے یا پیدل ہے۔ وینس دنیا کا واحد یورپی شہر ہے جو ” کار فری ‘‘(بغیر کار یا گاڑیوں والا) علاقہ ہے۔ کیونکہ آمدورفت محض روائتی کشتیوں کے ذریعے جسے مقامی طور پر ” گوندولا ‘‘ کہتے ہیں کے ذریعے ہی ہوتی ہے۔ سیاحت ہو یا شادی بیاہ کی تقاریب آمدورفت کیلئے گوندولا ہی استعمال ہوتی ہے۔ جبکہ عمومی آمدورفت اب موٹر سے چلنے والی واٹر بسوں کے ذریعے ہوتی ہے۔ جنہیں مقامی طور پر ” واپو ریتو ‘‘ کہا جاتا ہے اور یہ بسیں شہر کی نہروں پر ایسے چلتی نظر آتی ہیں اور سہولیات مہیا کر رہی ہوتی ہیں جیسے بڑے شہروں میں عام بسیں چلتی ہیں۔ جبکہ پیدل چلنے والوں کیلئے پلوں کا جال بچھا ہوا ہے ۔ جن کے ذریعے ایک جگہ سے دوسری جگہ آنا جانا آسان ہے۔

وینس کے تفریحی مقامات
زٹیرا : وینس کے علاقے ڈورس ڈورو میں خاموش ، پرسکون اور قدرتی حسن سے مالامال تفریحی جگہ زٹیرا سیاحوں کی کشش کے سبب ہمیشہ سے انکی ترجیحات میں رہتی ہے۔

کاڈی اورو: یہ منفرد طرز کی ایک پر کشش عمارت ہے جو گرینڈ کینال کے ساتھ واقع ہے۔ اس کے لغوی معنی مقامی زبان کے مطابق ”سونے کا گھر‘‘ کے ہیں۔ یہ عمارت پندھرویں صدی میں تعمیر کی گئی تھی۔

لیڈو: وینس کی کھاڑی میں واقع ایک طویل اور تنگ جزیرہ بھی ہر وقت سیاحوں سے بھرا رہتا ہے۔

آرسینالے: اپنے زمانہ عروج میں یہ دنیا کا سب سے بڑا بحری اڈہ جو ہر لمحہ مصروف رہتا تھا اب بھی سیاحوں کی توجہ کا مرکزبنا رہتا ہے۔

سینٹ مارکس اسکوائر: یہ ایک چوک ہے جس کے اطراف میں زمانہ قدیم کی شاندار عمارتیں واقع ہیں جن کو دیکھ کر وینس کی قدیم سلطنت کی شان و شوکت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس کے بارے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ دنیا کا سب سے مشہور چوراہا ہے۔

برج آف سائے: یہ ایک منفرد طرز کا پل ہے جو مکمل طور پر اوپر کی طرف سے ڈھکا ہوا ہے۔ یہ پل دراصل ڈاگس پیلس اور ریو ڈی پلازو کو آپس میں ملاتا ہے۔

ریالٹو برج: اس پل کی تعمیر سے پہلے سان مارکو اور سان پولو کے اضلاع کے درمیان رابطے کا فقدان تھا چنانچہ اس کی تعمیر کا مقصد ان دونوں علاقوں کو ملانا تھا۔ اسکی تعمیر سولہویں صدی میں کی گئی۔

بورانو کا جزیرہ : یہ خوبصورت اور پر کشش جزیرہ دیکھنے والوں کو حیرت میں ڈال دیتا ہے۔ اس کی خاص بات یہ ہے کہ اس پر واقع چھوٹے چھوٹے بے شمار مختلف رنگوں سے مزین گھر سیاحوں کا دیکھتے ہی دل موہ لیتے ہیں۔ بورانو تک پہنچنے کیلئے سینٹ مارکس سکوائر سے واٹر بس کو استعمال کرنا پڑتا ہے۔

سینٹ مارکس کمپانائل: یہ ایک قدیم گھنٹہ گھر ہے جو سینٹ مارکس کمپا نا ئل کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ وینس کا بلند ترین گھنٹہ گھر اور مشہور ترین عمارتوں میں سے ایک ہے۔ 1902 میں اس کی عمارت تباہ ہو گئی تھی جبکہ 2008 میں اس کو دوبارہ تعمیر کیا گیا تھا۔

ڈاگس پیلس:یہ خوبصورت محل ایک زمانے میں وینس کی حکمرانی کا مرکز تھا۔ڈاگس نے ایک طویل عرصے وینس کی سلطنت پر حکمرانی کی۔

خاور نیازی

بشکریہ دنیا نیوز

ایمسٹرڈیم کی سیر

قوموں کی تہذیب وتمدّن سے آشنا ہونے کے لیے قرآن میں حکم ہے کہ زمین میں پھرو اور انکار کرنے والی مردہ قوموں کے حالات سے واقفیت حاصل کرو۔ چنانچہ ہم نے کئی ممالک دیکھے اور جہالت کی زندگی سے روشنی تک حالات کا علم ہوا۔ موجودہ دور میں ہالینڈ کے لوگوں نے جینے کا سلیقہ سیکھ لیا اور ماڈرن تہذیب و تمدن کے میدان میں عروج حاصل کیا۔ ڈچ قوم نے اپنے اردگرد پر غور کیا۔ تدبر و تفکر اور یکسوئی سے اپنے اندر انقلاب برپا کر کے دنیا کی ماڈرن قوموں میں اپنا شمار کر لیا۔ ایک زمانہ تھا کہ ڈچ مچھلیاں پکڑتے تھے۔ کشتی رانی ان کا پیشہ تھا۔ پھر یہ لوگ امریکہ کے شمال مشرقی حصہ پر قابض ہو گئے تھے۔

نیویارک کے علاقہ کو ڈچ کے قبضہ کی بدولت نیو نیدر لینڈ کہا کرتے تھے۔ یہ بڑی محنتی قوم ہے۔ ذہنی اور فکری سوچ ان کا سرمایہ ہے۔ ان لوگوں نے چھوٹے سے ملک کو کمال کا عروج بخشا ہے۔ ایئرپورٹ سطح سمندر سے نیچے ہے۔ ریل گاڑی کا انتظام زیر زمین ہے۔ سمندر کو روک کر شہر آباد کر لیے۔ نیدرلینڈ خوبصورت ترین چھوٹا سا ملک ہے اور بے پناہ قسم کا صاف ستھرا، ڈسپلن کا پابند ہے۔ ان کا فضائی سفر آرام دہ اور خوشگوار ہے۔ نہایت ماڈرن ایئر پورٹ ہے۔ جس میں ہر طرح کا آرام اور کھلا پن ہے۔ دکانیں عمدہ، شہر میں ریلوے نیٹ ورک حیرت کدہ ہے۔ بسیں چلتی ہیں، ائرپورٹ (Schiphol) کیا غضب کا ہے۔ فضائی کمپنی یم کا عملہ بڑا چوکس ہے۔ یہ ہوائی اڈا 45 میٹر سطح سمندر سے نیچے ہے۔

ہیگ میں دنیا کی بین الاقوامی عدالت ہے۔ اس کو امن کا شہر کہتے ہیں۔ اسی شہر میں بیگم رعنا لیاقت علی خان پاکستان کی سفیر رہ چکی ہیں۔ اسی عدالت کے چیف جسٹس ظفر اللہ تھے۔ اس اکیڈمی سے جسٹس ڈاکٹر نسیم حسن شاہ (مرحوم ) نے وکالت کی تعلیم حاصل کی۔ ایمسٹرڈیم شہر کی خاصیت یہ ہے کہ اس شہر کو پائلز(Piles) پر بنایا گیا ہے۔ سمندر میں کئی بڑے بڑے مکعب ڈالے گئے اور شہر تعمیر کیا گیا۔ ایسا طریقہ اختیار کیا کہ سمندر کے پانی کو روکا اور عالی شان عمارتیں کھڑی کر لیں۔ کمال تو یہ ہے کہ سمندر کی لہریں زیادہ نہیں ہوتیں۔ ہم نے سمندر کی سیر کی۔

سمندر کے کنارے اعلیٰ قسم کی لذیذ مچھلی میسّر آتی ہے۔ اس کا نام 17ویں صدی میں پڑا۔ اس وقت ایک آدمی جس کا نام ایمسٹرڈیم تھا، اُس نے اپنا مکان سمندر کے قریب بنایا، یہ مکان اب بھی موجود ہے۔ جس میں بوڑھے حضرات کا قیام ہے۔ شاہی محل کے سامنے آزادی کا نشان ہے۔ ایمسٹرڈیم میں میوزیم بہت عمدہ ہیں۔ پینوراما میسزڈک، وہ جگہ ہے جہاں ڈچ پینٹر نے ایک بڑی پینٹنگ پینوراما کو ایک بڑے کپڑے پر 17ویں صدی کے مناظر پیش کیے، ایسا لگتا ہے کہ یہ پینٹنگ کل تیار ہوئی۔ اس کا کام اتنا قدرتی اور اعلیٰ ہے کہ حکومت ہالینڈ نے اس کے نام کا سکّہ جاری کیا۔ اس کی شہرت نہریں بھی ہیں جو شہر میں رواں دواں ہیں۔

یہ لوگوں کو خوشی اور تفریح کا سامان مہیا کرتی ہیں۔ کئی مقامات پر نہروں کے اوپر پل تعمیر کیے گئے ہیں۔ جب کوئی اونچی چیز کا نہر سے گزر ہوتا ہے تو ٹریفک تھوڑی دیر کے لیے رُک جاتی ہے۔ پل (تعمیر شدہ) اوپر اٹھ جاتا ہے۔ یہاں پر خاص قسم کے گھر ہیں، ایک ہی طرز پر بنے ہوئے ہیں۔ میوزیم بے شمار ہیں۔ 17ویں صدی کے تعمیر شدہ مکانات موجود ہیں اور ماڈرن آرکیٹیکچر کے نمونے بھی میسّر آتے ہیں۔ ہم نے ایمسٹرڈیم کی گلیوں، بازاروں، چوراہوں کی سیر کی، ہر لحاظ سے ہم نے اس شہر کو منفرد پایا۔

ایمسٹرڈیم کے قدیم علاقہ میں جائیں تو جس طرح اندرون لاہور ہے۔ وہ نقشہ نظر آتا ہے۔ اس میں میوزیم، پارک، مارکیٹ آپ کو اپنی طرف راغب کرتی ہیں۔ اس میں تقریباً 6 ہزار 8 سو ٹرسٹ بلڈنگز ہیں جو حکومت کے قبضہ میں ہیں۔ ان بلڈنگز کا تعلق 16ویں اور 20ویں صدی سے ہے۔ ہالینڈ کے لوگ فرانسیسیوں یا جرمن یا اٹلی والوں کی طرح انگریزی بولنا پسند نہیں کرتے۔ مگر آپ انگریزی میں مدعا بیان کر سکتے ہیں۔ یورپی ممالک کی طرح یہاں بھی آپ کو انڈونیشیا، فرانس، اٹلی، میکسیکن اور انڈو پاکستان ریسٹورنٹ میسّر آئیں گے۔

مگر ایمسٹرڈیم کی برائون کافی طبیعت کو ہشاش بشاش کر دیتی ہے۔ عمدہ بھنی ہوئی مچھلی میسّر آتی ہے۔ نوجوان علیٰحدہ ریسٹورنٹ میں اپنا ڈیرہ لگاتے ہیں۔ آرٹ ڈیگو کیفے ہیں۔ ریسٹورنٹ رات ایک بجے تک کھلے رہتے ہیں۔ ایمسٹرڈیم اور ڈائمنڈ کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ گزشتہ چار صدیوں سے ایمسٹرڈیم نے ڈائمنڈ کی تجارت کو دنیا بھر میں مشہور کر دیا۔ یہ لوگ ہیروں کی تراش خراش میں اتنے ماہر ہیں کہ ان کی باریکی کامقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس لئے ایمسٹرڈیم کٹ ہیرے کی تجارت میں مشہور ہو گیا ہے۔ ڈائمنڈ افریقہ میں1867ء میں دریافت ہوا تھا۔ اس سے قبل ایمسٹرڈیم میں ہیرا تراشی کا کام چل رہا تھا۔ آپ کو تعجب تو ہو گا کہ ہیرا کلی نان (Cullinan) اور کوہ نور کی کٹائی اور پالش یہیں ہوئی تھی۔ بلیک ڈائمنڈ 33.74 کریٹ ہے۔ یہاں ہر سال تقریباً 8 لاکھ افراد اس آرٹ سے محظوظ ہوتے ہیں۔ان میں ہم بھی شامل تھے۔

پروفیسر ڈاکٹر ایم اے صوفی

Siberian Yenisei River Presents Breathtaking Landscapes

Snowy landscapes on the bank of the Yenisei River in the Siberian Taiga area, with the air temperature at about minus 35 degrees Celsius (minus 31 degrees Fahrenheit), outside Krasnoyarsk, Russia. The Yenisei is the largest river system flowing to the Arctic Ocean. It is the central of the three great Siberian rivers that flow into the Arctic Ocean (the other two being the Ob and the Lena). Rising in Mongolia, it follows a northerly course to the Yenisei Gulf in the Kara Sea, draining a large part of central Siberia, the longest stream following the Yenisei-Angara-Selenga-Ider river system. The maximum depth of the Yenisei is 24 metres (80 ft) and the average depth is 14 metres (45 ft). The depth of river outflow is 32 metres (106 ft) and inflow is 31 metres (101 ft).
The first team to navigate the Yenisei’s entire length, including its violent upper tributary in Mongolia, was an Australian-Canadian effort completed in September 2001. Ben Kozel, Tim Cope, Colin Angus and Remy Quinter were on this team. Both Kozel and Angus wrote books detailing this expedition, and a documentary was produced for National Geographic Television. A canal inclined plane was built on the river in 1985 at the Krasnoyarsk Dam.

 

Nomadic tribes such as the Ket people and the Yugh people have lived along the banks of the Yenisei river since ancient times, and this region is the location of the Yeniseian language family. The Ket, numbering about 1000, are the only survivors today of those who originally lived throughout central southern Siberia near the river banks. Their extinct relatives included the Kotts, Assans, Arins, Baikots, and Pumpokols who lived further upriver to the south. The modern Ket lived in the eastern middle areas of the river before being assimilated politically into Russia during the 17th through 19th centuries. Wheat from the Yenisei was sold by Muslims and Uighurs during inadequate harvests to Bukhara and Soghd during the Tahirid era.
Russians first reached the upper Yenisei in 1605, travelling from the Ob River, up the Ket River, portaging and then down the Yenisei as far as the Sym River. During World War II, Nazi Germany and the Japanese Empire agreed to divide Asia along a line that followed the Yenisei River to the border of China, and then along the border of China and the Soviet Union.