Tag Archives: Beautiful Places
وینس : پانی کی سڑکوں پر چلتی بسوں کا شہر
دنیا میں بہت سارے شہر اپنے اوصاف کی نسبت سے مختلف ناموں سے مشہور ہو جاتے ہیں جیسے کراچی روشنیوں کا شہر، پشاور پھولوں کا شہر لاہور باغات کا شہر وغیرہ وغیرہ، لیکن اٹلی میں ایک ایسا شہر عرصہ دراز سے دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے جسکی پہچان ایک نہیں کئی ناموں سے ہے ، مثلاً ” اس شہر کو پانیوں کا شہر، پلوں کا شہر، روشنیوں کا شہر، تیرتا شہر نہروں کا شہر ،ایڈریاٹک کی ملکہ وغیرہ ۔ اٹلی کے شمالی حصے میں واقعہ اس شہر کو سیاحوں نے ” سیاحت کے ماتھے کا جھومر ‘‘ کا نام بھی دے رکھا ہے۔ اس شہر کی خوبصورتی اور اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا کہ ہر سال لاکھوں کی تعداد میں لوگ یہاں کھنچے چلے آتے ہیں۔ اس شہر کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اقوام متحدہ نے اس پورے شہر اور اس کی سمندری کھاڑی کو ” عالمی ورثہ‘‘ قرار دیا ہوا ہے۔ جی ہاں سیاحت کی دنیا کا یہ منفرد اور پر کشش شہر اٹلی کا وینس ہے۔ وینس کا نام اس کے قدیم ” وینیٹی‘‘ باشندوں کی نسبت سے اخذ کیا گیا تھا۔
جو دسویں صدی قبل از مسیح میں وہاں پر آباد تھے۔ تاریخی طور پر یہ شہر ریاست وینس کا صدر مقام ہوا کرتا تھا جسے صوبے کا درجہ حاصل تھا جس کے زیر انتظام 44 قصبے ہوا کرتے تھے۔ ریاست وینس زمانہ وسطی کی ایک بڑی بحری طاقت تھی اور ان علاقوں میں سے ایک تھی جہاں سے صلیبی جنگوں کا آغاز ہوا تھا۔ یہ اپنے زمانے کا ایک اہم تجارتی مرکز بھی تھا۔ جہاں ریشم ، اناج، مصالحہ جات وغیرہ کی تجارت ہوتی تھی۔ تیرہویں سے سترہویں صدی تک یہ آرٹ کے اہم مراکز میں بھی شمار کیا جاتا تھا۔ یہ اٹلی کا مردم خیز خطہ بھی تھا جس نے کئی نامور شخصیات کو جنم دیا۔ اگرچہ اس شہر کے وجود اور تاریخ بارے کوئی حتمی شواہد تو سامنے نہیں آئے تاہم مؤرخین علاقائی روایات اور دستیاب شواہد کو مدنظر رکھتے ہوئے اس نتیجہ تک پہنچے ہیں کہ رومی سلطنت پر بربریوں کے حملوں کے باعث پاڈو ، ایکو یلیا ، ٹریو لیو ،الٹینو اور کونکو رڈیا نامی شہروں کے لوگ نقل مکانی کر کے یہاں آ کر آباد ہوتے رہے۔ وینس نہروں کے منفرد جال اور بے شمار پلوں کے باعث دنیا بھر میں شہرت رکھتا ہے۔ وینس شہر 118 جزیروں کے جزیرہ نما پر مشتمل ہے جسے 150 نہریں جدا کرتی ہیں۔ جن جزیروں پر وینس آباد ہے اس کو کم وبیش 400 پلوں کے ذریعے آپس میں ملا دیا گیا ہے۔
ذرائع آمدورفت کی سہولیات
پرانے شہر میں نہریں ہی یہاں کی سڑکوں کا کام سرانجام دیتی ہیں کیونکہ ہر قسم کی آمدورفت پانی کے ذریعے یا پیدل ممکن ہے۔ جبکہ انیسویں صدی میں شہر کے دوسرے حصے کو ریل گاڑی کے ذریعے اٹلی کے دیگر شہروں تک رسائی دے دی گئی تھی جس سے ملک کے دیگر حصوں سے لوگ بشمول سیاحوں کے باآسانی وینس تک آ سکتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے وینس میں ریلوے سٹیشن بھی قائم کر دیا گیا تھا۔ جبکہ بیسویں صدی میں بذریعہ سڑک آمدورفت کا آغاز بھی کر دیا گیا تھا۔ اور اس شہر تک سڑک اور پارکنگ کی سہولت بھی مہیا کر دی گئی۔ چونکہ وینس میں سال بھر دنیا کے کونے کونے سے سیاحوں کی آمد کا سلسلہ جاری رہتا ہے اس لئے سیاحوں کی آسانی کیلئے وینس کی معروف شخصیت مارکوپولو کے نام سے منسوب ایک ائیر پورٹ بھی وینس کے ساحل سے تھوڑے فاصلے پر تعمیر کیا گیا ہے جہاں سے صرف 7 منٹ میں مسافروں کو واٹر بسوں کے ذریعے ہوائی اڈے تک پہنچا یا جا سکتا ہے۔ مارکو پولو ائیر پورٹ جدید سہولیات سے آراستہ اٹلی کے تین مصروف ترین ہوائی اڈوں میں شمار ہوتا ہے۔
جبکہ شہر میں شمال سے داخلے کیلئے خشکی کے ان راستوں کے علاوہ باقی شہر میں ذرائع آمدورفت قدیم روائتی طرز کے مطابق ہے جو پانی کے ذریعے یا پیدل ہے۔ وینس دنیا کا واحد یورپی شہر ہے جو ” کار فری ‘‘(بغیر کار یا گاڑیوں والا) علاقہ ہے۔ کیونکہ آمدورفت محض روائتی کشتیوں کے ذریعے جسے مقامی طور پر ” گوندولا ‘‘ کہتے ہیں کے ذریعے ہی ہوتی ہے۔ سیاحت ہو یا شادی بیاہ کی تقاریب آمدورفت کیلئے گوندولا ہی استعمال ہوتی ہے۔ جبکہ عمومی آمدورفت اب موٹر سے چلنے والی واٹر بسوں کے ذریعے ہوتی ہے۔ جنہیں مقامی طور پر ” واپو ریتو ‘‘ کہا جاتا ہے اور یہ بسیں شہر کی نہروں پر ایسے چلتی نظر آتی ہیں اور سہولیات مہیا کر رہی ہوتی ہیں جیسے بڑے شہروں میں عام بسیں چلتی ہیں۔ جبکہ پیدل چلنے والوں کیلئے پلوں کا جال بچھا ہوا ہے ۔ جن کے ذریعے ایک جگہ سے دوسری جگہ آنا جانا آسان ہے۔
وینس کے تفریحی مقامات
زٹیرا : وینس کے علاقے ڈورس ڈورو میں خاموش ، پرسکون اور قدرتی حسن سے مالامال تفریحی جگہ زٹیرا سیاحوں کی کشش کے سبب ہمیشہ سے انکی ترجیحات میں رہتی ہے۔
کاڈی اورو: یہ منفرد طرز کی ایک پر کشش عمارت ہے جو گرینڈ کینال کے ساتھ واقع ہے۔ اس کے لغوی معنی مقامی زبان کے مطابق ”سونے کا گھر‘‘ کے ہیں۔ یہ عمارت پندھرویں صدی میں تعمیر کی گئی تھی۔
لیڈو: وینس کی کھاڑی میں واقع ایک طویل اور تنگ جزیرہ بھی ہر وقت سیاحوں سے بھرا رہتا ہے۔
آرسینالے: اپنے زمانہ عروج میں یہ دنیا کا سب سے بڑا بحری اڈہ جو ہر لمحہ مصروف رہتا تھا اب بھی سیاحوں کی توجہ کا مرکزبنا رہتا ہے۔
سینٹ مارکس اسکوائر: یہ ایک چوک ہے جس کے اطراف میں زمانہ قدیم کی شاندار عمارتیں واقع ہیں جن کو دیکھ کر وینس کی قدیم سلطنت کی شان و شوکت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس کے بارے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ دنیا کا سب سے مشہور چوراہا ہے۔
برج آف سائے: یہ ایک منفرد طرز کا پل ہے جو مکمل طور پر اوپر کی طرف سے ڈھکا ہوا ہے۔ یہ پل دراصل ڈاگس پیلس اور ریو ڈی پلازو کو آپس میں ملاتا ہے۔
ریالٹو برج: اس پل کی تعمیر سے پہلے سان مارکو اور سان پولو کے اضلاع کے درمیان رابطے کا فقدان تھا چنانچہ اس کی تعمیر کا مقصد ان دونوں علاقوں کو ملانا تھا۔ اسکی تعمیر سولہویں صدی میں کی گئی۔
بورانو کا جزیرہ : یہ خوبصورت اور پر کشش جزیرہ دیکھنے والوں کو حیرت میں ڈال دیتا ہے۔ اس کی خاص بات یہ ہے کہ اس پر واقع چھوٹے چھوٹے بے شمار مختلف رنگوں سے مزین گھر سیاحوں کا دیکھتے ہی دل موہ لیتے ہیں۔ بورانو تک پہنچنے کیلئے سینٹ مارکس سکوائر سے واٹر بس کو استعمال کرنا پڑتا ہے۔
سینٹ مارکس کمپانائل: یہ ایک قدیم گھنٹہ گھر ہے جو سینٹ مارکس کمپا نا ئل کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ وینس کا بلند ترین گھنٹہ گھر اور مشہور ترین عمارتوں میں سے ایک ہے۔ 1902 میں اس کی عمارت تباہ ہو گئی تھی جبکہ 2008 میں اس کو دوبارہ تعمیر کیا گیا تھا۔
ڈاگس پیلس:یہ خوبصورت محل ایک زمانے میں وینس کی حکمرانی کا مرکز تھا۔ڈاگس نے ایک طویل عرصے وینس کی سلطنت پر حکمرانی کی۔
خاور نیازی
بشکریہ دنیا نیوز
ایمسٹرڈیم کی سیر
قوموں کی تہذیب وتمدّن سے آشنا ہونے کے لیے قرآن میں حکم ہے کہ زمین میں پھرو اور انکار کرنے والی مردہ قوموں کے حالات سے واقفیت حاصل کرو۔ چنانچہ ہم نے کئی ممالک دیکھے اور جہالت کی زندگی سے روشنی تک حالات کا علم ہوا۔ موجودہ دور میں ہالینڈ کے لوگوں نے جینے کا سلیقہ سیکھ لیا اور ماڈرن تہذیب و تمدن کے میدان میں عروج حاصل کیا۔ ڈچ قوم نے اپنے اردگرد پر غور کیا۔ تدبر و تفکر اور یکسوئی سے اپنے اندر انقلاب برپا کر کے دنیا کی ماڈرن قوموں میں اپنا شمار کر لیا۔ ایک زمانہ تھا کہ ڈچ مچھلیاں پکڑتے تھے۔ کشتی رانی ان کا پیشہ تھا۔ پھر یہ لوگ امریکہ کے شمال مشرقی حصہ پر قابض ہو گئے تھے۔
نیویارک کے علاقہ کو ڈچ کے قبضہ کی بدولت نیو نیدر لینڈ کہا کرتے تھے۔ یہ بڑی محنتی قوم ہے۔ ذہنی اور فکری سوچ ان کا سرمایہ ہے۔ ان لوگوں نے چھوٹے سے ملک کو کمال کا عروج بخشا ہے۔ ایئرپورٹ سطح سمندر سے نیچے ہے۔ ریل گاڑی کا انتظام زیر زمین ہے۔ سمندر کو روک کر شہر آباد کر لیے۔ نیدرلینڈ خوبصورت ترین چھوٹا سا ملک ہے اور بے پناہ قسم کا صاف ستھرا، ڈسپلن کا پابند ہے۔ ان کا فضائی سفر آرام دہ اور خوشگوار ہے۔ نہایت ماڈرن ایئر پورٹ ہے۔ جس میں ہر طرح کا آرام اور کھلا پن ہے۔ دکانیں عمدہ، شہر میں ریلوے نیٹ ورک حیرت کدہ ہے۔ بسیں چلتی ہیں، ائرپورٹ (Schiphol) کیا غضب کا ہے۔ فضائی کمپنی یم کا عملہ بڑا چوکس ہے۔ یہ ہوائی اڈا 45 میٹر سطح سمندر سے نیچے ہے۔
ہیگ میں دنیا کی بین الاقوامی عدالت ہے۔ اس کو امن کا شہر کہتے ہیں۔ اسی شہر میں بیگم رعنا لیاقت علی خان پاکستان کی سفیر رہ چکی ہیں۔ اسی عدالت کے چیف جسٹس ظفر اللہ تھے۔ اس اکیڈمی سے جسٹس ڈاکٹر نسیم حسن شاہ (مرحوم ) نے وکالت کی تعلیم حاصل کی۔ ایمسٹرڈیم شہر کی خاصیت یہ ہے کہ اس شہر کو پائلز(Piles) پر بنایا گیا ہے۔ سمندر میں کئی بڑے بڑے مکعب ڈالے گئے اور شہر تعمیر کیا گیا۔ ایسا طریقہ اختیار کیا کہ سمندر کے پانی کو روکا اور عالی شان عمارتیں کھڑی کر لیں۔ کمال تو یہ ہے کہ سمندر کی لہریں زیادہ نہیں ہوتیں۔ ہم نے سمندر کی سیر کی۔
سمندر کے کنارے اعلیٰ قسم کی لذیذ مچھلی میسّر آتی ہے۔ اس کا نام 17ویں صدی میں پڑا۔ اس وقت ایک آدمی جس کا نام ایمسٹرڈیم تھا، اُس نے اپنا مکان سمندر کے قریب بنایا، یہ مکان اب بھی موجود ہے۔ جس میں بوڑھے حضرات کا قیام ہے۔ شاہی محل کے سامنے آزادی کا نشان ہے۔ ایمسٹرڈیم میں میوزیم بہت عمدہ ہیں۔ پینوراما میسزڈک، وہ جگہ ہے جہاں ڈچ پینٹر نے ایک بڑی پینٹنگ پینوراما کو ایک بڑے کپڑے پر 17ویں صدی کے مناظر پیش کیے، ایسا لگتا ہے کہ یہ پینٹنگ کل تیار ہوئی۔ اس کا کام اتنا قدرتی اور اعلیٰ ہے کہ حکومت ہالینڈ نے اس کے نام کا سکّہ جاری کیا۔ اس کی شہرت نہریں بھی ہیں جو شہر میں رواں دواں ہیں۔
یہ لوگوں کو خوشی اور تفریح کا سامان مہیا کرتی ہیں۔ کئی مقامات پر نہروں کے اوپر پل تعمیر کیے گئے ہیں۔ جب کوئی اونچی چیز کا نہر سے گزر ہوتا ہے تو ٹریفک تھوڑی دیر کے لیے رُک جاتی ہے۔ پل (تعمیر شدہ) اوپر اٹھ جاتا ہے۔ یہاں پر خاص قسم کے گھر ہیں، ایک ہی طرز پر بنے ہوئے ہیں۔ میوزیم بے شمار ہیں۔ 17ویں صدی کے تعمیر شدہ مکانات موجود ہیں اور ماڈرن آرکیٹیکچر کے نمونے بھی میسّر آتے ہیں۔ ہم نے ایمسٹرڈیم کی گلیوں، بازاروں، چوراہوں کی سیر کی، ہر لحاظ سے ہم نے اس شہر کو منفرد پایا۔
ایمسٹرڈیم کے قدیم علاقہ میں جائیں تو جس طرح اندرون لاہور ہے۔ وہ نقشہ نظر آتا ہے۔ اس میں میوزیم، پارک، مارکیٹ آپ کو اپنی طرف راغب کرتی ہیں۔ اس میں تقریباً 6 ہزار 8 سو ٹرسٹ بلڈنگز ہیں جو حکومت کے قبضہ میں ہیں۔ ان بلڈنگز کا تعلق 16ویں اور 20ویں صدی سے ہے۔ ہالینڈ کے لوگ فرانسیسیوں یا جرمن یا اٹلی والوں کی طرح انگریزی بولنا پسند نہیں کرتے۔ مگر آپ انگریزی میں مدعا بیان کر سکتے ہیں۔ یورپی ممالک کی طرح یہاں بھی آپ کو انڈونیشیا، فرانس، اٹلی، میکسیکن اور انڈو پاکستان ریسٹورنٹ میسّر آئیں گے۔
مگر ایمسٹرڈیم کی برائون کافی طبیعت کو ہشاش بشاش کر دیتی ہے۔ عمدہ بھنی ہوئی مچھلی میسّر آتی ہے۔ نوجوان علیٰحدہ ریسٹورنٹ میں اپنا ڈیرہ لگاتے ہیں۔ آرٹ ڈیگو کیفے ہیں۔ ریسٹورنٹ رات ایک بجے تک کھلے رہتے ہیں۔ ایمسٹرڈیم اور ڈائمنڈ کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ گزشتہ چار صدیوں سے ایمسٹرڈیم نے ڈائمنڈ کی تجارت کو دنیا بھر میں مشہور کر دیا۔ یہ لوگ ہیروں کی تراش خراش میں اتنے ماہر ہیں کہ ان کی باریکی کامقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس لئے ایمسٹرڈیم کٹ ہیرے کی تجارت میں مشہور ہو گیا ہے۔ ڈائمنڈ افریقہ میں1867ء میں دریافت ہوا تھا۔ اس سے قبل ایمسٹرڈیم میں ہیرا تراشی کا کام چل رہا تھا۔ آپ کو تعجب تو ہو گا کہ ہیرا کلی نان (Cullinan) اور کوہ نور کی کٹائی اور پالش یہیں ہوئی تھی۔ بلیک ڈائمنڈ 33.74 کریٹ ہے۔ یہاں ہر سال تقریباً 8 لاکھ افراد اس آرٹ سے محظوظ ہوتے ہیں۔ان میں ہم بھی شامل تھے۔
پروفیسر ڈاکٹر ایم اے صوفی
Siberian Yenisei River Presents Breathtaking Landscapes
Snowy landscapes on the bank of the Yenisei River in the Siberian Taiga area, with the air temperature at about minus 35 degrees Celsius (minus 31 degrees Fahrenheit), outside Krasnoyarsk, Russia. The Yenisei is the largest river system flowing to the Arctic Ocean. It is the central of the three great Siberian rivers that flow into the Arctic Ocean (the other two being the Ob and the Lena). Rising in Mongolia, it follows a northerly course to the Yenisei Gulf in the Kara Sea, draining a large part of central Siberia, the longest stream following the Yenisei-Angara-Selenga-Ider river system. The maximum depth of the Yenisei is 24 metres (80 ft) and the average depth is 14 metres (45 ft). The depth of river outflow is 32 metres (106 ft) and inflow is 31 metres (101 ft).
The first team to navigate the Yenisei’s entire length, including its violent upper tributary in Mongolia, was an Australian-Canadian effort completed in September 2001. Ben Kozel, Tim Cope, Colin Angus and Remy Quinter were on this team. Both Kozel and Angus wrote books detailing this expedition, and a documentary was produced for National Geographic Television. A canal inclined plane was built on the river in 1985 at the Krasnoyarsk Dam.
Nomadic tribes such as the Ket people and the Yugh people have lived along the banks of the Yenisei river since ancient times, and this region is the location of the Yeniseian language family. The Ket, numbering about 1000, are the only survivors today of those who originally lived throughout central southern Siberia near the river banks. Their extinct relatives included the Kotts, Assans, Arins, Baikots, and Pumpokols who lived further upriver to the south. The modern Ket lived in the eastern middle areas of the river before being assimilated politically into Russia during the 17th through 19th centuries. Wheat from the Yenisei was sold by Muslims and Uighurs during inadequate harvests to Bukhara and Soghd during the Tahirid era.
Russians first reached the upper Yenisei in 1605, travelling from the Ob River, up the Ket River, portaging and then down the Yenisei as far as the Sym River. During World War II, Nazi Germany and the Japanese Empire agreed to divide Asia along a line that followed the Yenisei River to the border of China, and then along the border of China and the Soviet Union.