برطانوی مسلمانوں کو امتیازی سلوک کا سامنا

برطانوی حکومت کی جانب سے حال ہی میں جاری کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق برطانوی مسلمانوں کو معاشرے کے دیگر تمام لوگوں کے مقابلے میں سب سے کم اقتصادی مواقعے حاصل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں مسلمان نوجوانوں کو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود اچھے روزگار کے مناسب مواقعے میسر نہیں ہیں۔ برطانیہ میں معاشی ناہمواری کو ختم کرنے کے لیے کام کرنے والے ادارے سوشل موبلٹی کمیشن کی جانب سے حال ہی میں جاری کی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ برطانوی معاشرے میں مسلمان نوجوانوں کو سکول سے لے کر ملازمت تک ہر جگہ ناموافق حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

کمیشن کی رپورٹ کے مطابق پاکستانی نژاد برطانوی نوجوان تعلیم کے شعبے میں ماضی کی نسبت بہت بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہیں ہیں۔ تاہم اس کے باوجود ان کو اچھی نوکری ڈھونڈنے میں دشواری پیش آتی ہے۔ اس رپورٹ کے سلسلے میں مسلمان نوجوانوں سے کیے جانے والے سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ انھیں چھوٹی عمر سے ہی اسلام مخالف، نسل پرستانہ اور متعصبانہ رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کمیشن کی رپورٹ کے مطابق مسلمان نوجوان یہ محسوس کرتے ہیں کہ انھیں شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور اساتذہ مسلمان طالبعلموں سے بہتر کارکردگی کی امید نہیں رکھتے۔

برطانوی مسلمانوں کے مسائل کو اجاگر کرنے اور ان کا حل ڈھونڈنے کے لیے ملک میں متعدد مسلمان تنظیمیں کام کر رہی ہیں۔ ایک ایسے ہی مسلمان تھینک ٹینک ‘انیشیٹیو فار مسلم کمیونیٹی ڈیویلپمنٹ’ کے ڈائریکٹر محسن عباس کا بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ مسلمان نوجوانوں کو جن مسائل کا سامنا ہے اس کی متعدد وجوہات ہیں۔ ‘پہلی بات تو یہ ہے کہ مسلم کمیونیٹی اپنے مسائل کو صحیح طرح اجاگر کرنے میں ناکام رہی ہے۔ مسلمان کمیونیٹی کی ترقی کے لیے کوئی طویل مدتی وژن نہیں رکھتے۔ اس کی بنیادی وجہ ہماری پہلی نسل کی ناخواندگی ہے‘۔

محسن عباس کا مزید کہنا تھا کہ ‘کمیونیٹی ڈیویلپمنٹ میں مساجد کلیدی کردار ادا کر سکتی ہیں لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جس چیز میں فوری مالی فائدہ نظر نہ آ رہا ہو مذہبی لیڈرشپ اس میں کم ہی دلچسپی لیتی ہے‘۔ ان کے بقول ایسی صورت میں وہ حکومتی ادارے جو عوام کے ٹیکس پر چلتے ہیں ان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ مسلم کمیونیٹی کو درپیش مسائل کا حل نکالیں۔ ‘لیکن اگر آپ دیکھیں تو تقریباً دو دہائیوں سے حکومت کی توجہ صرف مسلمانوں میں انتہا پسندی کے خاتمے پر ہے۔ مسلمانوں کے تحفظات اور ان کو درپیش مسائل کی جانب توجہ نہیں دی گئی‘۔

سوشل موبلٹی کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مسلمان نوجوانوں میں خواتین کو برطانیہ میں سب سے زیادہ نامساعد حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جس کی وجوہات میں مذہب کے ساتھ ان کے لباس کو بھی بتایا گیا ہے۔ حجاب کرنے والی خواتین کی فوراً بحیثیت مسلمان پہچان ہو جاتی ہے اور ان کو ملازمت ڈھونڈنے میں دشواری اور ملازمت مل جانے کی صورت میں امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مغربی لندن کی رہائشی عائشہ خان نے تقریباً تین برس قبل وکالت کی ڈگری حاصل کی تھی لیکن اس کے بعد وہ کسی بھی بڑی قانونی فرم میں ملازمت ڈھونڈنے میں ناکام رہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ‘میری نوکری کی بیشتر درخواستوں کا کوئی جواب ہی نہیں دیا گیا اور کچھ جگہوں پر مجھے انٹرویو کے لیے تو بلایا گیا لیکن بات اس سے آگے نہیں بڑھ سکی‘۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘میں نے ایسے وقت میں اپنی ڈگری مکمل کی جب مسلمانوں کے بارے میں دنیا بھر میں منفی سوچ میں اضافہ ہو رہا ہے، برطانیہ میں بھی مسلمانوں کی کچھ ذرائع ابلاغ میں جس طرح تصویر کشی کی جاتی ہے وہ سب کے سامنے ہے‘۔

عائشہ کے بقول ‘کئی یورپی ممالک میں حجاب پر پابندی لگائی گئی ہے، مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میرے نام اور لباس کے باعث مجھے نوکری ملنے میں مشکل ہو رہی ہے‘۔ مسلمانوں کو درپیش مسائل کے حل کے لیے اس رپورٹ میں سوشل موبلٹی کمیشن کی جانب سے بارہ سفارشات بھی پیش کی گئی ہیں جن میں اساتذہ کو متنوع معاشرے میں پڑھانے کی تربیت اور انسانی حقوق اور برابری کے حکومتی کمیشن سے مسلمانوں کو ملازمت کے یکساں مواقعوں کے بارے میں گاہے بگاہے صورتحال کا جائزہ لینے کی سفارشات بھی شامل ہیں۔

عالمی رینکنگ میں نمبر و ن آکسفورڈ یونیورسٹی

زیرِ نظر کالم برطانیہ کی تاریخی درسگاہ، 2016 اور 2017 کی عالمی رینکنگ میں نمبر و ن یونیورسٹی کا اعزاز پانے والی آکسفورڈ یونیورسٹی سے۔ جامعات کی رینکنگ ہر سال ستمبر کے مہینے میں ایک معتبر اور موثق ادارے ٹائمز ایجوکیشن T.H.E کی طرف سے معروف ادارے پرائس واٹر ہاؤس کوپرز PwC کے آڈٹ کے ساتھ جاری کیے جاتے ہیں۔ اس سال کی فہرست میں پہلی بیس پوزیشنز میں سے انیس پر برطانیہ اور امریکہ کی جامعات فائز ہیں۔ دسویں پوزیشن سوئٹزر لینڈ کی ایک یونیورسٹی نے حاصل کی ہے۔ گزشتہ دو سو سال میں دنیا میں ترقی کرنے والی ہر قوم نے اپنی نئی نسل کی بنیادی تعلیم اور اعلیٰ تعلیم کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے۔ اساتذہ کی تربیت، تحقیق کے مواقع فراہم کرنے، نصاب کی تدریس کے لئے مختلف ضروریات ، طالب علموں کو سہولتوں کی فراہمی اور دیگر کئی امور پر اربوں ڈالر خرچ کیے جا رہے ہیں۔ برطانیہ کے بجٹ 2017ء میں تعلیم کے لئے 87.2 ارب پاؤنڈ مختص کیے گئے۔ برطانیہ کی قدیم ترین جامعہ آکسفورڈ 38 کالجز پر مشتمل ہے۔ 2015ء میں آکسفورڈ کا سالانہ بجٹ پینتالیس کروڑ تیس لاکھ پاؤنڈز تھا۔

آکسفورڈ یونیورسٹی میں میری اپنی اہلیہ کے ساتھ آمد کی وجہ اپنی نورِ عین، لختِ جگر مسز کنزیٰ عظیمی کی تکمیل کورس کی تقریبات میں شرکت ہے۔ الحمد للہ ہماری بیٹی نے آکسفورڈ یونیورسٹی کے سینٹ ہیو کالج St. Hugh’s College کے سعید بزنس اسکول سے اسکالر شپ کے ساتھ ایم بی اے کیا ہے۔ دنیا کی انتہائی معتبر اور تاریخ کی قدیم ترین یونیورسٹی آکسفورڈ کب قائم ہوئی مورخین اس حوالے سے تو خاموش نظر آتے ہیں تاہم یہ کہا جاتا ہے کہ یہاں تدریس کا آغاز 1096ء کے اردگرد کسی وقت ہوا۔ 1167ء سے یہاں تدریسی سرگرمیاں بہت زیادہ ہو گئیں۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کے پاس دنیا کی قدیم ترین انگلش میڈیم یونیورسٹی ہونے کا اعزاز بھی ہے۔ انگلش سے پہلے آکسفورڈ میں لاطینی زبان میں تعلیم دی جاتی تھی۔ لفظ یونیورسٹی بھی لاطینی زبان سے ہی اخذ کیا گیا ہے۔ اس کا مطلب ہے ’’اساتذہ اور اسکالرز کی کمیونٹی‘‘۔

دنیا میں سب سے پہلے قائم ہونے والی یونیورسٹی کا اعزاز اٹلی کی یونیورسٹی آف بلونا کے پاس ہے۔ یہ یونیورسٹی 1088 سے قائم ہے۔ تاریخی دستاویزات کے مطابق آکسفورڈ میں تعلیمی ادارے کے سربراہ کو چانسلر کا لقب 1214ء میں دیا گیا۔ 1249 اور 1264 کے درمیان آکسفورڈ میں دو کالج بالیال اور مارٹن قائم کیے گئے۔ ابتدائی دور میں یورپ اور برطانیہ کے تعلیمی اداروں میں لاطینی زبان اور موسیقی کی تعلیم دی جاتی تھی۔ تعلیمی ادارے چرچ کے ماتحت تھے۔ کیا پڑھانا ہے، کیا نہیں پڑھانا یہ پادری طے کیا کرتے تھے۔ چرچ کے طے کردہ اصولوں سے مطابقت نہ رکھنے والے نظریات کی تعلیم دینا تو دور کی بات اس قسم کے خیالات کا اظہار بھی مذہب کی مخالفت اور خدائی کاموں میں مداخلت قرار دیا جاتا تھا۔ پادری بادشاہ کو دعاؤں سے نوازتے تھے اور بادشاہ پادریوں کے جبر و ستم پر آنکھیں بند کیے رہتے۔ دراصل عوام کے جسموں اور ذہنوں پر تسلط قائم رکھنے کے لئے دونوں کو ایک دوسرے کی شدید ضرورت تھی۔

آکسفورڈ یونیورسٹی میں دی جانے والی تعلیم بھی چرچ سے منظور شدہ تھی اور اس دور کے چرچ کے پاس نئے نظریات یا دریافتوں کے لئے کوئی گنجائش نہ تھی۔ ایسی کوشش کرنے والے کئی عالموں اور سائنس دانوں کو سخت سزائیں دی گئی تھیں۔ ان پابندیوں کی وجہ سے آکسفورڈ یونیورسٹی میں اٹھارہویں صدی تک سائنسی تعلیم کا آغاز نہیں ہو سکا تھا۔ برطانیہ سمیت یورپین معاشروں میں عورت کا درجہ بہت پست تھا اور عورت کو تعلیم دینا بھی غیر ضروری سمجھا جاتا تھا۔ آکسفورڈ یونیورسٹی ایک روایتی باالفاظ دیگر قدامت پسند درس گاہ سمجھی جاتی تھی۔ اس روایتی تشخص کے سبب آکسفورڈ میں لڑکیوں کے لئے تعلیم کا اہتمام نہ تھا۔

انیسویں صدی کے اختتام تک لڑکیوں کو کالج میں آکرلیکچر سننے کی اجازت دے دی گئی تھی۔ بعد میں لڑکیوں کو امتحان دینے کی اجازت بھی مل گئی لیکن آکسفورڈ کی جانب سے ان طالبات کو ڈگری جاری نہیں کی گئی۔ آکسفورڈ یونیورسٹی نے اپنے قیام کے تقریباً آٹھ سو سال بعد پہلی خاتون کو 1924ء ڈگری جاری کی۔ یہ جان کر کتنی حیرت ہوتی ہے کہ لڑکیاں کلاس میں آرہی تھیں، لیکچر سن رہی تھیں، تیاری کرکے امتحان دے رہی تھیں لیکن وہ محض خاتون ہونے کی وجہ سے ڈگری کی حق دار نہیں تھیں۔ قدیم ترین تعلیمی ادارے کو بھی اپنی سوچ کی اصلاح اور تبدیلی میں صدیاں لگ گئیں۔ گزشتہ صدی تک یورپی معاشرے بھی صدیوں سے قائم ڈگر سے ہٹنے اور مثبت تبدیلیوں کو قبول کرنے کے لئے باآسانی تیار نہ تھے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی میں ہلڈا کالج صرف لڑکیوں کے لئے مخصوص تھا۔ آکسفورڈ یونیورسٹی نے بیسویں صدی تک اس کالج کا ایک صنفی اسٹیشن قائم رکھا۔ پہلی بار 1974ء میں اس کالج میں دونوں اصناف کے داخلے کی اجازت دی گئی۔

تاریخ کا مطالعہ کئی حقائق سے آگاہ کرتا ہے۔ ان میں سے بعض حقائق اپنے تصورات یا ہمیں فراہم کردہ معلومات سے بہت مختلف ہوتے ہیں۔ان حقائق کو تسلیم کرنا اس لئے بھی مشکل ہو جاتا ہے کہ ایسا کرنے سے خود اپنی وضع کردہ آرا اور اپنے کئی نظریات پر شدید ضربیں پڑتی ہیں۔ ترقی پذیر غریب ممالک کے لاتعداد شہریوں کے لئے آئیڈیل برطانوی اور یورپی معاشرے بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔ پاکستان میں فروغِ تعلیم میں حکمرانوں کی دلچسپی سب کے سامنے ہے۔ گورنمنٹ اسکول کی کارکردگی سے اکثر والدین مطمئن نہیں اس لئے وہ اپنے بچوں کو پرائیویٹ اسکول میں بھیجنے پر مجبور ہیں۔ پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں بھی مالی لحاظ سے درجہ بندیاں ہیں۔ ایک ہزار روپیہ ماہانہ سے لے کر بیس ہزار پچیس ہزار ماہانہ اور کہیں اس سے بھی زائد ماہانہ فیس ہے۔ ہماری قوم کا چار سے پانچ فیصد طبقہ اپنے بچوں کو ایسے اسکولوں میں بھیج سکتا ہے۔ مہنگے اسکولوں میں اچھی تعلیم حاصل کرنے والوں میں آگہی بہت زیادہ ہو جائے تب بھی یہ تعلیم یافتہ اور باشعور نوجوان حکومتی ترجیحات تبدیل کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ ووٹ کے ذریعے حکمران منتخب کرنے والوں کی بڑی تعداد تو ناخواندہ یا کم خواندہ افراد پر مشتمل ہے۔

برطانوی اور یورپی معاشروں کے بعض طائرانہ جائزوں سے یہ بھی پتہ چل جاتا ہے کہ تعلیم یافتہ ہو جانے کے باوجود بھی تبدیلیوں کیلئے خود کو آمادہ کرنے میں انہیں دہائیاں یا صدیاں لگ گئیں۔ پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش یا دوسرے ایشیائی ممالک کے بعض حالات دیکھ کر لگتا ہے کہ ہم لوگ ذہنی طور پر آج وہاں ہیں جہاں مغربی معاشرے آج سے چار سو سال پہلے تھے۔ سوال یہ ہے کہ ترقی یافتہ دنیا تک پہنچنے کیلئے ہمیں چار سو سال کا سفر طے کرنا ہو گا یاہم اس منزل تک آئندہ چند دہائیوں میں پہنچ سکتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہم یہ زمانی فاصلہ تیز رفتاری سے طے کرسکتے ہیں۔ اس کے لئے ہمیں ٹیکنالوجی کے لئے قبولیت اس کے مثبت اور تعمیری استعمال کیلئے خود کو تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ سیاسیات، معاشیات اور سماجیات کے ساتھ ٹیکنالوجی کا بلینڈ بنانا ہو گا۔ معاشی ترقی کو محض مالی حالات کی بہتری کا ذریعہ نہیں بلکہ سماجی بہتری کا ذریعہ بنانا ضروری ہے۔ سماجی بہتری کیلئے ضروری ہے کہ تعلیم محض مشین آپریٹرز یا کلرکوں کے حصول کیلئے نہ دی جائے۔ بلکہ تعلیم کا مقصد شعور اور آگہی میں اضافہ اور اپنی اعلیٰ روایات سے وابستگی بھی ہو۔ ہمارا ایک مسئلہ ترقی سے خوف زدہ ہونا ہے۔ ہم ڈرتے ہیں کہ ترقی ہونے سے ہمارا سماجی ڈھانچہ متاثر ہوگا۔ اس خوف کی بنیاد پاکستان میں سرکاری زبان اور ذریعہ تعلیم کا غلط انتخاب بھی ہے۔ ضروری ہے کہ اسکول کی تعلیم اور اعلیٰ تعلیم انگلش کے بجائے قومی زبانوں اردو، پنجابی، سندھی، پشتو، سرائیکی، ہندکو، بلوچی، براہوی، کشمیری اور بلتی زبانوں میں دی جائے۔

ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی