مگر یہ صرف اندازہ ہے میرا

 آپ سب کو نیا سال مبارک۔

میں نے سوشل میڈیا پر سالِ نو کے بارے میں ہر طرح کا عہد دیکھا۔’’ میں اس سال سگریٹ چھوڑ دوں گا ، والدین کو حج کراؤں گا ، میٹرک میں کم از کم تیسری پوزیشن کے لیے محنت کروں گی، نئے برس کے دوران تین اسٹریٹ چلڈرنز کو پڑھاؤں گا، اس برس ضرور میں رضیہ سے شادی کر لوں گا ، نامکمل مکان تعمیر کروں گا‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ مگر میں نے ایک بھی عہد ایسا نہیں دیکھا کہ ’’اس برس میں اپنے اہلِ خانہ کی نہ صرف بنیادی کوویڈ ویکسینیشن مکمل کرواؤں گا بلکہ آس پاس کے لوگوں سے بھی ضد کروں گا کہ وہ نہ صرف اپنی بلکہ ہر جاننے والے کی ویکسینشین کروائیں ۔‘‘ نئے سال کے ولولے اور قسمیں وعدے اپنی جگہ۔ مگر کوویڈ کا نیا ویرئینٹ ایمکرون بھی نئے سال میں ’’ میں اس برس سب سے زیادہ انسانوں کو متاثر کروں گا‘‘ کے عہد کے ساتھ گھس آیا ہے۔ اس کی رفتار پچھلے کسی بھی ویرئنٹ کے پھیلنے کی رفتار سے سات گنا زائد ہے۔

پاکستان میں اگرچہ سرکاری طور پر دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ تیس فیصد مجموعی آبادی اور چھیالیس فیصد بالغ آبادی کی ویکسینیشن مکمل ہو چکی ہے۔ جب کہ صوبہ پنجاب نے ستر فیصد اہل افراد کی ویکسینسیشن مکمل ہونے کا بھی دعویٰ کیا ہے۔ مگر ہاتھ کنگن کو آرسی کیا۔ دنیا ایمیکرون کے توسط سے کوویڈ کی پانچوں لہر میں پھنس چکی ہے اور پاکستان میں یہ لہر جنوری کے آخر سے تھپیڑے دینا شروع کر دے گی۔ جنھوں نے بنیادی ویکسینیشن بھی نہیں مکمل کروائی وہ سب سے پہلے زد میں آئیں گے۔ جنھوں نے بنیادی ویکسینیشن کروا لی ہے انھیں اس کے حملے سے بچنے کے لیے اب بوسٹر ڈوز لگوا لینی چاہیے۔ اگرچہ ویکسین شدہ افراد کے لیے ایمیکرون سے مرنے کا خطرہ کم بتایا جا رہا ہے اور یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ گزشتہ لہر میں پھیلنے والے ڈیلٹا ویرئینٹ کے مقابلے میں ایمیکرون پھیلنے کی رفتار سات گنا ہے مگر اس کا مہلک پن ڈیلٹا سے کم ہے۔ لیکن ایمیکرون پھیلنے کا عالمی چلن بتا رہا ہے کہ اس کا ہدف نسبتاً جوان آبادی ہے، اور یہی آبادی کسی بھی ملک کی معاشی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے۔ آگے آپ خود سیانے ہیں۔

عالمی ادارہِ صحت ( ڈبلیو ایچ او ) کے سربراہ ٹیڈروس گیبریسس نے کورونا نامی مصیبت کے دو برس پورے ہونے کے موقعے پر پریس کانفرنس میں ایک اور کورونا سونامی سے خبردار کیا ہے۔ اس وقت روزانہ عالمی سطح پر ایک ملین افراد وائرس کی اس نئی شکل سے متاثر ہو رہے ہیں۔ ایمیکرون نومبر کے شروع میں جنوبی افریقہ کے طبی ماہرین نے دریافت کیا تھا۔ مگر اس کا سب سے بڑا نشانہ اس وقت امریکا اور مغربی یورپ ہے۔ اس تیزی کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ اقوامِ متحدہ کے ایک سو چورانوے رکن ممالک نے گذرے برس کے شروع میں عہد کیا تھا کہ سال کے اختتام تک کم ازکم چالیس فیصد آبادی کی ویکسینیشن کا ہدف حاصل کر لیں گے۔ مگر بانوے ممالک اس ہدف کو حاصل نہ کر سکے۔ اب عالمی ادارہِ صحت کے سربراہ نے دنیا سے اپیل کی ہے کہ تمام متعلقہ ریاستی عمل دار نئے سال کے موقعے پر عزم کریں کہ اگلے چھ ماہ میں ستر فیصد آبادی کی ویکسینیشن کا ہدف حاصل کر لیا جائے گا۔

اس وقت عالمی سطح پر ایمیکرون سے متاثر لوگوں کی تعداد میں گیارہ فیصد فی ہفتہ یعنی چوالیس فیصد ماہانہ کے اعتبار سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اتنی رفتار اب تک کسی بھی کورونا وائرس کی نہیں رہی۔ نصف سے زائد متاثرین یورپی باشندے ہیں۔دنیا کا طبی ڈھانچہ کوویڈ کے پچھلے تھپیڑوں سے ادھ موا ہو چکا ہے۔ اوپر سے یہ تازہ قسم نازل ہو گئی ہے۔ تصور کریں کہ جن ممالک کا صحت ڈھانچہ پہلے ہی سے کمزور ہے ان پر کس قدر دباؤ ہو گا۔ ڈاکٹروں اور نیم طبی عملے پر ایک اور نیا بھاری دباؤ الگ گل کھلائے گا۔ نئے وائرس کے لیے اس سے زیادہ پر مسرت ماحول ممکن نہیں جب چند ممالک نے ضرورت سے زائد ویکسین ذخیرہ کر لی اور بہت سے ممالک اپنی آبادی کو ویکسین لگانے کے لیے پہلی خوراک بھی بمشکل مہیا کر پا رہے ہیں۔ امیر ممالک نے تیسری دنیا بالخصوص افریقی ممالک کو جو ویکسین مفت میں دان کی ہے اس میں سے بھی بیشتر مقدار ایکسپائر ہونے کے قریب ہے۔چنانچہ جنھیں یہ خیرات ملی وہ بھی اسے بلڈوز کر کے گڑھوں میں دبانے پر مجبور ہو رہے ہیں۔

مزید برآں ویکسین کی افادیت کے بارے میں منفی پروپیگنڈہ اور اس کے لیے سوشل میڈیا کا موثر استعمال بھی لاکھوں شہریوں کو شش و پنج کے وائرس میں مبتلا کیے ہوئے ہے۔ اس سے صرف ایک آدمی کنفیوز نہیں ہو رہا بلکہ اس منفی رجحان کے اثرات اس کے پورے خاندان اور اردگرد کے لوگوں پر بھی پڑتے ہیں۔ حالانکہ حقائق یہ بتا رہے ہیں کہ مرنے والوں کی اکثریت اب ان لوگوں پر مشتمل ہے جنھوں نے ویکسین ہی نہیں لگوائی۔ ان میں سے بہت سے وہ بھی ہیں جن کی عقل ٹھکانے پر لانے کے لیے خود کورونا کو زحمت کر کے ان کے جسم میں داخل ہونا پڑا۔ اور اب وہی اینٹی ویکسین لوگ سب سے زیادہ ویکسین نواز بن گئے ہیں۔ دو ہزار بیس میں کورونا سے دنیا بھر میں اٹھارہ لاکھ اور دو ہزار اکیس میں پینتیس لاکھ اموات ہوئیں، مگر یہ وہ اموات ہیں جن کا ریکارڈ موجود ہے۔

تاہم عالمی ادارہِ صحت کو امید ہے کہ دو برس کے تجربات کی روشنی میں دو ہزار بائیس اس عفریت سے مقابلہ کرنے کے لیے زیادہ بہتر پالیسی و تزویراتی ڈھانچہ مہیا کر سکتا ہے۔ بشرطیکہ ریاستیں پہلے سے زیادہ سنجیدگی اختیار کریں اور ویکسین کی دستیابی گزشتہ برس کی نسبت زیادہ سہل اور تیز رفتار ہو۔ ہو سکتا ہے نئے سال میں دنیا کے فیصلہ ساز اور دوا ساز کمپنیاں دیوار پر موٹا موٹا لکھا پڑھنے کے قابل ہو جائیں کہ جب تک آخری آدمی محفوظ نہیں ہو گا تب تک دنیا غیر محفوظ ہی رہے گی۔
سبھی چلتے رہیں گے ساتھ میرے
مگر یہ صرف اندازہ ہے میرا
جاوید صبا

وسعت اللہ خان

بشکریہ ایکسپریس نیوز

کوویڈ اتنی جلدی دفعان ہونے والا نہیں

ویسے تو پاکستان ہمیشہ سے ہی نازک دوراہے پر بتایا جاتا ہے مگر اگلے تین ماہ کے دوران پاکستان واقعی نازک دوراہے پر نظر آ رہا ہے۔ ایک جانب افغان سرحد کی طرف سے ناگہانی آ سکتی ہے تو دوسری جانب سے کوویڈ کا ڈیلٹا ویرینٹ ہمیں گھور رہا ہے۔ یہ بات اپنی جگہ حوصلہ افزا سہی کہ اکانومسٹ جریدے نے پاکستان کو پچھلے ڈیڑھ برس میں کوویڈ مینیجمنٹ کی اپنی مرتب کردہ عالمی فہرست میں حسنِ انتظام کے اعتبار سے سنگا پور اور نیوزی لینڈ کے بعد تیسرے درجے پر رکھا ہے۔ لیکن یہ فہرست ڈیلٹا ویرینٹ کے پھیلاؤ سے پہلے کی ہے۔ پاکستان نے یقیناً اب تک کوویڈ کی تین لہروں کو خوش اسلوبی سے جھیل لیا ہے مگر اب وزیرِ اعظم اور ان کی مینیجمنٹ ٹیم نے ڈیلٹا کی شکل میں چوتھی لہر کی خبر دی ہے جس کے آثار نمودار ہونے شروع ہو گئے ہیں۔ گزشتہ ماہ کے آخر میں کوویڈ متاثرین کی تعداد ہزاروں سے کم ہو کر سیکڑوں میں پہنچنے کے بعد اب پھر ہزاروں میں پہنچ رہی ہے اور جس رفتار سے چوتھی لہر آ رہی ہے اس کے سبب ہر ہفتے متاثرین کی تعداد دوگنی ہونے کی جانب تیزی سے سفر کر رہی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ نئے متاثرین میں سے پچاس فیصد ڈیلٹا ویرینٹ کا شکار ہوئے ہیں۔

کیا ہم واقعی ڈیلٹا کے مقابلے کے لیے تیار ہیں یا گزشتہ تین لہروں کی پسپائی کے سرور میں ہیں ؟ آثار یہی ہیں کہ ہم سرور میں ہیں۔ تمام تر حسنِ انتظام کے باوجود گزشتہ پانچ ماہ کے دوران بائیس کروڑ کی آبادی میں سے صرف پانچ ملین شہریوں کو ہی کسی بھی قسم کی کوویڈ ویکسین کی دو خوراکیں لگ پائی ہیں۔ جب کہ سرکاری ہدف اگلے پانچ ماہ میں سات کروڑ پاکستانیوں کی ویکسینیشن کا بتایا جا رہا ہے۔ موجودہ رفتار سے یہ ہدف حاصل کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ اس دوران اگر ڈیلٹا ویرینٹ کی لہر قابو سے باہر ہونے لگی تو نہ صرف یہ ہدف اور دور جا سکتا ہے بلکہ پچھلی کامیابیوں پر بھی پانی پھر سکتا ہے۔ فرض کریں ویکسینیشن کا ہدف حاصل ہو بھی جائے تب بھی آرام سے بیٹھنے کی گنجائش نہیں۔ کیونکہ یہ تو سب جانتے ہیں کہ ویکسینیشن کوویڈ سے ہونے والی اموات کے مقابلے میں ایک ڈھال کا کام کر رہی ہے۔ البتہ یہ ڈھال کتنے ماہ و سال کے لیے موثر ہے اور اگلی اضافی خوراک ( بوسٹر ) لینے کی ضرورت کتنے عرصے بعد پڑے گی کوئی نہیں جانتا۔

محض اندازے ہیں کہ فلاں ویکسین اتنے ماہ کے لیے موثر ہے اور فلاں ایک سے دو برس تک ہمیں بچا کے رکھے گی اور پھر تیسری ڈوز کی ضرورت پڑے گی۔ یعنی یہ ایک مستقل جنگ ہے جو اگلے کئی برس پوری دنیا کو انتھک لڑنی ہے۔ اور جنگ بھی گھمسان کی ہے۔ ایک نظریہ یہ ہے کہ اگر ستر فیصد آبادی کی ویکسینیشن ہو جائے تو باقی تیس فیصد بھی محفوظ ہو جائیں گے۔ دوسرا نظریہ یہ ہے کہ جب تک ہر انسان کی ویکسینیشن نہیں ہو جاتی تب تک ہم سب خطرے کے دائرے میں رہیں گے۔ اس تناظر میں حالات اور بھی مایوس کن ہیں۔ ترقی یافتہ اور دولت مند ممالک نے تو اپنی کم ازکم پچاس فیصد آبادی کی ویکسینشن مکمل کر لی ہے اور اگلے پانچ ماہ کے دوران وہ سو فیصد ہدف حاصل کرنے کے قریب ہیں مگر بہت سے ترقی پذیر ممالک میں ابھی ویکسینیشن شروع بھی نہیں ہوئی۔ بہت سے ممالک کا دار و مدار عالمی ادارہِ صحت کی کوششوں سے چندے اور خیرات میں ملنے والی ویکسین پر ہے۔

پاکستان جیسے ممالک ایک حد تک تو ویکسین خریدنے کی سکت رکھتے ہیں لیکن ان کی زیادہ تر امید کا محور امداد میں ملنے والی ویکسین کے گرد ہی رہے گا۔ تیز رفتار ویکسینشن کی راہ میں دوسری بڑی رکاوٹ تجارتی مفادات کو ویکسین کے معیار کے پردے میں آگے بڑھانے کی سیاست ہے۔ یعنی امریکا ، یورپی ممالک اور دولت مند عرب ریاستیں صرف اس ویکسینیشن کو تسلیم کرتے ہیں جس میں مغربی و امریکی ویکسین ساز کمپنیوں کی ویکسین استعمال ہو رہی ہے جیسے فائزر ، استرا زینیکا ، موڈرنا ، جانسن اینڈ جانسن وغیرہ۔ جن لوگوں نے چینی یا روسی ویکسین لگوائی ہے اسے مغرب تسلیم نہیں کرتا۔ اس امتیاز کی بنیاد کسی سائنسی ثبوت پر ہے یا یہ مشرق و مغرب کی سیاسی رقابت کی بنیاد پر ہے ؟ جو بھی وجہ ہو مگر اس کی زد میں ایک عام آدمی ہی آ رہا ہے۔ مثلاً میں گزشتہ ہفتے برطانیہ گیا تو وہاں کے صحت حکام نے میرا نادرا کا جاری کردہ ویکسینیشن سرٹیفکیٹ ماننے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ آپ نے چینی ویکسین لگوائی ہے جو ہمارے ہاں رجسٹرڈ نہیں لہٰذا آپ کو اپنے خرچے پر دس دن مخصوص ہوٹل میں قرنطینہ کرنا پڑے گا۔

اگر آپ نے ہماری منظور شدہ ویکسین لگوائی ہوتی تو پھر آپ گھر پر پانچ دن قرنطینہ کر سکتے تھے۔ چنانچہ مجھے ایک ہوٹل کے کمرے میں پہنچا دیا گیا۔  عالمی ویکسینیشن کی راہ میں دوسری اہم رکاوٹ مینوفیکچرنگ رائٹس اور لائسنسگ ہے۔ یعنی ویکسین ساز کمپنیاں ترقی پذیر غریب ممالک کو نہ تو برانڈڈ ویکسین کی مقامی تیاری کا لائسنس دے رہی ہیں اور نہ ہی ان کی ضرورت کے اعتبار سے ویکسین کی کھیپ تیار کر پا رہی ہیں۔ گویا غریب ممالک کو سہہ طرفہ مار پڑ رہی ہے۔ تیسری بڑی رکاوٹ خود وہ عوام ہیں جنھیں مرنا اور دوسروں کو وائرس سے متاثر کرنا تو منظور ہے مگر ویکسین لگوانا قبول نہیں۔ ان میں سے کئی لوگ نہ صرف خود ویکسین لگوانے کے قائل نہیں بلکہ جو لگوانا چاہتے ہیں انھیں بھی بھٹکانے اور گمراہ کرنے کو ثوابِ جاریہ سمجھ رہے ہیں۔

کبھی ویکسین کے حرام حلال ہونے کا سوال اٹھا دیا جاتا ہے تو کبھی اس مبینہ چپ سے ڈر لگتا ہے جو دراصل ویکسین کی آڑ میں ان کے جسم میں داخل کیا جا سکے۔ اس کے بعد دشمن ممالک کی ایجنسیاں اور بل گیٹس جیسے لوگ ان کی ہر سرگرمی پر نظر رکھ سکیں گے۔ بھلے ان کے پلے نظر میں آنے کے لیے کچھ ہو یا نہ ہو۔ جو ان دلائل سے گمراہ نہیں ہو سکتے انھیں یہ کہہ کر ڈرایا جاتا ہے کہ ویکسینیشن سے مردانہ قوت سلب ہو جاتی ہے۔ اس اطلاع پر سب سے زیادہ پریشان ہونے والوں میں نوجوان کم اور ستر برس سے اوپر کے بوڑھوں کی تعداد زیادہ ہے۔ بندہ ان سے پوچھے کہ بھائی صاحب آپ نے ویکسین آنے سے پہلے اس مخصوص شعبے میں کیا کیا تیر چلا لیے جو اب آپ کو اپنی رہی سہی قوت کھونے کا خیال ستائے جا رہا ہے۔ مگر یہ کہانیاں اور تھیوریاں ہمیشہ سے ہیں اور ہمیشہ رہیں گی۔ یہی کہانیاں اور وہمات خاندانی منصوبہ بندی کی مہم اور پولیو ویکسین کے بارے میں بھی پھیلائے جاتے رہے۔ آپ ان لوگوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے البتہ یہ لوگ آپ کا کچھ نہ کچھ ضرور بگاڑ سکتے ہیں اگر آپ کچے کانوں کے مالک ہیں۔

وسعت اللہ خان

بشکریہ ایکسپریس نیوز