Protests erupt after child rape cases shock India

Protests erupted across India after police officers and a politician were named separately in connection with two unrelated child rape cases, which are under investigation.

 

 

 

 

 

 

 

آصفہ نے یہ تصویر بڑے شوق سے کھنچوائی تھی

جموں کے قبائلی گجر خاندان سے تعلق رکھنے والی آٹھ سالہ بچی آصفہ، اس سال جنوری میں ہر روز کی طرح اپنے گھوڑوں کو گاؤں سے دور چراگاہوں کی طرف لے کر گئی۔ اور گھر نہیں لوٹی۔ والدین پڑوسیوں کے ساتھ رات بھر وہ ٹارچوں اور لالٹینوں کی روشنی میں جنگل میں دور دور تک ڈھونڈتے رہے۔ لیکن، بچی کا سراغ نہیں ملا۔ ایک ہفتے بعد اس کی لاش جنگل سے ملی۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ اور پولیس کی تحقیقات کے مطابق، آصفہ کو اغوا کرنے کے بعد ایک مقامی مندر میں قید رکھا گیا تھا جہاں اُسے نشہ آور دوائیں کھلائی گئیں اور زیادتی کے بعد انتہائی وحشیانہ طریقے سے قتل کر دیا گیا۔

پولیس نے جب ملزموں کی نشاندہی کی تو مقامی آبادی کے کچھ لوگ پولیس کے خلاف ہو گئے۔ آٹھ سالہ بچی کے بہیمانہ ریپ اور قتل کو مذہبی ٹکراؤ کا رنگ دے دیا گیا۔ جموں کے وکلا اور ایک دائیں بازو کی ہندو تنظیم نے ملزموں کی حمایت میں جلوس نکالے۔ اور وکیلوں نے فردِ جرم عائد کرنے کے لیے پولیس کو عدالت میں داخل ہونے سے روک دیا۔ ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے دو وزرا نے ملزموں کے حق میں نکالے جانے والے جلوسوں میں شرکت کی۔

کسی باپ یا ماں کے لئے سب سے ہولناک واقعہ اپنے بچے کی موت ہے اور پھر اگر وہ موت، اغوا، ٹارچر اور زیادتی کا نتیجہ ہو تو شائد ایسے ماں باپ اپنی زندگی کے ہر لمحے میں، بار بار ان تفصیلات کو اپنے ذہن میں دہرا کر تڑپتے رہتے ہیں۔ آصفہ کے والد اختر صاحب بھی اس عالم برزخ میں ہیں ’’جب ہماری بچی کے ساتھ اتنا ہو گیا تو ہمیں بھی مار دیں! اس میں کیا ہے!! ہماری بچی کو سات دن کس طرح رکھا۔ کس بے رحمی سے قتل کیا گیا۔ اب ہم کو کیا خطرہ ہے۔ اتنی خوبصورت تھی وہ، اس کی باتوں سے ایسا لگتا تھا کہ کچھ بنے گی۔ اور اس کے ساتھ اتنی زیادتی کی گئی۔ اس کو اتنا ٹارچر کیا گیا۔ کرنٹ بھی لگایا۔ جب ہم نے اس کی ڈیڈ باڈی کو دیکھا تو۔۔۔ بہت بری طرح اس کو مارا تھا۔ میں بیان نہیں کر سکتا۔ دیکھ نہیں سکتا تھا۔ ہمارے جیسا آدمی۔ کوئی نہیں دیکھ سکتا ‘‘۔

یہ بات کہنے میں وہ کئی بار رکے۔ اپنے آنسوؤں پر قابو پانے کی کوشش کی۔ اور یہ بھی بتایا کہ ان کا ذہن بالکل سن ہو گیا ہے ’’کوئی بات یاد نہیں رہتی۔ ڈاکٹر نے بہت سی دوائیں دی ہیں تو اب بولنے کے قابل ہوا ہوں‘‘۔ ان کی پیاری بیٹی کی ایک تصویر ہر خبر کے ساتھ لگائی جاتی ہے۔ جامنی پھولدار کپڑوں میں، سنہری مائل بھورے بالوں اور چمکیلی آنکھوں والی گڑیا۔ جس کی بے خوف آنکھوں سےبھی ایسا لگتا تھا کہ ’’کچھ بنے گی‘‘۔ والد کے مطابق، ’’یہ اس کی زندگی کی پہلی اور آخری تصویر تھی۔ بڑے شوق سے کھنچوائی تھی اس نے‘‘۔ انہوں نے رندھی ہوئی آواز میں بتایا۔

بھارتی سپریم کورٹ نے جموں کے بعض وکلاء کی طرف سے، ایک بچی قتل اور زیادتی میں مبینہ طور پر ملوث افراد کے خلاف، پولیس کو فرد جرم دائر کرنے سے روکنے کی کوشش کے واقعہ کا سخت نوٹس لیتے ہوئے اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کیا تھا۔ اور ازخود کیس کا جائزہ لینے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ اس کیس کی پیروی کرنے والی وکیل، دیپیکا رجاوت سے میں نے نئی دہلی میں بات کی۔ وہ کہتی ہیں: ’’سپریم کورٹ نے جو ’سوموٹو‘ ایکشن جاری کیا ہے اس کو میں انتہائی مثبت لے رہی ہوں۔ لگ رہا ہے کہ جو دیش کا سب سے بڑا کورٹ ہے، وہ کورٹ اگر اس ایشو پر جاگا ہے تو مجھے یقین ہے کہ اس بچی کو انصاف بہت جلد ملے گا‘‘۔

اس کیس میں ایک تازہ پیش رفت میں بھارتی سپریم کورٹ نے کشمیر کی حکومت کو ہدایت دی ہے کہ وہ کٹھوعہ کی آٹھ سالہ بچی کے اہل خانہ اور ان کے وکیل کو تحفظ فراہم کرے۔ وہ یہ بھی بتائے کہ کیا اس معاملے کو سماعت کے لیے چنڈی گڑھ کی عدالت میں منتقل کیا جا سکتا ہے۔ اس کیس پر کام کرنے والے برادری کے سرگرم کارکن، طالب حسین نے جہاں اس معاملے میں آصفہ کے خاندان کے ساتھ کھڑے ہونے والی ہندو برادری کو سراہا، وہاں انہیں یہ شکایت بھی تھی کہ نئی دہلی میں سیاست دانوں نے اس انسانیت سوز واقعے کو وہ توجہ نہیں دی جو نربھا کے المیے کو دی تھی۔ جب میں یہ بات کانگرس پارٹی کے ترجمان اور لوک سبھا کے سابق رکن میم افضل سے پوچھی تو انہوں نے اس کی تردید کی۔

اُنھوں نے کہا کہ ’’نربھا کیس کی طرح اس واقعے نے بھی پورے ملک کو ہلا دیا ہے۔ اور راہول گاندھی سمیت پارٹی کی تمام بڑے لیڈروں نے اس کے خلاف بیان دئیے ہیں‘‘۔ تاہم، انہوں نے بڑے تاسف سے کہا ’’آج کل یہ بڑی عجیب و غریب بات ہو گئی ہے کہ کسی بچے کا ریپ ہو تو لوگ پوچھتے ہیں کہ اس کا مذہب کیا تھا؟ ارے بچے تو بچے ہیں۔ کسی کے بھی ہوں، ہندو ہوں، مسلمان ہوں، سکھ ہوں یا عیسائی‘‘۔ اور آصفہ کے باپ کی صرف ایک اپیل ہے کہ :’’ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ ہماری آصفہ کو انصاف دلا دو۔ ہماری چھوٹی سی بچی کے ساتھ جو ہوا، کل کسی اور کے ساتھ ہو گا تو کیا کر لیں گے؟ بس ان کو سزا ملنی چاہئے‘‘۔

بشکریہ وائس آف امریکہ

کشمیر کی آٹھ سالہ بیٹی آصفہ انصاف مانگ رہی ہے

مقبوضہ جموں و کشمیر کے ضلع کٹھوعہ میں آٹھ سالہ کشمیری بچی آصفہ بانو کے لرزہ خیز قتل نے پورے بھارت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ خانہ بدوش گجر برادری کی یہ بچی دس جنوری کو خچر چرانے جنگل میں گئی ، اس کے خچر واپس آگئے مگر وہ نہیں ، 12 جنوری کو اسکا والد پولیس کے پاس مقدمہ درج کرانے گیا تو اسے کہا گیا کہ اسکی بیٹی کسی لڑکے کے ساتھ بھاگ گئی ہو گی۔ پانچ دن بعد بچی کی لاش مل گئی ۔ بچی کی ماں نسیمہ اور اس کے خاوند نے سب سے پہلے بھاگ کر جھاڑیوں میں لاش دیکھی تھی۔ اس پر تشدد کیا گیا تھا۔ اس کی ٹانگیں ٹوٹی ہوئی تھیں۔ اس کے ناخن کالے پڑ گئے تھے اور اس کے بازوؤں اور انگلیوں پر لال اور نیلے نشان تھے۔

تفتیش سے پتہ چلا کہ اس بچی کو کئی دن تک ایک مندر میں رکھا گیا تھا اور اسے بے ہوشی کی دوائیں دی جاتی رہی تھیں۔ کئی دنوں تک ریپ کیا گیا، آخر اسے قتل کر دیا گیا۔ پہلے اس کا گلا گھونٹا گیا پھر سر پر دو بار پتھر مارا گیا۔ 60 سالہ ریٹائرڈ سرکاری ملازم سنجی رام نے چار سپاہیوں سریندر ورما، تلک راج، کھجوریا اور آنند دتا کے ساتھ مل کر اس جرم کی منصوبہ بندی کی۔ رام کا بیٹا وشال، اس کا کم عمر بھتیجا اور دوست پرویش کمار بھی ریپ اور قتل کے ملزم ٹھہرائے گئے۔ تفتیش کاروں کا الزام ہے کہ کھجوریا اور دوسرے پولیس اہلکاروں نے مقتولہ کے خون آلود کپڑے دھو کر فارینزک لیبارٹری کو بھیجے تھے تاکہ سراغ دھل جائیں۔ ان میں سے بعض بچی کو تلاش کرنے میں اس کے خاندان کی جھوٹ موٹ مدد بھی کرتے رہے تھے۔ اس جرم کا مقصد گجر برادری کو ڈرا کر جموں سے نکالنا تھا۔ گجر بچی کو اس قبرستان میں دفن کرنا چاہتے تھے جس کی زمین انھوں نے چند سال پہلے خریدی تھی اور وہاں پہلے ہی پانچ مردے دفنا چکے تھے ۔ لیکن جب وہ جنازہ لے کر وہاں پہنچے تو قبرستان کو کٹر ہندوؤں نے گھیرے میں لے رکھا تھا اور انھوں نے دھمکی دی کہ اگر بچی کو وہاں دفنانے کی کوشش کی تو اچھا نہیں ہو گا۔

دوسری طرف وحشیانہ جرم کے مرتکب درندوں کی حمایت میں ہندوؤں نے مظاہرے شروع کر دئیے اور وکیلوں نے فردِ جرم عائد کرنے کے لیے پولیس کو عدالت میں داخل ہونے سے روک دیا۔ ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے دو وزرا نے ملزموں کے حق میں جلوسوں میں شرکت کی۔ تاہم جب احتجاج کی چنگاری نے شعلوں کا روپ دھارا تو ان وزرا کو مستعفی ہونا پڑا۔ واقعہ کے 65 روز بعد بھارت کے کونے کونے سے آوازیں آنے لگیں کانگریس صدر راہول گاندھی نے بی جے پی لیڈرشپ سے مخاطب ہو کر اپنے ٹویٹ میں لکھا پورا ملک آصفہ کے قتل سے ہل گیا ہے مگر آپ نہیں۔ سابق خارجہ سیکرٹری نروپامہ رائو نے تحریر کیا آصفہ کی معصوم آنکھیں مجھے پریشان کر رہی ہیں۔ ہم کہاں گر چکے ہیں ؟ شری روی شنکر نے تحریر کیا وہ انسان نہیں حیوان ہیں، پورے ملک کو آصفہ کیلئے کھڑا ہونا چاہیے۔ کرکٹر گوتم گمبھیر نے اپنے ٹویٹ میں کہا 8 سالہ بچی کی عصمت دری سے میرا سر شرم سے جھک گیا ہے اور اگر آصفہ کو جلد انصاف فراہم نہیں کیا گیا تو یہ ہمارے بھارتی ہونے پر سوال کھڑا کرے گا۔

ٹینس سٹار ثانیہ مرزا نے اپنے ٹویٹ میں سوالیہ انداز میں پوچھا کیا سچ میں ہم بھارت کو پوری دنیا میں اس نام سے پکارنے کے خواہاں ہیں، اگر ہم بغیر مذہب و ملت و جنس کے آٹھ سالہ بچی کیلئے کھڑے نہیں ہوں گے تب ہم اس دنیا میں رہنے کے لائق نہیں ہیں۔ اداکارہ سونالی بندرے نے کہا یہ ہمارے ملک کے لیے شرم کا مقام ہے کہ ہم لڑکیوں کی حفاظت نہیں کر پا رہے ہیں فلم اداکار سنجے دت نے لکھا بطور سماج ہم ناکام ہو چکے ہیں بطور باپ میں ہل گیا ہوں کہ آٹھ سالہ بچی کے ساتھ کیا ہوا اور میں کوئی بھی بات سننے کیلئے تیار نہیں ہوں، کسی بھی صورت میں آصفہ کو انصاف ملنا ہی چاہیے ۔ سونم کپور نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ میں نام نہاد قوم پرستوں اور ہندوئوں کے اس ہیبت ناک عمل سے شرمندہ ہوں اور خوف زدہ ہوں، مجھے یقین نہیں ہو رہا ہے کہ کیا واقعی یہ سب کچھ بھارت جیسے دیش میں ہو رہا ہے ۔ مزید برآں بھارتی سپریم کورٹ نے پولیس کو ایک مقامی عدالت میں فرد جرم دائر کرنے سے روکنے کے واقعہ کا سخت نوٹس لیتے ہوئے اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کر دیا ہے اور از خود کیس کا جائزہ لینے کا بھی فیصلہ کیا ہے ۔ آصفہ کے والد کا کہنا ہے کہ اس نے یہ معاملہ اللہ کی عدالت میں پیش کر دیا ہے۔

بشکریہ دنیا نیوز اردو

انڈین مسلمان پاکستانی ہیں کیا ؟

انڈیا کی شمالی ریاست اتر پردیش میں ایک سینیئر سرکاری افسر نے پوچھا ہے کہ کیا ہندوستانی مسلمان پاکستانی ہیں جو (ہندو) قوم پرست تنظیموں کے کارکن ان کے محلوں میں جا کر پاکستان مخالف نعرے بلند کرتے ہیں؟ بریلی کے ضلع میجسٹریٹ راگھویندر وکرم سنگھ نے اپنے فیس بک پیج پر لکھا ہے کہ ’عجب رواج بن گیا ہے، مسلم محلوں میں زبردستی جلوس لے جاؤ اور پاکستان مردہ باد کے نعرے لگاؤ۔ کیوں بھئی؟ وہ پاکستانی ہیں کیا؟‘ راگھویندر سنگھ نے یہ بات ریاست کے کاس گنج شہر میں مذہبی تشدد کے پس منظر میں کہی ہے۔

کاس گنج میں یومِ جمہوریہ کے موقع پر ہندو قوم پرست قومی پرچم لے کر ایک موٹر سائیکل ریلی نکال رہے تھے اور مسلمانوں کے ایک محلے سے گزرتے وقت ان کی مقامی لوگوں سے لڑائی ہوئی جس میں ایک ہندو نوجوان ہلاک ہو گیا جبکہ دونوں طرف سے متعدد افراد زخمی ہوئے۔ ضلع کے میجسٹریٹ نے ایک اخبار سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’قوم پرستی کے نام پر جو ہو رہا ہے اس سے انہیں بہت تکلیف پہنچی ہے۔‘ ایک اور پوسٹ میں انھوں نے کہا کہ’چین کے خلاف کوئی نعرے بلند کیوں نہیں کرتا حالانکہ وہ تو زیادہ بڑا دشمن ہے۔ ترنگا لے کر چین مردہ باد کیوں نہیں؟‘ کسی حاضر سروس افسر کے لیے اس طرح کی بات کہنا کافی غیر معمولی ہے کیونکہ اتر پردیش میں بی جے پی کی حکومت ہے اور ان کے بیان کو ڈسپلن کے خلاف ورزی کے زمرے میں تصور کیا جا سکتا ہے۔

ریٹائرڈ سینئر سرکاری افسران نے وزیراعظم نریندر مودی کے نام ایک کھلا خط لکھ کر کہا تھا کہ ملک میں اقلیتوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس خط پر دستخط کرنے والوں میں سابق سیکریٹری صحت کیشو دیسی راجو، سابق سیکریٹری اطلاعات و نشریات بھاسکر گھوش، سابق چیف انفارمیشن کمشر وجاہت حبیب اللہ سمیت 67 سابق بیورو کریٹ شامل ہیں۔ انھوں نے لکھا ہے کہ تشدد کے بدستور جاری واقعات اور قانون کا نفاذ کرنے والی ایجنسیوں کے ڈھیلے رویے پر وہ بہت فکر مند ہیں۔ انھوں نے کہا ہے کہ اقلیتوں کے ساتھ زیادتیوں سے، جس میں انھوں نے مسلمانوں کو کرائے پر مکان نہ دینے اور انہیں منظم انداز میں مکان نہ بیچنے کے واقعات کا بھی ذکر کیا ہے، پہلے سے زہر آلود ماحول اور خراب ہو گا اور مسلمانوں میں ناراضگی بڑھے گی۔

اپنے خط میں انھوں نے گذشتہ برس ملک کے مختلف حصوں میں پیش آنے والے قتل کے ان پانچ واقعات کا بھی ذکر کیا ہے جن میں مسلمان مارے گئے تھے۔ ان کے بقول انھوں نے جو مسائل اٹھائے ہیں ان پر وہ وزیراعظم سے فوراً وضاحت چاہتے ہیں اور یہ کہ تشدد کے ان واقعات میں ملوث لوگوں کے خلاف فوراً کارروائی کی جانی چاہیے۔ گذشتہ برس جون میں بھی ریٹائرڈ افسر شاہی نے ایک کھلے خط میں ملک میں بڑھتی ہوئی عدم رواداری سے لاحق خطرات پر توجہ مرکوز کرائی تھی۔

انڈیا میں جب سے بی جے پی کی حکومت آئی ہے، عام تاثر یہ ہے کہ عدم رواداری بڑھی ہے اور اس کے ساتھ ہی مسلمانوں میں عدم تحفظ کا احساس بھی۔ ملک میں گائے کے تحفظ کے نام پر مسلمانوں کے خلاف تشدد کے متعدد واقعات کے بعد سپریم کورٹ نے ریاستوں کو حکم دیا تھا کہ ’گئو رکشکوں‘ یا گائے کے خود ساختہ محافظین کی سرگرمیوں کو قابو کریں اور اسی کیس میں پیر کو عدالت نے اترپردیش، ہریانہ اور راجستھان کی حکومتوں کو توہین عدالت کا نوٹس بھی جاری کیا ہے۔ گئو رکشکوں کی سرگرمیوں کے خلاف وزیراعظم بھی کئی مرتبہ سخت زبان کا استعمال کر چکے ہیں لیکن حالات میں کوئی خاص بہتری نہیں آئی ہے۔

سہیل حلیم
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، نئی دہلی

بھارت: ’نچلی اور اعلیٰ ذات‘ کے ہندوؤں کے درمیان جھڑپیں

بھارت کے مغربی صوبے مہاراشٹر میں دو سو سال قبل پیش آئے ایک واقعے کی یاد منانے پر ’نچلی اور اعلیٰ ذات کے ہندوؤں‘ کے درمیان جھڑپوں کے بعد تشدد کا سلسلہ تقریباً اٹھارہ شہروں تک پھیل گیا ہے۔ پونے شہر سے شروع ہونے والے تشدد کی وجہ سے مہاراشٹر میں معمولات زندگی بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ اقتصادی دارالحکومت ممبئی کی لائف لائن سمجھی جانے والی لوکل ٹرینوں کو روک دیا گیا، بسوں میں توڑ پھوڑ کی گئی، میٹرو ریل سروس بند رہی اور پروازوں پر بھی اثر پڑا۔ کئی سیاحتی مقامات پر غیر ملکی سیاح پھنس گئے۔ اسکول اور کالج بند کر دیے گئے، یونیورسٹیوں نے اپنے امتحانات ملتوی کر دیے۔

ممبئی کے گھروں اور دفاتر میں کھانا پہنچانے کے لئے مشہور ڈبہ والوں کی تنظیم نے بھی آج اپنی خدمات بند رکھیں۔ دکانوں اور تجارتی اداروں کو احتیاط کے طور پر بند رکھا گیا۔ کچھ شہروں میں انٹرنیٹ سروس بند کر دی گئی ہے اور حکم امتناعی نافذ کر دیا گیا ہے۔ حکومت نے صورت حال کو قابو میں رکھنے کے لیے بڑی تعداد میں سکیورٹی فورسز تعینات کی ہے۔ ریاست گیر ہڑتال کی اپیل بھارت کے آئین ساز ڈاکٹر بھیم راو امبیڈکر کے پوتے اور سماجی کارکن پرکاش امبیڈکر نے کی تھی۔ ڈھائی سو سے زائد تنظیموں اور بائیں بازو کی جماعتوں نے بھی اس کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔

معاملہ کیا ہے؟
دراصل یہ جھگڑا 29 دسمبر کو اس وقت شروع ہوا، جب پونے کے ایک گاؤں میں ہندوؤں میں نچلی ذات کے سمجھے والے دلتوں کے ایک رہنما گووند مہاراج کے قبر پر حملہ کیا گیا۔ اس کے بعد یکم جنوری کو دلت پونے کے بھیما کوریگاوں جنگ کی دو صد سالہ سالگرہ یوم شجاعت کے طور پر منانے کے لئے جمع ہوئے، جہاں ’اعلیٰ اور نچلی ذات‘ کے ہندوؤں کے درمیان پرتشدد جھڑپ ہو گئی، جس میں ’نچلی ذات‘ کا ایک نوجوان ہلاک ہو گیا۔ صوبائی وزیر اعلیٰ دیویندر فڑنویس نے اس واقعے کی عدالتی انکوائری کرانے اور ہلاک ہونے والے شخص کے خاندان کو دس لاکھ روپے معاوضہ کے طور پر دینے کا اعلان کیا لیکن اس کے باوجود تشدد کا سلسلہ پھیلتا چلا گیا۔

پارلیمان میں ہنگامہ
مہاراشٹرکے اس واقعے پارلیمان میں بھی ہنگامہ ہوا۔ پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں یہ معاملہ اٹھا۔ ہنگامے کی وجہ سے ایوان بالا کی کارروائی ملتوی کرنی پڑی۔ ایوان زیریں (لوک سبھا) میں یہ معاملہ اٹھاتے ہوئے اپوزیشن لیڈر کانگریس کے ملک ارجن کھڑگے نے کہا، ’’اس واقعے کے پیچھے سماج میں تفرقہ پیدا کرنے والے (ہندوقوم پرست جماعت) آر ایس ایس کے لوگ ہیں۔ انہوں نے ہی یہ کام کیا ہے۔‘‘ انہوں نے اس واقعے پر وزیر اعظم نریندر مودی سے ایوان میں بیان دینے کا بھی مطالبہ کیا۔ دوسری طرف حکمراں بی جے پی کی طرف سے پارلیمانی امور کے وزیر اننت کمار نے جوابی حملہ کرتے ہوئے کہا، ’’کانگریس ذات پات کی کشیدگی بھڑکا رہی ہے اور مہاراشٹر میں امن قائم کرنے میں مدد کرنے کے بجائے تقسیم اور حکومت کرو کی پالیسی پر عمل کر رہی ہے۔‘‘

تنازع کی جڑ کیا ہے؟
دو سو سال قبل یکم جنوری 1818ء کو پونے کے بھیما کوری گاوں میں برطانوی حکومت اور مقامی حکمراں ’اعلی ذات‘ کے ہندو پیشوا باجی راو دوئم کی فوج کے درمیان جنگ ہوئی تھی۔ انگریزوں کی آٹھ سو کی فوج میں مہار ( ہندووں کی نچلی ) ذات کے پانچ سو جوان تھے، جنہوں نے پیشوا کی اٹھائیس ہزار کی بہت بڑی فوج کو ہرا دیا۔ پیشوا کی فوج میں گو کہ بہت سے غیر ملکی جوان بھی شامل تھے تاہم اس میں مہار ذات کا کوئی جوان نہیں تھا۔ اس فتح کو دلت فرقے کے لوگ اعلی ذات کے برہمنوں کے خلاف جنگ اور اپنی فتح سمجھتے ہیں۔ مورخین کہتے ہیں کہ پیشوا حکمرانوں نے مہاروں کے ساتھ کبھی اچھا سلوک نہیں کیا۔ مہاروں کو اپنی کمر میں ایک جھاڑو باندھ کر چلنا پڑتا تھا تاکہ ان کے پاوں کے نشان جھاڑو سے مٹتے چلے جائیں۔

اس جنگ میں کامیابی کے بعد برطانوی حکومت نے 1851ء میں بھیما کوریگاوں میں ایک جنگی یادگار تعمیر کرائی۔ مہار فوجیوں کو ان کی بہادری اور شجاعت کے لئے اعزاز سے نوازا گیا اور یادگار پر جنگ میں مارے گئے مہاروں کے نام کنندہ کرا دیے۔ ہرسال وہاں یکم جنوری کو پورے بھارت سے دلت جمع ہوتے ہیں۔ دلتوں کے عظیم رہنما اور بھارت کے آئین ساز ڈاکٹر بی آر امبیڈکر بھی 1927ء میں اس یادگار پر خراج عقیدت پیش کرنے گئے تھے، جس کے بعد یہ جگہ دلتوں میں کافی مقبول ہو گئی۔ اس سال یکم جنوری کو بھی وہاں ملک بھر سے تقریباً تین لاکھ افراد شرکت کے لئے آئے تھے۔

سیاست گرم
اس معاملے پر سیاست گرم ہو گئی ہے۔ کانگریس کے صدر راہل گاندھی نے ٹوئٹر پر لکھا’’ بی جے پی، آر ایس ایس کی فسطائی سوچ ہے کہ دلت ہمارے سماج کی سب سے نچلی سیڑھی پر ہی رہیں۔ اونا، روہت ویمولا اور بھیما کوریگاوں کے واقعات اسی طرح کی سوچ کے خلاف آوازیں ہیں۔‘‘ دلت رہنما، اتر پردیش کی سابق وزیر اعلیٰ اور بہوجن سماج پارٹی کی صدر مایاوتی کا کہنا تھا، ’’وہاں بی جے پی کی حکومت ہے اور انہوں نے ہی تشدد کرایا ۔‘‘ مہاراشٹر میں حکمراں بی جے پی کی حلیف ہندو قوم پرست جماعت شیو سینا کے رہنما سنجے راوت نے اس واقعے کو خفیہ ایجنسیوں کی کارکردگی کی ناکامی قرار دیا ہے۔ دوسری طرف قوم پرست ہندو جماعتوں کی مربی تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے ترجمان من موہن ویدیہ نے کہا، ’’آر ایس ایس سماج کو جوڑنے کا کام کرتا ہے، توڑنے کا نہیں ، کچھ لوگ سیاسی فائدے کے لئے تشدد کو فروغ دیتے ہیں اور کانگریس پہلی مرتبہ اس پر الزام نہیں لگا رہی ہے۔‘‘

سیاسی مضمرات
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس کے سیاسی مضمرات یقینی ہیں۔ مہاراشٹر میں جہاں 2019ء میں انتخابات ہونے والے ہیں، اعلی ذات کے ہندو مراٹھا پہلے ہی اس سے ناراض ہیں، ایسے میں دلت بھی دور ہو گئے تو اس کے لئے مشکلیں بڑھ سکتی ہیں۔ صوبے میں دلتوں کی آبادی ایک کروڑ 33 لاکھ یا تقریباً بارہ فیصد ہے۔ ریاست کے 48 اسمبلی سیٹوں میں اٹھارہ پر دلت موثر رول ادا کرتے ہیں۔ 2014ء میں بی جے پی کی کامیابی میں دلتوں کے ووٹوں نے اہم رول ادا کیا تھا۔

بشکریہ DW اردو

تاج محل کے بعد ٹیپو سلطان بھی بھارتی حکومت کے نشانے پر

بھارت کی حکمران جماعت بی جے پی کے وزیر اسکل ڈیولپمنٹ اننت کمار نے ہرزہ سرائی کرتے ہوئے ریاست میسور کے مسلمان حکمران ٹیپو سلطان کو ظالم اور قاتل قرار دے دیا۔ بھارت کی حکمران جماعت بی جے پی جہاں ملک میں اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے میں بری طرح ناکام ہو چکی ہے وہیں اپنی ملکی تاریخ کو مسخ کرنے کے درپے ہے۔ گزشتہ چند روز سے بی جے پی کے وزرا اور رہنماؤں نے دنیا کے ساتویں عجوبے اور بھارت کے منفرد تفریحی مقام تاج محل کو اپنی سیاحت کے کتابچے سے نکال باہر کیا جب کہ ایک وزیر نے تو تاج محل کو بھارتی تاریخ پر بدنما داغ قرار دے دیا۔ بی جے پی کے رہنما بھارت کی تاریخ کو تبدیل کرنے کے لئے ہرطرح کے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں اور اب 18 ویں صدی میں ریاست میسور کے بادشاہ اور انگریزوں کے خلاف 4 جنگیں لڑنے والے ٹیپوسلطان بھی ہندو انتہا پسندی کے نشانے پر آگئے ہیں۔

ریاست کرٹانک میں بی جے پی کی حزب مخالف جماعت کانگریس نے 2015 میں ٹیپو سلطان کے یوم پیدائش کو ریاستی سطح پر منانے کا فیصلہ کیا تھا تاہم 2015 سے اب تک یہ فیصلہ متنازعہ بنا ہوا ہے۔ کانگریس نے ایک بار پھر رواں برس 10 نومبر کو ریاست میں ٹیپو سلطان کے یوم پیدائش کی مناسبت سے تقریب منعقد کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس کے لئے ریاست سمیت مرکز کے تمام رہنماؤں کو بھی مدعو کیا گیا ہے تاہم بی جے پی کے مرکزی رہنما نے نا صرف تقریب میں شرکت سے معذرت کر دی بلکہ زہر اگلتے ہوئے ٹیپوسلطان کو ظالم، قاتل قرار دے دیا۔

بی جے پی رہنما نے ریاستی حکومت کو خط لکھا ہے جس میں کہا ہے کہ مجھے اس طرح کی شرمناک تقاریب میں مدعو نہ کیا جائے اور آئندہ بھی اس بات کا خیال رکھا جائے، حکومت کو خط لکھنے سے بھی جی نہ بھرنے پر اننت کمار نے ٹویٹر پر دعوت نامے کو پوسٹ کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ میں نے ایک ظالم، قاتل کو عزت دینے والی تقریب میں شرکت نہ کرنے کے حوالے سے کرناٹک حکومت کو مطلع کر دیا ہے۔ بی جے پی کے ممبر پارلیمنٹ نے بھی ان کی بھرپور حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ٹیپوسلطان ایک ہندومخالف رہنما تھے جن کے یوم پیدائش کا انعقاد ریاست کا غلط اقدام ہے۔ دوسری جانب کرناٹک کے وزیر اعلیٰ کا کہنا ہے کسی وزیر کو حکومت میں رہتے ہوئے اس قسم کا خط نہیں لکھنا چاہیے۔ ٹیپو سلطان کی سالگرہ کی تقریب میں شرکت کے لئے تمام مرکزی اور ریاستی وزرا کو دعوت نامے بھیجے گئے ہیں اس تقریب میں شرکت کرنا یا نہ کرنا ان کی اپنی مرضی پر ہے۔

تاج محل بھارتی ٹور ازم گائیڈ بک سے خارج

دنیا کے عجائبات کی فہرست میں شامل ’تاج محل‘ کے نام کو ریاست اترپردیش نے اپنی ٹورازم منسٹری کے کتابچے سے نکال دیا۔ بھارتی میڈیا رپورٹ کے مطابق بھارتی ریاست یو پی کی ٹور ازم منسٹری نے سیاحوں کی سہولت اور سیاحتی مقامات کی تشہیر کے لئے کتابچہ جاری کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق کتابچے کی خاص یا انہونی بات یہ ہے کہ اس میں عجائبات عالم میں شامل بھارتی شناخت کی بڑی نشانی’ تاج محل‘ کا نام تک شامل نہیں کیا گیا ہے ۔ دنیا بھر سے تقریبا ً6 ملین سیاح ہر سال تاج محل دیکھنے کے لئے بھارت آتے ہیں، لیکن ٹورازم گائیڈ بک کے سرورق پر گنگا آرتی کی تصویر چھاپی گئی ہے۔ تاج محل کو اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو نے دنیا کے 10 مشہور تاریخی مقامات کی فہرست میں شامل کیا ہے۔

بھارت میں مسلمانوں کی حالت زار…کلدیپ نئیر

سبکدوش ہونے والے نائب صدر مملکت حامد انصاری نے اپنے الوداعی پیغام میں کہا ہے کہ ’’مسلمان اس ملک میں خود کو محفوظ محسوس نہیں کرتے‘‘، بجائے اس کے کہ ان کی بات پر اپنے اندر جھانک کر دیکھا جاتا، آر ایس ایس اور بی جے پی نے سابق نائب صدر کی مذمت کرنا شروع کر دی۔ بعض لوگ تو یہاں تک کہہ گزرے کہ ان کو اس ملک میں ہجرت کر لینی چاہیے جہاں وہ خود کو محفوظ سمجھتے ہیں۔ سب سے بے رحم تبصرہ وزیراعظم نریندر مودی نے کیا اور کہا کہ انصاری کو اب اپنے ایجنڈے پر عمل کرنا چاہیے۔ اعلیٰ مناصب پر فائز بعض دیگر شخصیات نے بھی اسی قسم کے تبصرے کیے۔ ہندو لیڈروں کی ایک انتہائی قلیل تعداد نے اس حوالے سے مسلمانوں کے خوف کو کم کرنے کے لیے کوئی بات نہ کی۔ یہ درست ہے کہ سابق نائب صدر کو یہ بات اس وقت کہنی چاہیے تھی جب وہ اپنے منصب پر برقرار تھے اور ساتھ ہی استعفیٰ دے دینا چاہیے تھا۔

لیکن اس صورت میں کوئی آئینی بحران پیدا ہو سکتا تھا جس کو حل کرنے کے لیے ماہرین کی ضرورت پڑتی تب پورا ملک شکوک و شبہات میں گھر سکتا تھا۔ اکثریتی کمیونٹی کو یہ دیکھنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ ہر مسلمان لیڈر اپنی برادری کی فلاح و بہبود کے بارے میں اس قدر تحفظات کا آخر کیوں شکار ہے جس کا ذکر وہ اپنے منصب سے فارغ ہوتے وقت ضرور کرتے ہیں لہٰذا یہ کہنا کہ انصاری اپنی پسند کے کسی اور ملک میں چلے جائیں ان کے شکوے کا صحیح جواب نہیں۔ انصاری کے کہنے کا یہ مطلب ہر گز نہیں تھا کہ وہ بذات خود محفوظ نہیں بلکہ سبکدوش ہونے والے نائب صدر مسلمان برادری کے خوف اور ڈر کا ذکر کر رہے تھے۔ ایسی صورت میں انصاری پر ذاتی حملے کرنے کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا۔ سرکاری رہنماؤں کو یہ سوچنا چاہیے کہ سبکدوش ہونیوالے نائب صدر کی مذکورہ باتوں کا اصل مقصد کیا تھا اور حکام کو اپنے طرز عمل میں ایسی اصلاح کرنی چاہیے جس سے مسلمانوں کے خوف اور ڈر پر قابو پایا جا سکے۔ آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھگوت نے مبینہ طور پر انصاری کے نکتہ نظر کی توثیق کی ہے اور کہا ہے کہ اگر وہ بھارت میں خوش نہیں ہیں تو پھر انھیں کہیں اور چلے جانا چاہیے۔

ایک اہم تنظیم کے سربراہ ہونے کے ناطے بھگوت کے ریمارکس کی خاص اہمیت ہے لیکن یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ اس معاملے کو ہندو مسلم اختلافات کا رنگ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ انصاری کا تبصرہ پبلک پراپرٹی کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ یہ بات ملک کے نائب صدر نے کی ہے لہٰذا یہ لازمی ہے کہ اس پر ہر فورم میں بحث ہونی چاہیے بشمول پارلیمنٹ کے۔ مرکزی حکومت نے ماضی میں ایک کمیشن قائم کیا تھا تا کہ یہ دیکھا جا سکے کہ مسلمانوں کے محسوسات کیا ہیں۔ اس کمیشن کا سربراہ جسٹس راجندر سچر کو بنایا گیا تھا۔ انھوں نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ مسلمان کے ساتھ دلت سے بھی زیادہ برا سلوک ہوتا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ مغربی بنگال جہاں پر تین دہائیوں سے کمیونسٹ حکومت قائم تھی وہاں پر تعلیم یافتہ مسلمانوں کی شرح صرف ڈھائی فیصد تک ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ایک اور کمیشن قائم کیا جائے جو یہ دیکھے کہ جسٹس سچر کمیشن کی رپورٹ کے بعد حالات میں کوئی تبدیلی آئی ہے یا نہیں۔ بدقسمتی سے ماضی میں بھی مسلمان لیڈروں کے ریمارکس ایسے ہی رہے ہیں۔ بعض دیگر ممتاز شخصیات نے بھی ان باتوں میں شمولیت اختیار کی‘ مثال کے طور پر فلم اسٹار عامر خان نے دو سال پہلے سیاست دانوں کے ریمارکس کا حوالہ دیتے ہوئے اپنی بیوی کرن راؤ کے خوف کا ذکر کیا تھا جس کا کہنا تھا کہ بھارت میں عدم برداشت میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا ہے۔

عامر خان کے بیان کے بعد میں نے اس کے گھر جا کر اس کی بیوی کرن سے بات چیت کی جس میں اس نے کہا تھا کیا ہم بھارت چھوڑ کر باہر چلے جائیں؟ کرن کا یہ کہنا بہت پریشان کن تھا اس کو اپنی اولاد کے بارے میں خوف اور ڈر تھا کہ ہمارے ارد گرد جو حالات بن رہے ہیں اس سے ہمارا کیا ہو گا۔ اسے اپنے بچے کے بارے میں خوف تھا۔ ہر روز اخبار دیکھ کر اس کے خوف میں اضافہ ہو جاتا تھا۔ اس کو ڈر تھا کہ ہمارے ارد گرد کس قسم کا ماحول بن رہا ہے۔ اسے اخبار کھول کر دیکھنے سے بھی ڈر لگتا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ ناامیدی اور اندیشوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اور آپ سمجھ سکتے ہیں کہ ایسے کیوں ہو رہا ہے جس سے آپ کا حوصلہ پست ہو جاتا ہے۔ عامر خان ایک تقریب انعامات میں تقریر کر رہا تھا جس میں اس نے کہا کہ بہت سارے مشہور فنکاروں نے اپنے اعزازات بطور احتجاج واپس کر دیے ہیں جو ان کی مایوسی کو ظاہر کرتا ہے۔ جن لوگوں کو ہم اپنا منتخب نمایندہ کہتے ہیں‘ جنہوں نے 5 سال کے لیے ہمارا خیال رکھنے کا حلف اٹھایا خواہ ان کا تعلق ریاست سے ہو یا مرکز سے۔ جو ہماری حفاظت کے وعدے پر انتخاب میں کامیاب ہوتے ہیں لیکن جب لوگ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیں تو ہماری خواہش ہوتی ہے کہ انھیں مضبوط ہاتھوں سے روک دینا چاہیے اور ان کے خلاف مضبوط الفاظ کے بیانات جاری کیے جانے چاہئیں اور ان کے خلاف قانونی کارروائی تیز رفتار ہونی چاہیے۔ جب ہم ایسا ہوتا دیکھتے ہیں تو اس سے ہمارے اندر تحفظ کا احساس پیدا ہوتا ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو پھر عدم تحفظ پروان چڑھتا ہے‘‘۔ یہ عامر خان کا بیان تھا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ بی جے پی کی طرف سے عامر خان کے بیان کی سختی سے تردید کی گئی ہے جو کہ قابل فہم ہے۔ بی جے پی کا کہنا ہے کہ عامر خان خود ڈرا ہوا نہیں بلکہ وہ لوگوں کو ڈرانا چاہتا ہے۔ بھارت نے اس کو ہر قسم کی عزت اور تکریم دی ہے اس کو بھولنا نہیں چاہیے کہ اس کو اسٹار بھارت نے بنایا۔ بی جے پی کے ترجمان شاہنواز نے متذکرہ خیالات کا اظہار کیا‘ دوسری طرف کانگریس کے نائب صدر نے اداکار عامر کی باتوں کی مکمل حمایت کی اور ساتھ میں تجویز پیش کی کہ مودی حکومت کو عوام کے دلوں تک رسائی حاصل کرنی چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ وہ کیا محسوس کرتے ہیں۔ اس حوالے سے راہول گاندھی نے اپنی ٹویٹ میں کہا ہے کہ حکومت پر نکتہ چینی کرنیوالوں کو غیر محب وطن قرار دینے کے بجائے مودی حکومت کو یہ دیکھنا چاہیے کہ آخرعوام کی شکایات کی وجہ کیا ہے اور اس کا مداوا کیونکر ہو سکتا ہے۔ لیکن بی جے پی کے ترجمان نے حسب معمول راہول گاندھی کے بیان کو حکومت کے خلاف سازش کا حصہ قرار دیا۔

دوسری طرف پاکستان میں ہندو اور سکھوں کی تعداد بہت کم ہے جب کہ وہاں پر نسبتاً بڑی اقلیت عیسائیوں کی ہے جن کی طرف سے جبراً تبدیلی مذہب کی شکایت ملتی رہتی ہے۔ بھارتی نائب صدر کی باتوں کو رائیگاں نہیں خیال کرنا چاہیے کیونکہ انتخابات میں مذہب کو بنیاد بنایا جاتا ہے حالانکہ بھارت کے آئین کے مطابق اس ملک کا مذہب سیکولر ازم ہونا چاہیے لیکن بی جے پی کی طرف سے ہندوتوا کی ترویج سے سیکولر ازم پس پشت جا رہا ہے۔

کلدیپ نئیر
(ترجمہ: مظہر منہاس)

ہمارے نام پر خون نہ بہایا جائے

انڈیا کے کئی شہروں میں بڑی تعداد میں عام لوگ سڑکوں پر اترے، یہ پیغام دینے کے لیے کہ گائے کے تحفظ کے نام پر مسلمانوں اور دلتوں کو نشانہ بنانے والوں سے ان کا کوئی واسطہ نہیں۔ اس تحریک کو ’ناٹ ان مائی نیم‘ کا نام دیا گیا ہے، یعنی ہمارے نام پر خون نہ بہایا جائے، یہ تشدد ہمیں منظور نہیں۔ تحریک فیس بک پر فلم ساز صبا دھون کی ایک پوسٹ سے شروع ہوئی جس میں انھوں نے لکھا تھا کہ اب اس تشدد کے خلاف آواز اٹھانے کا وقت آ گیا ہے۔ بی بی سی اردو کے فیس بک لائیو میں حصہ لیتے ہوئے مشہور سماجی کارکن سوامی اگنی ویش نے کہا کہ ’جس طرح کے واقعات دیکھنے کو مل رہے ہیں، وہ بہت شرمناک اور دل کو ہلانے والے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ جو لوگ تشدد کر رہے ہیں ان کے خلاف انسداد دہشت گردی کے قوانین کے تحت کارروائی کی جانی چاہیے۔‘

انڈیا میں جب سے بی جے پی کی حکومت آئی ہے، گائے کی حفاظت کےنام پر تشدد کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ ہریانہ، مغربی بنگال، راجستھان، اتر پردیش، مدھیہ پردیش۔ ملک کی کئی ریاستوں میں ہجوم کے تشدد میں لوگوں کی جانیں گئی ہیں۔ تازہ ترین واقعے کی اطلاع جھاڑکھنڈ سے ہے جہاں گو کشی کے شبہے میں ایک شخص کو بری طرح پیٹا گیا اور اس کےگھر کو آگ لگا دی گئی۔ گذشتہ چند دنوں میں مغربی بنگال میں تین مسلمان نوجوانوں کو مبینہ طور پر گائے کی چوری کےالزام میں ہلاک کیا گیا ہے۔ عید سے ذرا پہلے سری نگر میں ایک پولیس افسر کو شہر کی جامع مسجد کے باہر پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دیا گیا۔

لیکن فی الحال توجہ اس نوجوان کے کیس پر ہے جسے گذشتہ ہفتے دلی کے قریب ایک ٹرین میں قتل کر دیا گیا تھا۔ جنید کی عمر صرف 16 سال تھی اور وہ عید کی خریدای کر کے گھر لوٹ رہا تھا۔ حملہ آوروں نے مبینہ طور کہا کہ یہ لوگ گائے کا گوشت کھاتے ہیں اور جنید اور اس کے بھائیوں کو نشانہ بنایا گیا۔ ٹرین کے ڈبے میں موجود لوگ خاموش تماشائی بنے رہے۔ اس کیس کے بعد فلم ساز صبا دیوان نے فیس بک پر لکھا تھا کہ اب خاموشی توڑنے ک اوقت آ گیا ہے اور ان کی اس پوسٹ نے تیزی سے ایک تحریک کی شکل اختیار کر لی۔

مظاہرے میں شامل لوگوں کا خیال تھا کہ ماحول کو سدھارنے کے لیے حکومت کو یہ واضح پیغام دینا چاہیے کہ جو کوئی بھی قانون کی خلاف ورزی کرے گا، اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ لیکن کچھ لوگوں کایہ الزام تھا کہ جو ہو رہا ہے وہ حکومت اور آر ایس ایس کی پالیسیوں کا ہی نتیجہ ہے اور حکومت عوام کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرنا چاہتی ہے۔ نندنی کی عمر تقریباً 20 سال ہے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’میں گائے کا گوشت کھاتی ہوں، اور مجھے نہیں لگتا کہ اس میں کوئی مسئلہ ہے۔ اور اس کی وجہ سے کسی بھی بے گناہ کو قتل کیا جائے، تو اس میں ہمارا دیش ہی مرتا ہے۔ اس لیے میں اس مظاہرے میں شامل ہوئی ہوں۔‘ مظاہرین میں شامل شریا کا کہنا تھا کہ’ہم چاہتے ہیں کہ امن کا پیغام جائے۔ اور اقلیتوں سے ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہم ان کے ساتھ ہیں، اور اس خونریزی کے خلاف ہم ایک ساتھ کھڑے ہو رہے ہیں۔‘

سہیل حلیم
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، نئی دہلی

جب مودی تشدد کی مذمت کر رہے تھے تبھی جھارکھنڈ کا علیم دین مارا گیا

انڈیا میں گائے کے تحفظ کے نام پر بڑھتے ہوئے تشدد کے واقعات کے پس منظر میں وزیراعظم نریندر مودی نے کہا ہے کہ گائے کے نام پر انسانوں کا قتل برداشت نہیں کیا جا سکتا ہے۔ تاہم جب انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی اس حوالے سے بات کر رہے تھے تو دوسری جانب جھارکھنڈ میں مجمعے نے ایک مسلمان نوجوان کو قتل کر دیا۔ رانچی سے ملحق رام گڑھ میں علیم دین نامی لڑکا گوشت خرید رہا تھا جب مجمعے نے اس پر حملہ کر کے ہلاک کر دیا۔ مجمعے نے علیم دین کی گاڑی کو بھی آگ لگا دی۔ اس واقعے کے بعد علاقے میں حالات کشیدہ ہو گئے اور پولیس کے اعلیٰ افسران نے وہاں کیمپ ڈال لیا ہے۔

ایک عینی نے بتایا کہ مجمع اس بات پر غصے کا اظہار کر رہے تھے کہ علیم دین ان کی گاڑی میں گائے کا گوشت ہے۔ اسی دوران لوگوں کی تعداد بڑھتی چلی گئی جس کے بعد علیم دین کو قتل کر دیا گیا۔ ہمارے نامہ نگار سہیل حلیم نے بتایا کہ گجرات میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے نریندر مودی نے کہا ‘ کسی کو قانون اپنے ہاتھوں میں لینے کا حق نہیں ، میں ملک کی عوام سے کہنا چاہتا ہوں کہ تشدد کسی مسئلے کا حل نہیں ہے۔’ انڈین وزیر اعظم نے نام نہاد گو رکشکوں کی پر تشدد کارروائیوں کے خلاف عرصے بعد سخت زبان کا استعمال کیا ہے لیکن حزب اختلاف کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ صرف بیان دینے سے حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ کانگریس کے سینئیر لیڈر غلام نبی آزاد نے کہا ‘دلتوں اور اقلیتوں کو بے دردی سے قتل کیا جا رہا ہے لیکن وفاقی اور ریاستی حکومتیں کوئی کارروائی نہیں کرتیں۔’

انڈیا میں جب سے بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت بنی ہے، اقلیتوں اور دلتوں پر حملوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ کبھی گائے کے تحفظ تو کبھی لو جہاں کے نام پر مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے لیکن نئی دہلی کے قریب ایک ٹرین میں ایک 16 سال کے لڑکے کے قتل کے بعد سے اس رحجان کے خلاف آواز اٹھنا شروع ہوئی ہے۔ 16 سالہ جنید کو گذشتہ ہفتے قتل کیا گیا تھا اور تب سے ہی یہ کیس سرخیوں میں ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی کو اس الزام کا سامنا رہا ہے کہ وہ بیرون ملک تشدد کے واقعات کی تو مذمت فورا کرتے ہیں لیکن ملک کے اندر ہونے والے ان حملوں پر خاموش رہتے ہیں۔ حزب اختلاف کی جماعتوں نے اپنے رد عمل میں کہا کہ بات کچھ اس نہج پر پہنچ گئی ہے اور اب ٹھوس کارروائی کی ضرورت ہے۔

بی جے پی کی اتحادی جماعت شو سینا نے بھی اپنی حکومت پر تنقید کی ہے۔
پارٹی کی ترجمان منیشا کیانڈے نے کہا کہ اس پورے مسئلے پر صرف سیاست کی گئی ہے اور اگر حکومت سنجیدہ ہے تو اسے سخت اقدامات کرنے چاہئیں۔ اگرچہ نریندری مودی نے گو رکشوں پر گذشتہ برس اگست میں بھی تنقید کی تھی تاہم ابھی تک حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔

بشکریہ بی بی سی اردو