پاکستان میں جنوبی ایشیا کا دوسرا بڑا پبلک ریلوے نیٹ ورک موجود

ورلڈ بینک کی ایک نئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے پاس جنوبی ایشیا کا دوسرا بڑا پبلک ریلوے نیٹ ورک ہے جو کہ تقریباً 80 ہزار کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق 2019 کے آخر سے پاکستان کے پاس 7 ہزار 700 کلومیٹر آپریٹنگ نیٹ ورک ہے جس کے بعد بنگلہ دیش کے پاس تقریباً 3 ہزار کلومیٹر اور سری لنکا میں 1500 کلومیٹر ہے، رپورٹ کے کے مطابق بھارتی نیٹ ورک 67 ہزار کلومیٹر کے ساتھ اب تک کا سب سے بڑا نیٹ ورک ہے۔ جنوبی ایشیا میں موجودہ ریلوے نیٹ ورک 4 ممالک پر مشتمل ہے جس میں بھارت، پاکستان، سری لنکا اور بنگلہ دیش شامل ہیں، 1947 میں ہندوستان کی آزادی تک جنوبی ایشیا کے لیے 4 میں سے 3 ریلویز ایک ہی نظام کا حصہ تھے، اس کے بعد سے وہ سبھی ریلوے کی وزارت کے زیر انتظام سرکاری محکموں کے طور پر کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔

پاکستان اور سری لنکا میں اب مکمل آپریٹنگ نیٹ ورک ایک ہزار 676 ملی میٹر ہے لیکن بنگلہ دیش اور بھارت دونوں کے پاس ابھی بھی تھوڑی تعداد میں میٹر گیج ریل موجود ہے۔ پاکستان اور بنگلہ دیش ریلوے دونوں کارپوریشنز ہیں، تاہم دونوں ممالک میں ریلوے کے وزیر اور حکومت اس کے انتظام اور فنڈنگ میں بڑا کردار ادا کرتے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان اور بنگلہ دیش میں ریلوے کو آپریشنز اور سرمائے کے اخراجات کے لیے حکومتی تعاون کی ضرورت ہوتی ہے چاروں ممالک میں مسافروں کی سروسز بنیادی اسٹرکچر کو برقرار رکھنے کے لیے درکار اخراجات میں بہت کم حصہ ڈالتی ہیں کیونکہ حکومتی پالیسی کے تحت مسافروں کے کرایوں کو کئی برسوں سے کم رکھا گیا ہے اور مالیاتی فرق کو مال بردار سروسز سے پورا کرنا پڑتا ہے۔

مجموعی طور پر چار جنوبی ایشیائی ریلویز سالانہ تقریباً 7 کھرب 50 ارب نیٹ ٹن-کلومیٹر مال بردار اور 1200 ارب مسافر- کلومیٹر سے زائد لے جاتے ہیں۔ جنوب مشرقی ایشیا کے دیگر ممالک سے کوئی لنک جڑا ہوا نہیں ہے، پاکستان اور ایران کے درمیان صرف ایک غیر معیاری لنک موجود ہے جس پر بہت کم آمدورفت ہوتی ہے۔  پاکستان اور بنگلہ دیش میں مال برداری کے ذریعے صرف محدود تعداد میں سامان کی ترسیل کی جاتی ہے جبکہ سری لنکا میں یہ تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔ پاکستان میں کوئلے سے چلنے والے تمام پاور اسٹیشنز ساحل پر واقع ہیں اور سمندر کے ذریعے یا مختصر فاصلے کے نقل و حمل کے ذریعے انہیں سپلائی فراہم کی جاتی ہے، بنگلہ دیش کا واحد علاقہ جو سمندر سے مناسب فاصلے پر واقع ہے وہ تقریباً مکمل زرعی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سڑکوں کا خاصا مضبوط نظام موجود ہے، ریلوے انتظامیہ کے لیے بندرگاہ سے تقریباً ایک ہزار کلومیٹر کے فاصلے پر مال برداری کے اہم علاقے کے باوجود ایک پرکشش سروس فراہم کرنا بڑا چیلنج ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غیر شہری مسافر سروس کو سری لنکا، پاکستان اور بنگلہ دیش میں بسوں سے قیمت اور سروس فریکوئنسی کے لحاظ سے سخت مقابلے کا سامنا ہے جبکہ سفر کے وقت کے لحاظ سے اسے بھارت اور پاکستان میں ہوائی جہاز سے مقابلے کا سامنا ہے۔

امین احمد

بشکریہ ڈان نیوز

ارنب ، پلواما اور جرمن ڈراما

ٹی وی چینلز کی جعلی ریٹنگز کیس کے سلسلے میں ممبئی پولیس کی جانب سے مودی نواز ریپبلک ٹی وی چینل کے معروف اینکر ارنب گوسوامی اور براڈ کاسٹ آڈئینس ریسرچ کونسل (بارک) کے سربراہ پراتھو گپتا کے مابین وٹس ایپ پیغامات کے دستاویزی ریکارڈ نے دلی سے اسلام آباد تک بھونچال برپا کر دیا ہے۔ تین ہزار صفحات سے زائد اس ریکارڈ میں پاکستانیوں کے کام کے ٹویٹس وہ ہیں جن سے انکشاف ہوتا ہے کہ ارنب کو چھبیس فروری دو ہزار کو بھارتی فضائیہ کی جانب سے بالا کوٹ پر حملے کے بارے میں کم ازکم تین روز پہلے تئیس فروری کو ہی معلوم ہو چکا تھا اور اس کا سبب کشمیر میں ہونے والی ’’ ایک بڑی چیز ’’ ( پلوامہ بم دھماکا ) بتایا گیا تھا۔ ارنب کے ٹویٹس سے معلوم ہوتا ہے کہ پلواما حملہ ایک ’’ نعمتِ غیر مترقبہ ’’ تھا جس کے سہارے ایک بڑی جوابی کارروائی ( بالاکوٹ حملہ ) کر کے مودی حکومت کی لوک سبھا کے انتخابات میں شاندار کامیابی شک و شبہے سے بالا بلکہ دوبالا ہو گئی۔

پاکستانی دفترِ خارجہ نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ پلواما حملہ دراصل بھارت نے خود اسٹیج کیا اور ایکٹ دو میں بالاکوٹ کا واقعہ ہوا۔ پس ثابت ہوتا ہے کہ جوہری ہتھیاروں سے لیس مودی حکومت علاقائی اور عالمی امن کے لیے کتنا بڑا خطرہ ہے۔ عالمی طاقتیں اب تک اس سنجیدہ خطرے کو غیر سنجیدگی سے لے رہی ہیں۔ بقول دفترِ خارجہ آر ایس ایس یافتہ مودی اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے کچھ بھی کر سکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اگر پلواما حملہ ڈرامہ سازی ثابت ہو جاتی ہے تو پھر یہ کوئی نیا واقعہ نہیں ہو گا۔ بیس برس پہلے صدر بل کلنٹن کے بھارت کے دورے کے موقع پر پاکستان کی کشمیر میں جاری ’’دہشت گردی ‘‘کے ایک بین ثبوت کے طور پر بیس مارچ دو ہزار کو ضلع اننت ناگ کے گاؤں چھتی سنگھ پورہ میں پینتیس کشمیری سکھوں کے قتلِ عام کی واردات بھی ہو چکی ہے۔

بھارت نے اس واردات کا ذمے دار لشکرِ طیبہ کو قرار دیا۔ مگر آج تک کسی بھی جانب سے اس بہیمانہ واردات کی ذمے داری قبول نہیں کی گئی۔ خود کشمیری سکھ قیادت کو روزِ اول سے یقین ہے کہ یہ کام بھارتی انٹیلی جینس ایجنٹوں نے کیا کیونکہ پاکستان نواز مسلح تنظیموں کو کشمیری سکھوں کے خلاف دہشت گردی سے کوئی سیاسی یا اسٹرٹیجک فائدہ نہیں تھا۔ مقامی سکھوں کے اس یقین پر اس لیے بھی یقین کرنے کو جی چاہتا ہے کیونکہ کلنٹن انتظامیہ کی وزیرِ خارجہ میڈلین البرائٹ نے اپنی یاداشتوں پر مبنی دو ہزار چھ میں شایع ہونے والی کتاب ’’ دی مائٹی اینڈ دی آلمائٹی، ریفلیکشن آن امریکا ، گاڈ اینڈ ورلڈ افئیرز‘‘ میں ہندو انتہا پسندوں کو کشمیری سکھوں کے قتلِ عام کا ذمے دار قرار دیا ہے۔ ( بعد ازاں بے پناہ دباؤ پڑنے کے بعد کتاب کے ناشر ہارپر کولنز نے وضاحت کی کہ مسودے میں غلطیو ں کی ناقص چھان بین سے یہ مسئلہ پیدا ہوا۔ البتہ میڈلین آلبرائٹ نے کبھی بھی اعتراف نہیں کیا کہ ان سے سکھ قتلِ عام کے بیان میں کوئی غلطی ہوئی ہے)۔

چونکہ ان دنوں بھارت میں انتہاپسندی کی سرخیل آر ایس ایس اور اس کا تفریقی قوم پرستانہ نظریہ غالب ہے اور سب جانتے ہیں کہ اس نظریے کے ڈانڈے آر ایس ایس کے بانی رہنماؤں نے فاشسٹ مسولینی اور نازی نسل پرستانہ نظریے سے مستعار لیے۔ مگر ارنب کی ٹویٹس سے لگتا ہے کہ آر ایس ایس نے صرف نظریہ نازیوں سے مستعار نہیں لیا بلکہ نازیوں کے توسیع پسندانہ ہتھکنڈوں کی بھی نقالی ہو رہی ہے۔ ذرا پلواما کی واردات اور بالاکوٹ پر حملہ ذہن میں رکھئے اور اکیاسی برس پہلے کی ایک حقیقی کہانی سنئے۔ دوسری عالمی جنگ سے ذرا پہلے نازی جرمنی میں ہٹلر کے دست راست اور گسٹاپو کے سربراہ ہیملر نے چیکوسلواکیہ کے جرمن اکثریتی علاقے سوڈیٹنز لینڈ کو ہڑپ کرنے کے لیے وہاں کے کچھ جرمن نژاد باشندوں کو سادہ کپڑوں میں ملبوس گسٹاپو ایجنٹوں سے قتل کرایا۔ املاک کو آگ لگوائی اور پھر ہٹلر نے یہ کہہ کر کہ چیکو سلواکیہ کی سرکار اپنے جرمن نژاد شہریوں کا تحفظ کرنے میں ناکام ہے، نازی فوجیں سوڈیٹنز لینڈ میں اتار کر اس علاقے کو ہڑپ کر لیا۔

اس کے بعد جرمنی نے اپنے دوسرے ہمسائے پولینڈ سے جرمن شہر ڈانزگ تک رسائی کے لیے زمینی کاریڈور کا مطالبہ کیا۔ پولینڈ نے چیکوسلواکیہ کا حشر دیکھتے ہوئے برطانیہ اور فرانس سے اسٹرٹیجک تعاون کا معاہدہ کر لیا۔ اس کے تحت کسی ایک ملک پر حملہ تینوں ممالک پر حملہ تصور ہو گا۔ ہٹلر کو اب پولینڈ ہڑپ کرنے کے لیے ایک ٹھوس جواز کی ضرورت تھی اور یہ جواز ایسے تخلیق کیا گیا کہ پولش سرحد سے متصل جرمن قصبے گلیوٹز کے ریڈیو اسٹیشن پر گٹساپو کے پولش بولنے والے ایجنٹوں کا قبضہ کروا کے نازی مخالف پروپیگنڈہ شروع کروایا گیا۔ اس کے بعد آشوٹز کے کنسنٹریشن کیمپ سے درجن بھر ہٹلر مخالف قیدیوں کو گلیوٹز لایا گیا۔ انھیں پولش فوج کی وردیاں پہنائی گئیں اور پھر انھیں گولی مار کر ہلاک کر کے ان کی لاشیں قصبے کے قریب ڈال دی گئیں۔ ان کی جیبوں میں جعلی پولش فوجی شناختی کارڈ بھی رکھے گئے اور وہ بندوقیں بھی رکھ دی گئیں جو پولش فوج استعمال کرتی ہے۔

یہ واقعہ تیس اگست انیس سو انتالیس کو ہوا۔ گزشتہ روز ہٹلر نے رائشتاغ ( جرمن پارلیمنٹ ) میں جرمن سرزمین کے خلاف ’’ ننگی پولش جارحیت‘‘ کی شدید مذمت کرتے ہوئے جرمن فادر لینڈ کے چپے چپے کی خون کے آخری قطرے تک حفاظت کا عہد کیا اور اگلے چوبیس گھنٹے میں کئی ڈویژن جرمن فوج نے پولینڈ کی سرحد عبور کر لی۔ اس حملے کے دو دن بعد تین ستمبر کو برطانیہ اور فرانس نے پولینڈ کے ساتھ کیے گئے اسٹرٹیجک معاہدے کی پاسداری میں نازی جرمنی کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیا۔ یوں دوسری عالمی جنگ باقاعدہ چھڑ گئی۔ اہم بات یہ ہے کہ گلیوٹز میں پولش فوجی حملے کے گسٹاپو کے ترتیب کردہ ڈرامے سے آٹھ روز پہلے ہٹلر نے جرمن فوجی ہائی کمان کے بند کمرے کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے آنے والے وقت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’میں آپ کو ایک ٹھوس جواز فراہم کروں گا۔ آپ کا کام صرف عظیم جرمن قوم کی فتح کو یقینی بنانا ہے۔ فاتح سے کوئی مورخ نہیں پوچھتا کہ اس نے کیا جھوٹ بولا تھا اور کتنا سچ بولا ‘‘۔ اب آپ اس کہانی کی روشنی میں ایک بار پھر پلواما کے دھماکے میں اکتالیس بھارتی نیم فوجی جوانوں کی ہلاکت، اس کے ردِعمل میں بالاکوٹ پر کارروائی، اس کارروائی سے تین دن پہلے کیے جانے والے ارنب گوسوامی کے ٹویٹس اور لوک سبھا کے عام انتخابات کی بی جے پی حکمتِ عملی کو جوڑ کے تصویر بنانے کی کوشش کیجیے۔ آپ کو اس تصویر میں اکاسی برس پہلے کے اصلی جرمن ڈرامے کا چربہ پن شاید نظر آ جائے۔ اور پھر سوچئے گا کہ آر ایس ایس اور کیا کیا نہیں کر سکتی۔

وسعت اللہ خان

بشکریہ ایکسپریس نیوز
 

بھارت ۔ جمہوریت اور سیکولرزم کا شمشان گھاٹ

جنوبی ایشیا ایسا بد قسمت خطّہ ہے۔ جہاں علاقائی تعاون کی آرزوئیں خاک ہو رہی ہیں۔ دنیا بھر میں علاقائی تعاون کی تنظیمیں آسیان۔ یورپی یونین۔ افریقی یونین۔ نارتھ امریکن فری ٹریڈ ایگریمنٹ سب ایک دوسرے سے اشتراک کر رہی ہیں۔ تجارت، صنعت میں آگے بڑھ رہی ہیں۔ یورپی یونین تو ایک کرنسی یورو اختیار کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ پاسپورٹ ویزے کی ضرورت نہیں رہی۔ لیکن جنوبی ایشیا کی علاقائی تعاون کی تنظیم سارک قدم آگے نہیں بڑھا سکی۔ یہ دنیا میں سب سے زیادہ آبادی والا خطّہ ہے۔ ایک ارب 80 کروڑ انسان ان 8 ملکوں بھارت۔ پاکستان۔ بنگلہ دیش۔ نیپال۔ بھوٹان۔ سری لنکا۔ مالدیپ۔ افغانستان میں سانس لیتے ہیں۔ دنیا کی کُل آبادی کا قریباً 24 فیصد ۔ اتنی بڑی تعداد میں انسان زندگی کی بنیادی سہولتوں سے بھی محروم ہیں۔ امن اور سکون سے بھی۔ اور اس کی وجہ اس خطّے کے سب سے بڑے ملک بھارت کی انتہا پسندی۔ دہشت گردی اور کشمیر پر غاصبانہ قبضہ ہے۔ اب 2014 میں نریندر مودی کے دہلی راجدھانی سنبھالنے کے بعد سے تو بھارت انتہا پسند ہندو ذہنیت کا گڑھ بن گیا ہے۔

نہ تو بھارت کے اپنے لوگ خوش ہیں اور نہ ہی ہمسایوں میں سے کوئی آرام سے زندگی بسر کر سکتا ہے۔ دنیا تو کیا ہم بھی چھ دہائیوں سے بھارت کی جمہوریت، تحمل و برداشت کی مثالیں دیتے آرہے ہیں۔ اپنے ہاں مارشل لائوں کی مذمت کرنے کے لیے ہمارے دانشور، سیاسی رہنما، ادیب، شاعر اور قانون دان بڑی شد و مد سے کہتے رہے ہیں کہ بھارت میں ہمیشہ حکومت ووٹ سے تبدیل ہوتی ہے۔ وہاں فوج نے کبھی نظم و نسق نہیں سنبھالا۔ اور یہ بھی کہ وہاں سیکولرازم کا دور دورہ ہے۔ ہندو۔ مسلم۔ سکھ۔ عیسائی ۔ بدھ۔ جین سب مل جل کر رہتے ہیں۔ ان کے ہاں سادگی، کفایت شعاری ہے۔ وہاں عدلیہ آزادی سے فیصلے کرتی ہے۔ اخبارات، ٹی وی، ریڈیو آزاد ہیں لیکن آج کا بھارت جمہوریت، سیکولرازم کا شمشان گھاٹ ، دہشت گردی اور انتہا پسندی کا مرکز بن گیا ہے۔ وہاں ہندوئوں کی چھوٹی ذاتیں محفوظ ہیں نہ اقلیتیں۔ مسلمان آبادی ملک کا 13 فیصد ہیں۔ قریباً 20 کروڑ لیکن ہر لمحے اذیت اور بربریت کے شکار عیسائی پونے 3 کروڑ کے قریب وہ بھی مصائب سے دوچار ہیں۔

سکھ قریباً 2 کروڑ ان کے احتجاج اور علیحدگی پسندی کی خبریں آتی رہتی ہیں۔ ہندو توا پورے زوروں پر ہے۔ دوسرے تمام مذاہب پابندیوں اور قدغنوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکمرانی میں انتہا پسندی کی بھی انتہا ہو گئی ہے۔ بھارت اور پاکستان کے بعض امن پسند گروپ پہلے کوششیں کرتے تھے کہ دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان براہ راست رابطے ہوں تو شاید بھارت کے متعصب۔ تنگ نظر حکمرانوں پر قیام امن کے لیے دبائو بڑھے۔ لیکن بی جے پی سرکار کے بعد یہ کوششیں بھی بے سود ہو گئی ہیں ۔ دونوں ملکوں کی آزادی پر شمعیں جلانے والے کلدیپ نائر سورگباش ہو گئے۔ ادھر پاکستان سے ڈاکٹر مبشر حسن بھی اللہ کو پیارے ہوئے۔ حقوق انسانی کے حوالے سے جدوجہد کرنے والے دوسرے گروپ بھی اب جنوبی ایشیا میں امن کے لیے سازگار فضا نہیں پارہے ہیں۔ میرا بھی 1972 سے مختلف صحافتی ادبی اور علمی کانفرنسوں کے لیے بھارت جانا ہوتا رہا ہے۔ شملہ مذاکرات کی رپورٹنگ کے لیے گیا بعد میں وزیر اعظم اندرا گاندھی سے خصوصی انٹرویو کے لیے بھی 21 روز قیام رہا۔ آگرہ مذاکرات کیلئے گئے تو وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی سے خصوصی گفتگو ہوئی۔

بعد میں مشرف من موہن مذاکرات کی رپورٹنگ بھی کی۔ بھارت میں بہت سے ہندو، مسلمان، عیسائی ادیب شاعر ، صحافی دوست ہیں۔ اب بھی ان سے سوشل میڈیا پر رابطہ رہتا ہے۔ ایک دو سال بھارت کے کئی اخبارات میں بیک وقت کالم بھی چھپتا رہا۔ میرا تجربہ اور مشاہدہ ہے جو آپ کا بھی ہو گا کہ بھارت کے عام لوگ خطّے میں امن و سکون کے خواہاں ہیں۔ آرام سے زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں۔ مختلف شہروں میں رکشے ٹیکسی ڈرائیوروں دکانداروں ہوٹل کے ویٹرز سے بات ہوتی تھی۔ تو وہ یہی کہتے تھے یہ نیتا (سیاسی لیڈر) ہمیں آپس میں لڑواتے ہیں۔ ہمارا مسئلہ تو دو وقت کی روٹی ہے۔ اب نریندر مودی کے دَور میں تو کسی کانفرنس میں جانے کا ارادہ ہی نہیں کر سکتے۔ ویسے بھی قیام امن کے لیے اب کوئی مربوط کوشش نہیں ہو رہی ہے۔ اکھنڈ بھارت کا جنون زوروں پر ہے۔ پاکستان میں مستقل بد امنی پیدا کرنا، اپنے ایجنٹوں کے ذریعے تخریب کاری کی سازشیں بی جے پی کا ایجنڈا ہے۔ اپنے اس انتہا پسند پروگرام میں اس حد تک مصروف ہے کہ کورونا کی عالمگیر وبا سے اپنے شہریوں کی جانیں بچانے پر مطلوبہ توجہ نہیں دے سکی۔

اب تک مریضوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ ڈیڑھ لاکھ کے قریب اموات ہو چکی ہیں۔ اپنے لوگوں کی صحت بی جے پی کی ترجیحات میں نہیں ہے۔ اس لیے کورونا کی ابتدا سے ہی بھارتی حکمران موزوں حکمت عملی ترتیب نہیں دے سکے۔ میری تشویش یہ ہے کہ امریکہ اور یورپ میں جمہوریت کے تجربے کے نتیجے میں معاشرے مہذب ہوئے ہیں۔ تحمل، برداشت میں اضافہ ہوا ہے۔ لوگوں کی جانیں محفوظ ہوئی ہیں۔ لیکن یہ سب سے بڑی جمہوریت کے دعویدار بھارت میں انسانیت کا قتل کیوں ہو رہا ہے۔ تہذیب، اقدار کا جنازہ کیوں نکل رہا ہے۔ کیا جمہوریت کے دعوے فریب تھے۔ سیکولرازم ایک ڈھونگ تھا۔ اب تو پاکستان میں تخریب کاری اور دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے باقاعدہ ثبوت بھی دنیا کے سامنے رکھ دیے گئے ہیں۔ اگر امریکہ یورپ ان ثبوتوں کے باوجود بھارت کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتے تو ان کی جمہوریت، انصاف پسندی اور انسانیت نوازی بھی ایک سوالیہ نشان بن جائے گی۔

بھارت کی اس پاکستان دشمنی کے خلاف پاکستان سے ہر شہری ہر سیاسی کارکن ہر دانشور ہر سیاسی جماعت کو یک آواز ہونا چاہئے۔ خاص طور پر سمندر پار پاکستانیوں کو حرکت میں آنا چاہئے۔ یہ کسی ایک حکومت یا ایک سیاسی پارٹی کا مسئلہ نہیں ہے۔ بلکہ بحیثیت مملکت بقا کا سوال ہے۔ اس سال کے آغاز میں بھارت میں ہندوتوا کے خلاف ملک گیر احتجاجی ریلیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ مگر کورونا کے پھیلائو کے باعث اس میں تعطل آگیا۔ اس احتجاج کے مقابلے میں مودی سرکار بے بس ہو گئی تھی۔ یہ احتجاج یقیناً پھر شروع ہو جائے گا۔ یہ مملکت پاکستان۔ عمران حکومت۔ وزارت خارجہ۔ ساری قومی سیاسی پارٹیوں کی آزمائش ہے کہ وہ بھارت کو ایک انتہا پسند اور دہشت گرد مملکت قرار دلوانے کے لیے دنیا پر کیسے دبائو ڈالتے ہیں۔ اقوام متحدہ اور اسلامی ملکوں کی تنظیم۔ مسلم حکمرانوں کو اپنے اتحاد اور یکجہتی سے کیسے قائل کرتے ہیں۔ بھارت پر اقتصادی پابندیاں عائد کروانا ہی اس مسئلے کا حل ہے۔ کیونکہ بھارت نے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویٰ کر کے اپنی ایک ارب سے زیادہ صارفین پر مشتمل مارکیٹ کا لالچ دے کر امریکہ اور یورپ کو اپنا دیوانہ بنا رکھا ہے۔

محمود شام

بشکریہ روزنامہ جنگ

ایشیا پیسیفک ممالک، تاریخ کے سب سے بڑے آزاد تجارت کے معاہدے پر دستخط

ایک دہائی پر محیط مذاکرات کے بعد 15 ممالک کے سربراہان نے پین ایشین تجارتی معاہدے’’ علاقائی جامع معاشی شراکت داری‘ کے معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں۔سنگاپور کے وزیراعظم لی سیان لونگ نے کہا کہ ہم نے آج آٹھ برس کی سخت جدوجہد کے بعد آر سی ای پی پر دستخط کر دیے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے خطے کے لئے یہ ایک بڑا اقدام ہے۔ بالخصوص ایسے وقت میں جب کثیر الجہتی نظام اپنا اثر کھو رہا ہے اور عالمی ترقی سست روی کا شکار ہے، آر سی ای پی میں ایشیائی ممالک نے آزاد اور مربوط سپلائی چینز، آزادانہ تجارت اور قریبی باہمی انحصار کے لئے حمایت کا اظہار کیا ہے۔ اس معاہدے میں عالمی اقتصادی پیداوار کا ایک تہائی حصہ شامل ہے اور اس خطے کے معاشی انضمام کے لئے ایک بڑا قدم ہے۔ یہاں پانچ چیزیں ہیں جو تاریخ کے سب سے بڑے تجارتی سودے کی وضاحت کرتی ہیں۔

آر سی ای پی کیا ہے؟
آر سی ای پی آزاد تجارت کے بڑے معاہدوں میں سے ایک ہے۔ یہ زیادہ تر موجودہ معاہدوں میں سے لیا گیا ہے جن پر جنوب مشرقی ایشیائی اقوام کی تنظیم کے دس رکن ممالک برونائی، کمبوڈیا، انڈونیشیا، لاؤس، ملائیشیا، میانمار، فلپائن، سنگاپور، تھائی لینڈ اور ویت نام نے دستخط کیے ہوئے ہیں، اور انہیں آسٹریلیا، چین، جاپان، نیوزی لینڈ اور جنوبی کوریا کے ساتھ ایک ہی کثیرالجہتی معاہدے میں ملا دیا گیا ہے برینڈیس یونیورسٹی میں بین الاقوامی مالیات کے پروفیسر پیٹر پیٹری نے کہا کہ کچھ اقدامات کی وجہ سے یہ تاریخ کا سب سے بڑا معاہدہ ہے۔ جو دنیا کی 30 فیصد آبادی کا احاطہ کرتا ہے۔ یہ معاہدہ اور بھی بڑا ہوتا لیکن 2019 میں بھارت اس سے باہر ہو گیا تھا اور اس نے واپس آنے سے انکار کر دیا ۔ جانز ہوپکنز یونیورسٹی کے بین الاقوامی معاشیات کے پروفیسرز مائیکل پلمر اور پروفیسر میٹری کے تخمینوں کے مطابق آر سی ای پی عالمی معیشت کے حجم میں 186 ارب ڈالر اور اس کے رکن ممالک کی مجموعی ملکی پیداوار میں 0.2 فیصد اضافہ کرے گا۔ سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والے ممالک میں جاپان اور جنوبی کوریا شامل ہیں لیکن سستے سامان کا فائدہ یورپ اور امریکا تک پھیل جائے گا۔

اس معاہدے میں کیا ہے؟
اس معاہدے میں آزاد تجارتی معاہدے کے تمام عمومی ابواب جیسے ٹیرف، کسٹمز ایڈمنسٹریشن، حفاظان صحت سے متعلق اقدامات، خدمات، سرمایہ کاری و دیگر شامل ہیں، تاہم دو عناصر خصوصی طور پر نمایاں ہیں۔ پہلا مقام کا اصول ہے کو کسوٹی طے کرے گا کہ مصنوعہ کہاں تیار کی گئی تھی۔ آسیان کے تمام تجارتی معاہدوں کے مقام کے حوالے سے مختلف اصول ہیں، مثال کے طور پر اگر کمپنی انڈونیشیا میں بائیسکل تیار کرتی ہے تو یہ جاپان کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدے کے تحت اہل ہو سکتی ہے لیکن معاہدے کے تحت جنوبی کوریا کے ساتھ تجارت کے لئے اہل ہونے کے لئے مختلف اجزاء کی ضرورت ہو گی۔ آر سی ای پی ان سب کا صفایا کر دے گا۔ سنگاپور میں آسیان ٹریڈ سینٹر کنسلٹنسی کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈیبورا ایلیمز نے کہا کہ جب آپ آر سی ای پی کیلئے مصنوعات تیار کریں گے تو یہ 15 ممالک کے لئے کارآمد ہو گی۔ اور اس کے لئے آپ کو صرف ایک کاغذ کے ٹکڑے کی ضرورت ہے۔ دوسرا اہم عنصر یہ ہے کہ اس کے ذریعے چین، جاپان اور جنوبی کوریا کے مابین پہلا آزاد تجارت کا معاہدہ ہوا ہے۔ اگرچہ کہ آر سی ای پی کافی حد تک ایک سطحی معاہدہ ہے ، تاہم یہ پھر بھی ایک بڑا اقدام ہے۔ پروفیسر پیٹری نے کہا کہ آر سی ای پی انہیں وہ سب کرنے کی اجازت دیتا ہے جو وہ اگر وہ خود کریں تو سیاسی طور انہیں مشکلات پیش آئیں۔

کیا رہ گیا؟
ٹرانس پیسیفک پارٹنرشپ تجارتی معاہدے کی متراکب تراکیب کے برعکس آر سی ای پی نسبتاََ غیرجانبدار ہے، ٹی پی پی میں تقریباََ 100 فیصد کے مقابلے میں 90 فیصد محصولات ختم کر دیے۔ زراعت بڑی حد تک غائب ہے اور خدمات کا احاطہ مخلوط ہے۔ آر سی ای پی مصنوعات کے لئے مشترکہ معیار طے کرنے کے لئے نسبتاََ کم کام کیا ہے۔ پروفیسر پیٹری نے کہا کہ آر سی ای پی کے بارے میں اہم پوائنٹس یہ ہے کہ بہت متنوع ہے۔ اس میں چھوٹےممالک ، بڑے ممالک، امیر ممالک اور چھوٹے ممالک ہیں۔ قوانین نے بنیادی طور پر ان تمام متضاد مفادات کو جگہ دی ہے ڈیبورا ایلمز نے کہا کہ ای کامرس کا باب خاص طور پرمایوس کن ہے۔ 15 ممالک سرحد پار سے اعدادوشمار کے بہاؤ کے بارے میں کسی اصول یا اعدادوشمار کی ترسیل سے متعلق کسٹم قانونی مہلت پر اتفاق کرنے سے قاصر رہے۔ تاہم، سب سے بڑی غیرحاضری بھارت کی ہے۔ نسبتاََ چند آزاد تجارتی معاہدوں کے ساتھ ایک بہت بڑی معیشت کے طور پر بھارت کی شمولیت کی وجہ سے تجارت میں ڈرامائی اضافہ ہو سکتا ہے۔ لیکن بھارت کو خدشہ ہے کہ اس کے مینوفیکچررز سستی چینی مصنوعات سے مقابلے کی دلدل میں دھنس جائیں گے۔ بہرحال ، معاہدے میں ایسی شرائط شامل کرنے کی توقع کی جارہی ہے کہ بھارت کو اس میں شمولیت کا انتخاب کرنا چاہئے۔

چین اور امریکا کیلئے اس کی کیا اہمیت ہے؟
آرسی ای پی پر کی جانے والی عمومی تنقید اس کے اندر چین کا اثررسوخ ہے۔ یہ خدشہ اس وقت مزید مستحکم ہو گیا جب بھارت اس سے نکل گیا۔ یہ معاہدہ چین کو علاقائی تجارت کے معیار طے کرنے کے لئے اہم آواز فراہم کرتا ہے اور اگر چین نے اس طاقت کو باہمی تعاون سے استعمال کیا تو اس کی مثبت کشش کی طاقت بڑھ جائے گی۔ پروفیسر پیٹری نے کہا کہ یہ ممکنہ طور پر چین کے لئے بہت اچھا ہے۔  ڈیبورا ایلمز نے کہا کہ چین کا ایک بڑا حصہ اسے معاہدے کے اندر ایک اہم کھلاڑی بنائے گا۔ انہوں نے کہا کہ آر سی ای پی کبھی بھی چین کی زیرقیادت نہیں رہا یا چین نے اسے نہیں چلایا۔ یہ آسیان کامعاہدہ تھا۔ لیکن جب ایک بار جب یہ معاہدہ نافذ ہو جائے گا تو آسیان کے لئے اس کی ڈرائیونگ سیٹ پر رہنا مشکل ہو جائے گا۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹی پی پی سے دستبرداری کے بعد امریکا اب ایشیا ء میں دونوں اہم تجارتی گروپس سے باہر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب ایشیاء اپنے تجارتی قوانین طے کرتا ہے توروایتی عالمی طاقتیں امریکا اور یورپی یونین دونوں کی ہی کوئی آواز نہیں ہو گی۔

آئندہ کیا ہو گا؟
آرسی ای پی کی توثیق کرنے میں کچھ وقت لگے گا اور چند محصولات کی دفعات نافذالعمل ہونے میں بھی کافی وقت درکار ہو گا۔ تاہم امکان ہے کہ آر سی ای پی ایشیاء میں تجارت کے مستقبل کی تشکیل کرے گا۔ پروفیسر پیٹری نے کہا کہ وقت کے ساتھ ساتھ آسیان کے معاہدوں میں بہتری کا آسکتی ہے۔ اب جبکہ یہ آر سی ای پی کے تناظر میں کر چکے ہیں، سب سے اہم اثرات میں سے ایک یہ ہو سکتا ہے کہ چین، جاپان، جنوبی کوریا کے مابین آزاد تجارتی معاہدے پر بات چیت میں تیزی آجائے۔ مذکورہ تینوں ممالک مینو فیکچرنگ اور ٹیکنالوجی کے پاور ہاؤسز ہیں، یہ عالمی تجارت کے لئے ایک بہت بڑی پیشرفت ہو گی۔ ڈیبورا ایلمز نے کہا کہ سب سے بڑا نتیجہ یہ ہو سکتا ہے کہ یورپ یا شمالی امریکا کی طرح ایشیاء کے بطور تجارتی زون ابھرنے کی جانب یہ پہلا قدم ہو۔ ایشیاء مربوط ہے لیکن یہ معاہدہ دیگر منڈیوں تک سامان کی فراہمی کے لئے ہے۔ آر سی ای پی اس میں تبدیلی لاتا ہے۔

 بشکریہ روزنامہ جنگ

پندرہ ملکی تجارتی اتحاد : چین کی بڑی کامیابی

جنوبی کوریا، چین، جاپان، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ نیز دس مشرقی ایشیائی ملکوں کی جانب سے جو عالمی معیشت کے تقریباً ایک تہائی کے مساوی ہیں، گزشتہ روز دنیا کا سب سے بڑا تجارتی اتحاد قائم کیا جانا بین الاقوامی اقتصادیات پر یقیناً دور رس اثرات مرتب کرے گا۔ جامع علاقائی معاشی شراکت (آر سی ای پی) کا نام پانے والے اس معاہدے کو جس میں امریکہ شامل نہیں، ماہرین چین کی حمایت میں بننے والا سب سے بڑا تجارتی اتحاد قرار دے رہے ہیں۔ اس ضمن میں پچھلے آٹھ سال سے مذاکرات جاری تھے اور بالآخر ویتنام کی میزبانی میں آسیان کے ورچوئل اجلاس کے موقع پر معاہدے پر دستخط کیے گئے۔ معاہدے میں فاصلاتی مواصلات، ای کامرس اور مالیاتی و دیگر پیشہ ورانہ خدمات کے حوالے سے خصوصی شقیں موجود ہیں۔ معاہدے کے نتیجے میں کئی ایسے ملک میں ایک دوسرے سے جڑ گئے ہیں جو عام طور پر تجارت کے معاملے میں سفارتی تعلقات کی خرابی کی وجہ سے مل کر کام نہیں کرتے جیسے جاپان اور چین۔

یہی صورت آسٹریلیا اور چین کی بھی ہے۔ اس معاہدے کو خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ معاہدے میں شریک رہنماؤں کو امید ہے کہ اس کے باعث کورونا وائرس کی عالمی وبا کی وجہ سے پیدا ہونے والے بحران سے نکلنے میں مدد ملے گی۔ چین کے وزیراعظم لی کیچیانگ نے اس معاہدے کو کثیرالجہت سوچ اور آزاد معیشت کی فتح قرار دیا ہے۔ بھارت نے بعض تحفظات کے سبب ان مذاکرات سے پچھلے سال خود ہی علیحدگی اختیار کر لی تھی لیکن اتحاد میں اس کی شرکت کا راستہ کھلا رکھا گیا ہے۔ چین سے انتہائی قریبی دوستانہ روابط کے باوجود پاکستان کا اس معاہدے میں شامل نہ ہونا حکومت وقت اور اس کے معاشی حکمت کاروں کی جانب سے وضاحت طلب معاملہ ہے۔ اس اتحاد میں شمولیت اگر قومی معیشت کے لیے مفید ثابت ہو سکتی ہے تواس کی کوشش لازماً کی جانی چاہئے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ

مولانا ابوالکلام آزاد کے بارے میں

مولانا ابوالکلام آزاد 11 نومبر 1888 کو مکہ میں پیدا ہوئے۔ برصغیر اور بالخصوص تاریخِ اسلامی تحاریک ان کے بغیر نامکمل ہے کیونکہ برِصغیر میں تحریکِ احیائے دین کی اولین داعی کی حیثیت مولانا ابولکلام آزاد کو حاصل ہے۔ ویسے تو مولانا ابوالکلام آزاد کی ہمہ گیر شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے تاہم ان کی شخصیت کے بہت سے پہلو ہیں۔ وہ ایک طرف اگر مجاہد آزادی تھے تو دوسری طرف ایک عالم دین بھی تھے۔ انہیں قرآن ، فقہ ، علم الکلام ، علم الحدیث پر غیر معمولی قدرت حاصل تھی تو دوسری جانب وہ ایک زبردست صحافی ، مجتہد ، فلسفی اور جنگ آزادی کے عظیم قومی رہنما بھی تھے۔ پچھلی صدی کے اوائل میں مولانا آزاد نے الہلال اور البلاغ کے ذریعے حکومتِ الٰہیہ کے قیام اور اُس کیلئے ایک حزب اللہ کی تاسیس کی پرزور دعوت پیش کی۔

اُن کے مخصوص طرزِ نگاری اور پرجوش طرزِ خطابت نے تحریکِ خلافت کے دوران اُن کی شہرت کو برِصغیر ہی نہیں بلکہ برِعظیم کے طول و عرض میں پھیلایا تاہم بدقسمتی سے آواخر میں مولانا ابوالکلام آزاد نے اس عظیم مشن کو جاری رکھنے کے بجائے انڈین نیشنل کانگریس میں شمولیت اختیار کی اور مرتے دم تک اُن کے سرگرم رکن ہی نہیں بلکہ اپنی خدمات ہندوستان کیلئے وقف کر دیں لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہندوستانی عوام بھی آج تک انہیں قوم کے بانیوں میں سے ایک مانتی ہے۔ مولانا ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم بھی رہے۔ عالم اسلام خصوصاً ہندوستان کی یہ روشن ترین شمع 22 فروری 1958ء کو گل ہو گئی اور دہلی کے پریڈ گراؤنڈ میں جامع مسجد اور لال قلعہ کے درمیان انہیں سپرد لحد کیا گیا۔

بشکریہ روزنامہ جسارت

آپ بس چنگاری دیں ، آگ ہم بنا لیں گے

بھارت اور پاکستان کے درمیان پینسٹھ کی جنگ کو پچپن برس بیت گئے۔ مگر آج بھی کوئی نہ کوئی بوڑھا طعنہ دے ہی دیتا ہے ارے آپ اس بی بی سی کے لیے کام کرتے ہیں جس نے پینسٹھ میں خبر دی تھی کہ بھارتی ٹینک لاہور شہر میں داخل ہو گئے ہیں اور پھر میں صفائیاں پیش کرتا ہوں کہ جنابِ من دراصل اس زمانے میں بھول چوک اس لیے ہو جاتی تھی کیونکہ خبر کی فوراً تصدیق کے ذرایع اتنے تیز رفتار اور جدید نہیں تھے جتنے آج ہیں۔ مگر پھر میں خود ہی سوچ کر شرمندہ ہو جاتا ہوں کہ آج انٹرنیٹ اور موبائل فون کے ہوتے ایک منٹ میں دنیا کے کسی بھی کونے میں ہونے والے واقعہ کی حقیقت تک پہنچنے کے لیے ایک سے زائد تصدیقی ذرایع کے علاوہ جعلی اور اصلی خبر اور تصویر میں فرق کرنے کی ویب سائٹس اور سافٹ وئیرز بھی دستیاب ہیں۔ مگر خبر کے نام پر جھوٹ پہلے سے کئی گنا تیزی سے پھیل رہا ہے۔ آج اس کہاوت کا اصل مطلب سمجھ میں آ رہا ہے کہ اس سے پہلے کہ سچ گھر سے باہر قدم رکھے جھوٹ کرہِ ارض کے تین چکر لگا چکا ہوتا ہے۔

اس کا مطلب ہے کہ یہ سب کسی بھولپن میں نہیں بلکہ جان بوجھ کر سائنسی انداز میں ہو رہا ہے۔ مقصد خبر کی ترسیل نہیں بلکہ دماغوں پر قبضہ کرنا، آلودہ کرنا یا رائے عامہ کو کنفیوژن میں رکھ کر مخصوص اہداف اور مقاصد کا حصول ہے۔ جھوٹ ایک انفرادی فعل نہیں رہا بلکہ اربوں کھربوں کی صنعت بن چکا ہے اور صنعتی مقدار میں ہر روایتی و ڈجیٹل رسمی و غیر رسمی پلیٹ فارم سے بیچا اور خریدا جا رہا ہے۔ ہٹلر کے پروپیگنڈہ وزیر گوئبلز کا یہ قول اب فرسودہ ہو چکا کہ اتنا جھوٹ بولو کہ سچ کا گمان ہونے لگے۔ اس قول کی جدید شکل و صورت یہ ہے کہ سچائی کو بھی جھوٹ کی پوشاک میں باہر بھیجو تاکہ لوگ یقین کر سکیں۔ یہ تو سمجھ میں آتا ہے کہ دو ممالک کے درمیان جنگ چل رہی ہو تو ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے لمبی لمبی ہانکی جائیں تاکہ پروپیگنڈے کے ذریعے اپنے اپنے لوگوں کا حوصلہ بلند رہے۔ مگر آج جھوٹ بولنے کے لیے کسی روایتی لڑائی کی بھی ضرورت نہیں رہی۔

میڈیا نے قاری و ناظر کے خلاف ایک مستقل دماغی جنگ چھیڑ رکھی ہے جس میں علاقے پر قبضے کی روایتی کوشش کے برعکس زیادہ سے زیادہ ریٹنگ ہتھیانے کے لیے ہر طرح کا ہتھیار اندھا دھند استعمال ہو رہا ہے۔ آپ ہمیں بس ایک عدد چنگاری دے دیں۔ آگ ہم خود بنا لیں گے۔ جیسے خبر صرف اتنی تھی کہ سندھ پولیس کے آئی جی کو رینجرز اور خفیہ کے لوگ زبردستی لے گئے اور ان سے ایک حکومت مخالف سیاسی شخصیت کی گرفتاری کے وارنٹ پر دستخط کروا لیے۔ ہر طرف سے اس واقعہ پر کڑی نکتہ چینی ہو رہی ہے۔ واقعہ کی ایک سے زائد سطح پر تحقیقات بھی جاری ہیں اور حزبِ اختلاف اور حکومتی مشیر اس واقعہ کو ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے بطور بارود بھی استعمال کر رہے ہیں۔ مگر اس کو لے کر انڈین میڈیا کے زی، انڈیا ٹوڈے ، نیوز ایٹین اور سی این این، آئی بی این جیسے عزت دار چینلوں سے لے کر چھٹ بھئیے چینلوں کی ویب سائٹس تک جس طرح کراچی میں فوج اور پولیس کے درمیان خانہ جنگی، لاشیں گرنے، تھانوں پر قبضے ، گورنر ہاؤس کے گھیراؤ اور صوبائی سرکار کی برطرفی کی خبریں پورا دن چلتی رہیں۔

کراچی کے کسی فرضی علاقے گلشنِ باغ ( غالباً گلشن ِ اقبال ) میں ایک عمارت میں حادثاتی دھماکے کو پولیس ٹھکانے پر راکٹ باری قرار دے دیا گیا۔ مگر اگلے دن کسی انڈین چینل نے کوئی فالو اپ نہیں دیا کہ بھیا اگر ایک دن پہلے کراچی میں اتنی ہی زبردست دھماچوکڑی مچی ہوئی تھی تو دوسرے دن کراچی کا کیا حال ہے۔ پورا قصہ یوں غائب ہو گیا جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ افسانوی صحافت کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ بھارتی میڈیا انتہائی ذمے داری کے ساتھ لائن آف کنٹرول پر کئی بار سرجیکل اسٹرائکس کروا چکا ہے اور بالاکوٹ پر فضائی حملے میں تین سو دہشت گرد بھی مار چکا ہے اور اب تو اس جھوٹی سچائی پر بالی وڈ ایک فلم بھی بنا رہا ہے۔ مگر ہم بھی کون سے دودھ کے دھلے ہیں۔ جب دو ہزار چودہ میں اسلام آباد میں عمران خان اور طاہر القادری کا دھرنا جاری تھا تو ایک معزز ٹی وی اینکر نے وزیرِ اعظم ہاؤس اور پارلیمنٹ کے اوپر ماہرِ سرکاری نشانچی بٹھا کر کم ازکم دس لاشیں گروا دیں اور پھر ان خیالی لاشوں کا جنازہ پڑھنے بھی نہیں گئے۔

جب تین برس پہلے بھوٹان سے متصل دوکلام کی سرحد پر بھارت چائنا تناؤ بڑھ گیا تو ایک دن کئی پاکستانی چینلوں پر خبر چل گئی کہ چینی فوج نے تین سو سے اوپر بھارتی فوجی مار ڈالے۔ چند گھنٹوں بعد خبر غائب ہو گئی مگر ایک بھی چینل نے ناظرین سے نہیں کہا کہ ہم معافی چاہتے ہیں یہ خبر درست نہیں تھی۔ ابھی تین دن پہلے ہی ہمارے ہی ایک ہم پیشہ دوست اور ایک چینل کے معروف تجزیہ کار نے خبر پھوڑی کہ ایک برادر اسلامی ملک نے فیٹف کے اجلاس میں پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے کی مخالفت میں ووٹ دیا ہے۔ حالانکہ تب تک فیٹف میں اس مسئلے پر کوئی ووٹنگ ہی نہیں ہوئی تھی۔ البتہ ایسا ایک واقعہ دو ہزار اٹھارہ میں ہوا تھا جب ترکی نے فیٹف کے اجلاس میں پاکستان کے حق میں اور سعودی عرب نے مخالفت میں ووٹ دیا تھا۔ عین ممکن ہے کہ ہمارے معزز صحافی دوست کی نظر سے یہی پرانی خبر گزری ہو اور انھوں نے اسے تازہ ترین اسکوپ فرض کر کے ناظرین کے کان میں انڈیل دیا ہو۔ مگر مجال ہے کہ انھوں نے تادمِ تحریر اپنی اس فاش غلطی کا اعتراف کیا ہو کہ جس کی تردید نہ صرف پاکستانی دفترِ خارجہ بلکہ سعودی سفارت خانے کو بھی کرنا پڑ گئی۔

المیہ یہ نہیں کہ جھوٹ کو سچ بتا کر ڈھٹائی سے بیچا جا رہا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ جیسے ہر شہری مسلسل شک میں مبتلا ہے کہ پیسے دینے کے باوجود ہر چیز ملاوٹی اور بناوٹی مل رہی ہے اور اس کا جسم اس ملاوٹ کی قیمت بیماریوں کی شکل میں بھوگ رہا ہے۔ اسی طرح خالص خبر کے نام پر ملاوٹی اور جعلی خبر مل رہی ہے جس کی قیمت یہ خبر سننے ، پڑھنے یا دیکھنے والے کروڑوں لوگ اپنی ذہنی حالت پر شبہے اور اضافی ڈیپریشن کی شکل میں ادا کر رہے ہیں۔ اس طرح کے حالات میں حقیقت یا سچائی سامنے آ بھی جائے تب بھی لوگ یقین کرنے پر تیار نہیں ہوتے۔ ہم میڈیا والے دوسروں کے جھوٹ پکڑنے کی کھوج میں رہنے اور اسے عام آدمی تک پوری ایمان داری سے پہنچانے کا دعوی کرتے نہیں تھکتے آج خود خبر کے نام پر زہر بیچ رہے ہیں اور شرمندہ تک نہیں۔ ہم شاید میڈیا نہیں رہے۔ میڈیا سیل بن چکے ہیں۔ اور یہ تک نہیں جانتے کہ ہماری ڈوریاں دراصل کس کے ہاتھ میں ہیں اور اس کی ڈوریاں کون ہلا رہا ہے۔

وسعت اللہ خان

بشکریہ ایکسپریس نیوز

لداخیوں کے ساتھ ہونے والا ہاتھ

بھارتی مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر میں جموں کی ہندو اکثریت ریاستی تشخص کے خاتمے پر خوش ہے، وادیِ کشمیر کی مسلمان اکثریت ناخوش ہے اور لداخ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں کے باشندے شروع میں تو خصوصی تشخص کے خاتمے پر خوش ہوئے۔ کیونکہ ان کے خیال میں سرینگر میں موجود روایتی کشمیری مسلمان حکمران اشرافیہ لداخیوں کو دور دراز خطے کے قبائلی سمجھ کر ان کی ترقی اور حقوق سے اغماز برتتی رہی ہے۔ لداخیوں کا خیال تھا کہ سرینگر سے جان چھوٹنے اور یونین ٹیرٹیری ( وفاق کے زیرِ انتظام علاقہ) کی شکل میں براہِ راست دلی کی حکمرانی تلے آنے سے ان کے احساسِ محرومی کا ازالہ ہو جائے گا۔ چنانچہ گزشتہ برس پانچ اگست کو کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کا خیرمقدم کرتے ہوئے لداخ سے بی جے پی کے رکنِ پارلیمان جمیانگ سیرنگ نمگیال نے لوک سبھا میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ لداخ کی پسماندگی کے ذمے دار آرٹیکل تین سو ستر اور کانگریس کا طویل دورِ حکومت ہے۔ اور اب لداخ کے لیے ایک نیا سورج طلوع ہوا ہے۔

مگر اب ان پر کھل رہا ہے کہ حقوق تو پہلے سے بھی زیادہ دور ہو گئے ہیں۔ ماضی میں اگر مستقبل کے بارے میں کوئی امیدِ موہوم تھی تو اب وہ بھی نہیں رہی۔ لداخ کی بی جے پی شاخ کے سابق صدر چیرنگ ڈورگے نے مرکزی حکومت کی لداخ پالیسی سے اختلاف کرتے ہوئے گذرے مئی میں استعفیٰ دے دیا۔ چیرنگ کا کہنا ہے کہ خصوصی تشخص کو یقینی بنانے والے آرٹیکل تین سو ستر کے خاتمے اور غیر مقامی افراد پر مقامی املاک کی خریداری پر پابندی کا قانون آرٹیکل پینتیس اے منسوخ ہونے کے نتائج مقامی نسلوں کے لیے بھیانک ثابت ہوں گے اور اجنبیوں کی یلغار سے مقامی تشخص خاک میں ملتا چلا جائے گا۔ جیرنگ کا کہنا ہے کہ لداخ کی خودمختار ہل کونسل علاقے کی سرکاری زمین کی مالک تھی مگر وفاقی علاقہ بننے کے بعد یہ کونسل مکمل بے اختیار ہو گئی ہے۔ ہمیں خدشہ ہے کہ اب ہماری زمین ہم سے مشورہ کیے بغیر بیرونِ لداخ صنعت کاروں، کانکنی کی کمپنیوں اور فوج میں بانٹ دی جائے گی۔

ان خدشات کے سبب خود حکمران بی جے پی کے لداخ یونٹ نے گزشتہ ماہ ایک متفقہ قرار داد میں مقامی زمین، ثقافت ، ماحولیات، روزگار اور کاروباری حقوق کے تحفظ کے لیے آئینی اقدامات کا مطالبہ کر دیا۔ قرار داد میں کہا گیا کہ یا تو لداخ کو بھارتی آئین کے چھٹے شیڈول کے تحت لایا جائے جس میں قبائلی آبادی کو شناختی تحفظ حاصل ہے۔ ویسے بھی لداخ کی ستانوے فیصد آبادی قبائلی ہے۔ یا پھر آرٹیکل تین سو اکہتر کی چھتری دی جائے جس کے تحت شمال مشرقی بھارتی ریاستوں کی قبائلی آبادی کو معاشی و املاکی خود مختاری حاصل ہے۔ لداخ کے دارالحکومت لیہہ کی کئی چھوٹی سیاسی تنظیموں اور سول سوسائٹی نے لداخ کو آئین کے چھٹے شیڈول کے تحت تحفظ دینے کے مطالبے پر دباؤ بڑھانے کے لیے ایک مشترکہ اتحاد بھی قائم کر لیا ہے۔ لداخ سطح سمندر سے اٹھارہ ہزار آٹھ سو فٹ بلند ہے۔ آبادی تین لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ یہ خطہ دو اضلاع پر مشتمل ہے۔ ضلع لیہہ میں بودھوں کی اور ضلع کرگل میں شیعہ مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ عام تاثر یہ ہے کہ لداخ بودھ اکثریتی علاقہ ہے۔

مگر حقیقت یہ ہے کہ یہاں مسلمان آبادی چھیالیس اعشاریہ چار فیصد ، بودھ آبادی انتالیس اعشاریہ سات فیصد اور ہندو آبادی بارہ اعشاریہ ایک فیصد ہے۔ ایک جانب اگر لداخ کے ضلع لیہہ کی بودھ اکثریت آئینی تحفظات کے تحت وفاق کے زیرِ انتظام ریاست کشمیر سے الگ خطے کے طور پر رہنے کے حق میں ہے تو دوسری جانب ضلع کرگل کی مسلم اکثریت خود کو باقی کشمیر سے کاٹنے کے مرکزی حکومت کے انتظامی اقدامات کی شروع دن سے مخالف ہے۔ کرگل سے لوک سبھا کے سابق رکن اور خود مختار ضلع کونسل کے سابق سربراہ اصغر علی کربلائی کا کہنا ہے کہ ہمیں آئین کے چھٹے شیڈول یا مرکزی حکومت کے براہِ راست کنٹرول میں رہنا منظور نہیں۔ اگر مرکزی حکومت کو ہماری اتنی ہی فکر ہے تو پھر لداخ کو ایک مکمل بااختیار ریاست کا درجہ دیا جائے تاکہ لداخ کی مسلم اکثریت اور بودھ اقلیت کے حقوق کا مساوی تحفظ ہو سکے۔

اصغر علی کربلائی کا کہنا ہے کہ ہمیں خدشہ ہے کہ حکومتِ بھارت آر ایس ایس کے ایجنڈے کے تحت پوری کشمیری ریاست کی علاقے، مذہب اور زبان کے نام پر بندر بانٹ کر کے اس کے اجتماعی تاریخی تشخص کو دفن کرنا چاہتی ہے اور اس کے ملبے پر اپنی مرضی کی ثقافت ، تاریخ اور معیشت تھوپنا چاہتی ہے۔ کرگل میں مرکزی حکومت کی پالیسیوں کی مزاحمت کے لیے مقامی لوگوں نے پارٹی سیاست سے بالا ہو کر جو مشترکہ ایکشن کمیٹی بنائی ہے اس کے سیکریٹری ناصر منشی کا کہنا ہے کہ بی جے پی حکومت صرف لیہہ کو پورا لداخ اور بودھ آبادی کو ہی لداخ کی نمایندہ سمجھتی ہے۔ جو بھی رہنما ، منتری یا اعلیٰ افسر لداخ آتا ہے وہ صرف لیہہ کا دورہ کر کے چلا جاتا ہے۔ کرگل کو مکمل نظرانداز کیا جاتا ہے۔ کوئی ہم سے نہیں پوچھتا کہ آخر ہم کرگل والے کیا چاہتے ہیں۔

سرینگر یونیورسٹی کے شعبہِ قانون کے سینئر استاد شیخ شوکت نے لداخیوں کے المیے کو یوں سمیٹا ہے کہ بھارتی ریاستی ڈھانچے کی جانب سے لداخ کے بودھوں کو ایک طویل عرصے سے بتدریج یہ باور کروانے کی کوشش کی گئی جیسے وادیِ کشمیر والے ان کا استحصال کر رہے ہیں اور اس سے نجات کا ایک ہی طریقہ ہے کہ لداخ کا ناتا کشمیر سے ٹوٹ جائے۔ بقول پروفیسر شوکت لداخیوں کو پٹی پڑھائی گئی کہ ایک بار جب وہ وفاق کے زیرِ انتظام علاقہ بن گئے تو وہ اپنی زمین کے مالک بن جائیں گے۔ مگر پچھلے ایک برس میں لداخیوں پر یہ حقیقت کھل گئی کہ مرکز کے زیرِ انتظام ہونے سے رہی سہی خودمختاری بھی مرکز کی جھولی میں گر گئی ہے اور جس علاقے کو سبز باغ دکھائے جاتے ہیں اسے عملاً ٹھینگا بھی نہیں ملتا۔ اس اعتبار سے لداخیوں کے ساتھ جو ہاتھ ہوا ہے وہ باقی کشمیر کے ساتھ ہونے والے المیے سے اگر زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں۔ لداخ تاریخی اعتبار سے تبت کا حصہ رہا ہے۔ ان دنوں وہ بھارت چین مسلح کشیدگی کے سبب نہ صرف خبروں میں نمایاں ہے بلکہ آنے والے دنوں میں اس کی جغرافیائی و سیاسی حیثیت اور حساس ہوتی چلی جائے گی۔ اگر لداخی بھارت سے خوش نہیں رہتے تو پھر اسٹرٹیجک اہمیت کا یہ علاقہ دلی حکومت کے لیے ایک تازہ دردِ سر بن سکتا ہے۔

وسعت اللہ خان

بشکریہ ایکسپریس نیوز

بھارت کی نصف آبادی کورونا وائرس سے متاثر ہو جائیگی

بھارت میں کورونا کی پیشگوئی کے لیے قائم ایک سرکاری کمیٹی کا کہنا ہے کہ آئندہ فروری تک ملک کی کم از کم نصف تعداد کورونا وائرس کے انفیکشن کا شکار ہو جائے گی۔ کورونا وائرس سے تقریباً 76 لاکھ متاثرین کے ساتھ بھارت اس عالمگیر وبا سے دنیا میں سب سے زیادہ متاثرہ ملک امریکا کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ بھارت میں متاثرین کی تعداد 76 لاکھ کے قریب پہنچ گئی ہے جب کہ اب تک ایک لاکھ 15 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ بہر حال بھارت میں ستمبر کے وسط میں اپنے عروج کے پہنچنے کے بعد سے کورونا وائرس کے نئے کیسز کی یومیہ تعداد میں اب گراوٹ آرہی ہے۔ ستمبر کے وسط میں ہر روز 90 ہزار سے زائد کیسز سامنے آرہے تھے لیکن اب یہ تعداد اوسطاً 61390 ہو گئی ہے۔ بھارت میں کورونا کی پیشین گوئی کے لیے قائم کردہ سرکاری کمیٹی کے ایک رکن، انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، کانپور کے پروفیسر منیندر اگروال کے مطابق ”ریاضی کے ماڈل کے اندازے کے مطابق اس وقت ملک کی تقریباً 30 فیصد آبادی کورونا سے متاثر ہے اور یہ فروری تک 50 فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔

کمیٹی کا خیال ہے کہ کورونا وائرس کے پھیلنے کی موجودہ تعداد مرکزی حکومت کے سیرولوجیکل سروے کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ مرکزی حکومت کی رپورٹ کے مطابق ستمبر تک ملک کی آبادی کے صرف تقریباً 14 فیصد لوگ ہی اس وائرس سے متاثر ہوئے تھے۔ پروفیسر اگروال کا کہنا ہے کہ سیرولوجیکل سروے کی بنیاد پر جو اعداد و شمار بتائے گئے ہیں وہ غالباً اس لیے درست نہیں ہیں کیوں کہ بھارت کی ایک ارب 30 کروڑ کی بہت بڑی آبادی کے ایک بہت چھوٹے حصے کو سروے میں شامل کیا گیا تھا۔ اس لیے اس کے بجائے وائرولوجسٹوں، سائنس دانوں اور دیگر ماہرین پر مشتمل کمیٹی نے کورونا انفیکشن سے متاثر ہونے والوں کی تعداد کے متعلق پیشن گوئی کے لیے میتھ میٹیکل ماڈل کو اختیار کیا۔

احتیاط نہیں تو تعداد بڑھے گی
پروفیسر اگروال نے بتایا ”ہم نے ایک نیا ماڈل اپنایا جس میں ان کیسز کا حساب بھی رکھا جاتا ہے جن کی رپورٹ درج نہیں کی گئی۔ اس لیے ہم متاثرہ افراد کو دو زمروں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ وہ جن کے بارے میں رپورٹ کی گئی اور وہ جن کے متاثر ہونے کی رپورٹ درج نہیں کی گئی۔” کمیٹی نے متنبہ کیا ہے کہ اگر احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کیے گئے تو متاثرین کی تعداد کے بارے میں جو پیشین گوئی کی ہے وہ اس سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے اور اگر سوشل ڈسٹینسنگ اور ماسک پہننے جیسے ضابطوں کو نظر انداز کیا گیا تو صرف ایک ماہ میں متاثرین کی تعداد 26 لاکھ سے تجاوز کر سکتی ہے۔ ماہرین نے پہلے بھی متنبہ کیا تھا کہ رواں مہینے اور اگلے ماہ ہونے والے درگا پوجا اور دیوالی جیسے تہواروں کے موسم کی وجہ سے متاثرین کی تعداد میں کافی اضافہ ہو سکتا ہے۔

بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو

دفاع اور معیشت کی کمزوری کے باعث بھارت طاقتور ممالک کی صف سے باہر ہو گیا

عالمی ادارے کے سروے میں بھارت کو ایشیا پیسفک کے چار بڑے ممالک میں شامل ہونے کے باوجود بڑی طاقتوں کی صف سے باہر ہو گیا۔ غیرملکی خبر رساں ادارے کے مطابق آسٹریلیا میں قائم بین الاقوامی ادارے لوئی انسٹی ٹیوٹ نے 2020 کے لیے ایشیا کا پاؤر انڈیکس جاری کیا ہے جس میں بھارت نے گزشتہ برس کے مقابلے میں 40 پوائنٹ کم حاصل کیے ہیں۔ ادارے کا کہنا ہے کہ آبادی کے اعتبار سے خطے کا دوسرا بڑا ملک اب ایشیا پیسفک میں درمیانے درجے کی طاقت بن چکا ہے ۔ کورونا وائرس کے باعث خطے میں سب سے زیادہ بھارت کی ترقی کرنے کی صلاحیت متاثر ہوئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق خظے میں آبادی و دیگر حالات کے اعتبار سے بھارت چین کا مقابلہ کر سکتا ہے لیکن بدلتی صورت حال میں بھارت چین کے آس پاس بھی پہینچ جائے اس کا امکان نظر نہیں آتا۔

اس سے قبل یہ پیش گوئی کی گئی تھی کہ آئندہ ایک دہائی میں بھارت چین کی معاشی ترقی کے پچاس فیصد کے برابر آجائے گا تاہم موجودہ حالات میں اب چالیس فی صد کی حد عبور کرنا بھی مشکل نظر آتا ہے۔ لوئی انسٹی ٹیوٹ کے مطابق بھارت نے اپنے سفارتی اثر و رسوخ میں ضرور اضافہ کیا ہے تاہم دفاعی نیٹ ورک اور اقتصادی تعلقات کے دو ایسے پیمانے ہیں جن پر بھارت کی کارکردگی نیچے آئی ہے۔ انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ میں خطے پر بھارتی اثر رسوخ میں بھی کمی کی نشاندہی کی گئی ہے۔ جس ک مطابق ماضی میں بھارت کے زیر اثر نیپال میں اب چین اس سے کئی گنا زیادہ بارسوخ ہو چکا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت کو اپنے حالات کا جائزہ لینا چاہتا ہے اور اگر اسے سپر پاور بننے کی خواہش ہے تو دہائیوں تک محنت کرنے کے بعد بھی یہ ہدف حاصل کرنا سہل نہیں ہو گا۔

بشکریہ ایکسپریس نیوز