کیا دنیا کے امیر ترین شخص ایلون مسک کی دولت دنیا سے بھوک کا خاتمہ کر سکتی ہے ؟

دنیا کے امیر ترین شخص ایلون مسک نے ٹوئٹر پر کہا ہے کہ اگر چھ ارب ڈالر سے دنیا سے بھوک کا خاتمہ ہو سکتا ہے تو میں ابھی ابھی حصص فروخت کر کے یہ رقم فراہم کرنے کے لیے تیار ہوں۔ اس سے قبل اقوامِ متحدہ کے خوراک کے پروگرام کے ڈائریکٹر ڈیوڈ بیزلی نے سی این این کے ایک پروگرام میں کہا تھا کہ اگر ارب پتیوں کو لوگوں کی مدد کے لیے سامنے آنا چاہیے۔ انہوں نے کہا تھا کہ ’چھ ارب ڈالر سے چار کروڑ 20 لاکھ افراد کی جان بچائی جا سکتی ہے۔ یہ بات سمجھنا کوئی مشکل نہیں ہے۔‘  ایلون مسک کے کل اثاثوں کی مالیت 300 ارب ڈالر کے قریب ہے، جس کا دو فیصد چھ ارب ڈالر بنتا ہے۔  مسک نے پیسے دینے کی بات تو کی لیکن ساتھ میں یہ شرط بھی رکھی ہے کہ اس کی اکاؤنٹنگ اوپن سورس (عوامی) رکھی جائے تاکہ لوگوں کو پتہ چلے کہ پیسہ کہاں خرچ ہو رہا ہے۔

اس کے جواب میں بیزلی نے اپنی بات کی وضاحت کی کہ ’ورلڈ فوڈ پروگرام کے پاس شفافیت اور اوپن سورس اکاؤنٹنٹنگ کا نظام پہلے ہی سے موجود ہے۔‘ انہوں نے مزید کہا، ’آپ کی مدد سے ہم امید پیدا کر سکتے ہیں اور استحکام لا سکتے ہیں اور مستقبل کو بدل سکتے ہیں۔‘ بیزلی نے ایلون مسک سے کہا ہے کہ مجھے وقت دیں تو میں اگلی ہی فلائیٹ سے آپ کے پاس پہنچ جاتا ہوں تاکہ اس بارے میں بات کی جا سکے۔ انہوں نے کہا، ’اگر آپ کو میری تجاویز پسند نہیں آتیں تو بےشک مجھے گھر سے نکال باہر کریں۔‘ ایلون مسک ٹیسلا کار کمپنی اور سپیس ایکس کمپنی کے سربراہ ہیں۔ مالیاتی ادارے بلومبرگ کے مطابق ٹیسلا پچھلے ہفتے دس کھرب ڈالر مالیت والی کمپنی بن گئی تھی اور اکیلے ایلون مسک کی دولت میں صرف ایک دن یعنی 29 اکتوبر کو 9.3 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا تھا۔

بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو

بے بسی سے بے حسی تک

سب بے بس ہیں۔ سب سے بڑھ کر صحافت۔ تین سال اس طرح بیتے کہ کوئی تجزیہ درست ثابت ہوا نہ کوئی پیش گوئی پوری ہوئی۔ چڑیا کی خبر سچ ثابت ہوئی نہ کسی مخبر کی۔ تاریخیں دی جاتی رہیں کہ فلاں دن حکومت کا آخری دن ہے۔ کبھی بتایا گیا کہ یہ کمپنی نہیں چلے گی۔ مجھے جیسے بزعمِ خویش دانش ور‘ نام نہاد سماجی علوم کے نظریات بیان کرتے رہے کہ جب یوں ہوتا ہے تو پھر لازماً یوں ہوتا ہے۔ عثمان بزدار صاحب کے جانے کی خبر اتنی بار اڑائی گئی کہ آصف زردای صاحب کے بارے میں کی گئی پیش گوئیاں پس منظر میں چلی گئیں۔ یہ گلستان مگر اُسی طرح آباد ہے۔ جس شاخ پر جو بیٹھا تھا‘ وہ بیٹھا ہے۔ معلوم یہ ہوا کہ کوئی علم ِنجوم یہاں کارآمد ہے نہ کوئی سماجی نظریہ۔ خبر تک رسائی نہ تو کسی چڑیا کو حاصل ہے اور نہ کسی مخبر کو۔ سب تجزیے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ اب تو بہت سے کالم مدت سے دکھائی نہیں دیے۔

معلوم ہوتا ہے کہ قلم میں وہ اعتماد ہی باقی نہیں رہا جس پر ناز تھا۔ کچھ مذہبی واقعات لکھ کر اور کوئی سماجی مسائل کو موضوع بنا کر کالم کے لیے جواز تلاش کرتا ہے۔ کوئی سفر کی روداد لکھ رہا ہے اور کوئی ذاتی دکھ سکھ کے بیان سے کالم کا پیٹ بھر رہا ہے۔ تعلقاتِ عامہ کے لیے کالم کا استعمال تو خیر ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔ صحافت تو ایک طرف‘ سیاست کے پرانے کھلاڑی بھی معلوم ہوتا ہے کہ بے بس ہو گئے۔ نوازشریف صاحب کا خیال تھا کہ لوگ ووٹ کی عزت کے لیے باہر نکلیں گے۔ پتا یہ چلا کہ یہاں روٹی کے لیے کوئی نہیں نکلتا‘ ووٹ کے لیے کیا نکلے گا۔ مولانا فضل الرحمن مذہب کی دہائی دیتے ہیں‘ یہ سوچ کر کہ لوگ کسی اور مسئلے کے لیے اٹھیں نہ اٹھیں‘ اس معاملے میں ضرور اُٹھ کھڑے ہوں گے مگر ان کی آواز بھی اب تک صدا بصحرا ثابت ہوئی ہے۔ جماعت اسلامی کا خیال تھا کہ تنہا پرواز سے اس کا حسنِ کردار نمایاں ہو کر سامنے آئے گا اور عوام کو متوجہ کرے گا۔ معلوم ہوا کہ عوام اسی طرح لاتعلق ہیں جیسے پہلے تھے۔

کہتے ہیں کہ ایوب خان صاحب کے دور میں ایک بار آٹا مہنگا ہوا تو عوامی احتجاج سے وہ زلزلہ آیا کہ فیلڈ مارشل کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی تھی۔ بھٹو صاحب کے خلاف سیاسی تحریک چلی تو لوگوں نے مان لیا کہ یہ نظامِ مصطفیٰ کے لیے ہے اور بندوقوں کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہو گئے۔ یہ ہوا ہو گا مگر اب ایسا نہیں ہوتا۔ کوئی آٹے کی قیمت بڑھنے سے مائل بہ احتجاج ہوتا ہے اور نہ کوئی مذہبی نعرہ کسی کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ صحافت بے بس‘ سیاست بے ثمر‘ سماج بے حس۔ علم حیران اور تاریخ پریشان۔ ایسا دور‘ کیا پہلے بھی کبھی آیا ہو گا؟ اقوام پر ایسا دور آتا ہے جب اجتماعی آدرش نہ رہے اور مایوسی خیمہ گاڑ لے۔ جب ہر کام لاحاصل دکھائی دے۔ کسی کے سامنے کوئی منزل نہ ہو اور ہر کوئی یہ خیال کرے کہ صبح سے شام کرنا ہی زندگی ہے اور اسی کے اسباب تلاش کرتا رہے۔

معاشی بد حالی اس کا ایک سبب ہو سکتی ہے لیکن واحد سبب نہیں۔ بے ثمر سیاست بھی ایک وجہ ہو سکتی ہے لیکن واحد وجہ نہیں۔ 1937ء میں جب کانگرس کی وزارتیں بنیں تو مسلمان شدید مایوس ہو گئے۔ ان کے پاس لیکن ایک آدرش موجود تھا۔ قیادت تھی۔ وہ اس سے نکل آئے۔ تین سال میں منظر بدل گیا اورپھران کا قافلہ ایک نئی منزل کی طرف رواں دواں تھا۔ قافلہ جب چل پڑے تو سب کی صلاحیتیں سامنے آنے لگتی ہیں۔ تحریکِ پاکستان میں بھی یہی ہوا۔ ادب‘ صحافت اور سیاست کے میدانوں میں ایسے ایسے شاہسوار سامنے آئے کہ ان کی مہارت کی داستانیں آج بھی بچوں کو سنائی جاتی ہیں۔ ظفر علی خان اور شورش کاشمیری اسی دور کی یادگار ہیں اور دیکھیے کہ ظفر علی خان نے اس رشتے کو کیسے بیان کیا:

شورش سے میرا رشتہ ہے وہ ازلی ہے
میں وقت کا رستم ہوں وہ ثانیٔ سہراب

آج کوئی رستم ہے اور نہ سہراب۔ یہ دونوں پیدا کیسے ہوں کہ کوئی میدانِ کارزار ہی نہیں۔ میدان لگتا ہے تو شاہسوار نکلتے ہیں۔ آج دنیا کے مقابلے میں ہماری ترجیحات بالکل مختلف ہیں۔ اس کا نتیجہ فکری خلفشار ہے۔ مذہب تعمیرِ اخلاق کا موضوع ہے۔ ہم نے اسے عصبیت بنا دیا اور یوں احتجاج کا عنوان۔ سیاست اداروں کی مضبوطی کا نام تھا‘ ہم نے اداروں کو استحکامِ اقتدار کے لیے ایک آلہ بنا دیا۔ خانقاہ تربیت کا مرکز تھی‘ ہم نے اسی کمائی کا ذریعہ بنا لیا۔ مدرسہ اسلامی علوم کے ماہرین کی تیاری کے لیے قائم ہوا‘ ہم نے اسے گروہی مفاد کاایک ادارہ بنا دیا۔ صحافت تعبیرِ ملک کے لیے تھی‘ ہم نے اسے شخصی مفادات کے تابع کرتے ہوئے کاروبار اور تعلقاتِ عامہ کا ہتھیار بنا دیا۔ زندگی ایک وحدت ہے۔ سماج اسی وقت آگے کی طرف بڑھتا ہے جب اس کے تمام ادارے ایک وحدت کا حصہ بن کر اپنا کام کریں‘ جیسے پرزے مشین کو ایک وحدت میں بدلتے ہیں تو اسے مفید آلہ بنا دیتے ہیں۔

اہلِ مذہب‘ سیاستدانوں اور صحافیوں کو یہ سمجھنا ہو گا کہ ان کا اصل کام کیا ہے۔ اسی وقت سماج آگے بڑھ سکے گا ورنہ یہ کج روی باقی رہے گی۔ یہ بے سمت سفر کا ناگزیر نتیجہ ہے۔ سمت کا تعین اورسماج کے اداروں کا ایک سمت میں متحرک ہونا جس وحدتِ فکر کو لازم قرار دیتا ہے‘ وہ ایک صبرآزما کام ہے۔ حبِ عاجلہ انسان کی فطرت ہے۔ وہ تادیر انتظار نہیں کر سکتا۔ یوں وقت سے پہلے نتائج کی خواہش اسے عجلت پر ابھارتی ہے۔ پھر یہ کہ سمت کی درستی ایک فکری و علمی کاوش ہے۔ گویا اس کے لیے اہل علم و نظر کا ہونا ضروری ہے۔ اس کے لیے پہلا قدم حبِ عاجلہ سے نجات ہے۔ اس کا سادہ مطلب سیاست و صحافت کو پاپولزم سے پاک کرنا ہے۔ مقبول ہونے کی خواہش نے سیاست اور صحافت‘ دونوں کو پست کر دیا ہے۔ تجربہ یہ ہے کہ سطحی اور سیاسی موضوعات پرلکھا جائے تو غلغلہ برپا ہو جاتا ہے۔

ایک عالم تماشا دیکھنے کو جمع ہو جاتا ہے۔ سنجیدہ موضوع پر لکھا گیا کالم تبصرہ نگاروں کے انتظار میں طاقِ نسیاں تک جا پہنچتا ہے۔ اب لکھنے والا کیا کرے؟ یہی وہ مقام ہے جہاں فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ جو اس پل صراط سے گزر گیا‘ وہ تاریخ میں زندہ رہ گیا۔ یہ الگ بات کہ اس کا عہد اس سے بے خبر رہتا ہے‘ الا یہ کہ غیب سے کوئی تائید میسر آ جائے۔ تاریخ کا عمل بہرحال شخصی مطالبات سے بے نیاز آگے بڑھتا ہے۔ تاریخ کا فرمان تو یہی ہے کہ وحدتِ فکر کے بغیر عمل کی یکسوئی نہیں آتی۔ وحدتِ فکر سے مراد قوم کو روبوٹ بنانا نہیں ہوتا۔ یہ اس بات پر اتفاق کا نام ہے کہ قوموں کو آگے بڑھنے کے لیے ایک آدرش چاہیے۔ ہر شخص کو وہ ماحول چاہیے جہاں وہ اپنی صلاحیتوں کا بہتر اظہار کر سکے۔ اس ماحول کی ضرورت پر اتفاق ہی وحدتِ فکر ہے۔ جمہوریت پر وحدتِ فکر کا مطلب ہے‘ عوام کی رائے فیصلہ کن ہونا۔ اس کا مفہوم یک جماعتی آمریت نہیں۔ ایسی وحدتِ فکر تو موت کا دوسرا نام ہے۔ اس وقت ہمارا دامن ان سوچوں سے خالی ہے۔ چار سو خاک اُڑتی ہے۔ نہ زندگی‘ نہ محبت‘ نہ معرفت‘ نہ نگاہ۔ سب بے بس ہیں اور سب سے زیادہ صحافت۔

خورشید ندیم

بشکریہ دنیا نیوز

ہم چائلڈ لیبر کو ختم کرنے کی لڑائی میں ہار رہے ہیں

اقوام متحدہ نے نکشاف کیا ہے کہ دنیا میں دو دہائیوں میں پہلی بار چائلڈ لیبر میں اضافہ ہوا ہے اور کورونا بحران کی وجہ سے مزید کروڑوں بچے اس کا شکار ہو سکتے ہیں۔ فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن اور اقوام متحدہ کی بچوں کے حوالے سے کام کرنے والی تنظیم یونسیف کی مشترکہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سنہ 2020 کے آغاز میں چائلڈ لیبر کی تعداد 16 کروڑ ہو چکی ہے جس میں گذشتہ چار سالوں میں آٹھ کروڑ 40 لاکھ بچوں کا اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس تعداد میں اضافے کا آغاز وبا سے پہلے ہو چکا تھا اور اس میں کمی کے رحجان میں ڈرامائی انداز میں تبدیلی آئی ہے جس میں سنہ 2000 سے 2016 تک چائلڈ لیبر کی تعداد کم ہو کر نو کروڑ 40 لاکھ ہو گئی تھی۔

جیسے جیسے کورونا بحران میں اضافہ ہوتا گیا پوری دنیا میں 10 میں سے ایک بچہ چائلڈ لیبر میں پھنستا گیا، جس سے سب سے زیادہ افریقہ کا خطہ متاثر ہوا۔  دونوں ایجنسیوں کی مشترکہ رپورٹ کے مطابق چائلڈ لیبر کا شکار بچوں کی شرح سنہ 2016 جتنی ہی ہے لیکن آبادی میں اضافے کا مطلب ہے کہ ان کی تعداد بہت زیادہ بڑھ گئی ہے اور وبا کا خطرہ صورتحال کو بہت زیادہ خراب کر رہا ہے۔ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ اگر تیزی سے بڑھتے غریب خاندانوں کی فوری امداد کے لیے کچھ نہ کیا گیا تو اگلے دو سالوں میں تقریباً مزید پانچ کروڑ بچے چائلڈ لیبر کے لیے مجبور ہو جائیں گے۔ اس صورتحال کے حوالے یونیسف کی چیف ہنریٹا فور نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم چائلڈ لیبر کو ختم کرنے کی لڑائی میں ہار رہے ہیں۔‘

انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ’کورونا بحران نے ایک خراب صورتحال کو بدترین بنا دیا ہے۔‘ ’اب عالمی سطح پر لاک ڈاؤن، سکولوں کی بندش، معاشی رکاوٹوں اور سکڑتے ہوئے قومی بجٹ کے دوسرے سال میں خاندان دل توڑ دینے والا انتخاب پر مجبور ہیں۔‘ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر وبا کے باعث غربت کے حالیہ تخمینوں میں اضافہ ہوتا ہے تو سنہ 2022 کے آخر تک مزید 90 لاکھ بچے چائلڈ لیبر میں دھکیلے جائیں گے۔ تاہم یونیسف کی شماریات کی ماہر کلاڈیا کیپا کے مطابق اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ یہ تعداد ممکنہ طور پر پانچ گنا سے زیادہ ہو سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’اگر کفایت شعاری کے اقدامات اور دوسرے عوامل کی وجہ سے معاشرتی تحفظ موجودہ سطح سے نیچے آ جاتا ہے تو آئندہ آنے والے سال کے آخر تک چائلڈ لیبر کا شکار ہونے والے بچوں کی تعداد چار کروڑ 60 لاکھ تک بڑھ سکتی ہے۔‘ ہر چار سال بعد شائع ہونے والی اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ چائلڈ لیبر کی مجموعی عالمی تعداد میں آدھے بچوں کی عمریں پانچ سے 11 سال تک ہے۔

بشکریہ اردو نیوز

غریب ملکوں کو کورونا سے بچاؤ کی ویکسین کی کمی کا سامنا ہے

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کا کہنا ہے کوویکس پروگرام کے تحت وافر مقدار میں ویکسی نیشن فراہم نہ کیے جانے کے سبب غریب ملکوں کو کورونا سے بچاؤ کی ویکسین کی کمی کا سامنا ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے سینئر مشیر نے کہا ہے کہ کوویکس پروگرام کے تحت 131 ملکوں کو 9 کروڑ خوراک کی فراہمی ناکافی ہے۔  انہوں نے کہا کہ آبادیوں کو وائرس سے بچانے کے لئے یہ ناکافی ہے جبکہ کچھ افریقی ملکوں میں تیسری لہر کا سامنا ہے۔ افریقی صدر کا کہنا ہے کہ افریقہ میں 40 ملین ڈوزز لگائی گئیں، یہ 2 فیصد سے بھی کم آبادی کو لگائی گئی ہے۔ عالمی ادارہ صحت اور دیگر عالمی تنظیموں کی سربراہی میں قائم کوویکس پروگرام کے تحت ابتدا میں 2021 ء کے اختتام تک دنیا بھر میں 2 ارب خوراکیں پہنچانے کا ہدف رکھا گیا تھا، لیکن ویکسین بنانے میں تاخیر، سپلائی میں پریشانی کی وجہ سے قلت پیدا ہو رہی ہے۔  دوسری جانب یوگنڈا، زمبابوے، بنگلادیش بھی ویکسین ختم ہونے کا اعلان کر چکے ہیں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ

بڑے لوگ پیدا ہونے سے باز نہ آویں گے

دنیا میرا ڈونا سے پہلے بھی رواں تھی۔ اس کے بغیر بھی رواں ہے اور رہے گی۔میراڈونا سے پہلے بھی فٹ بال کے بہت ستارے ابھرے، اس کے ہوتے ہوئے بھی عالمی معیار کے کھلاڑیوں کی کمی نہیں تھی ، آیندہ بھی نہیں ہو گی۔ کروڑوں لوگ میراڈونا کے لیے جتنے افسردہ ہیں میں اتنا ہی پرامید ہوں۔ جب تک محرومی، غربت، ذلت اور ارادے جیسی نعمتیں موجود ہیں تب تک یہ دنیا عظیم کرداروں سے خالی نہیں ہو سکتی۔ پچھلے سات ہزار برس کے تمام اولیا، اہلِ سخاوت، انقلابیوں، باغیوں ، شعلہ بیانوں ، نثرنگاروں، شاعروں، فلسفیوں ، مورخوں ، وقایع نگاروں ، اساتذہ ، سورماؤں، محققین ، سائنسدانوں ، موجدوں، تاجروں، ارب پتی صنعت کاروں، بینکاروں، کھلاڑیوں ، مہم جوؤں ، جہاز رانوں، سیاحوں ، تعمیراتی ماہرین ، موسیقاروں ، اداکاروں سمیت کسی بھی شعبے کی فہرست اٹھا لیں۔ ننانوے فیصد نے غربت میں آنکھ کھولی، محرومیوں کی گھٹی پی، ذلتوں کا وزن اٹھایا اور ارادوں پر سواری کرتے ہوئے عظمت کی سیڑھیوں پر درجہ وار جا کر بیٹھ گئے۔

اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ میں ایسے لوگوں کے احسانات نظرانداز کروں کہ جنھوں نے متمول ماحول میں آنکھ کھولی، سونے کا نوالہ دیکھا ، آسودگی کے پروں تلے پرورش پا کر اعلیٰ مقام تک پہنچے اور دنیا کو اور بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کیا اور اپنے ارد گرد سے نکل کے باقی انسانوں کے لیے بھی سوچا۔ اس کی سب سے درخشاں مثال گوتم بودھ ہے۔ مگر آسودگی کی گود میں پرورش پانے والے عظیم دنیا بدل لوگوں کی تعداد غربت اور محرومی سے نکلنے والے عظام کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ اس کی بنیادی وجہ شائد یہ ہو کہ اہلِ ثروت اگر آگے بڑھنے میں ناکام بھی رہیں تو انھیں سنبھالنے کے لیے کئی مددگار ہاتھ اور چند مضبوط کندھے میسر رہتے ہیں۔ اگر نا بھی ہوں تو وہ اپنی ناکامی وضع داری کے پلو میں چھپا لیتے ہیں۔ مگر کچی بستیوں کے گلیاروں پلنے والا یا بند گھٹن زدہ سماجی و معاشی ناہمواری کی فضا میں سانس لینے والا کوئی بچہ یا بچی اونچائیاں چھونے کے خواب دیکھتا ہے تو ابتدا میں اس کا ہاتھ پکڑنے والا وہ خود ہی ہوتا ہے۔

اسے گھر میں اور گھر کے باہر تمسخر و طعنہ زنی کا راتب ملتا ہے۔ اسے سنکی سمجھا جاتا ہے۔ اس پر ترس کھایا جاتا ہے۔ اس کے بارے میں پیش گوئیوں کے ڈھیر لگ جاتے ہیں کہ یہ گھر کو تو خیر کیا سنبھالے گا خود کو ہی سنبھال لے تو بڑی بات ہے۔ اسے ہر آن زندگی کا رندہ چھیلتا رہتا ہے۔ اس کے اردگرد ناکامیوں، ناامیدوں، گریہ بازوں اور کم نظروں کی ایک فوجِ ظفر موج ہمہ وقت رہتی ہے۔ وہ تنہائی گزیدہ اپنے ارادے، منصوبے، خدشات اور امیدوں کا رازداں ایک آدھ کو ہی بنا سکتا ہے۔ وہ ایک آدھ جو اس کا کندھا تھپتھپاتے ہوئے سرگوشی کرتا رہتا ہے ’’ ہارنا نہیں ایک نہ ایک دن تیرا بھی آئے گا بس تو لگا رہ ‘‘۔ میں ایک بار اسکردو سے خپلو جانے والے تنگ اور خطرناک راستے پر سفر کر رہا تھا۔ اچانک ایک موڑ پر ایک بورڈ نظر آیا ’’ یہاں غلطی کا موقع صرف آخری بار ملتا ہے ‘‘۔ سوچیے اپنی مدد آپ پر مجبور جو بچے یا بچیاں عظیم خوابوں پر سوار ہو کر اندھے مستقبل میں چھلانگ مارنے کا حوصلہ رکھتے ہیں ان کے ذہن پر کیسا کیسا بوجھ ہوتا ہو گا۔کیسے کیسے خدشاتی اژدھے ان کو لپیٹے رہتے ہوں گے۔ خبردار ذرا سی لغزش اور پلٹنے کا ایک بھی موقع نہیں۔

شکستگی نے یہ دی گواہی بجا ہے اپنی یہ کج کلاہی
سنو کہ اپنا کوئی نہیں ہے ہم اپنے سائے میں پل رہے ہیں
( احمد نوید )

اور جب وہ اندھے مستقبل میں چھلانگ مار کر گمنامی و صدمے کی کھائی میں گرنے کے بجائے خود کو سنہرے مستقبل کی گود میں پاتے ہیں تو سب سے پہلے ان کی زندگی کے تمام ولن و حاسد و ریاکار ان کی جانب یہ کہہ کر دوڑ پڑتے ہیں کہ ہم تو پہلے ہی کہتے تھے تو ایک نہ ایک دن یہ کمال کر دکھائے گا، دراصل ہمارا یہ بچہ شروع سے ہی باقی بچوں سے الگ تھا، ہماری گودوں میں کھیلا ہے نا۔ ہمارا سر فخر سے بلند کر دیا وغیرہ وغیرہ۔ جولیس سیزر سے ہوچی منہہ تک، ایڈیسن، ہنری فورڈ ، عبدالسلام سے بل گیٹس تک ، دلیپ کمار سے شاہ رخ خان تک ، نور جہاں سے ریشماں تک، کالی داس سے منٹو تک ، موزارٹ سے اے آر رحمان تک، وان گاف سے شاہد رسام تک ، جانی واکر سے معین اختر تک، میر صاحب سے سبطِ علی صبا تک، ڈاکٹر قدیر سے اے پی جے عبدالکلام تک ، محمد علی سے پیلے اور میرا ڈونا تک اگر میں ہر شعبے میں نام لیتا چلا جاؤں تو کئی جلدیں درکار ہیں۔

مگر میں نوحہ گر ہوں ان لاکھوں بچوں کے لیے جن میں بے شمار بڑے لوگوں کے ہم پلہ ہونے کے تمام اجزائے ترکیبی موجود تھے ، ہیں اور رہیں گے لیکن وہ اور ان کے خواب برابری کے مواقع نہ ملنے اور ہوش سنبھالتے ہی حوصلہ کچل دیے جانے کے سبب تاریک راہوں پر دھکیل دیے گئے اور دھکیلے جاتے رہیں گے۔ اور میں سلام کرتا ہوں ان بچوں کے والدین اور بھائیوں بہنوں کو جنھوں نے اپنا مستقبل سنوارنے کے بجائے اپنے کسی ایک بچے اور بچی کی اصل صلاحیتیں پہچان کر تمام پونجی اور توانائی اس بچے پر لگا دی اور اس کے شاندار مستقبل کی بنیاد کا پتھر بن گئے اور بچے نے بھی اپنے محسنوں کا سر فخر سے بلند کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ یہی زندگی ہے۔ نہ نظام بدلے گا نہ بڑے لوگ پیدا ہونے سے باز آویں گے۔ اور معجزہ کیا ہوتا ہے؟

وسعت اللہ خان

بشکریہ ایکسپریس نیوز

غریب کیوں غریب ہے؟

ہمارے ملک کے کئی المیوں میں‘ میرے نزدیک سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ایک طرف دولت کے انبار ہیں‘ تقریباً ناجائز‘ لوٹ مار سے بنائی ہوئی دولت کے انبار‘ اور دوسری طرف غربت اس حد تک کہ چالیس فیصد بچوں کی غذائی ضرورت پوری نہ ہونے کے موجب ان کی ذہنی و جسمانی نشوونما نہیں ہو پاتی اور ان کی تعلیم حاصل کرنے کی صلاحیت محدود رہ جاتی ہے۔ غریب خاندانوں میں زیادہ بچوں کا رجحان نہایت ہی سنجیدہ مسئلہ ہے‘ لیکن ہمارے حکمرانوں کی توجہ کہیں اور ہے۔ ذاتی خزانے بھرنے‘ سیاسی جنگیں لڑنے‘ حکومتیں گرانے‘ اقتدار پر قبضہ کرنے اور کرسیٔ اقتدار پہ قائم رہنے کی ہوس نے قومی مسائل کو ہر گزرتے سال کے ساتھ مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ اقتدار میں ہوں تو کچھ کرتے نہیں‘ حزبِ اختلاف میں ہوں تو کچھ کرنے نہیں دیتے۔ انہیں کیا فکر‘ سیاست بازی‘ اکھاڑ پچھاڑ‘ جلسے جلوس‘ بنتے بگڑتے سیاسی اتحاد ان کا مشغلہ‘ ان کیلئے کھیل ہے۔ مشکل فیصلے اور وہ بھی جو آسانی سے ہو سکتے ہیں‘ ہمیشہ تاخیر کا شکار رہے ہیں۔

آج حالت یہ ہو چکی ہے کہ کسی محکمے اور کسی شعبے کی اصلاح کرنے کی کوشش کی جائے تو ردِ عمل اتنا شدید آتا ہے کہ کوئی بھی حکومت ہو‘ ڈر کے مارے کچھ کر نہیں سکتی۔ غربت‘ عدم مساوات اور آبادی کا دبائو عام مسائل نہیں ہیں۔ ایسے مسائل قوموں اور ملکوں کو تباہ کر سکتے ہیں‘ اور انہوں نے ہر جگہ ایسا کیا ہے‘ معاشرے میں بدامنی اور بے حسی پھیلتی جاتی ہے‘ کوئی بھی حکومت ان کو روکنے کے قابل نہیں رہتی‘ یوں حالات بے قابو ہو جاتے ہیں۔ سیاست باز بے چینی پر پلتے‘ پھلتے‘ پھولتے اور ترقی کی منزلیں طے کرتے ہیں۔ سیاست میں طوفان اٹھتے ہیں تو یہی مسائل دگنے چوگنے ہو جاتے ہیں۔ سیاست باز تو اپنا اور اپنے حواریوں کا گھر آباد رکھتے ہیں‘ مگر اس عمل کے نتیجے میں قوم برباد ہو جاتی ہے۔ قومیں کیوں تباہ ہوتی ہیں یا کیسے سنورتی ہیں‘ یہ کوئی اجنبی موضوع نہیں ہے۔ سیاسیات کے طلبا کو تو یہ ازبر کرایا جاتا ہے اور عمرانی علوم کے ہر شعبے میں تاریخ اور مشاہدات کی روشنی میں سبق دیئے جاتے ہیں کہ جو راستہ اور طرزِ حکمرانی غالب طبقے منتخب کریں گے‘ اس سے قومیں بن یا بگڑ سکتی ہیں‘ اور جب بگڑے‘ تباہ حال معاشروں کا ٹھنڈے دل و دماغ سے تجزیہ کیا جائے تو انگلی ان کی طرف اٹھے گی‘ جو مسندِ اقتدار پر تقریباً نصف صدی تک براجمان رہے۔ قرضے کئی گنا چڑھا دیئے اور حالت یہ ہے غریب طلبہ کیلئے سکولوں اور جامعات میں پڑھنے کیلئے فیسیں تک نہیں ہیں۔

خاکسار کے غربت کے حوالے سے کئی ذاتی مشاہدے ہیں‘ جن کی وجہ سے میں بہت بے چین رہا ہوں۔ غربت کو کسی ایک علاقے سے منسوب یا مخصوص کرنا ایک روایتی سی بات لگتی ہے۔ ہر جگہ غریب لوگ بس رہے ہیں۔ چلو یہی کہہ دیتے ہیں کہ پنجاب کے ایک پس ماندہ ضلع میں ایک غریب اور یتیم بچے کا گزشتہ ہفتے قریبی سرکاری جامعہ میں انفارمیشن ٹیکنالوجی میں داخلہ ہو گیا۔ عجیب بات ہے کہ ایک دن اطلاع ملی‘ دوسرے دن فیس جمع کرانے کی آخری تاریخ تھی۔ فیس بھی کوئی بہت زیادہ نہیں‘ صرف بائیس ہزار ایک سو روپے۔ عدم مساوات دیکھیں‘ اتنی رقم ہمارے شہروں کے باسی شام کے ایک معمولی کھانے پہ خرچ کر ڈالتے ہیں۔ خیر فیس کا تو بندوبست ہو گیا‘ مگر معلوم کرنے کی کوشش کی کہ وہ طالب علم کہاں ہے اور کیسے اگلے روز فیس جمع کرائی جائے۔ معلوم ہواکہ وہ کراچی مزدوری کرنے کے لئے گیا ہوا ہے تاکہ کچھ پس انداز کر کے اپنی فیس جمع کرا سکے۔ کئی سال پہلے بھی ایسا واقعہ ذاتی مشاہدے میں آیا تھا۔ کسی قریبی محلے میں کچھ گھر زیرِ تعمیر تھے۔

مزدوروں میں ایک نوجوان مختلف سا دیکھا۔ وضع قطع سے پڑھا لکھا معلوم ہوتا تھا۔ گلی کوچوں میں مٹر گشت اور اجنبی لوگوں سے بات چیت کرنا خاکسار کا سطح پر رہ کر معاشرے اور انسانوں کو سمجھنے کا پُرانا طریقہ ہے۔ مشقت سے اسے ذرا فراغت ملی تو تاریخ و جغرافیہ معلوم کیا۔ اس نے ایف اے کر رکھا تھا‘ اور چارسدہ سے اسلام آباد میں مزدوری کرنے کیلئے آیا ہوا تھا۔ وہ بھی محنت مزدوری کر کے کالج میں داخلے کی فیس جمع کرانے کا خواہش مند تھا۔ یہ دونوں نوجوان میرے نزدیک بہت خوش قسمت ہیں کہ انہوں نے آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کر لیا۔ کاش علم کی دولت حاصل کرنے کا جوش و جذبہ سب میں موجزن ہو جائے۔ غربت سے نکلنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے‘ علم اور صرف علم۔ سوچتا ہوں‘ اگر ہم اپنے قومی میزانیے کا اتنا ہی حصہ تعلیم پر خرچ کرتے‘ جتنا سری لنکا اور بنگلہ دیش کر رہے ہیں تو غربت اور عدم مساوات کا اب تک خاتمہ ہو سکتا تھا۔ چلو دیر سے سہی‘ یہ کام تو کسی بھی وقت کیا جا سکتا ہے۔

دکھ سے کہتا ہوں کہ ہماری دو بڑی سیاسی جماعتوں اور ان کی سیاست بازی کے درمیان ایک اور دس سالہ غیر منتخب حکومت‘ یوں سمجھیں کہ نصف صدی ضائع ہو گئی۔ ظلم یہ ہے کہ ”جمہوریت‘‘ کا جھنڈا اٹھا کر جعلی گھسے پٹے بیانیوں اور تقریروں کے سہارے ملک کے اقتدار پر ان کی اگلی نسل قبضہ کرنا چاہتی ہے۔ انہیں صرف وہی جمہوریت اور انتخابات پسند اور قابلِ قبول ہیں‘ جو ان کو اقتدار میں لے آئیں‘ لیکن اس پر ذرا غور کریں کہ لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کرنے والے تیسری‘ چوتھی اور پانچویں دفعہ وطنِ عزیز یا ہم جیسے بدنصیب دیگر ممالک میں سیاست اور معاشرت پر کیوں غالب رہتے ہیں؟ ہر جگہ جواب ایک ہی ہے۔ عوام کو ان پڑھ‘ غریب اور محتاج رکھ کر تحصیل سے لے کر وفاقی اداروں تک نظام ہی ایسا وضع کیا گیا کہ براہ راست شہریوں کیلئے انصاف‘ حقوق اور کسی بھی سرکاری ادارے سے معمولی نوعیت کا کام بھی کسی کی سفارش کے بغیر کرانا مشکل بنا دیا گیا ہے۔ دوسرا راستہ نوٹوں کی راہداری ہے‘ مگر غریب کہیں پھنس جائے تو اس کے پاس کچھ بھی نہیں ہوتا۔

غربت اور مفلسی کے نتیجے میں صرف غالب طبقہ اقتدار میں رہتا ہے‘ عوام ان سے سوال کرنے کے قابل ہی نہیں رہتے۔ یہ ہیں جھنڈے اٹھا کر ہمارے رہنمائوں کی گاڑیوں کے دھوئیں اور گرد میں لپٹے نعرے لگانے والے۔ مغرب اور امریکہ میں بھی جلسے اور جلوس نکلتے ہیں‘ مگر لوگ لائے نہیں جاتے‘ خود آ تے ہیں‘ نہ آنا چاہیں تو کوئی ان کو مجبور نہیں کر سکتا۔ ووٹ وہ اپنی مرضی سے دیتے ہیں۔ یہاں بھی سب لوگ تو کسی کے دبائو میں آ کر یہ سب کچھ نہیں کرتے‘ مگر ہمارے دیہاتوں اور شہروں کے غریب محلوں میں بے بسی لوگوں کو جھنڈے اٹھانے پر مجبور رکھتی ہے۔ میرے جیسے خاکسار کی آزادی صرف تعلیم کے سہارے ہے۔ اگر اس سے محروم رہ جاتا‘ تو جیسے ہماری کئی گزری نسلیں رہیں‘ پتہ نہیں کیا زندگی ہوتی؟ اس شعبے میں تقریباً نصف صدی تک تدریس کا تجربہ ہے‘ اور سفر ابھی جاری ہے۔ ہزاروں طلبہ جامعات میں سنورتے دیکھے ہیں۔ ان میں سے کچھ ایسے بھی تھے‘ جو سرحدی علاقوں سے‘ بلوچستان کے قبائلی اور انتہائی مفلس گھرانوں سے آئے تھے۔ تعلیم نے انہیں کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔

جامعات میں تعلیم نہ صرف آزادی‘ ہنر اور زندگی کا سلیقہ سکھاتی ہے بلکہ دل اور ذہن بھی منور ہو جاتے ہیں‘ دنیا کی سب گرد دھل جاتی ہے۔ بات معمولی فیسوں سے چلی تھی۔ کپتان کی حکومت نے تو یہ قدم ایسا اٹھایا ہے کہ مثال نہیں ملتی۔ پچاس ہزار احساس وظیفے ہر سال غریب طلبہ کو دیئے جا رہے ہیں۔ میں تو ایک قدم آگے جائوں گا‘ کوئی بھی طالب علم داخلہ مل جانے کی صورت میں تعلیم سے اس لئے محروم نہ رہے کہ وہ فیس ادا نہیں کر سکتا۔ اس کے لئے جامعہ کے منتظمین کو بندوبست کرنا چاہئے‘ صوبائی حکومتیں زیادہ رقوم اس مقصد کیلئے وقف کریں۔ دنیا بھر میں ہر جگہ تعلیمی ادارے اربوں میں چندہ جمع کرتے ہیں‘ صرف حکومت کی گرانٹ پر اکتفا نہیں کرتے۔  پاکستان اس قدر کمزور ریاست نہیں ہے کہ اسے بنیادی اُصول سے پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا جا سکے۔

رسول بخش رئیس

بشکریہ دنیا نیوز

دفاع اور معیشت کی کمزوری کے باعث بھارت طاقتور ممالک کی صف سے باہر ہو گیا

عالمی ادارے کے سروے میں بھارت کو ایشیا پیسفک کے چار بڑے ممالک میں شامل ہونے کے باوجود بڑی طاقتوں کی صف سے باہر ہو گیا۔ غیرملکی خبر رساں ادارے کے مطابق آسٹریلیا میں قائم بین الاقوامی ادارے لوئی انسٹی ٹیوٹ نے 2020 کے لیے ایشیا کا پاؤر انڈیکس جاری کیا ہے جس میں بھارت نے گزشتہ برس کے مقابلے میں 40 پوائنٹ کم حاصل کیے ہیں۔ ادارے کا کہنا ہے کہ آبادی کے اعتبار سے خطے کا دوسرا بڑا ملک اب ایشیا پیسفک میں درمیانے درجے کی طاقت بن چکا ہے ۔ کورونا وائرس کے باعث خطے میں سب سے زیادہ بھارت کی ترقی کرنے کی صلاحیت متاثر ہوئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق خظے میں آبادی و دیگر حالات کے اعتبار سے بھارت چین کا مقابلہ کر سکتا ہے لیکن بدلتی صورت حال میں بھارت چین کے آس پاس بھی پہینچ جائے اس کا امکان نظر نہیں آتا۔

اس سے قبل یہ پیش گوئی کی گئی تھی کہ آئندہ ایک دہائی میں بھارت چین کی معاشی ترقی کے پچاس فیصد کے برابر آجائے گا تاہم موجودہ حالات میں اب چالیس فی صد کی حد عبور کرنا بھی مشکل نظر آتا ہے۔ لوئی انسٹی ٹیوٹ کے مطابق بھارت نے اپنے سفارتی اثر و رسوخ میں ضرور اضافہ کیا ہے تاہم دفاعی نیٹ ورک اور اقتصادی تعلقات کے دو ایسے پیمانے ہیں جن پر بھارت کی کارکردگی نیچے آئی ہے۔ انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ میں خطے پر بھارتی اثر رسوخ میں بھی کمی کی نشاندہی کی گئی ہے۔ جس ک مطابق ماضی میں بھارت کے زیر اثر نیپال میں اب چین اس سے کئی گنا زیادہ بارسوخ ہو چکا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت کو اپنے حالات کا جائزہ لینا چاہتا ہے اور اگر اسے سپر پاور بننے کی خواہش ہے تو دہائیوں تک محنت کرنے کے بعد بھی یہ ہدف حاصل کرنا سہل نہیں ہو گا۔

بشکریہ ایکسپریس نیوز

ملک مقروض : اشرافیہ کی پانچوں انگلیاں گھی میں

آغاز میں، مجھے یہ کہتے ہوئے اچھا نہیں لگ رہا مگر حقیقت یہی ہے کہ پاکستان میں اشرافیہ کو ہی اہمیت حاصل ہے ، پاکستان میں ’’اشرافیہ‘‘ بھی کئی قسم کی ہے۔ ایک سیاسی اشرافیہ، دوسری جاگیر دار ، قبائلی اشرافیہ، تیسری سرمایہ دار اشرافیہ اور چوتھی اعلیٰ سرکاری اشرافیہ۔ سیاسی اشرافیہ کی بات کریں تو یہاں ہر سیاسی سیٹ اپ اشرافیہ کی ایڈجسٹمنٹ کا نتیجہ ہوتا ہے، جس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ اقتدار میں کوئی بھی ہو اس کا مقصد اپنے معاشی اور سماجی مفادات کا تحفظ اور فروغ دینا ہوتا ہے، جس کے لیے وہ مختلف اقدامات اور ذاتی پروپیگنڈے کا سہارا لیتا ہے اور عوام کے بارے میں نہیں سوچتا۔ مثال کے طور پر مشرف عہد میں جب اسٹاک مارکیٹ کے بڑوں نے مصنوعی مستحکم معیشت اور فرضی ترقی سے پیسہ کمایا۔ جب زرداری کا دور آیا تو اشرافیہ کے چند سرمایہ دار ملک سے باہر چلے گئے۔ جب کہ دیگر نے اپنے اثاثوں میں حیرت انگیز اضافہ کیا، جب نواز شریف کا دور آیا تو وہ اشرافیہ جو زرداری کے عہد میں بھاگ گئی تھی، دوبارہ واپس آئی اور بے پناہ پیسہ بنایا۔

دوسری جاگیردار اور قبائلی اشرافیہ ، یہ وہ اشرافیہ ہے جو پشتوں سے چلی آرہی ہے، یہ وراثتی اشرافیہ بھی ہے۔ جب کہ تیسری اشرافیہ سرمایہ دار ہے جس کے ہتھے مزدور طبقہ چڑھا ہوتا ہے، اس میں غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہو جاتا ہے۔ جب کہ چوتھی قسم کی اشرافیہ سرکاری اشرافیہ ہے، جس کی اِجارہ داری تو ایک طرف مگر اس کی مراعات بعد از ریٹائرمنٹ سب پر بھاری ہوتی ہیں۔ آج ہمارا موضوع بھی یہی اشرافیہ ہے، جس کے بارے میں سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایک عدالتی فیصلے میں اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا ہے کہ نہ ملکی آئین اور نہ کسی قانون میں ججوں اور دیگر فورسز کے افسران کو پلاٹ جیسی مراعات کی اجازت دی گئی ہے۔ انھوں نے مزید لکھا کہ ’’بیشتر پاکستانیوں کو بنیادی رہائش کی سہولت تک میسر نہیں ہے، ایسے میں ملک کی زمین اشرافیہ میں تقسیم کرنا قرآن پاک کے اصول کی نفی ہے جب کہ جہاں تک عوامی فلاح کے لیے زمین حاصل کرنے کا سوال ہے تو یہاں آئین خاموش ہے۔ معیاری رہن سہن زندگی کی بنیادی ضروریات میں شامل ہے۔ یہ عوامل ثابت کرتے ہیں کہ عوامی مقصد کے لیے ہاؤسنگ اسکیم بنائی جا سکتی ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ ایک طرف پاکستان کے عوام ہیں جن کے بارے میں اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں کہ ملک کی 65 فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے، 43 فیصد پاکستانیوں کے پاس رہنے کے لیے اپنا گھر نہیں، 74 فیصد کو صاف پانی میسر نہیں، 27 فیصد کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں، 40 فیصد نوجوان بے روزگار ہیں، اور تو اور 11 فیصد پاکستانی خاندان ایسے ہیں جن کا ذرایع آمدن نہ ہونے کی وجہ سے وہ مانگ کر گزارہ کر رہے ہیں۔ جب کہ دوسری جانب سرکاری ملازمین جنھیں سروس کے دوران ہی لامحدود مراعات ملنا شروع ہو جاتی ہیں اور یہ سلسلہ ان کی ریٹائرمنٹ تک چلتا ہے بلکہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی سستے داموں رہائشی پلاٹس اور دیگر مراعات کا سلسلہ کسی نہ کسی صورت جاری رہتا ہے۔’’پلاٹی پالیسی‘‘ کسی آئین میں تو درج نہیں مگر اس کی منظوری 2007 میں وزیر اعظم شوکت عزیز نے دی تھی، اس لیے اس اضافی پلاٹ ملنے کی سہولت کو آج بھی وزیر اعظم پالیسی کہا جاتا ہے۔

قصہ مختصر کہ ہمارے ہاں سرکاری ملازمین میں زمین کی تقسیم ایک ’’رسم‘‘ بن چکی ہے، جب کہ کسی قانون میں نہیں لکھا کہ سرکاری ملازمین کو ریٹائرمنٹ کے وقت پلاٹ ملے گا ، اس کے علاوہ یہاں یہ جان کر بھی حیرت ہو گی کہ ہر سال پینشن کی مد میں بجٹ میں 5 سے 6 سو ارب روپے کا بجٹ رکھا جاتا ہے، یہ پینشن سول ملازمین سمیت فورسز کے اہلکاروں کو دی جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جس ملک میں ہر سال 1200 سے 15 سو ارب روپے کے خسارے کا بجٹ پیش کیا جاتا ہے، جس ملک میں ہر سال 5 سے 6 سو ارب روپے سود ادا کیا جاتا ہے، جس ملک میں آئی ایم ایف ہی بجٹ بناتا ہے اور جس ملک میں ہر سال ہزاروں بچے غذائی قلت کا شکار ہو کر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں وہاں چند لاکھ اشرافیہ کے لیے خزانے کے منہ کھول دینا کہاں کا انصاف ہے؟ بلکہ اب تو سبھی یہی سمجھتے ہیں کہ سرکاری ملازمین کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہیں اور سر کڑاہی میں ۔

اس تناظر میں یہ چیز دیکھنا کافی دل شکنی کا باعث بنتا ہے کہ عام آدمی بس یہ تصور ہی کر کے رہ جاتا ہے کہ اس کی رائے کوئی اہمیت رکھتی ہے۔ یہ دیکھنا دل ٹوٹنے کا سبب بنتا ہے کہ لوگوں کے اندر یہ سوچ رائج پا چکی ہے کہ اشرافیہ کو نکال باہر کرنے یا طرز حکمرانی کی قسم میں تبدیلی سے ان کی زندگیوں اور ان کے بچوں کی زندگیوں پر کسی بھی قسم کے مثبت اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ احتجاجی ریلیوں، جلسوں اور دھرنوں کی ان گنت تعداد درحقیقت کسی کام کی نہیں نظر آتی جب کوئی پاکستانی قوم کے 99 فیصد کو نچلی قطاروں میں دیکھتا ہے۔ یہ اس وقت مزید دلچسپ ہو جاتا ہے جب اعلیٰ طبقے سے تعلق رکھنے والا فرد اشرافیہ کو حاصل مراعات کے خاتمے کی بات کرتا ہے، اور یہ دیکھنا باعث شرم ہوتا ہے کہ ایک ہی جیسے گروپس کے افراد پرجوش انداز میں سیاستدانوں کا دفاع کر رہے ہوتے ہیں جو کہ خود معاشی اشرافیہ کے گروپ کی جانب سے اقتصادی وسائل پر قبضے کی جنگ کا حصہ ہوتے ہیں، تاکہ وہ عوامی پیسے کا رخ اپنی جانب کرسکیں۔

لہٰذااس غریب ملک میں جہاں ہزاروں افراد فاقہ کشی پر مجبور ہیں، وہاں ہم سب کو مل کر اس ملک کی ترقی کے لیے اپنا کردار ادا کر نا ہو گا، جیسے ملایشیا، ترکی اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں سب سے پہلے زمین کی تقسیم وہاں کے عوام کے لیے ہوتی ہے، جو بے گھر افراد ہیں، ریاست انھیں ناصرف جگہ فراہم کرتی ہے بلکہ انھیں گھر بنانے کے لیے بھی معاونت کرتی ہے۔ اس کے بعد سرکاری ملازمین کا ریکارڈ دیکھ کر انھیں قرعہ اندازی کے ذریعے پلاٹ دیے جاتے ہیں، ایسا کرنے کا سب سے بڑا فائدہ یہی ہوتا ہے کہ سرکاری ملازمین اپنے لیے زمین کا حقدار سمجھنے کے بجائے اسے قسمت کا کھیل سمجھتے ہیں۔ اس لیے یہاں بھی ایسا ہی نظام قائم ہونا چاہیے، یہاں سب سے پہلے بے گھر افراد کو گھر دیا جائے ، چلیں یہ بھی چھوڑیں حکومت سب سے پہلے 50 لاکھ گھرتعمیر کرنے کا وعدہ ہی پورا کر دے تاکہ عوام اپنے آپ کو ان سرکاری ملازمین کے سامنے کم تر نہ سمجھیں اور احساس کمتری کا شکار ہونے سے بچ جائیں۔ اسی میں ہمارے ملک اور معاشرے کی بقاء ہے

علی احمد ڈھلوں

بشکریہ ایکسپریس نیوز

ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات

جی ہاں! بندہ مزدور کے اوقات بہت تلخ ہیں۔ اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ بھوک سے مزدور ہی مر رہے ہیں۔ اس کا داعی تو طبقاتی نظام ہے مگر عالمی سرمایہ داری سب سے بڑی آسیب ہے۔ ابھی حال ہی میں آئی ایم ایف نے قرضہ جات پروگرام کی بحالی کے لیے اسے بجلی مہنگی اور ٹیکس بڑھانے سے مشروط کر دیا ہے۔
یقینا جب بجلی کی قیمت بڑھے گی تو پھر ہر چیز کی قیمت میں بھی سرمایہ دار اضافہ کر دے گا۔ اسی طرح جب ٹیکس لگے گا تو اس کا بالواسطہ بوجھ عوام پر پڑے گا۔ اشیاء خورد و نوش کی قیمتوں میں بھی از خود اضافہ ہو گا۔ یہ تو رہے انسانوں کو ہڑپ کرنے والے عالمی اور ملک کے سرمایہ دار، جاگیردار۔ مگر ہمارے دانشور، مصنف، اینکر پرسنز، ادیب، شاعر، تجزیہ نگار سب ہی الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں آکر متوسط طبقے کی بدحالی کی بات کرتے ہیں۔

یہ درست ہے کہ متوسط طبقہ بھی مہنگائی کی پریشانیوں سے دوچار ہوتا ہے۔ مگر سب سے زیادہ متاثر محنت کش طبقہ، بے زمین کسان، مل فیکٹریوں کے مزدور، جھگیوں اور غار نما گھروں میں بسنے والے انسان ہوتے ہیں۔ مگر ہمارے تجزیہ نگار اور لکھاری مزدور طبقہ، بے زمین کسان کا نام تک نہیں لیتے۔ درحقیقت متوسط طبقے کی تین پرتیں ہوتی ہیں۔ نچلا متوسط طبقہ، منجھلا متوسط طبقہ اور بالا متوسط طبقہ۔ کبھی کبھی تجزیہ نگار نچلے متوسط طبقہ کا تذکرہ تو کر دیتے ہیں مگر بھولے سے بھی مزدور طبقہ (محنت کش طبقے) کا نام نہیں لیتے۔ جب کہ یہ سب سے زیادہ متاثر ہے اور پاکستان میں ان میں بھٹہ مزدور، پاور لومز کے مزدور، کھیت مزدور، ہوزری اور گارمنٹ مزدور، ٹیکسٹائل مزدور، صابن اور شیشہ بنانے والے مزدور، سیکیورٹی گارڈز، ریٹائرڈ فوجی سپاہی، پولیس سپاہی، پٹرول پمپ پر کام کرنے والے مزدور، کوریئر سروس کے مزدور، ترسیلات پہنچانے والے مزدور ہوٹلوں اور شادی ہالوں میں کام کرنے والے مزدور ہیں۔

ان کا ایک بڑا مسئلہ ای او بی آئی کا ہے جو متذکرہ مزدوروں میں سے بیشتر کو نہیں ملتا ۔ اور جن کو ملتا ہے وہ انتہائی تکلیف دہ صورتحال سے دوچار ہیں۔ ایمپلائیز اولڈ ایج بینفٹس جوکہ صنعتی مزدوروں کو پنشن 60 سال عمر پوری ہونے پر دینے کے لیے بنایا گیا ہے جس کی کارکردگی کچھ عرصہ پہلے تسلی بخش تھی لیکن اب نہایت مایوس کن ہے۔ پہلے جب کسی مزدور کی عمر 60 سال کو پہنچ جاتی اور وہ ریٹائرڈ ہو جاتا تھا تو اس کے کاغذات ای او بی آئی میں جمع کرنے پر تقریباً دو ماہ کے اندر اندر اس مزدور کو پنشن کی کاپی مل جاتی تھی۔ لیکن موجودہ وقت میں مزدوروں کے ساتھ سخت ناانصافی جاری ہے حالانکہ حکومت انصاف والوں کی ہے پھر بھی بے انصافی ہو رہی ہے۔ اب جب مزدور اپنی پنشن کلیم کے کاغذات جو کہ اداروں سے بنا کر دستخط کرانے کے لیے چکر پر چکر کاٹتے ہوئے لوگ ای او بی آئی آفس میں جمع کراتے ہیں تو تقریباً ایک سال کا وقفہ اے ٹی ایم کارڈ ملنے اور کارروائی مکمل ہونے پر لگ جاتا ہے۔

آخر یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ایک مزدور ریٹائرڈ ہو جائے اس کی تنخواہ ختم ہو جاتی ہے دوسری مراعات بھی بند ہو جاتی ہیں اور وہ بے چارہ پنشن کے انتظار میں پورے سال تک ای او بی آئی کے دفتروں کا چکر کاٹتا رہتا ہے اور کرایہ خرچ کرتا ہے۔ انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ اس کو ایک ماہ کے اندر پنشن کارڈ جاری ہو جائے اور وہ اپنے اہل و عیال کے لیے ماہانہ پنشن پر کچھ ضروریات پوری کریں لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہوتا ہے۔ بعض علاقوں میں ای او بی آئی میں جب کاغذات جمع کیے جاتے ہیں تو وہ بابو صاحب مزدوروں کو کہتے ہیں کہ تین ماہ بعد معلومات کر لیں اور پھر فائل وہ جس الماری میں رکھ دیتا ہے وہ تین ماہ تک وہاں پڑی رہتی ہے۔ تین ماہ بعد جب مزدور جاتا ہے تو اس کو بتایا جاتا ہے کہ صاحب نہیں آیا ہے، وہ جب آجائیں تو پھر دستخط کروا لیں گے، ہفتہ بعد معلوم کر لیں۔ ایک ہفتہ بعد پھر جب مزدور جاتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ صاحب عدالت میں پیشی پر گیا ہے تم تین چار دن بعد آجاؤ۔ اس طرح پتا نہیں کتنی بار آنا جانا ہوتا ہے۔

اور جب فائل اور کاغذات پر دستخط ہو جائیں تب کاغذات دوسرے دفتر میں پہنچا دیتے ہیں تو پھر وہاں پر تقریباً 6 ماہ سے ایک سال تک لگ جاتا ہے۔ اگر اس دوران یہ مزدور خدانخواستہ فوت ہوجائے تو پھر کیا ہو گا، کم ازکم اس مزدور کا تو خیال کرنا چاہیے۔ ایک ریٹایرڈ مزدور کا انتقال ہو گیا تھا اس کی پنشن اس کی بیوی کو ٹرانسفر کرنا تھی جوکہ صرف فارم پر کر کے گزیٹڈ افسر سے دستخط کروا کے ڈیتھ سرٹیفکیٹ لگا کر دفتر میں جمع کرانا اور اس کو کاپی ایشو کرنا ہوتا ہے۔ لیکن اس ٹرانسفر پر بھی پورے 15 ماہ لگ گئے۔ مزدوروں کا انصاف والوں سے یہ مطالبہ ہے کہ ای او بی آئی محکمے کی کارکردگی کو بہتر بنائیں اور مزدوروں کی پنشن کی ادائیگی میں تاخیری حربے استعمال کرنا چھوڑ دیں۔ پنشن کے لیے مزدوروں کو بہت تنگ کیا جاتا ہے۔ حکومت ادارے کو ٹھیک کر لے۔ 1982 میں اس وقت کے صوبہ سرحد کے گورنر جنرل فضل حق (مرحوم) نے سرحد ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا ایک کارخانہ اس فاؤنڈیشن کو اس بنیاد پر فروخت کیا تھا کہ صوبہ سرحد کے پی کے کے سابقہ فوجیوں کا بھی فاؤنڈیشن پر حق بنتا ہے کہ ان کو روزگار کے مواقع مل جائیں۔

زبیر رحمٰن

بشکریہ ایکسپریس نیوز

بھارت میں تاریخی معاشی گراوٹ

کوئی ایک سال پہلے پانچ اگست 2019ء کو بھارت نے یکطرفہ طور پر جموں و کشمیر کی وہ قانونی حیثیت ختم کر دی جو آرٹیکل 370 کے تحت ریاست کو حاصل تھی، گو کہ اقوام عالم کی طرف سے بظاہر اس بھارتی ’بلنگ‘ کا کوئی خاص نوٹس نہیں لیا گیا لیکن درون خانہ بیرونی دنیا نے اس بھارتی اقدام کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا بلکہ بھارت کے اندر بھی انصاف پسند اور سیکولر حلقوں نے کشمیریوں سے ہونے والی اس زیادتی پر آواز اٹھائی۔ برطانیہ یقیناً یہ سمجھتا ہے کہ مسئلہ کشمیر ہمارا ہی نامکمل ایجنڈا ہے، برطانیہ نے واشگاف الفاظ میں تو بھارت کی مذمت نہیں کی لیکن نامحسوس طریقے سے ایک بڑی معاشی چوٹ بھارت کو ضرور دی ہے مثال کے طور پر 2018ء تک یوکے انڈیا کی تجارت کا مجموعی حجم 10.1 بلین ڈالر تھا جو یکدم 2019ء میں کم ہو کر 8.8 بلین ڈالر ہو گیا۔ اگرچہ پاکستان کے ساتھ بھی یوکے کی تجارت کا حجم 2019ء میں بڑھنے کی بجائے کم ہوا ہے لیکن برطانیہ کے بعض معاشی تھنک ٹینکس اس بات کا واضح اشارہ دے رہے ہیں کہ بھارت کے مذکورہ غیرجمہوری قدم سے کئی ایک کلیدی برطانوی سرمایہ کاروں نے بھارت کے ساتھ بزنس سے ہاتھ کھینچ لیا ہے اور کچھ اسی طرح کی صورتحال امریکہ اور یورپ کے دیگر ممالک کی بھی ہے بلکہ بھارت کے اندر لاتعداد کھرب پتی کمپنیز نے مزید سرمایہ کاری سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا ہے۔ بھارتی حکومت کے خود جاری کردہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جون میں ختم ہونے والی سہ ماہی میں ملک کی معیشت میں تشویشناک حد تک مندی دیکھنے میں آئی ہے جو کہ گزشتہ 24 سال میں معیشت کی بدترین سطح ہے۔ بظاہر تو بھارتی حکومت اس مندی کی وجہ کورونا وائرس اور لاک ڈائون کو قرار دے رہی ہے لیکن مقبوضہ کشمیر میں ہونے والا عدم استحکام بھی اس کی ایک بڑی وجہ بہرحال ضرور ہے۔

اصل بات یہ ہے کہ بھارتی معیشت کورونا وائرس پھوٹنے سے پہلے ہی مندی کا شکار تھی۔ پچھلے دو سال سے ملک میں بیروزگاری کی شرح 45 برسوں میں سب سے زیادہ تھی اور معاشی نمو کی شرح گر کر 4.7 فیصد تک آ چکی تھی۔ ملک میں پیداوار گر رہی تھی اور بینکوں پر قرضوں کا بوجھ بہت بڑھ چکا تھا۔ ایک انڈین تھنک ٹینک کے مطابق صرف ایک مہینے کے لاک ڈائون کی وجہ سے بارہ کروڑ دس لاکھ افراد بیروزگار ہوئے۔ بھارت کے ایک ڈیمو کریٹک تھنک ٹینک نے کہا ہے کہ جب ہماری حکومت کشمیر میں 370 آرٹیکل کو تبدیل کرنے جیسے کاموں میں مصروف ہے دیکھئے کہ بھارت بھر میں معیشت کس طرح گر رہی ہے کہ (1) جیٹ ایئرویز بند ہو چکی ہے (2) ایئر انڈیا کو 7600 کروڑ روپے کا نقصان ہو چکا ہے (3) بھارت سینچرنگم لمیٹڈ (بی ایس این ایل) جو بھارت کی نمبر ون ٹیلی کمیونی کیشن کمپنی ہے اس کی 54000 ملازمتیں ختم ہو چکیں (4) ہندوستان ایروناٹکس (ایچ اے ایل) کے پاس ملازمین کو تنخواہ دینے کے لئے رقم نہیں ہے (5) پوسٹل ڈیپارٹمنٹ کو 15000 کروڑ روپے کا نقصان ہو چکا (6) ملک کی آٹو انڈسٹری تباہ ہو چکی ہے (7) ملک میں دو ملین سے زیادہ گھر جو تیس بڑے شہروں میں بنائے گئے انہیں خریدنے والا کوئی نہیں (8) ایئرسیل ٹیلی کمیونی کیشن کمپنی بینک کرپٹ ہو کر ختم ہو چکی (9) وائڈو کون انڈسٹری لمیٹڈ جس کی کبھی انکم 291 ملین ڈالر تھی (10) ٹیلی کمیونی کیشن کی ایک بڑی کمپنی ’’ٹاٹا ڈوکومو‘‘ بینک کرپٹ ہو کر ختم ہو چکی (11) سیمنٹ، انجینئرنگ کنسٹرکشن، رئیل اسٹیٹ اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ایک بڑی کمپنی بند ہو چکی ہے (12) ’’آئل اینڈ نیچرل گیس کارپوریشن‘‘ جسے بھارتی حکومت نے 1956ء میں قائم کیا تھا اور جس نے ملک بھر میں 11 ہزار کلومیٹر پائپ لائن بچھائی ہے آج تاریخی زوال کا شکار ہے (13) ملک کے 36 بڑے قرضہ لینے والے افراد اور کمپنیز غائب ہو چکی ہیں (14) 2.4 لاکھ کروڑ کے قرضے چند کارپوریٹس کو معاف ہو چکے (15) تمام ملکی بنکس کھربوں کے قرض لے رہے ہیں (16) ملک کا اندرونی قرضہ 500 کھرب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے (17) ریلوے برائے فروخت ہے (18) لال قلعے تک کو کرایہ پر دے دیا گیا اور اس کے ساتھ ساتھ اور بہت سے تاریخی اثاثے (19) بڑی کار کمپنی موروتی کی پروڈکشن نہ ہونے کے برابر ہو چکی ہے کمپنی کی 55 ہزار کروڑ نئی کاریں فیکٹریوں میں کھڑی ہیں ان کا خریدار کوئی نہیں (20) ملک میں گڈز اینڈ سروسز ٹیکس 18 فیصد سے بڑھ کر 28 فیصد ہونے سے کنسٹرکشن انڈسٹری تباہی کا شکار ہے کئی بلڈرز خودکشیاں کر چکے (21) انڈین ڈیفنس ڈیپارٹمنٹ کے ادارے آرڈیننس فیکٹری بورڈ کے پاس اپنے ڈیڑھ لاکھ ملازموں کو تنخواہیں دینے کیلئے پیسے نہیں ہیں (22) 45 سال میں بیروزگاری کی شرح بلند ترین ہے (23) ملک کے تمام بڑے ہوائی اڈے ایڈانی کمپنی کو بیچ دیئے گئے ہیں اور پورے ملک میں ایک معاشی جمود طاری ہے (24) کیفے کافی ڈے ’’سی سی ڈی‘‘ کمپنی جس کے ملک بھر میں 1752 کیفے تھے قرضوں کے بوجھ کی وجہ سے اس کے چیئرمین وی جی سدھارتھ نے خودکشی کر لی۔

اوپر ذکر کئے گئے یہ چند حقائق ہیں جنہیں بھارتی میڈیا منظر عام پر نہیں لا رہا بلکہ بھارتی حکومت اور اثر انداز ہونے والے دیگر ریاستی اداروں کے دبائو میں میڈیا اپنے عوام اور دنیا کے سامنے کشمیر میں ہونے والے گزشتہ ایک سال کے لاک ڈائون سے ہونے والا تقریباً 14 ارب سے زیادہ کا وہ نقصان بھی سامنے نہیں لا رہا جو کشمیریوں اور بھارتی حکومت کو اس لئے مسلسل ہو رہا ہے کیونکہ مقبوضہ کشمیر کے وہ فروٹ جو باغوں میں ہی گل سڑ گئے اور جنہیں اتارنے والا کوئی نہیں، ظاہر ہے کشمیریوں کے ساتھ ساتھ یہ نقصان بھارتی حکومت کا بھی ہے۔

وجاہت علی خان

بشکریہ روزنامہ جنگ