بھارت میں تاریخی معاشی گراوٹ

کوئی ایک سال پہلے پانچ اگست 2019ء کو بھارت نے یکطرفہ طور پر جموں و کشمیر کی وہ قانونی حیثیت ختم کر دی جو آرٹیکل 370 کے تحت ریاست کو حاصل تھی، گو کہ اقوام عالم کی طرف سے بظاہر اس بھارتی ’بلنگ‘ کا کوئی خاص نوٹس نہیں لیا گیا لیکن درون خانہ بیرونی دنیا نے اس بھارتی اقدام کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا بلکہ بھارت کے اندر بھی انصاف پسند اور سیکولر حلقوں نے کشمیریوں سے ہونے والی اس زیادتی پر آواز اٹھائی۔ برطانیہ یقیناً یہ سمجھتا ہے کہ مسئلہ کشمیر ہمارا ہی نامکمل ایجنڈا ہے، برطانیہ نے واشگاف الفاظ میں تو بھارت کی مذمت نہیں کی لیکن نامحسوس طریقے سے ایک بڑی معاشی چوٹ بھارت کو ضرور دی ہے مثال کے طور پر 2018ء تک یوکے انڈیا کی تجارت کا مجموعی حجم 10.1 بلین ڈالر تھا جو یکدم 2019ء میں کم ہو کر 8.8 بلین ڈالر ہو گیا۔ اگرچہ پاکستان کے ساتھ بھی یوکے کی تجارت کا حجم 2019ء میں بڑھنے کی بجائے کم ہوا ہے لیکن برطانیہ کے بعض معاشی تھنک ٹینکس اس بات کا واضح اشارہ دے رہے ہیں کہ بھارت کے مذکورہ غیرجمہوری قدم سے کئی ایک کلیدی برطانوی سرمایہ کاروں نے بھارت کے ساتھ بزنس سے ہاتھ کھینچ لیا ہے اور کچھ اسی طرح کی صورتحال امریکہ اور یورپ کے دیگر ممالک کی بھی ہے بلکہ بھارت کے اندر لاتعداد کھرب پتی کمپنیز نے مزید سرمایہ کاری سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا ہے۔ بھارتی حکومت کے خود جاری کردہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جون میں ختم ہونے والی سہ ماہی میں ملک کی معیشت میں تشویشناک حد تک مندی دیکھنے میں آئی ہے جو کہ گزشتہ 24 سال میں معیشت کی بدترین سطح ہے۔ بظاہر تو بھارتی حکومت اس مندی کی وجہ کورونا وائرس اور لاک ڈائون کو قرار دے رہی ہے لیکن مقبوضہ کشمیر میں ہونے والا عدم استحکام بھی اس کی ایک بڑی وجہ بہرحال ضرور ہے۔

اصل بات یہ ہے کہ بھارتی معیشت کورونا وائرس پھوٹنے سے پہلے ہی مندی کا شکار تھی۔ پچھلے دو سال سے ملک میں بیروزگاری کی شرح 45 برسوں میں سب سے زیادہ تھی اور معاشی نمو کی شرح گر کر 4.7 فیصد تک آ چکی تھی۔ ملک میں پیداوار گر رہی تھی اور بینکوں پر قرضوں کا بوجھ بہت بڑھ چکا تھا۔ ایک انڈین تھنک ٹینک کے مطابق صرف ایک مہینے کے لاک ڈائون کی وجہ سے بارہ کروڑ دس لاکھ افراد بیروزگار ہوئے۔ بھارت کے ایک ڈیمو کریٹک تھنک ٹینک نے کہا ہے کہ جب ہماری حکومت کشمیر میں 370 آرٹیکل کو تبدیل کرنے جیسے کاموں میں مصروف ہے دیکھئے کہ بھارت بھر میں معیشت کس طرح گر رہی ہے کہ (1) جیٹ ایئرویز بند ہو چکی ہے (2) ایئر انڈیا کو 7600 کروڑ روپے کا نقصان ہو چکا ہے (3) بھارت سینچرنگم لمیٹڈ (بی ایس این ایل) جو بھارت کی نمبر ون ٹیلی کمیونی کیشن کمپنی ہے اس کی 54000 ملازمتیں ختم ہو چکیں (4) ہندوستان ایروناٹکس (ایچ اے ایل) کے پاس ملازمین کو تنخواہ دینے کے لئے رقم نہیں ہے (5) پوسٹل ڈیپارٹمنٹ کو 15000 کروڑ روپے کا نقصان ہو چکا (6) ملک کی آٹو انڈسٹری تباہ ہو چکی ہے (7) ملک میں دو ملین سے زیادہ گھر جو تیس بڑے شہروں میں بنائے گئے انہیں خریدنے والا کوئی نہیں (8) ایئرسیل ٹیلی کمیونی کیشن کمپنی بینک کرپٹ ہو کر ختم ہو چکی (9) وائڈو کون انڈسٹری لمیٹڈ جس کی کبھی انکم 291 ملین ڈالر تھی (10) ٹیلی کمیونی کیشن کی ایک بڑی کمپنی ’’ٹاٹا ڈوکومو‘‘ بینک کرپٹ ہو کر ختم ہو چکی (11) سیمنٹ، انجینئرنگ کنسٹرکشن، رئیل اسٹیٹ اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ایک بڑی کمپنی بند ہو چکی ہے (12) ’’آئل اینڈ نیچرل گیس کارپوریشن‘‘ جسے بھارتی حکومت نے 1956ء میں قائم کیا تھا اور جس نے ملک بھر میں 11 ہزار کلومیٹر پائپ لائن بچھائی ہے آج تاریخی زوال کا شکار ہے (13) ملک کے 36 بڑے قرضہ لینے والے افراد اور کمپنیز غائب ہو چکی ہیں (14) 2.4 لاکھ کروڑ کے قرضے چند کارپوریٹس کو معاف ہو چکے (15) تمام ملکی بنکس کھربوں کے قرض لے رہے ہیں (16) ملک کا اندرونی قرضہ 500 کھرب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے (17) ریلوے برائے فروخت ہے (18) لال قلعے تک کو کرایہ پر دے دیا گیا اور اس کے ساتھ ساتھ اور بہت سے تاریخی اثاثے (19) بڑی کار کمپنی موروتی کی پروڈکشن نہ ہونے کے برابر ہو چکی ہے کمپنی کی 55 ہزار کروڑ نئی کاریں فیکٹریوں میں کھڑی ہیں ان کا خریدار کوئی نہیں (20) ملک میں گڈز اینڈ سروسز ٹیکس 18 فیصد سے بڑھ کر 28 فیصد ہونے سے کنسٹرکشن انڈسٹری تباہی کا شکار ہے کئی بلڈرز خودکشیاں کر چکے (21) انڈین ڈیفنس ڈیپارٹمنٹ کے ادارے آرڈیننس فیکٹری بورڈ کے پاس اپنے ڈیڑھ لاکھ ملازموں کو تنخواہیں دینے کیلئے پیسے نہیں ہیں (22) 45 سال میں بیروزگاری کی شرح بلند ترین ہے (23) ملک کے تمام بڑے ہوائی اڈے ایڈانی کمپنی کو بیچ دیئے گئے ہیں اور پورے ملک میں ایک معاشی جمود طاری ہے (24) کیفے کافی ڈے ’’سی سی ڈی‘‘ کمپنی جس کے ملک بھر میں 1752 کیفے تھے قرضوں کے بوجھ کی وجہ سے اس کے چیئرمین وی جی سدھارتھ نے خودکشی کر لی۔

اوپر ذکر کئے گئے یہ چند حقائق ہیں جنہیں بھارتی میڈیا منظر عام پر نہیں لا رہا بلکہ بھارتی حکومت اور اثر انداز ہونے والے دیگر ریاستی اداروں کے دبائو میں میڈیا اپنے عوام اور دنیا کے سامنے کشمیر میں ہونے والے گزشتہ ایک سال کے لاک ڈائون سے ہونے والا تقریباً 14 ارب سے زیادہ کا وہ نقصان بھی سامنے نہیں لا رہا جو کشمیریوں اور بھارتی حکومت کو اس لئے مسلسل ہو رہا ہے کیونکہ مقبوضہ کشمیر کے وہ فروٹ جو باغوں میں ہی گل سڑ گئے اور جنہیں اتارنے والا کوئی نہیں، ظاہر ہے کشمیریوں کے ساتھ ساتھ یہ نقصان بھارتی حکومت کا بھی ہے۔

وجاہت علی خان

بشکریہ روزنامہ جنگ
 

Farmers’ suicides in India

India. In 2014, the National Crime Records Bureau of India reported 5,650 farmer suicides. The highest number of farmer suicides were recorded in 2004 when 18,241 farmers committed suicide. The farmers suicide rate in India has ranged between 1.4 and 1.8 per 100,000 total population, over a 10-year period through 2005. India is an agrarian country with around 70% of its people depending directly or indirectly upon agriculture. Farmer suicides account for 11.2% of all suicides in India. Activists and scholars have offered a number of conflicting reasons for farmer suicides, such as monsoon failure, high debt burdens, government policies, public mental health, personal issues and family problems. There are also accusation of states manipulating the data on farmer suicides.

Historical records relating to frustration, revolts and high mortality rates among farmers in India, particularly cash crop farmers, date back to the 19th century. However, suicides due to the same were rare. The high land taxes of 1870s, payable in cash regardless of the effects of frequent famines on farm output or productivity, combined with colonial protection of usury, money lenders and landowner rights, contributed to widespread penury and frustration among cotton and other farmers, ultimately leading to the Deccan Riots of 1875-1877. The British government enacted the Deccan Agriculturists’ Relief Act in 1879, to limit the interest rate charged by money lenders to Deccan cotton farmers, but applied it selectively to areas that served British cotton trading interests. Rural mortality rates, in predominantly agrarian British India, were very high between 1850 and the 1940s. However, starvation related deaths far exceeded those by suicide, the latter being officially classified under “injuries”. The death rate classified under “injuries”, in 1897, was 79 per 100,000 people in Central Provinces of India and 37 per 100,000 people in Bombay Presidency.

 

Ganapathi and Venkoba Rao analyzed suicides in parts of Tamil Nadu in 1966. They recommended that the distribution of agricultural organo-phosphorus compounds be restricted. Similarly, Nandi et al. in 1979 noted the role of freely available agricultural insecticides in suicides in rural West Bengal and suggested that their availability be regulated. Hegde studied rural suicides in villages of northern Karnataka over 1962 to 1970, and stated the suicide incidence rate to be 5.7 per 100,000 population. Reddy, in 1993, reviewed high rates of farmer suicides in Andhra Pradesh and its relationship to farm size and productivity. Reporting in popular press about farmers’ suicides in India began in mid-1990s, particularly by Palagummi Sainath. In the 2000s, the issue gained international attention and a variety of Indian government initiatives. National Crime Records Bureau, an office of the Ministry of Home Affairs Government of India, has been collecting and publishing suicide statistics for India since the 1950s, as annual Accidental Deaths & Suicides in India reports. It started separately collecting and publishing farmers suicide statistics from 1995.
As of 2017, farmer suicides have occurred in large numbers in Maharashtra, Andhra Pradesh, Telengana, Tamil Nadu, Karnataka, Madhya Pradesh, Bihar, Uttar Pradesh, Chhattisgarh, Orissa and Jharkhand. Tamma Carleton, a researcher at the University of California at Berkeley, compared suicide and climate data, concluding that climate change in India may have “a strong influence” on suicides during the growing season, triggering more than 59,000 suicides in 30 years. More than 23,000 farmers have committed suicide in the state of Maharashtra between 2009 and 2016.
Various reasons have been offered to explain why farmers commit suicide in India, including: floods, drought, debt, use of genetically modified seed, public health, use of lower quantity pesticides due to less investments producing a decreased yield. There is no consensus on what the main causes might be but studies show suicide victims are motivated by more than one cause, on average three or more causes for committing suicide. Panagariya states, “farm-related reasons get cited only approximately 25 percent of the time as reasons for suicide” and “studies do consistently show greater debt burden and greater reliance on informal sources of credit” amongst farmers who commit suicide. A study conducted in 2014, found that there are three specific characteristics associated with high-risk farmers: “those that grow cash crops such as coffee and cotton; those with ‘marginal’ farms of less than one hectare; and those with debts of 300 Rupees or more.” The study also found that the Indian states in which these three characteristics are most common had the highest suicide rates and also accounted for “almost 75% of the variability in state-level suicides.
A 2012 study, did a regional survey on farmers suicide in rural Vidarbha (Maharashtra) and applied a Smith’s Saliency method to qualitatively rank the expressed causes among farming families who had lost someone to suicide. The expressed reasons in order of importance behind farmer suicides were – debt, alcohol addiction, environment, low produce prices, stress and family responsibilities, apathy, poor irrigation, increased cost of cultivation, private money lenders, use of chemical fertilizers and crop failure. In other words, debt to stress and family responsibilities were rated as significantly higher than fertilizers and crop failure. In a different study in the same region in 2006, indebtedness (87%) and deterioration in the economic status (74%) were found to be major risk factors for suicide.
Studies dated 2004 through 2006, identified several causes for farmers suicide, such as insufficient or risky credit systems, the difficulty of farming semi-arid regions, poor agricultural income, absence of alternative income opportunities, a downturn in the urban economy which forced non-farmers into farming, and the absence of suitable counselling services. In 2004, in response to a request from the All India Biodynamic and Organic Farming Association, the Mumbai High Court required the Tata Institute to produce a report on farmer suicides in Maharashtra, and the institute submitted its report in March 2005. The survey cited “government’s lack of interest, the absence of a safety net for farmers, and lack of access to information related to agriculture as the chief causes for the desperate condition of farmers in the state.” An Indian study conducted in 2002, indicated an association between victims engaging in entrepreneurial activities (such as venturing into new crops, cash crops, and following market trends) and their failure in meeting expected goals due to a range of constraints.

بھارت میں ہزاروں بچے اسکول جانے کے بجائے جوتے بنانے پر مجبور

بھارت کے نامور سیاحتی شہر آگرہ میں ہزاروں بچے اسکول جانے کے بجائے جوتے بنانے والی فیکڑیوں میں ہر روز کئی کئی گھنٹے انتہائی مشکل حالات میں کام کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ جوتے ان بچوں کی محنت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ تاج محل کے شہر آگرہ میں ہر سال جوتوں کے لگ بھگ دو سو ملین جوڑے بنائے جاتے ہیں۔ جوتوں کی فیکڑیوں میں شہر کی آبادی کا قریب ایک چوتھائی حصہ ملازمت کرتا ہے۔ تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق اس شہر میں جوتے بنانے کے بہت سے کارخانے ایسے ہیں جو گھروں میں قائم ہیں یا پھر غیر سرکاری طور پر چلائے جا رہے ہیں۔ ان میں چھوٹے بچے ہاتھ اور مشین سے جوتوں کی سلائیاں کرتے ہیں اور اس کے علاوہ جوتوں کی پیکنگ بھی کرتے ہیں۔

ایک غیر سرکاری تنظیم ایم وی فاؤنڈیشن کے رکن وین کاٹ ریڈی کا کہنا ہے،’’ ان بچوں کے لیے اسکولوں کی سہولت ہی موجود نہیں جو ان بچوں کی ملازمت کرنے کی ایک بڑی وجہ ہے۔‘‘ ریڈی کا کہنا ہے کہ ہمیں تحقیق سے یہ پتا چلا کہ بچوں کے کام کرنے کے اوقات کا تعین نہیں کیا گیا ہے۔ ان میں سے اکثر گھروں میں قائم کارخانوں میں کام کرتے ہیں۔ یہ بچے کام کے دوران آرام کا وقفہ بھی نہیں لیتے کیوں کہ انہیں جوتے کے ہر جوڑے کی تیاری کے حساب سے پیسے دیے جاتے ہیں۔ ریڈی نے مزید بتایا،’’ ان بچوں کے پاس کھیل کے لیے وقت نہیں۔ یہ چھوٹے گروپوں میں انتہائی چھوٹے اور بغیر کھڑکیوں والے کمروں میں کام کرتے ہیں۔‘‘

ایک سروے کے مطابق جوتوں کی فیکٹریوں میں کام کرنے والے بچوں کا صرف نصف اسکول جاتا ہے۔ بھارت دنیا میں دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ جوتے اور چمڑے کی مصنوعات بنانے والا ملک ہے۔ اس جنوبی ایشائی ملک کی جوتوں کی برآمدات کا نوے فیصد یورپ بھیجا جاتا ہے۔ ’انڈیا کمیٹی آف دی نیدر لینڈز‘ نامی ایک تنظیم کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت کی چمڑے کی صنعت میں لگ بھگ ڈھائی لاکھ افراد انتہائی کم اجرت کے ساتھ مضر صحت ماحول میں کام کرنے پر مجبور ہیں۔

’فیئر لیبر ایسوسی ایشن‘ نامی تنظیم کی ایک تحقیق کے مطابق آگرہ کی کچھ فیکٹریوں نے جو اپنا مال بیرون ملک برآمد کرتی ہیں، بچوں سے کام لینے کے خلاف اقدامات اٹھائے ہیں۔ تاہم ان میں سے بہت سی بڑی کمپنیاں چھوٹے کارخانوں کے ساتھ کاروبار کرتی ہیں جہاں زیادہ تر بچے ہی جوتے بنانے کا کام کرتے ہیں۔ ’سٹاپ چائلڈ لیبر کولیشن‘ کی سوفی اووا کا کہنا ہے کہ آمدنی میں بہتری، کمیونٹی کی جانب سے بچوں سے کام کرانے کے عمل کی حوصلہ شکنی اور قواعد و ضوابط میں تبدیلی سے ممکن ہے کہ بچوں کے حقوق کی پامالی کو روکا جا سکے۔

بشکریہ DW اردو

کیا بھارت کی معیشت تیزی سے زوال پذیر ہے ؟

چین اور جاپان کے بعد بھارت ایشیا کی سب سے بڑی معیشت تھا لیکن اب دنیا بھر کا میڈیا اس کی کمزور ہوتی معیشت کا ذکر کر رہا ہے۔ 2014 میں جب اقتدار بدلا اور نریندر مودی نے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی تو امید کی جا رہی تھی کہ اب معیشت کی ترقی کی رفتار تیز ہو گی۔ 2016 میں معیشت میں تقریباً سات فیصد کی شرح سے اضافہ ہوا لیکن آج کی تاریخ میں یہی معیشت چار سال میں اب تک کی سب سے نچلی سطح پر پہنچ گئی ہے۔ اب حکومت فکر مند ہے اور حزبِ اختلاف بھی جم کر حکومت کو نشانہ بنا رہی ہے۔ مودی حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی جس فائنینشل ایڈوائزری کمیٹی کو تحلیل کر دیا تھا اب بحال کر دیا ہے۔ مودی حکومت کے اس یوٹرن سے ظاہر ہے کہ وہ گرتی معیشت سے فکر مند ہیں۔ مودی حکومت کی اقتصادی پالیسیوں پر نہ صرف حزبِ اختلاف میں بلکہ پارٹی کے اندر بھی سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ اٹل بہاری واجپائی کی حکومت میں وزیز خزانہ رہنے والے یشونت سنہا نے الزام عائد کیا ہے کہ بی جے پی حکومت نے ملک کی معیشت کو برباد کر دیا۔

مودی حکومت کی جانب سے نوٹ بندی کے فیصلے کی ہر طرف تنقید ہو رہی ہے۔ پارٹی کے اہم رہنما یشونت سنہا کے ساتھ ساتھ بی جے پی کی اتحادی جماعت شو سینا نے بھی نوٹ بندی کی تنقید کی ہے۔ ریاست آندھر پردیش کے وزیر اعلیٰ چندرا بابو نائیڈو نے بھی کہا ہے کہ جی ڈی پی میں گراوٹ ، نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کی وجہ سے ہے۔ بھارت کی معیشت میں آنے والی مندی اور اس سے نپٹنے میں ناکامی کی خبریں چینی میڈیا میں بھی آ رہی ہیں۔ چین کی سرکاری اخبار ‘گلوبل ٹائمز’ نے مودی حکومت کے مبینہ دوہرے رویے کی سخت تنقید کی ہے۔ اخبار کا کہنا ہے کہ ‘مودی کے قول و فعل میں بڑا تضاد ہے’۔

اس سے پہلے جون 24 کو ‘دی اکانومسٹ’ نے مودی کی اقتصادی پالیسیوں کی سخت نکتہ چینی کرتے ہوئے لکھا تھا کہ مودی خود کو جتنے بڑے اصلاح کار دکھاتے ہیں اتنے ہیں نہیں۔ روزنامہ ‘فورچیون’ لکھتا ہے کہ بی جے پی کے دماغ میں کونسی معیشت ہے اس کا اندازہ لگانا آسان نہیں ہے۔ فورچیون نے سابق وزیرِ خزانہ یشونت سنہا کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یشونت سنہا نے 2004 میں بی جے پی کی شکست کا ذمہ داری قبول کی تھی ان کا کہنا تھا کہ پارٹی کی ہار کے لیے خود خود کو ذمہ دار سمجھتے ہیں۔

یشونت سنہا کے ایک بیان کو اخبار نے اس طرح لکھا کہ ‘میں نے بطور وزیرِ خزانہ مٹی کے تیل کی قیمت میں اضافہ کیا تھا۔ پورے بھارت کے دیہی علاقوں میں کیروسن کھانا پکانے اور روشنی کے لیے استعمال ہوتا ہے اور ان کے اس فیصلے سے لاکھوں دیہی لوگوں کی زندگی متاثر ہوئی تھی۔ بی جہ پی کی حکومت مہنگائی اور خاص طور پر پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے تنقید کا شکار ہے۔ یشونت سنہا کا کہنا ہے کہ مودی حکومت نے نولاٹ بندی کر کے ملک کی معیشت کو گہری چوٹ پہنچائی ہے۔ اس کے علاوہ حزبِ اختلاف کے مطابق مودی حکومت نے جو روزگار کے مواقع پیدا کرنے کا وعدہ کیا تھا اس میں بھی بری طرح ناکام رہی ہے۔

جب پارلیمان میں نوٹ بندی پر بحث ہو رہی تھی تو منموہن سنگھ نے کہا تھا کہ ملک کی معیشت میں کم سے کم دو فیصد کی گراوٹ آئے گی اور اج بلکل ویسا ہی ہوا ہے۔ حکومت کا یہ اندازہ غلط ثابت ہوا اور منموہن سنگھ صحیح ثابت ہوئے۔ مودی حکومت کی جاب سے جس طرح جی ایس ٹی کو نافذ کیا گیا اس پر بھی سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ ابتدا میں جی ایس ٹی پر کافی کنفیوژن تھا۔ تاجروں کا کہنا ہے کہ بھاری ٹیکس شرح کے سبب اس سے فائدہ نہیں نقصان ہی ہو گا۔ ‘بلوم برگ’ نے لکھا ہے کہ بھارت کی کرنسی اور بانڈ مارکیٹ پر پریشانی کے بادل منڈلا رہے ہیں، غیر ملکی بازار سے اپنا پیسہ واپس نکال رہے ہیں اور انڈین بازار پر لوگوں کا بھروسہ کم ہو رہا ہے اور اس سے معیشت میں مزید گراوٹ کا اندیشہ ہے اور آنے والے وقت میں روپیہ ڈالر کے مقابلے مزید کمزور ہو سکتا ہے۔

بشکریہ بی بی سی اردو