ہم اور ہمارے تیسرے درجے کے خواب

جب مراکش کی ٹیم پرتگال کو ہرا کے عالمی فٹ بال کپ کی بانوے برس کی تاریخ میں سیمی فائنل میں پہنچنے والی پہلی عرب مسلم افریقی ٹیم قرار پائی تو اس ٹیم کے کھلاڑیوں کی گفتگو سے ہی اندازہ ہو گیا کہ یہ کام کیسے ہو گیا۔ ’’ ہمیں اپنی ذہنیت بدلنا ہو گی۔ کمتری کا خیال دل سے نکالنا ہو گا۔ یہ یقین کرنا ہو گا کہ مراکش کی ٹیم دنیا میں کسی کا بھی مقابلہ کر سکتی ہے۔ تب ہماری نسلیں بھی یقین کرنے لگیں گی کہ مراکشی بھی معجزے دکھا سکتے ہیں۔ آیندہ جو بھی ہمارا مدِمقابل ہو گا اسے ہمیں ہرانے کے لیے بہت محنت کرنا ہو گی ‘‘ ( گول کیپر یاسین بونو ) ’’ ٹورنامنٹ سے پہلے مجھ سے پوچھا گیا کہ آپ ورلڈ کپ جیت سکتے ہیں ؟ میں نے کہا کیوں نہیں۔ کیا ہمیں خواب دیکھنے کی اجازت نہیں ؟ آپ خواب دیکھتے ہیں تب ہی تو ان کی تعبیر تک پہنچتے ہیں۔ ویسے بھی خواب بے دام ہیں۔ کوئی بھی دیکھ سکتا ہے اور انھیں جیت سکتا ہے۔ یورپی ٹیموں کو ورلڈ کپ جیتنے کی عادت ہو گئی ہے۔ اب ہمیں بھی اس مقام تک پہنچنا ہے‘‘ ( مراکشی کوچ رگراگی )۔

کچھ نہیں معلوم کہ مراکش فائنل میں پہنچتا ہے کہ نہیں مگر کیا فرق پڑتا ہے۔ مراکش ایک مثالیہ تو بن ہی گیا ہے ان تمام اقوام کے لیے جن کا یقین صدیوں پر پھیلے احساسِ کمتری نے چرا لیا۔ جن کے جینز سے امنگوں کا ست نکال لیا گیا۔ جنھیں بہترین ماتحت کا خطاب دے دے کے ثانوی عظمت پر ہی قناعت کرنے کی عادت ڈال دی گئی۔ جن سے محض یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ اچھے بچے بن کے رہیں۔ خود ساختہ اعلیٰ نسلوں اور نام نہاد نجیب الطرفینوں کی خوشنودی حاصل کرنے کی سعی میں عمریں اور نسلیں کھپا کے تعریف کے چند سکوں کے حصول کو ہی مکمل کامیابی جانیں اور یہ چند سکے اچھالنے والے کے پہلے سے زیادہ وفادار ثابت ہوں۔ مراکش کی جیت کا سب سے زیادہ جشن مراکش کے بعد غزہ اور مغربی کنارے پر منایا گیا۔ پورا افریقہ ناچ رہا ہے۔ عرب پنجوں پر کھڑے ہیں۔ پاکستانی خوش ہیں۔ کرد ہارن بجا رہے ہیں۔ ان سب کا اس جیت سے بظاہر کیا تعلق ؟

مگر محرومیاں ، ٹھونسا گیا احساسِ کمتری ، نوآبادیاتی ذلت ، کچھ ثابت کرنے کی امنگ اور ’’ میں بھی تو ہوں ‘‘ ثابت کرنے کی وجودی خواہش تو سانجھی ہے۔ یہی سانجھ پن تو خودساختہ بانجھ پن پر غالب آنے کی شعوری و لاشعوری جدوجہد کر رہا ہے اور یہی جدوجہد ’’ ہم نہیں تو ہمارا بھائی ہی صحیح ‘‘ کے مشترک احساس کو خوشی کی کٹھالی میں ڈھال کر چہرے تمتما رہی ہے۔ یہ ورلڈ کپ اٹھارہ دسمبر کو ختم ہو جائے گا۔ ٹیمیں اور شائقین گھروں کو لوٹ جائیں گے۔ دنیا اپنے ڈھرے پر پھر واپس آ جائے گی۔ مگر شاید نہیں۔ ایسے ہر واقعہ کے بعد ڈھرا ایک سنٹی میٹر ضرور ادھر سے ادھر ہوتا ہے اور یوں تاریخ بھی کم ازکم ایک سنٹی میٹر اور آگے بڑھ جاتی ہے۔ اس ٹورنامنٹ نے سب سے زیادہ حوصلہ فلسطینیوں کو دیا ہے۔حالانکہ فلسطینی یا اسرائیل کی ٹیم اس ٹورنامنٹ کا حصہ نہیں تھی۔ پھر بھی دونوں جانب کے شائقین قطر پہنچے۔ حکومتیں جتنی بھی منافق ہوں مگر عام آدمی کم ہی اس منافقت کا حصہ بنتا ہے۔ لہٰذا کئی کھلاڑیوں اور بہت سے مغربی شائقین نے فلسطینیوں کو درپیش مسائل پر کیمرے کے سامنے کھل کے بات کی۔

مراکش کے ایک کھلاڑی نے تو کوارٹر فائنل جیتنے کے بعد فلسطینی پرچم لپیٹ کر اسٹیڈیم میں دوڑ لگائی۔ متعدد اسرائیلی چینلز کی میڈیا ٹیمیں بھی میچوں کے کوریج کے لیے موجود ہیں۔ مگر تقریباً ہر عرب شائق نے ان سے بات کرنے سے انکار کر دیا اور بہت سے مغربی باشندوں نے کیمرے کے سامنے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے یہ سوال بھی کیا کہ تم لوگ فلسطینیوں کی جان کب چھوڑو گے ؟ اس اعتبار سے یہ ٹورنامنٹ فلسطینی کاز کو عام کرنے کے لیے بھی خاصا سودمند رہا۔ اسٹیڈیم کے اندر اور آس پاس نشہ آور مشروبات پر پابندی تھی۔ اس پر بعض مغربی ذرایع ابلاغ میں خاصی لے دے بھی ہوئی۔ مگر اس پابندی کا فائدہ یہ ہوا کہ ہارنے والی ٹیموں کے شائقین نشے کی آڑ میں غل غپاڑہ اور توڑ پھوڑ کرنے کی سہولت سے محروم ہو گئے۔ نعرے بازی کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی گروہ کرتا ضرور پایا گیا مگر لا اینڈ آرڈر کی مجموعی صورتِ حال قابو میں رہی اور اس کا اعتراف مغربی ذرایع ابلاغ کو بھی کرنا پڑا۔

بات شروع ہوئی تھی کہ مراکشی کوچ کے بقول خواب دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں۔اور خواب ہی وہ ڈرائنگ بورڈ ہے جس پر تعبیر کی عمارت کا نقشہ بنتا ہے اور پھر احساسِ کمتری کو ایک جانب رکھ کے لگن اور محنت وہ دن دکھاتی ہے جسے ہم اپنی آسانی کے لیے معجزہ کہہ لیتے ہیں۔ خود ہماری تاریخ بھی ایسے ’’ معجزوں ’’ سے عبارت ہے۔ یہ ملک بھی پلیٹ میں نہیں ملا تھا۔ اس کے لیے بہت پاپڑ بیلنے پڑے تھے۔ لیکن پھر اس معجزے سے ذیلی معجزے پھوٹنے نہیں دیے گئے۔اجتماعی جوش و خروش سے پیدا ہونے والی انرجی ذاتی و طبقاتی مقاصد کے حصول کے لیے ٹھنڈی ہونے دی گئی۔ ورنہ سن چالیس اور پچاس کے عشرے کے اجتماعی جوش اور حوصلے کو مشترکہ ترقی کی ٹرین کا انجن بھی بنایا جا سکتا تھا یہ خواب سے جنم لینے والی لگن ہی تو تھی کہ ملک کی پیدائش کے صرف پندرہ برس بعد پی آئی اے کا شمار دنیا کی دس بہترین ایرلائنز میں ہونے لگا۔

کھیلوں کے میدان میں جب وسائل کے پر لگا کے خوابوں کو پرواز کے لیے کھلا آسمان مہیا ہوا تو دیکھ لیجیے پاکستان نے برس ہا برس ہاکی، اسکواش اور کرکٹ میں کیسے کیسے جھنڈے گاڑے اور بیک وقت کتنے تاج سر پے رکھے۔ یہ جو قطر سمیت مختلف خلیجی ریاستوں میں لاکھوں پاکستانی ریگستان میں عمارتیں اٹھا رہے ہیں۔ یہ بھی تو کچھ خواب لے کر ہی ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے تھے۔ مغربی ممالک کی کلیدی کمپنیوں میں جو ہزاروں پاکستانی اچھے عہدوں پر پہنچے ان کے خوابوں کو اگر گورنننس کا ڈھانچہ مقامی سطح پر کشید کرنے کے قابل ہوتا تو کاہے کو اپنا گھر چھوڑتے۔ ہمارے پاس آج اس کے سوا فخر کرنے کو بچا کیا ہے کہ جنوبی کوریا اور تائیوان اور سنگاپور کی فی کس آمدنی انیس سو ساٹھ کے عشرے میں پاکستان سے کم تھی اور سو سے زائد ممالک میں پاکستانیوں کی ویزا فری انٹری تھی۔ اور ٹائم میگزین کے ٹائٹل پیج پر پاکستان کا نقشہ چھپا تھا جس میں یہ پیش گوئی تھی کہ یہ ملک اگلے بیس برس میں ایک ٹھوس ایشیائی معاشی طاقت ہو گی۔

مگر یہ انیس سو پینسٹھ کی جنگ سے پہلے کی بات ہے۔ کیا ہوا پھر۔ وہی لوگ ہیں ، وہی زمین ہے۔ ہاں نیت میں کھوٹ آ گیا۔ اس قیمتی پلاٹ پر اپنا گھر بنانے کے بجائے پارکنگ لاٹ میں بدل دیا گیا اور اس پارکنگ لاٹ سے آنے والا کرایہ اوپر ہی اوپر بٹتا چلا گیا۔ یوں عام آدمی نے اپنا اعتبار سستے داموں بیچ ڈالا۔ اب نہ خواب گر ہیں نہ تعبیر ساز۔ البتہ ہر جانب خواب فروش گھوم رہے ہیں مگر ان کے پاس بھی بیچنے کو تیسرے درجے کے ہی خواب ہیں۔

وسعت اللہ خان

بشکریہ ایکسپریس نیوز

رمیز راجہ اور پاکستانی کرکٹ

عمران خان اقتدار میں آئے تو قومی مسائل کے انبار اور اُن کی اپنی حکومتی ٹیم کی ’’پرفارمنس‘‘ نے انھیں خاصا پریشان کر دیا، معاشی، خارجہ ، دفاع اور داخلہ وغیرہ کی ٹیمیں بنانے میں انھیں خاصا وقت لگ گیا۔ شاید تبھی حکومت کے پہلے تین سال میں اُن کی نظروں سے کئی شعبے اوجھل رہے اور وزیراعظم چونکہ کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان تھے۔ اس لیے سب نے سوچا کہ اب ملک میں آؤٹ ڈور گیمز کا طوفان آجائے گا، مگر ایسا کچھ نہ ہو سکا، کیوں کہ انھیں کھیلوں کے حوالے سے طویل منصوبہ بندی بنانے کا موقع ہی نہ مل سکا۔ اب جب کہ 3 سال بعد حالات نسبتاََ نارمل ہو چکے ہیں، تو وزیراعظم آہستہ آہستہ دیگر شعبوں کی طرف بھی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ تبھی انھوں نے پی سی بی کا چیئرمین احسان مانی جیسے تجربہ کار ایگزیکٹو کے بعد سابق کرکٹر اور بین الاقوامی شہرت یافتہ کمنٹیٹر رمیز راجہ کو لگانے کا فیصلہ کیا ہے، وہ 13 ستمبر کو موجودہ چیئرمین احسان مانی کا دور مکمل ہونے کے بعد باقاعدہ عہدہ سنبھال لیںگے۔

لیکن اُن کے آنے سے پہلے ہی کرکٹ بورڈ اور پاکستانی کرکٹ میں خاصی ہلچل دیکھنے کو مل رہی ہے۔ یہ شاید اچھا شگن بھی ہے کیوں کہ کبھی کبھی جمود توڑنے کے لیے ہلچل پیدا کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ خیر اگر رمیز راجہ کے بارے میں بات کریں تو وہ کرکٹ بورڈ کے 35ویں چیئرمین ہوں گے، وہ یقینا بورڈ کے انتظامی ڈھانچے سے واقفیت رکھتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ وہ جنرل توقیر ضیا دور کے ابتدائی دنوں میں ایڈوائزری کونسل کا حصہ رہے اور بعدازاں اپریل 2003 میں اس وقت پی سی بی کے چیف ایگزیکیٹو افسر بنا دیے گئے تھے لیکن بدقسمتی سے وہ صرف 15 ماہ تک ہی اس عہدے پر رہے تھے۔ پاکستان کرکٹ کے جن عہد ساز لمحوں کو قطعی فراموش نہیں کیا جا سکتا، ان میں سے ایک لمحہ 25 مارچ 1992 کی ایک خوشگوار شام کو دیکھا گیا تھا جب رمیز راجہ نے مڈ آف پر کیچ پکڑ کر اپنے کپتان کو ان کی آخری بین الاقوامی وکٹ دلائی اور میلبرن کرکٹ گراؤنڈ سے ورلڈ کپ ٹرافی کے ساتھ ان کی فاتحانہ رخصتی کو ممکن بنایا۔

یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ موصوف میرے گورنمنٹ کالج لاہور اور پنجاب یونیورسٹی کے کالج فیلو اور ہم عصر دوستوں میں سے ایک تھے۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے ہم نے اکٹھے گریجوایشن کی اور پھر بعد میں پنجاب یونیورسٹی میں بھی اکٹھے تعلیم حاصل کرتے رہے، لیکن پنجاب یونیورسٹی میں میں ایم اے جنرلزم کا طالب علم تھا جب کہ رمیز بزنس کا اسٹوڈنٹ تھا، فرق اتنا تھا کہ وہ کرکٹ کا پلیئر تھا اور ہمیں ہاکی کے ساتھ شغل لگانے کا موقع میسر آجاتا تھا، اس لیے ہم اکثر گراؤنڈز میں اکٹھے ہوتے تھے۔ 1984 میں انگلینڈ کی ٹیم پاکستان کے دورے پر تھی تو رمیز پہلی مرتبہ ٹیم میں سلیکٹ ہوئے، تو ہم سب دوستوں کی نذر و نیاز اور دعائیں رمیز کے لیے ہوا کرتی تھیں، وہ جب میدان میں اُترتا تو ایسے لگتا جیسے ہم خود میدان میں اُتر گئے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ رمیز پہلے میچ کی دونوں اننگز میں ایک رنز سے زیادہ اسکور نہ بنا سکے تو ہر طرف سے اُس پر تنقید شروع ہو گئی۔

لیکن ہم اُن کے دفاع کے لیے اُس وقت ’’سوشل میڈیا‘‘کا کام سر انجام دیتے تھے، پھر آہستہ آہستہ اُن کی کارکردگی بہتر ہوئی اور انھوں نے 1987، 1992 اور 1996 کا ورلڈ کپ کھیلا۔ ٹیم میں اُن کی اچھی خاصی عزت بھی تھی، کیوں کہ وہ سب سے پڑھا لکھا کھلاڑی ہونے کے ساتھ پڑھے لکھے خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔  خیر 1997 میں رمیز کرکٹ سے ریٹائرڈ ہو گیا اور کمنٹری کی دنیا میں قدم رکھا اور وہ پاکستان کی پہچان بن گیا، ہر فورم پر اُن کے تبصروں کو تسلیم کیا جاتا، اور ہر کوئی اُن کی باتوں پر کان دھرتا۔ اس لیے مجھ جیسے کرکٹ شائق کی خواہش تھی کہ ہم اتنے بڑے ٹیلنٹ اور کرکٹ کی سمجھ بوجھ رکھنے والے شخص کو ضایع کر رہے ہیں، پھر میں سوچتا کہ کیوں کسی کی نظر رمیز راجہ پر نہیں جاتی کہ وہ پاکستان کی کرکٹ میں جدت پیدا کرے اور کھویا ہوا مقام و مرتبہ دوبارہ بحال کروائے۔ پھر یقینا وہ دن بھی آگیا اور ہماری خوشی کی انتہا نہ رہی کہ اب کرکٹ کی دنیا میں میرٹ پر فیصلے ہوںگے۔ لیکن ہمیں افسوس ہوا، ایسا افسوس ہوا کہ بقول شاعر

آنکھوں کا رنگ، بات کا لہجہ بدل گیا
وہ شخص ایک شام میں کتنا بدل گیا

یعنی رمیز راجہ کے آتے ہی مصباح الحق اور وقار یونس یعنی کوچنگ ٹیم نے ہی استعفیٰ دے دیا، یا شاید اُن سے استعفیٰ لے لیا گیا۔ حالانکہ ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ آنے میں محض ایک ماہ رہ گیا ہے، اور پھر کھلاڑیوں کو نئی کوچنگ ٹیم کے ساتھ ہم آہنگ ہونے میں کتنا وقت لگتا ہے واللہ علم۔ اور پھر اُن کے آنے کے بعد ورلڈ کپ کے لیے ٹیم کا جو اعلان کیا گیا اُس پر بھی خاصا شور شرابہ ہونے لگا، سب سے پہلے اُس کے بارے میں سن لیں کہ ٹیم میں بابر اعظم کپتان، شاداب خان نائب کپتان کے علاوہ دیگر کھلاڑیوں میں آصف علی، اعظم خان، حارث رؤف، حسن علی، عماد وسیم، خوشدل شاہ، محمد حفیظ، محمد حسنین، محمد نواز، محمد رضوان، محمد وسیم جونیئر، شاہین شاہ آفریدی اور صہیب مقصود شامل ہیں۔ پھر جیسے ہی ٹیم کی اناؤنسمنٹ ہوئی نئے تنازعات نے جنم لینا شروع کر دیا، جس کے لیے پی سی بی کے چیف ایگزیکٹو وسیم خان کو میدان میں آنا پڑتا ہے اور کہنا پڑتا ہے کہ ’’ٹیم سلیکشن کے سلسلے میں جو سمت اختیار کی گئی ہے ہمارے کپتان بابر اعظم مکمل طور پر اس کے پیچھے کھڑے ہیں۔‘‘

اس بیان کو دینے کی ضرورت اُس وقت پڑی جب کپتان بابر اعظم کے حوالے سے یہ اطلاعات سامنے آئیں کہ ٹیم سلیکشن میں اُن کے سخت تحفظات ہیں، اور راقم کی مخبری کے مطابق اسکواڈ میں شرجیل خان، فخرزمان، فہیم اشرف اور عثمان قادر کے نام دیے گئے تھے، جب کہ صہیب مقصود اور اعظم خان کے ٹیم میں شمولیت حیرانی کا باعث بنی۔ اب ہم کرکٹ کے ’’ماہرین‘‘ تو نہیں مگر اتنی سمجھ بوجھ رکھتے ہیں کہ کس کھلاڑی کو میرٹ پر ٹیم میں شامل کیا گیا ہے اور کس کھلاڑی کو ’’پرچی‘‘ پر یعنی سفارش پر۔ اب ٹیم میں شعیب ملک جیسے ہارڈ ہٹر اور تجربہ کار کھلاڑی کو بھی شامل نہیں کیا گیا۔ شعیب دباؤ میں کھیلنے والا بڑا کھلاڑی ہے، وہ فائٹر بھی ہے اور اُس جیسی پریشر میں فائٹ کوئی بھی نہیں کر سکتا۔ اس لیے اب ہمارا خیال تھا کہ پی سی بی کو پسند نا پسند کے چکر سے رمیز راجہ ہی نکالے گا، مگر ٹیم کی جو پہلی اناؤنسمنٹ ہوئی ہے، اُس نے سب کو مایوس کر دیا ہے۔

بادی النظر میں یہ رمیز راجہ کے شایان شان نہیں ہے، کیوں کہ جس طرح عمران خان قوم کی اُمید ہیں، یعنی اُن کے بعد ہمیں ملک سنبھالنے والا کوئی دور دور تک نظر نہیں آرہا، اسی طرح رمیز راجہ کے بعد بھی ہمیں پاکستان میں کرکٹ کا کوئی خیر خواہ نظر نہیں آرہا اور ہم نہیں چاہتے کہ خاکم بدہن کرکٹ کا حال بھی باقی کھیلوں خصوصاََ ہاکی جیسا ہو جائے۔ اس لیے راجہ صاحب آپ سے قوم کو بہت سی اُمیدیں ہیں، آپ قومی ٹیم میں اُن کھلاڑیوں کو شامل کریں جو میچ ونر ہوں، جو پریشر میں ٹیم کو بحران سے نکال سکیں۔ ورنہ آپ تنازعات میں ہی گھرے رہیں گے

ڈاکٹر توصیف احمد

بشکریہ ایکسپریس نیوز

آئی سی سی کا دوہرا معیار کیوں ؟ ٹوئٹر صارفین کی تنقید

انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کو دوہرا معیاراپنانے پر سوشل میڈیا پر تنقید کا نشانہ بنایا جانے لگا۔ بھارتی کرکٹ ٹیم کو آسٹریلیا کے خلاف تیسرے ایک روزہ میچ میں فوجی ٹوپیاں پہن کر میچ کھیلنے کی اجازت ملی تو سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر صارفین نے آئی سی سی کو ہدف تنقید بنا لیا۔ ٹوئٹر پر #MoeenAli کے ساتھ آئی سی سی کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے، صارفین کا کہنا ہے کہ 2014ء میں آئی سی سی نے انگلینڈ ٹیم کے مسلمان کرکٹر معین علی کے فلسطینیوں کی حمایت میں ’ رسٹ بینڈ‘ پہننے پر پابندی لگا دی تھی۔

معین علی کے رسٹ بینڈ پر ’سیو غزا‘ اور ’فری فلسطین ‘ کے الفاظ تحریر تھے اور ان دونوں فلسطین میں مسلمانوں کا قتل عام جاری تھا۔ مسلمان انگلش کرکٹر نے وہ رسٹ بینڈ اپنے بورڈ کی اجازت کے بعد پہنا تھا مگر آئی سی سی نے انگلش بورڈ کی اجازت مسترد کر دی تھی اور معین علی کو فلسطین اور غزا کی حمایت کرنے سے منع کر دیا تھا۔ ٹوئٹر پر صارفین نے کہا کہ ویرات کوہلی الیون نے آج کے میچ میں اس آرمی کو سپورٹ کیا جس نے گزشتہ 30 برسوں کے دوران 95 ہزار کشمیریوں کو قتل کیا ہے، تو کیا آئی سی سی کسی فوج کی مارکیٹنگ کی اجازت دیتا ہے؟

Five Skills That Set Roger Federer Apart From The Rest

When you think of the world’s greatest male athletes, who comes to mind?


Michael Jordan.
Muhammad Ali.

Babe Ruth.

Tiger Woods.

These are men who have transcended their sports to become cultural icons. They are symbols of greatness. Symbols of what humans performing at the highest levels can achieve. They remind us of what is possible.

If you’re a tennis fan, Roger Federer will also be included on this list. After winning the Wimbledon for a record 8th time, Federer has cemented himself as one of, if not the greatest tennis player to ever walk the earth. With over 100 total victories during his career, it’s hard to argue with anyone who puts him at the top of the tennis pantheon.

Even Rafael Nadal, one of Federer’s greatest opponents, once said about him, “If anyone says I am better than Roger, then he doesn’t know anything about tennis.”

Like other great athletes, Federer is more than an athlete. But without a doubt, he is an incredible tennis player. He has turned tennis into some beautiful – an art form or dance of sorts. Preethi Ramamoorthy wrote this regarding Federer:


In Plato’s scheme, the concepts of truth and beauty are closely related. And Federer’s tennis has always been described as beautiful. John McEnroe, the sport’s previous presiding genius, once called him “the most perfect player” — almost suggesting that this is how the game should be played.

What is it that sets Federer apart from others on the court? Why has he been so successful? What skills does he employ that make him so good?

Here are 5 reasons Federer has been so successful.

#1 – The Eastern Grip

Unlike most amateur tennis players, who use a semi-Western Grip, Federer holds his racket with a modified version of the Eastern Grip.

Using the modified Eastern Grip allows Federer to quickly transition between forehand and backhand during volleys. It also allows him to more easily flatten out his shots, reducing the amount of topspin on his shots.


Shots with less topspin don’t bounce as high, in turn making them more difficult for opponents to track down.
#2 – An Open Stance
A player’s stance dictates how he stands in relation to the baseline. An open stance is with both feet parallel with the baseline, a neutral stance is with the feet perpendicular to the baseline, and a closed stance is with the front leg slightly crossed in front of the back leg.

Federer almost always employs a mostly open stance, which gives him a full, unhindered view of the entire court.

However, using such a stance requires an enormous amount of core strength since he must rotate his entire torso through his stroke. At the conclusion of his stroke, his right shoulder is facing his opponent, meaning he is rotating 90+ degrees on every stroke.

#3 – Economy of Movement

Federer’s most recent victory came at age 35, which is amazing given that most athletes peak in their mid to late 20’s. His success, in some measure, is probably due to his ability to cover the court with minimal movement.

In 2015, Federer covered the least distance per point among the big four (Murray, Nadal, Djokovic, Federer), at only 9.7 meters per point.

This economy of movement allows Federer to preserve energy during his matches. This minimal energy expenditure is increasingly important if a match goes long. John Colapinto says:

The impression, as others have pointed out, is of weightlessness, gliding; McEnroe is fond of saying that it is Federer’s exceptionally light footwork that has prevented him from injuring his knees on the hard court, like his rival Nadal and so many other men on the tour. McEnroe also likes to compare Fed’s footwork to Baryshnikov ’s, and to ballet in general.

#4 – A Superb Forehand
Federer’s forehand is his weapon of choice. It is the sword with which he dispatches his enemies, cutting them down with cold-hearted efficiency. He is able to use it in a befuddling number of ways, sometimes playing heavy, other times playing flat, and still other times playing fast.

Federer’s ability to mix up his forehand constantly keeps his opponents off balance. He avoids set patterns, which prevents opponents from knowing where and how he’s going to hit the ball.

Just how much does Federer rely on his forehand? As The Telegraph notes:

Roger Federer’s forehand unleashes hell like no other. It sounds like a cannon going off: the fluid, racquet-head speed is off the charts. In the five years from 2000-2014 at the London Tour finals, 73% of Federer’s winners from the baseline were forehands (23% backhand). At every opportunity, Federer will run around a backhand in the advantage court to upgrade to a forehand.

What’s essential to note is the technique behind Federer’s forehand. Before unleashing his forehand, he first positions his body properly, ensuring his core, shoulders, and racket are properly positioned.

Then, using a compact and fluid takeback, followed by a full core rotation, he powers his entire body through the ball, driving it at his opponent with incredible amount of force.

Notice the fluid, whiplike motion of his racket as it hits the ball. As one tennis coach notes:

As Federer prepares to meet the ball, his forehand is usually noted for having an extreme acceleration in the last 18 inches before contact is made.

This is due in large part to the position of his wrist, which is bent almost entirely back from the racquet, ensuring another whip-like component that will add punch to the shot. That position of the wrist will also give Federer the option to hit his inside-out forehand if he so chooses.

Federer employs a variety of tactics with his forehand, using it to move his opponents all over the court, tiring them out and keeping them off balance.

Many times, he uses a crosscourt forehand to push his opponents to one side, then drives it down the line with another forehand. Alternatively, he can send it crosscourt again using a backhand or inside out forehand. The effect is that his opponents find themselves exhausted and confused as to where the ball will go.

#5 – A Strong Backhand

Federer also has a unique backhand that generates far more spin than that of his rivals. For comparison:

Federer – 5,300 RPM (Revolutions Per Minute)

Nadal – 4,300 RPM

Djokovic – 2,800 RPM

Murray – 2,500 RPM

Federer’s backhand, which he markedly improved after being injured in 2016, was one of the key reasons he was able to recently beat Nadal, who had previously been able to take advantage of Federer’s backhand.

Federer said:

I think I’ve gotten really confident, a lot of practice at the end of the season. Then, at the beginning of the year when I started to play again, I was able to step into the court and drive the backhand more frequently than I ever have before. I used to use different tactics by slicing more [and] then going big on the second shot, but I’ve turned it around to some extent.

Conclusion

While watching Federer, it can be easy to forget how much time and sweat he has put into becoming the greatest.

Speaking of the greatest musicians in the world, Malcolm Gladwell said: Once a musician has enough ability to get into a top music school, the thing that distinguishes one performer from another is how hard he or she works. That’s it. And what’s more, the people at the very top don’t work just harder or even much harder than everyone else. They work much, much harder.

The same can be said of athletes like Federer. All we see is the man effortlessly gliding around the court, striking the ball with precision and grace. What we don’t see are the 10,000 hours of practice – the blood, sweat, and tears.

Perhaps all of us owe Federer a word of thanks. It’s a privilege to watch him play.

This article originally appeared here at https://tennisdrills.tv/5-skills-set-roger-federer-apart-rest/ and has been republished with permission from https://tennisdrills.tv

Dakar Rally : Stunning images as vehicles race from Peru to Argentina

The 2018 Dakar Rally is the 40th edition of the event and the tenth successive year that the event will be held in South America. The event will start in Lima, Peru, on January 6, then run through Argentina and Bolivia, and will finish in Córdoba, Argentina, on January 20 after 14 stages of competition. The first stage of the Dakar left from Lima on 6 January from the Army General Headquarters (the “Pentagonito”) located in the district of San Borja, and extended 273 kilometers to the south, a few kilometers after Pisco taking the South Pan-American Highway. The competitive section consisted on a loop ran in the last 31 kilometers near Pisco. Among the incidents of the stage, the most highlighted was the serious accident suffered by the Portuguese pilot Joaquim Rodrigues when fall from a dune and fractured a lumbar vertebra.