امریکا، چین اقتصادی جنگ کے عالمی تجارت پر اثرات

ایک دور تھا جب دنیا بھر میں اشتراکیت اور سرمایہ دارانہ نظام کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا اور دنیا دائیں اور بائیں بازو میں تقسیم تھی۔ اس وقت ایک مرد قلندر سید ابولاعلی مودودی نے کہا تھا کہ ’’ایک دور آئے گا جب اشتراکیت کو ماسکو اور سرمایہ دارانہ نظام کو واشنگٹن میں پناہ نہ ملے گی‘‘۔ اشتراکیت تو سوویت یونین کے انہدام کے ساتھ ہی زمین بوس ہو گیا اور دنیا بھر میں سرمایہ دارانہ نظام کو واحد معاشی نظام کے طور پر قبول کر لیا گیا لیکن 2008ء میں آنے والے مالیاتی بحران نے سرمایہ داری کے ستونوں پر لرزہ طاری کر دیا اور اس میں دراڑ پڑنی شروع ہو گئیں۔

پھر چین دنیا کی اقتصادی طاقت کے طور پر اُبھرنے لگا اور رفتہ رفتہ یورپ و امریکا کی مارکیٹوں پر چھا گیا۔ وال مارٹ جیسا امریکی ادارہ چینی اشیا سے بھر گیا اور امریکی چینی اشیا کے ایسے ہی عادی ہو گئے جیسے کسی زمانے میں گراں خواب چینی افیون کے عادی تھے۔ ایک امریکی اوسطاً روزانہ دس چینی اشیا استعمال کرتا ہے۔ وہ صبح اُٹھ کر جس بلیڈ سے شیو کرتا ہے وہ چینی ہوتا ہے، ناشتے کی میز پر کراکری سمیت متعدد اشیا چینی، دفتر میں استعمال ہونے والی اسٹیشنری و دیگر سامان چینی، باتھ روم میں استعمال ہونے والے سامان چینی۔ اس صورت حال نے امریکیوں کو شدید پریشانی کا شکار کر دیا۔ کوئی صورت ایسی نظر نہیں آرہی تھی جس سے چینی اشیا سے چھٹکارے کی کوئی تدبیر کار آمد ہو سکے۔

حیرت انگیز امر یہ ہے کہ عالمی اقتصادی شطرنج کی بساط پر سرمایہ داری کی بنیاد رکھنے اور آزاد تجارت کے تصور کو متعارف کرانے والے ممالک اب اس سے پسپائی اختیار کر رہے ہیں کیوں کہ چین کے اقتصادی ہتھیاروں یعنی کم قیمت، بہتر معیار، مسلسل جدوجہد اور انتھک محنت کا توڑ امریکا اور مغربی ممالک کے پاس نہیں۔ چناں چہ جس جمہوریت، دنیا بھر سے ٹیلنٹ، صلاحیت، قابلیت کو اپنے اپنے ملکوں میں سمیٹنے اور انہیں سر آنکھوں پر بٹھانے کی بدولت مغرب و امریکا نے ترقی کی معراج پائی اسی جمہوریت کا سہارا لے کر امریکیوں نے ڈونلڈ ٹرمپ جیسے انتہا پسند کو اپنا قائد منتخب کیا۔

اس طرح بھارت اور امریکا جو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہیں دونوں ممالک نے انتہا پسندوں کو اقتدار کا راستہ دکھا کر دنیا کے امن کو خطرات سے دو چار کر دیا۔ امریکا میں اب تاریک وطن کے لیے زمین تنگ کر دی گئی ہے، برطانیہ نے بریگزٹ کی راہ اپنالی ہے، مغرب کے متعدد ممالک میں قوم پرستی کا رجحان پروان چڑھ رہا ہے، گورے اور کالے، امیر و غریب کے درمیان فاصلے بڑھتے جا رہے ہیں۔ 5 اپریل 2018ء کو ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا کو چینی برآمدات پر اضافی ٹیرف میں ایک سو ارب ڈالر کے تازیانے کی دھمکی دی۔ اس سے صرف ایک دن قبل ٹرمپ انتظامیہ نے 50 ارب ڈالر کی چینی برآمدات پر تادیبی ٹیکس کے اپنے منصوبے کا آغاز کیا۔

جس طرح پاکستان میں سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا نعرہ لگایا تھا یہ اور بات ہے کہ اقتدار سے رخصتی کے بعد ’’سب سے پہلے وہ پاکستان سے رخصت ہوئے‘‘ اور ان کے درآمد شدہ وزیراعظم شوکت عزیز کی طرح وہ آج بھی ملک سے باہر ہیں۔ صدر ٹرمپ نے بھی سب سے ’’پہلے امریکا‘‘ کا نعرہ بلند کر کے چین کے ساتھ اقتصادی جنگ چھیڑ دی۔ اس سے قبل 2018ء کے آغاز میں 22 جنوری کو امریکا نے بڑے پیمانے پر چینی درآمد شدہ شمسی سامان اور واشنگ مشینوں پر ٹیرف کا اعلان کر کے اس جنگ کا عندیہ دے دیا تھا۔

پھر چین نے 4 فروری کو جانوروں کی خوراک پر اینٹی ڈمپنگ کی تحقیق کا آغاز کیا۔ 8 فروری کو چین کے اعلیٰ سفارت کاروں سے تجارتی جنگ روکنے کے لیے واشنگٹن کا سفر کیا لیکن خاطر خواہ کامیابی نہ ہوئی۔ 2 مارچ کو امریکا نے ایلومینیم کی درآمدات پر تادیبی ٹیرف نافذ کرنے کا اعلان کیا جب کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی جارحانہ پالیسی کو کاروباری حلقوں اور اقتصادی ماہرین نے آگ سے کھیلنے سے مشابہت دی۔ لہٰذا 6 مارچ کو ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتصادی مشیر کرے کوھن نے استعفا دیتے ہوئے اس آگ سے اپنے دامن کو بچانے ہی میں عافیت محسوس کی۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے ان اقدامات کے مضمرات کو عالمی سطح پر بھی محسوس کیا گیا، عالمی تجارتی تنظیم ڈبلیو ٹی او نے 13 اپریل کو خبردار کیا کہ ٹرمپ کی وجہ سے بڑھتی ہوئی کاروباری کشیدگی چین اور یورپی یونین جیسے اہم امریکی کاروباری شراکت داروں پر پہلے ہی منفی اثرات مرتب کر رہی ہے۔ آئی ایم ایف کے منیجنگ ڈائریکٹر کرسچین لگارڈ نے 12 پریل کو کہا کہ عالمی معیشت پر گہرے بادل چھا رہے ہیں۔ ٹرمپ کی پالیسیوں کے عالمی مالیاتی مارکیٹوں پر بھی منفی اثرات مرتب ہوئے۔ چین نے جوابی کارروائی کے طور پر امریکی اسٹیل ہارٹس، تازہ پھلوں اور شراب پر پندرہ فی صد پورک پر 25 فی صد ٹیرف کے نفاذ کا اعلان کیا اور اس اقتصادی جنگ کے اثرات مختلف اسٹاک مارکیٹوں پر پڑنے شروع ہوئے اور جاپان، جرمنی سمیت متعدد ممالک کی اسٹاک مارکیٹس کے انڈیکس میں کمی آئی۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ اقدامات چین کی عالمی اقتصادی اُفق پر بڑھتی ہوئی پیش رفت کو روکنے کے علاوہ پنسلونیا میں انتخابات جیتنا بھی مقصد تھا جو امریکا کی اسٹیل کی پیداوار کا بڑا مرکز ہے۔ کیا امریکا اس اقتصادی جنگ کو جیت جائے گا؟ یہ سوال بڑا اہم ہے، عالمی اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ چین کی اقتصادی پیش رفت اس قدر وسیع، ہمہ گیر اور توانا ہے کہ ٹرمپ کی پالیسیاں اس کے قدم نہیں روک سکتیں۔ خود ٹرمپ اپنے ٹویٹ میں اس کا اقرار کرنے پر مجبور ہوئے اور کہا کہ ہماری تجارتی جنگ چین سے نہیں ہے۔ یہ جنگ ہم برسوں پہلے نااہل لوگوں کے باعث ہار چکے ہیں۔

اب امریکا کو ہر سال 500 ارب ڈالر کے تجارتی خسارے کا سامنا ہے۔ واضح رہے کہ امریکا چین کا 170 ارب ڈالر کا مقروض ہے جب کہ 2016ء میں اسے چین کے ساتھ 342 ارب ڈالر اور 2017ء میں یہ خسارہ بڑھ کر 566 ارب ڈالر ہو گیا۔ امریکا اور چین کی اقتصادی جنگ، تارکین وطن کے خلاف امریکا و مغرب میں بڑھتی ہوئی نفرت، گورے کالے اور امیر و غریب میں بڑھتے ہوئے فرق، افغانستان، شام، فلسطین و کشمیر میں جاری خونریزی اس بات کو ظاہر کر رہی ہے کہ موجودہ عالمی سیاسی و اقتصادی نظام ناکام ہو چکا ہے۔

انسانوں کے درمیان نفرتوں کی بڑھتی ہوئی خلیج، تہذیبوں کے تصادم اور عالمی اقتصادی جنگ کو روکنے کے لیے اسلام کے نظام اخوت، انسانی بھائی چارے اور اسلامی معیشت کے رہنما اصولوں کو اپنانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اگر اسلامی ممالک اس کی ابتدا کر کے مغرب اور امریکا کو رول ماڈل فراہم کریں تو دنیا کے دیگر ممالک بھی اس نظام کی افادیت کے قائل ہو جائیں گے۔ یہ بات بہرحال طے ہے کہ کمیونزم کی ماسکو بدری کے بعد اب سرمایہ دارانہ نظام اور آزاد تجارت کا تصور واشنگٹن سے رخصتی کے لیے پَر تول رہا ہے اور جنگ عظیم اوّل و دوئم کی خونخوار قوم پرستی کی جڑیں مضبوط ہو رہی ہیں۔

ڈاکٹر سید محبوب

سی آئی اے نے چین کو بھی روس جیسا بڑا خطرہ قرار دے دیا

امریکا کے خفیہ ادارے سی آئی اے کے سربراہ نے چین کو بھی روس جیسا بڑا خطرہ قرار دے دیا۔ سی آئی اے کے سربراہ نے خدشہ ظاہر کیا کہ شمالی کوریا جلد امریکا پر جوہری حملے کی صلاحیت حاصل کر سکتا ہے جبکہ روس امریکا کے وسط مدتی انتخابات میں مداخلت کر سکتا ہے۔ مائک پومپیو نے سی آئی اے کے ہیڈ کوارٹر میں برطانوی نشریاتی ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امریکا اور یورپ کے اندرونی معاملات میں روسی مداخلت تاحال جاری ہے جس میں کوئی قابل ذکر کمی نہیں آئی ہے۔ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے سربراہ نے شمالی کوریا کے حوالے سے خدشہ ظاہر کیا کہ شمالی کوریا آئندہ چند ماہ میں امریکا کو جوہری ہتھیاروں کے ذریعے نشانہ بنانے کی صلاحیت حاصل کر سکتا ہے۔

مائک پومپیو نے چین پر بھی نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ چین مسلسل امریکی معلومات کو چوری کرنے اور امریکی خفیہ اداروں میں گھسنے کی کوششں کر رہا ہے، چین کی امریکا اور مغربی ممالک میں اپنا اثر بڑھانے کی خفیہ کوششیں امریکا کے لیے اتنی ہی پریشان کن ہیں جتنی روس کی تخریب کاری کی کوششیں، بیجنگ حکومت مسلسل امریکی اثرو رسوخ کو کم کرنے کی کوششوں کر رہی ہے۔
امریکا کے نومبر میں ہونے والے وسط مدتی انتخابات کے بارے میں مائک پومپیو نے امکان ظاہر کیا کہ روس مداخلت کر سکتا ہے لیکن امریکا میں اتنی صلاحیت موجود ہے کہ وہ اپنے ہاں شفاف اور منصفانہ انتخابات کا انعقاد یقینی بنا سکتا ہے۔

امریکہ اور چین کی تجارتی جنگ کے نتائج کیا ہوں گے؟

امریکہ کے صدر ٹرمپ کی طرف سے امریکہ میں درآمد کی جانے والی واشنگ مشینوں اور شمسی توانائی کے پینلز پر ڈیوٹی لگانے کی حمایت سے سب سے زیادہ متاثر چین اور جنوبی کوریا ہوں گے۔ امریکہ کی طرف سے اس اقدام پر رد عمل بھی سامنے آ سکتا ہے اور خاص طور پر بیجنگ سے۔ چین کے جریدے گلوبل ٹائمز نے امریکہ کے اس فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ صدر ٹرمپ سے تجارتی جنگ کے کوئی اچھے نتائج نہیں نکلیں گے اور چین بھی جوابی کارروائی کر سکتا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان سنہ 2016 میں 578 ارب ڈالر سے زیادہ کی تجارت ہوئی تھی۔ امریکی حکومت کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق اس تجارت سے دس لاکھ کے قریب امریکی شہریوں کا روز گار وابستہ ہے۔

لہذا چین کیا کر سکتا ہے؟

چین کے سامنے جو راستے ہیں ان میں چند یہ ہیں۔

ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں اس معاملے پر شکایت درج کرانا
چین کا کہنا ہے کہ امریکی درآمدی ڈیوٹیاں تجارت کے لیے ٹھیک نہیں ہیں اور وہ پہلے کہہ چکا ہے کہ وہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ڈبلیو ٹی او کے دیگر ممالک کے ساتھ مل کر کام کرے گا۔ بلاشبہ واشنگٹن میں بھی بہت سے ایسے عناصر ہوں گے جو اس موقعے کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے جہاں چین جس کے تجارتی طور طریقوں پر اعتراضات اٹھائے جاتے ہیں، وہ یہ شکایت کرے کہ اس کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے۔

امریکہ سے گوشت کی درآمد کم کر دے
گذشتہ سال مئی میں امریکہ اور چین نے ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے جس میں دیگر مسائل کے علاوہ یہ بھی طے کیا گیا تھا کہ چودہ سال بعد چین امریکہ سے بڑے گوشت کی درآمد شروع کرے گا۔ لیکن چین کی طرف سے کچھ شرائط عائد ہیں جن پر گوشت کی امریکی کمپنیوں کو عمل کرنا پڑتا ہے۔ گو کہ امریکہ نے گوشت کی برآمد ابھی شروع ہی کی ہے لیکن چین حفظان صحت اور گوشت کے معیار کو اور کڑا بنا کر ان امریکی کمپنیوں کے لیے مشکلات پیدا کر سکتا ہے جن کی نظر چین کے متوسط طبقے پر ہے۔

چینیوں کو امریکی گاڑیاں خریدے سے روک سکتا ہے
چین دنیا بھر میں گاڑیوں کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے۔ سنہ دوہزار بیس تک دنیا بھر میں بنائی جانے والی گاڑیوں کی پچاس فیصد کھپت چین میں ہو گی۔ چین مستقل طور پر امریکہ سے گاڑیوں اور ان کے پرزاجات درآمد کرنے والے پانچ بڑے ملکوں میں شامل ہے۔ اگر چینی حکومت اپنے شہریوں کو جذبۂ حب الوطنی کے طور پر امریکی گاڑیوں اور ان کے پرزاجات نہ خریدنے کی اپیل کر دے تو امریکی برآمدات کو شدید نقصان ہو سکتا ہے۔ ماضی میں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ چین کی حکومت نے اپنے شہریوں کو مخصوص اشیا نہ خریدنے کی ہدایت کی ہو۔ کوریا کی ایک بڑی پرچون کی کمپنی لوتے مارٹ کو اس وقت شدید نقصان اٹھانا پڑا تھا جب چین اور جنوبی کوریا کے درمیان امریکی میزائلوں کی خریداری پر تنازع کھڑا ہو گیا تھا۔

چینی سیاحوں سے کہے کہ وہ امریکہ نہ جائیں
صدر ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں امریکہ سب سے پہلے کا نعرہ لگایا تھا. اس وقت سب سے زیادہ لوگ چین سے مختلف ملکوں میں سیر و تفریحی کے لیے جاتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق تیرہ کروڑ چینی ہر سال مختلف ملکوں میں جاتے ہیں اور اس تعداد میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے۔ چینی سیاح بین الاقومی سفر پر 260 ارب ڈالر خرچ کرتے ہیں گو کہ ایشیائی ملکوں کے سیاحتی مراکز چینیوں میں مقبول ہیں لیکن ایک بہت بڑی تعداد امریکہ بھی جاتی ہے۔ ایک اندازہ ہے کہ سنہ 2025 تک چینی بین الاقوامی سیاحت اور دوسرے ملکوں میں سیر و تفریحی اور خریداری پر 450 ارب ڈالر خرچ کریں گے۔ اگر چین کی حکومت چینیوں کے لیے امریکہ کو ناپسندیدہ جگہ قرار دے دے تو امریکہ کا بڑا نقصان ہو سکتا ہے۔

کچھ امریکی بانڈز کی فروخت
چین نے امریکی بانڈز فروخت کرنے کی پہلے بھی دھمکی دی ہے اور بہت سے لوگ اس تشویش کا اظہار کر چکے ہیں کہ جتنے امریکی بانڈر چین کے پاس ہیں وہ امریکی معیشت پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ لیکن در حقیقت اگر چین یہ فیصلہ کر لے تو کئی دوسرے ملک امریکی بانڈز خریدنے پر تیار ہو جائیں گے۔

لیکن کیا کچھ ہو گا ؟
درحقیقت چین امریکہ کے ساتھ کسی ایسے تجارتی تنازع میں الجھنا نہیں چاہتا جو کسی بڑے جھگڑے کی شکل اختیار کر لے۔ اگر دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی جنگ بڑھ جائے تو صرف چین اور امریکہ کا ہی نقصان نہیں ہو گا بلکہ اس کے ایشیائی ملکوں میں وسیع تر اثرات پڑیں گے کیونکہ بہت سے ملک خام مال کی سپلائی کی ایک زنجیر میں جڑے ہوئے ہیں۔ لیکن امریکہ میں چند دنوں میں ہی درآمدی محصولات میں اضافہ متوقع ہے اور صدر ٹرمپ سٹیل اور المونیم کی درآمد پر اضافی ٹیکس لگانے کا فیصلہ کرنے والے ہیں۔ چین میں سٹیل اور المونیم کی پیدوار دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے۔

چین کے خلاف جعلی مصنوعات بنانے کی تحقیقات بھی جاری ہیں جس کے نتائج جلد سامنے آ جائیں گے۔ لیکن صدر ٹرمپ نے جتنی شدت سے اپنی انتخابی مہم میں چین سے تجارت پر تنقید کی تھی اب اس میں اتنی شدت نہیں رہی کیونکہ شمالی کوریا پر دباؤ بڑھانے کے لیے امریکہ کو چین کی ضرورت ہے۔ امریکہ میں اس سال وسط مدتی انتخابات ہونے والے ہیں اور اس انتخابی سال میں ریپبلکن پارٹی پر اپنے وعدوں کو پورا کرنے کے لیے دباؤ بڑھے گا اور صدر ٹرمپ اپنے ‘امریکہ سب سے پہلے’ کے وعدے کو پورا کرنے کا سوچ سکتے ہیں۔

بشکریہ بی بی سی اردو

چین نے سی آئی اے کے مخبر کیسے ہلاک کیے ؟

امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق سنہ 2010 سے 2012 کے دوران چینی حکومت نے امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے 20 کے قریب مخبر ہلاک کیے یا قید میں ڈالے۔ حکام کا کہنا ہے کہ ابھی یہ واضح نہیں کہ سی آئی اے کی معلومات ہیک ہوئیں یا پھر کسی خفیہ ایجنٹ کے ذریعے چینی حکام امریکی ایجنٹس کا پتہ لگانے میں کامیاب ہوئی۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک امریکی مخبر کو حکومتی عمارت کے احاطے میں گولی مار کر ہلاک کیا گیا تا کہ دوسروں کو خبردار کیا جا سکے۔ خیال رہے کہ ابھی تک نیویارک ٹائمز کی رپورٹ پر سی آئی اے نے کوئی ردِعمل ظاہر نہیں کیا۔ اخبار سے بات کرنے والے چار سابق سی آئی اے افسران نے کہا ہے کہ چینی حکومت کے حوالے سے گہری معلومات میں کمی کا آغاز سنہ 2010 میں ہوا تھا جب کہ مخبروں کی گمشدگی کی شروعات سنہ 2011 کے آغاز میں ہوئی تھیں۔ ایک ذریعے کے مطابق سی آئی اے اور ایف بی آئی نے ان واقعات کی تحقیقات کے لیے ایک آپریشن کیا جس کا خفیہ نام ہنی بیڈگر تھا۔

اخبار کا کہنا ہے کہ تحقیقات کا مرکز سی آئی اے کے ایک سابق اہلکار تھے تاہم ان کی گرفتاری کے لیے شواہد کافی نہیں تھے۔ اب وہ ایک ایشیائی ملک میں رہتے ہیں۔ اس رپورٹ پر کام کرنے والے نیو یارک ٹائمز سے منلسک صحافی میٹ اپوزو نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘سب سے مشکل بات یہ ہے ہم ابھی تک نہیں جانتے کہ کیا ہوا۔’ وہ کہتے ہیں کہ ‘امریکی حکومت میں اب بھی اس پر رائے منقسم ہے کہ کیا سی آئی اے کے اندر کوئی خفیہ ایجنٹ تھا یا پھر یہ کام کا مسئلہ تھا کہ سی آئی اے کا ایجنٹ مستعد نہیں تھا اور پکڑا گیا یا پھر چینیوں نے مواصلات کو ہیک کیا تھا۔’ اخبار کے مطابق جاسوسوں کی گمشدگیوں سے امریکہ کے نیٹ ورک کو نقصان ہوا جو اس نے کئی سال لگا کر چین میں بنایا تھا۔ حتیٰ کہ اس سے اوباما انتظامیہ میں بھی یہ سوال اٹھنے لگے کہ انٹیلیجنس میں اتنی آہستگی کیوں ہے۔ اپوزو کہتے ہیں کہ سنہ 2013 میں یہ دیکھا گیا کہ چین امریکی ایجنٹس کی شناخت کرنےکی صلاحیت سے محروم ہو گیا اور سی آئی اے نے وہاں اپنا نیٹ ورک دوبارہ بنانے کی کوششیں شروع کیں۔

بشکریہ بی بی سی اردو