کیا بھارت کی معیشت تیزی سے زوال پذیر ہے ؟

چین اور جاپان کے بعد بھارت ایشیا کی سب سے بڑی معیشت تھا لیکن اب دنیا بھر کا میڈیا اس کی کمزور ہوتی معیشت کا ذکر کر رہا ہے۔ 2014 میں جب اقتدار بدلا اور نریندر مودی نے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی تو امید کی جا رہی تھی کہ اب معیشت کی ترقی کی رفتار تیز ہو گی۔ 2016 میں معیشت میں تقریباً سات فیصد کی شرح سے اضافہ ہوا لیکن آج کی تاریخ میں یہی معیشت چار سال میں اب تک کی سب سے نچلی سطح پر پہنچ گئی ہے۔ اب حکومت فکر مند ہے اور حزبِ اختلاف بھی جم کر حکومت کو نشانہ بنا رہی ہے۔ مودی حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی جس فائنینشل ایڈوائزری کمیٹی کو تحلیل کر دیا تھا اب بحال کر دیا ہے۔ مودی حکومت کے اس یوٹرن سے ظاہر ہے کہ وہ گرتی معیشت سے فکر مند ہیں۔ مودی حکومت کی اقتصادی پالیسیوں پر نہ صرف حزبِ اختلاف میں بلکہ پارٹی کے اندر بھی سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ اٹل بہاری واجپائی کی حکومت میں وزیز خزانہ رہنے والے یشونت سنہا نے الزام عائد کیا ہے کہ بی جے پی حکومت نے ملک کی معیشت کو برباد کر دیا۔

مودی حکومت کی جانب سے نوٹ بندی کے فیصلے کی ہر طرف تنقید ہو رہی ہے۔ پارٹی کے اہم رہنما یشونت سنہا کے ساتھ ساتھ بی جے پی کی اتحادی جماعت شو سینا نے بھی نوٹ بندی کی تنقید کی ہے۔ ریاست آندھر پردیش کے وزیر اعلیٰ چندرا بابو نائیڈو نے بھی کہا ہے کہ جی ڈی پی میں گراوٹ ، نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کی وجہ سے ہے۔ بھارت کی معیشت میں آنے والی مندی اور اس سے نپٹنے میں ناکامی کی خبریں چینی میڈیا میں بھی آ رہی ہیں۔ چین کی سرکاری اخبار ‘گلوبل ٹائمز’ نے مودی حکومت کے مبینہ دوہرے رویے کی سخت تنقید کی ہے۔ اخبار کا کہنا ہے کہ ‘مودی کے قول و فعل میں بڑا تضاد ہے’۔

اس سے پہلے جون 24 کو ‘دی اکانومسٹ’ نے مودی کی اقتصادی پالیسیوں کی سخت نکتہ چینی کرتے ہوئے لکھا تھا کہ مودی خود کو جتنے بڑے اصلاح کار دکھاتے ہیں اتنے ہیں نہیں۔ روزنامہ ‘فورچیون’ لکھتا ہے کہ بی جے پی کے دماغ میں کونسی معیشت ہے اس کا اندازہ لگانا آسان نہیں ہے۔ فورچیون نے سابق وزیرِ خزانہ یشونت سنہا کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یشونت سنہا نے 2004 میں بی جے پی کی شکست کا ذمہ داری قبول کی تھی ان کا کہنا تھا کہ پارٹی کی ہار کے لیے خود خود کو ذمہ دار سمجھتے ہیں۔

یشونت سنہا کے ایک بیان کو اخبار نے اس طرح لکھا کہ ‘میں نے بطور وزیرِ خزانہ مٹی کے تیل کی قیمت میں اضافہ کیا تھا۔ پورے بھارت کے دیہی علاقوں میں کیروسن کھانا پکانے اور روشنی کے لیے استعمال ہوتا ہے اور ان کے اس فیصلے سے لاکھوں دیہی لوگوں کی زندگی متاثر ہوئی تھی۔ بی جہ پی کی حکومت مہنگائی اور خاص طور پر پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے تنقید کا شکار ہے۔ یشونت سنہا کا کہنا ہے کہ مودی حکومت نے نولاٹ بندی کر کے ملک کی معیشت کو گہری چوٹ پہنچائی ہے۔ اس کے علاوہ حزبِ اختلاف کے مطابق مودی حکومت نے جو روزگار کے مواقع پیدا کرنے کا وعدہ کیا تھا اس میں بھی بری طرح ناکام رہی ہے۔

جب پارلیمان میں نوٹ بندی پر بحث ہو رہی تھی تو منموہن سنگھ نے کہا تھا کہ ملک کی معیشت میں کم سے کم دو فیصد کی گراوٹ آئے گی اور اج بلکل ویسا ہی ہوا ہے۔ حکومت کا یہ اندازہ غلط ثابت ہوا اور منموہن سنگھ صحیح ثابت ہوئے۔ مودی حکومت کی جاب سے جس طرح جی ایس ٹی کو نافذ کیا گیا اس پر بھی سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ ابتدا میں جی ایس ٹی پر کافی کنفیوژن تھا۔ تاجروں کا کہنا ہے کہ بھاری ٹیکس شرح کے سبب اس سے فائدہ نہیں نقصان ہی ہو گا۔ ‘بلوم برگ’ نے لکھا ہے کہ بھارت کی کرنسی اور بانڈ مارکیٹ پر پریشانی کے بادل منڈلا رہے ہیں، غیر ملکی بازار سے اپنا پیسہ واپس نکال رہے ہیں اور انڈین بازار پر لوگوں کا بھروسہ کم ہو رہا ہے اور اس سے معیشت میں مزید گراوٹ کا اندیشہ ہے اور آنے والے وقت میں روپیہ ڈالر کے مقابلے مزید کمزور ہو سکتا ہے۔

بشکریہ بی بی سی اردو

Leave a comment