چی گویرا ڈائری کیوں لکھتا تھا ؟

چی گویرا کو نو نومبر 1967ء کو 39 سال کی عمر میں گرفتار کرنے کے بعد گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ اس وقت وہ کیوبا میں انقلاب کی قیادت کرنے کے بعد بولیویا میں سرگرم تھا۔ کاسترو کیوبا میں اس کا ساتھی رہا۔ زیرنظر تحریر میں اس نے چی کی لکھی ڈائریوں کے بارے بتایا ہے. گوریلا زندگی کے دنوں میں چی کی عادت تھی کہ روز مرہ کے واقعات و تجربات اپنی ذاتی ڈائری میں لکھ لیتا۔ دشوار گزار راستوں میں طویل مارچ کے دوران جب گوریلا سپاہیوں کی قطاریں اپنے ساز و سامان اور اسلحہ کے بوجھ تلے دبی دم لینے کے لئے جنگلات میں رکتیں یا جب دن بھر مارچ کرنے کے بعد سپاہیوں کو رکنے اور کیمپ لگانے کا حکم ملتا تو چی (جسے کیوبا کے رفیق پیار سے اس نام سے پکارتے تھے) جیب سے اپنی نوٹ بک نکالتا اور باریک ناقابل شناخت حروف میں اپنی یادداشت لکھنے لگتا۔

ان یادداشتوں سے جو بھی محفوظ رہ جاتیں انہیں وہ کیوبا کی انقلابی جنگ کے شاندار تذکرے میں استعمال کرتا جو انقلابی، تعلیمی اور انسانی قدروں کا حامل تھا۔ چی کی اس پختہ عادت کی بدولت کہ وہ ہر روز کے خاص واقعات لکھ لیتا۔ آج ہمیں بولیویا میں اس کی زندگی کے آخری ایام کی بالکل صحیح، بے بہا اور تفصیلی اطلاعات میسر ہوئیں۔ یہ یادداشتیں چھپنے کے لئے نہیں لکھی گئی تھیں۔ ان سے واقعات، حالات اور انسانوں کو پرکھنے میں مدد ملتی اور اس کی باریک بین فطرت اور تجزیاتی انداز کو ذریعہ اظہار کی تسکین میسر آتی۔ یہ نوٹ بہت سنبھل کر لکھے گئے ہیں اور شروع سے آخر تک ان میں ایک مسلسل ربط ہے۔

یہ بات نہیں بھولنا چاہیے کہ نوٹ فرصت کے ان نادر لمحات میں لکھے گئے ہیں جو چی کو گوریلا جدوجہد کی اولین کٹھن منزلوں میں گوریلا سردار کی حیثیت سے دلیرانہ جسمانی مشقت کے دوران کبھی کبھی میسر آئے۔ ناقابل برداشت مادی مصائب میں اس کی طبیعت کا جوہر نکھرتا تھا۔ اور اس کا عزم آہنی اور انفرادی طریق کار نمایا ں ہوتا تھا۔ ڈائری میں روزانہ کے واقعات کا تفصیلی تجزیہ کیا گیا ہے اور ایسی غلطیوں اور کوتا ہیوں پر تنقیدی نظر ڈالی گئی ہے جو ایک انقلابی گوریلا کے ارتقا میں ناگزیر ہیں۔ ایک گوریلا دستے میں ایسا محاسبہ ضروری ہے۔ خاص طور پر اس وقت جب جماعت بہت مختصر لیکن کلیدی حیثیت کی حامل ہوا اور مسلسل سخت ترین دشوار حالات اور کثیر دشمنوں کا سامنا ہو۔

جب معمولی کوتاہی اور چھوٹی سی غلطی بھی موت کا پیغام بن سکتی ہے۔ اور سردار کو سخت گیر بھی ہونا پڑتا ہے اور شفیق استاد بھی تاکہ ان غلطیوں سے اس کے رفیق اور آئندہ آنے والے گوریلا سردار سبق حاصل کریں۔ گوریلا دستے کی تشکیل ہر شخص کے ضمیر اور عزت نفس کے لئے ایک مسلسل پکار ہے۔ چی جانتا تھا کہ انقلابیوں کے گہرے جذبات کے تاروں کو کیسے چھیڑا جاتا ہے۔ جب کئی دفعہ انتباہ کے بعد بار کوس کو خبردار کیا گیا کہ اسے گوریلا دستے سے بے عزتی کے ساتھ نکال دیا جائے گا تو اس نے کہا ’’اس ذلت پر میں موت کو ترجیح دوں گا۔‘‘ یہی مارکوس بعد میں دلیرانہ موت مرا۔ یہی حال اس کے باقی ساتھیوں کا تھا جن پراسے اعتماد بھی تھا۔ چونکہ اس ڈائری میں کیوبا کے انقلاب اور گوریلا تحریک سے اس کے تعلق کا بار بار ذکر آیا ہے اس لئے کچھ لوگ کہہ سکتے ہیں کہ اس ڈائری کو شائع کر کے ہم نے انقلاب کے دشمن امریکی سامراجیوں اور ان کے حلقوں بگوش لاطینی امریکی جاگیرداروں کا منہ چڑایا ہے۔

فیڈل کاسترو

Leave a comment