امریکی اسٹاک مارکیٹ بیٹھ گئی، سات برسوں کا ریکارڈ خسارہ

امریکی سٹاک مارکیٹ کو گزشتہ سات برسوں کے دوران کسی ایک دن میں سب سے بڑے خسارے کا سامنا کرنا پڑا، جس کے بعد اس نقصان کی وجہ سے تمام بڑی ایشیائی منڈیوں میں بھی شدید خسارے کا رجحان رہا۔ جاپانی دارالحکومت ٹوکیو سے ملنے والی نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق امریکی شہر نیو یارک کی وال سٹریٹ پر قائم نیو یارک سٹاک ایکسچینج میں، جو دنیا بھر میں حصص کی سب سے بڑی منڈی ہے، ڈاؤ جونز انڈکس کو یومیہ بنیادوں پر 2011ء سے لے کر آج تک کے سب سے بڑے خسارے کا سامنا کرنا پڑ گیا۔

نئے ہفتے کا آغاز وال سٹریٹ کے لیے اتنا نقصان دہ دن ثابت ہوا کہ کاروبار کے اوقات کے دوران ایک بار تو اس انڈکس میں خسارے کا حجم 1,597.08 تک پہنچ گیا تھا۔ حصص کے کاروبار کے کسی ایک دن کے اندر اندر یہ ڈاؤ جونز انڈکس کی تاریخ میں آج تک ریکاڑد کی گئی سب سے زیادہ کمی تھی۔ پھر دن کے باقی ماندہ حصے میں اس انڈکس کو کچھ سنبھالا ملا اور یہ 1175.21 پوائنٹس کی کمی کے ساتھ بند ہوا۔ ڈاؤ جونز کے صنعتی اوسط انڈکس میں یہ کمی 4.6 فیصد بنتی تھی اور اس سے قبل ایسا آخری مرتبہ 2011ء میں ہوا تھا کہ وال سٹریٹ کو کسی ایک دن میں اتنا زیادہ نقصان ہوا تھا۔

مقامی وقت کے مطابق نیو یارک سٹاک مارکیٹ چونکہ ایسے وقت پر بند ہوتی ہے، جب کئی ایشیائی ممالک میں اگلا دن شروع ہو چکا ہوتا ہے، اس لیے حصص کی قیمتوں میں ایسے ہر بڑے اتار چڑھاؤ کے اثرات اگلے روز براعظم ایشیا کی بڑی سٹاک مارکیٹوں پر بھی مرتب ہوتے ہیں۔ اس بار بھی ایسا ہی ہوا۔ وال سٹریٹ کے پیر کو 4.6 فیصد کی کمی کے ساتھ بند ہونے کے بعد جب ایشیائی کاروباری منڈیاں کھلیں، تو ان میں بھی شدید خسارے کا رجحان دیکھنے میں آیا، جو ایشیا میں ٹوکیو سے شروع ہوا اور ممکنہ طور پر آج دن کے دوران یورپ میں لندن سٹاک ایکسچینج تک میں دیکھنے میں آ سکتا ہے۔

ڈی پی اے کے مطابق جاپان میں ٹوکیو سٹاک مارکیٹ کے نِکئی انڈکس کو آج 1,071.84 پوائنٹس کا خسارہ ہوا، جو یہ مارکیٹ بند ہونے تک 4.73 فیصد بنتا تھا۔ اسی طرح چین اور ہانک کانگ میں حصص کی منڈیوں کو بھی کاروبار شروع ہونے کے فوری بعد سے مندی کے رجحان کا سامنا رہا۔ شنگھائی میں کمپوزٹ انڈکس کو منگل کی دوپہر تک 3.2 خسارے اور ہانگ کانگ کے ہانگ سینگ انڈکس کو بعد دوپہر تک 4.32 فیصد نقصان کا سامنا تھا۔ صرف ایک اعلان کے بعد کئی مالیاتی ماہرین کے مطابق دنیا کی اکثر بڑی معیشتوں میں سود کی شرح اس وقت تقریباﹰ ریکارڈ حد تک کم ہے اور گزشتہ کچھ عرصے سے عالمی سطح پر حصص کی قیمتوں میں کافی زیادہ اضافہ بھی دیکھنے میں آیا تھا۔

کسی کو یہ اندازہ بھی نہیں تھا کہ امیر ترین ملکوں میں شمار ہونے والا ناروے بھی تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں سے متاثر ہو جائے گا۔ بحیرہٴ شمال کی تہہ میں موجود خام تیل نے ناروے کو دنیا کے امیر ترین ممالک کی صف میں لا کھڑا کیا تاہم تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے اوسلو حکومت کو اپنی پالیسی تبدیل کرنا پڑ رہی ہے۔ اب یہ ملک تیل اور گیس کی فروخت پر بھروسا کرنے کے ساتھ ساتھ ماہی گیری پر بھی انحصار بڑھائے گا۔ حصص کی بین الاقوامی منڈیوں میں اس خسارے کی وضاحت کرتے ہوئے ہانگ کانگ میں سٹاک مارکیٹ کے تجزیہ کار بین کوانگ نے کہا، ’’یہ سٹاک مارکیٹ انڈکس میں منطقی اصلاح کا وہ عمل تھا، جس کا ایک طرح سے کافی عرصے سے انتظار کیا جا رہا تھا۔

اس کی وجہ سرمایہ کاروں کے امریکا میں سود کی مرکزی شرح میں اضافے سے متعلق خدشات بنے۔‘‘ پیر کے روز ڈاؤ جونز انڈکس میں بہت زیادہ کمی ایک ایسے وقت پر دیکھنے میں آئی، جب امریکا میں فیڈرل ریزرو نامی مرکزی بینک کے نئے سربراہ جیروم پاویل اپنی ذمے داریاں سنبھال رہے تھے۔ بھارتی سٹاک مارکیٹ میں بھی قریب تین فیصد اور آسٹریلین سٹاک مارکیٹ میں 3.2 فیصد کا خسارہ ریکارڈ کیا گیا۔ اس کے علاوہ کئی دیگر ایشیائی ممالک کی شیئر مارکیٹوں میں بھی خسارے کا یہی رجحان دیکھنے میں آیا۔

بشکریہ DW اردو

Leave a comment