بھارت میں عدالتی نظام کیا واقعی امیروں کاغلام ہے؟

حال ہی میں بھارتی سپریم کورٹ سے سبکدوش ہونے والے جج جسٹس دیپک گپتا کے اس بیان کے بعد کہ ‘بھارت میں قانون اور انصاف چند امیر اور طاقت ور لوگوں کی مٹھی میں قید ہے‘، عدالتی غیر جانبداری پر بحث ایک بار پھر چھڑ گئی ہے۔ بھارتی عدالتی نظام میں پائی جانے والی خامیوں کی طرف انگلی اٹھانا یوں تو کوئی نئی بات نہیں ہے تاہم ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا جب اس طرح کی باتیں عدالتی نظام سے تعلق رکھنے والے کسی انتہائی اہم شخصیت کی طرف سے آئے۔ بھارتی عدلیہ سے چارعشروں سے بھی زیادہ عرصے سے وابستہ اور مختلف اہم عہدوں سمیت سپریم کورٹ کے جج کی حیثیت سے کئی اہم فیصلوں کے لیے معروف جسٹس دیپک گپتا نے چھ مئی کو اپنی ‘ورچوول‘ الوداعی تقریب کا استعمال بھارت کے عدالتی نظام میں پائی جانے والی خامیوں اور ان کو دور کرنے کے طریقہ کار پر بحث شروع کرنے کے لیے کیا۔

جسٹس گپتا کے مطابق بھارت کا قانون اور عدالتی نظام دولت مند اور طاقتور لوگوں کی مٹھی میں قید ہے۔ کوئی امیر اور طاقتور شخص اگر سلاخوں کے پیچھے ہوتا ہے تو کسی نہ کسی طرح سے اپنے کیس کی تیزی سے سماعت کا حکم حاصل کرا ہی لیتا ہے اور اگر وہ ضمانت پر ہوتا ہے تو سماعت کو ٹالتا رہتا ہے۔ جسٹس گپتا کا کہنا تھا کہ اس کا خمیازہ غریب مدعاعلیہ کو اٹھانا پڑتا ہے کیوں کہ اس کے پاس اتنے وسائل نہیں ہوتے کہ عدالت پر دباو ڈلوا سکے۔ اس طرح اس کے مقدمے کی سماعت ٹلتی چلی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ امیر اور غریب کی اس لڑائی میں عدالت کے ترازو کے پلڑوں کا جھکاؤ ہمیشہ محروموں کی جانب ہونا چاہیے تبھی انصاف کے پلڑے برابر ہو سکیں گے۔

جسٹس گپتا کا کہنا تھا کہ موجودہ وقت اور دور میں ہر جج کو یہ ضرور پتہ ہونا چاہیے کہ اس کے آس پاس کیا ہو رہا ہے۔ وہ اپنے اطراف میں ہونے والے واقعات سے انجان بن کر نہیں رہ سکتا۔ انہوں نے کہا ”موجودہ دور میں جج ‘آئیوری ٹاور‘ میں نہیں رہ سکتے۔” انہوں نے وکلاء کو مشورہ دیا کہ عدالتوں میں مقدمات پر بحث کرتے وقت اپنے سیاسی یا دیگر تعلقات سے بالاتر ہو کر قانون کے مطابق کیس کی پیروی کرنی چاہیے۔ سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس گپتا کے ان خیالات کو کافی سراہا جارہا ہے۔ نلسار یونیورسٹی آف لا کے وائس چانسلر پروفیسر فیضان مصطفی نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ یہ بالکل درست ہے کہ ہمارے قوانین میں ایک ‘کلاس کیریکٹر‘ ہے اور اس میں بھی دو رائے نہیں کہ وہ امیروں کی طرف داری کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا ”مثال کے طور پر اس ضابطہ کو ہی لے لیجیے جس کے تحت ایک ملزم کو ضمانت کے طور پر ‘شیورٹی بانڈ‘ بھرنا پڑتا ہے۔ کبھی ایک ہزار روپے کا بانڈ لانا ہوتا ہے تو کبھی ایک لاکھ روپے کا۔ ایک غریب آدمی بانڈ کیسے لائے گا؟

سپریم کورٹ کے سینئر وکیل پرشانت بھوشن نے جسٹس گپتا کی تعریف کرتے ہوئے ٹوئٹر پر لکھا کہ وہ ایسے جج تھے جنہوں نے آئین اور شہریوں کے حقوق کی حفاظت کرنے کے عہد کو نبھایا اور کسی جانبداری اور کسی خوف کے بغیر انصاف کیا۔ خیال رہے کہ ججوں کی سبکدوشی کے بعد ان کے اعزاز میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی طرف سے ایک باوقار تقریب منعقد کی جاتی ہے لیکن کورونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاون کے سبب سپریم کورٹ کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا جب کسی جج کو ‘ورچوؤل وداعی‘ دی گئی۔ جب جسٹس گپتا سے پوچھا گیا کہ انہیں یہ سب کیسا محسوس ہوا تو ان کا کہنا تھا ”اگر کووڈ انیس کا معاملہ نہ ہو تب بھی ہمیں ٹیکنالوجی کا بہتراستعمال کرنا چاہیے لیکن ہم نے اب تک ایسا نہیں کیا ہے۔ ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ بالخصوص مقدمات کی سماعت باضابطہ شروع ہونے سے پہلے کے مرحلے میں بعض کیسز میں یہ طریقہ کار کافی بہتر ثابت ہو سکتا ہے۔

مثال کے طور پر زیر سماعت قیدیوں کی ریمانڈ کے سلسلے میں ورچوول سماعت ہو سکتی ہے۔ ویڈیو کانفرنسنگ سے ججوں کو بھی فائدہ ہو گا اور بعض وکلاء کی غیر ضروری ڈرامے بازی بھی کم ہو جائے گی۔ جسٹس گپتا کے خیال میں عدالت کے فیصلے پر تنقید کرنے کا رجحان صرف بھارت تک ہی محدود نہیں ہے۔ دنیا میں دوسری جگہوں پر بھی ایسا ہوتا ہے لیکن اس کی بنیاد پر کسی کے لیے عدالت کے دروازے بند نہیں کیے جاسکتے۔ عدالت سے انصاف طلب کرنا ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔ ماہر قانون اور نلسار یونیورسٹی آف لا کے وائس چانسلر فیضان مصطفی کا کہنا ہے کہ یہ سوال بہر حال اپنی جگہ برقرار رہے گا کہ جسٹس گپتا جیسے ججوں کی باتوں کے بعد بھارت کے عدالتی نظام میں کوئی تبدیلی آتی ہے یا نہیں۔

پروفیسر مصطفی کے مطابق اس طرح کی باتیں کہنے کے ساتھ ساتھ بہتر یہ ہو گا کہ ملک کے جج اپنے فیصلوں میں بھی اس طرح کے ریمارکس درج کریں تا کہ یہ باضابطہ ریکارڈ پر آسکیں۔ انہوں نے اس حوالے سے یاد دلایا کہ حال ہی میں کس طرح مہاجر مزدوروں کے لیے راحت کا مطالبہ کرنے والی عرضی کو کئی دنوں تک سپریم کورٹ میں سماعت کی تاریخ ہی نہیں ملی۔ جبکہ اس دوران لاکھوں افراد پریشان ہوتے رہے۔ مہاجر مزدورں کی راحت کے لیے 15 اپریل کو دائر کی گئی عرضی پر پہلی سماعت 27 اپریل کو ہو سکی۔ دوسری طرف معروف ٹی وی نیوز اینکر ارنب گوسوامی کی عرضی رات آٹھ بج کر سات منٹ پر دائر کی گئی اور سپریم کورٹ نے اس پر اگلے ہی روز صبح ساڑھے دس بجے سماعت کرنے کا وقت دے دیا۔

بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو

Leave a comment