بھارت میں مزدروں کا پیدل سفر اور ہلاکتیں جاری

بھارت میں دو ماہ سے جاری لاک ڈاؤن میں درجنوں مہاجر مزدر گھر واپسی کے لیے پیدل یا پھر سائیکل سے سفر کے دوران ہلاک ہو چکے ہیں اور یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔ بھارت میں کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے جاری لاک ڈاؤن سے سب سے زیادہ غریب افراد، خاص طور پر مہاجر مزدر، متاثر ہوئے ہیں۔ ملازمت، روزگار اور کھانے پینے کی چیزوں سے محروم ایسے افراد اپنے آبائی علاقوں تک واپسی کے لیے بے چین ہیں اور اس کوشش میں اب تک درجنوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں چار مزید مہاجر مزدور گھر کی واپسی کے دوران ہلاک ہوئے جن میں دو خواتین بھی شامل ہیں۔ چھ مزدروں پر مشتمل ایک قافلہ ریاست مہاراشٹر سے ایک آٹو رکشہ میں سوار ہوکر یوپی کے جون پور آرہا تھا۔ تقریبا 1300 کلو میٹر کا سفر طے کرنے کے بعد جب یہ لوگ گھر کے قریب تھے کہ فتح پور کے پاس ایک ٹرک سے ٹکّر میں ایک خاتون اور ان کی بیٹی موقع پر ہی ہلاک ہو گئی۔ اس واقعے میں دیگر افراد کو شدید چوٹیں آئی ہیں۔

اسی طرح کے ایک دوسرے واقعے میں ہریانہ میں پیدل سفر پر نکلنے والے ایک مزدر کی موت ہو گئی۔ دو مزدور انبالہ سے بہار کے لیے پیدل سفر پر نکلے تھے جنہیں ایک کار نے ٹکّر مار دی۔ ان میں سے ایک موقع پر ہی ہلاک ہو گیا جبکہ دوسرا شدید طور زخمی ہسپتال میں زندگی اور موت سے نبرد آزما ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ دونوں مزدوروں کا تعلق بہار سے ہے جو گھر جا رہے تھے۔ گزشتہ رات سائیکل پر سوار ایک اور مہاجر مزدور گھر جانے کے دوران رائے بریلی میں ہلاک ہوا۔ 25 سالہ مہاجر مزدور شیو کمار داس مغربی یوپی کے بلند شہر سے بہار جا رہے تھے اور وہ بھی کار حادثے کا شکار ہو گئے۔ گزشتہ روز سائیکل پر سوار دو اور مہاجر مزدور گورکھپور میں ہلاک ہوئے تھے۔ یہ جنوبی ریاست تلنگانہ سے آرہے تھے۔ اس سے قبل 26 سالہ صغیر لکھنؤ میں ہلاک ہوئے جو دلی سے بہار سائیکل پر جا رہے تھے۔ اور چند روز قبل ہی لکھنؤ میں چھتیس گڑھ کے میاں بیوی اس وقت ہلاک ہو گئے جب وہ اپنے بچوں کے ساتھ سائیکل پر گھر واپس جانے کی کوشش کر رہے تھے۔

گزشتہ تقریبا ًڈیرھ ماہ سے اس طرح کی خبریں متواتر مل رہی ہیں۔ بظاہر یہ تمام افراد حادثات کا شکار ہوئے لگتے ہیں لیکن اس کے پیچھے لاک ڈاؤن کے سبب پنپنے والی بے روزگاری، فاقہ کشی، غیر یقینی صورتحال اور افراتفری ہے۔ بے سہارا اور بے یار و مددگار مزدورں میں ایک عجیب سا خوف اور اضطراب ہے کہ جان کی پرواہ کیے بغیر سب اپنے گھروں کوواپسی کے لیے بے چین ہیں۔ مایوسی اور اضطراب کی کیفیت اور بھوک سے کورونا کا خوف زائل ہو گیا ہے اور وہ ہزاروں میل کا سفر پیدل طے کرنے کے لیے مجبور ہیں۔ کوئی سائیکل پر سوار ہے تو کوئی راستے میں ٹرک، ٹریکٹر یا جو بھی سواری ملے اس سے مدد لے کر گھر پہنچنا چاہتا ہے۔ حسب معمول جب تک حکومت کو اس کا احساس ہوتا بہت دیر ہوچکی تھی۔ ان مہاجر مزدوروں کے لیے ریل یا بسوں کے کچھ انتظامات بھی کیے گئے ہیں تاہم ہر جانب افراتفری کا عالم ہے اور بحران اس بڑے پیمانے کا ہے کہ حکومت کے انتظامات کو ‘اونٹ کے منہ میں زیرہ’ سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔

چند روز قبل ریاست مہاراشٹر سے بیس مزدروں کا قافلہ ریاست مدھیہ پردیش کے بھساول جا رہا تھا اورتقریبا ًپچاس کلومیٹر کے پیدل سفر کے بعد ریل کی پٹری پر رات کے وقت آرام کے لیے رکا تو انہیں نیند آگئی۔ اس میں سے سولہ مزدور علی الصبح پٹری پر آنے والی مال گاڑی کے نیچے کٹ کر ہلاک ہو گئے۔ ابھی اس واقعے پر حکومت اور وزراء افسوس کا اظہار کر ہی رہے تھے کہ مدھیہ پردیش سے یوپی آنے والے چھ مزدور اس وقت ہلاک ہو گئے جب ایک ٹرک راستے میں پلٹ گیا۔ ایسے واقعات کی فہرست طویل ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اس پر نہ تو ریاستی حکومتوں کی اور نہ ہی مرکزی حکومت کی کوئی خاص توجہ ہے۔ اس وقت سب کورونا وائرس کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے میں مصروف ہیں۔

بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو

Leave a comment