کورونا وائرس : پاکستان میں خطرے کی گھنٹی

طبی ماہرین، ڈاکٹروں کی تنظیمیں حتیٰ کہ عالمی ادارۂ صحت بھی بار بار متنبہ کر رہا تھا کہ پاکستان میں کورونا وائرس تیزی سے بڑھ رہا ہے، جس کی اب وفاقی حکومت کے دو اہم ترین ذمہ داروں نے بھی تصدیق کر دی ہے۔ وفاقی وزیر منصوبہ بندی اور نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول سنٹر کے سربراہ اسد عمر نے ایک میڈیا بریفنگ میں اعتراف کیا کہ کورونا وائرس سے ملک میں ہونے والی اموات میں 242 فیصد اضافہ ہوا ہے اور ماہِ رواں میں کورونا کے متاثرین کی تعداد 3 لاکھ اور جولائی کے آخر تک 12 لاکھ تک پہنچنے کا خدشہ ہے۔ وزیراعظم کے معاونِ خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے بھی اس اندیشے کو درست قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ جولائی تک متاثرین کی تعداد دس لاکھ تک پہنچ سکتی ہے جبکہ ایک اور حکومتی شخصیت کا کہنا ہے کہ کورونا کے حوالے سے پاکستان میں جو اعداد و شمار ظاہر کیے جا رہے ہیں اصل میں وہ اس سے کہیں زیادہ ہیں۔

اسد عمر نے میڈیا کو بتایا کہ کورونا نے تو ابھی پھیلنا ہے، مسئلہ اس وقت یہ ہے کہ اس کی رفتار کیسے کم کی جائے ورنہ صحت کا سارا نظام مفلوج ہو جائے گا، ایسے حالات میں ڈاکٹروں کی ہدایات پر جتنا عمل کریں گے کورونا کا پھیلائو اتنا ہی کم ہو گا، اس حوالے سے عوام کو احتیاطی تدابیر پر سختی سے عمل کرنا ہو گا خاص طور پر ماسک پہننا ہو گا جس سے کورونا کیسز میں 50 فیصد کمی آ سکتی ہے، حکومت زیادہ متاثر ہونے والے علاقوں میں اسمارٹ لاک ڈائون کر ے گی جس کا لاہور سے آغاز کر دیا گیا ہے۔ عالمی ادارۂ صحت نے دنیا بھر کی حکومتوں سے کہا تھا کہ وہ کورونا پر سیاست کرنے کے بجائے اس کا عملی اور متفقہ حل تلاش کریں، پاکستان میں صورت حال اس کے برعکس دکھائی دی۔ یہاں شروع ہی سے اعلیٰ ترین حکومتی سطح سے یہ تاثر دیا گیا کہ کورونا سے ڈرنا نہیں ہے جس کا مطلب یہ لیا گیا کہ اس سے بچنے کے لیے کچھ کرنا بھی نہیں ہے چنانچہ عوام نے یہاں کے عمومی مزاج کے مطابق اس وبا کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔

سندھ حکومت نے دنیا کے دیگر ممالک کی طرح فوری لاک ڈائون کیا جس کے وفاق کی جانب سے حوصلہ افزائی نہ ہونے کے باعث مطلوبہ نتائج کم برآمد ہوئے۔ وفاق کی طرف سے ایک جانب لاک ڈائون کے خلاف دلائل دیئے جاتے رہے تو دوسری طرف لاک ڈائون کا اعلان بھی کیا گیا جس پر لوگوں نے کنفیوژن کی وجہ سے زیادہ توجہ ہی نہ دی، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اب کورونا تیزی سے پھیل رہا ہے۔ عالمی پس منظر میں دیکھا جائے تو پوری دنیا میں اس وقت کورونا کی وبا کم ہو رہی ہے اور وہ ممالک بھی جہاں ہزاروں کی تعداد میں لوگ مر گئے، لاک ڈائون ختم کر رہے ہیں کیونکہ انہوں نے ایسے اقدامات کیے جن کی وجہ سے وہاں صورتحال بہتر ہوئی۔

پاکستان میں یہ وبا بعد میں آئی اس لئے اسے ایسے ممالک کے تجربات سے سیکھنا چاہئے تھا اور ان کے طور طریقے اپنا کر وبا کو روکنا چاہئے تھا مگر یہاں ڈاکٹروں، ڈبلیو ایچ او اور ماہرین کی رائے کو مصلحتوں کی وجہ سے نظر انداز کر کے مناسب اقدامات نہیں کیے گئے جس کے نتیجے میں صورت حال اب خطرناک ہوتی جا رہی ہے۔ اسپتال مریضوں سے بھر گئے ہیں، ٹیکے لاکھوں کے ہو گئے ہیں، پلازمہ مل نہیں رہا اور متعلقہ اداروں نے بھی سست روی کا مظاہرہ کیا۔ ایسے میں ضروری ہو گیا ہے کہ حکومت معاملہ مزید بگڑنے سے پہلے اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کرے، اجتماعی رائے کی روشنی میں غلطیوں کی اصلاح کرے، کنفیوژن دور کرے، ہیلتھ سروسز کو مضبوط بنائے اور ہیلتھ ورکرز اور ایس او پیز پر عملدرآمد کرانے والے عملے کو خطرات سے بچانے کیلئے ضروری اقدامات کرے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ

کورونا وائرس ۔ چند تجاویز

لاک ڈائون ایک ناپسندیدہ اور نقصان دہ عمل ہے۔ معیشت کیلئے تباہ کن تو سماج کیلئے مصیبت لیکن المیہ یہ ہے کہ کورونا کے سلسلے کو توڑنے کا ابھی تک دنیا نے اس کے علاوہ کوئی اور طریقہ ہی ایجاد نہیں کیا۔ چین، روس، امریکہ، سعودی عرب، ترکی غرض دنیا کے ہر ملک کو لامحالہ یہی راستہ اپنانا پڑا۔ ہمارے ہاں ان ممالک کی نسبت غربت بہت زیادہ ہے لیکن معیشت جتنی بڑی اور ترقی یافتہ ہوا کرتی ہے، لاک ڈائون اس کیلئے اتنا ہی زیادہ خطرناک ثابت ہوتا ہے ۔ مثلاً پورے پاکستان کو بند کرنے سے جتنا نقصان ہو گا اس سے کئی گنا زیادہ امریکہ کو صرف نیویارک شہر کی بندش سے ہو جاتا ہے۔ اس کی مثال یوں سمجھ لیجئے کہ افغانستان میں سینکڑوں دھماکوں سے وہاں کی معیشت اتنی متاثر نہیں ہوتی جتنی پاکستان میں ایک دھماکے سے ہو جاتی ہے کیونکہ افغانستان میں اسٹاک ایکسچینج کا مسئلہ ہوتا ہے اور نہ باہر کی دنیا کی ٹریول ایڈوائزری وغیرہ کا۔

ترقی یافتہ ممالک اپنے شہریوں کو گھروں کے اندر لمبے عرصہ تک کھلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں غربت بہت زیادہ ہے اور حکومت لوگوں کو گھروں پر نہیں کھلا سکتی لیکن یہاں بھی غربت اور بھوک کے فرق کو مدنظر رکھنا چاہئے۔ کورونا سے قبل بھی ہماری جی ڈی پی گروتھ تاریخ کے کم ترین شرح پر آگئی تھی اور لاک ڈائون نہ ہو تو بھی ہم لوگوں کو روزگار دے سکتے ہیں، مناسب تعلیم، صحیح علاج اور نہ دیگر سہولتیں۔ یہاں ہمہ وقت ہر شخص اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہوتا ہے لیکن جتنی یہاں غربت زیادہ ہے، الحمدللہ اتنی یہاں بھوک نہیں ہے۔ ہماری سماجی ساخت، خاندانی نظام اور انفاق کے رجحان کی وجہ سے آج تک کوئی بھوک سے نہیں مرا۔ لوگ حادثات سے مرتے ہیں، علاج نہ ہونے کی وجہ سے مرتے ہیں، ڈپریشن اور نشہ کرنے کی وجہ سے مرتے ہیں لیکن مطلق بھوک سے کوئی کسی کو مرنے نہیں دیتا۔ پاکستان تو پاکستان ہے آج تک جنگ زدہ افغانستان سے بھی کسی کے بھوک سے مرنے کی خبر نہیں آئی۔

البتہ امریکہ اور یورپ جیسے ممالک جہاں خاندانی اور سماجی نظام کمزور ہے اور جہاں کھلانے کی ذمہ داری ریاست کی ہے، وہاں اگر زیادہ عرصہ لاک ڈائون ہو تو ہو سکتا ہے کہ لوگ بھوک سے مرنے لگ جائیں۔ ویسے بھی یہ معیشت اور روزگار وغیرہ اس وقت درکار ہوتے ہیں جب انسان زندہ ہوں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ کورونا سے سب سے زیادہ غریب متاثر ہوتے اور مرتے ہیں، اس لئے لاک ڈائون نہ کرنے کیلئے غریب کو ہتھیار بنانا شاید زیادتی ہے۔ ہم سے بنیادی غلطی یہ ہوئی کہ کورونا کے چین سے ایران تک پھیلنے کے باوجود ہم نے احتیاطی تدابیر اور نہ مناسب تیاری کی۔ اس سے بڑی غلطی یہ کی کہ لاک ڈائون لگانے کیلئے تیاری کی اور نہ اٹھانے کیلئے۔ بروقت لگانے کے بجائے دیر سے لگایا اور پھر عید کے دنوں میں ایسے وقت میں کھول دیا جب متاثرین اور ہلاکتوں کا گراف اوپر جارہا تھا۔

ہمارا لاک ڈائون بھی برائے نام تھا اور کئی حوالوں سے اس پر عمل بھی نہیں ہوا لیکن ہم نے لوگوں کو پہلے سے مطلع اور مناسب تیاری کئے بغیر پہلے تو لاک ڈائون کر دیا اور پھر اسی طرح مناسب اقدامات کے بغیر اس کو اٹھا لیا، جس کی وجہ سے لوگ بازاروں اور کاروباری مراکز پر ٹوٹ پڑے اور نتیجتاً کورونا گھر گھر پہنچ گیا۔ لاک ڈائون نرم کرنے سے قبل ماسک نہ پہننا جرم قرار دینا چاہئے تھا لیکن ہماری حکومت آج کئی ماہ بعد ماسک لازمی قرار دے رہی ہے۔ نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ عوام اور ڈاکٹروں کو کورونا اور حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ یہ ڈاکٹروں کی مہارت اور شعبہ ہے۔ بدقسمتی سے وقت نے ڈاکٹروں کی پیشینگوئیوں کو حرف بحرف درست جبکہ حکومت کے اندازوں کو غلط ثابت کر دیا۔ اس لئے اب ضد چھوڑ کر ڈاکٹروں کی بات مان لینی چاہئے۔ اب کی بارلاک ڈائون تیاری کے ساتھ کیا جائےاور مناسب اقدامات کے بعد اٹھایا جائے۔

پہلے لاک ڈائون میں لوگوں کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ لاک ڈائون کب ختم ہو گا، اس لئے بے چینی زیادہ تھی۔ اس لئے اب حکومت ڈبلیو ایچ او کی تجویز مان کر پہلے سے اعلان کر دے کہ لاک ڈائون دو ہفتوں کیلئے کیا جائے گا تاکہ لوگ اس حساب سے اپنی منصوبہ بندی کر سکیں۔ اسی طرح لاک ڈائون سے قبل لوگوں کو تیاری کیلئے ایک یا دو دن کی مہلت دی جائے اور ان دنوں میں دکانوں اور بینکوں وغیرہ کو چوبیس گھنٹے کھلا رکھا جائے تاکہ لوگ وہاں ٹوٹ نہ پڑیں اور باری باری اپنی ضروریات کو پورا کر سکیں۔ حکومت نے یہ بھی غلطی کی کہ جب لاک ڈائون ختم کیا تو بازاروں کیلئے پانچ بجے تک کا وقت رکھا چنانچہ جب لوگوں کے ذہن میں یہ بات بیٹھی ہو کہ پانچ بجے سب کچھ بند ہو جانا ہے تو وہ ٹوٹ پڑتے ہیں۔ بیشک لاک ڈائون شہروں تک محدود ہو، دیہات میں کسانوں کو اپنا کام کرنے دیا جائے لیکن وہاں ایس اوپیز پر پولیس کے ذریعے سختی سے عمل درآمد کرایا جائے۔

لاک ڈائون کے دوران لوگوں کی رہنمائی اور ان تک مدد پہنچانے کیلئے لوکل گورنمنٹ سسٹم کو وقتی طور پر بحال کیا جائے کیونکہ باہر کےعلاقوں سے آئے ہوئے سرکاری افسران کی نسبت یونین کونسل کی سطح پر منتخب ممبران اچھی طرح جانتے ہیں کہ علاقے میں کون غریب ہے اور کس کا گزارا ہو سکتا ہے۔ پی ٹی آئی ٹائیگرز فراڈ کے سوا کچھ نہیں۔ یہ کام انکے بجائے لوکل گورنمنٹ کے ممبران ہی بہتر انداز میں کر سکتے ہیں۔ ایک اور تجویز یہ ہے کہ وزیراعظم مرکز کی سطح پر اور وزرائے اعلیٰ صوبوں کی سطح پر فلاحی اداروں کا اجلاس بلائیں اور ان میں تقسیم کار کریں کہ وبا کے دنوں میں کس نے کیا کام کرنا ہے۔ جب تک کورونا کا مسئلہ ہے تب تک کورونا کا علاج کرنے والے تمام طبی عملے کی تنخواہوں کو ڈبل کر دیا جائے۔

آخری گزارش یہ ہے کہ این سی او سی میں ڈاکٹر طاہر شمسی، ڈاکٹر عطاالرحمٰن، ڈاکٹر شاذلی منظور، ڈاکٹر سعید اختر، ڈاکٹر جاوید اکرم (یہ وہ ڈاکٹرز ہیں کہ حکومتی ماہرین کے برعکس جن کے اندازے بالکل درست ثابت ہوئے ہیں) کو بھی شامل کیا جائے بلکہ اگر اس میں ڈاکٹر غلام صابر جیسے ہیومیوپیتھ اور قدیم طب کے ایک آدھ جینوئن ماہر کو بھی شامل کیا جائے تو زیادہ بہتر ہو گا۔

سلیم صافی

بشکریہ روزنامہ جنگ

ارطغرل غازی سے بغض

اِس ملک کا دین بیزار طبقہ (جس کا ایک گروہ برقی میڈیا پر مسلط کر دیا گیا ہے) بے پناہ مقبول ہونے والے ڈرامے ارطغرل غازی کی اِس لیے مخالفت کر رہا ہے کہ اس میں پیروکارانِ محمد ﷺ کی عظمت کو اجاگر کیا گیا ہے اور اسلام سے عناد رکھنے ولا یہ طبقہ، دینِ اسلام کی عظمت سے جُڑی ہر چیز سے بُغض رکھتا ہے۔ لیکن قرائن بتاتے ہیں کہ ﷲ اور رسول ؐ کے نظرّیہء حیات کے یہ باغی جو مسلم نوجوانوں کو مغربی کلچر اور ہندو تہذیب کا غلام بنانا چاہتے ہیں، ناکام و نامراد ہوںگے۔ نوجوانوں کی ترجیحات بدل رہی ہیں۔ وہ حیوانی جذبے اُبھارنے والی لچر فلموں اور بھارتی کلچر کا پرچار کرنے والے ڈراموں سے متنفّر ہو رہے ہیں۔ ترکی ہو یا پاکستان دونوں ملکوں کے نوجوانوں کی منزل ایک ہے اور وہ اُسی راستے پر گامزن ہو رہے ہیں اور وہ راستہ مسلمانوں کی غلامی اور مرعوبیّت کا نہیں، وہ اسلام کی رفعت ، شوکت اور عظمت کا راستہ ہے۔

ذوالفقار احمد چیمہ  

بشکریہ ایکسپریس نیوز

کورونا وائرس پر شک و شبہات

پوری دنیا اس وقت کورونا وائرس کا شکار ہے۔ اب 3 ماہ کے کلی اور جزوی لاک ڈائون پر شکوک کے بادل منڈلانے لگے ہیں۔ بڑے بڑے نامور پروفیسر صاحبان پہلے اس وائرس کو سمجھنے میں لگے ہوئے تھے، اب اس پر اپنے اپنے تحفظات؍ تحقیقات کا کھل کر اظہار کر رہے ہیں۔ حال ہی میں ایک نامور کیمسٹری کے پروفیسر مائیکل لیوٹ جن کو 2013ء میں کیمسٹری میں نوبیل پرائز ملا تھا، نے برملا اس وائرس پر کھل کر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک غیر تحقیق شدہ مفروضہ وائرس صرف اقتصادی ماہرین کی منطق سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ جس پر سائنسی ماہرین کی رائے ایک جیسی نہیں ہے اور نہ اس کا کوئی حتمی حل نظر آرہا ہے۔ ماسوائے اقتصادی تباہی، اربوں انسانوں کو لاک ڈائون کر کے بھوک پیاس اور خوف سے مارا جا رہا ہے۔

انہوں نے بھارتی حکومت پر خصوصی طور پر تبصرہ کرتے ہوئے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے توجہ دلائی کہ 1 ارب 40 کروڑ عوام کو 2 ماہ غیر صحتمند علاقوں، مکانوں اور بستیوں میں قید رکھا گیا، جبکہ وائرس سے اموات صرف چند سو تھیں۔ بھوک اور گھٹن سے کتنی اموات ہوئیں، اس غریب ملک میں جہاں 30 فیصد آبادی بے گھر ہے، 2 وقت کا کھانا بھی دستیاب نہیں، کل کام ملے گا یا نہیں اس خوف سے کتنے لوگ مر گئے، اس کا کوئی حساب نہیں ہے۔ پوری دنیا کو بیروزگاری میں مبتلا کر کے کس کس کو فائدہ پہنچانا مقصود ہے۔ یقیناً یہ ایک گھنائونا کھیل، انسانوں کی آبادیاں کم کرنے اور معیشت پر کنٹرول کرنے کی سازش گزشتہ 10 سال سے خصوصی طور پر تیار کی گئی تھی۔

یہی نہیں امریکہ جو اس وائرس کی لپیٹ میں سب سے آگے ہے، یہاں کے دانشور اور ماہر اقتصادیات بھی اب کھل کر لاک ڈائون کے خلاف میدان میں عوام کے شانہ بشانہ آ چکے ہیں۔ ہر محاذ پر اس کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ بیروزگاری سے تنگ آکر امریکہ کی پہلے 28 ریاستوں نے بغاوت کی اور عوام کے غم و غصہ سے بچنے کے لئے لاک ڈائون میں نرمیاں کیں، پھر اب پورے امریکہ سے لاک ڈائون ختم کر دیا۔ شراب خانے، جوا خانے، شاپنگ مالز ایک ایک کر کے سب کھول دیا گیا ہے۔ ریسٹورنٹس میں عوام کو کھانا کھانے کی اجازت بھی مل چکی ہے، کئی ریاستوں میں ماسک اور فاصلے بھی ختم کر دیے گئے ہیں۔ اٹلی جو اس مہلک وائرس کا شکار دوسرا بڑا ملک ہے، جہاں 35 ہزار اموات اور لاکھوں مریضوں ہیں، اس کی پارلیمنٹ کی ایک معزز رکن سارہ کونیل نے اس وائرس کا موجد مائیکرو سافٹ کمپنی کے مالک بل گیٹس کو ٹھہرا کر پوری دنیا کو حیران کر دیا۔

اپنی تقریر میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کی معلومات کے مطابق اربوں ڈالر خرچ کر کے بل گیٹس نے اپنی کورونا چپس بیچنے کے لئے یہ خوف پھیلایا اورعالمی میڈیا کو اپنے ساتھ ملا کر 8 ارب چپس عوام کے جسموں میں لگا کر اپنے نامعلوم عزائم کے لئے 10 سال سے راہیں پیدا کی گئیں تاکہ وہ ان کی ویکسین اور چپس سے بڑھتی ہوئی آبادیوں کو کنٹرول کر سکے۔ خصوصاً افریقہ کی غریب آبادیاں ان کا ٹارگٹ تھیں اس لئے انہوں نے اپنی ویکسین کو آزمانے کے لئے کینیا کو بہت بڑی رقم پیش کی جس کو کینیا کی حکومت نے ٹھکرا دیا، انہوں نے بل گیٹس کو بین الاقوامی مجرم ٹھہراتے ہوئے عالمی عدالت میں ان پر مقدمہ چلانے کا مطالبہ کیا ہے۔

اس سینئر رکن اسمبلی کی تقریر کو عالمی میڈیا نے خاص کوریج نہیں دی اور دیگر میڈیا نے خصوصاً مائیکرو سافٹ کے زیر اثر ہونے کے سبب اس خبر کا بلیک آئوٹ کیا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ٹرمپ نے اپنا الیکشن جیتنے کیلئے چین کی معیشت کو تباہ کرنے کے لئے یہ کھیل رچایا تھا اور بار بار کہہ رہا ہے کہ آپ کورونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈائون بند کریں اور اس نے اس کو نیچا دکھانے کے لئے 28 کمپنیوں کو وہاں سے نکال کر انڈونیشیا میں نئے معاہدے پر دستخط کئے۔ الیکشن جیتنے کے لئے اسی طرح فلسطین کو تقسیم کر کے بیت المقد س پر یہودیوں کے قابض ہونے کا جو پلان بنایا تھا وہ سارا اس کے اگلے الیکشن کا اہم حصہ ہے۔

بہت سے لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ پوری دنیا کی معیشت جو امریکی یہودیوں کے نو، دس اداروں کے پاس ہے وہ آئی ایم ایف کے ذریعے پوری دنیا کو مفلوج بنانا چا ہتے تھے اور وہ اس پر کافی حد تک کامیاب ہو چکے ہیں، اس لئے یہ وائرس کا معاملہ شک و شبہات سے بھرپور ہے۔ اس وقت اس وائرس کی وجہ سے ایئر لائنز کی صنعت کو 60 ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔ ہزاروں طیارے پوری دنیا کے ہوائی اڈوں پر قطار در قطار کھڑے طیاروں کے قبرستان کا منظر پیش کر رہے ہیں۔ لاکھوں ایئر لائنز اسٹاف کو فارغ کیا جا چکا ہے، اس سے ملحق ہوٹل، ریسٹورنٹس اشیاء کی بندش سے 130 ارب ڈالرز کی مزید انڈسٹری کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔

البتہ پیٹرول کی قیمتیں 30 ڈالر تک واپس آچکی ہیں۔ عرب امارات، افریقی ممالک، کوریا، تائیوان، یورپی یونین اور برطانیہ کی حکومتیں لاک ڈائون ختم کر چکی ہیں اور آہستہ آہستہ دیگر ممالک بھی لاک ڈائون بتدریج ختم کر رہے ہیں۔ جولائی تک حتمی طور پر پوری دنیا لاک ڈائون سے چھٹکارا پا سکے گی، بشرطیکہ اس وائرس کے منفی اثرات میں غیر معمولی تیزی نہ آئے۔ مگر ایک بات ہے ہر طبقہ میں اس وائرس پر شک و شبہ کا اظہار بڑھتا جا رہا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ بھوک و افلاس اور بیروزگاری ہے جو 90 فیصد دنیا کی آنکھیں کھول چکی ہے۔

خلیل احمد نینی تا ل والا

بشکریہ روزنامہ جنگ

نیویارک ٹائمز نے کورونا کے خلاف مودی سرکار کی پالیسیوں کو ناکام قرار دیدیا

نیو یارک ٹائمز نے کورونا کے خلاف مودی سرکار کی پالیسیوں کا پول کھولتے ہوئے کہا ہے کہ سخت لاک ڈاوٴن کے باوجود بھارت میں کورونا کیسز اور اموات زیادہ ہیں۔ نیویارک ٹائمز کی جانب سے جاری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارتی عوام حکومت پر اعتماد کھونے لگے ہیں، سخت لاک ڈاوٴن کے باوجود بھارت میں کورونا کیسز اور اموات زیادہ ہیں جب کہ پاکستان میں بھارت کے مقابلے میں کیسز کم ہیں، جنوبی ایشیاء میں لاک ڈاؤن ہی نہیں بلکہ دیگر عوامل بھی اہم تھے، جنہیں مودی حکومت نے نظر انداز کیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سوال یہ ہے کہ کیا مودی حکومت نے سخت اقدامات کیے، شرح اموات سے لگتا ہے ایسا نہیں ہوا، بھارت میں 60 فیصد کیسز صرف ممبئی، دہلی، احمد آباد، چنائے اور پونے سے ہیں، ممبئی میں سب سے زیادہ 20 فیصد کورونا کیسز سامنے آئے جب کہ مودی کے آبائی علاقے گجرات میں بھی ایسی ہی صورتحال ہے۔

نیویارک ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ ہندوستانی مالیاتی دارالحکومت ممبئی اور چنائے اپنے بیشتر صحت وسائل گنوا بیٹھے ہیں، مودی کی پالیسیوں نے لوگوں کو بھوک اور افلاس سے مار دیا ہے، بیشتر غریب لوگ اس پالیسی کا شکار ہوئے جس سے ثابت ہو گیا کہ مودی کا ہندوستان صرف امیروں کے لئے ہے، آج کاسٹ سسٹم واضح ہو گیا کس طرح اقلیتوں کو وبا میں بے یارو مددگار چھوڑ دیا گیا ہے، ہر غریب اور بے بس ورکر جو کہ تپتے سورج اور بھوک سے نڈھال تھا اس کے لبوں پر صرف ایک بات تھی، خدا پر بھروسہ اور یہ دراصل بد اعتمادی ہے مودی حکومت پر۔ نیویارک ٹائمز نے رپورٹ میں مزید کہا کہ لداخ پر چین کے ہاتھوں ہزیمت کے بعد مودی کی کووڈ پالیسی بھی ناکامی کا شکار ہو گئی، ایل او سی اور دیگر عوامل پر توجہ بھی اس اندرونی ناکامی کو چھپانے کے لیے تھی جب کہ ڈی جی آئی ایس پی آرنے بار ہا اس کا ذکر کیا۔

بشکریہ ایکسپریس نیوز