کورونا وائرس : پاکستان میں خطرے کی گھنٹی

طبی ماہرین، ڈاکٹروں کی تنظیمیں حتیٰ کہ عالمی ادارۂ صحت بھی بار بار متنبہ کر رہا تھا کہ پاکستان میں کورونا وائرس تیزی سے بڑھ رہا ہے، جس کی اب وفاقی حکومت کے دو اہم ترین ذمہ داروں نے بھی تصدیق کر دی ہے۔ وفاقی وزیر منصوبہ بندی اور نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول سنٹر کے سربراہ اسد عمر نے ایک میڈیا بریفنگ میں اعتراف کیا کہ کورونا وائرس سے ملک میں ہونے والی اموات میں 242 فیصد اضافہ ہوا ہے اور ماہِ رواں میں کورونا کے متاثرین کی تعداد 3 لاکھ اور جولائی کے آخر تک 12 لاکھ تک پہنچنے کا خدشہ ہے۔ وزیراعظم کے معاونِ خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے بھی اس اندیشے کو درست قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ جولائی تک متاثرین کی تعداد دس لاکھ تک پہنچ سکتی ہے جبکہ ایک اور حکومتی شخصیت کا کہنا ہے کہ کورونا کے حوالے سے پاکستان میں جو اعداد و شمار ظاہر کیے جا رہے ہیں اصل میں وہ اس سے کہیں زیادہ ہیں۔

اسد عمر نے میڈیا کو بتایا کہ کورونا نے تو ابھی پھیلنا ہے، مسئلہ اس وقت یہ ہے کہ اس کی رفتار کیسے کم کی جائے ورنہ صحت کا سارا نظام مفلوج ہو جائے گا، ایسے حالات میں ڈاکٹروں کی ہدایات پر جتنا عمل کریں گے کورونا کا پھیلائو اتنا ہی کم ہو گا، اس حوالے سے عوام کو احتیاطی تدابیر پر سختی سے عمل کرنا ہو گا خاص طور پر ماسک پہننا ہو گا جس سے کورونا کیسز میں 50 فیصد کمی آ سکتی ہے، حکومت زیادہ متاثر ہونے والے علاقوں میں اسمارٹ لاک ڈائون کر ے گی جس کا لاہور سے آغاز کر دیا گیا ہے۔ عالمی ادارۂ صحت نے دنیا بھر کی حکومتوں سے کہا تھا کہ وہ کورونا پر سیاست کرنے کے بجائے اس کا عملی اور متفقہ حل تلاش کریں، پاکستان میں صورت حال اس کے برعکس دکھائی دی۔ یہاں شروع ہی سے اعلیٰ ترین حکومتی سطح سے یہ تاثر دیا گیا کہ کورونا سے ڈرنا نہیں ہے جس کا مطلب یہ لیا گیا کہ اس سے بچنے کے لیے کچھ کرنا بھی نہیں ہے چنانچہ عوام نے یہاں کے عمومی مزاج کے مطابق اس وبا کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔

سندھ حکومت نے دنیا کے دیگر ممالک کی طرح فوری لاک ڈائون کیا جس کے وفاق کی جانب سے حوصلہ افزائی نہ ہونے کے باعث مطلوبہ نتائج کم برآمد ہوئے۔ وفاق کی طرف سے ایک جانب لاک ڈائون کے خلاف دلائل دیئے جاتے رہے تو دوسری طرف لاک ڈائون کا اعلان بھی کیا گیا جس پر لوگوں نے کنفیوژن کی وجہ سے زیادہ توجہ ہی نہ دی، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اب کورونا تیزی سے پھیل رہا ہے۔ عالمی پس منظر میں دیکھا جائے تو پوری دنیا میں اس وقت کورونا کی وبا کم ہو رہی ہے اور وہ ممالک بھی جہاں ہزاروں کی تعداد میں لوگ مر گئے، لاک ڈائون ختم کر رہے ہیں کیونکہ انہوں نے ایسے اقدامات کیے جن کی وجہ سے وہاں صورتحال بہتر ہوئی۔

پاکستان میں یہ وبا بعد میں آئی اس لئے اسے ایسے ممالک کے تجربات سے سیکھنا چاہئے تھا اور ان کے طور طریقے اپنا کر وبا کو روکنا چاہئے تھا مگر یہاں ڈاکٹروں، ڈبلیو ایچ او اور ماہرین کی رائے کو مصلحتوں کی وجہ سے نظر انداز کر کے مناسب اقدامات نہیں کیے گئے جس کے نتیجے میں صورت حال اب خطرناک ہوتی جا رہی ہے۔ اسپتال مریضوں سے بھر گئے ہیں، ٹیکے لاکھوں کے ہو گئے ہیں، پلازمہ مل نہیں رہا اور متعلقہ اداروں نے بھی سست روی کا مظاہرہ کیا۔ ایسے میں ضروری ہو گیا ہے کہ حکومت معاملہ مزید بگڑنے سے پہلے اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کرے، اجتماعی رائے کی روشنی میں غلطیوں کی اصلاح کرے، کنفیوژن دور کرے، ہیلتھ سروسز کو مضبوط بنائے اور ہیلتھ ورکرز اور ایس او پیز پر عملدرآمد کرانے والے عملے کو خطرات سے بچانے کیلئے ضروری اقدامات کرے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ

Leave a comment