ملک مقروض : اشرافیہ کی پانچوں انگلیاں گھی میں

آغاز میں، مجھے یہ کہتے ہوئے اچھا نہیں لگ رہا مگر حقیقت یہی ہے کہ پاکستان میں اشرافیہ کو ہی اہمیت حاصل ہے ، پاکستان میں ’’اشرافیہ‘‘ بھی کئی قسم کی ہے۔ ایک سیاسی اشرافیہ، دوسری جاگیر دار ، قبائلی اشرافیہ، تیسری سرمایہ دار اشرافیہ اور چوتھی اعلیٰ سرکاری اشرافیہ۔ سیاسی اشرافیہ کی بات کریں تو یہاں ہر سیاسی سیٹ اپ اشرافیہ کی ایڈجسٹمنٹ کا نتیجہ ہوتا ہے، جس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ اقتدار میں کوئی بھی ہو اس کا مقصد اپنے معاشی اور سماجی مفادات کا تحفظ اور فروغ دینا ہوتا ہے، جس کے لیے وہ مختلف اقدامات اور ذاتی پروپیگنڈے کا سہارا لیتا ہے اور عوام کے بارے میں نہیں سوچتا۔ مثال کے طور پر مشرف عہد میں جب اسٹاک مارکیٹ کے بڑوں نے مصنوعی مستحکم معیشت اور فرضی ترقی سے پیسہ کمایا۔ جب زرداری کا دور آیا تو اشرافیہ کے چند سرمایہ دار ملک سے باہر چلے گئے۔ جب کہ دیگر نے اپنے اثاثوں میں حیرت انگیز اضافہ کیا، جب نواز شریف کا دور آیا تو وہ اشرافیہ جو زرداری کے عہد میں بھاگ گئی تھی، دوبارہ واپس آئی اور بے پناہ پیسہ بنایا۔

دوسری جاگیردار اور قبائلی اشرافیہ ، یہ وہ اشرافیہ ہے جو پشتوں سے چلی آرہی ہے، یہ وراثتی اشرافیہ بھی ہے۔ جب کہ تیسری اشرافیہ سرمایہ دار ہے جس کے ہتھے مزدور طبقہ چڑھا ہوتا ہے، اس میں غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہو جاتا ہے۔ جب کہ چوتھی قسم کی اشرافیہ سرکاری اشرافیہ ہے، جس کی اِجارہ داری تو ایک طرف مگر اس کی مراعات بعد از ریٹائرمنٹ سب پر بھاری ہوتی ہیں۔ آج ہمارا موضوع بھی یہی اشرافیہ ہے، جس کے بارے میں سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایک عدالتی فیصلے میں اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا ہے کہ نہ ملکی آئین اور نہ کسی قانون میں ججوں اور دیگر فورسز کے افسران کو پلاٹ جیسی مراعات کی اجازت دی گئی ہے۔ انھوں نے مزید لکھا کہ ’’بیشتر پاکستانیوں کو بنیادی رہائش کی سہولت تک میسر نہیں ہے، ایسے میں ملک کی زمین اشرافیہ میں تقسیم کرنا قرآن پاک کے اصول کی نفی ہے جب کہ جہاں تک عوامی فلاح کے لیے زمین حاصل کرنے کا سوال ہے تو یہاں آئین خاموش ہے۔ معیاری رہن سہن زندگی کی بنیادی ضروریات میں شامل ہے۔ یہ عوامل ثابت کرتے ہیں کہ عوامی مقصد کے لیے ہاؤسنگ اسکیم بنائی جا سکتی ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ ایک طرف پاکستان کے عوام ہیں جن کے بارے میں اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں کہ ملک کی 65 فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے، 43 فیصد پاکستانیوں کے پاس رہنے کے لیے اپنا گھر نہیں، 74 فیصد کو صاف پانی میسر نہیں، 27 فیصد کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں، 40 فیصد نوجوان بے روزگار ہیں، اور تو اور 11 فیصد پاکستانی خاندان ایسے ہیں جن کا ذرایع آمدن نہ ہونے کی وجہ سے وہ مانگ کر گزارہ کر رہے ہیں۔ جب کہ دوسری جانب سرکاری ملازمین جنھیں سروس کے دوران ہی لامحدود مراعات ملنا شروع ہو جاتی ہیں اور یہ سلسلہ ان کی ریٹائرمنٹ تک چلتا ہے بلکہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی سستے داموں رہائشی پلاٹس اور دیگر مراعات کا سلسلہ کسی نہ کسی صورت جاری رہتا ہے۔’’پلاٹی پالیسی‘‘ کسی آئین میں تو درج نہیں مگر اس کی منظوری 2007 میں وزیر اعظم شوکت عزیز نے دی تھی، اس لیے اس اضافی پلاٹ ملنے کی سہولت کو آج بھی وزیر اعظم پالیسی کہا جاتا ہے۔

قصہ مختصر کہ ہمارے ہاں سرکاری ملازمین میں زمین کی تقسیم ایک ’’رسم‘‘ بن چکی ہے، جب کہ کسی قانون میں نہیں لکھا کہ سرکاری ملازمین کو ریٹائرمنٹ کے وقت پلاٹ ملے گا ، اس کے علاوہ یہاں یہ جان کر بھی حیرت ہو گی کہ ہر سال پینشن کی مد میں بجٹ میں 5 سے 6 سو ارب روپے کا بجٹ رکھا جاتا ہے، یہ پینشن سول ملازمین سمیت فورسز کے اہلکاروں کو دی جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جس ملک میں ہر سال 1200 سے 15 سو ارب روپے کے خسارے کا بجٹ پیش کیا جاتا ہے، جس ملک میں ہر سال 5 سے 6 سو ارب روپے سود ادا کیا جاتا ہے، جس ملک میں آئی ایم ایف ہی بجٹ بناتا ہے اور جس ملک میں ہر سال ہزاروں بچے غذائی قلت کا شکار ہو کر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں وہاں چند لاکھ اشرافیہ کے لیے خزانے کے منہ کھول دینا کہاں کا انصاف ہے؟ بلکہ اب تو سبھی یہی سمجھتے ہیں کہ سرکاری ملازمین کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہیں اور سر کڑاہی میں ۔

اس تناظر میں یہ چیز دیکھنا کافی دل شکنی کا باعث بنتا ہے کہ عام آدمی بس یہ تصور ہی کر کے رہ جاتا ہے کہ اس کی رائے کوئی اہمیت رکھتی ہے۔ یہ دیکھنا دل ٹوٹنے کا سبب بنتا ہے کہ لوگوں کے اندر یہ سوچ رائج پا چکی ہے کہ اشرافیہ کو نکال باہر کرنے یا طرز حکمرانی کی قسم میں تبدیلی سے ان کی زندگیوں اور ان کے بچوں کی زندگیوں پر کسی بھی قسم کے مثبت اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ احتجاجی ریلیوں، جلسوں اور دھرنوں کی ان گنت تعداد درحقیقت کسی کام کی نہیں نظر آتی جب کوئی پاکستانی قوم کے 99 فیصد کو نچلی قطاروں میں دیکھتا ہے۔ یہ اس وقت مزید دلچسپ ہو جاتا ہے جب اعلیٰ طبقے سے تعلق رکھنے والا فرد اشرافیہ کو حاصل مراعات کے خاتمے کی بات کرتا ہے، اور یہ دیکھنا باعث شرم ہوتا ہے کہ ایک ہی جیسے گروپس کے افراد پرجوش انداز میں سیاستدانوں کا دفاع کر رہے ہوتے ہیں جو کہ خود معاشی اشرافیہ کے گروپ کی جانب سے اقتصادی وسائل پر قبضے کی جنگ کا حصہ ہوتے ہیں، تاکہ وہ عوامی پیسے کا رخ اپنی جانب کرسکیں۔

لہٰذااس غریب ملک میں جہاں ہزاروں افراد فاقہ کشی پر مجبور ہیں، وہاں ہم سب کو مل کر اس ملک کی ترقی کے لیے اپنا کردار ادا کر نا ہو گا، جیسے ملایشیا، ترکی اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں سب سے پہلے زمین کی تقسیم وہاں کے عوام کے لیے ہوتی ہے، جو بے گھر افراد ہیں، ریاست انھیں ناصرف جگہ فراہم کرتی ہے بلکہ انھیں گھر بنانے کے لیے بھی معاونت کرتی ہے۔ اس کے بعد سرکاری ملازمین کا ریکارڈ دیکھ کر انھیں قرعہ اندازی کے ذریعے پلاٹ دیے جاتے ہیں، ایسا کرنے کا سب سے بڑا فائدہ یہی ہوتا ہے کہ سرکاری ملازمین اپنے لیے زمین کا حقدار سمجھنے کے بجائے اسے قسمت کا کھیل سمجھتے ہیں۔ اس لیے یہاں بھی ایسا ہی نظام قائم ہونا چاہیے، یہاں سب سے پہلے بے گھر افراد کو گھر دیا جائے ، چلیں یہ بھی چھوڑیں حکومت سب سے پہلے 50 لاکھ گھرتعمیر کرنے کا وعدہ ہی پورا کر دے تاکہ عوام اپنے آپ کو ان سرکاری ملازمین کے سامنے کم تر نہ سمجھیں اور احساس کمتری کا شکار ہونے سے بچ جائیں۔ اسی میں ہمارے ملک اور معاشرے کی بقاء ہے

علی احمد ڈھلوں

بشکریہ ایکسپریس نیوز

Leave a comment