پائلٹ کی رہائی کا اعلان بھی مودی کو نہ سدھار سکا

وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے جذبہ خیر سگالی کے تحت بھارتی پائلٹ کو رہا کرنے کے اعلان کا جہاں بھارت سمیت دنیا بھر میں خیر مقدم کیا گیا وہیں بھارتی وزیر اعظم امن کی طرف بڑھے ہوئے اس قدم سے گریز کرتے ہی نظر آئے۔ سائنسدانوں کے لیے منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے نریندر مودی نے کہا کہ ’آپ تو لیبارٹریز میں زندگی گزارنے والے لوگ ہیں آپ میں پہلے پائلٹ پروجیکٹ کرنے کی روایت ہوتی ہے، پائلٹ پروجیکٹ کرنے کے بعد اسکیل ایبِلٹی ہوتی ہے، ابھی ابھی ایک پائلٹ پروجیکٹ پورا ہو گیا ابھی ریئل کرنا باقی ہے، پہلے تو پریکٹس تھی۔ بھارتی وزیر اعظم کی جانب سے یہ بیان وزیراعظم عمران خان کے اس اعلان کے فوراً بعد سامنے آیا کہ بھارتی پائلٹ کو رہا کردیا جائے گا۔

امن کے لیے بھارتی پائلٹ کی واپسی کو تیار ہیں، پاکستان

پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان محمد فیصل نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے حوالے سے بتایا ہے کہ اگر بھارتی پائلٹ کی واپسی کشیدگی میں کمی کا باعث بن سکتی ہے تو پاکستان اس کے لیے بھی تیار ہے اور وزیراعظم عمران خان خود بھی اپنے بھارتی ہم منصب نریندر مودی سے بات کرنے کے لیے بھی تیار ہیں۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا مودی تیار ہیں؟ شاہ محمود قریشی کے بقول حکومت پاکستان نے ہمیشہ امن کی خواہش کو ترجیح دی ہے کیونکہ ہمارا یقین ہے کہ امن کے بغیر پاکستان کی ترقی ممکن نہیں۔ وزیر خارجہ قریشی کا کہنا تھا،’’بھارت کا ڈوزیئر مل گیا ہے اس ڈوزیئرسمیت ہر معاملے پر پاکستان بات چیت کرنے کے لیے تیار ہے مگر آپ کو بتانا ہو گا کہ آپ آخر چاہتے کیا ہیں؟‘‘

انہوں نے بتایا کہ پاکستان عالمی برادری کے ساتھ رابطے میں ہے، ’’سعودی وزیر خارجہ کا پیغام موصول ہوا ہے کہ وہ ولی عہد محمد بن سلمان کا پیغام پہنچانے کے لیے آنا چاہتے ہیں۔ ترکی، چین اور روس کے وزراء خارجہ سے بھی بات چیت ہو رہی ہے۔‘‘ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان کو مثبت پیشرفت قرار دیا ہے، جس میں انہوں نے کہا کہ امریکا پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کم کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ امریکی صدر نے اس موقع پر کہا، ’’اچھی خبر جلد موصول ہو گی ۔ پاکستان کے سابق سیکریٹری خارجہ شمشاد احمد خان نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو ہوئے کہا کہ اس معاملے پر پاکستان اور بھارت کی تاریخ کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ وہ کہتے ہیں کہ بھارت کا ہمیشہ سے وطیرہ رہا ہے کہ وہ اپنے ملک میں رونما ہونے والے ہر منفی واقعے کا الزام پاکستان پر عائد کر دیتا ہے۔

شمشاد احمد خان، ’’دسمبرسن 2001 میں بھارتی پارلیمنٹ پر حملے کو جواز بنا کر فوجیں سرحدوں پر لے آیا اور پھر بڑی طاقتوں نے مداخلت کی اور معاملہ حل کروایا تھا کیونکہ دونوں ملکوں کے درمیان ایسا کوئی رابطہ ہے ہی نہیں کہ دونوں ایک دوسرے کو تسلی کرا سکیں‘‘۔ شمشاد احمد خان نے کہا کہ گزشتہ 10 برس میں رونما ہونے والے واقعات نے بھارت کو اتنی شے دے دی ہے کہ ابھی اسے خود کو نئے پاکستان کے ساتھ ایڈجسٹ کرنے میں وقت لگے گا۔ تاہم وہ کہتے ہیں کہ امریکا کے رویے پر کوئی غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے۔

انہوں نے مزید کہا کہ امریکا نے مشرف دور میں جنگ بندی کرائی، سابق بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی سے مذاکرات کرائے کیونکہ اس وقت امریکا کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی ضرورت تھی مگر اب امریکا کو افغانستان سے نکلنے کے لیے پاکستان کی ضرورت ہے۔ سابق وزیر دفاع نعیم خالد لودھی کہتے ہیں کہ بھارت کو امریکا کی مکمل حمایت حاصل ہے،’’امریکا کے دو بنیادی اہداف ہیں، پہلا جب وہ افغانستان سے نکلیں تو ان کی فیس سیونگ ہوں، دوسرا امریکا کے نکلنے کے بعد افغانستان میں افراتفری رہے، ایسا نہ ہو کہ افغانستان میں امن آجائے، سی پیک چل پڑے، روس بھی نکل جائے۔

جنرل ریٹائرڈ نعیم خالد لودھی کہتے ہیں کہ بھارت اور امریکا کے درمیان انٹیلیجنس شیئرنگ سمیت بہت سے معاہدے ہیں۔ پاکستانی فوج کی کارروائی کے بعد امریکا کو لگا تھا ہے کہ اگر بھارت کو مار پڑ سکتی ہے لہذا مداخلت ضرور ہو گی۔ تجزیہ کاروں کے مطابق بھارتی کی جانب سے پاکستان کو دیے گئے ڈوزیئر میں کوئی نئی بات ممکن نہیں، جیسے بھارت نے پاکستان میں جش محمد کے کیپ پر کارروائی کے بے بنیاد دعوے کیے اسی طرح ڈوزیئر میں بھی ایسا ہی کچھ ہو گا۔