قاتل کی گرفتاری پر تالیاں کیسی ؟

رواں ماہ پنجاب کے شہر قصور سے ایک خبر سامنے آئی جس نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا، خبر ہی ایسی تھی۔ ایک سات سالہ بچی زینب کو انتہائی بے دردی سے زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کر کے کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دیا گیا تھا۔ یہ خبر پہلے سوشل میڈیا پر آئی اس کے بعد نیوز چینلز اور پھر ہر گھر ہر زبان پر زینب کا زکر ہونے لگا۔ قصور میں پرتشدد مظاہرے اور توڑ پھوڑ بھی ہوئی اور ان سب کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ قاتل کو گرفتار کیا جائے۔

زینب امین خود تو نہ رہی اور چند دیگر خاندانوں کے زخم بھی تازہ کر گئی، جب تحقیقات کرنے والے حکام نے یہ کہا کہ زینب کا قاتل قصور میں ہی چند دیگر بچیوں کو بھی ریپ کے بعد قتل کرنے والا دکھائی دیتا ہے۔ زینب امین کے قاتل کی گرفتاری کا باقاعدہ اعلان کر دیا گیا ہے، اور اب عدالت سے اسے سزا دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ قاتل گرفتار کر لیا گیا ہے اس بات کا اعلان کرنے کے لیے لاہور میں پریس کانفرنس کی گئی جس میں شرکت کے لیے زینب کے والد کو خصوصی طور پر قصور سے بلوایا گیا۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ زینب کے قتل کی تحقیقات 14 دن کی انتھک محنت کے بعد اختتام کو پہنچی ہے اور قاتل پکڑا گیا ہے۔

اس کے بعد وزیر اعلیٰ نے تحقیقات کرنے والے اہلکاروں سے کہا کہ وہ کھڑے ہو جائیں اور منہ میڈیا کے نمائندوں کی جانب کر لیں، انھوں نے ویسا ہی کیا اور پورے ہال میں تالیاں بجنے لگیں۔ تالیاں بجیں کیونکہ بقول وزیر اعلیٰ زنیب سمیت کئی دیگر بچیوں کی زندگی تباہ کرنے والا ’درندہ‘ پکڑا گیا ہے۔ لیکن تالیاں بجانے والوں نے ایک لمحے کو کیا سوچا ہو گا کہ اسی ہال میں اس زینب کا باپ بھی موجود ہے اسے یہ تالیاں کیسی لگیں گی؟ خیر پھر ان اہلکاروں سے کہا جاتا ہے کہ وہ بتائیں کہ کیسے انھوں نے ایک سیریل کلر اور ’درندے‘ کو پکڑنے میں مدد کی۔

ایک ہزار 150 ڈی این اے ٹیسٹ کرنے والے ڈی جی لیب جو پہلے سے ہی سلائیڈ شو تیار کر کے لائے تھے نے بتایا کہ کیسے انھوں نے ماضی کی طرح یہ کیس بھی حل کر دکھایا۔ لیکن جب باری آئی زینب امین کے والد کی تو صرف انھیں تحقیقاتی ٹیم، وزیراعلیٰ پنجاب، چیف جسٹس اور آرمی چیف کا شکریہ ادا کرنے کا موقع دیا گیا اور فوراً ان کا مائیک بند کر دیا گیا۔

سوشل میڈیا پر ردعمل
سوشل میڈیا پر وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور رانا ثنا اللہ پر ان کی ہنسی اور تالیوں کے حوالے سے کافی تنقید کی جا رہی ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ زینب کے والد کے سٹیج پر بیٹھے ہوئے ان اعلیٰ عہدیداروں کا ہنسنا اور تالیاں بجانا نہایت غیر موزوں تھا۔

ٹویٹر پر کالم نگار مہر تارڑ نے لکھا ایک تصویر لگائی ہے جس میں وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور وزیر قانون رانا ثنا اللہ کے علاوہ دیگر افراد کو ہنستے دکھایا گیا ہے جبکہ زینب کے والد بیچ میں سنجیدہ بیٹھے ہیں۔ اور انھوں نے لکھا ہے ’کچھ تو شرم کر لیں‘۔

نامور صحافی طلعت حسین نے ٹویٹ میں کہا کہ قصور کے ’سیریل کلر نے کم از کم سات مزید بچیوں کو نشانہ بنا کر مار ڈالا۔ شہباز شریف اس کا نشانہ بننے والی کم از کم ایک بچی کا نام تو لیتے اور ان کے خاندان والوں کو پریس کانفرنس میں بلاتے۔ لیکن وہ ایسا کیوں کریں گے؟ دیگر بچیاں اس وقت خبر نہیں ہیں۔‘

ایک اور صارف جیا جی نے ٹویٹ میں کہا شہباز شریف نے زینب کے والد کا مائیکرو فون بند کر دیا اور میڈیا کے سوالات کے جواب خود دیے۔

ذیشان علی
بی بی سی اردو، اسلام آباد

زینب قتل کیس کا مرکزی ملزم گرفتار

زینب قتل کیس میں اہم پیش رفت ہوئی ہے، پولیس نے کیس کے ملزم کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے اور کہا ہے کہ ملزم نے اعتراف جرم بھی کر لیا ہے۔
پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران نامی ملزم زینب کے گھر واقع کورٹ روڈ کا رہائشی ہے۔ پولیس ذرائع کے مطابق ملزم عمران کا ڈی این اے میچ کر گیا ہے، ملزم کو زینب کیس کے شبہ میں ایک بار پکڑ کر چھوڑ دیا گیا تھا، جس کے بعد ملزم کچھ دنوں سے غائب تھا، اب پولیس نے اُسے دوبارہ پکڑ لیا ہے۔ ملزم کی عمر 35 سے 36 سال ہے جو مقتول بچی کا دور کا رشتے دار بتایا گیا ہے۔

ذرائع کے مطابق مقتول بچی اور ملزم کے گھر والوں کے ایک دوسرے سے اچھے تعلقات تھے اور ایک دوسرے کے گھر آنا جانا تھا۔ ذرائع کا یہ بھی بتانا تھا کہ زینب کے قتل کے بعد قصور میں ہونے والے ہنگاموں کے دوران ملزم پہلے پاک پتن فرار ہوا اور پھر وہاں سے عارف والا چلا گیا۔ وزیر اعلیٰ شہباز شریف کو ملزم کی گرفتاری سے آگاہ کر دیا گیا ہے، وہ کچھ دیر میں اس حوال سے پریس کانفرنس کریں گے۔

یاد رہے کہ پنجاب کے ضلع قصور سے اغوا کی جانے والی 7 سالہ بچی زینب کو زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا تھا، جس کی لاش 9 جنوری کو ایک کچرا کنڈی سے ملی تھی۔ زینب کے قتل کے بعد ملک بھر میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی اور قصور میں پرتشدد مظاہرے پھوٹ پڑے تھے جس کے دوران پولیس کی فائرنگ سے 2 افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔ بعدازاں چیف جسٹس پاکستان اور چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے واقعے کا از خود نوٹس لیا تھا ۔  تحقیقات کے سلسلے میں قصور میں 100 سے زائد افراد کے ڈی این اے بھی لیے گئے تھے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ