بالاکوٹ میں کوئی پاکستانی شہری یا فوجی ہلاک نہیں ہوا : سشما سوراج

بھارت کی وزیر خارجہ سشما سوراج نے کہا ہے کہ بھارتی فضائیہ کے آپریشن بالاکوٹ میں نہ تو کوئی پاکستانی سویلین ہلاک ہوا اور نہ ہی کوئی پاکستانی فوجی۔ انہوں نے یہ بات احمد آباد میں بی جے پی کی خاتون کارکنوں سے خطاب کے دوران کہی۔ خیال رہے کہ اس کارروائی کے بعد بھارت کے خارجہ سیکرٹری نے ایک نیوز بریفنگ میں کہا تھا کہ بڑی تعداد میں دہشت گرد، ان کے کمانڈر اور تربیت کار مارے گئے ہیں اور جیش محمد کا کیمپ تباہ کر دیا گیا ہے۔ بی جے پی کے صدر امت شاہ نے ڈھائی سو اور یو پی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے چار سو دہشت گردوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا۔ جب کہ حزب اختلاف کے رہنماؤں نے ہلاکتوں کے ثبوت مانگے۔ حکومت اور بی جے پی کی جانب سے ثبوت مانگنے والوں کو غدار، ملک دشمن اور پاکستان کا حامی قرار دیا گیا۔

کانگریس کے قومی ترجمان م۔ افضل نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ امت شاہ نے ڈھائی سو دہشت گردوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا تھا۔ لیکن اب سشما سوراج نے ان کے بیان کی تردید کر دی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بی جے پی اس معاملے کو ہوا دے کر الیکشن میں فائدہ اٹھانا چاہتی تھی۔ لیکن اس سے انہیں کوئی فائدہ نہیں مل رہا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ اس سے ایک بات یہ بھی ثابت ہوتی ہے کہ سفارت کاری میں ہمیشہ ایسی باتیں کہی جاتی ہیں جو وزن دار ہوں اور سچائی پر مبنی ہوں۔ تاہم م۔ افضل نے یہ بھی کہا کہ سشما سوراج کے بیان کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ اگر اس ایک واقعہ میں ایسا ہوا ہے تو پاکستان ہر معاملے میں درست ہی بولتا ہو۔

آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل آصف غفور نے سشما سوراج کے بیان کے بعد ٹویٹ کر کے کہا کہ یہ بیان اس معاملے میں پاکستان کے موقف کی توثیق کرتا ہے اور اس سے بھارت کے جھوٹے دعوے کا انکشاف ہوتا ہے۔ ​انھوں نے یہ امید ظاہر کی کہ 2016 کے سرجیکل اسٹرائیک کے بھارت کے جھوٹے دعوے، پاکستانی فضائیہ کی جانب سے بھارت کے دو جیٹ طیارے مار گرانے اور پاکستان کا ایک ایف 16 طیارہ گرانے کی بھارت کے جھوٹے دعوے کی سچائی بھی سامنے آئے گی۔ پاکستان نے بالاکوٹ کارروائی کے بعد بھارت کے دعوے کی تردید کی تھی اور کہا تھا کہ پاکستانی فضائیہ کی جوابی کارروائی سے مجبور ہو کر بھارتی طیارے ایک ویران علاقے میں اپنے بم گرا کر عجلت میں واپس چلے گئے تھے۔

سہیل انجم

بشکریہ وائس آف امریکہ

مودی کی گرتی مقبولیت کو آپریشن بالاکوٹ سے ملنے والا سہارا کمزور پڑ گیا : سروے

سی ووٹر کے ایک ملک گیر سروے کے مطابق پلوامہ کے دہشت گرد حملے اور آپریشن بالاکوٹ کے بعد حکمران جماعت بی جے پی نے قوم پرستی کا جو ماحول بنایا تھا اس سے عام انتخابات میں اس کو ملنے والے سیاسی فائدے کے امکانات کم ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی گرتی مقبولیت کو جو سہارا ملا تھا وہ بھی کمزور پڑ گیا۔ یہی وجہ ہے کہ اب مودی نے اپنی تقریروں میں مبینہ طور پر پاکستان کو سبق سکھانے کا ذکر کم کر دیا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اب بی جے پی فرقہ وارایت کے اپنے پرانے ایجنڈے پر لوٹ آئی ہے۔

مودی نے اپنی ایک تقریر میں سمجھوتہ ایکسپریس کیس میں ملزموں کے بری ہونے کا حوالہ دیتے ہوئے کانگریس پر الزام لگایا کہ اس نے ہندو دہشت گردی کی اصطلاح استعمال کی تھی جس سے ہندووں کو تکلیف پہنچی، وہ اس سے ناراض ہو گئے اور کانگریس کو سزا دینا چاہتے ہیں۔ مودی نے کیرالہ کے علاقے ویاناڈ سے کانگریس کے صدر راہل گاندھی کے الیکشن لڑنے کو بھی ہندو مسلم رنگ دینے کی کوشش کی۔ انھوں نے کہا کہ چونکہ وہاں ہندو اقلیت میں ہیں اس لیے راہل وہاں سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ کانگریس نے اس پر مودی سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا ہے اور کہا کہ وہ اپنی شکست کو بھانپ کر بھارتی تہذیب کی توہین کر رہے ہیں۔ “کیا مختلف مذاہب کے لوگ ملک میں نہیں رہتے۔” خیال رہے کہ ویاناڈ میں ہندو تقریباً پچاس فیصد ہیں۔

نریندر مودی کا کہنا ہے کہ آپریشن بالاکوٹ پر سوال اٹھانے کی وجہ سے کانگریس پارٹی کی پاکستان میں بہت پذیرائی ہو رہی ہے۔ ایک معروف تھنک ٹینک انسٹی ٹیوٹ آف اسٹڈیز کے چیئرمین ڈاکٹر محمد منظور عالم نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ حکومت کے پاس عوام کو دکھانے کے لیے کچھ نہیں ہے اس لیے وہ انتخابی مہم کو فرقہ وارانہ رنگ دے رہی ہے۔ ایک سینئر صحافی عارفہ خانم شیروانی بھی اس کی تائید کرتی ہیں اور کہتی ہیں کہ اب مودی نے بھی جو کہ بی جے پی کے سب سے بڑے رہنما ہیں انتخابی مہم کو فرقہ وارانہ دینا شروع کر دیا ہے۔ ان کے بقول “جس مسلم دشمن سیاست کا بدصورت چہرہ ہم نے پانچ برسوں میں دیکھا ہے وہی پھر دکھایا جا رہا ہے۔”

ان کے خیال میں اس کی وجہ یہ ہے کہ بی جے پی کو یقین نہیں ہے کہ آپریشن بالاکوٹ سے اسے کوئی سیاسی فائدہ پہنچے گا۔ اس لیے وہ اپنے پرانے ایجنڈے پر لوٹ آئی ہے جس میں اسے مہارت حاصل ہے۔ مودی اپنی تقریروں میں پاکستان کا نام لے کر رائے دہندگان کو متاثر کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ آر جے ڈی نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ مودی دن بھر میں دو سو مرتبہ پاکستان کا نام لیتے ہیں۔ ان کو چاہیے کہ وہ اپنی حکومت کی کامیابیاں بتائیں۔ وزیر اعظم کی مبینہ فرقہ وارانہ مہم پر ملک کے کئی اخباروں نے اداریے لکھے ہیں اور اسے جمہوریت کے لیے نقصان دہ قرار دیا ہے۔

سہیل انجم

بشکریہ وائس آف امریکہ

پاک بھارت تناؤ میں کمی، کیا خطرہ واقعی ٹل گیا ہے ؟

پاکستان اور بھارت کے مابین حالیہ کشیدگی میں بظاہر کمی کے بعد دونوں ممالک کے ہائی کمشنرز ایک دوسرے کے ممالک میں واپس چلے گئے ہیں جبکہ کرتاپورہ راہداری پر بات چیت کے لیے پاکستانی وفد بھارت جا رہا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان اور بھارت کے مابین تعلقات میں تناؤ عارضی طور پر کم ہوا ہے۔ دہلی میں پاکستانی ہائی کمشنر سہیل محمود اسلام آباد سے واپس نئی دہلی چلے گئے ہیں جبکہ پاکستان میں تعینات بھارتی ہائی کمشنر اجے بساریہ نے واپس اسلام آباد پہنچ کر اپنی سفارتی ذمہ داریاں سنبھبال لیں ہیں۔ پلوامہ واقعے اور بھارت کا پاکستان کے علاقے بالا کوٹ میں فضائی کارروائی کے بعد سے پاکستان اور بھارت نے اپنے اپنے ہائی کمشنر کو واپس بلا لیا تھا۔

دونوں ملکوں کے ہائی کمشنرز کی ایک ہی دن واپسی اور ذمہ داریاں سنبھالنا نئی دہلی اور اسلام آباد کے درمیان رابطے کا پتہ دیتا ہے جس سے امید بندتی ہے کہ دونوں ہمسایہ ممالک کے بیچ کشیدگی میں مزید کمی کے امکانات پیدا ہوئے ہیں۔ تعلقات کو معمول پر لانے کے لئے پاکستان نے 6 مارچ کو یکطرفہ طور پر آئندہ چند دنوں میں اپنا ہائی کمشنر نئی دہلی واپس بھیجنے کا اعلان کیا تھا جس کے جواب میں بھارت نے اپنا ہائی کمشنر اسلام آباد بجھوا کر مثبت اشارہ دیا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے مابین جنگی تناؤ میں اگرچہ ٹھراؤ آیا ہے جس کے واضع اشارے بھی مل رہے ہیں تاہم دو جوہری طاقتوں کے درمیان غیر یقینی کی صورتحال تاحال برقرار ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق صورتحال میں یہ بہتری عارضی ہے جس کی وجہ بیرونی دنیا کا دباؤ ہے۔ خارجہ امور پر نظر رکھنے والے سابق سفیر اور سنٹر فار انٹرنیشنل سٹریٹجک اسٹڈیز کے سربراہ علی سرور نقوی کا کہنا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کسی حد تک کم ہوئی ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے میں سعودی عرب اور امریکہ سمیت دیگر ممالک نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان نے اس نازک صورتحال میں بہتر سفارتکاری سے کام لیا۔ سابق سفیر علی سرور نقوی کا کہنا ہے کہ صورتحال میں بہتری پاکستان کے مثبت ردعمل کا نتیجہ ہے اور سفارتی کامیابی ہے جس کے باعث بھارت کو اپنے جارحانہ رویہ کو نرم کرنا پڑا ہے۔

دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بحالی میں دوسری اہم پیش رفت کرتارپور راہداری کے حوالے سے آئندہ ہفتے ہونے والے اجلاس میں شرکت کا عندیہ ہے جو 14 مارچ کو واہگہ اٹاری بارڈر پر بھارت میں ہو گا۔ کرتار پور راہداری کا مقصد بھارت میں مقیم سکھ زائرین کے لیے پاکستان میں موجود اہم ترین مذہبی مقام تک بغیر ویزہ رسائی دینا ہے۔ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان اور بھارت کے نائب صدر ونکیا نائیڈو نے گذشتہ سال نومبر میں سرحد کے اپنی اپنی طرف اس راہداری کا سنگ بنیاد رکھا تھا۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان 14 مارچ کے اس اجلاس کے بعد کرتارپور راہداری کی تعمیر کا طریقہ کار طے کرنے کے لیے بھارت کا وفد اس ماہ کے آخر میں 28 مارچ کو پاکستان آئے گا۔ دونوں ملکوں کے درمیان اس کشیدہ صورتحال کے دوران بھارتی بارڈر سیکیورٹی فورس کے اہلکاروں نے غلطی سے سرحد پار کرنے والے 70 سالہ پاکستانی کسان کو جذبہ خیر سگالی کے طور پر رہا کر دیا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کے مستقبل کے حوالے سے بنیادی سوالات کے بارے میں اب بھی ابہام ہیں چونکہ بھارت نے پاکستان سے بات چیت کے ذریعے مسائل کو حل کرنے کی خواہش کو نہ صرف نظر انداز کیا بلکہ بحران کے حل کے لئے عالمی ثالثی کی پیش کش کو بھی حوصلہ شکنی کی ہے۔

علی فرقان

بشکریہ وائس آف امریکہ

بھارتی بمباری کا کوئی ثبوت نظر نہیں آیا، روئٹرز

نیوز ایجنسی روئٹرز کا کہنا ہے کہ اس نے ایسی ہائی ریزولولشن سیٹیلائٹ تصاویر دیکھی ہیں جو یہ ثابت کرتی ہیں کہ بھارت کی جانب سے جیش محمد کے مدرسے پر براہ راست بمباری نہیں کی گئی اور وہ اپنی موجودہ حالت میں قائم ہے۔ سان فرانسیسکو شہر میں قائم کمپنی پلینٹ لیبز ایک پرائیویٹ سیٹیلائٹ آپریٹر ہے۔ بھارتی فضائی حملوں کے چھ دن بعد چار مارچ کو اس کمپنی کی جانب سے لی گئی تصایر میں مدرسے کے مقام پر قائم چھ عمارتوں کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اب تک عوامی سطح پر اس مقام کی سیٹیلائٹ تصایر جاری نہیں کی گئی تھیں لیکن پلینیٹ لیبز کی جانب سے جاری گئی تصایر میں بہت واضح طور پر وہ عمارتیں دیکھی جا سکتی ہیں جن پر بھارت نے فضائی حملہ کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

روئٹرز کے مطابق اب یہ تصایر بھارتی موقف کے حوالے سے مزید شکوک وشبہات پیدا کرتی ہیں۔ نریندر مودی کی حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ 26 فروری کو بھارتی فضائیہ کے طیاروں نے پاکستان کی فضائی حدود میں داخل ہوتے ہوئے خیبر پختونخواہ کے شہر بالاکوٹ کے گاؤں جبا میں دہشت گرد تنظیم جیش محمد کے مدرسے پر حملے کیے تھے۔ سیٹیلائٹ تصاویر سے متعلق روئٹرز کو بھارتی وزیر خارجہ اور دفاع کو بھیجے گئے سوالات کے جوابات موصول نہیں ہوئے۔ ایسٹ ایشیا نان پرولیفیریشن ادارے کے ڈائریکٹر جیفری لیوس سیٹیلائٹ تصاویر کا تجزیہ کرنے کا پندرہ سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔ لیوس نے روئٹرز کو بتایا، ان تصاویر میں بمباری کا کوئی ثبوت نظر نہیں آتا۔

بھارتی حکومت نے اب تک یہ نہیں بتایا کہ فضائی حملوں میں کون سے ہتھیار استعمال ہوئے تھے۔ روئٹرز کو بھارتی سرکاری ذرائع تاہم یہ ضرور بتاتے ہیں کہ گزشتہ ہفتے 12 میراج 2000 طیارے جو کہ ایک ہزار کلو گرام وزنی بموں سے لیس تھے، نے پاکستان کی سرزمین پر حملے کیے تھے۔ وزارت دفاع کے ایک اہلکار نے روئٹرز کو بتایا کہ بھارتی طیارو‌ں نے اسرائیلی ساختہ اسپائس 2000 گلائیڈ بم برسائے تھے۔ روئٹرز کے صحافیوں نے پاکستان کے علاقے بالاکوٹ کا دورہ بھی کیا تھا۔ ان صحافیوں کو بھی کوئی تباہ حال کیمپ نہیں ملا اور نہ ہی یہ بھارتی فضائی حملوں کے باعث کسی شخص کی ہلاکت کی تصدیق کر پائے۔ مقامی افراد کا کہنا تھا کہ انہیں بم دھماکوں کی آوازیں آئیں اور کچھ بم درختوں پر گرے۔ مقامی افراد نے کچھ درخت بھی دکھائے جن کے پاس سے کچھ بارودی مواد ملا تھا۔

اس سال مئی میں بھارت میں عام انتخابات ہوں گے اور اکثر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چودہ فروری کو پلوامہ حملے، جس میں قریب چالیس بھارتی فوجی ہلاک ہو گئے تھے، کا بدلہ لیتے ہوئے بھارت کی حالیہ کارروائی نریندر مودی اور ان کی ہندو قوم پرست سیاسی جماعت بی جے پی کو فائدہ پہنچا سکتی ہے۔ بھارت کی جانب سے جیش محمد کے عسکریت پسندوں پر حملے کے ثبوت نہ دینے پر مودی حکومت کو سیاسی حریفوں کی تنقید کا سامنا ہے۔ مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بینرجی کا کہنا ہے،’’ ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ اصل میں کتنے لوگ اس حملے میں مارے گئے، بم کہاں گرائے گئے ؟‘‘ مودی نے اپوزیشن جماعت کانگریس اور دیگر سیاسی حریفوں پر ملک دشمنوں کا ساتھ دینے کا الزام عائد کیا ہے۔ مودی کا کہنا ہے، ’’جب ہماری فوج ملک کے اندر اور باہر دہشت گردوں کی کمر توڑ رہی ہے، اس وقت کچھ لوگ فوج کے عزائم کو توڑنے کی کوشش کر رہی ہے جو کہ ہمارے دشمن کے لیے خوشی کا باعث بن رہا ہے۔‘‘

بشکریہ DW اردو