مضر صحت ماحول نے کورونا سے کئی زندگیاں بچا لیں

تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ زیادہ آمدن والے ممالک میں زیادہ لوگ کورونا وائرس سے ہلاک ہوئے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق بھارتی سائنسدانوں کی ایک نئی تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ حفظان صحت کے برے حالات، پینے کے صاف پانی کی کمی اور صفائی کے نامناسب انتظام نے دراصل کووڈ 19 سے بہت سی زندگیوں کو بچایا ہے۔ دوسرے لفظوں میں انھوں نے یہ خیال پیش کیا ہے کہ کم اور متوسط آمدن والے ممالک میں رہنے والے افراد کو بچپن ہی سے مرض پھیلانے والے جراثیم کا سامنا ہوتا ہے، جو انھیں کووڈ 19 کے خلاف قوت مدافعت دیتا ہے۔ ان دونوں مطالعوں کا ابھی آزادانہ جائزہ لیا جانا باقی ہے، اور ان میں اموات کی شرح کا موازنہ کرنے کے لیے فی دس لاکھ آبادی میں ہونے والی اموات کو دیکھا گیا ہے۔ ایک مقالے میں 106 ممالک کے عوامی سطح پر دستیاب اعداد و شمار کا دو درجن معیارات جیسے کہ آبادی، بیماریوں کا پھیلاؤ، اور صفائی ستھرائی کے معیار پر موازنہ کیا گیا ہے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ

بھارت کی نصف آبادی کورونا وائرس سے متاثر ہو جائیگی

بھارت میں کورونا کی پیشگوئی کے لیے قائم ایک سرکاری کمیٹی کا کہنا ہے کہ آئندہ فروری تک ملک کی کم از کم نصف تعداد کورونا وائرس کے انفیکشن کا شکار ہو جائے گی۔ کورونا وائرس سے تقریباً 76 لاکھ متاثرین کے ساتھ بھارت اس عالمگیر وبا سے دنیا میں سب سے زیادہ متاثرہ ملک امریکا کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ بھارت میں متاثرین کی تعداد 76 لاکھ کے قریب پہنچ گئی ہے جب کہ اب تک ایک لاکھ 15 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ بہر حال بھارت میں ستمبر کے وسط میں اپنے عروج کے پہنچنے کے بعد سے کورونا وائرس کے نئے کیسز کی یومیہ تعداد میں اب گراوٹ آرہی ہے۔ ستمبر کے وسط میں ہر روز 90 ہزار سے زائد کیسز سامنے آرہے تھے لیکن اب یہ تعداد اوسطاً 61390 ہو گئی ہے۔ بھارت میں کورونا کی پیشین گوئی کے لیے قائم کردہ سرکاری کمیٹی کے ایک رکن، انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، کانپور کے پروفیسر منیندر اگروال کے مطابق ”ریاضی کے ماڈل کے اندازے کے مطابق اس وقت ملک کی تقریباً 30 فیصد آبادی کورونا سے متاثر ہے اور یہ فروری تک 50 فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔

کمیٹی کا خیال ہے کہ کورونا وائرس کے پھیلنے کی موجودہ تعداد مرکزی حکومت کے سیرولوجیکل سروے کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ مرکزی حکومت کی رپورٹ کے مطابق ستمبر تک ملک کی آبادی کے صرف تقریباً 14 فیصد لوگ ہی اس وائرس سے متاثر ہوئے تھے۔ پروفیسر اگروال کا کہنا ہے کہ سیرولوجیکل سروے کی بنیاد پر جو اعداد و شمار بتائے گئے ہیں وہ غالباً اس لیے درست نہیں ہیں کیوں کہ بھارت کی ایک ارب 30 کروڑ کی بہت بڑی آبادی کے ایک بہت چھوٹے حصے کو سروے میں شامل کیا گیا تھا۔ اس لیے اس کے بجائے وائرولوجسٹوں، سائنس دانوں اور دیگر ماہرین پر مشتمل کمیٹی نے کورونا انفیکشن سے متاثر ہونے والوں کی تعداد کے متعلق پیشن گوئی کے لیے میتھ میٹیکل ماڈل کو اختیار کیا۔

احتیاط نہیں تو تعداد بڑھے گی
پروفیسر اگروال نے بتایا ”ہم نے ایک نیا ماڈل اپنایا جس میں ان کیسز کا حساب بھی رکھا جاتا ہے جن کی رپورٹ درج نہیں کی گئی۔ اس لیے ہم متاثرہ افراد کو دو زمروں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ وہ جن کے بارے میں رپورٹ کی گئی اور وہ جن کے متاثر ہونے کی رپورٹ درج نہیں کی گئی۔” کمیٹی نے متنبہ کیا ہے کہ اگر احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کیے گئے تو متاثرین کی تعداد کے بارے میں جو پیشین گوئی کی ہے وہ اس سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے اور اگر سوشل ڈسٹینسنگ اور ماسک پہننے جیسے ضابطوں کو نظر انداز کیا گیا تو صرف ایک ماہ میں متاثرین کی تعداد 26 لاکھ سے تجاوز کر سکتی ہے۔ ماہرین نے پہلے بھی متنبہ کیا تھا کہ رواں مہینے اور اگلے ماہ ہونے والے درگا پوجا اور دیوالی جیسے تہواروں کے موسم کی وجہ سے متاثرین کی تعداد میں کافی اضافہ ہو سکتا ہے۔

بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو

نیویارک ٹائمز نے کورونا کے خلاف مودی سرکار کی پالیسیوں کو ناکام قرار دیدیا

نیو یارک ٹائمز نے کورونا کے خلاف مودی سرکار کی پالیسیوں کا پول کھولتے ہوئے کہا ہے کہ سخت لاک ڈاوٴن کے باوجود بھارت میں کورونا کیسز اور اموات زیادہ ہیں۔ نیویارک ٹائمز کی جانب سے جاری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارتی عوام حکومت پر اعتماد کھونے لگے ہیں، سخت لاک ڈاوٴن کے باوجود بھارت میں کورونا کیسز اور اموات زیادہ ہیں جب کہ پاکستان میں بھارت کے مقابلے میں کیسز کم ہیں، جنوبی ایشیاء میں لاک ڈاؤن ہی نہیں بلکہ دیگر عوامل بھی اہم تھے، جنہیں مودی حکومت نے نظر انداز کیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سوال یہ ہے کہ کیا مودی حکومت نے سخت اقدامات کیے، شرح اموات سے لگتا ہے ایسا نہیں ہوا، بھارت میں 60 فیصد کیسز صرف ممبئی، دہلی، احمد آباد، چنائے اور پونے سے ہیں، ممبئی میں سب سے زیادہ 20 فیصد کورونا کیسز سامنے آئے جب کہ مودی کے آبائی علاقے گجرات میں بھی ایسی ہی صورتحال ہے۔

نیویارک ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ ہندوستانی مالیاتی دارالحکومت ممبئی اور چنائے اپنے بیشتر صحت وسائل گنوا بیٹھے ہیں، مودی کی پالیسیوں نے لوگوں کو بھوک اور افلاس سے مار دیا ہے، بیشتر غریب لوگ اس پالیسی کا شکار ہوئے جس سے ثابت ہو گیا کہ مودی کا ہندوستان صرف امیروں کے لئے ہے، آج کاسٹ سسٹم واضح ہو گیا کس طرح اقلیتوں کو وبا میں بے یارو مددگار چھوڑ دیا گیا ہے، ہر غریب اور بے بس ورکر جو کہ تپتے سورج اور بھوک سے نڈھال تھا اس کے لبوں پر صرف ایک بات تھی، خدا پر بھروسہ اور یہ دراصل بد اعتمادی ہے مودی حکومت پر۔ نیویارک ٹائمز نے رپورٹ میں مزید کہا کہ لداخ پر چین کے ہاتھوں ہزیمت کے بعد مودی کی کووڈ پالیسی بھی ناکامی کا شکار ہو گئی، ایل او سی اور دیگر عوامل پر توجہ بھی اس اندرونی ناکامی کو چھپانے کے لیے تھی جب کہ ڈی جی آئی ایس پی آرنے بار ہا اس کا ذکر کیا۔

بشکریہ ایکسپریس نیوز

بھارت میں مزدروں کا پیدل سفر اور ہلاکتیں جاری

بھارت میں دو ماہ سے جاری لاک ڈاؤن میں درجنوں مہاجر مزدر گھر واپسی کے لیے پیدل یا پھر سائیکل سے سفر کے دوران ہلاک ہو چکے ہیں اور یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔ بھارت میں کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے جاری لاک ڈاؤن سے سب سے زیادہ غریب افراد، خاص طور پر مہاجر مزدر، متاثر ہوئے ہیں۔ ملازمت، روزگار اور کھانے پینے کی چیزوں سے محروم ایسے افراد اپنے آبائی علاقوں تک واپسی کے لیے بے چین ہیں اور اس کوشش میں اب تک درجنوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں چار مزید مہاجر مزدور گھر کی واپسی کے دوران ہلاک ہوئے جن میں دو خواتین بھی شامل ہیں۔ چھ مزدروں پر مشتمل ایک قافلہ ریاست مہاراشٹر سے ایک آٹو رکشہ میں سوار ہوکر یوپی کے جون پور آرہا تھا۔ تقریبا 1300 کلو میٹر کا سفر طے کرنے کے بعد جب یہ لوگ گھر کے قریب تھے کہ فتح پور کے پاس ایک ٹرک سے ٹکّر میں ایک خاتون اور ان کی بیٹی موقع پر ہی ہلاک ہو گئی۔ اس واقعے میں دیگر افراد کو شدید چوٹیں آئی ہیں۔

اسی طرح کے ایک دوسرے واقعے میں ہریانہ میں پیدل سفر پر نکلنے والے ایک مزدر کی موت ہو گئی۔ دو مزدور انبالہ سے بہار کے لیے پیدل سفر پر نکلے تھے جنہیں ایک کار نے ٹکّر مار دی۔ ان میں سے ایک موقع پر ہی ہلاک ہو گیا جبکہ دوسرا شدید طور زخمی ہسپتال میں زندگی اور موت سے نبرد آزما ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ دونوں مزدوروں کا تعلق بہار سے ہے جو گھر جا رہے تھے۔ گزشتہ رات سائیکل پر سوار ایک اور مہاجر مزدور گھر جانے کے دوران رائے بریلی میں ہلاک ہوا۔ 25 سالہ مہاجر مزدور شیو کمار داس مغربی یوپی کے بلند شہر سے بہار جا رہے تھے اور وہ بھی کار حادثے کا شکار ہو گئے۔ گزشتہ روز سائیکل پر سوار دو اور مہاجر مزدور گورکھپور میں ہلاک ہوئے تھے۔ یہ جنوبی ریاست تلنگانہ سے آرہے تھے۔ اس سے قبل 26 سالہ صغیر لکھنؤ میں ہلاک ہوئے جو دلی سے بہار سائیکل پر جا رہے تھے۔ اور چند روز قبل ہی لکھنؤ میں چھتیس گڑھ کے میاں بیوی اس وقت ہلاک ہو گئے جب وہ اپنے بچوں کے ساتھ سائیکل پر گھر واپس جانے کی کوشش کر رہے تھے۔

گزشتہ تقریبا ًڈیرھ ماہ سے اس طرح کی خبریں متواتر مل رہی ہیں۔ بظاہر یہ تمام افراد حادثات کا شکار ہوئے لگتے ہیں لیکن اس کے پیچھے لاک ڈاؤن کے سبب پنپنے والی بے روزگاری، فاقہ کشی، غیر یقینی صورتحال اور افراتفری ہے۔ بے سہارا اور بے یار و مددگار مزدورں میں ایک عجیب سا خوف اور اضطراب ہے کہ جان کی پرواہ کیے بغیر سب اپنے گھروں کوواپسی کے لیے بے چین ہیں۔ مایوسی اور اضطراب کی کیفیت اور بھوک سے کورونا کا خوف زائل ہو گیا ہے اور وہ ہزاروں میل کا سفر پیدل طے کرنے کے لیے مجبور ہیں۔ کوئی سائیکل پر سوار ہے تو کوئی راستے میں ٹرک، ٹریکٹر یا جو بھی سواری ملے اس سے مدد لے کر گھر پہنچنا چاہتا ہے۔ حسب معمول جب تک حکومت کو اس کا احساس ہوتا بہت دیر ہوچکی تھی۔ ان مہاجر مزدوروں کے لیے ریل یا بسوں کے کچھ انتظامات بھی کیے گئے ہیں تاہم ہر جانب افراتفری کا عالم ہے اور بحران اس بڑے پیمانے کا ہے کہ حکومت کے انتظامات کو ‘اونٹ کے منہ میں زیرہ’ سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔

چند روز قبل ریاست مہاراشٹر سے بیس مزدروں کا قافلہ ریاست مدھیہ پردیش کے بھساول جا رہا تھا اورتقریبا ًپچاس کلومیٹر کے پیدل سفر کے بعد ریل کی پٹری پر رات کے وقت آرام کے لیے رکا تو انہیں نیند آگئی۔ اس میں سے سولہ مزدور علی الصبح پٹری پر آنے والی مال گاڑی کے نیچے کٹ کر ہلاک ہو گئے۔ ابھی اس واقعے پر حکومت اور وزراء افسوس کا اظہار کر ہی رہے تھے کہ مدھیہ پردیش سے یوپی آنے والے چھ مزدور اس وقت ہلاک ہو گئے جب ایک ٹرک راستے میں پلٹ گیا۔ ایسے واقعات کی فہرست طویل ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اس پر نہ تو ریاستی حکومتوں کی اور نہ ہی مرکزی حکومت کی کوئی خاص توجہ ہے۔ اس وقت سب کورونا وائرس کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے میں مصروف ہیں۔

بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو