کورونا 70 فیصد آبادی کو ویکسین لگنے تک ختم نہیں ہو گا : ڈبلیو ایچ او

عالمی ادارہ صحت نے کہا ہے کہ جب تک دنیا کی 70 فیصد آبادی کو کورونا ویکسین نہیں لگ جاتی کورونا کی وبا ختم نہیں ہو گی۔ فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق ڈبلیو ایچ او کے یورپ کے ڈائریکٹر ہانس کلوج نے یورپ میں ویکسین لگائے جانے کی رفتار کو سست قرار دیتے ہوئے تنقید کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’یہ مت سوچیں کہ کورونا کی وبا ختم ہو گئی ہے۔ کورونا ویکسین لگنے کی شرح میں اضافے کی ضرورت ہے۔‘  ان کا کہنا ہے ’وبا اس وقت ختم ہو گی جب 70 فیصد لوگوں کو ویکسین لگ جائے گی۔‘ اے ایف پی کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں 26 فیصد لوگوں کو کورونا ویکسین کی پہلی خوراک لگ چکی ہے، جبکہ یورپ میں 36.6 فیصد آبادی کو کورونا کی پہلی اور 16.9 فیصد کو دوسری خوراک لگ چکی ہے۔

ہانس کلوج نے کہا کہ عالمی ادارہ صحت کو سب سے زیادہ تشویش کورونا کی نئی اقسام کی وجہ سے ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’مثال کے طور پر انڈین قسم B.1617 ایک دوسری قسم B.117 (برطانوی قسم) سے زیادہ پھیلتی ہے۔‘ کورونا کی انڈین قسم 53 ممالک میں پھیل چکی ہے۔ تاہم دنیا بھر میں نئے کیسز اور اموات میں گذشتہ پانچ ہفتوں میں کمی واقع ہوئی ہے۔  ہانس کلوج نے کہا کہ اگرچہ کورونا ویکسینز نئی اقسام کے خلاف کارگر ثابت ہوئی ہیں لیکن لوگوں کو محتاط رہنا ہو گا۔ ہانس کلوج کا کہنا تھا کہ ’یہ قابل قبول نہیں ہے کہ کچھ ممالک نوجوانوں کو ویکسین لگانا شروع کر دیں اور خطے کے باقی ملکوں نے طبی عملے اور بزرگ افراد کو بھی ویکسین نہ لگائی ہو۔‘

بشکریہ اردو نیوز

کرونا وائرس کی نئی قسم میں نیا کیا ہے؟

کرونا وائرس کی نئی قسم کے بارے میں عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) کہنا ہے کہ انہیں ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ حالیہ دنوں میں رپورٹ ہونے والی کرونا وائرس کی نئی قسم زیادہ مہلک یا تیزی سے پھیلنا والا وائرس ہے۔ کرونا وائرس کی نئی قسم کے کیسز برطانیہ کے جنوبی حصے اور دارالحکومت لندن سے رپورٹ ہوئے تھے جس کے بعد متعدد ممالک نے برطانیہ سے آنے والی پروازوں پر پابندی لگا دی ہے۔ برطانیہ میں سامنے آنے والی کرونا وائرس کی نئی شکل جسے ‘وی یو آئی 202012/01’ کا نام دیا گیا ہے۔ اس کی تشخیص جنوبی برطانیہ کی کاؤنٹی کینٹ میں رواں ماہ 13 دسمبر ہوئی تھی۔ ابتدائی اندازوں میں سائنس دان یہ اندیشہ ظاہر کر رہے تھے کہ وی یو آئی پہلے سے موجود کرونا وائرس کے مقابلے میں 70 فی صد تیزی سے پھیلتا ہے۔ برطانیہ کے علاوہ جنوبی افریقہ میں بھی کرونا وائرس کی ایک نئی قسم کی تشخیص ہوئی ہے۔ تاہم عالمی ادارۂ صحت کے مطابق برطانیہ اور جنوبی افریقہ سے رپورٹ کیے جانے والے وائرس کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے اور وہ ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔

عالمی ادارۂ صحت کی تیکنیکی امور کی سربراہ ماریا وین کرخوو کے مطابق دونوں ممالک میں سامنے آنے والے وائرس میں یہ قدر مشترک ہے کہ وہ ایک وقت میں سامنے آئے ہیں۔ علاوہ ازیں ڈبلیو ایچ او کے مطابق اس نئی قسم کے 9 کیسز ڈنمارک جب کہ ایک، ایک نیدرلینڈ اور آسٹریلیا میں رپورٹ ہوئے ہیں۔ دوسری طرف ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس ایڈہینم گیبراسس کا کہنا ہے کہ وہ سائنس دانوں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں تاکہ یہ جان سکیں کہ کس طرح سے جینیاتی تبدیلیاں کرونا وائرس پر اثر انداز ہو سکتی ہیں۔  دریں اثنا میں ڈبلیو ایچ او کے ہیلتھ ایمرجنسی پروگرام کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر مائیکل ریان نے کہا ہے کہ اس وقت تک اس بارے میں شواہد موجود نہیں ہیں کہ یہ وائرس اپنی شدت میں تبدیلی لائے گا۔ اُن کے بقول تشخیص اور ویکسین کے معیار پہلے سے بہتر ہو رہے ہیں۔

کرونا کی نئی قسم کیا زیادہ مہلک ہے؟
برطانیہ سے رپورٹ کیے جانے والے وی یو آئی میں کرونا وائرس کے مقابلے میں لگ بھگ 23 تبدیلیاں دیکھی گئی ہیں۔ جن میں پروٹین میں اضافہ بھی شامل ہے جو کہ وائرس کے انسانی جسم میں داخل ہونے اور پھیلانے کا سبب ہے۔ برطانیہ کے وزیرِ صحت میٹ ہان کوک کا گزشتہ ہفتے کہنا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ جنوب مشرقی برطانیہ اور لندن میں وی یو آئی کی وجہ سے کرونا وائرس زیادہ تیزی سے پھیل رہا ہو۔ اس بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ ان کے بقول ہو سکتا ہے کہ وی یو آئی حال ہی میں منظور ہونے والی ویکسین کے خلاف مزاحمت کرے۔ برطانیہ کے چیف میڈیکل افسر کرس وٹی کا کہنا تھا کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ وی یو آئی کی وجہ سے زیادہ اموات واقع ہوتی ہیں۔ ان کے بقول اس بارے میں تحقیق جاری ہے۔

ویکسین وائرس کی نئی قسم کے خلاف کار آمد ہو گی؟
برطانوی سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یہ پتا لگانے میں کہ کرونا ویکسین، وی یو آئی کے خلاف بھی مؤثر ہو گی یا نہیں، تحقیق میں دو ہفتے لگ سکتے ہیں۔  تاہم وبائی امراض کے ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ پُر امید ہیں کہ کرونا وائرس کی تبدیل شدہ قسم ویکسین کی افادیت کو کم نہیں کرے گی۔ جو کہ جسم میں اینٹی باڈیز بنانے کے لیے تیار کی گئی ہے۔

کرونا کی نئی قسم سے بچوں کو کتنا خطرہ ہے؟
برطانوی خبر رساں ‘رائٹرز’ کے مطابق سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی نئی قسم سے بچوں کے بھی اتنے ہی متاثر ہونے کے خدشات ہیں جتنے کہ بڑی عمر کے افراد ہو رہے ہیں۔ واضح رہے کہ کرونا وائرس کی ابتدائی قسم سے بڑی عمر کے افراد، بچوں کے مقابلے میں زیادہ متاثر ہوتے رہے ہیں۔ برطانیہ میں اس نئے وائرس پر تحقیق کرنے والے ادارے ‘نر وی ٹیگ’ سے منسلک اور امپیریل کالج لندن سے وابستہ نیل فرگوسن کا کہنا ہے کہ یہ خدشات موجود ہیں کہ وائرس سے بچوں کے متاثر ہونے کی شرح زیادہ ہو۔ نری وی ٹیگ سے ہی منسلک وینڈی بارکلے کا کہنا ہے کہ یہ وائرس سامنے آنے کے بعد خدشہ ہے کہ اس سے زیادہ بچے متاثر ہوں گے۔

بشکریہ وائس آف امریکہ

کرونا وائرس کی ابتدا کیسے ہوئی، اس راز سے پردہ کب اٹھے گا؟

دنیا کے کئی ممالک کے سائنس دان کرونا وائرس کا پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ویکسین تلاش کرنے میں مصروف ہیں۔ جب کہ محققین اس راز سے پردہ اٹھانے کی کوششںیں بھی کر رہے ہیں کہ کرونا وائرس بالآخر کہاں سے آیا؟ جو بلا شبہ یہ اب بھی سب سے بڑا راز ہے۔ عالمی ادارۂ صحت نے وائرس سے متعلق آگاہی کے لیے 10 سائنس دانوں کی ایک بین الاقوامی ٹیم تشکیل دی ہے۔ یہ ٹیم اس بارے میں تحقیق کرے گی کہ کرونا وائرس کا پہلا مریض کس طرح وبا سے متاثر ہوا۔ ٹیم اس حوالے سے ان جانوروں پر بھی تحقیق کرے گی جن کے متعلق یہ شبہ ہے کہ کرونا وائرس ان کی وجہ سے پھیلا۔ خبر رساں ادارے ‘اے ایف پی’ کے مطابق عالمی ادارۂ صحت کے سربراہ ٹیڈروس نے صحافیوں سے گفتگو میں بتایا کہ وائرس کی حقیقت جاننا ضروری ہے۔ اس سے متعلق معلومات کے حصول کے لیے ممکنہ اقدامات کیے جائیں گے۔

کرونا وائرس کا پہلا کیس چین کے وسطی شہر ووہان میں ایک برس قبل سامنے آیا تھا جس کے بعد یہ وبا دنیا دوسرے ممالک تک پھیلنا شروع ہوئی اور اب تقریباََ ہر خطہ اس سے متاثر ہے۔ عالمی ادارۂ صحت نے نومبر میں جاری کی گئی اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ پہلا کیس دسمبر 2019 کے شروع میں رپورٹ ہوا تھا۔ لیکن جہاں تک وبا کے پہلی مرتبہ پھیلنے کا سوال ہے، یہ ضروری نہیں کہ وہیں سے اس مرض کا آغاز ہوا ہو۔ حالیہ مہینوں کے دوران مختلف ممالک کے محققین نے گندے پانی یا خون کے نمونوں کے تجزیے کی بنیاد پر ان خیالات کا بھی اظہار کیا ہے کہ ہو سکتا ہے دسمبر 2019 سے قبل کرونا وائرس کے ابتدائی کیسز کی نشان دہی نہ ہوئی ہو۔ پیرس میں قائم ‘انسٹی ٹیوٹ پاسٹخ’ کے شعبہ وائرولوجی سے منسلک ایٹین سائمن لوریری کا کہنا ہے کہ ان دعوؤں کی حقیقت جاننے کے لیے واضح ثبوت موجود نہیں ہیں۔ محققین وائرس کے فیملی ٹری کو تشکیل دینے کے لیے جینیاتی تجزیوں پر انحصار کرتے ہیں۔

دوسری جانب عالمی ادارۂ صحت کا کہنا ہے کہ تحقیق سے وائرس کے پھیلاؤ یا اس کی منتقلی کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد ملے گی۔ خاص طور سے اس بات کا پتا لگانے میں آسانی ہو سکے گی کہ وائرس وقت کے ساتھ ساتھ کس طرح پروان چڑھا اور یہ کس طریقے سے ایک ہی جگہ اور ایک ہی وقت میں ایک کے بعد ایک شخص کو اپنا شکار بناتا چلا گیا۔ سائنس دان اس بات پر متفق ہیں کہ یہ بیماری جانوروں سے وجود میں آئی۔ ایٹین سائمن لوریری کا کہنا تھا کہ یہ اہم سوال یہ ہے کہ یہ وائرس بالآخر کس وجہ سے یا کس ذریعے سے انسانوں میں پھیلا۔ ان کے بقول اس حوالے سے چمگادڑوں کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے کہ کرونا وائرس ان سے پھیلا۔ لیکن انسانوں میں وبا پھیلنے میں کسی اور جانور کی بھی نشان دہی کو بعید از قیاس قرار نہیں دیا جا سکتا۔ عالمی ادارۂ صحت کے محققین کو چین کے شہر ووہان کی مچھلی اور گوشت مارکیٹ کی جانچ پڑتال کرنی ہو گی۔ تاکہ اس بات کی وضاحت ہو سکے کہ کرونا وائرس کے ابتدائی کیسز اسی مارکیٹ سے پھیلے یا نہیں۔

اس ٹیم کو اب وبا سے متعلق کافی معلومات دستیاب ہوں گی جو وبا کی ابتدا میں نہیں تھی​۔ ایک اور ممکنہ افواہ بھی کئی ماہ سے گردش کر رہی ہے کہ ‘ووہان انسٹی ٹیوٹ آف وائرولوجی’ کرونا وائرس کے پھیلاؤ میں مبینہ طور پر ملوث ہے۔ یہ دعویٰ بھی سامنے آیا کہ بائیو سیفٹی لیب سے وائرس پھیلا۔ چین ان الزامات اور افواہوں کو پہلے ہی مسترد کر چکا ہے۔ تاہم ایٹین سائمن لوریری کا کہنا ہے کہ ابھی تک اس خیال کو مکمل طور پر رد کرنا ممکن نہیں ہے کہ یہ وائرس حادثاتی طور پر پھیلا۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ اس بات کے کوئی ثبوت نہیں کہ اسے انسانوں نے تیار کیا ہو۔ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق وبائی مرض کا آغاز کیسے ہوا؟ اسے سمجھنا اس لیے ضروری ہے کہ انسانوں کو اس مرض سے محفوظ رکھا جا سکے۔ عالمی ادارے نے متنبہ کیا ہے کہ یہ سوال کہ وبا جانوروں سے انسانوں میں کس طرح پھیلی؟ یہ ایک ایسی پہیلی ہے جسے حل کرنے میں کئی برس لگ سکتے ہیں۔تحقیقات شروع کرنے کی غرض سے عالمی ادارۂ صحت نے ایک مختصر ٹیم جولائی میں بیجنگ روانہ کی تھی۔ تاہم ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ عالمی ادارے کی متعدد اراکین پر مشتمل بڑی ٹیم چین کا سفر کب کرے گی۔

بشکریہ وائس آف امریکہ

دنیا ایک بار پھر کورونا کی لپیٹ میں

پانچ کروڑ سے زیادہ افراد دنیا بھر میں کورونا وائرس سے متاثر ہو چکے ہیں۔ دوسری لہر میں اب تک 7.2 فیصد کا اضافہ ہو چکا ہے۔ اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ متاثر امریکا، میکسیکو، برطانیہ، برازیل، فرانس، جرمنی اور ہندوستان وغیرہ ہیں۔ پاکستان میں روزانہ کے متاثرین تین ہزار سے زیادہ ہو چکے ہیں۔ امریکا، برطانیہ اور روس میں ویکسین کی دریافت ہوئی ہے۔ اس وقت درست اعداد و شمار بتانا مشکل ہے اس لیے کہ تعداد میں تیزی سے روزانہ اضافہ ہو رہا ہے۔ موڈرینا کمپنی نے اعلان کیا ہے کہ یہ ویکسین 95 فیصد کارآمد ہے، یہ وائرس کو ختم کرے گی۔ فائزر اور جانسن اینڈ جانسن امریکی کمپنیوں نے بھی ویکسین بنا لی ہے، یہ 94.5 فیصد کامیابی کا دعویٰ کیا ہے۔ ایک کمپنی 22 ملین ویکسین فراہم کر سکتی ہے جب کہ دوسری 50 ملین ویکسین فراہم کر سکتی ہے۔

امریکی حکومت نے 1.1 ملین ویکسینز خریدنے کا اعلان کیا ہے۔ 1.1 ملین ویکسینز امریکا لینے کے بعد دوسرے ملکوں کو مل سکتی ہے۔ امریکا میں ایک روز میں ایک لاکھ لوگ متاثر ہوئے۔ روسی سائنسدان نے ایسی ویکسین دریافت کی ہے جو اینٹی باڈی پلازمہ 24 گھنٹے میں بنا سکتی ہے اور بھی کئی ملکوں کے سائنسدانوں نے ویکسین اور اینٹی باڈیز کی دوا دریافت کی ہے۔ شروع میں چین، اٹلی، اسپین اور ایران زیادہ متاثر ہوئے تھے جب کہ دوسری لہر میں ایسا نہیں ہے۔ وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے پی ٹی آئی کے جلسے روک دیے ۔ جب انتخابی مہم ختم ہوئی تو یہ اعلان کیا۔ جن ملکوں نے اسے اہمیت نہیں دی یا مذاق کے طور پر دکھایا چھپایا وہیں زیادہ پھیلا۔ جیساکہ امریکا، اٹلی، اسپین، بھارت، میکسیکو، برازیل، برطانیہ اور فرانس وغیرہ۔ جہاں احتیاط کی گئی وہاں رک گیا۔

جیساکہ بھوٹان، نیپال، چین، کوریا، ویتنام، کمبوڈیا، برما، لاؤس، یونان اور کچھ افریقی ممالک۔ جن کے پاس وسائل کم ہیں انھوں نے احتیاط کی اور روک لیا۔ جن کے پاس بہت وسائل ہیں، ایٹم بم بھی ہیں مگر کورونا کو روک نہیں پائے۔ ویسے تو وائرس خطہ، رنگ و نسل، مذہب، طبقہ اور زبان سے بالاتر ہے، کسی پر بھی حملہ آور ہو سکتا ہے، مگر ساتھ ساتھ طبقاتی بھی ہے۔ وہ ایسے جیسا کہ امریکا میں سیاہ فام لوگوں میں زیادہ پھیلا۔ اس لیے کہ وہ پسماندہ ہیں، غذا کی کمی ہے، بہتر ماحول میسر نہیں، تحفظات کا انتظام نہیں۔ چونکہ سیاہ فام سفید فاموں کے مقابلے میں غذائی قلت کا شکار ہیں، اس لیے کہ آمدنی اور وسائل کم ہیں۔ چونکہ بھرپور غذا حاصل کرنے سے قاصر ہیں اس لیے اینٹی باڈی یعنی قوت مدافعت کی کمی ہے۔ اس کے باعث اموات زیادہ ہوئیں۔ یہی صورتحال دنیا بھر میں ہے۔

پاکستان، ہندوستان، برازیل، میکسیکو اور برطانیہ وغیرہ میں ہے۔ مرنے والوں میں غریب، محنت کش اور پسماندہ لوگ قرنطینہ میں رہتے ہوئے غذائیت سے بھرپور کھانا نہیں کھا سکتے ہیں اس لیے ان میں قوت مزاحمت بہتر طور پر پیدا نہیں ہوتی ہے اور وہ وائرس کو شکست بھی نہیں دے سکتے ہیں۔ محنت کش اگر کورونا سے بچ جاتے ہیں تو پھر بھوک کے شکار ہوکر مر جاتے ہیں۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے مطابق رواں سال کی دوسری سہ ماہی میں ہی تیس کروڑ محنت کشوں کو اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھونا پڑا۔ اس سے قبل صرف سال کے پہلے تین ماہ میں تیرہ کروڑ لوگ اپنی نوکریوں سے فارغ کر دیے گئے۔ اس طرح غریب ممالک کے تقریباً 1.8 ارب غیر رسمی مزدوروں کو لاک ڈاؤن اور اس کے بعد پیدا ہوئی صورتحال کی وجہ سے غربت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ عالمی بینک کے مطابق ترقی یافتہ ممالک کی معیشت اس سال کے اختتام تک 7 فیصد تک سکڑ جائے گی اور مجموعی طور پر عالمی معیشت 5.2 فیصد تک سکڑ سکتی ہے، جب کہ زیادہ تر ممالک کی معیشتیں کساد بازاری کی لپیٹ میں رہیں گی۔

معیشتوں کی اس قدر ابتر صورتحال کے سب سے زیادہ بھیانک اثرات بھی محنت کش طبقے پر ہی پڑیں گے جو پہلے ہی ابتر صورتحال سے دوچار ہے۔ دوسری طرف وبا کی شروعات پانچ مہینوں میں صرف امریکی ارب پتیوں کی کل دولت میں 6.37 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے۔ جو دن بہ دن بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ آن لائن تعلیم یا مختلف اجناس کی آن لائن کھپت، کورونا وبا کے دوران بھی ان سرمایہ داروں نے ہر وہ حربہ استعمال کیا ہے جس سے ان کی دولت میں اضافہ ہو سکے۔ دولت میں اضافے کی یہ ہوس اس قدر شدت اختیار کر چکی ہے کہ آج ہمارا ایکو سسٹم بھی اس کی زد میں آچکا ہے۔ چین سے جس وبا کا آغاز ہوا وہ محض کوئی حادثہ نہ تھا بلکہ یہ فطرت میں پیدا کیے گئے بگاڑ ہی کا نتیجہ تھا جس کا خمیازہ آج پوری دنیا کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ پاکستان میں ایک ہفتہ میں 5 گنا کورونا کے متاثرین کا اضافہ ہوا ہے۔

عمران خان نے ہزارہ، حافظ آباد اور جی بی کے دورے کے بعد یعنی اپنا سیاسی دورہ مکمل کر کے اب جلسوں کے خاتمے کا اعلان کیا ہے۔ اب اگر حزب اختلاف جلسے کرنے جا رہی ہے تو وہ بھی جرم ہے۔ سوئٹزرلینڈ میں مزید 12 ہزار 839 افراد متاثر ہوئے۔ سوئیڈن کے حکام نے کورونا وائرس کے باعث سماجی تقریبات میں لوگوں کی تعداد کو 300 سے کم کر کے 8 کرنے کا اعلان کیا ہے۔ جنوبی کوریا میں 11 مزید امریکی فوجیوں کا ٹیسٹ مثبت آیا۔ برطانوی وزیر صحت نے کہا کہ حکومت ویکسین کی دستیابی کے بعد اسے لوگوں تک پہنچانے کے لیے منصوبے پر کام کر رہی ہے۔ بھارت کی سیاسی جماعت کانگریس کے مرکزی رہنما احمد پٹیل بھی وائرس کا شکار ہو گئے، یہ اعداد و شمار 19 نومبر 2020 تک کے ہیں۔ بھارت میں متاثرین کی تعداد 80 لاکھ 45 ہزار تک جا پہنچی ہے جب کہ مزید 447 اموات کے  بعد مجموعی ہلاکتیں ایک لاکھ 30 ہزار 109 ہو گئیں۔

امریکا میں متاثرین کی تعداد ایک کروڑ تیرہ لاکھ سے تجاوز کر گئی۔ جب کہ 2 لاکھ 51 ہزار افراد لقمہ اجل ہو چکے ہیں۔ برازیل میں متاثرین افراد کی تعدد 58 لاکھ 63 ہزار سے بڑھ گئی ہے۔ اب تک ایک لاکھ 65 ہزار 800 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ آسٹریا میں لاک ڈاؤن کا دوسرا مرحلہ، سعودی عرب کے علاقے نجران میں دوبارہ پابندیاں لگائی گئی ہیں۔ دنیا بھر میں کورونا وائرس سے 13 لاکھ 32 ہزار افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ کسی زمانے میں ٹی بی کے مرض کو لاعلاج قرار دیا جاتا رہا مگر اب اس کا باقاعدہ علاج ہوتا ہے۔ کینسر کا بھی علاج ہو رہا ہے مگر دھن والے کروا سکتے ہیں۔ اب بھی پولیو کی معذوریت سے بچانے کی دوا کے بجائے اسے نسل کو بڑھانے سے روکنے کی دوا بعض لاعلم حضرات قرار دیتے ہیں۔ کورونا کو بھی بہت سے لوگ اور حکمران اسے خطرناک نہیں سمجھتے اور مذاق اڑاتے ہیں۔ ہر دور میں ایسے لوگ ہوتے ہیں جو بیماریوں کے علاج کو فضول سمجھتے ہیں۔

ابوبکر الرازی جو فادر آف میڈیسن بھی کہلاتے ہیں جب چیچک کی دوا دریافت کی تو انھیں حکمرانوں نے جیل میں یہ کہہ کر قید کر دیا کہ چیچک کی تو بڑھیا ہوتی ہے اس نے کہاں سے دوا نکال لی؟ بیماری ہو، وبا ہو، ماحولیات ہو یا جنگ، ہر سانحے میں پیداواری قوتیں، محنت کش اور شہری کی اموات زیادہ ہوتی ہیں۔ اس وقت احتیاط سب سے بڑا علاج ہے۔ یونان اور مشرق بعید کے ممالک بہتر احتیاط کرنے کی وجہ سے کورونا کم پھیلا ہے۔ یہ عمل قابل تقلید ہے۔ یونان کی حزب اختلاف کی تجویز اور حکومت کی جانب سے ایک حد تک عمل کرنے پر بہتر نتائج آئے ہیں۔ انھوں نے پہلے مرحلے میں کوئی لاک ڈاؤن نہیں کیا۔ مل، فیکٹریاں، کارخانے، دکانیں سب کھلی رہیں، مگر فیکٹریوں میں ایک شفٹ میں 35 افراد کو کام کرنے کی اجازت دی تھی۔ ہر شفٹ کے ساتھ ایک ڈاکٹر ورلڈ ہیلتھ کے احکامات پر مکمل عمل کیا۔ اس سے بہتر نتیجہ نکلا۔

زبیر رحمٰن

بشکریہ ایکسپریس نیوز

اگر آپ کرونا وائرس سے متاثر ہوں، تو آپ کو کیا کرنا چاہیے؟

دنیا بھر میں کورونا وائرس کی دوسری لہر اب تک لاکھوں انسانوں کو متاثر کر چکی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آپ اس وائرس سے متاثر ہوں، تو آپ کو کیا کرنا چاہیے؟ کورونا وائرس کی دوسری لہر اب تک پہلی لہر سے کہیں زیادہ افراد کو متاثر کر چکی ہے اور متاثرہ افراد کی تعداد میں روزانہ نمایاں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ یورپ کے کئی ممالک میں ایک مرتبہ پھر لاک ڈاؤن نافذ کر دیا گیا ہے۔ تاہم ترقی پذيز ممالک، جہاں اس وبا نے مزید غربت پیدا کی ہے، دوسرے لاک ڈاؤن کے متحمل نہیں۔ ایسے میں انتہائی اہم ہے کہ تمام افراد اپنے اپنے طور پر سماجی فاصلے، ماسک کے استعمال اور ہاتھوں کو بار بار دھونے جيسے عوامل پر عمل پیرا ہوں۔ ایسے میں ایک سوال یہ بھی اہم ہے کہ اگر آپ اس وائرس سے متاثر ہو جائیں، تو آپ کو کیا کرنا چاہیے؟

علامات سے اندازہ
خشک کھانسی، بخار اور بعض صورتوں میں خوشبو اور ذائقے کا احساس ختم ہو جانا وہ عمومی علامات ہیں، جو کووِڈ انیس کی صورت میں ہو سکتی ہیں۔ ایسے میں اہم ترین بات یہ ہے کہ آپ خود کو دیگر گھر والوں سے علیحدہ کر لیں اور خاص طور پر مشترکہ غسل خانہ اور بیت الخلا استعمال نہ کریں۔ ساتھ ہی جسم میں درد کی شکایت زیادہ ہو، تو پیراسٹامول یا ابوپروفین لے لیں۔ واضح رہے کہ ابتدا میں ابو پروفین سے متعلق ایسی خبریں سامنے آئی تھیں کہ یہ اینٹی انفلیمیٹری دوا کورونا وائرس کی صورت میں مزید خرابی کا باعث بن سکتی ہے، تاہم محققین نے تصدیق کی ہے کہ اس سلسلے میں کوئی شواہد سامنے نہیں آئے۔ ماہرین کے مطابق کھانسی کی صورت میں کمر کے بل نہ لیٹیں بلکہ پہلو پر لیٹیں۔ جب کہ بیٹھيں، تو سیدھے بیٹھیں۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایسے میں ایک چمچ شہد استعمال کیا جا سکتا ہے تاہم اگر مریض بارہ ماہ سے کم عمر بچہ ہے، تو کسی صورت شہد نہ دیں۔ ایسے میں کسی صورت کسی دوسرے شخص سے براہ راست رابطہ نہ رکھیں اور میڈیکل اسٹور بھی خود نہ جائیں۔ اگر ڈاکٹر کے پاس بھی جانا ہو، تو پہلے مطلع کر دیں، تاکہ وہ حفاظتی انتظام کر سکیں۔

اگر سانس اکھڑنے لگے
اگر سانس لینا شدید دشوار ہو تو کمرے کو قدرے سرد رہنے دیجیے۔ ایسے میں کھڑکی کھولنا یا کمرے میں ہیٹنگ کم کرنا بہتر ہے، تاہم کسی صورت پنکھے کا استعمال نہ کریں۔ ایسے میں نہایت آہستگی سے ناک کے ذریعے سانس اندر کھینچيں اور منہ سے ہوا خارج کریں۔ ایسے میں کرسی پر سیدھی کمر کے ساتھ بیٹھنا بہتر ہو گا۔ سانس اکھڑنے کی صورت میں بوکھلاہٹ کا شکار ہر گز نہ ہوں بلکہ اپنے اعصاب قابو میں رکھیں۔

وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کی کوشش
عام حالات میں کوئی شخص بیماری سے بچنے کی تدبیر کرتا ہے، تاہم وبائی صورت حال میں اس بیماری سے دوسروں کو بچانا اہم ترین راستہ ہے۔ علامات ظاہر ہونے کی صورت میں آپ کے لیے سب سے اہم یہ ہونا چاہیے کہ آپ سے یہ وائرس آگے نہ پھیلے۔ اس کے لیے سیلف آئیسولیشن اہم ترین قدم ہے۔ اگر آپ کا دوسروں سے الگ ہونا ممکن نہیں، تو ایسی صورت میں ہر وقت ماسک پہنیں اور فاصلہ برقرار رکھیں۔ چند حالات میں جانوروں میں کورونا وائرس کی منتقلی کی اطلاعات ہیں۔ ایسے میں احتیاطی طور پر جانوروں سے رابطہ محدود تر کر دیں۔ اگر پالتو جانوروں کی دیکھ بھال کے لیے کوئی اور موجود نہ ہو، تو ایسی صورت میں کسی بھی ناگزیر رابطے سے قبل اور بعد میں ہاتھ اچھی طرح سے دھوئیں۔

پانی پئیں اور آرام کریں
بیماری کی صورت میں کوشش کریں کہ زیادہ سے زیادہ مائع آپ کے جسم میں موجود رہے۔ پانی بیماری میں جسم کی وائرس سے لڑائی میں مدافعاتی نظام کے لیے نہایت ضروری ہوتا ہے۔ ایسے میں پانی کا زیادہ سے زیادہ استعمال کریں۔ اس کے علاوہ جسم کو زیادہ سے زیادہ آرام دیں۔

ہسپتال آخری حل
اگر آپ کا سانس لینا محال ہو اور آپ کو محسوس ہو کہ آپ کو طبی مدد کی ضرورت ہے، ایسے میں ہسپتال منتقلی ضروری ہے۔ ہسپتال منتقلی کے لیے طبی عملے سے رابطے پر آپ متعلقہ عملے کو مطلع کر دیں، تاکہ آپ تک پہنچنے والی ایمبولینس، نرسز یا ڈاکٹرز پہلے سے تیار ہوں اور اس وائرس سے متاثر نہ ہو جائیں۔

بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو

کورونا وائرس پہلے سے زیادہ متعدی ہو گیا ہے، تحقیق

کووڈ 19 کا باعث بننے والے نوول کورونا وائرس میں جینیاتی تبدیلیوں یا میوٹیشن نے اسے انسانی خلیات کو زیادہ آسانی سے متاثر کرنے میں مدد فراہم کی ہے یا یوں کہہ لیں کہ زیادہ متعدی بنا دیا۔ یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔ ٹیکساس یونیورسٹی کی اس تحقیق میں 5 ہزار سے زائد کووڈ 19 کے مریضوں کو شامل کیا گیا اور دریافت کیا گیا کہ اس بیماری میں ایسی جینیاتی تبدیلیاں آئی ہیں، جس نے اسے ممکنہ طور پر زیادہ متعدی بنایا۔ طبی جریدے جرنل ایم بائیو میں شائع تحقیق میں کورونا کی اس تبدیلی کو ڈی 614 جی کہا گیا ہے، جو اسپائیک پروٹین میں ہوئی جو وائرس کو انسانی خلیات میں داخل ہونے میں مدد دیتا ہے۔ تحقیق میں بتایا گیا کہ وائرس میں یہ میوٹیشن ایک قدرتی عمل ہے جس میں وائرس کی جینیاتی تبدیلیاں ہوتی ہیں اور ہمارے مدافعتی نظام پر دباؤ بڑھتا ہے۔ تحقیق میں بتایا گیا کہ کورونا وائرس کی پہلی لہر کے دوران ہیوسٹن کے 71 فیصد مریضوں میں وائرس کی اس قسم کو دریافت کیا گیا تھا جبکہ دوسری لہر میں یہ شرح 99.9 فیصد تک پہنچ گئی۔

یہ رجحان دنیا بھر میں دیکھنے میں آیا ہے۔ جولائی میں 28 ہزار سے زائد جینوم سیکونسز پر مبنی ایک تحقیق میں کورونا وائرس کی ان اقسام کو دریافت کیا گیا، جن میں ڈی 614 جی میوٹیشن موجود تھی اور یہ دنیا بھر میں بالادست قسم ہے۔ اس کے بعد یہ سوال پیدا ہوا تھا کہ آخر وائرس کی ان اقسام نے دیگر کو کیسے پیچھے چھوڑ دیا ؟ تو اس کا جواب تھا کہ وہ زیادہ متعدد اقسام تھیں۔ برطانیہ میں 25 ہزار سے زائد جینوم سیکونسز پر ہونے والی ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ اس میوٹیشن والے وائرسز دیگر اقسام کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے ایک سے دوسرے میں منتقل ہوتے ہیں اور ایک مقام پر زیادہ کیسز کا باعث بنتے ہیں۔ قدرتی انتخاب ان اقسام کو زیادہ آسانی سے پھیلنے میں مدد دیتے ہیں، تاہم اس وقت تمام سائنسدان اس خیال پر قائل نہیں ہوئے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کی کوئی اور وضاحت بھی ہو سکتی ہے، جیسے ڈی 614 جی میوٹیشن یورپ اور امریکا پہنچنے والے اولین وائرسز میں عام ہو گا، جس سے دیگر اقسام کو آگے بڑھنے کا موقع ملا ہو گا۔ اسپائیک پروٹین میں ایسی اضافی تبدیلیاں آئیں جس سے اس کا اثر بڑھ گیا۔ ٹیکساس یونیورسٹی کی اس تحقیق میں لیبارٹری تجربات میں ثابت کیا گیا کہ ایسی ہی ایک تبدیلی سے اسپائیک پروٹین کو انسانوں میں اس اینٹی باڈی پر حملہ آور ہونے کا موقع ملا، جو اس نئے کورونا وائرس کے خلاف مدافعت کے لیے قدرتی طور پر بنتی ہے۔ اس سے وائرس کی نئی قسم کو زیادہ آسانی سے مدافعتی نظام کو پیچھے چھوڑنے کی سہولت ملی، تاہم اس حوالے سے محققین تمام تفصیلات جان نہیں سکے۔ مگر محققین کا کہنا تھا کہ اسپائیک پروٹین میں یہ تبدیلی بہت کم اقسام میں ہے اور بظاہر اس سے متاثرہ افراد میں بیماری کی شدت زیادہ سنگین نہیں ہوتی۔

انہوں نے بتایا کہ انہوں نے ایسے وائرسز کو نہیں دیکھا جو ویکسینز اور اینٹی باڈی کے اجتماع پر حملہ آور ہو سکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ وائرس مسلسل خود کو بدل رہا ہے، رئیل ٹائم نگرانی جیسی کوششیں عالمی ویکسینز اور علاج کو اس سے ایک قدم آگے رکھ سکیں گی۔ جولائی میں امریکا کے لا جولا انسٹیٹوٹ فار امیونولوجی کی تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ نوول کورونا وائرس کی نئی قسم پہلے سے زیادہ متعدی ہے مگر وہ پرانی قسم کے مقابلے میں لوگوں میں کووڈ 19 کی شدت میں اضافہ نہیں کر رہی۔ لا جولا انسٹیٹوٹ فار امیونولوجی کی تحقیق میں شامل محقق ایریکا اولیمن شیپری کا کہنا تھا ‘یہ نئی قسم اب وائرس کی نئی شکل ہے’۔ جریدے جرنل سیل میں شائع تحقیق اس تحقیقی ٹیم کے سابقہ کام پر مبنی تھی جو کچھ عرصے پہلے پری پرنٹ سرور میں شائع کی گئی تھی، جس میں جینیاتی سیکونس کے تجزیے کے بعد عندیہ دیا گیا تھا کہ ایک نئی قسم نے دیگر پر سبقت حاصل کر لی ہے۔

بشکریہ ڈان نیوز

بھارت کی نصف آبادی کورونا وائرس سے متاثر ہو جائیگی

بھارت میں کورونا کی پیشگوئی کے لیے قائم ایک سرکاری کمیٹی کا کہنا ہے کہ آئندہ فروری تک ملک کی کم از کم نصف تعداد کورونا وائرس کے انفیکشن کا شکار ہو جائے گی۔ کورونا وائرس سے تقریباً 76 لاکھ متاثرین کے ساتھ بھارت اس عالمگیر وبا سے دنیا میں سب سے زیادہ متاثرہ ملک امریکا کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ بھارت میں متاثرین کی تعداد 76 لاکھ کے قریب پہنچ گئی ہے جب کہ اب تک ایک لاکھ 15 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ بہر حال بھارت میں ستمبر کے وسط میں اپنے عروج کے پہنچنے کے بعد سے کورونا وائرس کے نئے کیسز کی یومیہ تعداد میں اب گراوٹ آرہی ہے۔ ستمبر کے وسط میں ہر روز 90 ہزار سے زائد کیسز سامنے آرہے تھے لیکن اب یہ تعداد اوسطاً 61390 ہو گئی ہے۔ بھارت میں کورونا کی پیشین گوئی کے لیے قائم کردہ سرکاری کمیٹی کے ایک رکن، انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، کانپور کے پروفیسر منیندر اگروال کے مطابق ”ریاضی کے ماڈل کے اندازے کے مطابق اس وقت ملک کی تقریباً 30 فیصد آبادی کورونا سے متاثر ہے اور یہ فروری تک 50 فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔

کمیٹی کا خیال ہے کہ کورونا وائرس کے پھیلنے کی موجودہ تعداد مرکزی حکومت کے سیرولوجیکل سروے کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ مرکزی حکومت کی رپورٹ کے مطابق ستمبر تک ملک کی آبادی کے صرف تقریباً 14 فیصد لوگ ہی اس وائرس سے متاثر ہوئے تھے۔ پروفیسر اگروال کا کہنا ہے کہ سیرولوجیکل سروے کی بنیاد پر جو اعداد و شمار بتائے گئے ہیں وہ غالباً اس لیے درست نہیں ہیں کیوں کہ بھارت کی ایک ارب 30 کروڑ کی بہت بڑی آبادی کے ایک بہت چھوٹے حصے کو سروے میں شامل کیا گیا تھا۔ اس لیے اس کے بجائے وائرولوجسٹوں، سائنس دانوں اور دیگر ماہرین پر مشتمل کمیٹی نے کورونا انفیکشن سے متاثر ہونے والوں کی تعداد کے متعلق پیشن گوئی کے لیے میتھ میٹیکل ماڈل کو اختیار کیا۔

احتیاط نہیں تو تعداد بڑھے گی
پروفیسر اگروال نے بتایا ”ہم نے ایک نیا ماڈل اپنایا جس میں ان کیسز کا حساب بھی رکھا جاتا ہے جن کی رپورٹ درج نہیں کی گئی۔ اس لیے ہم متاثرہ افراد کو دو زمروں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ وہ جن کے بارے میں رپورٹ کی گئی اور وہ جن کے متاثر ہونے کی رپورٹ درج نہیں کی گئی۔” کمیٹی نے متنبہ کیا ہے کہ اگر احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کیے گئے تو متاثرین کی تعداد کے بارے میں جو پیشین گوئی کی ہے وہ اس سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے اور اگر سوشل ڈسٹینسنگ اور ماسک پہننے جیسے ضابطوں کو نظر انداز کیا گیا تو صرف ایک ماہ میں متاثرین کی تعداد 26 لاکھ سے تجاوز کر سکتی ہے۔ ماہرین نے پہلے بھی متنبہ کیا تھا کہ رواں مہینے اور اگلے ماہ ہونے والے درگا پوجا اور دیوالی جیسے تہواروں کے موسم کی وجہ سے متاثرین کی تعداد میں کافی اضافہ ہو سکتا ہے۔

بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو

امریکا نے کورونا وائرس پر چین کیخلاف مقدمہ دائر کر دیا

امریکی ریاست میسوری نے چین کیخلاف کورونا وائرس سے متعلق ناکافی معلومات دینے پر ملک کی وفاقی عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا۔ عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی ریاست میسوری کے اٹارنی جنرل نے ملک کی فیڈرل کورٹ میں چین کیخلاف ایک مقدمہ دائر کیا ہے جس میں چین پر کورونا وائرس سے متعلق اہم اور ضروری معلومات کو چھپانے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ ریاست میسوری کی جانب سے دائر مقدمے میں کہا گیا ہے کہ چین نے کورونا وائرس سے متعلق اہم معلومات کو دنیا سے چھپایا ہے خصوصی طور پر وائرس کے انسان سے انسان میں منتقل ہونے کا نہ بتا کر دنیا کو خوفناک وبا کی آگ میں جھونک دیا اور عالمی ادارے کو بھی اس عفریت سے تاخیر سے آگاہ کیا۔

درخواست میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ چین نے ووہان میں ایک بڑی تقریب رکھی جس میں 4 ہزار سے زائد افراد نے شرکت کی اور پھر ان افراد کو دیگر ممالک بھیج دیا گیا جس سے یہ وائرس تیزی سے دنیا میں پھیلا۔ اس سے قبل کئی امریکی تاجر بھی چین کیخلاف ایسے ہی مقدمات دائر کر چکے ہیں۔ حیران کن طور پر ریاست میسوری کی جانب سے چین کیخلاف دائر مقدمے میں کورونا وائرس کو لیبارٹری میں تیار کرنے کے حوالے سے کچھ نہیں کہا گیا جب کہ امریکی حکومت بارہا یہ الزام عائد کرتی ہے اور امریکی خفیہ ادارے اس پہلو پر سنجیدگی سے تفتیش بھی کر رہے ہیں۔ دوسری جانب عالمی قوانین کے ماہرین نے امریکی ریاست میسوری اور تاجروں کی جانب سے چین پر مقدمات دائر کرانے پر حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے عالمی خبر رساں ادارے کو بتایا کہ چین ایک خود مختار ملک ہے جس کے خلاف کسی امریکی عدالت میں سماعت نہیں ہو سکتی۔ اس کے لیے امریکا کو عالمی عدالت سے رجوع کرنا ہو گا۔ 

بشکریہ ایکسپریس نیوز

 

چین نے کورونا وائرس کی لیبارٹری میں تیاری کا امریکی الزام مسترد کر دیا

چین نے کورونا وائرس کی لیبارٹری میں تیاری کے امریکی الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ عالمی ادارہ صحت نے بھی وائرس کی لیب میں تیاری کو خارج از امکان قرار دے دیا ہے۔ عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق چین کے محکمہ خارجہ کے ترجمان لی جیان ژاؤ نے ہفتہ وار پریس کانفرنس کے دوران کورونا وائرس کی لیبارٹری میں تیار کرنے کے الزام کو بے بنیاد اور مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ عالمی ادارہ صحت بھی کورونا وائرس کے کسی لیبارٹری میں تیار ہونے کی تردید کی ہے۔ ترجمان چینی دفتر خارجہ نے امریکا کا نام لیے بغیر کہا کہ عالمی ادارہ صحت کے واضح بیان کے باوجود اگر کوئی ملک کورونا وائرس کی لیبارٹری میں تیاری ثابت کرنے کے لیے اپنی توانائی صرف کرنا چاہتا ہے تو خوشی سے اپنا وقت برباد کر سکتا ہے۔ 

چین کی وضاحت امریکی خفیہ ایجنسی کی جانب سے کورونا وائرس کے کسی لیبارٹری میں تیاری کی تحقیقات کا آغاز کرنے کے بیان کے بعد سامنے آئی ہے۔ امریکی نشریاتی اداروں کے مطابق تحقیقاتی ادارے کورونا کے ووہان کی لیبارٹری میں تیاری کی تفتیش کر رہی ہے تاہم اکثر اہلکاروں کا کہنا ہے کہ وائرس کے لیبارٹری میں تیاری کے امکان کم ہی ہیں۔ واضح رہے کہ کورونا وائرس کے ابتدا سے ہی صدر ٹرمپ اس کو ’چائنا وائرس‘ کہہ کر پکارتے آئے ہیں جواباً چین نے بھی اس وائرس کو ووہان میں لانے کا الزام امریکی فوج پر عائد کیا تھا اور اس کے ثبوت میں امریکی محکمہ صحت کی انفلوئنزا کی اچانک پھیلاؤ سے متعلق ایک رپورٹ بھی پیش کی تھی۔

بشکریہ ایکسپریس نیوز

کرونا پاکستان میں : ہر سطح پر احتیاط کی ضرورت

پاکستان میں کرونا وائرس کے داخل ہونے کی تصدیق اور ایران سے ہوائی جہاز کے ذریعے کراچی و اسلام آباد پہنچنے والے دو مصدقہ مریضوں کے انتہائی قابلِ اعتماد طبی اداروں کے آئسو لیشن وارڈز میں رکھے جانے کے بعد اگرچہ وفاقی، صوبائی اور مقامی حکومتیں اس مرض کے حوالے سے سرگرم نظر آ رہی ہیں مگر انہیں فعال تر بنانے کی ضرورت صحت و صفائی کے پہلے سے موجود ناقابلِ فخر منظر نامے میں یقینی طور پر بڑھ گئی ہے۔ ایئر پورٹوں پر آنے والے مسافروں کے طبی معائنے میں غفلت سمیت کئی امور یقیناً توجہ طلب ہیں تاہم لمحہ موجود کا اہم ترین سوال یہ ہے کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہئے۔ سندھ کی حکومت نے بچوں کو وائرس سے بچانے کیلئے اور بلوچستان حکومت نے تعلیمی ادارے بند کر دیئے ہیں۔ 

اسپتالوں میں آئسولیشن وارڈز کے قیام کے اقدامات، ایران سے ملنے والی سرحد بند کرنے، ریلوے سروسز بند کرنے سمیت متعدد اقدامات کئے گئے ہیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہم اسکولوں، بازاروں اور زندگی کی تمام سرگرمیوں کو غیرمعینہ مدت کیلئے معطل نہیں کر سکتے۔ اسلئے ضرورت اس بات کی ہے کہ اس صورتحال کو عام لوگوں میں ہیجان کا ذریعہ بنانے سے گریز کیا جائے اور مرض سے بچنے کی تدابیر، علامتوں اور وائرس کا پھیلائو روکنے کے عملی طریقوں کے بارے میں آگہی پیدا کی جائے۔ لوگوں کو بتایا جائے کہ کھانسنے، چھینک آنے یا تھوکنے کی ضرورت کے موقع پر کونسی معمولی احتیاط معاشرے کو خطرے سے بچانے میں معاون ہو سکتی ہیں۔ جن وفاقی، صوبائی یا مقامی اسپتالوں میں مرض کی تشخیص کے آلات موجود نہیں یا ناکافی ہیں وہاں متعلقہ آلات مہیا کئے جانے چاہئیں۔ 

لوگوں کو یقین ہونا چاہئے کہ وہ جب بھی ہیلپ لائن 1166 پر رابطہ کریں گے، انہیں فوری طور پر اٹینڈ کیا جائے گا اور اس باب میں ایسے عذر پیش نہیں کئے جائیں گے جو پریشان حال لوگوں کے لئے مزید پریشانی کا ذریعہ بنیں۔ یہ بات واضح ہے کہ جو دو مریض کراچی کے اسپتال یا اسلام آباد کے اسپتال کے آئسو لیشن وارڈ میں داخل ہیں وہ زیارتوں کے سفر پر اکیلے نہیں گئے تھے۔ دوران سفر یا واپس آنے کے بعد انکی جن لوگوں سے ملاقاتیں ہوئیں ان کے بارے میں معلومات حاصل کر کے احتیاطی طبی معائنہ کیا جانا چاہئے۔ یہ بات بہر طور ملحوظ رکھنے کی ہے کہ کرونا کا علاج ہو سکتا ہے۔ چین میں کرونا وائرس سے متاثر 29 ہزار 745 مریض علاج کے بعد صحت یاب ہو کر اسپتالوں سے گھروں کو جا چکے ہیں۔

ہمارے ہاں بھی احتیاط کے تقاضے ملحوظ رکھ کر مریض خود بھی معمول کی زندگی کی طرف واپس آ سکتے اور دوسروں کو بھی اس مرض سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ یہ بات بعید از امکان نہیں کہ سائنسی ترقی اور مرض کے جراثیم ہی کو استعمال کرنے سمیت ویکسین کی تیاری کے متعدد طریقوں کی موجودگی میں کرونا کا علاج بھی جلد سامنے آ جائے گا مگر کرونا وائرس عالمی تجارت کے لئے جس طور پر ڈرائونا خواب بن گیا اس کے پیش نظر مبصرین کا یہ خدشہ بےمحل نہیں کہ دنیا میں اچانک نظر آنے والی یہ کیفیت جراثیم کو افراتفری کا ذریعہ بنانے کے ان تجربات کا شاخسانہ تو نہیں جن کے بہت سے افسانے مشہور ہیں۔ انسانی فطرت میں خیر و شر کے عناصر کی موجودگی اور ان کی کشمکش ایک حقیقت ہے۔ 

پاکیزہ افکار کا پرچار کرنے والے بلا شبہ اپنا کام کر رہے ہیں مگر آج بعض سطحوں پر جس انداز سے انسانی مصائب کو انفرادی و گروہی مفادات کے لئے استعمال کرنے کا رجحان نظر آ رہا ہے اس کے خلاف دنیا بھر کے اصلاح پسندوں کی طرف سے طاقت ور آواز بلند ہونا ضروری ہے تاکہ اس وقت ماسک اور بیماری سے بچائو کی دوسری چھوٹی موٹی چیزوں کو بازار میں مہنگا کرنے کا جو رجحان محدود پیمانے پر نظر آ رہا ہے وہ پھیلنے کا وسیع میدان ملنے کی صورت میں عالمی سطح پر بڑے بحران پیدا کرنے کا ذریعہ نہ بن سکے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ