فیس بک کے اندرونی مسائل کو بیان کرتی دستاویزات جاری

فیس بک کی اندرونی دستاویزات کے ہزاروں صفحات منظر عام پر آئے ہیں جن سے سوشل میڈیا پلیٹ فارم میں تشدد بڑھانے کے حوالے سے ملازمین میں غصہ ثابت ہوتا ہے۔ یہ دستاویزات فیس بک میں کام کرنے والی سابق ملازمہ فرانسس ہیوگن کے پاس تھیں جو حالیہ ہفتوں میں فیس بک کے حوالے سے متعدد انکشافات کر چکی ہیں۔ انہوں نے امریکی سینیٹ کو اکتوبر 2021 کے شروع میں فیس بک سے لاحق خطرات کے مبینہ شواہد فراہم کیے تھے۔ ان خطرات میں نوجوانوں کی شخصیت پر مضر اثرات سے لے کر سیاسی تشدد کو بڑھاوا دینا وغیرہ شامل تھا۔ یہ دستاویزات اب میڈیا اداروں تک پہنچ گئی ہیں اور ان میں متعدد نئے انکشافات سامنے آئے ہیں۔ 17 امریکی میڈیا اداروں کے کنسورشیم نے ان دستاویزات کو شائع کرنا شروع کیا ہے جسے فیس بک پیپرز کا نام دیا گیا ہے۔ ان رپورٹس میں فیس بک کے اندر موجود متعدد مسائل بشمول نوجوانوں میں سوشل نیٹ ورک کی مقبولیت کی کمی، نفرت انگیز مواد کی روک تھام کے لیے اس کی اہلیت اور سیاستدانوں سے سلوک وغیرہ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

کچھ اندرونی دستاویزات کے بارے میں رپورٹس پہلے ہی میڈیا ادارے جیسے وال اسٹریٹ جرنل کی جانب سے شائع کیا جا چکا ہے۔ اب نئی رپورٹس میں بلومبرگ اور دی ورج نے بتایا کہ دستاویزات سے ثابت ہوتا ہے کہ فیس بک نوجوان صارفین میں مقبولیت کھو رہی ہے اور بے تابی سے دوبارہ ان کی توجہ حاصل کرنے کی خواہشمند ہے۔ فنانشنل ٹائمز نے بتایا کہ فیس بک ملازمین کی جانب سے انتظامیہ پر زور دیا گیا تھا کہ سیاستدانوں اور معروف شخصیات کے لیے موڈریشن استثنیٰ نہیں دیا جانا چاہیے۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق اندرونی دستاویزات سے ثابت ہوتا ہے کہ کمپنی کے اندر لائیک اور شیئر بٹن کو برقرار رکھنے یا ہٹانے کے حوالے سے کھیچاتانی چل رہی ہے۔ واشنگٹن پوسٹ نے ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ مارک زکربرگ نے ذاتی طور پر ویت نامی حکومت کی جانب سے سنسر شپ مطالبات پر دستخط کیے۔

پولیٹکو کے مطابق فیس بک دستاویزات کا مقصد مارکیٹ میں کمپنی کے غلبے کو ثابت کرنا ہے۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق فیس بک دستاویزات سے ثابت ہوا کہ مختلف زبانوں سے متعلق موڈریشن نہ ہونے سے مختلف مسائل بشمول دہشتگردی اور نفرت انگیز مواد کی روک تھام کا عمل متاثر ہوا۔ این بی سی نے کمپنی کے اندر کے ملازمین کے اندر کی بحث کو رپورٹ کیا جس سے عندیہ ملتا ہے کہ وہ کمپنی کی جانب سے نفرت انگیز اور گمراہ کن مواد کے ناکافی اقدامات سے خوش نہیں۔ دی اٹلانٹک نے دستاویزات کے حوالے سے بتایا کہ ان سے ثابت ہوتا ہے کہ فیس بک ملازمین میں کمپنی کی جانب سے جمہوریت کو نقصان پہنچانے اور 6 جنوری کو واشنگٹن میں پرتشدد ہنگاموں میں کردار کے خدشات پائے جاتے ہیں، جن پر قیادت ردعمل میں ناکام رہی۔ Wired نے بھی رپورٹ کیا کہ فیس بک کو عربی کی متعدد بولیوں کے مواد کے موڈریشن میں مشکلات کا سامنا ہا۔ سی این این کا کہنا تھا کہ دستاویزات سے ثابت ہوتا ہے کہ فیس بک 6 جنوری کو واشنگٹن کے ہنگاموں کے حوالے سے تیار نہیں تھی۔

بشکریہ ڈان نیوز

موبائل فون کی لت سے چھٹکارا کیسے حاصل کریں ؟

لاتعداد وجوہات کی بناء پر سمارٹ فون ہماری زندگی کا ”جزو لاینفک‘‘ بن چکا ہے ، ہم اس سے اور یہ ہم سے بچ نہیں سکتے ۔ ہم دونوں کا زندگی بھر کا بلکہ چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ہمیں یوں لگنے لگا ہے کہ زندگی جہاں ہم رہتے ہیں، وہاں نہیں ہے بلکہ اس کی سکرین میں پوشیدہ ہے۔ سمارٹ فون کے اردگرد گھوم رہی ہے۔ اتنی سی زندگی ہی ہماراماحول ہے۔ کسی دیوکی طرح۔ لیکن اب یہ بھی کہا جانے لگا ہے کہ سمارٹ فون ہمارے رشتوں کوگھن کی طرح چاٹ رہا ہے، معاشرتی بگاڑ کا باعث بھی ہے اس کے جہاں لاتعداد فائدے ہیں وہیں نقصانات بھی کھل کر سامنے آ رہے ہیں ۔ اس کی مدد سے کسی کو ہراساں بھی کیا جا سکتا ہے اور بلیک میل بھی ۔بلکہ اس کی بعض ایپس قتل اور دہشت گردی میں معاون بن رہی ہیں ، نفرتیں پھیلا رہی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق کوئی فون یا ایس ایم ایس نہ آنے کے باوجود بھی لوگ دن بھر میں درجنوں مرتبہ اس کی سکرین کو دیکھتے ہیں، یہ سوچ کر کہیں کوئی پیغام صرف نظر تو نہیں ہو گیا۔

یوں ہم سمارٹ فون کو بہت زیادہ وقت دینے لگے ہیں، بلکہ اب تو ہماری عملی زندگی بھی متاثر ہونے لگی ہے۔ بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ اسے کم وقت دینا چاہتے ہیں لیکن خود پر بھی انہیں قابو نہیں رہا کیا کریں؟ چنانچہ کبھی کبھی جان چھڑانے کو جی چاہتا ہے لیکن کسی بیماری کی مانند ہم سے چپک چکا ہے۔ ہر دم اسے ہاتھ میں تھامنے سے سکون ملتا ہے۔ کئی لوگ سوال کرتے ہیں کہ ”ہم اسے دیئے جانے والے وقت کو کم کیسے کر سکتے ہیں، اس کے استعمال کو زیادہ بامعنی کیسے بنا سکتے ہیں؟۔ اس سوال کا جواب ہمیں امریکہ سے بھی مل سکتا ہے۔ جوناھن گارنر نے ”مائینڈ اوور ٹیک‘‘ نام سے ایک تنظیم بنا رکھی ہے، وہ اس قسم کی حکمت عملی بنانے کے ماہر ہیں اور ٹیکنالوجی کو کنٹرول کرنے کے گر سکھاتے ہیں۔ وہی ہمیں بتائیں گے کہ ہم اس ٹیکنالوجی کو کیسے کنٹرول کر سکتے ہیں ۔

ہمارا مائنڈ یعنی دماغ اس ٹیکنالوجی کو کیسے قابو کر سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ”میں لوگوں کو ویب ڈیزائن کر کے دیتا تھا ، مجھے جلد ہی بے شمار افراد کی شکایات ملنے لگیں کہ ان کا کافی وقت انٹرنیٹ پر برباد ہونے لگا ہے ۔ بہت سے لوگوں نے کہا کہ ٹیکنالوجی بری طرح سے ان پر قابو پا چکی ہے، وہ کچھ اور کرنے کے قابل ہی نہیں رہے۔ ویب کو اس طرح ڈیزائن کیا جائے تاکہ وہ کم وقت دے ۔ اس سے مجھے ”مائنڈ اور ٹیک ‘‘ نامی ادارہ بنانے کا خیال آیا، جس کا مقصد ہی لوگوں کو یہ بتانا ہے کہ وہ اپنے زیر استعمال ٹیکنالوجی (لیپ ٹاپ، موبائل فون) سے کس طرح بہتر طور پر کام لے سکتے ہیں ۔ سب سے پہلے میں نے خود پر تجربات کرنا شروع کئے۔ زندگی کو کس طرح متوازن کیا جا سکتا ہے ۔‘‘ ”اس کے لئے میں نے تین راستے چنے، سب سے پہلے تو خود سے یہ سوال کیا کہ میں اس ٹیکنالوجی کو کیوں استعمال کرنا چا ہتا ہوں؟ کس مقصد کا حصول درکار ہے؟ اس سے مجھے یہ معلوم ہوا کہ میں بہت سے بے مقصد کام کر رہا ہوں، بلا ضرورت ۔اس لئے فون کو بار بار دیکھنے کی بجائے اسی وقت اٹھایئے جب آپ کو ضرورت ہو یا کوئی فون آ رہا ہو۔ یہ بھی ایک ایکسر سائز ہے، اسے دہرانے سے فون استعمال کرنے کی عادت میں کمی آ جائے گی‘‘۔ انہوں نے کہا کہ

غیر ضروری ایپس ڈیلیٹ کیجئے
”پھر یہ دیکھئے کہ آپ نے کتنی اپیس ڈائون لوڈ کر رکھی ہیں ، کئی ایپس بلا ضرورت ہوں گی ، شاید ایک بار بھی استعمال نہ کی ہوں۔ لیکن یہ بھی ایک دو منٹ کی توجہ کھینچ لیتی ہیں ۔ انہیں ڈیلیٹ کر دیجئے۔ سمارٹ فون مزید سمارٹ ہو جائے گا اور آپ کو ملنے والے پیغامات میں بھی کمی ہو جائے گی۔ میں نے سمارٹ فون پر سماجی رابطوں کی تمام ویب سائٹس بھی ڈیلیٹ کر دی ہیں ۔ میں انہیں لیپ ٹاپ پر دیکھتا ہوں کیونکہ وہاں وقت کم ضائع ہوتا ہے، چند بار ضرورت پڑنے پر کھولتا ہوں اور پیغامات پڑھنے کے بعد بند کر دیتا ہوں۔ اس سے بھی وقت بچتا ہے۔ آپ بھی سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کو فون پر دیکھنے کی بجائے لیپ ٹاپ یا کمپیوٹر پر دیکھنے کی کوشش کیجئے کہ اس سے بھی وقت کی بچت ہو گی۔

بار بار فون کو دیکھنا
ہم فون کو بار بار چیک کرنے سے خود کو روک سکتے ہیں ؟جی ہاں یہ ممکن ہے۔اس کے لئے خود سے سوال کیجئے کہ مجھے کتنی دیر بعد اپنی ای میلز چیک کرنا چاہییں ؟ کیا مجھے آج تک کوئی ایسا پیغام آیا ہے جسے بروقت چیک نہ کرنے سے نقصان ہوا ہو، اگر آپ کوئی بزنس یا ایسی جاب نہیں کر رہے جس کا تعلق ہی ای میلز سے ہو تو آپ غیر ضروری ٹائم کو کم کیجئے، خود سے باتیں کیجئے کہ مجھے بار بار دیکھنے کی بجائے فون نہ آنے کی صورت میں کوئی نقصان نہیں ہوا تھا۔

غیر ضروری ایپس
زیادہ وقت لینے والی ایپس کو ہائیڈ کر دیجئے، اس سے بھی استعمال میں کمی آ سکتی ہے۔غیر ضروری نوٹی فیکیشنز کو ٹرن آف کر دیجئے، یہ خوا ہ مخواہ وقت لیتی ہیں۔ فون میں الارم مت لگایئے ۔ ایسا کرنے سے فون بیدار ہوتے ہی آپ کو فون نظر نہیں آئے گا ! یہ وہ پہلی چیز نہیں ہو گی جسے آپ آنکھ کھلتے ہی دیکھیں گے ۔ جب آپ اسے دیکھتے ہیں تو بلا ضرورت بھی استعمال ہو جاتا ہے۔

لائیک کرنے کا فائدہ؟
پھر یہ سوال بھی کیجئے کہ آپ دن بھر میں صرف لائیک کرنے یا ڈس لائیک کرنے کے لئے کتنی مرتبہ فون استعمال کرتے ہیں، رفتہ رفتہ اس وقت میں کمی لائیے۔ موبائل فون کہاں رکھنا چاہئے؟ پھر یہ سوچئے کہ مجھے اپنے فون کو کہاں رکھنا چاہئے؟ مناسب نیند لینے کے لئے فون کو دوسرے کمرے میں رکھ دیجئے ۔ اس کی گھنٹی آف کر دیجئے ، نیند بھی ا چھی آئے گی ، ماہرین نفسیات بھی اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ اگر سمارٹ فون جیب میں پڑا ہو گا تو بلا ضرورت بھی ہاتھ میں آتا رہے گا، اسے گھر میں کسی جگہ پر رکھیئے اور آفس میں کالیں سننے کا وقت مقرر کیجئے ۔ آفس میں بھی جیب میں رکھنے کی بجائے محفوظ جگہ پر لاک میں رکھ دیجئے، ایک دو گھنٹے بعد نکالیئے پھر دیکھئے کتنا وقت بچتا ہے۔

انجینئر رحمیٰ فیصل

بشکریہ دنیا نیوز

فیس بُک کی پاکستان اور انڈیا کے لیے پالیسی مختلف کیوں ہیں؟

وفاقی وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی نے کہا ہے کہ فیس بک واضح کرے کہ پاکستانی اور انڈین صارفین کے لیے اس کی پالیسیوں میں فرق کیوں ہے؟ انہوں نے کہا کہ گذشتہ سال اگست میں انڈیا کے وادی کشمیر میں جاری مظالم کے خلاف آواز بلند کرنے والے پاکستانی صارفین کے اکاؤنٹس بند کیے گئے جبکہ انڈین وزیر اعظم نریندرمودی کی مسلم دشمن پالیسیوں کے باوجود فیس بک کی قربتیں بڑھ رہی ہیں۔ وفاقی وزیر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ فیس بک کی انتہا پسند بی جے پی نواز پالیسیاں باعث تشویش ہیں۔ ’کشمیریوں پر بھارتی مظالم کی تشہیر پر فیس بک کو سارے قواعد یاد آجاتے ہیں، انتہا پسند بی جے پی اور ہٹلر مزاج مودی کی نفرت زدہ پالیسیاں فیس بک کو نظر نہیں آتیں۔‘ وفاقی وزیر  نے کہا کہ فیس بک انتظامیہ کی وضاحتیں اس کے عمل کے بالکل برخلاف ہیں، سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مواد کی مخالفت کے ساتھ ساتھ ضروری ہے کہ ظلم کرنے والوں کی بھی مخالفت کرنی چاہیے۔

’اگر فیس بک نفرت آمیز پوسٹوں کے خلاف ہے تو نریندر مودی جیسے انسان دشمن سے نزدیکیاں کیسی؟‘ انہوں نے فیس بک سے وضاحت طلب کرتے ہوئے کہا کہ کشمیریوں پر مظالم کے خلاف آواز اٹھانے والوں سے ناپسندیدگی کیوں ہے؟ وفاقی وزیر نے کہا کہ فیس بک کے اقدامات سے واضح ہے کہ کمپنی کے علاقائی دفاتر میں کام کرنے والے انڈین ملازمین صارفین کے حقوق کے خلاف کام کر رہے ہیں۔ ’انڈیا میں فیس بک کی بھاری سرمایہ کاری نے بھی اسے اخلاقی اقدار نظرانداز کرنے پر مجبور کر دیا۔‘ وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ پاکستان ڈیجیٹل ورلڈ کی وسیع مارکیٹ بن رہا ہے، اسے نظرانداز کرنے والے نقصان میں رہیں گے۔ ’پاکستانی صارفین کے مفادات کے تحفظ کے لیے کسی اقدام سے گریز نہیں کیا جائے گا۔

بشکریہ اردو نیوز

پاکستان میں سائبر قوانین کا نفاذ ؟

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے پنجاب جوڈیشل اکیڈمی کے زیر اہتمام ’سائبر جرائم ایک عوامی مسئلہ‘ کے عنوان سے منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے بجا طور پر نشاندہی کی ہے کہ اس ضمن میں حکومت کو سخت ترین سائبر قوانین بنانا ہوں گے تاکہ ہماری خواتین اور دیگر متاثرین انٹرنیٹ کی بلیک میلنگ سے نجات حاصل کر سکیں۔ دنیا کی ہر ایجاد کے جہاں مثبت پہلو ہوتے ہیں وہیں منفی پہلو بھی ہوتے ہیں اور یہ ہم انسانوں پر منحصر ہے کہ اُس ایجاد کے مثبت پہلوئوں سے ہم اپنی اور دوسروں کی زندگی آسان بناتے ہیں یا منفی پہلوئوں سے دوسروں کی زندگی اجیرن کرتے ہیں۔ 

انٹرنیٹ نے جہاں انسان کی زندگی کو انتہائی تیز اور سہل بنا دیا ہے وہیں منفی ذہنیت کے حامل افراد اِس نعمت کو دوسروں کی زندگیاں برباد کرنے کے لیے بھی استعمال میں لاتے ہیں۔ ایسے افراد لوگوں کی پرائیویسی کی خلاف ورزی، ہیکنگ، سوشل نیٹ ورکس میں استحصال، معلومات انفراسٹرکچر پر سائبر حملے، سائبر دہشت گردی، مجرمانہ رسائی، فحش پیغامات، ای میلز، دھمکی آمیز پیغامات، ای میلز، ڈیٹا تک غیر قانونی رسائی حاصل کر کے سائبر کرائمز کے مرتکب ہوتے ہیں۔ پاکستان میں ہر گزرتے دن کے ساتھ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ فیس بک اور پیغام رسانی کی ایپ واٹس ایپ کے ذریعے بلیک میلنگ اور اکاؤنٹ ہیک کرنے جیسے سائبر کرائمز کی شرح میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ 

ڈیجیٹل سیکورٹی ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ اِس ضمن میں پہلے مرحلے میں موبائل فون اور کمپیوٹر کو منفی طور پر استعمال کرنے والے افراد کی اصلاح اور انہیں یہ باور کرانے کی کوشش کی ضرورت ہے کہ وہ کس قدر سنگین جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ 2016 میں پہلا قانون بنا کر سائبر کرائمز کے تدارک کیلئے جو قدم اٹھایا گیا تھا اُسے تیز کرنے کے ساتھ ساتھ وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا بھی لازم ہے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ

پاکستان میں سوشل میڈیا کے خلاف سخت کریک ڈاؤن کا اعلان

حکومت نے سوشل میڈیا پر منافرت پھیلانے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ وفاقی وزیراطلاعات فواد چودھری نے اسلام آباد میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اظہار رائے کی آزادی لا محدود نہیں، کسی کو نفرت کا پرچار کرنے کی اجازت نہیں دی جائیگی۔ انہوں نے کہا ہے کہ سوشل میڈیا پر نفرت آمیز مواد کو کنٹرول کیا جائے گا، ایک نظام بنا لیا ہے جس کے ذریعے سوشل میڈیا پرنفرت کا پرچار بھی روکا جا سکے گا، سوشل میڈیا پر دھمکیاں اور فتوے دینے پر بعض افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ وزیر اطلاعات نے کہا کہ برصغیر میں اسلام کی ترویج صوفیا کرام کے ذریعے ہوئی، شدت پسندی ایک حالیہ لہر تھی ہمارے لیے مسئلہ اس وقت پیش آیا جب ہم افغان تنازع میں پھنس گئے۔

انہوں نے کہا کہ غیرمتعلقہ تنازع میں پھنسنے سے شکوک وشبہات پیدا ہوئے، دنیا کے مختلف معاشرے انتہا پسندی کا شکار ہیں، بھارت میں مودی کی حکومت آنے کے بعد انتہا پسندی میں اضافہ ہوا جبکہ اسلام میں انتہا پسندی اور شدت پسندی کی کوئی جگہ نہیں، ہماری برداشت اور حوصلے کی تاریخ بہت پرانی ہے،  فواد چوہدری نے کہا کہ کسی اور پر اپنی رائے مسلط کرنے سےمسائل جنم لیتے ہیں، دنیا بھر میں ہر آزادی کی ایک حد ہے، اظہار رائے کی آزادی لا محدود نہیں ، اس ہفتے میں سوشل میڈیا پر نفرت پھیلانے کے الزام میں اہم گرفتاریاں ہوئی ہیں۔

سوشل میڈیا پر ٹیکس کے نفاذ کا اعلان

ویسے تو فیس بک، ٹوئٹر اور واٹس ایپ وغیرہ کا استعمال مفت ہے اور بس انٹرنیٹ کا خرچہ کرنا پڑتا ہے تاہم پہلی بار دنیا میں ایک ملک سوشل میڈیا صارفین پر ٹیکس لگانے والا ہے۔ جی ہاں واقعی افریقی ملک یوگنڈا نے حیران کن اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ جولائی 2018 سے سوشل میڈیا ٹیکس کا نفاذ کیا جارہا ہے۔
یوگنڈا کے وزیر خزانہ Matia Kasaija نے یہ اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ سوشل میڈیا ٹیکس نے ملکی آمدنی میں اضافے کے ساتھ قومی سلامتی کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔ ان کا کہنا تھا ‘ ہمیں ملکی سلامتی کو مستحکم بنانے اور بجلی کی فراہمی زیادہ سے زیادہ لوگوں تک ممکن بنانے کے لیے سرمایہ چاہئے تاکہ شہری سوشل میڈیا سے زیادہ لطف اندوز اور استعمال کرسکیں’۔

انہوں نے بتایا کہ سوشل میڈیا ٹیکس ہر اس موبائل فون صارف پر لگے گا جو کہ مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جیسے واٹس ایپ، ٹوئٹر اور فیس بک وغیرہ کا استعمال کرتے ہیں اور انہیں روزانہ 200 یوگنڈا شیلنگ (6 پاکستانی روپے سے زائد) ادا کرنا ہوں گے۔ تاہم یہ واضح نہیں کیا گیا کہ یہ ٹیکس کس طرح وصول کیا جائے گا کیونکہ بظاہر تو یہ کافی پیچیدہ کام ہے کہ یوگنڈا کے 2 کروڑ 36 لاکھ سے زائد موبائل فون صارفین کے زیراستعمال ہر ایپ کو مانیٹر کیا جا سکے۔ یوگنڈا کی جانب سے یہ اعلان کچھ زیادہ حیران بھی نہیں کیونکہ یہاں حکومت انتخابات کے دوران سوشل میڈیا پر پابندی لگا چکی ہے۔ یہی ملک ماضی میں اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز تشکیل دینے کا اعلان بھی کر چکا ہے.

فیس بک بانی مارک زکربرگ امریکی سینیٹ کمیٹی کے سامنے پیش ہو گئے

دنیا کی سب سے بڑی سوشل ویب سائٹ فیس بک کے بانی اور چیف ایگزیکٹو آفیسر مارک زکربرگ پہلی بار امریکی سینیٹ کمیٹی کے سامنے پیش ہو گئے ۔  مارک زکربرگ امریکی سینیٹ کمیٹی کے سامنے اس لیے پیش ہوئے، کیوں کہ گزشتہ ماہ یہ خبر سامنے آئی تھی کہ فیس بک کے 8 کروڑ صارفین کا ذاتی ڈیٹا چوری کر کے سیاسی مقصدوں کے لیے استعمال کیا گیا۔ یہ خبر سامنے آنے کے بعد فوری طور پر امریکا کے وفاقی ٹریڈ کمیشن ( ایف ٹی سی) نے فیس بک کے خلاف تحقیقات شروع کر دی تھی، جب کہ حیران کن طور پر سوشل میڈیا کے حصص میں کمی دیکھی گئی۔ اس اسکینڈل سامنے آنے کے بعد اگرچہ فیس بک نے صارفین سے معذرت بھی کی تھی، تاہم سینیٹ کمیٹیوں نے مارک زکربرگ کو تفصیلات سے آگاہ کرنے کے لیے بلایا تھا۔ برطانوی نشریاتی ادارے ’بی بی سی‘ کے مطابق مارک زکربرگ نے امریکی سینیٹرز کو آگاہ کیا کہ ان کی کمپنی اس وقت روسی ٹیکنالوجی آپریٹرز کے ساتھ ایک طرح کی حالت جنگ میں ہے۔

مارک زکربرگ نے دعویٰ کیا کہ روسی ٹیکنالوجی ماہرین ان کی کمپنی کو ہیک کر کے اسے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، تاہم وہ انہیں اس مقصد میں کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ فیس بک کے بانی نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ انہیں روسی آپریٹرز کے خلاف جاری جنگ میں کامیابی ہو رہی ہے۔ انہوں نے سینیٹرز کو ’کیمبرج اینالاٹکا‘ (سی اے) کی جانب سے 8 کروڑ سے زائد صارفین کا ڈیٹا چرانے کے حوالے سے پوچھے گئے سوالات کے جوابات دیے۔

ادھر امریکی نشریاتی ادارے ’سی این این‘ نے بتایا کہ زیادہ تر سینیٹرز کو یہ پتہ ہی نہیں تھا کہ دنیا کی سب سے بڑی سوشل ویب سائٹ کس طرح کام کرتی ہے اور یہ صارفین کے ڈیٹا یا معلومات کو کس طرح ہینڈل کرتی ہے؟ خبر میں بتایا گیا ہے کہ چوں کہ امریکی سینیٹرز فیس بک کے کام کرنے اور سیکیورٹی کے طریقہ کار سے بے خبر تھے، اس وجہ سے وہ مارک زکربرگ سے اس طرح کے پیچیدہ سوال بھی نہ کر سکے۔ خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ امریکی سینیٹرز نے مارک زکربرگ سے صارفین کی معلومات اور ڈیٹا کی حفاظت کے لیے سخت اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کیا۔ مارک زکربرگ نے امریکی سینیٹرز کو یقین دلایا کہ وہ صارفین کی ذاتی معلومات سمیت ہر طرح کے ڈیٹا کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے امریکی سینیٹرز کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار ہیں۔

مارک زکربرگ نے سائنس و ٹیکنالوجی سمیت تجارت و انصاف کی سینیٹ کمیٹیوں کو 2016 میں ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات میں روسی مداخلت کے حوالے سے بھی آگاہ کیا۔ مارک زکر برگ نے سینیٹرز کو آگاہ کیا کہ امریکی انتخابات میں روسی مداخلت کی تفصیلات سامنے آنے کے بعد ان سے وائیٹ ہاؤس کے خصوصی قونصلر رابرٹ میولر نے بھی تفتیش کی تھی۔ فیس بک بانی نے بتایا کہ اگرچہ رابرٹ میولر نے ذاتی طور پر ان سے کوئی تفتیش نہیں کی تھی، تاہم انہوں نے ویب سائٹ کے اعلیٰ عہدیداروں سے انتہائی رازدارانہ تحقیقات کی تھی، جس کی تفصیلات کو خفیہ رکھا گیا ہے اور وہ کبھی اسے سامنے نہیں لائیں گے۔
فیس بک کے بانی 10 اور 11 اپریل کو امریکی سینیٹ کی مختلف کمیٹیوں کے سامنے پیش ہوئے۔

فیس بک : معاشرے کے لیے سہولت یا مصیبت

اکٹھے رہنا انسان کی ضرورت ہے اور وہ ایک دوسرے کو جاننا پسند کرتے ہیں۔ اس خواہش کی تکمیل کے لیے تاریخ انسانی میں نت نئے طریقے وضع ہوئے اور ایجادات ہوتی رہیں۔ جسمانی اشارے کافی نہیں تھے، زبانیں اسی لیے انسانوں کا طرۂ امتیاز بنیں۔ تاہم اپنے اعضا سے انسان چند گز کے فاصلے تک ہی گفتگو کر سکتا ہے۔ انسانی آواز کی طرح اس کی بصارت بھی محدود ہے۔ نصف کلومیٹر کے فاصلے سے انسانی آنکھ چہرہ نہیں پہچان پاتی۔ ابتدا میں اس محدودیت کا حل سیاحوں اور مسافروں سے حل احوال لینے سے نکالا گیا۔ تحریر کی ایجاد کے بعد خط و کتابت اور تار نے اسے تیز کیا۔ ٹیلی فون نے فاصلوں کو مزید سمیٹ دیا۔ ایک عام ٹیلی فون پر صرف آواز آیا کرتی ہے۔ انٹرنیٹ نے تحریر، تصویر، ویڈیو ہر ذریعے سے رابطے کو ممکن کر دیا۔

ایک اپلی کیشن جسے اس بارے میں امتیاز حاصل کیا وہ فیس بک ہے۔ چودہ سال قبل مارک زکر برگ نے ہاورڈ یونیورسٹی کے ساتھیوں سے مل کر فیس بک کو ویب سائٹ پر لائے۔ ایک اندازے کے مطابق اب فیس بک کے اثاثے 84 ارب ڈالر ہیں، 25 ہزار سے زائد افراد اس میں کام کرتے ہیں، یہ دنیا کی تیسری سب سے زیادہ استعمال ہونے والی ویب سائٹ ہے اور ایک ارب سے زائد صارفین اسے موبائل فون پر روزانہ استعمال کرتے ہیں۔ یہ اعداد وشمار حیران کن ہیں جو فیس بک کی تیز رفتار وسعت اور اس میں پائی جانے والی دلچسپی کا پتا دیتے ہیں۔ آخر اس میں ایسا کیا ہے کہ لوگ اس کی جانب کھنچے چلے جا رہے ہیں۔ ایک دوسرے کو جاننے کے ساتھ ساتھ انسان نت نئی دنیائیں دریافت کرنا چاہتا ہے۔

فیس بک ایک ایسی دنیا ہے جس میں سفر نہیں کرنا پڑتا اور مختلف دنیاؤں کی ’’سیر ‘‘ ہو جاتی ہے۔ دنیا بھر سے ہر رنگ، نسل، نظریات، ملک اور مذہب کے پروفائل تک رسائی ہو سکتی ہے۔ آپ پسندیدہ گروپس میں شامل ہو سکتے ہیں، رائے دے سکتے ہیں اور تبصرہ بھی کر سکتے ہیں۔ تصاویر اور ویڈیوزدیکھی جا سکتی ہیں اور پوسٹ کی جا سکتی ہیں۔ صارفین کی بڑی تعداد کے ہوتے دلچسپ تحاریر پڑھنے اور تصاویر اور ویڈیوز کو دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ یہ فوری اور نت نئی معلومات کا اہم ذریعہ بن چکی ہے۔ فیس بک کے ذریعے آپ اپنے دوستوں سے رابطہ کر سکتے ہیں اور انہیں تلاش کر سکتے ہیں۔ یوں بہت سے بچھڑے ہوئے دوست آپس میں مل جاتے ہیں۔

روایتی میڈیا سے اوجھل بہت سی خبریں یہاں مل جاتی ہیں۔ ٹرینڈ بن جائیں تو حکام کو ہلا دیتی ہیں۔ لیکن ایک دوسرا پہلو بھی ہے۔ عمومی تجربہ بتاتا ہے کہ فیس بک کے صارف کسی گورکھ دھندے کی طرح اس میں پھنستے چلے جاتے ہیں۔ کسی ایک کی پروفائل کو دیکھ کر دوسرے پر جانا ، ایک کے بعد دوسرا تبصرہ پڑھنا، اور جب احساس ہوتا ہے تو بہت وقت ضائع ہو چکا ہوتا ہے، تجسس کی تسکین پھر بھی نہیں ہوئی ہوتی۔ تحقیقات سے پتا چلتا ہے کہ سوشل میڈیا بشمول فیس بک کی نشے جیسی لت بھی لگ سکتی ہے۔ صارف بار باراپنے اکاؤنٹ سے رجوع کرتا ہے اوراسے کھولے بغیر رہ نہیں پاتا۔ اسے دوسروں کے تبصروں اور ’’لائیکس‘‘ کا انتظار رہتا ہے۔ تب اس سے انسانی رشتے متاثر ہونے لگتے ہیں۔

خاندان کے افراد اور دوست ملتے ہیں مگر نظریں موبائل پر جمی ہوتی ہیں۔ انسانوں کی اس نوع کی اجنبیت ایک انوکھا مظہر ہے جس کی ابتدا شاید تھیٹر اور بعدازاں سینما سے ہوئی۔ سینما میں ایک جگہ پر موجود انسانوں کی بڑی تعداد ایک دوسرے کی بجائے ایک سے تین گھنٹے تک واحد مردہ سکرین ہی کو دیکھتی ہے وگرنہ چار انسانوں کے ملنے کے بعد باہمی گفتگو اورحال احوال کو فطری سمجھا جاتا ہے۔ اب ہوا یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے سبب سکرینیں کسی عمارت میں نصب نہیں بلکہ ہر ہاتھ میں ہیں۔ یوں انسان جہاں ایک دوسرے کے قریب ہوا ہے وہیں وہ دور اور بیگانہ بھی ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خاندان میں کسی ایک کو دوسرے سے شکایت ہوتی ہے۔ بچوں کو ماں باپ یا ماں باپ کو نوعمروں سے، میاں بیوی میں سے کسی ایک کو دوسرے سے۔ بوڑھوں کو اپنی اولاد سے۔

وہ شکایات کرتے نظر آتے ہیں کہ انہیں وقت نہیں دیا جا رہا۔ متعدد صارفین کی نیند پوری نہیں ہوتی اور ان کا کام متاثر ہوتا ہے۔ فیس بک اکاؤنٹ بنانے کے لیے عمر کی ایک حد ہے اور یہ بلاوجہ نہیں۔ اس پر بہت سا ایسا مواد ہوتا ہے جو بچوں کے لیے موزوں نہیں۔ لیکن ملک میں بچوں کی ایک بڑی تعداد نے اکاؤنٹ بنا رکھے ہیں، یہاں تک کہ بہت سے والدین بھی اسے برا تصور نہیں کرتے۔ اس سے بچوں کی رسائی ایسے مواد ہو تک جاتی ہے جو نفسیاتی طور پر انہیں نقصان پہنچا سکتا ہے نیز ایسے افراد ان سے رابطہ کر سکتے ہیں جو انہیں نقصان پہنچائیں۔ فیس بک پرصارفین کی جانب سے بہت سی ایسی معلومات بھی فراہم کر دی جاتی ہیں جن کی نوعیت نجی ہوتی ہے۔

پرائیویسی سیٹنگ نہ ہونے، غلطی ہونے یا اکاؤنٹ ہیک ہونے کی صورت میں ان تک رسائی آسان ہو جاتی ہے اور پھر بلیک میل کرنے کی کوششیں ہوتی ہیں۔ ایسے کئی واقعات منظر عام پر آ چکے ہیں۔ فیس بک پر معلومات کا ارتکاز ہو چکا ہے یعنی ایک ہی کمپنی کے ہاتھ میں اربوں صارفین کا ڈیٹا ہے۔ فراہم کردہ معلومات کو بڑے پیمانے پر حاصل کر کے انہیں کاروباری اور سیاسی مفادات کے لیے بلا اجازت اور غیر اخلاقی طور پر استعمال کرنے کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں۔ جعلی اور خفیہ اکاؤنٹس کے ذریعے رائے عامہ بدلنے اور ترغیب دینے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔ گزشتہ امریکی صدارتی انتخابات میں کی جانے والی ایسی کوششیں ابھی تک خبروں اور تجزیوں کی زینت ہیں۔ لہٰذا اس کا استعمال مفید تو ہے مگر احتیاط کا متقاضی ہے۔ اسے استعمال کرتے ہوئے اس کے فوائد کو حاصل کیا جاسکتا ہے لیکن ایسا کرتے ہوئے اس کے نقصانات پر نظر رکھنا اور ان سے بچنا بھی ضروری ہے۔

رضوان عطا

فیس بک کی ایک سال کی کمائی 16 ارب ڈالر

سوشل میڈیا کی مشہور ویب سائٹ فیس بک نے 2017 میں اضافی ٹیکسوں اور نئے ملازمین کی بھرتی کے باوجود 16 ارب ڈالر کا منافع کمایا۔ غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک نے گزشتہ برس اضافی ٹیکسوں اور بہت سے نئے ملازمین کی بھرتی کے باوجود تقریباً 16 ارب ڈالر کا منافع کمایا جو 2016 کے مقابلے میں 56 فیصد زیادہ ہے۔ اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق 2017 کی صرف آخری سہ ماہی میں فیس بک کا خالص منافع 20 فیصد اضافے کے ساتھ 4.3 ارب ڈالر یعنی 3.4 ارب یورو کے برابر رہا، جب کہ مجموعی طور پر کل آمدنی میں تمام تر اخراجات نکالنے کے بعد گزشتہ برس 16 ارب ڈالر کمائے گئے جو خالص منافع اور 2016 کے مقابلے میں 56 فیصد زیادہ بنتا ہے۔

فیس بک کمپنی کے مالک مارک زکربرگ کا کہنا ہے کہ 2017 میں کمپنی کے سالانہ اخراجات کی مالیت 2016 کے مقابلے میں 5 ارب ڈالر سے بھی زائد رہے اور مجموعی طور پر یہ رقم 20.5 ارب ڈالر رہی، جب کہ 2017 کے اواخر میں ادارے کو ٹیکسوں کی غیر معمولی ادائیگی کی مد میں امریکی حکومت کو 2.27 ارب ڈالر الگ سے بھی ادا کرنے پڑے۔ اس طرح گزشتہ برس فیس بک کی مجموعی سالانہ آمدنی تقریباﹰ 39 ارب ڈالر رہی۔

سوشل میڈیا پر جعلی اکاؤنٹس کے بعد جعلی فالوورز

سوشل میڈیا پر جعلی اکاؤنٹس کے بعد بڑے پیمانے پر جعلی فالوورز کی خریدو و فروخت کا انکشاف ہوا ہے۔ امریکی اخبار کے مطابق دو لاکھ سے زائد اعلیٰ شخصیات نے نجی کمپنی کے ذریعے اپنے فالوورز خریدے اس حوالے سے معاملے کی تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ امریکی اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایک نجی کمپنی ڈیوومی کے کاروباری ریکارڈ سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ دو لاکھ سے زائد معروف شخصیات، سیاستدانوں اور دیگر صارفین نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اپنے فالوورز خریدے۔

اخبار کے مطابق اسی کمپنی کے ایک خریدار معروف شیف پال ہالی ووڈ سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے اپنا اکاؤنٹ ہی ختم کر دیا اور جواب دیا کہ ان کا تو اکاؤنٹ ہی نہیں ہے۔ رپورٹ کے مطابق ٹوئیٹر بورڈ اور ہاؤس آف لارڈز کی ممبر مارتھا لین فاکس نے بھی اسی کمپنی کی خدمات حاصل کیں ٹوئیٹر کی جانب سے بیان میں ایسے اقدامات کو ناقابل قبول قرار دیا گیا ہے جبکہ نیو یارک کے چیف پراسیکیوٹر نے معاملے کی تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔