میرے دل کا ٹکڑا پاکستان میں رہ گیا ہے : جرمن سفیر مارٹن کوبلر

پاکستان میں بحیثیت سفیر اپنی سرکاری ذمہ داریوں کے اختتام پر جرمن سفیر نے اعتراف کیا کہ انہوں نے اپنا دو سالہ دور انتہائی شاندار طریقے سے گزارا ہے۔ پاکستان میں مقیم جرمن سفیر نے شیروانی پہن کر الوداعی ویڈیو پیغام جاری کیا۔ جرمنی کے سفیر مارٹن کوبلر نے بہترین مہمان نوازی اور احترام پر پاکستان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اس یقین کا اظہار کیا ہے کہ ان کے دل کا ایک ٹکڑا ہمیشہ پاکستان سے جڑا رہے گا۔ انہوں نے یہ بات اپنے الوداعی ویڈیو پیغام میں کہی ہے، جو گزشتہ روز جاری کیا گیا۔ جرمن سفیر مارٹن کوبلر نے اپنے ویڈیو پیغام میں لوگوں کا آگاہ کیا کہ یہ ان کا پاکستانیوں کے لیے آخری ویڈیو پیغام ہے تاہم ساتھ ہی انہوں نے اس عزم کا اعادہ بھی کیا کہ وہ آئندہ مستقبل میں سیاح بن کر ضرور پاکستان آئیں گے۔

اپنا پیغام ریکارڈ کراتے ہوئے وہ اداس دکھائی دیے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان قیام کے دوران انہیں پاکستانیوں کو جاننے اور سمجھنے کا موقع ملا۔ جرمن سفیر مارٹن کوبلر ایک عوامی انسان ہیں۔ انہوں نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایسی تصاویر اپلوڈ کیں کہ عوام کا دل جیت لیا۔ کبھی وہ سائیکل چلاتے دکھائی دیے۔ کبھی حجام کی دکان پر بال کٹواتے دکھائی دیئے۔ کبھی حلوہ پوری کے ڈھابے پر کھڑے ہو کر پوری سے لطف اندوز ہوئے تو کبھی حلوے کی کڑھائی میں کفگیر چلاتے دکھائی دیئے۔ کبھی کیلاشی بچوں سے محو گفتگو ہوئے تو کبھی ٹرک پینٹ آرٹ کو سراہا۔ جرمن سفیر کی سبزی خریدتے وقت کی تصویر تو خوب وائرل ہوئی اور کرکٹ کے شوقین کوبلر نے چھکے بھی لگائے۔

اظہارعقیدت کے لیے بری امام کے مزار پر بھی تشریف لے گئے، چادر چڑھائی پھول بھی نچھاور کیے۔ یہ تمام عوامی رویے ایسے تھے کہ پاکستانی عوام کے انہوں نے دل جیت لیے۔ پاکستان میں قیام کے دوران انہوں نے’خصوصی افراد‘ کے ساتھ ایک خصوصی تعلق پیدا کیا تھا جسے وہ اپنی سفارتی ذمہ داریوں کے اختتام تک نبھاتے رہے اور کبھی نہیں بھولے۔ ان ’خصوصی افراد‘ کو وہ اپنا دوست کہتے ہیں اور پاکستان کو خیر باد کہنے سے قبل انہوں نے ان سے الوداعی ملاقات بھی کی۔ انہوں نے نہایت پراعتماد لہجے میں کہا کہ انہیں اس بات کا یقین ہے،’’ تمام تر معاشی، معاشرتی اور سیاسی مشکلات کے باوجود پاکستان ترقی کی راہ پر ضرور چلے گا۔

پاکستان میں قیام کے دوران جرمن سفیر نے جہاں عالمی برادری اور غیر ملکی سفارتکاروں کو یہ بتایا کہ پاکستان سیاحت کے لحاظ سے نہایت خوبصورت ملک ہے اور لوگ نہایت پرامن ہیں تو وہیں انتہائی نرم انداز میں انہوں نے پاکستانیوں کو بھی یہ باور کرایا کہ وہ اپنی تہذیب و تمدن سے جڑے رہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جرمن سفیر کے دل موہ لینے والے انداز کے باعث سرکاری حکام بھی ان کی بات پر توجہ دیتے تھے تو عام افراد بھی ان کی نصیحت پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرتے دکھائی دیتے تھے۔ یقیناً اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ لوگ انہیں اپنا ہمدرد، دوست اورمہربان سمجھتے تھے کیونکہ وہ جو بات کرتے تھے یا کہتے تھے اس میں انہیں خلوص نمایاں طور پر دکھائی دیتا تھا۔

بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو

ایڈولف ہٹلر : عروج سے زوال تک

ایڈولف ہٹلر آسٹریا کے شہر برائونا میں 1889ء میں پیدا ہوا۔ نوجوانی میں اس نے عملی زندگی کا آغاز ایک ناکامیاب مصور کی حیثیت سے کیا۔ بعدازاں وہ ایک پرجوش جرمن قومیت پرست بن گیا۔ جنگ عظیم اول میں وہ جرمن فوج میں بھرتی ہوا، زخمی ہوا اور اسے شجاعت کے مظاہرے پر میڈل ملے۔ جرمنی کی شکست نے اسے صدمہ پہنچایا اور برہم کیا۔ 1919ء میں جب وہ تیس برس کا تھا، وہ میونخ میں ایک چھوٹی سی دائیں بازو کی جماعت میں شامل ہوا، جس نے جلد ہی اپنا نام بدل کر نیشنل سوشلسٹ جرمن ورکرز پارٹی (مختصراً ’’نازی‘‘ جماعت) رکھ لیا۔ ترقی کرتے ہوئے، اگلے دو برسوں میں وہ اس کا غیر متنازعہ قائد بن گیا۔ ہٹلر کی زیر قیادت نازی جماعت جلد ہی طاقت ور ہو گئی۔

نومبر 1923ء میں اس نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے لیے ایک کودیتا کی کوشش کی، جسے ’’میونخ بیئرپال پوش‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ ناکام رہا جس کے بعد ہٹلر کو گرفتار کر لیا گیا۔ اس پر غداری کا مقدمہ چلا اور اسے سزا ہوئی۔ تاہم ایک سال سے بھی کم جیل کاٹنے کے بعد اسے رہا کر دیا گیا۔ 1928ء میں بھی ’’نازی‘‘ مختصر سی جماعت تھی۔ تاہم عظیم عالمی کساد بازاری کے دور میں جرمن عوام سیاسی جماعتوں سے بیزار ہونے لگے۔ اس صورت حال میں نازی جماعت نے خود کو متبادل کے طور پر پیش کرتے ہوئے اپنی بنیادیں مضبوط کر لیں۔ جنوری 1933ء میں چوالیس برس کی عمر میں ہٹلر جرمنی کا چانسلر بن گیا۔ چانسلر بننے پر اس نے تمام مخالف جماعتوں کو زبر دستی دبانا شروع کر دیا، اورآمر بن بیٹھا۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ سب کچھ عوامی رائے اور قوانین کے مطابق ہوا۔ بس سب کچھ تیزی کے ساتھ کیا گیا۔

نازیوں نے مقدمات کا تکلف بھی ضروری نہیں سمجھا۔ بیشتر سیاسی حریفوں پر تشدد کو استعمال کیا گیا اور انہیں زدو کوب کیا گیا، بعض کو مار دیا گیا۔ تاہم اس کے باوجود عالمی جنگ کی شروعات سے پہلے چند سالوں میں ہٹلر کو جرمنوں کی بڑی اکثریت کی حمایت حاصل رہی، کیونکہ اس نے بے روزگاری کا خاتمہ کیا اور معاشی خوشحالی لایا۔ پھر وہ دوسرے ملک فتح کرنے لگا جو وہ جنگ عظیم دوم کا سبب بنا۔ ابتدائی فتوحات اسے لڑائی کے چکر میں پڑے بغیر حاصل ہوئیں۔ انگلستان اور فرانس اپنی معاشی بدحالی کے باعث مایوس تھے اور امن کے خواہاں تھے۔ اسی لیے انہوں نے ہٹلر کے کسی کام میں مداخلت نہیں کی۔

ہٹلر نے ورسیلز کا معاہدہ منسوخ کیا اور جرمن فوج کو ازسرنو منظم کیا۔ اس کے دستوں نے مارچ 1936ء میں رہائن لینڈ پر قبضہ کیا، مارچ 1938ء میں آسٹریا کو جبری طور پر خود سے ملحق کر لیا۔ اس نے ’’سوڈبٹن لینڈ‘‘ کو بھی ستمبر 1938ء میں الحاق پر رضا مند کر لیا۔ یہ چیکو سلواکیہ کا ایک قلعہ بند علاقہ تھا جو ایک معاہدے سے ہٹلر کے پاس چلا گیا۔ اس بین الاقوامی معاہدے کو ’’میونخ پیکٹ‘‘ کہتے ہیں۔ برطانیہ اورفرانس کو امید تھی کہ یہ سب کچھ لے کر وہ پرامن ہو جائے گا لیکن ایسا نہ ہوا۔

ہٹلر نے اگلے چند ماہ میں مزید حصہ بھی غصب کر لیا۔ ہر مرحلے پر ہٹلر نے مکاری سے اپنے اقدامات کے جواز گھڑ لیے اور دھمکی بھی دی۔ اس نے کہا، اگر کسی نے مزاحم ہونے کی کوشش کی، تو وہ جنگ کرے گا۔ ہر مرحلے پر مغربی جمہوریتوں نے پسپائی اختیار کی۔ انگلستان اورفرانس نے البتہ پولینڈ کے دفاع کا قصد کیا، جو ہٹلر کا اگلا نشانہ تھا۔ ہٹلر نے اپنے دفاع کے لیے اگست 1939ء میں سٹالن کے ساتھ ’’عدم جارحیت‘‘ کے معاہدے پر دستخط کیے (دراصل یہ ایک جارحانہ اتحاد تھا۔ جس میں دو آمر اس امر پر متفق ہوئے تھے، کہ وہ پولینڈ کو کس شرح سے آپس میں تقسیم کریں گے)۔ نو دن بعد جرمنی نے پولینڈ پر حملہ کیا۔ اس کے سولہ روز بعد روس بھی حملے میں شامل ہو گیا، اگرچہ انگلستان اور فرانس بھی اس جنگ میں کود پڑے، لیکن پولینڈ کو شکست فاش ہوئی۔ 1940ء ہٹلر کے لیے بہت اہم برس تھا۔

اپریل میں اس کی فوجوں نے ڈنمارک اور ناروے کو روند ڈالا۔ مئی میں انہوں نے ہالینڈ، بلجیم اور لکسمبرگ کو تاخت و تاراج کیا۔ جون میں فرانس نے شکست کھائی لیکن اسی برس برطانیہ نے جرمن ہوائی حملوں کا دلیری سے مقابلہ کیا۔ برطانیہ کی مشہور جنگ شروع ہوئی۔ ہٹلر کبھی انگلستان پر قابض ہونے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ اپریل 1941ء میں ہٹلر کی فوجوں نے یونان اور یوگوسلاویہ پر قبضہ کیا۔ جون 1941ء میں ہٹلر نے عدم جارجیت کے معاہدے کو تارتار کیا اور روس پر حملہ آور ہوا۔ اس کی فوجوں نے بڑے روسی علاقے پر فتح حاصل کی۔ لیکن وہ موسم سرما سے پہلے روسی فوجوں کو نیست ونابود کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ ہٹلر بیک وقت روس اورانگلستان سے برسرپیکار تھا، اس کے باوجود وہ دسمبر 1941ء میں امریکہ پر بھی حملہ آور ہو گیا۔

کچھ عرصہ پہلے جاپان پرل ہاربر میں امریکی بحری چھائونی پر حملہ کر چکا تھا۔ 1942ء کے وسط تک جرمنی یورپ کے ایک بڑے حصے پر قابض ہو چکا تھا۔ تاریخ یورپ میں کسی قوم نے کبھی اتنی وسیع سلطنت پر حکمرانی نہیں کی تھی۔ مزید برآں اس نے شمالی افریقہ کے بیشتر حصہ کو بھی فتح کیا۔ 1942ء کے دوسرے نصف میں جنگ کا رخ بدل گیا۔ جب جرمنی کو مصر میں العلمین اور روس میں سٹالن گراڈ کی جنگوں میں شکست کی ہزیمت اٹھانی پڑی۔ ان نقصانات کے بعد جرمنی کی عسکری برتری کا زوال شروع ہوا۔ جرمنی کی حتمی شکست گو اب ناگزیر معلوم ہو رہی تھی، لیکن ہٹلر نے جنگ سے دست بردار ہونے سے انکار کر دیا، ہولناک نقصانات کے باوجود سٹالن گراڈ کی شکست کے بعد قریب دو برس یہ جنگ جاری رہی۔ 1945ء کے موسم بہار میں تلخ انجام وقوع پذیر ہوا۔ 30 اپریل کو برلن میں ہٹلر نے خودکشی کر لی۔ سات روز بعد جرمنی نے ہتھیار پھینک دیے۔ متعدد وجوہات کی بنا پر یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہٹلر کی شہرت باقی رہے گی۔ ایک تو اس لیے کہ اسے تاریخ کے بدنام ترین افراد میں شمار کیا جاتا ہے۔

مائیکل ہارٹ

ہٹلر نے ناروے پر کیسے قبضہ کیا ؟

پولینڈ کی فتح نے ہٹلر کی فوج اور شہری آبادی دونوں میں شادمانی کی لہریں دوڑا دیں۔ وارسا سے جنگجو خوش خوش واپس آئے تاکہ فتح کے ہار وصول کریں۔ ان کے شہری ہم وطن جوش و خروش میں دیوانے ہو رہے تھے۔ برق رفتار جنگ کے ذریعے سے ہٹلر نے اپنی بالغ نظری ساری دنیا پر آشکار کر دی تھی۔ یقیناً لندن اور پیرس دونوں کو تقدیر کا نوشتہ دکھا دیا گیا تھا۔ اب صرف یہ باقی رہ گیا تھا کہ جلد سے جلد صلح کا انتظار کیا جائے لیکن اس کا کوئی سراغ نہ تھا۔ امریکی ولیم شائیرر برلن میں مقیم تھا۔ اس نے ایک نشری تقریر میں کہا: یہاں بعض لوگوں کا خیال ہے کہ جنگ سکینڈے نیویا تک پھیل سکتی ہے۔

برلن میں آج یہ اطلاع ملی کہ گزشتہ ہفتے کم از کم نو تباہ کن برطانوی جہازوں کا ایک بیڑا ساحل ناروے کے پاس ٹھہرا ہوا ہے اور جو جرمن بار بردار جہاں لوہا لا رہے تھے ان پر انتباہی گولے پھینکے گئے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ غیر جانبدار، خصوصاً سکینڈے نیویائی ملک بھی اس جنگ کھینچ لیے جائیں۔ اس وقت تک ہٹلر کی فتوحات زیادہ تیز نہیں تھیں اور اس مسئلے نے نازک صورت اختیار نہیں کی تھی لیکن مغرب کی بڑی طاقتوں کے خلاف جنگ کے لیے اسے رسد کے ایک سے زیادہ مرکز درکار تھے۔

لوہے کی ضرورت بڑھی ہوئی تھی۔ اعلیٰ درجے کا خام لوہا سویڈن سے مغربی جانب بھیجا جاتا تھا اور ریل کے ذریعے سے ناروے کی بندرگاہ نارویک پہنچتا تھا۔ جہاں سے جرمن بار بردار جہازوں میں لاد کر اسے سکا گاراک لایا جاتا تھا۔ ناروے کا بیڑا ان جہازوں کی حفاظت کرتا تھا اس سلسلے میں یہ اصول پیش نظر رکھا گیا کہ ناروے غیر جانبدار ملک ہے اس کے پانیوں میں سے متحارب ممالک کے جہازوں کی آمدورفت برابر جاری رہنی چاہیے اور کسی کو گزند نہ پہنچنا چاہیے۔ ہٹلر کہتا تھا کہ لندن قواعد جنگ کا پورا احترام کرے گا لیکن اس کے نزدیک اس معاملے کو حالات پر چھوڑ دینا بہترین طریق عمل نہ تھا۔

اسے یہ بھی خیال تھا کہ ممکن ہے برطانیہ ناکہ بندی کے حلقے کو توسیع دے کر سویڈن سے لوہے کی رسد ختم کر دے اور ناروے کے پانیوں میں سے جہاز ڈنمارک ہوتے ہوئے جرمنی نہ پہنچ سکیں۔ لہٰذا اس نے 1939ء ہی میں حکم دے دیا تھا کہ ڈنمارک اور ناروے پر حملے کے لیے نقشے تیار کر لیے جائیں۔ لندن نے آٹھ اپریل 1940ء کو ناروے لکھ بھیجا تھا کہ ہم نے ناروے کے پانیوں میں سے ان جہازوں کا بے مزاحمت گزرنا روک دینے کا فیصلہ کر لیا ہے جن پر جنگ کا سامان لدا ہوتا ہے۔ یہ اطلاع بھی دی گئی تھی کہ ساحل کے ساتھ ساتھ بحری سرنگیں بچھائی گئی ہیں کہ خالص ناروے کے جہازوں کی آمدورفت میں کوئی مداخلت نہ ہو اور وہ ساحل کے ساتھ ساتھ جہاں چاہیں ٹھہریں۔

حکومت ناروے نے فوراً مطالبہ کیا کہ بحری سرنگیں اٹھالی جائیں۔ ساتھ ہی برلن سے یہ خوفناک بیان شائع ہوا: ’’سردی بہت بڑھ گئی ہے، جرمنی صورت حال دیکھ رہا ہے جرمنی کی نظر ڈرامے پر ہے جرمنی نے صورت حال کے مقابلے کے لیے اپنا فیصلہ محفوظ رکھا ہے۔” پانچ بجے صبح جرمنی کے سفیر مقیم اوسلو نے ایک یادداشت وزیرخارجہ کے حوالے کی جس کا مضمون یہ تھا کہ ناروے کا نظم و نسق فوراً جرمنی کے حوالے کر دیا جائے، کیونکہ اتحادی اس پر قبضے کی تیاری کر چکے ہیں۔ وزیرخارجہ نے یہ مطالبہ غصے سے ٹھکرا دیا۔

چند گھنٹے کے اندر اندر جرمنوں نے ناروے پر حملے شروع کر دیے۔ جرمن جہاز اوسلو کے سب سے بڑے ہوائی اڈے پر بم برسانے لگے اور بار بردار طیاروں کے جھنڈ ملک کے مختلف حصوں پر چھا گئے۔ چند گھنٹوں میں ہر بندرگاہ، ہر ہوائی اڈا اور پانچ چھ اہم مراکز جرمنوں کے قبضے میں آگئے۔ چار بجے تک سبز پوش جرمن فوجیں بندرگاہ موس سے چل کر 35 میل کا فاصلہ طے کرنے کے بعد اوسلو کے بازاروں میں پہنچ گئیں اور سرکاری عمارتوں پر قبضہ کر لیا۔ خشکی میں تو فتح و تسخیر فیصلہ کن ثابت ہوئی لیکن سمندر میں جرمنوں کو بھاری قیمت ادا کرنی پڑی۔ تاہم یہ ضرب ناروے کی تسخیر سے نازیوں کو نہ روک سکی۔

حکومت اوسلو چھوڑ کر شمالی جانب چلی گئی۔ شہر کی نصف آبادی بھی ساتھ ہی نکل گئی۔ بادشاہ ہاکون ہفتم جابجا بھاگتا پھرتا تھا۔ جرمن جہاز اس کا تعاقب کرتے رہے۔ آخر وہ انگلستان پہنچ گیا ، جہاں اس نے جلاوطنی میں ایک حکومت قائم کر لی۔ نو اپریل 1940ء کو بعد دوپہر جرمنی کی سرکاری ایجنسی نے اعلان کر دیا کہ سابقہ حکومت نے اپنے اختیارات میجر کوئزلنگ کے حوالے کردیے ہیں۔ شام کے ساڑھے آٹھ بجے کوئز لنگ نے ریڈیو سے ایک اعلان نشر کیا جس میں لوگوں کو ہدایت کر دی گئی کہ مزاحمت روک دو، املاک کی مجرمانہ بربادی سے احتراز کرو۔ ساتھ ہی ناروے کی فوج کو ہدایت کی کہ وہ (نئی) قومی حکومت کا حکم مانے۔

کوئزلنگ کی سرگرمیوں نے نازی حملے کامیاب کرانے میں مدد دی تھی۔ کوئز لنگ 1932ء سے 1933ء تک ناروے کا وزیر جنگ رہا۔ اس نے غداری کی، اور یوں ناروے ہٹلر کے کنٹرول میں چلا گیا۔ نازیوں نے صرف کوئزلنگ پر انحصار نہیں کیا بلکہ اس نے اپنے خفیہ آدمی پہلے بھی مختلف مقامات پر بھیج رکھے تھے۔ برطانوی خفیہ ادارے ہٹلر کی منصوبہ بندی کاسراغ نہ لگا سکے۔

لوئس ایس سنائیڈر

البرٹ آئن سٹائن : اپنے اسکول کا سب سے کمزور لڑکا تھا

چند برس پہلے کی بات ہے کہ میں جنوبی جرمنی کے ایک چھوٹے سے قصبے کی گلیوں میں گھوم رہا تھا کہ میرے ایک دوست نے جو میرے ساتھ تھا، اچانک رک کر ایک پرچون فروش کی دوکان کے اوپر ایک کھڑکی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ’’کیا آپ وہ بالاخانہ دیکھ رہے ہیں؟ آئن سٹائن یہیں پیدا ہوا تھا۔‘‘ اسی دن تھوڑی دیر بعد میری ملاقات آئن سٹائن کے چچا سے ہوئی۔ مجھے وہ کوئی غیر معمولی ذہانت کا مالک دکھائی نہ دیا۔ لیکن یہ کوئی عجیب بات نہ تھی۔ کیونکہ جب خود البرٹ آئن سٹائن بچہ تھا تو کسی کو بھی وہم و گمان نہ تھا کہ وہ اس قدر ذہین نکلے گا۔ آج کل وہ دور حاضر کا ذہین ترین مفکر سمجھا جاتا ہے۔

لیکن آج سے ساٹھ برس پہلے وہ ایک سست اور شرمیلا بچہ تھا، اس نے بولنا بھی بڑی مشکل سے سیکھا تھا، وہ اتنا کند ذہن تھا کہ اس کے استاد بھی اس سے تنگ آچکے تھے۔ اور اس کے اپنے والدین اسے مخبوط الحواس سمجھتے تھے۔ لیکن چند برس بعد ایک سہانی صبح کو آئن سٹائن یہ معلوم کر کے حیران رہ گیا کہ وہ دنیا کے مشہور ترین لوگوں میں سے ایک ہے۔ یہ بات بالکل ناقابل یقین دکھائی دیتی تھی کہ ریاضی کے ایک عام سے پروفیسر کا نام پانچوں براعظموں کے ہزاروں اخبارات میں جلی حروف سے چھپے۔ وہ تسلیم کرتا ہے کہ شروع شروع میں یہ سب کچھ خود اس کی سمجھ میں بھی نہ آیا تھا، دوسرے لوگ تو سمجھنے سے قاصر تھے ہی۔

تاریخ انسانیت میں پہلے کبھی ایسا ہوا بھی نہ تھا۔ آئن سٹائن اتنا ہی عجیب و غریب تھا جتنا اس کا نظریہ اضافت۔ اسے ان تمام اشیاء سے نفرت تھی جن پر لوگ جان دیتے ہیں۔ مثلا شہرت ، دولت، عیش وعشرت۔ ایک دفعہ ایک بحری سفر کے دوران جہاز کے کپتان نے اسے جہاز کے سب سے آراستہ کمرے میں ٹھہرنے کے لئے کہا مگر آئن سٹائن نے اس کی یہ پیشکش یہ کہہ کر مسترد کر دی کہ وہ کسی خاص عنایت کو قبول کرنے کے بجائے جہاز کے عرشے پر سفر کرنا زیادہ پسند کرے گا۔ جب آئن سٹائن نے اپنی پچاسویں سالگرہ منائی تو جرمنی کے لوگوں نے اس پر عنایات کی بارش کی دی۔ اس کا ایک مجسمہ تیار کیا گیا ، اسے رہائش کے لئے ایک مکان اور سیر کے لئے ایک کشتی پیش کی گئی.

لیکن چند برس بعد ہٹلر کے عہد میں اس کی جائیداد ضبط کر لی گئی اور وہ اپنے گاؤں جانے پر مجبور ہو گیا۔ اس نے کئی ہفتی بیلجیم کے ایک قید خانے میں میں گزارے جس کے دروازے پر رات کے وقت سپاہی پہرہ دیا کرتا تھا۔ جب وہ نیویارک کے ایک کالج میں ریاضی کے پروفیسر کی حیثیت سے آیا تو وہ اخبارات کے رپورٹروں سے بچنا چاہتا تھا۔ جہاز سے اترتے ہی اس کے دوست خفیہ طور پر اسے ایک کار میں بٹھا کر لے گئے۔ آئن سٹائن کا کہنا تھا کہ اس کے نظریہ اضافت کو فقط بارہ آدمی سمجھتے ہیں ، اگرچہ اس کی وضاحت کرنے کے لئے کوئی دس ہزار مضامین اور کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔

وہ خود نظریہ اضافت کی تشریح اس مثال سے کرتا تھا۔ جب آپ کسی اچھی جگہ ایک گھنٹہ بیٹھیں تو آپ سمجھتے ہیں کہ فقط ایک منٹ بیٹھے ہیں۔ لیکن جب ایک جلتے ہوئے چولہے پر فقط ایک منٹ بیٹھیں تو آپ خیال کرتے ہیں کہ وہاں ایک گھنٹے تک بیٹھے رہے ہیں۔ آئن سٹائن نے دو شادیاں کی تھیں۔ مسز آئن سٹائن تسلیم کرتی تھیں کہ وہ اپنے شوہر کے نظریہ اضافت کو خود بھی نہیں سمجھی، لیکن وہ اپنے شوہر کو ضرور سمجھتی ہیں۔ جو ایک بیوی کے لئے نہایت ضروری بات ہے۔ اس کی بیوی فراؤ آئن سٹائن کا کہنا ہے کہ اس کا شوہر اپنی سوچ میں تو تنظیم کو پسند کرتا تھا۔ لیکن اپنی طرز حیات میں باقاعدگی اسے بالکل پسند نہ تھی۔ وہ جب کبھی جو کچھ کرنا چاہتا ، کر گزرتا ۔

اس کے طرز عمل کے فقط دو اصول تھے۔ پہلا کسی قسم کا کوئی اصول نہ بنائیں۔ دوسرا دوسروں کی رائے کی پرواہ نہ کریں۔ وہ بڑی سادہ زندگی بسر کرتا، وہ بغیر استری کئے ہوئے پرانے لباس میں گھومتا رہتا۔ شاید ہی کبھی ہیٹ پہنتا اور غسل خانے میں خوب گاتا اور سیٹیاں بجاتا، وہ نہانے والے ٹب میں بیٹھ کر شیو کرتا اور کبھی شیونگ صابن استعمال نہ کرتا۔ جس صابن سے وہ نہاتا، اس سے شیو بھی کر لیتا۔ یہ شخض جو کائنات کی گتھیاں سلجھانے میں مصروف تھا، کہتا تھا کہ دو قسم کاصابن استعمال کرنے سے زندگی بڑی پیچیدہ ہو جاتی ہے۔

آئن سٹائن نے مجھے بہت متاثر کیا ۔ اس کے نظریہ اضافت کے مقابلے میں اس کا فلسفہ مسرت میرے لئے زیادہ اہم ہے۔ وہ کہتا تھا کہ وہ خوش رہتا ہے۔ کیونکہ وہ کسی سے کچھ نہیں مانگتا، اسے نہ تو ستائش کی پرواہ تھی اور نہ ہی صلے کی۔ اس کی خوشی کے ذرائع بڑے سیدھے سادے تھے۔ ایک دفعہ برلن میں ایک ٹرام میں سفر کرتے ہوئے اس نے بے خیالی میں کنڈیکٹر سے کہہ دیا کہ اس نے ریزگاری پوری نہیں دی۔ جب کنڈیکٹر نے ریزگاری دوبارہ گنی تو وہ صحیح نکلی۔ اس نے ریز گاری دور جدید کے سب سے بڑے حساب دان کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا، ’’میرا خیال ہے آپ کو گنتی نہیں آتی‘‘۔

 ڈینئل کانیگی

پاکستانی مدر ٹریسا ڈاکٹر رُتھ فاؤ

ڈاکٹر روتھ فاؤ 9 ستمبر1929 کو جرمنی کے شہر لیپازگ میں پیدا ہوئیں تھیں۔ ڈاکٹررُتھ فاؤ نے 1960 میں پاکستان میں جذام کے خاتمے کے لیے کوششوں کا آغاز کیا، ڈاکٹررُتھ فاؤ کی کوششوں سے پاکستان سے جذام کا خاتمہ ہوا اورعالمی ادارہ صحت نے 1996 میں پاکستان کو جذام پر قابو پانے والا ملک قرار دیا جب کہ پاکستان ایشیاء کا پہلا ملک تھا جس میں جذام پر قابو پایا گیا۔ حکومت پاکستان نے1979 میں ڈاکٹر رُتھ فاؤ کو جذام کے خاتمے کے لیے وفاقی مشیر بنایا اور 1988 میں ڈاکٹر رُتھ فاؤ کو پاکستان کی شہریت دے دی گئی۔ ڈاکٹررتھ فاؤ کی گراں قدر خدمات پرانہیں ہلال پاکستان، ستارہ قائداعظم، ہلالِ امتیاز، جناح ایوارڈ اورنشان قائداعظم سے نوازا گیا جب کہ ڈاکٹررُتھ فاؤ کو جرمن حکومت نے بیم بی ایوارڈ اور آغا خان یونیورسٹی نے ڈاکٹرآف سائنس کا ایوارڈ دیا۔

ان کی پیدائش نو ستمبر 1929 کو جرمنی میں ہوئی تھی جہاں وہ عالمی جنگ کی وحشیتیں دیکھ کر بڑی ہوئی تھیں۔ عالمی جنگ کے بعد جرمنی جب دو حصوں میں تقیسم ہو گیا تو ڈاکٹر رتھ ایسٹ جرمنی سے ویسٹ جرمنی میں داخل ہو گئیں جہاں انھوں نے صحت کے شعبے میں تعلیم حاصل کی۔ تعلیم مکمل ہونے کے بعد انھوں نے کیتھولک ‘ڈاٹر آف دے ہارٹ آف دی میری’ نامی تنظیم کو جوائن کیا۔ 1960 میں انھوں نے اپنے وطن کو خیر آباد کہا اور انھیں مشن کی جانب سے انڈیا بھیجا گیا لیکن ویزے میں کچھ معاملات کی وجہ سے انھیں کراچی میں رکنا پڑا۔ یہاں انھیں جذام کے علاج کے بارے میں آگاہ کیا گیا۔ جب وہ پہلی بار آئی آئی چندریگر روڈ پر جذام کے مریضوں کی کالونی کا دورہ کیا تو ماحول دیکھ کر کافی افسردہ ہوئیں۔

1961 میں وہ جنوبی انڈیا گئیں جہاں انھوں نے جذام کے مریضوں کی دیکھ بحال کی تریبیت حاصل کی جس کے بعد وہ واپس کراچی آئیں۔ یہاں انھوں نے جذام کو کنٹرول کرنے کا پروگرام شروع کیا۔ حکومت کی معاونت سے انھوں نے سندھ کے علاوہ بلوچستان، خیبر پختونخواہ اور آزاد کشمیر میں جذام کے مریضوں کے لیے مراکز قائم کیے۔ ان کی خدمات کو مد نظر رکھتے ہوئے 1979 میں انھیں وفاقی محکمہ صحت نے جذام کے بارے میں معاون مقرر کیا۔ ڈاکٹر رتھ نے 1996 میں بالاخر جزام پر قابو پا لیا۔ جس کے بعد پاکستان ایشیا میں پہلا ایسا ملک قرار دیا گیا جہاں جذام پر قابو پایا جا چکا تھا۔

انھوں نے پاکستان میں اپنے کام پر جرمن زبان میں چار کتابیں لکھی ہیں، جن میں سے ‘ٹو لائیٹ اے کینڈل’ کا انگریزی میں ترجمہ کیا گیا ہے۔ انھیں حکومت جرمنی کے علاوہ پاکستان میں بھی ستارہ قائد اعظم، ستارہ ہلال ایوارڈ سے نوازے گیا۔