بھارت ۔ جمہوریت اور سیکولرزم کا شمشان گھاٹ

جنوبی ایشیا ایسا بد قسمت خطّہ ہے۔ جہاں علاقائی تعاون کی آرزوئیں خاک ہو رہی ہیں۔ دنیا بھر میں علاقائی تعاون کی تنظیمیں آسیان۔ یورپی یونین۔ افریقی یونین۔ نارتھ امریکن فری ٹریڈ ایگریمنٹ سب ایک دوسرے سے اشتراک کر رہی ہیں۔ تجارت، صنعت میں آگے بڑھ رہی ہیں۔ یورپی یونین تو ایک کرنسی یورو اختیار کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ پاسپورٹ ویزے کی ضرورت نہیں رہی۔ لیکن جنوبی ایشیا کی علاقائی تعاون کی تنظیم سارک قدم آگے نہیں بڑھا سکی۔ یہ دنیا میں سب سے زیادہ آبادی والا خطّہ ہے۔ ایک ارب 80 کروڑ انسان ان 8 ملکوں بھارت۔ پاکستان۔ بنگلہ دیش۔ نیپال۔ بھوٹان۔ سری لنکا۔ مالدیپ۔ افغانستان میں سانس لیتے ہیں۔ دنیا کی کُل آبادی کا قریباً 24 فیصد ۔ اتنی بڑی تعداد میں انسان زندگی کی بنیادی سہولتوں سے بھی محروم ہیں۔ امن اور سکون سے بھی۔ اور اس کی وجہ اس خطّے کے سب سے بڑے ملک بھارت کی انتہا پسندی۔ دہشت گردی اور کشمیر پر غاصبانہ قبضہ ہے۔ اب 2014 میں نریندر مودی کے دہلی راجدھانی سنبھالنے کے بعد سے تو بھارت انتہا پسند ہندو ذہنیت کا گڑھ بن گیا ہے۔

نہ تو بھارت کے اپنے لوگ خوش ہیں اور نہ ہی ہمسایوں میں سے کوئی آرام سے زندگی بسر کر سکتا ہے۔ دنیا تو کیا ہم بھی چھ دہائیوں سے بھارت کی جمہوریت، تحمل و برداشت کی مثالیں دیتے آرہے ہیں۔ اپنے ہاں مارشل لائوں کی مذمت کرنے کے لیے ہمارے دانشور، سیاسی رہنما، ادیب، شاعر اور قانون دان بڑی شد و مد سے کہتے رہے ہیں کہ بھارت میں ہمیشہ حکومت ووٹ سے تبدیل ہوتی ہے۔ وہاں فوج نے کبھی نظم و نسق نہیں سنبھالا۔ اور یہ بھی کہ وہاں سیکولرازم کا دور دورہ ہے۔ ہندو۔ مسلم۔ سکھ۔ عیسائی ۔ بدھ۔ جین سب مل جل کر رہتے ہیں۔ ان کے ہاں سادگی، کفایت شعاری ہے۔ وہاں عدلیہ آزادی سے فیصلے کرتی ہے۔ اخبارات، ٹی وی، ریڈیو آزاد ہیں لیکن آج کا بھارت جمہوریت، سیکولرازم کا شمشان گھاٹ ، دہشت گردی اور انتہا پسندی کا مرکز بن گیا ہے۔ وہاں ہندوئوں کی چھوٹی ذاتیں محفوظ ہیں نہ اقلیتیں۔ مسلمان آبادی ملک کا 13 فیصد ہیں۔ قریباً 20 کروڑ لیکن ہر لمحے اذیت اور بربریت کے شکار عیسائی پونے 3 کروڑ کے قریب وہ بھی مصائب سے دوچار ہیں۔

سکھ قریباً 2 کروڑ ان کے احتجاج اور علیحدگی پسندی کی خبریں آتی رہتی ہیں۔ ہندو توا پورے زوروں پر ہے۔ دوسرے تمام مذاہب پابندیوں اور قدغنوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکمرانی میں انتہا پسندی کی بھی انتہا ہو گئی ہے۔ بھارت اور پاکستان کے بعض امن پسند گروپ پہلے کوششیں کرتے تھے کہ دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان براہ راست رابطے ہوں تو شاید بھارت کے متعصب۔ تنگ نظر حکمرانوں پر قیام امن کے لیے دبائو بڑھے۔ لیکن بی جے پی سرکار کے بعد یہ کوششیں بھی بے سود ہو گئی ہیں ۔ دونوں ملکوں کی آزادی پر شمعیں جلانے والے کلدیپ نائر سورگباش ہو گئے۔ ادھر پاکستان سے ڈاکٹر مبشر حسن بھی اللہ کو پیارے ہوئے۔ حقوق انسانی کے حوالے سے جدوجہد کرنے والے دوسرے گروپ بھی اب جنوبی ایشیا میں امن کے لیے سازگار فضا نہیں پارہے ہیں۔ میرا بھی 1972 سے مختلف صحافتی ادبی اور علمی کانفرنسوں کے لیے بھارت جانا ہوتا رہا ہے۔ شملہ مذاکرات کی رپورٹنگ کے لیے گیا بعد میں وزیر اعظم اندرا گاندھی سے خصوصی انٹرویو کے لیے بھی 21 روز قیام رہا۔ آگرہ مذاکرات کیلئے گئے تو وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی سے خصوصی گفتگو ہوئی۔

بعد میں مشرف من موہن مذاکرات کی رپورٹنگ بھی کی۔ بھارت میں بہت سے ہندو، مسلمان، عیسائی ادیب شاعر ، صحافی دوست ہیں۔ اب بھی ان سے سوشل میڈیا پر رابطہ رہتا ہے۔ ایک دو سال بھارت کے کئی اخبارات میں بیک وقت کالم بھی چھپتا رہا۔ میرا تجربہ اور مشاہدہ ہے جو آپ کا بھی ہو گا کہ بھارت کے عام لوگ خطّے میں امن و سکون کے خواہاں ہیں۔ آرام سے زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں۔ مختلف شہروں میں رکشے ٹیکسی ڈرائیوروں دکانداروں ہوٹل کے ویٹرز سے بات ہوتی تھی۔ تو وہ یہی کہتے تھے یہ نیتا (سیاسی لیڈر) ہمیں آپس میں لڑواتے ہیں۔ ہمارا مسئلہ تو دو وقت کی روٹی ہے۔ اب نریندر مودی کے دَور میں تو کسی کانفرنس میں جانے کا ارادہ ہی نہیں کر سکتے۔ ویسے بھی قیام امن کے لیے اب کوئی مربوط کوشش نہیں ہو رہی ہے۔ اکھنڈ بھارت کا جنون زوروں پر ہے۔ پاکستان میں مستقل بد امنی پیدا کرنا، اپنے ایجنٹوں کے ذریعے تخریب کاری کی سازشیں بی جے پی کا ایجنڈا ہے۔ اپنے اس انتہا پسند پروگرام میں اس حد تک مصروف ہے کہ کورونا کی عالمگیر وبا سے اپنے شہریوں کی جانیں بچانے پر مطلوبہ توجہ نہیں دے سکی۔

اب تک مریضوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ ڈیڑھ لاکھ کے قریب اموات ہو چکی ہیں۔ اپنے لوگوں کی صحت بی جے پی کی ترجیحات میں نہیں ہے۔ اس لیے کورونا کی ابتدا سے ہی بھارتی حکمران موزوں حکمت عملی ترتیب نہیں دے سکے۔ میری تشویش یہ ہے کہ امریکہ اور یورپ میں جمہوریت کے تجربے کے نتیجے میں معاشرے مہذب ہوئے ہیں۔ تحمل، برداشت میں اضافہ ہوا ہے۔ لوگوں کی جانیں محفوظ ہوئی ہیں۔ لیکن یہ سب سے بڑی جمہوریت کے دعویدار بھارت میں انسانیت کا قتل کیوں ہو رہا ہے۔ تہذیب، اقدار کا جنازہ کیوں نکل رہا ہے۔ کیا جمہوریت کے دعوے فریب تھے۔ سیکولرازم ایک ڈھونگ تھا۔ اب تو پاکستان میں تخریب کاری اور دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے باقاعدہ ثبوت بھی دنیا کے سامنے رکھ دیے گئے ہیں۔ اگر امریکہ یورپ ان ثبوتوں کے باوجود بھارت کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتے تو ان کی جمہوریت، انصاف پسندی اور انسانیت نوازی بھی ایک سوالیہ نشان بن جائے گی۔

بھارت کی اس پاکستان دشمنی کے خلاف پاکستان سے ہر شہری ہر سیاسی کارکن ہر دانشور ہر سیاسی جماعت کو یک آواز ہونا چاہئے۔ خاص طور پر سمندر پار پاکستانیوں کو حرکت میں آنا چاہئے۔ یہ کسی ایک حکومت یا ایک سیاسی پارٹی کا مسئلہ نہیں ہے۔ بلکہ بحیثیت مملکت بقا کا سوال ہے۔ اس سال کے آغاز میں بھارت میں ہندوتوا کے خلاف ملک گیر احتجاجی ریلیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ مگر کورونا کے پھیلائو کے باعث اس میں تعطل آگیا۔ اس احتجاج کے مقابلے میں مودی سرکار بے بس ہو گئی تھی۔ یہ احتجاج یقیناً پھر شروع ہو جائے گا۔ یہ مملکت پاکستان۔ عمران حکومت۔ وزارت خارجہ۔ ساری قومی سیاسی پارٹیوں کی آزمائش ہے کہ وہ بھارت کو ایک انتہا پسند اور دہشت گرد مملکت قرار دلوانے کے لیے دنیا پر کیسے دبائو ڈالتے ہیں۔ اقوام متحدہ اور اسلامی ملکوں کی تنظیم۔ مسلم حکمرانوں کو اپنے اتحاد اور یکجہتی سے کیسے قائل کرتے ہیں۔ بھارت پر اقتصادی پابندیاں عائد کروانا ہی اس مسئلے کا حل ہے۔ کیونکہ بھارت نے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویٰ کر کے اپنی ایک ارب سے زیادہ صارفین پر مشتمل مارکیٹ کا لالچ دے کر امریکہ اور یورپ کو اپنا دیوانہ بنا رکھا ہے۔

محمود شام

بشکریہ روزنامہ جنگ

بھارت کی تنہائی

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی وجہ سے بھارت خطے میں تنہا ہو گیا ہے۔ کوئی ایسا پڑوسی ملک نہیں جس کے ساتھ بھارت کے تعلقات میں خوشگواری کا احساس باقی رہا ہو۔ نیپال، بنگلہ دیش، چین اور پاکستان کے ساتھ تعلقات انتہائی نا خوشگوار ہو چکے ہیں ۔ نریندر مودی کے خطے میں حکمرانی کے خواب کی تعبیر الٹی نکلی ہے۔ ہر محاذ پر تو کیا خود بھارت کے اندر بھی مودی حکومت کو شرمندگی کا سامنا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں تمام انسانی اور اخلاقی قدریں پامال کرنے پر بھی بھارت کی رسوائی ہو رہی ہے۔ ایران کے ساتھ تعلقات بھی وہ نہیں رہے جو پہلے تھے۔ ایران نے چا بہار منصوبے سے نکال باہر کر دیا ہے۔ یہ ایران میں ریلوے لائن بچھانے کا بہت بڑا منصوبہ ہے۔ جس کا تخمینہ تقریباً ایک ارب 60 کروڑ ڈالر ہے۔ مئی 2016ء میں اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے ایک معاہدہ ہوا جس پر ایران، بھارت اور افغانستان نے دستخط کئے۔ منصوبے کا مقصد یہ تھا کہ پاکستان کے بجائے ایک متبادل روٹ قائم کیا جائے۔ جس کے ذریعے بھارت ،ایران اور افغانستان کو براہ راست تجارتی سہولیات میسر ہوں۔

بھارتی ریاست گجرات میں کاندھلہ بندرگاہ کو ایرانی بندرگاہ چا بہار سے جوڑ کر ایرانی شہر زاہدان اور وہاں سے افغانستان کے علاقہ زارنج تک پہنچانا تھا۔منصوبے کے مطابق یہ 628 کلو میٹر طویل ریلوے لائن ان تینوں ملکوں کو ایک دوسرے سے ملاتی اور یوں پاکستان سے ہٹ کر یہ ریلوے لائن ان تینوں ملکوں کی وسط ایشیائی ممالک تک رسائی کا بھی ذریعہ بن جاتی ۔ منصوبے کو 2020ء تک مکمل کیا جانا تھا لیکن ایران نے کہا ہے کہ چار سال پہلے منصوبے پر دستخط کرنے کے باوجود بھارت نے اس پر کام شروع نہیں کیا اور اس سلسلے میں مزید تاخیر نہیں کی جا سکتی، اب ایران خود اس منصوبے کو مکمل کرے گا۔لیکن اب بھارت کو نکال کر یہ ریلوے لائن چا بہار سے زاہدان اور پھر افغانستان تک پہنچائی جائے گی۔ بھارت نے امریکی ناراضی مول نہ لینے کی وجہ سے ایک انتہائی اہم منصوبہ اور موقع گنوا دیا۔ نریندر مودی کی سوچ اور پالیسیوں نے بھارت کو کہیں کا نہیں چھوڑا بلکہ ہر جگہ ناکامی اور دنیا بھر میں رسوا کر دیا ہے۔

اب بھی وقت ہے کہ بھارتی عوام اٹھ کھڑے ہوں اور موذی نریندر مودی سرکار سے نجات حاصل کریں۔ ورنہ وہ مستقبل قریب میں بھارت کی مزید بربادی ، تنہائی اور رسوائی دیکھیں گے۔ سیانے کہتے ہیں کہ دشمن بھی عزت دار ہونا خوش قسمتی کی بات ہوتی ہے۔ بھارت اور پھر مودی جیسے رذیل دشمن کی موجودگی اس خطے کے لئے نقصان دہ ہے۔ ہر محاذ پر ذلت اور رسوائی کے باوجود بے شرمی کی انتہا دیکھیں کہ نہ تو مقبوضہ کشمیر کے نہتے مسلمانوں پر ظلم و بربریت سے باز آتا ہے اور نہ بھارتی مسلمانوں کو وہاں سکون سے رہنے دیتا ہے ۔ ڈھٹائی اور بے شرمی کی شاید کوئی حد نہیں ہوتی۔ پاکستان کو گیدڑ بھبکیوں سے ڈرانے کی تمام بھارتی کوششیں ناکام رہی ہیں۔ ناکام و بدنام بھارتی خفیہ ایجنسی ’’ را ‘‘ نے متعدد بار پاکستان کے اندر فرقہ وارانہ فساد کرانے کی کوششیں کیں لیکن اس کو ناکامی کے سوا کچھ نہ ملا۔ پاک چین کے درمیان اہم ترین منصوبے سی پیک کے بارے میں بھارتی جھوٹا پروپیگنڈہ ہر موقع اور ہر طرح سے ناکام ہوا تو بھارت نے ایک بار پھر پاکستان کے اندر دہشت گردی شروع کرا دی۔

کراچی، اندرون سندھ اور بلوچستان کے علاوہ خیبر پختونخواہ کے قبائلی اضلاع میں ہونے والے حالیہ واقعات پاکستان میں دہشتگردی پھیلانے کی کوششوں کا تسلسل ہیں۔ ہفتہ رواں میں بلوچستان کے علاقہ پنجگور میں دہشتگردی کے واقعہ میں سیکورٹی ادارے کے تین جوان شہید اور آٹھ زخمی ہوئے۔ پاک فوج بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں بڑی مستعدی کے ساتھ فرائض سرانجام دے رہی ہے۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ سابقہ ہوں یا موجودہ کسی بھی سیاسی حکومت نے صحیح معنوں میں اپنے فرائض پورے نہیں کئے۔ یہی وجہ ہے کہ دشمن کو کاندھا دینے والے اور سہولت کار ملک کے اندر ہی مل جاتے ہیں۔ بلوچستان کے عوام کو محرومی کے نام پر گمراہ کرنے کا کھیل عرصہ دراز سے جاری ہے۔ اس کھیل میں مبینہ طور پر بعض با اثر افراد بھی حصہ دار ہو سکتے ہیں۔

آج تک کسی حکومت نے وہاں کے عوام کے لئے براہ راست کچھ نہیں کیا وہ وفاقی حکومت ہو یا صوبائی حکومت۔ سرکاری فنڈز چند افراد کی جیبوں میں چلے جاتے ہیں اور عوامی فلاحی منصوبے اعلانات کی حد تک رہ جاتے ہیں۔ دشمن ایسے حالات سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے ۔ اگر سرکاری فنڈز براہ راست عوام تک پہنچیں اور عوام پر ہی خرچ ہوں اور چند با اثر افراد کی لوٹ مار اور مداخلت نہ ہو، بھرتیاں میرٹ پر ہوں تو دشمن کیلئے کسی طور ممکن نہیں کہ یہاں کے سادہ لوح لوگوں کو گمراہ کر سکے۔ یہ بات تو یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ پاک فوج کی موجودگی اور عوام کے تعاون کی بدولت بزدل دشمن کبھی بھی اپنے ناپاک ارادوں کی تکمیل میں کامیاب نہیں ہو سکتا لیکن امن و امان کو برقرار رکھنے میں حکومتیں بھی اپنا فرض پورا کریں۔

ایس اے زاہد

بشکریہ روزنامہ جنگ

دلی کا ایک محب ِ وطن بھارتی مسلمان

یہ پچیس فروری کا دن تھا، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھارت کے دورے پر تھے پھر اچانک ہی بھارتی دارالحکومت دہلی میں ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے مسلمان بستیوں پر حملے کی خبر نے چونکا دیا، نہ چاہتے ہوئے بھی میں نے دہلی میں مقیم بھارتی مسلمان اور میرے دوست محمد حسین کو فون ملایا، محمد حسین ماضی میں جاپان میں میری ہی کمپنی میں سوفٹ ویئر انجینئر تھے اور چند برس قبل ملازمت کو خیر آباد کہہ کر بھارت واپس جا چکے تھے، محمد حسین سے اکثر پاکستان اور بھارت کے حوالے سے بحث رہا کرتی تھی، میں پاکستان کی تعریف کرتا تو وہ بھارت کی حمایت میں دلائل دیتا، میں اسکے تمام دلائل کھوکھلے قرار دیتا اور یوں ہماری بحث دیر تک جاری رہتی پھر ایک دن اس نے جاپان کو خیر آباد کہا اور دہلی میں اپنے والدین اور بھائی بہنوں کیساتھ زندگی گزارنے واپس چلا گیا

دہلی میں مسلم کش فسادات کی خبر سنتے ہی میں نے محمد حسین کو فون کیا اور دہلی میں جاری مسلم کش فسادات پر اپنی تشویش سے اسے آگاہ کیا تو اس نے ہمیشہ کی طرح بھارت کی تعریف شروع کرتے ہوئے کہا کہ بھائی صاحب اب بھارت تبدیل ہو چکا ہے، یہ بیسویں صدی کا بھارت ہے جہاں ہر رنگ، نسل اور مذہب کے لوگ آباد ہیں، یہاں سب کو مذہبی آزادی حاصل ہے اور پھر ہم دارالحکومت دہلی میں مقیم ہیں، یہاں کسی کو کوئی خطرہ  نہیں ہے، محمد حسین کے طویل تبصرے پر میں نے میڈیا میں آنے والی خبر کا ذکر کیا تو اس نےفوراً جواب دیتے ہوئے کہا کہ میڈیا ہمیشہ ہی گڑبڑ پھیلاتا ہے، ابھی میرے دوست محمد حسین نے بھارت کے حوالے سے اپنے دعوے مکمل بھی نہ کئے تھے کہ اسکے دروازے کو زور سے پیٹا جانے لگا، ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ کسی بہت بڑے گروہ نے میرے بھارتی مسلمان دوست محمد حسین کے گھر پر حملہ کر دیا ہے

محمد حسین جو اب سے کچھ لمحے قبل مجھے بھارتی سکیولرازم کی مثالیں دے رہا تھا اچانک چیخا کوئی دروازہ نہیں کھولے گا، سب اندر آجائو اور دروازے بند کر لو، اس نے مجھ سے صرف اتنا ہی کہا بھائی میں آپ سے بعد میں بات کرتا ہوں اور یہ کہہ کر اس نے اپنا موبائل فون اپنی جیب میں ڈال لیا لیکن وہ فون بند کرنا بھول گیا تھا یا پھر دانستا طور پر اس نے ایسا کیا تھا کہ میں اس واقعے کا چشم دید گواہ بن جائوں، مجھے بھارت کی تعریف میں کہی ہوئی اس کی کھوکھلی باتوں پر بالکل یقین نہیں تھا، اس کے گھر پر ہونے والے بلوائیوں کے حملے نے میرے تمام خدشات کو سچ ثابت کر دیا تھا، میں اسکی آواز باآسانی سن سکتا تھا وہ اپنے والدین اور بہنوں کو لے کر گھر کی اوپری منزل پر چلا گیا جبکہ نیچے مسلسل اسکے گھر کا دروازہ توڑنے کی کوششیں جاری تھیں، دوسری جانب گھر کے اندر محمد حسین کی والدہ اور بہنیں اپنے رشتہ داروں اور پڑوسیوں سے مدد کی بھیک مانگ رہی تھیں

پھر اچانک آواز آئی بلوائیوں نے نیچے گھر کا دروازہ توڑ دیا ہے اور اب وہ اندرونی دروازہ توڑنے کے درپے تھے، محمد حسین اور اس کے اہلِ خانہ گھر کی چھت پر آچکے تھے اور چھپنے کی کوششوں میں مصروف تھے لیکن چھت پر چھپنے کی کوئی جگہ موجود نہیں تھی، محمد حسین کی والدہ اور بہنوں نے دعائیں شروع کر دی تھیں لیکن کچھ ہی دیر بعد ڈنڈے، لاٹھیاں اور اسلحہ لے کر بلوائی چھت پر پہنچ چکے تھے، اب مجھے بلوائیوں کی آوازیں صاف سنائی دے رہی تھیں، وہ محمد حسین اور اُس کے اہلِ خانہ کو غدار کہہ رہے تھے پھر مجھے محمد حسین اور اُسکے اہلِ خانہ کی چیخوں کی آوازیں آنے لگیں پھر کچھ لوگ محمد حسین کو اٹھا کر ساتھ لیجانے کی کوشش کر رہے تھے، پھر چند لمحوں بعد ایسا محسوس ہوا کہ محمد حسین کو گلی میں سے گزارا جارہا ہو پھر اچانک محمد حسین کی آواز آئی پولیس، پولیس مجھے بچائو

شاید محمد حسین نے پولیس کو دیکھ کر اس سے مدد مانگی تھی لیکن پھر محمد حسین کی چلانے کی آوازیں آنے لگیں جیسے اس پر شدید تشدد کیا جا رہا ہو اور پھر شاید کوئی لاٹھی اس کی جیب میں موجود فون پر لگی اور فون سے آنے والی آوازیں اچانک بند ہو گئیں، میں چاہنے کے باوجود بھی کچھ نہ کر سکا، نہ ہی میں اپنی آنکھوں سے بہنے والے آنسو روک سکا، میرے سامنے ایک بھارتی محبِ وطن مسلمان ہندو انتہا پسندوں کے ہاتھوں قتل ہو چکا تھا، مجھے آج قائداعظم کا وہ عظیم قول یاد آرہا تھا جو اس عظیم لیڈر نے تہتر سال قبل قیام پاکستان کے وقت کہا تھا کہ جو مسلمان آج قیامِ پاکستان کی مخالفت کر رہے ہیں وہ اپنی ساری زندگی اپنے آپ کو بھارت کا وفادار ثابت کرنے میں گزار دیں گے لیکن وہ پھر بھی کامیاب نہ ہو سکیں گے، بلاشبہ قائداعظم نے پاکستان بنا کر پوری مسلمان قوم پر ایک عظیم احسان کیا تھا، اللہ تعالیٰ محمد حسین جیسے ہزاروں مسلمانوں کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے جنہوں نے بھارت سے وفاداری کے باوجود غداری کا لقب پایا اور بھارتی انتہا پسندوں کے ہاتھوں اپنی جان قربان کر دی۔

محمد عرفان صدیقی

بشکریہ روزنامہ جنگ

بھارت 1947 میں واپس چلا گیا

آج اتوار ہے۔ آپ اور ہم بیٹھیں گے اپنی آئندہ نسل کے ساتھ۔ زیادہ سوالات تو ظاہر ہے کرونا وائرس سے متعلق ہوں گے۔ بلوچستان اور سندھ میں اسکول بند کیے گئے ہیں۔ بچے خوش تو ہوتے ہیں چھٹیاں ملنے سے، لیکن انہیں تشویش بھی ہوتی ہے کہ ان کے ہم وطن منہ پر ماسک لگائے گھوم رہے ہیں۔ پہلے چین سے خبریں آرہی تھیں۔ اس وبا کے ہاتھوں مرنے والوں کی، اب ایران سے بھی یہ غم ناک اطلاعات آرہی ہیں۔ پاکستان میں بھی یہ وبا پہنچ گئی ہے مگر ہم پہلے سے تیار تھے۔ اللّٰہ کا فضل ہے کہ ہمیں اس ناگہانی آفت کا مقابلہ بہت استقامت اور شعور کے ساتھ کرنا ہے۔ سنسنی خیزی اور ہنگامہ آرائی سے گریز کرتے ہوئے اکیسویں صدی کی ایک بیدار، سمجھ دار قوم کا کردار ادا کرنا ہے۔

گھبراہٹ اور پریشانی کے بجائے اس وبا کے اسباب، اس سے بچائو اور اس پر تحقیق ہونی چاہئے۔ ملک میں اتنی میڈیکل یونیورسٹیاں قائم ہو چکی ہیں۔ دوا ساز کمپنیوں کے اپنے تحقیقی شعبے ہیں۔ صحت کے حوالے سے متعدد این جی اوز ہیں۔ ملک میں جید اور مستند اطبا موجود ہیں۔ انہیں چاہئے کہ اس بیماری کے بارے میں تحقیق کریں۔ اللہ تعالیٰ جہاں ایسی بیماریاں ہماری آزمائش کے لیے دیتا ہے وہاں ان کا علاج بھی پہلے سے دیا ہوا ہوتا ہے۔ اللّٰہ کے نائب کی حیثیت سے ہمیں وہ جڑی بوٹی تلاش کرنی چاہئے جس میں کرونا کے مریضوں کے لیے شفا رکھی ہوئی ہے۔ احتیاطی تدابیر میں سب سے زیادہ ضروری ہاتھ صاف رکھنے ہیں۔
باہر سے آئیں تو ہاتھ اچھی طرح دھو لیں۔ جہاں اس بیماری کا شبہ ہو وہاں جانے سے گریز کریں۔ یہ انسانیت کا امتحان ہے۔ ستاروں کی تسخیر کرنے والا، خلا میں چہل قدمی کرنے والا، کائنات کے اسرار و رموز جاننے والا یقیناً اس خطرناک بیماری پر بھی گرفت حاصل کر لے گا۔

آج بچوں سے ہمیں میرؔ و غالبؔ، مغل بادشاہوں کی، جامع مسجد، قطب مینار کی دلّی کے بارے میں بھی باتیں کرنا ہیں۔ جس کی مسجدوں پر راشٹریہ سیوک سنگھ کے بدقماش نوجوانوں کی یلغار کو ہمارے بیٹوں بیٹیوں نے ٹی وی پر اپنے موبائل فونوں پر دیکھا ہے۔ مسلمانوں کی دکانیں جل رہی ہیں۔ دہلی پولیس صرف ٹی وی ہی نہیں دیکھ رہی ہے، بلوئوں میں خود بھی حصّہ لے رہی ہے۔ پیارے بچو! ایک تھا بھارت۔ جس کا دعویٰ تھا کہ وہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے۔ جہاں کبھی فوج نے اقتدار پر قبضہ نہیں کیا۔ جہاں حکومت صرف ووٹ سے تبدیل ہوئی ہے۔ جہاں مذہب کی کوئی تفریق نہیں ہے۔ جہاں سیکولر ازم کا راج ہے۔ جہاں انتہا پسند نہیں ہیں۔ یہ دعوے 5 اگست 2019 کے بعد دھرے رہ گئے ہیں۔

اب بھارت سے زیادہ انتہا پسند ملک کوئی نہیں ہے۔ جہاں مقبوضہ کشمیر میں کرفیو اور لاک ڈائون ہوئے 200 سے زیادہ دن گزر چکے ہیں۔ جہاں 73 سال بعد لوگوں کی شہریت مشکوک ہو گئی ہے۔ انہیں دوبارہ اپنی شناخت تسلیم کروانا ہو گی۔ جہاں مسلمان، ہندو سکھ، عیسائی پارسی سب شہریت بل کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ جہاں کے دارالحکومت دلّی میں شہریت بل مسلط کرنے والی بھارتیہ جنتا پارٹی الیکشن میں بری طرح ہار گئی ہے۔ وہاں شکست خوردہ امیدوار کپل مشرا کے بھاشن نے آگ لگا دی ہے۔ یہ کبھی لبرل تھا۔ ترقی پسند تھا۔ پھر بی جے پی کو پیارا ہو گیا۔ خیال تھا کہ الیکشن جیتے گا۔ وزیر بنے گا مگر شکست فاش نے اسے پاگل بنا دیا۔ عین اس روز جب ایک اور انتہا پسند امریکی صدر دلّی میں تھا، اس نے شاہین باغ میں شہریت بل کے خلاف خواتین کو للکارا اور کہا کہ اگر انہوں نے احتجاج ختم نہیں کیا تو وہ اپنے نوجوانوں کو بے لگام کر دے گا۔ پھر پوری دنیا نے دیکھا کہ انسانیت کس طرح پامال ہوئی۔ مسلمانوں کو زندہ جلا دیا گیا۔

شمال مشرقی دہلی میں جہاں وہ الیکشن ہارا تھا وہاں آگ اور گولی کا کھیل کھیلا گیا، ان فسادات نے گجرات کے بلوئوں کی یاد تازہ کر دی۔ جب مودی وہاں وزیر اعلیٰ تھا، بھارت کے لوگوں نے اس پر مودی کو مسترد کرنے کے بجائے پورا ملک اس شدت پسند کے حوالے کر دیا۔ اندرا گاندھی نے تو سقوطِ ڈھاکا کے بعد دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبونے کا دعویٰ کیا تھا۔ لیکن یہ نظریہ قائم و دائم تھا۔ اب نریندر مودی نے اسے باقاعدہ زندہ کر دیا۔ آج قائداعظم کی بصیرت کی دنیا تعریف کر رہی ہے۔ ضرورت اب اس تحقیق کی ہے کہ جمہوریت کا تسلسل، سیکولر ازم پر اصرار، عدلیہ، میڈیا۔ سماج کی آزادی کے 73 سال کا نتیجہ اتنا بھیانک کیوں نکلا ہے۔ بھارت نے تو اپنی مارکیٹ کا رُخ کروانے کے لیے امریکہ یورپ کو اپنی آزاد سماجی زندگی فلموں اور ٹی وی ڈراموں کے ذریعے دکھائی تھی۔

پاکستان پر انتہا پسند دہشت گردوں کو پناہ دینے کا الزام عائد کر کے بھارت کی ایک ارب صارفین کی منڈی میں کاروبار کی دعوت دی تھی۔ مگر اب 73 سال بعد 1947 پھر واپس آگیا۔ وہی فسادات، وہی مسلمانوں کا قتل عام۔ پاکستان میں تو کبھی 1947 کے بعد ایسے فسادات نہیں ہوئے جس میں اس طرح ہندوئوں کا قتل عام کیا ہو۔ مسلمانوں نے مسلمانوں کو تو مارا ہے، بم دھماکے کیے ہیں، لیکن اس طرح مندروں پر سبز پرچم نہیں لہرائے۔ میں سوچ رہا ہوں کہ 1947 سے پہلے کے ایسے فسادات کے بعد ہی بر صغیر کے مسلمانوں کے لیے الگ ملک پاکستان معرض وجود میں آیا۔ ایک منطقی اور تاریخی نتیجہ۔ اب 5 اگست کے بعد اور خاص طور پر فروری 2020 میں دلّی میں جو فسادات ہوئے ہیں اس کا منطقی اور تاریخی نتیجہ کس نئے ملک کی صورت میں برآمد ہو گا۔

بھارت میں 1971 کے بعد مسلمانوں کو مسلسل دیوار سے لگایا گیا۔ پہلے ان کا ووٹ پارٹیوں کو فتح دلوا سکتا تھا۔ اسے نظر انداز کر دیا گیا۔ حالانکہ ان کی آبادی بڑھ رہی تھی۔ مسلم ووٹروں میں اضافہ ہو رہا تھا۔ جمعیت علمائے ہند نے سیاست چھوڑ کر صرف فلاحی راستہ اختیار کر لیا۔ مسلمان مرکزی دھارے کی پارٹیوں میں شامل ہوتے رہے لیکن کسی پارٹی نے انہیں عزت اور وقار نہیں دیا۔ آر ایس ایس اور بال ٹھاکرے کا فلسفہ غالب آتا رہا۔ اب سوچنا یہ ہے کہ بھارت کے مسلمانوں کے پاس اپنی بقا کے لیے کیا سیاسی راستہ رہ گیا ہے۔ جمعیت علمائے ہند کے سیکرٹری جنرل مولانا محمود مدنی نے دہلی کے متاثرہ علاقوں کے دورے کیے ہیں اور کہا ہے ’’یہ سرزمین ہماری ہے۔ ہماری رہے گی۔ ہمیں یہاں سے کوئی نہیں ہٹا سکتا‘‘۔ اب ممکن ہے جمعیت علمائے ہند دوبارہ سیاست میں داخل ہو جائے۔

بھارت سرکار نے کپل مشرا کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا۔ بھارت کے مسلمان پاکستان کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ پاکستان کے پاس ایک راستہ ہے کہ وہ نہرو لیاقت پیکٹ 1950 کے تحت آواز بلند کرے جس میں دونوں حکومتوں نے اتفاق کیا تھا کہ کسی بھی اقلیت کے خلاف ایسے بھیانک فسادات پر منارٹی انکوائری کمیٹیاں بٹھائی جائیں گی۔ اقلیتیں جہاں رہتی ہیں وہ اس ملک کا باقاعدہ حصہ ہیں۔ ان کا تحفظ ان کی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ کرونا وائرس نے جیسے چین کی اقتصادی ترقی روک دی ہے۔ اس وقت وہ صرف اس وبا سے بر سرپیکار ہے۔ اسی طرح مودی کی مسلم کش پالیسیوں نے پورے بھارت میں اقتصادی پیشرفت روک دی ہے۔

امریکہ سے تجارتی معاہدہ نہیں ہو سکا ہے۔ وہ بھارتی ماہرین معیشت جو کہہ رہے تھے کہ بھارت ایک ہزار سال بعد پھر نشاۃ ثانیہ میں داخل ہو رہا ہے اور امریکہ جیسی سپر طاقت بن رہا ہے، وہ بھی اب سر گھٹنوں میں دیے بیٹھے ہیں کہ جہاں ایسے شدت پسند موجود ہیں وہاں معیشت کیسے آگے بڑھے گی۔ بھارتی میڈیا اور سنجیدہ حلقے دہلی پولیس کی نااہلی کو ان فسادات کے پھیلنے کا سبب قرار دے رہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ مودی اور امیت شا کی پالیسیاں دہلی میں ہی نہیں ملک کے دوسرے حصّوں میں بھی ایسے بلوئوں کا سبب بنیں گی۔ بی جے پی اپنے اور 2020 کے ابتدائی مہینے بھارت کو کم ازکم چالیس سال پیچھے لے گئے ہیں۔

محمود شام

بشکریہ روزنامہ جنگ

بھارت میں پاکستان زندہ باد کے نعرے پر بغاوت کا مقدمہ

بھارت کے جنوبی شہر بنگلور میں پولیس حکام نے ‘پاکستان زندہ باد’ کا نعرہ لگانے والی طالبہ کو گرفتار کر لیا ہے۔ اس اٹھارہ سالہ طالبہ پر بغاوت کا مقدمہ درج کر کے جیل بھیج دیا ہے۔ شہریت سے متعلق نئے قانون کے خلاف احتجاج کے لیے بنگلور کے فریڈم پارک میں ایک جسلہ ہو رہا تھا جس میں شرکت کے لیے کالج کی طالبہ امولیہ لیونا بھی پہنچیں اور انہوں نے اسٹیج پر آتے ہی پہلے پاکستان زندہ باد اور پھر ہندوستان زندہ باد کے نعرے لگوانے شروع کیے۔ ایسا کرنے پر انھیں پہلے روکا گيا اور پھر ان کے ہاتھ سے مائیک چھین کر پولیس نے انھیں حراست میں لے لیا۔ امولیہ کو چودہ روز کی عدالتی تحویل میں بھیج دیا گيا ہے اور پولیس ان سے پوچھ گچھ کر رہی ہے۔ ایک سینیئر پولیس افسر بی رمیش نے اس کارروائی سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے خلاف ملک سے بغاوت کا مقدمہ درج کیا گيا ہے۔

اس دوران امولیا کے والد نے پولیس سے یہ شکایت کی ہے کہ اس واقعے کے بعد بعض افراد نے ان کے گھر میں داخل ہو کر توڑ پھوڑ کی ہے۔ اطلاعات کے مطابق پولیس نے اس سلسلے میں سخت گیر ہندو تنظیموں سے وابستہ کچھ لوگوں کے خلاف کیس درج کر لیا ہے۔ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف بنگلور میں ہونے والے اس جلسے میں حیدر آباد سے تعلق رکھنے والے معروف سیاسی رہنما اسد الدین اویسی بھی موجود تھے۔ جب یہ واقعہ پیش آیا تو مسٹر اویسی اسٹیج پر تھے اور وہ یہ کہتے ہوئے مائیک چھیننے کے لیے آگے بڑھے کہ “یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں۔” پولیس نوجوان طالبہ کو پکڑ کر اسٹیج سے نیچے لے گئی۔ 

بی جے پی نے اویسی کی وضاحتوں کو مسترد کر دیا۔ پارٹی نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا، “بنگلور میں آل انڈیا مسلم مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اسد الدین اویسی کی موجودگی میں لیونہ پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ کانگریس کی قیادت میں شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف احتجاج پاکستان اور ملک مخالف فورسز کا مشترکہ منصوبہ ہے، جو پاکستان کے حامی ہیں انھیں ہمیشہ کے لیے وہیں چلے جانا چاہیے۔” امولیہ کے والد نے میڈیا سے بات چیت میں کہا کہ ان کی بیٹی نے، “جو کچھ بھی کہا وہ غلط ہے۔ وہ بعض مسلمانوں کے ساتھ ہو گئی ہے اور میری باتیں سن نہیں رہی ہے۔” اس سے قبل امولیہ نے اپنی مادری زبان کنڑ میں شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف ایک زبردست تقریر کی تھی جس کے سبب وہ سرخیوں میں آگئیں۔

بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو

بھارتی شہریت کا ترمیمی بل : کیا جناح کا نظریہ مکمل ہو گیا ؟

بھارتی متنازع شہریت بل کیخلاف عوامی احتجاج پر مودی سرکار بجائے مناسب حل کے ‘ تشدد پر اتر آئی‘ جلسوں ‘ جلوسوں اور مظاہروں کو کنٹرول کرنے کیلئے پولیس کو فری ہینڈ دے دیا گیا ہے۔ پولیس نے دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طالب علموں پر بدترین تشدد اور طالبات کے ساتھ قابل اعتراض حرکات کیں‘ جس سے کئی طلبا زخمی ہو کر ہسپتال داخل ہو گئے ۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طالبعلم پارلیمنٹ ہاؤس تک مارچ کرنا چاہتے تھے‘ لیکن پولیس نے ان کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر دیں۔ پولیس نے اندھا دھند گولیاں برسائیں اور آنسو گیس کا شدید استعمال کیا‘ اس کے باوجود طالبعلموں کو آگے بڑھنے سے نہ روک سکے تو پولیس نے لاٹھیوں اور ڈنڈوں کے ساتھ ان پر بدترین تشدد کیا۔ 

طالبات کو گھسیٹا گیا ‘جس پر ہنگامہ اور بڑھ گیا۔ درجن سے زیادہ طالبعلم زخمی ہو کر ہسپتال پہنچے ‘جہاں کے ڈاکٹروں نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ان مظاہرین پر زہریلے کیمیکل سپرے کا استعمال کیا گیا‘ جس کی وجہ سے نا صرف ان کی بینائی متاثر ہونے کا خدشہ ہے‘ وہیں مختلف بیماریوں کا بھی اندیشہ ہے۔ بھارتی حکومت نے دہلی کے شاہین باغ میں متنازع شہریت قانون کیخلاف احتجاج کرنیوالوں کو فوری طور پر ہٹانے کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع کیا‘ مگر عدالت نے اس قسم کا کوئی بھی حکم دینے سے انکار کر دیا‘ تاہم بھارتی سپریم کورٹ نے یہ اشارہ دیا ہے کہ لوگوں کو عوامی شاہراہ کو غیرمعینہ مدت تک کیلئے بند کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

بینچ میں موجود ایک جج جسٹس کے ایم جوزف نے کہا کہ کہ وہ حکومت کو سنے بغیر دونوں درخواست کو نہیں سن سکتے ۔ یہ درخواستیں وکیل امیت شاہنی اور بی جے پی دہلی کے رہنما نند کشور گارگ نے دائر کی تھیں‘ تاہم ان کی جانب سے یہ اشارہ بھی دیا گیا کہ وہ اس احتجاج کی اجازت نہیں دے سکتے ‘جو ایک ہی جگہ پر غیرمعینہ مدت تک جاری رہے ۔ متنازع شہریت بل کی مخالفت میں بعض بھارتی ریاستیں بھی پیش پیش ہیں۔ حال ہی میں کیرالہ‘ راجستھان اور پنجاب کے بعد مغربی بنگال کی اسمبلی نے بھی مودی سرکار کے اس متنازع شہریت ترمیمی قانون کیخلاف قرارداد منظور کی‘ جس میں مودی سرکار سے متنازع قانون کو واپس لینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ 

مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بینرجی نے اسمبلی میں اپنے خطاب میں کہا کہ ہماری سرکار مذہبی منافرت پر مشتمل ایسے کسی بھی قانون پر عملدرآمد نہیں کرے گی‘ جس سے بھارت کا سیکولر چہرہ داغدار ہوتا ہو۔ تلنگانہ کے وزیراعلیٰ چندر شیکھر را بھی متنازع قانون کے خلاف قرارداد منظور کرنے کا اعلان کر چکے ہیں۔ وزیراعلیٰ چندر شیکھر کا کہنا ہے کہ شہریت قانون میں مسلمانوں کو شامل نہ کرنے پر تکلیف پہنچی ہے ۔ مسلمان رکن اسمبلی اسد الدین اویسی نے کہا ہے کہ یہ قانون ہٹلر کے قوانین سے زیادہ برا اور مسلمانوں کو بے ریاست بنانے کی سازش ہے ۔ کانگریس پارٹی کے رہنما راہول گاندھی کا کہنا تھا کہ اس بل کی جو بھی حمایت کرے گا وہ انڈیا کی بنیاد کو تباہ کر رہا ہو گا‘ تاہم بی جے پی کے رہنماوں اور حکومتی وزرا کا کہنا ہے کہ یہ بل مسلمانوں کے خلاف نہیں۔

شہریت ترمیمی قانون این آر سی کیخلاف احتجاج کرنے والے طلبا اور دیگر کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے معروف اداکار نصیرالدین شاہ‘ میرا نائیر سمیت تقریباً 300 شخصیات نے اپنے دستخطوں کے ساتھ سی اے اے اور این آر سی کی مخالفت میں کھلا خط جاری کیا ہے ۔ شہریت ترمیمی ایکٹ پر متنازع ریمارکس بارے اعتراف کرتے ہوئے بھارتی کانگریس کے سینئر رہنما شسی تھرور نے کہا کہ میں یہ نہیں کہوں گا کہ محمد علی جناح جیت گئے ‘بلکہ وہ ابھی بھی جیت رہے ہیں‘ اگر شہریت ترمیمی ایکٹ این بی آر اور این آر سی کو لیڈ کرے گا تو یہ محمد علی جناح کے دو قومی نظریے کے خطوط پر مبنی استوار ہو گا اور اگر ایسا ہوا تو آپ یہ کہہ سکیں گے کہ جناح کا نظریہ مکمل ہو گیا۔

اس قانون کے لاگو ہونے سے جناح کے اس نظریے کو تقویت ملے گی کہ مسلمان ایک علیحدہ ملک کے مستحق ہیں‘ کیونکہ ہندو مسلمانوں کے حق میں نہیں ہو سکتے ۔ بھارت میں ظالم مودی سرکار کے مسلم دشمن قانون جناح کے نظریے کی جیت ہے۔ بل میں غیر مسلم تارکین وطن کو شہریت دینے کی ترامیم شامل ہیں‘ جس کے تحت بنگلہ دیش‘ پاکستان اور افغانستان سے آنے والے ہندو‘ بودھ‘ جین‘ سکھ‘ مسیحی اور پارسی غیر قانونی تارکین وطن کو شہریت دی جائے گی‘ لیکن اس میں مسلمانوں کو شامل نہیں کیا گیا ہے ۔ کانگریس کے رہنما کپل سبل نے دعویٰ کیا کہ بل سے آئین کی دھجیاں بکھیر دی گئیں۔ 

متنازع بل کی منظوری سے دو قومی نظریہ حقیقت بن جائے گا‘ جبکہ مودی نے الزام لگایا ہے کہ اپوزیشن‘ پاکستان کی زبان بول رہی ہے۔ کانگریس کے آنند شرما نے کہا کہ کپل سبل بل کی مخالفت کرتے ہیں۔ نظر ثانی کریں‘ تاریخ کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ الغرض بھارت کا اقلیتوں کی شہریت کا متنازع ترمیمی بل نا صرف بھارت میں ‘بلکہ عالمی طورپر تنقید کا نشانہ بن رہا ہے ۔ مودی کی پارٹی پی جے پی کے یہ اقدامات بھارت میں مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری بنانے کی کوشش ہے ۔ مودی نے اقلیتی مسلم برادری کو نشانہ بنایا‘ جو بھارت کی ثقافت ہے یہ اقدام دو ایٹمی طاقتوں میں تناؤ بڑھا سکتا ہے ۔

بشکریہ ایکسپریس نیوز

بھارت میں شاہین باغ کی تحریک

” گرو جی نے مجھے حکم دیا ہے کہ شاہین باغ پہنچو اور وہاں دھرنے کیلئے جمع ہونے والی خواتین اور ان کے بچوں کیلئے لنگر کا بندو بست کرو‘‘ یہ الفاظ ایڈووکیٹ ڈی ایس بھنڈرا کے ہیں‘ جو ویسے تو پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں اور کارکر ڈوم کورٹ میں وکالت کرتے ہیں‘ لیکن ان دنوں انہوں نے اپنا مسکن شاہین باغ‘ دہلی کے ساتھ ایک پل کے نیچے بنا رکھا ہے اور شاہین باغ کے دھرنے میں موجود مسلم خواتین کے لنگر کے تمام انتظامات بھارت کی سکھ کمیونٹی کی جانب سے کر رہے ہیں۔ واضح رہے کہ شاہین باغ اب محض ایک جگہ کا نام نہیں‘ بلکہ اس کی ایک پوری تاریخ ہے اور یہ وہ تاریخ ہے‘ جس کا سلسلہ 1857ء کی جنگ ِآزادی سے ملتا ہے۔ 1857ء میں جس طرح انگریزوں کے مظالم اور ناانصافی کے خلاف بہادر شاہ ظفرؔ کی قیادت لوگ اکٹھے ہوئے تھے‘ ویسے ہی بھارت کے موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی( نئے دور کا ہٹلر) کے خلاف شاہین باغ میں یہ خواتین دھرنا دئیے بیٹھی ہیں اور جیسے 1857ء کی جنگ ِآزادی نے دہلی سے پھیل کر سارے ہندوستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا‘ ویسے ہی شاہین باغ سے شروع ہونے والی یہ تحریک بھی ہندوستان کے شہر شہر پھیل چکی ہے۔ 1857ء میں بھی آزادی کی جنگ تھی اور شاہین باغ کی تحریک بھی کسی جنگ ِآزادی سے کم نہیں ۔ بس فرق صرف اتنا ہے کہ اُس وقت علم ِ بغاوت مردوں کے ہاتھوں میں تھا اور آج علم بردار خواتین ہیں۔

شاہین باغ ‘بی جے پی کے گلے کی ہڈی بن چکا ‘ لہٰذا پہلے تو ڈرا دھمکا کر دھرنا دینے والی خواتین کو ہٹانے کی کوشش کی گئی‘ اس کے بعد ایک جعلی ویڈیو بنا کر اسے روپیوں کے بل پر چلنے والی تحریک کہہ کر بدنام کرنے کی مذموم کوشش کی گئی‘ اس سے شاہین باغ تو بدنام نہیں ہوا ‘ الٹا بی جے پی ‘آئی ٹی سیل کے امت مالویہ کے اوپر ہتک عزت کا ایک کروڑ کا مقدمہ دائر ہو گیا۔ یہ معاملہ انتخاب کے قریب آتے ہی اور بھی سنگین ہو گیا۔ ایسے میں دہلی کے بی جے پی رہنما کپل مشرا نے اسے ” چھوٹا پاکستان‘‘ قرار دے دیا‘ تاہم یہ چال بھی الٹی پڑی‘ کیونکہ الیکشن کمیشن نے اس پر ان پر 18 گھنٹے کی پابندی لگا کر دہلی میں بی جے پی کے چہرے پرکالک پوت دی۔ اس کے بعد رام دیو بابا نے شاہین باغ جانے کا ارادہ کیا ‘ تو وہاں کے لوگوں کی طرف سے اسے دھتکار دیا۔ یوں یکے بعد دیگرے اپنے ہتھکنڈوں کو ناکام ہوتا ہوا دیکھ کر بی جے پی نے اپنے متنازع ترجمان سمبت پاترا کو میدان میں اتارا۔ انہوں نے میڈیا کی توجہ ہٹانے کے لیے سی اے اے مخالف احتجاج کو ”توہین باغ ‘‘قرار دے دیا۔ سمبت پاترا کو پتا ہونا چاہیے کہ دنیا ردیف قافیہ سے نہیں چلتی ہے اور اب لوگ اس طرح کی جملہ بازی میں نہیں آتے۔ سمبت پاترا نے دعویٰ کیا کہ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے ویڈیو کے مطابق‘ ہندوستان کی آزادی کو ختم کرنے کیلئے شاہین باغ میں سازش کی جا رہی ہے۔ ویڈیو میں ایک مقرر لوگوں سے آسام کا ملک کے باقی حصوں سے رابطہ توڑنے کی اپیل کر رہا ہے۔

دراصل شرجیل امام نامی جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) کے طالبعلم کا یہ ویڈیو شاہین باغ کا نہیں ‘ بلکہ علی گڑھ کا ہے اور اس تقریر یا شرجیل کا شاہین باغ سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ ادھرآسام کے وزیر ہیمنت بسو شرما کے خلاف‘ جنہوں نے اپنے صوبے میں سی اے اے کے خلاف بی جے پی کے لوگوں کو گھر میں گھس کر مارنے کی بات کہی‘ ان کے خلاف ان مہاشے جی کے منہ سے ایک لفظ نہیں نکلا۔ جو آر ایس ایس کے دفتر کو جلنے سے نہیں بچا سکے‘ اب شرجیل کے خلاف میدان میں آگئے اور مقدمہ درج کرنے کی دھمکی دی ہے۔ بسوا کو پتا ہونا چاہیے کہ آسام میں ”الفا‘‘ نامی ایک علیحدگی پسند پرتشدد تحریک 1979ء سے چل رہی ہے اور اس نے اب تک 20 ہزار سے زیادہ افراد کو ہلاک کیا ہے۔ ان میں اگر ہمت ہے تو ”الفا ‘‘کے خلاف مقدمہ درج کرائیں‘ تو انہیں آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہو جائے گا۔ الغرض اب شاہین باغ کا ڈنکا پوری دنیا میں بج چکا ہے۔

ہندوستان کے اقتدار پر قابض آر ایس ایس کے مذہبی جنونیوں اور اس کی اتحادی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی حکومت کے مرکزی وزیر انو راگ ٹھاکر نے دہلی میں ایک ہجوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا ” بھارتی آئین میں کی جانے والے ترمیم کا کوئی غدار تمہیں کہیں بھی اور کسی بھی جگہ نظر آئے تو وہ غدار موت کا حق دار بنا دو‘‘ انو راگ ٹھاکر کے بھاشن کے بعد ٹھیک دوسرے دن جب جامعہ ملیہ کے طلبا مودی سرکار کے متعارف کرائے این آر سی اور سی اے اے کے خلاف احتجاج کیلئے باہر نکلے تو راشٹریہ کے ایک انتہا پسند نے تیس جنوری کی دوپہر ” یہ لو آزادی‘‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے رانو راگ ٹھاکر کے حکم کو دہراتے ہوئے ان طلبا پر سیدھی فائرنگ شروع کر دی. جس سے ایک طالب علم شدید زخمی ہو گیا اور یہ سب کچھ پولیس نے اسے آسانی سے فرار کا موقع بھی فراہم کیا۔ وہ تیس جنوری کا ہی دن تھا‘ جب 72 برس قبل 30 جنوری 1948ء کو اسی راشٹریہ سیوک سنگھ کے ایک انتہا پسند ہندو نے گاندھی جی کا قتل کیا تھا ۔ ابھی تیس جنوری کی انتہا پسند راشٹریہ کی فائرنگ کی باز گشت گونج ہی رہی تھی کہ اس کے دو دن بعد ایک اور واقعہ ہو گیا جب شاہین باغ میں دھرنا دیئے بیٹھی ہوئی خواتین کی حفاظت کیلئے دائرے میں کھڑے ہوئے نوجوانوں پر ایک ہندو انتہا پسند نے یہ چلاتے ہوئے فائرنگ شروع کر دی کہ ” ہندوستان میں صرف ہندو بن کر رہنا پڑے گا اور جو ہندو نہیں‘ وہ یہاں سے بھاگ جائے ‘ورنہ اسے ختم کر دیں گے‘‘۔

اس کے بر عکس پاکستان میں سرکاری سطح پر مذہبی رواداری کا اندازہ کیجئے کہ بھارت کا مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر جیسا بھاشن دینا تو بہت دُور کی بات ہے ‘ پنجاب کے ایک صوبائی وزیر کو انڈیا کے حوالے سے ہندوئوں کے خلاف ایک معمولی سا بیان دینے پر اپنی وزارت سے ہاتھ دھونا پڑا‘ کیونکہ پاکستان میں مقیم ہندو برادری نے سمجھا تھا کہ یہ الفاظ اُن کو کہے گئے تھے۔ راشٹریہ سیوک سنگھ اوربھارتیہ جنتا پارٹی کی جانب سے فائرنگ اور دھمکیوں کے بعد کیٹرنگ کمپنیاں جہاں سے شاہین باغ میں بیٹھی ہوئی خواتین کیلئے کھانا خریدا جاتا تھا ‘ انہیں دہلی پولیس اور انتظامیہ کی دھمکیوں کے بعد ان ہوٹلوں اور کیٹرنگ کمپنیوں نے جب کھانا فراہم کرنا بند کر دیا. تو ان کے لنگر کی ذمہ داری سکھوں کی تنظیم نے سنبھال لی اور اب ڈی ایس بھنڈرا ایڈووکیٹ نے سی اے اے کے خلاف دھرنے سے چند گز دُور اپنی بیوی اور بیٹے کے ساتھ ایک اوور ہیڈ برج کے نیچے لنگر خانہ قائم کر رکھا ہے۔ ڈی ایس بھنڈرا کو یقین ہے کہ گرو جی نے اسے لنگر کا جو حکم دیا ہے تو اس کا صاف مطلب ہے کہ ان کی ہمدردیاں مسلمانوں کے ساتھ ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ پورے بھارت سے سکھ شاہین باغ پہنچ رہے ہیں۔ ادھر آر ایس ایس اور مودی سرکاران کی گوشمالی کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں‘ کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ شاہین باغ ان کیلئے نیا جلیانوالہ باغ نہ بن جائے ۔

منیر احمد بلوچ

بشکریہ ایکسپریس نیوز

ششی تھرور کی مہربانی

بہاؤ کے خلاف تیرنے والے بڑے لوگ ہوتے ہیں لیکن جو لوگ ٹریفک کے بہاؤ کے خلاف چلتے ہیں، زیادہ بڑے ہوتے ہیں کیونکہ یہ لوگ آسانی کے ساتھ کسی کے ہاتھ پاؤں توڑ سکتے ہیں، دل چاہے تو جان بھی لے سکتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر خوبی یہ ہے کہ اپنی جان کی فکر بھی انھیں کچھ کم ہی ہوتی ہے چونکہ یہ بڑے لوگ ہیں، اس لیے انھیں مفت کے وکیل بھی مل جاتے ہیں۔ کراچی والے ان ہی بانکوں کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ کہنا ان فرزانوں کا یہ ہے کہ ٹریفک قوانین کے برعکس بہاؤ کے خلاف گاڑی چلانے والوں کا چالان ظلم عظیم ہے۔ اس منطق کے حق میں آواز اٹھانے والوں نے کہا کہ اگر ایسا ہوا تو ایسے لوگوں، خاص طور پر نوجوانوں کا بیرونِ ملک جانا اور تعلیمی اداروں میں وظیفے پر تعلیم حاصل کرنا مشکل ہو جائے گا۔ پاکستان میں ان دنوں بحث کے موضوعات ایسے ہوتے ہیں۔

چلیے سیاست دانوں کو تو معاف کر دیجیے، ان کے لیے ضروری ہے کہ کوئی ایسی بات کہہ دی جائے جسے توجہ مل سکے اور اس کے صدقے ووٹ لیکن اس دیس کے دانش وروں کو کیا ہوا ہے؟ کیا استاذ الا ساتذہ پروفیسر شریف المجاہد دنیا سے اُٹھ گئے تو، ان کے ساتھ دانش بھی گئیَ؟ کیسی عجب بات ہے کہ ہم ٹریفک قوانین پر عمل درآمد کے لیے سختی کو بھی علاقائی تناظر میں دیکھتے ہیں کہ ہاں ہاں، اوّل تو اس قانون شکنی پر پابندی کا سوچا ہی کیوں گیا اور اگر سوچا ہی گیا تو کراچی کے لیے کیوں سوچا گیا، اس شہر کے ساتھ یہ امتیازی سلوک کیوں؟ کاش کوئی ایسا بھی سوچتا کہ کراچی میں ایسا کیا اچھا کیا، اب یہ قانون پورے ملک میں نافذ کر دیا جائے۔ اس کے مقابلے میں دنیا کو دیکھیے، ان کے ہاں کیسے کیسے موضوعات زیر بحث ہیں؟ دور جانے کی ضرورت نہیں، یہ سمجھنے کے لیے بھارت ہی کافی ہے۔

ہمیں توقع تھی کہ نریندر مودی ایک بار پھر اقتدار میں آ گیا تو سارے دکھ دور ہو جائیں گے اور کشمیر میں تو راوی چین ہی چین ہی لکھے گا لیکن مودی تو بنا بنایا راکشش تھا، اس نے قدم جماتے ہی وہی کچھ کیا جس کے لیے اُس کے تنگ نظر بزرگ صدیوں سے پیچ و تاب کھایا کرتے تھے۔ کشمیر کی گردن پر چھری اس نے پھیر دی اور شہریت کے قانون کے تحت اس نے لمحے بھر میں کروڑوں مسلمانوں کو اپنے گھروں میں ہی اجنبی بنا دیا۔ اب یہ اجنبی شاہین باغ میں بیٹھے اپنے دل کے پھپھولے پھوڑتے ہیں۔ اس ظلم کے خلاف بھارت ہی سے ایک منفرد آواز بلند ہوئی اور وہ بھی اپنی تنگ نظری کی وجہ سے تقسیم برصغیر کو یقینی بنا دینے والی کانگریس کی صفوں سے۔ ششی تھرور نے ہمت کی اور کہا کہ مودی کا قانونِ شہریت تو صاف جناحؒ کی کامیابی ہے۔ اب بھارت میں اس بیان پر لے دے ہو رہی ہے اور جنھیں اپنے نظریے کی سرخروئی پر شاداں ہونا چاہیے تھا، وہ فروعات میں الجھ رہے ہیں۔

جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے۔ کانگریس کے پڑھے لکھے اور نسبتاً نوجوان سیاست دان کے سخن سے ثابت ہو گیا کہ پاکستان ایک ایسا ہی جادو ہے اور قائد اعظمؒ نیز اقبالؒ اتنے بڑے لوگ تھے جن کی عظمت کو اُس عہد کے کوتاہ قامت سیاست داں اور نام نہاد مفکرین سمجھ ہی نہ پائے۔ آج اسی نظریے کی صداقت کی گواہی اس نظریے کے مخالفین صرف اپنی زبان سے نہیں، عمل سے بھی دے رہے ہیں۔ صورت حال جب یوں پلٹا کھانے لگے اور کعبے کو صنم خانے سے پاسباں ملنے لگیں، اس گھڑی خود اہلِ معاملہ کے کرنے کا کام کیا یہی ہے کہ وہ پانی پینے پلانے اور گھوڑا آگے بڑھانے بلکہ الٹا دوڑانے پر جھگڑا کیا کریں؟ ہرگز نہیں، ِ کیوں یہی وقت ہوتا ہے جب دانشمند قومیں علمی مباحثے برپا کر کے تاریخ کے قرض چکاتی ہیں اور اپنی صفوں کو علمی، فکری، تاریخی نیز عملی اعتبار سے آراستہ کرتی ہیں۔ ’’پاکستان نوشتۂ فطرت ہے‘‘۔

قائد اعظمؒ نے یہ فرمایا اور ایسا ہو گیا لیکن یہ ایک بدقسمتی تھی کہ وہ لوگ جنھیں اقبالؒ کے نظریے اور قائد اعظمؒ کی دور اندیشی نے شکست دی، وہ آنے والے برسوں میں بھی اپنی باطل فکر کا پرچار کرتے رہے جس کے زہریلے اثرات کا سامنا ہمیں آج بھی کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ ایک اور بدقسمتی ہے کہ ایک ایسے عہد میں جب دنیا اقتصادی راہداری اور ایک خطہ ایک شاہراہ جیسے منصبوبوں کے ذریعے ایک نئی دنیا کے تصور کو حقیقت بنانے کے لیے پرعزم ہے اور اس میں پاکستان کا قائدانہ کردار تسلیم کر رہی ہے، ہمارے ہاں آج بھی کچھ لوگ پاکستان کے وجود، اس کے تصور اور بانیان پاکستان کے فہم ہی نہیں، ان کی دیانت اور اثابت پر بھی سوال اٹھا رہے ہیں۔ یہ قصہ اگر بانیان پاکستان کے ہم عصر مخالفین کا ہوتا تو کوئی فرق نہ پڑتا ۔ پریشانی کی بات یہ ہے کہ یہ مسموم پروپیگنڈا اب بھی جاری ہے اور نوجوانوں کے ذہن اس سے پراگندہ کیے جا رہے ہیں۔

اس تناظر میں یہ بہت ضروری ہو گیا ہے کہ ہمارے اہل دانش ان موضوعات پر نہایت جامع اور بھرپور مکالمہ شروع کریں تا کہ نئی نسل اس ملک کے خلاف سرگرم عمل عناصر کے پروپیگنڈے کے منفی اثرات سے بچ کر نئی دنیا کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کر سکے۔ قائد اعظمؒ اکادمی، اکادمی ادبیات اور ان جیسے علمی اور فکری ادارے ایسے ہی مقاصد کے لیے ہی قائم کیے جاتے ہیں لیکن یہ اور ان ہی کی طرح کے دیگر کئی ادارے بدقسمتی سے گزشتہ کافی عرصے سے غیر فعال اور قیادت سے محروم چلے آتے ہیں۔ گزشتہ دنوں اکادمی ادبیات سے بابائے قوم کی سال گرہ کے موقع پر کچھ سرگرمیوں کی خبریں آئی تھیں لیکن ان سرگرمیوں کا بھرم محترم جبار مرزا نے یہ کہہ کر کھول دیا کہ یہ انتہائی بچگانہ قسم کے یعنی Ill Conceived پروگرام تھے جن میں بات کر نے کے لیے نہ مہمان پورے تھے اور نہ کوئی یہاں کہی گئی بات کو سننے والا تھا، گویا کاغذ کا پیٹ بھر لیا گیا تھا۔ اب انعام اللہ خان صاحب نے اس وزارت میں سیکریٹری کی حیثیت سے ذمے داریاں سنبھالی ہیں، ان سے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ اس جانب توجہ دیں گے لیکن یہ صرف ان ہی کی ذمے داری نہیں ہے، پوری قوم کی ذمے داری ہے، خاص طور پر اس قوم کے سوچنے سمجھنے والوں کی کہ وہ پاکستان، پاکستانیت اور اس کے نظریے کی وضاحت کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ نریندر مودی کے احمقانہ اقدامات نیز پڑھے لکھے ششی تھرور کی گفتگو نے ہمیں اس کا ایک اور نادر موقع فراہم کر دیا ہے۔

فاروق عادل

بشکریہ ایکسپریس نیوز

انڈیا میں دہلی کا شاہین باغ مزاحمت کی علامت کیسے بنا ؟

دسمبر 2019 میں انڈیا کی پارلیمان نے شہریت کا ترمیمی بل منظور کیا تو دہلی کی چند خواتین بھی گھروں سے نکلیں اور انہوں نے حکومت مخالف احتجاج کے لیے دریائے یمنا کے کنارے واقع شاہین باغ کا رخ کیا۔ اسی دوران انڈیا کے مختلف حصوں میں بھی شہریت بل کے خلاف مظاہرے شروع ہو گئے، طلبا نے بھرپور مخالفت کی، فیض احمد فیض کی انقلابی نظم ’ہم دیکھیں گے‘ سڑکوں اور چوکوں پر گونجنے لگی۔ آہستہ آہستہ ریاست کی طاقت کے سامنے مظاہرین کا جوش دھیما پڑتا گیا اور زندگی معمول پر آنے لگی، لیکن دہلی کے شاہین باغ کے شرکا کا جذبہ ماند نہ پڑا۔ دیکھتے ہی دیکھتے چند خواتین کے قدموں سے جنم لینے والی مزاحمت انڈیا کے طویل ترین احتجاج میں تبدیل ہو گئی۔

انڈین میڈیا کے مطابق سینکڑوں کی تعداد میں مظاہرین شاہین باغ احتجاج میں شریک ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت مسلمان خواتین کی رہی ہے۔ اسی وجہ سے باغ کو ’چھوٹے پاکستان‘ سے بھی مماثلت دی گئی ہے۔ شاہین باغ کے شرکا کا احتجاج صرف شہریت بل تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ پولیس کی طلبا پر بربریت کے خلاف بھی آواز اٹھائی گئی اور کشمیری پنڈتوں کے ساتھ بھی اظہار یکجہتی کیا۔ دھرنے کا مقام ثقافتی جامعیت، مذہبی ہم آہنگی اور رواداری کی علامت بنتا جا رہا ہے جہاں قرآن، بائبل اور گیتا سے اقتباسات پڑھے جاتے ہیں۔ فیض احمد فیض، حبیب جالب، علامہ اقبال اور رامدھری سنگھ کی نظمیں دہرائی جاتی ہیں۔ جہاں عالمی مسائل پر تقاریر اور لیکچرز دیے جاتے ہیں بلکہ ایک لائبریری بھی بنائی گئی ہے جہاں آئین، انقلاب، جبر اور نسل پرستی پر آگہی کے لیے کتابیں رکھی گئی ہیں۔

انڈیا کے نامور سیاستدان اور مصنف ششی تھرور بھی باغ کا دورہ کر چکے ہیں۔ حال ہی میں کانگریس لیڈر منی شنکر نے باغ کا دورہ کیا تھا اور شرکا کو ان کی ثابت قدمی کی داد دی تھی۔ شاہین باغ احتجاج سے متاثر ہو کر انڈیا کے دیگر شہروں کے پارکوں میں بھی مظاہرین اکھٹے ہوئے تھے لیکن ریاست کی ہٹ دھرمی کے سامنے زیادہ دیر ڈٹ نہ سکے۔ باغ کے شرکا کو دھرنا ختم کرنے پر قائل کرنا انتخابی مہم کا نعرہ بھی بنتا جا رہا ہے۔ دہلی کی قانون ساز اسمبلی کے امیدوار اپنی انتخابی مہم میں دعویٰ کر رہے ہیں کہ جیتنے کی صورت میں وہ دھرنا ختم کروائیں گے۔ 8 فروری کو ہونے والے اسمبلی الیکشن کے لیے انتخابی مہم آج کل دہلی میں زوروں پر ہے۔ انڈیا کے وزیر داخلہ امت شاہ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ دہلی کے انتخابات میں بی جے پی کے لیے ووٹ کرنے سے شاہین باغ جیسے ہزاروں واقعات رک جائیں گے۔

ان کے اس بیان پر کانگریس کے سینیئر رہنما پی جدمبرم نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ مہاتما گاندھی کی توہین کرنے والے ہی شاہین باغ سے نجات چاہیں گے۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ شاہین باغ مہاتما گاندھی کی اصل سوچ کی نمائندگی کرتا ہے ۔  دھرنے کے خلاف چار درخواستیں عدالت میں جمع کروائی جا چکی ہیں لیکن دہلی کی ہائی کورٹ نے اسے پولیس کا معاملہ قرار دیتے ہوئے درخواستوں پر سماعت کرنے سے انکار کر دیا۔ پولیس کے لیے کارروائی کرنا اس لیے بھی مشکل ہو گیا ہے کیونکہ دھرنا کسی خاص شخص یا جماعت کی سربراہی میں نہیں ہو رہا بلکہ شہری اپنی انفرادی حیثیت میں دھرنے میں شریک ہو رہے ہیں۔ اب سپریم کورٹ سے اس معاملے کو نمٹانے کی امید کی جا رہی ہے، کہ شاید گزشتہ 45 دنوں سے جاری یہ دھرنہ اختتام کو پہنچ جائے۔ شاہین باغ دھرنے کا انجام جو بھی ہو لیکن عوامی مزاحمت اور انقلاب کی تاریخ میں یہ وہی مقام بنانے جا رہا ہے جو مصر کے تحریر اور ترکی کے تقسیم سکوائر نے حاصل کیا۔

ایمان حسن

بشکریہ اردو نیوز، اسلام آباد

بھارت میں قوم پرستی کا فروغ انتہائی خوفناک ہے

امریکا کے معروف ارب پتی اور مخیر شخصیت جارج شوروش نے بھارت میں بڑھتی قوم پرستی پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے اس تناظر میں مودی حکومت پر سخت نکتہ چینی کی ہے۔ سوئٹزر لینڈ کے شہر داووس میں جاری اقتصادی عالمی فورم (ڈبلیو ای ایف) میں خطاب کرتے ہوئے امریکی ارب پتی جارج شوروش نے معاشی، سیاسی اور ماحولیات جیسے عالمی مسائل پر بات کرتے ہوئے کئی حکمرانوں کی پالیسیوں پر شدید نکتہ چینی کی۔ انھوں نے کہا کہ امریکہ، چین اور روس جیسی عالمی قوتوں کے مستقبل پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔ اُن کے مطابق آمرانہ حکمرانوں کی صفیں بڑھتی ہی جار ہی ہیں۔ دنیا میں بڑھتی قوم پرستی یا نیشنل ازم کے معاملے پر بولتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اس کا سب سے خوفناک چہرہ بھارت میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔ اس مناسبت سے انھوں نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی پر تنقید کرتے ہوئے کہا، “سب سے بڑا اور سب سے خوفناک دھچکا بھارت کو پہنچا ہے جہاں جمہوری طور پر منتخب مودی حکومت، بھارت کو ہندو قوم پرست ریاست بنانے میں لگی ہے، خود مختار مسلم خطے کشمیر میں سخت اقدامات مسلط کرنے کے ساتھ ساتھ لاکھوں مسلمانوں کو شہریت سے محروم کرنے کی دھمکی دے رہی ہے۔

شوروش نے عالمی اقتصادی فورم میں خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایسے تمام مسائل کے باوجود بھی ابھی بھی آزاد معاشرت کے امکانات موجود ہیں۔ انہوں نے کہا، “آزاد معاشرے کی اپنی کچھ کمزوریاں ہیں اسی طرح جابرانہ حکومتیں بھی خامیوں سے پُر ہیں۔” اس موقع پر شوروش نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر تنقید کرتے ہوئے انہیں جعلی شخص اور خود پرست قرار دیا۔ بھارتی میڈیا میں جارج شوروش کے بیانات سرخیوں میں ہیں اور اس پر ملا جلا رد عمل سامنے آیا ہے۔ سرکردہ صحافی آشیش گپتا کے مطابق شوروش کا یہ بیان حقیقت پر مبنی ہے اور بھارت میں بھی ایک حلقہ اس طرح کے خدشات کا اظہار پہلے سے کرتا رہا ہے۔ ڈی ڈبلیو سے بات چيت میں انھوں نے کہا، “ہندو ریاست کے قیام کے لیے وہ آئین سمیت سب کچھ ختم کرنے تلے ہیں۔ وہ نیا آئین بنانے کے راستے پر گامزن ہیں۔ یہ تو اس حکومت کا ایجنڈا ہے۔‘‘

چند روز پہلے ہی بھارت کے معروف سفارت کار اور قومی سلامتی کے سابق مشیر شیو شنکر مینن نے کہا تھا کہ موجودہ حکومت نے شہریت سے متعلق جو نیا قانون متعارف کیا ہے اس سے بھارت عالمی سطح پر الگ تھلگ ہو سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ممکن ہے کہ بہت سے ممالک اپنے مفاد کے لیے اس کے خلاف آواز نہ اٹھائیں لیکن یہ کسی بھی صورت میں بھارت کے مفاد میں نہیں ہے۔ مودی حکومت کی بعض متنازعہ پالیسیوں کے سبب ہی بھارت کی ڈیموکریسی انڈیکس میں بھی دس پوائنٹ کی کمی آئی ہے۔ برطانوی جریدے ‘دی اکانومسٹ’ نے بھی اسی کے تعلق سے اپنے تازہ مضمون میں مودی حکومت پر شدید نکتہ چینی کی ہے۔ جریدے نے اپنے سرورق پر “دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں مودی نے تقسیم کو فروغ دیا ہے” کی شہ سرخی لگائی۔ اس مضمون میں واضح کیا گیا کہ کس طرح بھارت میں عدم رواداری میں اضافہ ہوا ہے۔ جریدے کے مطابق بھارتی وزیراعظم اور ان کی جماعت بی جے پی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔ بی جے پی نے اکانومسٹ کے اس مضمون پر شدید تنقید اور اسے “متکبرانہ” قرار دیا۔ پارٹی میں خارجی امور کے انچارج وجے چترویدی نے اپنی ٹویٹ میں لکھا، “ہمیں لگا کہ برطانیہ ہمیں 1947 میں چھوڑ کر چلا گیا تھا، لیکن اکانومسٹ کے مدیر اب بھی نوآبادیاتی دور میں ہیں۔

بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو