قومی اداروں کی نجکاری

ملک کی معیشت کا حال مت پوچھیے۔ بظاہر اصلاح کی کوئی صورت دکھائی نہیں دے رہی۔ بقولِ غالبؔ :
کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
حالت یہ ہے کہ ڈاکٹروں پر ڈاکٹر تبدیل کیے جا رہے ہیں، لیکن مریض کی حالت ہے کہ بہتر ہونے کے بجائے مزید بگڑتی جا رہی ہے۔ مختلف قومی ادارے جو کبھی آمدنی کا بہت بڑا ذریعہ ہوا کرتے تھے، ملک کی معیشت کے لیے بوجھ بن چکے ہیں۔ سب سے بڑی مثال قومی ایئر لائن پی آئی اے کی ہے جس کا سلوگن ہوا کرتا تھا Great people to fly with ملک کے ہی نہیں غیر ملکی مسافر بھی پی آئی اے سے سفر کرنے پر فخر کیا کرتے تھے۔ یہ وہ ایئر لائن تھی جس نے کئی مشہور غیر ملکی ایئر لائنوں کو جنم دیا تھا جو آج پھل پھول رہی ہیں۔ وقت کی پابندی کا عالم یہ تھا کہ پی آئی اے کی پرواز سے لوگ اپنی گھڑیاں ملایا کرتے تھے۔ دورانِ پرواز مسافروں کی جو خاطر تواضع کی جاتی تھی اب وہ قصہ پارینہ ہے۔ ایئر مارشل نور خان (مرحوم) کی یاد بُری طرح ستا رہی ہے جنھوں نے اِس پودے کی اپنے خون سے آبیاری کی جس کے نتیجے میں یہ پودا ایک تناور درخت بن گیا۔ 

آج اِس درخت کا حال یہ ہے کہ شاخیں ٹوٹ رہی ہیں اور پتے جھڑ رہے ہیں۔ یہ کیسے ہوا اور کون اِس کا ذمے دار ہے، یہ کہانی بہت رقت انگیز ہے۔ قصہ مختصر:
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
نوبت یہ آن پہنچی ہے کہ مریضہ کو خون پر خون چڑھایا جارہا ہے اور اس کی حالت کسی طور سُدھر نہیں رہی ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اِس وقت ملک میں 4 پرائیوٹ فضائی کمپنیاں کام کر رہی ہیں اور ہر کمپنی منافع میں جارہی ہے جب کہ پی آئی اے کا معاملہ اِس کے الٹ ہے۔ شنید یہ ہے کہ اِس کی نجکاری کا فیصلہ ہو چکا ہے۔ صرف وقت کا انتظار ہے۔
عشق ہمارے خیال پڑا ہے خواب گئی آرام گیا
جی کا جانا ٹھہر رہا ہے صبح گیا یا شام گیا
منافع تو کُجا پی آئی اے کو گزشتہ سال 88 بلین روپے کا خسارہ اٹھانا پڑا۔ اِس سے بھی قبل ایئر لائن کو 50 بلین روپے کا نقصان ہوا تھا۔ پی آئی اے کو سال بہ سال ہونے والے نقصانات کی کُل رقم 717 بلین روپے بنتی ہے جب کہ اِس کی موجودہ قیمت 900 روپے بلین ہے۔

900 بلین روپے کی یہ رقم کسی بڑے 15 اسپتال، کسی بڑی جدید 60 جامعات اور پورے پاکستان میں 18,000 اسکول تعمیر کرنے کے لیے کافی ہے۔ پی آئی اے کا یہ حشر کیوں اور کیسے ہوا؟ اِس کی سب سے بڑی وجہ اووَر اسٹافنگ ہے۔ موٹی سی بات ہے کہ اگر بڑے سے بڑے بحری جہاز پر اُس کی گنجائش سے کئی گُنا سامان لاد دیا جائے تو اُس کا ڈوبنا یقینی ہے۔ سیاسی سفارشوں کے دباؤ تلے بے تحاشہ اور اندھا دھُند بھرتیاں کی گئیں جس نے اس ادارے کا دیوالیہ نکال دیا۔ دوسری جانب ضرورت سے زیادہ اسٹاف ہونے کی وجہ سے اِس کی کارکردگی بُری طرح متاثر ہوئی۔ اس ادارے پر چاہے جتنا پیسہ لگا دیا جائے لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ یہ اقدام ریگستان میں آبیاری کرنے کے مترادف ہو گا۔ ایک پی آئی اے کا ہی رونا کیا دیگر قومی اداروں کا بھی ایسا ہی حال ہے۔ 

پاکستان ریلوے بھی نزع کی حالت میں ہے۔ یہ قومی ادارہ بھی مسافروں کی آمد ورفت اور مال برداری کا اہم ترین اور نہایت با کفایت ذریعہ تھا لیکن کرپشن اور بدانتظامی نے اِس کا بھی بیڑا غرق کر دیا ہے۔ گزشتہ سال حکومت نے اِس کے نقصانات کی تلافی کے لیے اِس کو 45 بلین روپے کی خطیر رقم مہیا کی تھی۔ اِس کے علاوہ 25 بلین روپے کی اضافی رقم اِس کی ترقی کی مَد میں دی تھی۔ مجموعی صورتحال یہ ہے کہ گزشتہ 15 سالوں میں ملک کے ٹیکس دہندگان نے بطورِ اعانت پاکستان ریلویز کو 783 بلین روپے کی بھاری رقم فراہم کی تھی مگر نتیجہ وہی صفر کا صفر رہا۔ اِس محکمہ کی موجودہ قیمت 1000 بلین روپے ہے۔ ایک کلو گرام وزنی کارگوکی نقل و حمل پر خرچ ہونے والے ڈیزل کی قیمت ریل کے مقابلے میں ٹرک سے 3 سے 4 گُنا زیادہ ہے۔ اِس کے باوجود پاکستان ریلوے کارگو پر ٹرک کے مقابلے میں زیادہ قیمت وصول کرتی ہے۔ ریل سے سفر مسافروں کے لیے زیادہ آرام دہ اور محفوظ ذریعہ ہے لیکن پھر بھی مسافروں کی ایک بڑی تعداد ریل کے مقابلے میں بس کے لمبے سفر کو ترجیح دیتی ہے۔ 

ایک زمانہ وہ تھا جب ریلوے کے محکمہ کی وزارت کا قلم دان محمد خان جونیجو جیسے انتہائی ذمے دار اور فرض شناس شخص کے پاس تھا۔ پاکستان ریلوے کی کارکردگی کا وہ سنہرا دور تھا جسے کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ اُس وقت ٹرینوں کی آمد ورفت نہ صرف بروقت ہوا کرتی تھی بلکہ ٹرین کی بوگیوں اور اسٹیشنوں کی حالت بھی اچھی ہوا کرتی تھی اور مسافروں کو ٹکٹ باآسانی دستیاب ہوتے تھے اور ٹکٹوں کی بلیک میں فروخت کا کوئی تصور ہی نہیں تھا۔ ریلوے کے ملازم بھی آسودہ اور خوشحال اور ایماندار ہوتے تھے اور کرپشن کا نام و نشان نہیں تھا۔ پھر یوں ہوا کہ وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ ریلوے کی انتظامیہ میں بھی تبدیلیاں آتی چلی گئیں۔ ہوتے ہوتے وہ وقت بھی آگیا جب وزیرِ اعظم میاں محمد نواز شریف کی حکومت میں اِس کی وزارت کا قلم دان خواجہ سعد رفیق کے سپرد کردیا گیا جنھوں نے انتہائی دیانت، فراست اور بساط کے مطابق اِس اونٹ کی کَلیں سیدھی کرنے کی انتھک کوششیں کیں جس کے نتیجے میں نہ صرف اِس قومی ادارے کی کارکردگی بہتر ہوئی بلکہ مسافروں کی سہولتوں میں بھی اضافہ ہوا اور بہتری ہوئی۔ 

پی آئی اے اور پاکستان ریلوے کی حالت جاننے کے بعد اب آئیے! پاکستان اسٹیل مِلز کی حالت پر ایک سَر سَری نظر ڈالی جائے۔ اِس عظیم اور غیر معمولی اہمیت کے حامل ادارے کے قیام کا سہرا سابق وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی کرشماتی شخصیت کے سَر ہے۔ پاکستان اور روس کے درمیان انتہائی کشیدہ تعلقات کے پَس منظر میں اِس ادارے کا قیام محض ایک خواب تھا جس کی تعبیر ناممکن تھی لیکن کمال ہے بھٹو صاحب کا کہ نہ صرف انھوں نے اپنی بے مثل ذہانت کی بدولت دونوں ممالک کے تعلقات کی کشیدگی کو اپنی سحر انگیز ڈپلومیسی کے ذریعے دوستی میں تبدیل کر دیا بلکہ پاکستان اسٹیل ملز کے قیام کو بھی ممکن بنا دیا۔ افسوس صد افسوس بعض دیگر اداروں کی طرح بد انتظامی اور کرپشن کی بھینٹ چڑھ کر یہ ادارہ بھی ایک عظیم اثاثہ کے بجائے ایک بوجھ بن گیا اور نوبت یہ ہے کہ اِس کے ملازمین کے واجبات کی عدم ادائیگی کی وجہ سے اِس کے ملازمین اور پینشنرز ایک عذاب میں مبتلا ہیں۔ چار و ناچار یہ عظیم ادارہ بھی نجکاری کی زد میں ہے۔

شکیل فاروقی  

بشکریہ ایکسپریس نیوز

پاکستان میں جنوبی ایشیا کا دوسرا بڑا پبلک ریلوے نیٹ ورک موجود

ورلڈ بینک کی ایک نئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے پاس جنوبی ایشیا کا دوسرا بڑا پبلک ریلوے نیٹ ورک ہے جو کہ تقریباً 80 ہزار کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق 2019 کے آخر سے پاکستان کے پاس 7 ہزار 700 کلومیٹر آپریٹنگ نیٹ ورک ہے جس کے بعد بنگلہ دیش کے پاس تقریباً 3 ہزار کلومیٹر اور سری لنکا میں 1500 کلومیٹر ہے، رپورٹ کے کے مطابق بھارتی نیٹ ورک 67 ہزار کلومیٹر کے ساتھ اب تک کا سب سے بڑا نیٹ ورک ہے۔ جنوبی ایشیا میں موجودہ ریلوے نیٹ ورک 4 ممالک پر مشتمل ہے جس میں بھارت، پاکستان، سری لنکا اور بنگلہ دیش شامل ہیں، 1947 میں ہندوستان کی آزادی تک جنوبی ایشیا کے لیے 4 میں سے 3 ریلویز ایک ہی نظام کا حصہ تھے، اس کے بعد سے وہ سبھی ریلوے کی وزارت کے زیر انتظام سرکاری محکموں کے طور پر کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔

پاکستان اور سری لنکا میں اب مکمل آپریٹنگ نیٹ ورک ایک ہزار 676 ملی میٹر ہے لیکن بنگلہ دیش اور بھارت دونوں کے پاس ابھی بھی تھوڑی تعداد میں میٹر گیج ریل موجود ہے۔ پاکستان اور بنگلہ دیش ریلوے دونوں کارپوریشنز ہیں، تاہم دونوں ممالک میں ریلوے کے وزیر اور حکومت اس کے انتظام اور فنڈنگ میں بڑا کردار ادا کرتے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان اور بنگلہ دیش میں ریلوے کو آپریشنز اور سرمائے کے اخراجات کے لیے حکومتی تعاون کی ضرورت ہوتی ہے چاروں ممالک میں مسافروں کی سروسز بنیادی اسٹرکچر کو برقرار رکھنے کے لیے درکار اخراجات میں بہت کم حصہ ڈالتی ہیں کیونکہ حکومتی پالیسی کے تحت مسافروں کے کرایوں کو کئی برسوں سے کم رکھا گیا ہے اور مالیاتی فرق کو مال بردار سروسز سے پورا کرنا پڑتا ہے۔

مجموعی طور پر چار جنوبی ایشیائی ریلویز سالانہ تقریباً 7 کھرب 50 ارب نیٹ ٹن-کلومیٹر مال بردار اور 1200 ارب مسافر- کلومیٹر سے زائد لے جاتے ہیں۔ جنوب مشرقی ایشیا کے دیگر ممالک سے کوئی لنک جڑا ہوا نہیں ہے، پاکستان اور ایران کے درمیان صرف ایک غیر معیاری لنک موجود ہے جس پر بہت کم آمدورفت ہوتی ہے۔  پاکستان اور بنگلہ دیش میں مال برداری کے ذریعے صرف محدود تعداد میں سامان کی ترسیل کی جاتی ہے جبکہ سری لنکا میں یہ تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔ پاکستان میں کوئلے سے چلنے والے تمام پاور اسٹیشنز ساحل پر واقع ہیں اور سمندر کے ذریعے یا مختصر فاصلے کے نقل و حمل کے ذریعے انہیں سپلائی فراہم کی جاتی ہے، بنگلہ دیش کا واحد علاقہ جو سمندر سے مناسب فاصلے پر واقع ہے وہ تقریباً مکمل زرعی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سڑکوں کا خاصا مضبوط نظام موجود ہے، ریلوے انتظامیہ کے لیے بندرگاہ سے تقریباً ایک ہزار کلومیٹر کے فاصلے پر مال برداری کے اہم علاقے کے باوجود ایک پرکشش سروس فراہم کرنا بڑا چیلنج ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غیر شہری مسافر سروس کو سری لنکا، پاکستان اور بنگلہ دیش میں بسوں سے قیمت اور سروس فریکوئنسی کے لحاظ سے سخت مقابلے کا سامنا ہے جبکہ سفر کے وقت کے لحاظ سے اسے بھارت اور پاکستان میں ہوائی جہاز سے مقابلے کا سامنا ہے۔

امین احمد

بشکریہ ڈان نیوز

ریلوے میں 66 ٹرینوں کی نجکاری کا فیصلہ

پاکستان ریلوے نے کئی بار نجکاری کی اور پھر واپس۔ ٹھیکیدار ریلوے کا مال اور پیسہ کھا کر بھاگ گئے اور اب پھر پہلی مرتبہ ملک بھر میں چلنے والی تمام ٹرینیں جوکہ 33 اپ میں ہوں گی اور اسی طرح 33 ڈاؤن ٹریک پر دوڑتی ہیں کل 66 ٹرینوں کی کمرشل مینجمنٹ یعنی صرف ٹکٹ بیچنے کا ٹھیکہ دے کر پاکستان ریلوے کا نام ہی مٹانے کا فیصلہ کر لیا ہے جو کہ نا صرف قابل مذمت ہے بلکہ ملک اور عوام کے ساتھ ایک بہت بڑا دھوکا اور فراڈ ہے۔ پاکستان ریلوے نے سارے ملک کو جوڑ کر رکھا ہوا ہے جو اب تک 1861 سے پورے برصغیر میں انگریز سرکار بنا کر گئی تھی جب کہ ہندوستان سمیت دنیا بھر میں کہیں بھی پرائیویٹ ٹکٹ بیچنے والی ٹرینیں نہیں ہیں شاید 2 ممالک میں پرائیویٹ مالک اپنی ٹرین ٹریک پر لا کر چلا رہے ہیں صرف ہمارے ملک میں تمام ٹرینوں کو ٹکٹ بیچنے کا ٹھیکہ دے کر فروخت کیا جا رہا ہے۔

اس سلسلے میں ہم نے کئی بار کالم لکھے، ٹی وی پر انٹرویوز دیے، خبریں چلوائیں، جلسے و جلوس کیے اور ہڑتالیں بھی کیں مگر اب تو حد ہو گئی ہے کہ پسنجر ٹرینوں کو مکمل طور پر پیچا جا رہا ہے جب کہ مال گاڑیوں کی نجکاری کا عمل جاری ہے۔ ریلوے کی زمین فروخت کی جا رہی ہے، اسپتال اور اسکول فروخت کیے جا رہے ہیں، ریلوے کلب، گراؤنڈ سمیت ورکشاپس کو فروخت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ہمیں سمجھ نہیں آتا کہ ہم کہاں جا رہے ہیں؟ ہمارے حکمران ورلڈ بینک، آئی ایم ایف سے قرضے لے کر اور ان کی شرائط مان کر پٹرول، گیس، بجلی، آٹا، چینی، گھی، تیل، سبزی، دالیں اور گوشت کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ کے بعد بھی کہہ رہے ہیں کہ اب بھی پاکستان میں مہنگائی کم ہے۔ دنیا میں بھی قیمتیں بڑھی ہیں۔ لیکن کیا دنیا میں اجرتوں میں اضافہ نہیں ہوا؟ کیا وہاں کی حکومتیں اپنے عوام کو رہائش، تعلیم، علاج کی سہولتیں نہیں دے رہی ہیں؟

ہمارے ملک میں تو لوگ بھوک، بیماری، غربت، بے روزگاری سے تنگ ہو کر خودکشیاں کر رہے ہیں۔ خیر بات بڑی لمبی ہو جائے گی۔ میں صرف پاکستان ریلوے کی طرف آتا ہوں۔ سب سے پہلے جنرل ضیا الحق کے دور میں ہماری فریٹ ٹرینوں مال گاڑیوں کی آمدنی کو روکنے کے لیے اس کے مقابلے پر دوسرے اداروں کو لاکھڑا کیا اور اس کے بعد والی حکومتوں نے بھی یہ کام جاری رکھا۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں دوبارہ بیڑہ غرق کیا گیا۔ چین سے انجن اور کوچز منگوا کر ریلوے کو بھاری نقصان پہنچایا۔ ریلوے کی قیمتی زمینیں فروخت کیں، ریلوے کلب بیچے، لاہور کے پام کلب اور بنگلوں کو فروخت کیا، کیس اب تک چل رہے ہیں، پھر آصف علی زرداری کی حکومت کے وزیر غلام احمد بلور نے ریلوے کی بہترین اور اچھی ٹرین پاک بزنس ٹرین کی ٹکٹوں کی فروخت کا ٹھیکہ ایک فرم کو دیا ہم نے احتجاج کیا لیکن ٹرین چلا دی گئی۔

سنہ 2009 اور 2010 میں اس ٹرین کا کرایہ 7 ہزار مقرر کیا گیا معاہدے میں طے کیا گیا کہ ہر روز کمیشن 28 فیصد کمپنی لے گی اور 72 فیصد ریلوے میں کراچی اور لاہور میں جمع کرایا کرے گی۔ مگر تین سال بعد ہی کمپنی ریلوے کو ایک ارب 80 کروڑ روپے کا ٹیکہ لگا کر بھاگ گئی۔ تاہم مقدمہ اب سپریم کورٹ میں چل رہا ہے ۔ بار بار نجکاری کر کے دیکھ لیا صرف نقصان کے کوئی فائدہ نہیں ہوا، پھر کیوں یہ عمل کیا جا رہا ہے؟ ریلوے ملازمین دن رات محنت کر کے ٹوٹی پھوٹی ریل کو کراچی تا پشاور اور کوئٹہ، بلوچستان تا چمن تک چلا رہے ہیں افسران کی فوج ظفر موج ریلوے ہیڈ کوارٹر، ریلوے منسٹری اور پھر 8 ڈویژن میں موجود ہے جب کہ ملازمین کی تعداد گھٹ کر 64 ہزار رہ گئی ہے بھرتیوں پر پابندی ہے، ریٹائرڈ ہو جانے والے تقریباً 7 ہزار ملازمین اور بیوہ کے فنڈز اور گریجویٹی روکی ہوئی ہے دوسری جانب نئے اور پرانے پروجیکٹ بنا کر گریڈ 17 تا 22 گریڈ افسران بھرتی کیے جا رہے ہیں یہ کیا ہو رہا ہے؟

خیر ریلوے اور پاکستان کی بڑی لمبی کہانی ہے سب ہی جانتے ہیں۔ میں چونکہ اسے خوش قسمتی کہوں یا پھر بدقسمتی کہ ریلوے کالونی میں ریلوے ملازم کے گھر 1945 میں پیدا ہو گیا تھا اور پھر جوان ہو کر ریلوے یونین، سیاسی کارکن کی حیثیت سے سب کچھ دیکھتا رہا، پڑھتا رہا، سو اس لیے میں زیادہ بات ریلوے ہی کی کرتا ہوں، جسے آپ برداشت کر لیں گے ایک مرتبہ پھر ریلوے کی نئی لسٹ کل ہی اخبارات میں اشتہار کی شکل میں نظر سے گزری۔ سو سوچا کہ آج ہی جلدی میں کچھ لکھ ڈالوں۔ تو حاضر ہے۔ آپ دیکھ لیں اور پڑھ لیں۔ درج تھا کہ ٹرینوں کی نج کاری کے حوالے سے 30 اکتوبر 2021 کو لاہور ریلوے ہیڈ کوارٹر میں کمیٹی روم نمبر 2 Pre Bid کانفرنس ہو گی۔ ٹھیکیدار حاضر ہوں گے اور 15 نومبر تک ٹینڈرز جمع کرانے ہوں گے۔ تمام ہی ٹرینیں ٹکٹ بیچنے کے لیے نیلام ہوں گی ۔ یہ وہ تمام ٹرینیں ہیں جو پورے پاکستان میں آ اور جا رہی ہیں۔ یہ کیسی نجکاری کی پالیسی ہے یہ تو ٹھیکیداری نظام ٹکٹ بیچنے والی ٹرینیں ہیں جس میں ٹھیکیدار کو فائدہ ہی فائدہ نقصان کسی بھی صورت میں ممکن ہی نہیں ہے۔

اس سلسلے میں بار بار لکھا اور کہا ہے کہ اگر آپ نے ریلوے میں نجکاری ہی کرنی ہے تو پھر خدارا کچھ خیال کر لیں کہ یہ کیسی نجکاری ہے۔ اگر آپ نے یہ کام کرنا ہی ہے تو پھر نجکاروں یا ٹھیکیداروں سے کہیں کہ وہ اپنی ٹرینیں لائیں اپنے انجن اپنی کوچز لائیں اور ہمارے ٹریک پر چلائیں اور ٹریک کا کرایہ دے دیں تاکہ نفع اور نقصان کا بھی پتا چل سکے، یہ کیا کہ انجن ہمارا، ڈیزل اور تیل ہمارا، بجلی کے پنکھے ہمارے، بلب اور ٹیوب لائٹ ہماری، پانی اور باتھ روم ہمارے اور ٹرینوں کی مرمت بھی ہماری، اگر حادثہ ہو تو انجن اور بوگیاں تباہ ہوں تو بھی نقصان ریلوے کا اور آپ ٹکٹ بیچ کر منافع کمائیں، نا بابا نا۔ ایسا نہیں ہو سکتا۔ ڈرائیور اور فائر مین بھی ہمارا ہی ہے۔ آپ اپنی ٹرین لائیں ہم سے خرید لیں یا پھر ایران، چین سے خرید لیں، ہمارے ٹریک پر چلائیں اور مقابلہ کریں۔ پرائیویٹ ٹرین بمقابلہ پاکستان ریلوے اپنا اسٹاف لائیں، اس طرح روزگار بھی ملے گا اور ٹرینیں بھی بہتر ہو جائیں گی۔ سگنل سسٹم بھی ٹھیک ہو جائے گا، ٹریک بھی مضبوط ہو گا اور روزگار کی راہیں بھی کھل جائیں گی۔

برائے مہربانی پاکستان کے ساتھ ساتھ پاکستان ریلوے سمیت تمام قومی اداروں کی نجکاری کے عمل کو روک کر حکومت اور ان کی انتظامیہ کو چلانے کا اختیار دیا جائے یا پھر دنیا کی مہنگائی کی طرح ہمارے ساتھ بھی انصاف کرتے ہوئے ہمیں بھی وہ تمام مراعات دی جائیں جو دنیا بھر میں خاص کر یورپ، چین، امریکا، روس کے شہریوں کو حاصل ہیں، واضح رہے کہ ریلوے نے یکم نومبر سے کرایوں میں 10 فیصد اضافہ بھی کر دیا ہے،اس طرح ٹھیکے داروں کو مزید فائدہ پہنچے گا۔

منظور رضی

بشکریہ ایکسپریس نیوز

گوٹھ علی نواز کی ریاست

گوٹھ علی نواز کے عین سر پہ صبح ساڑھے تین بجے کے لگ بھگ دھماکہ ہوا۔ ریلوے لائن سے ساڑھے پانچ سو گز پرے سوئے ہوئے گھروں کے مرد آواز کی جانب دوڑ پڑے اور پھر آس پاس والے بھی پہنچنے لگے۔ ریلوے ٹریک کے دونوں طرف الٹی ہوئی مسافر بوگیوں میں پھنسے کچھ انسان مر چکے ہیں، کچھ ذرا دیر میں مرنے والے ہیں۔ جو مر گئے سو مر گئے۔ اب مسئلہ زندگی اور موت کی دوہری رسی پر جھولتے زخمیوں کا ہے۔ گاؤں والوں کو حالات سمجھنے میں بس چند ثانیے لگے۔ کسی نے کسی سے نہیں پوچھا اب کیا کریں۔ جس کو جو برتن ہاتھ آیا اس میں پانی بھر کے زخمیوں کی پیاس بجھانے چلے آئے۔ گاؤں کی موٹر سائیکلیں جانے کب ہنگامی ایمبولینسوں میں تبدیل ہو گئیں۔ ان جوانوں کو کوئی تربیت نہیں تھی کہ کس زخمی کو کیسے اٹھانا ہے۔

بس اتنا اندازہ تھا کہ ایک ایک سیکنڈ بھاری ہے۔ ان زخمیوں میں سے جتنوں کو جیسے کیسے قریبی صحت مرکز تک پہنچا دیا جائے تو شاید جان بچ جائے۔ کچھ نے دیکھا کہ چند بے سدھ مسافر کھلے آسمان تلے پڑے ہیں تو دوڑ کر بستر کی چادریں، اجرکیں، کھیس جمع کر کے لے آئے اور ساکت جسموں پر ڈالتے چلے گئے پُر تجسس بچے زندگی اور موت کا دلچسپ تماشا دیکھنے کے بجائے جائے حادثہ اور گاؤں کے درمیان جانے کب خود بخود سپلائی لائن بن گئے۔ عورتوں کے لیے بہت مشکل تھا گھر بار چھوڑ کر لاچاروں کی مدد کے لیے اپنے مردوں کی اجازت کے بغیر نکلنا۔ مگر انھوں نے بھی فوری کام ڈھونڈھ لیا۔ جتنا آٹا میسر تھا گوندھ کر توا چڑھا دیا۔ پتیلوں میں چائے کا پانی ابلنے لگا۔ شاید مویشی بھی بھانپ گئے تھے کہ آج ان کے دودھ کی سب سے زیادہ ضرورت پڑنے والی ہے۔

گھر کے مردوں کو جس جس میسر اوزار کی ضرورت تھی لڑکیوں نے وہ ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر دیے۔ کچھ نوجوان کہیں سے ایک دو کٹر بوگیاں کاٹنے کے لیے بھی لے آئے۔ بچے بچیوں نے کچے صحنوں میں اور گھر سے باہر درختوں کے نیچے چارپائیاں بچھا کر رلیاں ڈال دیں۔ جانے کب کسے ضرورت پڑ جائے۔ علی نواز کے گھر میں عورتوں بچوں جوانوں سمیت بارہ جنے تھے۔ اسے سب کو منظم کرنے میں زیادہ سے زیادہ پانچ منٹ لگے ہوں گے۔ اس کی بیوی حبیبہ نے باورچی خانے کی کمان سنبھال لی۔ کتنے گھنٹے وہ باورچی خانے میں رہی یہ تو اسے یاد نہیں۔  بس اتنا یاد ہے کہ روٹیاں بناتے بناتے اور چائے ابالتے ابالتے اس کے ہاتھ سیاہ ہو گئے تھے۔

چھ سات گھنٹے بعد امدادی ٹیمیں بھی پہنچنا شروع ہو گئیں۔ پھر مقامی میڈیا آنے لگا۔ اب گاؤں والوں کے لیے ایک اور مرحلہ شروع ہو گیا۔ امدادی ٹیمیں ان کی مہمان ہیں۔ اور مہمان کی بھوک پیاس اور آرام کی ضرورت کے لیے پوچھا تھوڑی جاتا ہے۔ جو تھک جاتا وہ چارپائی پر سستا لیتا۔ چائے تو سب کی سانجھی ضرورت ہے اور کھانا ؟ وہ تو چاہیے ہی چاہیے۔ کوئی ٹیم اپنے ساتھ یہ سب تھوڑی لے کر آتی ہے۔ یہ آپریشن جتنے گھنٹے چلتا رہا چھوٹا سا گوٹھ علی نواز اور آس پاس کے گاؤں اس آپریشن پر اپنی بساط بھر امدادی چھتری بنے رہے۔  جو وقائع نگار وہاں پہنچے ان میں سے شائد ہی کسی نے اس گاؤں والوں سے ان کا اپنا حال پوچھا ہو۔ ان رپورٹروں کو بس اتنا جاننا کافی تھا کہ ڈہرکی سے پچیس کلومیٹر پرے الٹ جانے والی دو ٹرینیں۔ اتنے ہلاک، اتنے زخمی، فلاں فلاں ادارے کی امدادی سرگرمیاں وغیرہ وغیرہ۔ چائے کس نے بنائی؟ کھانے کا کس نے پوچھا، پانی کا گلاس کس نے تھمایا۔ شاید ان بیرونیوں کو جائے حادثہ سے رخصتی کے بعد کسی کی شکل تک یاد نہ ہو۔

ایسے ہر حادثے کا ذمہ دار انسانی غلطی ہے یا تکنیکی خرابی، کسے معطل ہونا ہے، کس کی ترقی ہونی ہے، ورثا کو کتنی رقم ملے گی، کب ملے گی اور کتنی جوتیاں چٹخا کے ملے گی، زخمیوں کا مکمل علاج سرکار کروائے گی کہ یہ زخمی اپنے لیے بازار سے خود نمک خریدیں گے۔ کس امدادی ٹیم نے جانفشانی دکھائی اور ان میں کون کون آزمائش کی اس گھڑی کا ہیرو ہے۔ آئندہ ایسے حادثات روکنے کے لیے کیا کرنا ہے۔ کیا بتانا ہے کیا کیا چھپانا ہے، حقائق کے دودھ میں کتنا پانی ملانا ہے۔ یہ سب ریاست اور حکومت کے سوچنے کی باتیں ہیں۔ ریاست کچھ کرے نہ کرے سوچتی وافر ہے۔ کیا بوڑھا علی نواز جانتا ہے کہ اس کے گاؤں سمیت آس پاس کا ہر گاؤں ہیرو ہے؟ اسے ضرورت ہی نہیں جاننے کی۔ یہ وصف تو ہر دیہاتی کے خون میں ہے۔

علی نواز نے تو یہ بھی نہیں سوچا کہ ایسا اہم کام کرنے سے پہلے پنچائیت کا اجلاس بلانا مناسب رہے گا کہ نہیں، اپنے کھیسے میں ہاتھ مار کر پیسے گننے ہوں گے، اپنے وسائل کی چادر ناپنی ہو گی، افرادی قوت کا جائزہ لینا ہو گا۔ اسے کہاں معلوم ہو گا کہ فی زمانہ فی سبیل اللہ کام میں ہاتھ ڈالنا ہی کافی نہیں۔ اس کا باقاعدہ اخراجاتی واؤچر بنا کر سرکار کو پیش کیا جاتا ہے۔ ایسے بے لوث کام کے آغاز سے پہلے یا بعد میں فوٹو سیشن اور دو کالمی خبر کے لیے رال ٹپکانا اور لہک لہک کر انٹرویو کی آس میں کیمرے کا انتظار کرنا اور اپنی مدد کو میڈل کی طرح لہرانا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ یہ ناخواندہ و نیم خواندہ آسودگانِ خاک بھلا یہ سب چترائیاں کیا جانیں اور سمجھیں۔ انھیں تو بس فطرت نےایک ہی کام سکھایا ہے۔ کوئی مصیبت میں ہو تو پہلے کچھ کر گذرو۔ سوچنے کے لیے زندگی پڑی ہے۔ یہ وہ وصف ہے جسے سمجھنا اور محسوس کرنا کسی بھی ریاستی بابو اور بابو گیر حکومت کی اوقات سے باہر ہے۔

وسعت اللہ خان

( اس کالم کا بنیادی خیال اے ایف پی کی ایک فیچر سٹوری پڑھ کے آیا )

بشکریہ بی بی سی اردو

پاکستان ریلوے کا خسارہ کیوں بڑھ رہا ہے؟

ملک کا سب سے بڑا قومی اثاثہ یا قومی ادارہ پاکستان ریلوے کیوں خسارے کی جانب بڑھ رہا ہے، جب کہ یہ ادارہ 1860 میں پورے طور پر برصغیر میں مکمل ہو گیا تھا، یہ ادارہ انتہائی کامیابی سے چلتا رہا اور بالاخر وہ وقت آن پہنچا جب 1947 میں دو ملک آزاد ہو گئے تھے۔ قائداعظم کی قیادت میں ایک نیا ملک پاکستان وجود میں آگیا۔ بٹوارے میں ہمیں سڑکیں ملیں، نہری نظام ملا، کے پی ٹی ملی، کے ایم سی ملی، سمندر ملا اور پھر سب سے بڑھ کر ملک بھر میں پھیلی ہوئی ریلوے لائن ملی۔ والٹن ٹریننگ اسکول ملا، ہیڈ کوارٹرز کی قلعہ نما عمارت ، گراؤنڈ ، اسکول ،اسپتال ، ڈسپنسریاں ، ڈاک بنگلے ملے، ریلوے کے بہترین کلب ملے، کوئٹہ میں سردار بہادر ٹی بی سینی ٹوریم ملا، 75 ہزار سے زائد ملازمین کو کوارٹرز ملے، مغل پورہ سمیت ملک بھر میں 10 سے زئد ورکشاپس اور فیکٹریاں ملیں، انجن اور ہزاروں مسافر کوچز ملیں، مال گاڑیوں کے ہزاروں ڈبے ملے۔

بھاری بھرکم ریلوے جنرل اسٹور ملا، بڑے بڑے برجز پل ، ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ کی پختہ عمارتیں ، بنے بنائے 850 سے زائد اسٹیشن ملے، ملک بھر میں چلتی پھرتی برانچ لائنوں کی ٹرینیں ملیں، ریلوے کی بے پناہ زمین جو کراچی تا لنڈی کوتل اور کوئٹہ تا چمن، زاہدان تک ملی، ریلوے افسران کی ایماندار افسران کی فوج ملی، ریلوے کے ڈیڑھ لاکھ سے زائد ملازمین کی تعداد ملی، بہترین کاریگر ملے اور بڑی اچھی حالت میں چلتی پھرتی ہمیں ٹرینیں ملیں، خیر یہ بہت لمبی کہانی ہے۔ پرانے لوگ جانتے ہوں گے تاریخ موجود ہے چونکہ میرا تعلق بھی 75 برس سے ریلوے سے رہا ہے ، والد صاحب ریلوے میں ملازم تھے، سو میں بھی ریلوے کالونی کراچی سٹی میں 4 دسمبر 1945 کو پیدا ہوا۔ بچپن دیکھا، لڑکپن دیکھا، جوانی دیکھی اور بڑھاپا دیکھ رہا ہوں۔ ریلوے بڑی اچھی دیکھی کالونی ہی میں اسکول دیکھا، ریلوے ڈسپنسری دیکھی، ریلوے کے بنے راشن ڈپو دیکھے اور پھر ریلوے میں بطور بکنگ کلرک، ریزرویشن کلرک اور دوڑتی ہوئی ٹرینوں میں بطور ٹکٹ چیکر

Pakistan Railways 3

اب سیاست، ٹریڈ یونین اور ادبی کتابیں اور تاریخ کی کتابیں پڑھ کر جدوجہد کرتے ہوئے زندگی گزار رہا ہوں۔ خیر یہ ہو گیا اب کیا کہنا ہے کہ ریلوے زوال پذیر کیوں ہوئی؟ ریلوے ایک ہی تھی ایک ہی وزیر ہوتا تھا سوئی سے لے کر انجن اور کوچز تک ریلوے کے کاری گر اور فورمین تیار کرتے تھے۔ درزی خانہ تھا جہاں ملازمین کی وردیاں سلتی تھیں جیسے میں نے پہلے کہا کہ ریلوے ایک تھی۔ وزیر ایک تھا، اس کا بجٹ ملکی بجٹ سے الگ تھا۔ بڑا خوبصورت اور آرام دہ سفر تھا۔ بعد میں ایئرلائنز پی آئی اے بھی آگئی۔ ریلوے کی آمدنی کا زیادہ تر انحصار گڈز ٹرینیں عرف عام میں مال گاڑیاں یا فریٹ ٹرینیں ہوتی تھیں بڑی آمدنی تھی بڑا فائدہ تھا عوام کا بھی ریلوے کا بھی اور حکومت کا بھی۔ ریلوے کبھی بھی حکومت پر بوجھ نہیں بنا بلکہ حکومت کا مددگار رہا، یہ ادارہ 1975 تک فعال اور منافع بخش رہا، بعد میں اس میں بڑی تبدیلی آئی۔ کرپشن بڑھنا شروع ہو گئی۔ ریلوے منسٹری اسلام آباد میں بنائی گئی جب کہ ریلوے ہیڈ کوارٹرز لاہور میں موجود تھا۔

ریلوے کے 5 ڈویژن میں جن میں کراچی ڈویژن، کوئٹہ ڈویژن، ملتان ڈویژن، لاہور ڈویژن اور راولپنڈی ڈویژن موجود تھا۔ ریلوے میں واچ اینڈ وارڈ کا سسٹم موجود تھا۔ ڈسٹرک پولیس کے چند اہلکار تھانے میں ہوتے تھے اور وہ صوبائی حکومتوں کے ملازمین ہوتے تھے، پھر بعد میں دو ڈویژن ایوب خان کے دور میں چھٹا ڈویژن سکھر بنایا گیا اور پھر ضیا الحق کے دور میں پشاور ڈویژن بھی بنا دیا گیا۔ دوسری طرف لاہور میں مغل پورہ ورکشاپ ڈویژن پہلے سے موجود تھا۔ اور پھر جنرل اسٹور اور ہیڈ کوارٹر ڈویژن بھی بنا دیا گیا۔ یعنی 10 ڈویژن، ریلوے منسٹری اسلام آباد بلاک ڈی کی چار منزلیں۔ افسران کی تعداد بڑھ گئی اور ملازمین کی تعداد کم ہوتی چلی گئی۔ پھر ریلوے نے کئی ایک پروجیکٹ بنائے، مائیکر و سسٹم ٹیلی فون کا لایا گیا ناکام ہو گیا۔ مارشکنگ یارڈ بنایا گیا۔ نئے نئے سسٹم بنائے گئے سب ناکام ہو گئے۔

جنرل پرویز مشرف کے دور میں نج کاری کا ڈنکہ بجایا گیا۔ چین سے 69 انجن خریدے گئے ناکارہ ہو گئے۔ پیسنجر کوچز خریدی گئیں۔ ریلوے کلب ریلوے اسپتال بیچے گئے۔ ریلوے اسکول بیچے گئے، ریلوے کی قیمتی زمینیں فروخت کی گئیں، اب ٹرینوں کی نجکاری جوکہ نواز شریف کے دور سے شروع کی گئی، ناکام ہوگئی ٹھیکیدار مال کما کر بھاگ گئے اور اب پھر وفاقی حکومت ریلوے کی نج کاری کی طرف جا رہی ہے، ملازمین کی تعداد گھٹ کر 65 ہزار رہ گئی ہے افسران کی فوج ظفر موج موجود ہے ریلوے کا خسارہ بڑھ گیا ہے۔ شیخ رشید کے تازہ دور 2018، 2019 میں 36 ارب کا خسارہ تھا اور اب تازہ ترین ایک رپورٹ کے مطابق جوکہ تازہ خبر ہے کہ ملک کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کے مطابق ریلوے کو ایک کھرب 19 ارب کا خسارہ ہے۔ اقتصادی رابطہ کمیٹی نے ریلوے کو 1470 کروڑ روپے کی منظوری دی ہے جس کے تحت 7 ارب 50 کروڑ کی رقم پنشن اور تنخواہ کی مد میں ہوگی اس طرح رواں مالی سال میں 36 ارب 28 کروڑ کا خسارہ ہوا جب کہ 1918-19 میں ریلوے کا خسارہ 32 ارب 76 کروڑ تھا۔

سنہ 2019-20 میں یہ خسارہ 50 ارب 15 کروڑ تھا۔ ٹرینوں کی تعداد 120 تھی، اب کم کرکے 84 ٹرینیں رہ گئی ہیں۔ 36 ٹرینیں بند کر دی گئی ہیں۔ 15 ٹرینوں کو آف سورس کر کے نجکاری کی جائے گی اور وہ بھی صرف ٹکٹ بیچنے تک محدود رہے گی۔ یہ کیسی نج کاری ہے کہ ٹریک ہمارا، انجن ہمارا، ڈیزل اور تیل ہمارا، کوچز اور بوگیاں ہماری، ٹھیکیدار صرف ٹکٹ بیچ کر اور مال کما کر چلا جائے گا ایسا پہلے بھی ہوتا رہا۔ کئی ٹھیکیدار بھاگ گئے، بلور صاحب کے دور میں پہلی بزنس ٹرین کی نجکاری کی گئی، ٹھیکیدار ریلوے کے ایک ارب 80 کروڑ روپے لے کر بھاگ گیا اور مقدمہ کئی سال سے سپریم کورٹ میں چل رہا ہے کب فیصلہ ہو گا۔ یہ نجکاری نہیں ہے اگر پرائیویٹ سیکٹر والے آتے ہیں تو وہ اپنے انجن لائیں۔ اپنی کوچز لائیں اپنا اسٹاف لائیں اور ہمارے ٹریک پر چلائیں ہمیں صرف اس کا کرایہ ادا کریں اور مقابلہ کریں پاکستان ریلوے بمقابلہ پرائیویٹ ٹرین تاکہ نفع نقصان کا پتا چل سکے۔ خیر اس پر پھر کبھی لکھیں گے۔ نجکاری کیا ہوتی ہے ، حکومت کیا ہوتی ہے، ادارے کیا ہوتے ہیں ، ریلوے کیسے چلتی ہے۔

منظور رضی

بشکریہ ایکسپریس نیوز