کسمپرسی کی حالت میں چھوڑ دیے گئے، روہنگیا مسلمان

سات لاکھ سے زائد روہنگیا باشندے اس وقت بنگلہ دیش میں مختلف مقامات پر موجود مہاجربستیوں میں مشکل حالات میں زندگی گزار رہے ہیں۔ رواں برس بھی یہ روہنگیا مسلمان اپنے ملک واپس نہیں جا سکے۔ اگست سن 2017 میں میانمار کی ریاست راکھین میں روہنگیا کے خلاف شروع کیے جانے والے فوجی آپریشن میں مسلمان اقلیت روہنگیا کے متعدد دیہات تباہ کر دیے گئے تھے۔ اس آپریشن کے دوران سینکڑوں روہنگیا مسلمان میانمار کی فوج کے ہاتھوں ہلاک بھی ہوئے تھے۔ اقوام متحدہ کے مہاجرین کے لیے امدادی ادارے یو این ایچ سی آر کے اعداد وشمار کے مطابق اس کریک ڈاون کے نتیجے میں قریب سات لاکھ روہنگیا افراد سرحد عبور کر کے بنگلہ دیش میں پناہ گزین ہوئے۔ اس سے قبل بھی تین لاکھ کے لگ بھگ روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش پہنچ چکے تھے بلکہ ان میں سے بعض تو کئی عشروں سے یہاں پناہ لیے ہوئے تھے۔

اقوام متحدہ نے میانمار آرمی کے اس آپریشن کو روہنگیا کی ’نسلی تطہیر‘ کا نام دیا تھا تاہم ینگون حکومت ان الزامات سے انکار کرتی ہے۔ یہ لاکھوں افراد اب بھی بنگلہ دیش کے مخلف مقامات پر قائم کچی بستیوں اور مہاجر کیمپوں میں انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ بنگلہ دیش میں پناہ گزین روہنگیا فرد جو عربی کے استاد بھی ہیں، نے ڈھاکا حکومت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ انہیں امید ہے کہ وہ جلد اپنے گھر واپس لوٹ سکیں گے۔ کوٹوپالونگ مہاجر کیمپ میں ہر روز گیارہ ہزار مہاجرین کی دیکھ بھال کرنے والی امدادی تنظیم ’کیئر انٹرنیشنل‘ کی جینیفر بوس نے ڈوئچے ویلے کو بتایا،’’ صورت حال اتنی خراب نہیں جتنی کہ سن 2018 میں تھی تاہم اب بھی خاصی مشکلات ہیں۔ پناہ گزینوں کو اب بھی بہت سی بنیادی سہولتوں کی کمی ہے اور امداد کے حوالے سے یہاں ہمہ وقت ایک ہنگامی صورت حال رہتی ہے۔‘‘

روہنگیا مسلمانوں نے عشروں قبل بنگلہ دیش نقل مکانی شروع کی تھی۔ جس کے نتیجے میں بنگلہ دیش کے علاقے کوکس بازار میں روہنگیا مہاجرین کا کوٹو پالونگ مہاجر کیمپ وجود میں آیا۔ سن 2017 میں سات لاکھ روہنگیا کی یہاں آمد کے بعد اب یہ کیمپ بذات خود ایک چھوٹا سا شہر بن چکا ہے۔ قریب جرمن شہر کلون کے رقبے جتنا لیکن کسی انتظامی ڈھانچے کے بغیر۔ ’دی اینیمی وِد ان‘ نامی کتاب کے مصنف فرانسس واڈے نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے بتایا،’’ پہلی بات تو یہ ہے کہ روہنگیا بغیر ریاست کے افراد ہیں لہذا کوئی بھی ملک خود کو ان کی فلاح و بہبود کی ذمہ داری اٹھانے کا ذمہ محسوس نہیں کرتا۔ دوسرے یہ کہ یہ افراد ایک ایسے ملک میں پناہ گزین ہوئے ہیں جو پہلے ہی سے غربت اور سہولیات کی کمی کا شکار ہے۔‘‘

روہنگیا باشندے محمد طاہر کا بنگلہ دیش میں تا دیر قیام کا ارداہ ہے۔ اُن کے بقول،’’ جب ہمیں انصاف ملے گا تب ہم میانمار لوٹ جائیں گے۔‘‘ واڈے کے مطابق روہنگیا مہاجرین کے پاس فی الحال بنگلہ دیش میں رہنے کے علاوہ اور کوئی متبادل نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ وہ دن کب آئے گا جب اس مسئلے کا کوئی بہتر حل نکل سکے گا۔ دوسری جانب بنگلہ دیش میں مقیم روہنگیا مہاجرین بھی میانمار واپس نہیں جانا چاہتے۔ ابھی حال ہی میں جب ڈیڑھ سو روہنگیا کو واپس میانمار بھیجے جانا طے پایا تھا، تو سینکڑوں افراد نے اس کے خلاف مظاہرہ کیا تھا۔

ص ح / ع ب / نیوز ایجنسی

بشکریہ DW اردو

آنگ سان سوچی ، عروج سے زوال کا سفر

ایک وقت تھا جب میانمار کی رہنما آنگ سان سوچی کی قید سے رہائی کے لیے دنیا ان کی حمایت میں آواز اٹھا رہی تھی۔ لیکن اب انہیں ملکی فوج کی جانب سے روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام کے دوران خاموشی کے الزام کا سامنا ہے۔

 

 

میانمار فوج کا ‘روہنگیا مسلمانوں کی ہلاکتوں’ میں ملوث ہونے کا اعتراف

میانمار کی فوج نے اعتراف کر لیا ہے کہ ملکی سکیورٹی فورسز کے ارکان اور بودھ دیہاتیوں نے روہنگیا مسلمانوں کو قتل کیا تھا۔ یہ اعتراف ریاست راکھین میں ملنے والی روہنگیا مسلمانوں کی ایک اجتماعی قبر کے حوالے سے کیا گیا ہے۔
میانمار میں ینگون سے نیوز ایجنسی ایسوس ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق ملکی فوج نے اب باقاعدہ طور پر یہ تسلیم کر لیا ہے کہ راکھین میں، جہاں میانمار کے روہنگیا مسلم اقلیتی باشندوں کی اکثریت آباد تھی، ابھی حال ہی میں ایک اجتماعی قبر سے جن 10 مسلمانوں کی لاشیں ملی تھیں، انہیں حکومتی سکیورٹی دستوں کے ارکان اور بودھ دیہاتیوں نے قتل کیا تھا۔

ایسوسی ایٹڈ پریس نے لکھا ہے کہ میانمار کی فوج کا آج دیا جانے والا یہ بیان اپنی نوعیت کا پہلا اعتراف ہے کہ گزشتہ برس اگست کے اواخر سے راکھین میں روہنگیا مسلم اقلیت کے خلاف جو کریک ڈاؤن شروع کیا گیا تھا، اس دوران ملکی فوج قتل و غارت میں بھی ملوث رہی تھی۔ اقوام متحدہ کی طرف سے اس کریک ڈاؤن کو میانمار میں سکیورٹی دستوں کی طرف سے روہنگیا اقلیت کی ’نسلی تطہیر‘ کا نام بھی دیا جا چکا ہے اور یہ اس فوجی آپریشن کے باعث پیدا ہونے والے حالات ہی کا نتیجہ تھا کہ میانمار سے ساڑھے چھ لاکھ سے زائد روہنگیا مہاجرین اپنی جانیں بچانے کے لیے فرار ہو کر ہمسایہ ملک بنگلہ دیش میں پناہ گزین ہو گئے تھے۔  اقوام متحدہ، امریکا اور کئی بین الاقوامی تنظیموں کی طرف سے میانمار کی فوج پر یہ الزامات بھی لگائے جاتے ہیں کہ وہ راکھین میں روہنگیا مسلم اقلیتی باشندوں کے وسیع تر قتل، خواتین کے ریپ اور ان باشندوں کے سینکڑوں گھروں کو جلانے کی مرتکب ہوئی تھی۔

اس کے برعکس میانمار کی فوج اب تک یہ اصرار کرتی رہی تھی کہ وہ اس پورے تنازعے میں کسی بھی قسم کے غلط اقدامات کی مرتکب نہیں ہوئی تھی۔ ملکی فوج کے سربراہ کا فیس بک پر دیا جانے والا بیان تاہم اس سلسلے میں سکیورٹی دستوں کی زیادتیوں کا اولین اعتراف ہے۔ بین الاقوامی طبی تنظیم ڈاکٹرز وِد آؤٹ بارڈرز کے مطابق میانمار میں اگست میں شروع ہونے والے کریک ڈاؤن کے دوران صرف ایک ماہ کے اندر اندر ہی ملکی فوج نے کم از کم بھی 6700 روہنگیا مسلمانوں کو قتل کر دیا تھا۔

دنیا بھر میں تین ملین افراد ’بے وطن‘ ہیں، اقوام متحدہ

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں بتایا ہے کہ دنیا بھر میں اس وقت تیس لاکھ افراد کو بے وطنیت کا سامنا ہے جن کی اکثریت کا تعلق کسی نہ کسی خطے کی مذہبی، نسلی یا ثقافتی اقلیت سے ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق اس وقت میانمار کے روہنگیا مسلمان دنیا کی سب سے بڑی ’بے وطن‘ اقلیت ہیں۔ صرف اگست کے بعد سے اب تک چھ لاکھ سے زائد روہنگیا مہاجرین مبينہ تشدد اور جبر کے باعث میانمار چھوڑ کر بنگلہ دیش ہجرت کر چکے ہیں۔

یہ ہمارا گھر ہے – شہریت کی تلاش میں بے وطن اقلیتیں‘ کے عنوان سے جاری کی گئی اس رپورٹ کے مطابق روہنگیا مسلمانوں کے علاوہ بھی دنیا بھر میں کئی مذہبی، نسلی یا ثقافتی اقلیتوں کو بے وطنیت کا سامنا ہے۔ یو این ایچ سی آر کے مطابق بے وطن انسانوں کے ساتھ دنیا بھر میں امتیازی سلوک کرنے کے علاوہ ان کا تعاقب بھی کیا جاتا ہے۔ ادارے نے دنیا بھر کی حکومتوں سے مطالبہ کیا ہے کہ سن 2024 تک ایسی اقلیتوں کے خلاف امتیازی سلوک ختم کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔

یو این ایچ سی آر کے ایک سینئر اہلکار کارول بیچلر نے رپورٹ جاری کیے جانے کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’اگر آپ دنیا میں کسی ملک کی شہریت کے بغیر رہ رہے ہیں تو آپ کی کوئی شناخت نہیں، نہ کوئی دستاویزات ہیں اور نہ ہی تعلیم، ملازمت اور صحت جیسی بنیادی سہولیات۔‘‘ عالمی ادارے نے اقوام عالم سے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ ان کی سرزمین پر پیدا ہونے والے بچوں کو شہریت دی جائے، بصورت دیگر ان بچوں کو بھی بے وطنیت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ علاوہ ازیں کئی برسوں سے کسی ملک میں رہنے والے مہاجرین کو بھی مقامی شہریت دیے جانے کے لیے اقدامات کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کی اس رپورٹ کے مطابق بے وطن اقلیتوں میں روہنگیا مسلمانوں کے علاوہ شامی کرد، مقدونیا کی روما برادری، مدگاسکر کی کارانا اور کینیا کی پیمبا اقلیت سے تعلق رکھنے والے انسان سرفہرست ہیں۔

بے وطن انسانوں کے اعداد و شمار کے بارے میں بیچلر کا کہنا تھا، ’’ہم مصدقہ طور پر کہہ سکتے ہیں کہ دنیا میں اس وقت بے وطن انسانوں کی تعداد تین ملین سے زائد ہے۔‘‘ ان سے پوچھا گیا کہ کیا روہنگیا مسلمان کا شمار بھی ایسے انسانوں میں ہوتا ہے جنہیں دانستاﹰ شہریت سے محروم رکھا گیا ہے تو ان کا کہنا تھا، ’’میانمار میں شہریت سے متعلق قوانین ہیں جن میں ان افراد کی فہرست بھی شامل ہے جنہیں میانمار کا شہری تسلیم کیا جاتا ہے لیکن روہنگیا اس فہرست میں شامل نہیں ہیں۔‘‘ عالمی ادارہ برائے مہاجرین نے مطالبہ کیا ہے کہ بےوطنیت کی یہ تکلیف دہ صورت حال ختم ہونی چاہیے اور وہ تمام قوانین بھی، جن کی مدد سے ایسے امتیازی برتاؤ کو ممکن بنایا جاتا ہے۔

روہنگیا مسلمانوں کی نقل مکانی کا سلسلہ جاری

اقوام متحدہ کی تازہ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ میانمار میں ظلم کے شکار روہنگیا مسلمانوں کی کی نقل مکانی میں اضافہ ہو رہا ہے اور 10 ہزار سے 15 ہزار افراد بنگلہ دیشی سرحد پر موجود ہیں جبکہ پناہ گزینوں کی تعداد 5 لاکھ 82 ہزار تک پہنچ گئی ہے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ گزشتہ 48 گھنٹوں کے دوران میانمارمیں ہونے والے تشدد سے بھاگنے والے 10 ہزار سے 15 ہزار کےدرمیان نئے پناہ گزین سرحد میں پہنچ گئے ہیں جو روہنگیا مسلمانوں کے گاؤں کو نذر آتش کیے جانے اور دیگر مظالم کے بعد علاقہ چھوڑ کر بنگلہ دیش کی طرف ہجرت کر رہے ہیں۔

بنگلہ دیش بارڈر گارڈ (بی جی بی) کےایک عہدیدار نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ نئے آنے والوں کو ایسے علاقے میں رکھا جا رہا ہے جہاں کوئی موجود نہیں ہے تاہم ابتدائی طور پر اس کی وجوہات معلوم نہ ہو سکیں۔ اقوام متحدہ کے ادارے کے ترجمان آندریج ماہیسس کا کہنا تھا کہ یو این ایچ سی آر اس حوالے سے بنگلہ دیشی حکام سے بات کر رہا ہے تاکہ ‘جو لوگ اپنے آبائی علاقوں میں ظلم اور سخت صورت حال کا شکار ہونے کے بعد سرحد کی طرف آئے ہیں انھیں فوری طور پر داخلے کی اجازت دی جائے’۔

ترجمان نے کہا کہ رکھائن ریاست میں ظلم وستم اور جان سے مارنے کی دھمکیوں کے باوجود کئی خاندانوں نے وہی پر رہنے کا فیصلہ کیا تھا تاہم ‘وہ اس وقت وہاں سے نکل چکے ہیں جب ان کے گھروں کو آگ لگا دی گئی’۔ خیال رہے کہ نئے آنے والے پناہ گزینوں کا تعلق رکھائن کے ان اضلاع سے ہے جو بنگلہ دیش کی سرحد سے قدرے دور ہیں۔

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اس کی فہرست میں 45 ہزار افراد کا اضافہ ہوا ہے جس کے بعد پناہ گزینوں کی تعداد 5 لاکھ 82 ہزار تک پہنچ گئی ہے جبکہ اس فہرست میں حالیہ آنے والے ہزاروں مہاجرین کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔ گزشتہ روز حکام کی جانب سے کہا گیا تھا کہ انھیں روہنگیا مسلمانوں کی 10 لاشیں ملی ہیں جن کی کشتی دریائے نیف میں ڈوب گئی تھی۔

 

 

 

 

میں نے کاکسز بازار میں کیا دیکھا؟

’’میانمار (برما) کے ستمگر بُدھ سیاستدانوں، بُدھ مذہبی رہنماؤں اور برمی فوج کے مظالم سے تنگ آکر روہنگیا مسلمان بنگلادیش کے سرحدی علاقوں میں پہنچ رہے ہیں، انھیں دیکھ کر مَیں ابھی ابھی کاکسز بازار سے آیا ہُوں۔ کاکسز (Cox,s) بازار دراصل بنگلادیش کے اُس سرحدی علاقے کا سب سے بڑا شہر ہے جو نسبتاً میانمار کے نزدیک ہی پڑتا ہے۔ یہ بنگلادیش کا سب سے بڑا ساحل بھی ہے۔ سو کلومیٹر سے زائد طویل پٹّی پر پھیلا ہُوا۔ خوبصورت Beach ہونے کے ناتے یہاں چند درمیانے درجے کے ہوٹل بھی بنا دیے گئے ہیں۔ یہاں ہر وقت بارش برستی رہتی ہے۔ خشک جگہوں کا ملنا خاصا دشوار ہے۔ روہنگیا مسلمان کاکسز بازار کے آس پاس پہنچ چکے ہیں، اُن کے لیے سر چھپانے کی جگہیں بنانا اور تلاش کرنا بڑا مشکل کام ہے۔

بنگلادیش، پاکستان کی طرح، ویسے بھی بھاری آبادی سے اُبلا پڑ رہا ہے، اس لیے بھی روہنگیا مہاجرین کے لیے شیلٹر بنانا خاصا دشوار ثابت ہو رہا ہے؛چنانچہ ہم نے فوری طور پر کاکسز بازار میں پناہ لینے والے ان روہنگیا مسلمانوں میں پلاسٹک کی بڑی بڑی شیٹیں تقسیم کر دیں تاکہ بارش میں مسلسل بھیگنے سے محفوظ رہا جا سکے۔ ساتھ ہی موسم کی مناسبت سے بستر بھی فراہم کیے۔ ہماری ویلفئیر تنظیم کی سب سے پہلی یہ بھی کوششیں رہیں کہ مہاجر روہنگیا کو پکا پکایا کھانا عزت اور احترام سے فراہم کیا جاتا رہے۔ ان مہاجر روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار دیکھ کر آنکھیں آنسوؤں سے بھر جاتی ہیں۔‘‘

یہ الفاظ معروف برطانوی مسلمان فلاحی تنظیم ’’ المصطفیٰ ویلفئیر ٹرسٹ ‘‘ کے سربراہ جناب عبدالرزاق ساجد کے ہیں۔ عبدالرزاق ساجد صاحب کے ساتھ معروف کشمیری نژاد برطانوی سیاستدان جناب لارڈ نذیر احمدبھی کاکسز بازار گئے تھے۔ المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ والوں نے یہاں تین چار دنوں میں ساٹھ ستّر ہزار روہنگیا مہاجرین میں ڈھائی ملین ٹکہ (بنگلادیشی کرنسی) کی امداد تقسیم کی ہے۔ یہ مدد خشک اور پکی پکائی خوراک کی شکل میں بھی ہے اور نقد بھی۔ دیگر فلاحی اداروں کو بھی فوری طور پر قدم آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔‘‘

برطانوی ایوانِ بالا کے رکن لارڈ نذیر احمد صاحب کا بنیادی تعلق آزاد کشمیر سے ہے۔ وہ ’’المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ‘‘ کے چیئرمین کے ساتھ کاکسز بازار میں تھے تو فون پر میری اُن سے مختصر سی بات ہُوئی۔ لارڈ نذیر احمد صاحب نے روہنگیا مہاجرین کا جو آنکھوں دیکھا حال مجھے بتایا، سُن کر دل دہل گیا۔ انھوں نے کہا:’’ یہاں بنگلادیش میں برطانوی ہائی کمیشن کے سینئر سفارتکاروں نے مجھے روہنگیا مہاجرین کے بارے میں تازہ ترین بریفنگ بھی دی ہے اور ان مہاجرین کے لیے برطانوی امداد میں جو تازہ اضافہ کیا ہے، اس کے بارے میں بھی مجھے آگاہ کیا ہے۔ بنگلادیش میں آنے والے نئے چار لاکھ مہاجرین کے لیے برطانوی حکومت نے 25 ملین پونڈ کی امداد کر دی ہے۔‘‘ لارڈ صاحب نے ایک امیر عرب ملک کا نام لیتے ہُوئے بڑے رنج اور تاسف کے ساتھ مجھے یہ بھی بتایا :’’اس عرب ملک نے امریکہ میں آنے والے حالیہ سمندری طوفان کے متاثرین کے لیے پچاس ملین ڈالر کا عطیہ تو دے دیا ہے لیکن ظلم کے مارے روہنگیا مسلمان مہاجرین کے لیے ایک ڈالر بھی نہیں دیا ہے۔ ممکن ہے مستقبل قریب میں اُن کی طرف سے کوئی امداد آبھی جائے لیکن ابھی تک تو کوئی نہیں آئی۔ اس پر افسوس کا اظہار ہی کیا جا سکتا ہے۔‘‘

جناب لارڈ نذیر احمد کا فون خاموش ہُوا توعبدالرزاق ساجد صاحب نے میرے استفسار پر روہنگیا مسلمان مہاجرین کا چشم دیدہ احوال سناتے ہُوئے بتایا :’’ اُن کی حالت انتہائی بُری ہے۔ ہم سے جتنا ہو سکتا ہے، کر رہے ہیں۔ مَیں بھی روہنگیا والوں کے لیے مزید فنڈز کے حصول کے برطانیہ کے مختلف شہروں میں نکل گیا۔ لندن میں بھی ڈنر کی شکل میں اہلِ خیر سے مالی تعاون حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اب لارڈ صاحب کے ساتھ پھر بنگلادیش جا رہا ہُوں تاکہ ان ستم زدگان کی مزید کچھ مد د کی جا سکے۔ کوشش ہے کہ کاکسز بازار سے برما بھی جاؤں تاکہ ریکھائن میں موجود روہنگیا کے بقیہ مسلمانوں سے مل سکوں۔ ہمیں امید دلائی گئی ہے کہ برمی حکومت ہمیں ریکھائن جانے کی کھلی اجازت عنائیت کر دے گی۔‘‘

بنگلادیش کی معاشی حالت، پاکستان کی طرح، خاصی پتلی ہے، اس لیے چار لاکھ سے زائد روہنگیا مہاجروں کا بوجھ برداشت کرنا آسان نہیں ہے۔ اس بوجھ کو عالمی این جی اوز ہلکا کر سکتی ہیں۔ بنگلادیشی وزیر اعظم، حسینہ واجد، روہنگیا مہاجرین کی مقدور بھر جو بھی مدد کر رہی ہیں، اس کی تحسین کی جانی چاہیے۔
عبدالرزاق ساجد بتا رہے تھے:’’کاکسز بازار میں سکھ تنظیمیں، جو بنیادی طور پر برطانوی ہیں، بھی روہنگیا مہاجر مسلمانوں کی مدد کر رہی ہیں۔ انھوں نے وہاں ’’گُرو کے لنگر‘‘ کھول دیے ہیں تاکہ مسلمان مہاجرین کو خوراک مہیا کی جا سکے۔ کاکسز بازار آئے ایرانی نائب وزیر خارجہ مرتضیٰ سرمندی صاحب سے بھی میری ملاقات ہُوئی ۔ ایران بھی روہنگیا مہاجرین کی مدد رہا ہے۔ ایرانی حکومت نے روہنگیا مسلمانوں کی جو مدد کی ہے، بنگلادیشی وزیر صحت نے اس کی بہت تعریف بھی کی ہے۔ ‘‘

میرے استفسار پر کہ پاکستان کی کوئی تنظیم کاکسز بازار یا دوسرے بنگلادیشی علاقوں میں روہنگیا مہاجرین کی مدد کرتی نظر آئی ؟ عبدالرزاق ساجد نے بتایا:’’بہت سی پاکستانی فلاحی تنظیمیں وہاں جانا چاہتی ہیں تاکہ روہنگیا بھائیوں کی اعانت کی جا سکے لیکن بنگلادیشی حکومت دانستہ پاکستانیوں کو ویزے نہیں دے رہی۔ بنگلادیش کچھ تو پاکستان کی بعض جہادی تنظیموں سے خائف ہے اور دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ بنگلادیشی جماعتِ اسلامی کے( چار) لیڈروں کو (ناجائز) پھانسی دینے پر حکومتِ پاکستان نے جس لہجے میں احتجاج کیا تھا، حسینہ حکومت اس سے بھی ناراض ہے(10 اکتوبر2017ء کو بنگلادیش نے پھر جماعتِ اسلامی کے آٹھ لیڈروں کو بِلا وجہ گرفتار کیا ہے) پاکستانیوں کو زیادہ ویزے دے کر حسینہ واجد بھارت کو بھی ناراض نہیں کرنا چاہتیں۔

اِن عوامل نے پاکستانی فلاحی تنظیموں کی راہ میں رکاوٹیں ڈال رکھی ہیں اور وہ فوری طور پر روہنگیا کے ستم زدہ مہاجر وں تک پہنچنے سے قاصر ہیں۔‘‘ اپنے تازہ ترین مشاہدات کی بنیاد پر ساجد صاحب نے ایک نیا انکشاف کیا:’’ حسینہ واجد نے عالمی دباؤ پر روہنگیا مہاجرین کو وقتی طور پر قبول کر تو لیا ہے لیکن وہ انھیں Refugees کا درجہ دینے پر تیار نہیں ہیں ۔ وہ اس انسانی المیئے سے سیاسی فائدے بھی اٹھانا چاہتی ہیں۔ اگلے سال بنگلادیش میں عام انتخابات ہو رہے ہیں۔ حسینہ بڑی ہو شیاری سے روہنگیا مہاجرین کے بحران کو اپنی انتخابی جیت کے لیے ایکسپلائٹ کرنے کی منصوبہ بندی بھی کرتی نظر آرہی ہیں۔‘‘اُن کاکہنا ہے کہ اگر پاک، بنگلادیش سفارتی تعلقات بہتر ہو جائیں تو کاکسز بازار میں آئے روہنگیا مہاجر مسلمانوں کے کئی مصائب کم ہو سکتے ہیں۔

تنویر قیصر شاہد

اپنی بہن کو کندھوں پر اٹھا کر چلنے والا روہنگیا بچہ بنگلہ دیش پہنچ گیا

میانمار میں ریاستی مظالم سے تنگ آکر لاکھوں روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش پہنچ رہے ہیں ، ان میں سے ہر مسلمان کی داستان انتہائی المناک اور تکلیف دہ ہے، یہ داستانیں سن کر پتھر دل لوگوں کی آنکھیں بھی چھلک پڑتی ہیں، ایسی ہی ایک داستان سات سالہ یاسر حسین کی ہے جو کہ مسلسل 2 ہفتوں تک اپنی چھوٹی بہن کو اٹھا کر چلتا رہا اور بالاخر بنگلہ دیش پہنچ گیا۔ فرانسیسی خبر رساں ادارے کے مطابق یاسر حسین مسلسل دو ہفتوں تک کیچڑ سے بھرے ہوئے راستوں ، برساتی کھائیوں اور گھنے جنگلوں میں اپنی چھوٹی بہن کو اپنے کندھوں پر اٹھا کر چلتا رہا، اس دوران مسلسل اس نے اپنی سکول یونیفارم پہنے رکھی، یاسر نے ایسوسی ایٹڈ پریس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میری بہن بہت بھاری ہے اور میرا خیال تھا کہ میں اسے اٹھا کر چل نہیں پاﺅں گا۔

یاسر کی ماں فیروز بیگم کا کہنا تھا کہ دو ہفتے قبل اچانک ہمارے گاﺅں پر بلوائیوں نے حملہ کر دیا، سارے گاﺅں سے آگ کے شعلے بلند ہونا شروع ہو گئے اور ہم نے بھاگنے کی کوشش کی مگر اس دوران یاسر کے باپ کو گولی مار کر قتل کر دیا گیا، لیکن میں اپنے تین معصوم بیٹوں کے ساتھ بھاگنے میں کامیاب ہو گئی، ہم یاسر کی آنٹیوں اوردرجنوں کزنز کے ہمراہ مسلسل چلتے رہے، ہمیں چھہ دن تک کھانے کو کچھ نہیں ملا اور کئی دن مسلسل چلنے کے بعد ہم دریائے ناف کے کنارے پہنچ گئے، یہاں پر کئی مہاجرین پہلے سے موجود تھے اور ہم ایک بوسید ہ کشتی میں سوار ہو کر بنگلہ دیش پہنچنے میں کامیاب ہو گئے.

لیکن ہمارا یہ سفر یہاں پر اختتام پذیر نہیں ہوا بلکہ ہمیں ایک دن اور پیدل چلنا پڑا۔ اس سارے عرصے میں یاسر نے سبز اور سفید سکول یونیفارم پہن رکھے تھے۔
یاسر حسین نے خبر ایجنسی سے مزید گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں سکول میں سیاہ جوتے اور سیاہ جراب پہن کر رکھتا تھا مگر میانمار سے ہجرت کے وقت میں انہیں وہاں سے لا نہیں پایا ۔ یاسر کا خاندان بنگلہ دیش میں اپنے ایک رشتہ دار کے ہاں پہنچنے میں کامیاب ہو گیا جبکہ یاسر آج بھی ان تلخ دنوں کو یاد کر کے آبدیدہ ہو جاتا ہے۔

سوچی سے ’’فریڈم آف آکسفورڈ‘‘ کا اعزاز بھی چھن گیا

میانمار کی فوج کے ہاتھوں روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام پر خاموش تماشائی کا کردار ادا کرنے والی نوبیل انعام یافتہ برمی رہنما آنگ سان سوچی سے ’’فریڈم آف آکسفورڈ‘‘ کا اعزاز چھین لیا گیا۔ غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق آنگ سان سوچی سے یہ اعزاز واپس لینے کی وجہ روہنگیا مسلمانوں پر برمی فوج کے مظالم اور قتل عام پر خاموشی اختیار کرنا اور حکمراں جماعت کی سربراہ ہونے کی حیثیت سے ظلم و زیادتی کے اس سلسلے کو نہ روکنا ہے۔ سوچی کو یہ اعزاز جمہوریت کے لیے طویل جدوجہد کرنے پر 1997 میں دیا گیا تھا تاہم آکسفورڈ سٹی کونسل کا کہنا ہے کہ اب سوچی اس اعزاز کو اپنے پاس رکھنے کی اہل نہیں رہیں۔

خیال رہے کہ میانمار کی ریاست راکھائن میں 25 اگست سے شروع ہونے والی کشیدگی میں اب تک سیکڑوں مسلمان جاں بحق ہو چکے ہیں اور 5 لاکھ کے قریب افراد بنگلادیش ہجرت کر چکے ہیں۔ میانمار میں نومبر 2015 میں نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کی حکومت قائم ہوئی تھی اور آنگ سان سوچی اس پارٹی کی سربراہ ہیں۔ اس سے قبل روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کے خلاف آواز نہ اٹھانے پر آکسفورڈ یونیورسٹی نے اپنے مرکزی دروازے سے آنگ سان سوچی کی تصویر ہٹالی تھی جبکہ سوچی سے امن کا نوبیل انعام واپس لینے کی مہم بھی چل رہی ہے۔

آکسفورڈ یونیورسٹی نے آن سان سوچی کی تصویر ہٹا دی

آِکسفورڈ یونیورسٹی نے میانمار کی رہنما آن سان سوچی کی تصویر مرکزی گیٹ سے ہٹا دی۔ میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پر ریاستی تشدد کا سلسلہ جاری ہے جس کے باعث میانمار رہنما آن سان سوچی کو عالمی سطح پر شدید تنقید کا سامنا ہے ۔ غیر ملکی خبر ایجنسی کے مطابق آکسفورڈ یونیورسٹی کے کالج نے سوچی کی تصویر مرکزی گیٹ سے اتار کر اسٹور میں رکھ دی ہے جس کی جگہ اب جاپانی آرٹسٹ کی پینٹنگ مرکزی دروازے پر لگائی جائے گی۔

آن سان سوچی نے آکسفورڈ یونیورسٹی کے اسی کالج سے تعلیم حاصل کی تھی اور 1967 میں گریجویٹ کیا جبکہ سوچی کی 67 ویں سالگرہ پر انہیں آکسفورڈ یونیورسٹی نے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری بھی دی تھی۔ سوچی کی تصویر 1999 میں یونیورسٹی کے مرکزی دروازے پر لگائی گئی تھی۔ واضح رہے کہ میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پر ریاستی تشدد کے باعث 5 لاکھ سے زائد روہنگیا مسلمان اب تک بنگلا دیش ہجرت کر چکے ہیں ۔

اب نسل کشی ختم کریں : روہنگیا بحران کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟

’’فوج میرے باپ کو گاؤں کے تمام مردوں سمیت ساتھ لے گئی۔ پھر انھوں نے ہمارے مکان کو آگ لگا دی ۔ میری ماں اس وقت گھر کے اندر ہی موجود تھی۔ وہ زندہ جل مری‘‘۔ یہ میانمار (برما) کی مغربی ریاست راکھین (اراکان) سے تعلق رکھنے والے ایک تیرہ سالہ بچے محمد جکاریا کے مختصر بیان کا ایک حصہ ہے۔اب محمد اور ہزاروں روہنگیا مہاجرین بچے بنگلہ دیش کے جنوب میں واقع تیکناف میں مہاجر کیمپوں میں رہ رہے ہیں۔ ان غلاظت زدہ کیمپوں میں گنجائش سے کہیں زیادہ روہنگیا مہاجرین کو ٹھونس دیا گیا ہے۔ برما میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف نئی تشدد آمیز کارروائیوں کے آغاز کے بعد سے ہزاروں مہاجرین جانیں بچا کر دشوار گزار سرحدی راستوں سے گذر کر بنگلہ دیش کے علاقے میں پہنچ چکے ہیں۔

اگست کے بعد سے ہزاروں روہنگیا مسلمان مبینہ طور پر مارے جا چکے ہیں۔ مزید ہزاروں لاپتا ہیں۔ ان کا المیہ اس وقت سب سے بڑا انسانی مسئلہ بن چکا ہے۔روہنگیا کے بحران کا کسی بھی اور انسانی بحران سے کوئی موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ روہنگیا روئے زمین پر سب سے زیادہ ستم رسیدہ اقلیت ہیں۔ اقوام متحدہ کے نگرانوں کو راکھین تک رسائی دینے کی اپیلوں کو نظر انداز کرنے کا معاملہ اگر ایک طرف بھی رکھ دیا جائے تو روہنگیا مسلمانوں کی جاری نسل کشی کے خاتمے کے لیے کوئی جامع منصوبہ یا لائحہ عمل نظر نہیں آتا ہے۔ درحقیقت یہ لالچ کی ایک کہانی ہے اور اس میں دنیا کی بڑی کثیر قومی کارپوریشنیں ملوث ہیں۔ یہ منافقت کی بھی کہانی ہے اور یہ کسی اور کی نہیں ( نوبل امن انعام یافتہ) آنگ سان سوچی کی منافقت ہے۔

مغرب کی تقدس مآبی
اس کہانی کا خلاصہ یہ ہے کہ آنگ سان سوچی ایک جھوٹی رہبر ہیں۔ انھیں مغرب نے برسوں سے تقدس مآب بنا کر پیش کیا۔ان پر تقدیس کی چادر چڑھائی۔انھیں جمہوریت کا استعارہ قرار دیا گیا کیونکہ انھوں نے ان ہی برمی فورسز کی اپنے ملک میں مخالفت کی تھی۔ تب امریکا کی قیادت میں مغربی اتحاد نے برما کو اس کے چین کے ساتھ اتحاد کی وجہ سے الگ تھلگ اور تنہائی کا شکار کر دیا تھا۔
یہ ایک رضا مندی کی شادی تھی۔آنگ سان سوچی نے توقع کے عین مطابق اپنا کردار ادا کیا تھا۔ دائیں بازو نے ان کی حمایت کی اور بایاں بازو ان کا گرویدہ ہو گیا۔ ان سب خدمات پر انھیں 1991ء میں نوبل امن انعام سے نواز دیا گیا۔

برما کی اس لیڈی کا اپنے ہی ملک میں ایک سیاسی جلا وطن کے طور پر سفر اس وقت اختتام کو پہنچا جب وہ 2015ء میں کثیر جماعتی انتخابات کے بعد برما کی لیڈر بن گئیں۔ اس کے بعد انھوں نے بہت سے ملکوں کے دورے کیے ہیں۔ ملکاؤں رانیوں اور صدور کے ساتھ کھانے کھائے ہیں، یادگار تقریریں کی ہیں اور اعزازات وصول کیے ہیں۔ وہ برسوں سے جس سفاک فوج کی مخالفت کرتی چلی آرہی تھیں، انھوں نے جانتے بوجھتے ہوئے اس کے ساتھ مصافحہ کر لیا اور حکومت بنا لی۔ یہ عظیم ’’انسان‘‘ اس وقت اپنا تمام وقار کھو بیٹھیں ، جب ان کی حکومت ، پولیس اور فوج نے روہنگیا مسلمانوں کی نسلی تطہیر شروع کر دی۔ ان کی بڑے منظم انداز میں نسل کشی کی جانے لگی۔ روہنگیا مسلمانوں کے خلاف تشدد آمیز کارروائیاں برمی فوج ، پولیس اور ملک کی قوم پرست بدھ مت اکثریت مشترکہ طور پر کر رہی ہے۔

ان نام نہاد ’’ تطہیری کارروائیوں‘‘ میں حالیہ مہینوں کے دوران ہزاروں روہنگیا مسلمانوں کو قتل کیا جا چکا ہے۔ ڈھائی لاکھ سے زیادہ افراد کو جبری طور پر بے دخل کر دیا گیا ہے۔ یہ بھوکے ننگے لوگ اپنی جانیں بچا کر کسی نہ کسی طریقے سے پڑوسی ملک میں پہنچ جانے میں کامیاب ہو گئے جبکہ ان کے ساتھ نکلنے والے سیکڑوں افراد دریا یا سمندر کی لہروں کی نذر ہو گئے ، یا ان کا پیچھا کرکے جنگلوں ، بیابانوں میں انھیں مار دیا گیا۔ برما میں روہنگیا مسلمانوں کے قتل اور ان کے دیہات کے گھیراؤ جلاؤ کی کہانیاں 1948ء میں فلسطینی عوام کی نسلی تطہیر کی یاد تازہ کر دیتی ہیں۔ یہ پڑھ کر کسی کو حیرت زدہ نہیں ہونا چاہیے کہ اسرائیل برمی فوج کو اسلحہ مہیا کرنے والا ایک بڑا ملک ہے۔ اسرائیلی وزیر دفاع ایویگڈور لائبرمین بالاصرار یہ کہتے ہیں ان کے ملک کا برما میں رجیم کو بھیجی جانے والے ہتھیاروں کی کھیپوں کو روک لگانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

اسرائیل سے برما کو اسلحے کی کھیپ بھیجنے کی ایک خبر کا اگست 2016ء میں اعلان کیا گیا تھا اور اسرائیل کی اسلحہ ساز کمپنی نے فخریہ انداز میں یہ بھی کہا تھا کہ اس کی کارنر شاٹ رائفلز پہلے ہی برمی فوج کے استعمال میں ہیں۔ اسرائیل کی تاریخ سفاک جنتاؤں اور مطلق العنان حکمرانوں کی حمایت سے بھری پڑی ہے لیکن جو لوگ ( ممالک) خود کو جمہوریت کا محافظ قرار دیتے ہیں، وہ اب تک برما میں خونریزی پر خاموش کیوں ہیں؟ آنگ سان سوچی میں تو اتنا بھی اخلاقی حوصلہ نہیں ہے کہ وہ متاثرین سے ہمدردی کے دو بول بول سکیں۔ اس کے بجائے انھوں نے ایک مبہم سا بیان جاری کیا اور کہا ’’ہمیں اپنے ملک میں موجود ہر کسی کا خیال رکھنا ہو گا‘‘۔

اس دوران میں ان کے ترجمان اور دوسرے بھونپوؤں نے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف ایک مذموم مہم شروع کر رکھی ہے۔ وہ ان پر اپنے ہی دیہات کو نذر آتش کرنے کے الزامات عاید کر رہے ہیں۔ وہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ روہنگیا اپنی خواتین کی عصمت دری کی من گھڑت کہانیاں بیان کر رہے ہیں اور جو روہنگیا برمی سکیورٹی فورسز کی مزاحمت کی کوشش کرتے ہیں، انھیں وہ جہادی قرار دے دیتے ہیں۔

دستاویزی ثبوت
لیکن دستاویز ی رپورٹس سے ہمیں اس تلخ حقیقت کے کچھ اشارے ملتے ہیں، جن کا روہنگیا کو مسلسل تجربہ ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی حال ہی میں منظرعام پر آنے والی رپورٹ میں ایک خاتون کا تفصیلی بیان شامل ہے۔ اس کے خاوند کو برمی فوجیوں نے منظم حملوں کے دوران میں قتل کر دیا تھا۔ اس خاتون کے ساتھ بیتی تمام واردات انسانیت کے خلاف جرم کے زمرے میں آتی ہے۔ اس متاثرہ خاتون نے بتایا :’’ ان میں سے پانچ نے میری جبری اجتماعی عصمت ریزی کی۔میرا آٹھ ماہ کا بچہ اس وقت بھوک سے بلبلا رہا تھا۔ اس کو میرے دودھ کی ضرورت تھی ۔ انھوں نے اس کو خاموش کرانے کے لیےچاقو سے قتل کر دیا اوراس کو ہمیشہ کی ابدی نیند سلا دیا‘‘۔

برما سے جانیں بچا کر بنگلہ دیش پہنچنے والے روہنگیا مہاجرین دردناک کہانیاں بیان کرتے ہیں۔ وہ بچوں کے قتل ، خواتین کی عزتیں تار تار ہونے اور دیہات کو جلائے جانے کے خوف ناک واقعات بیان کرتے ہیں۔ ان کے ان بیانات کی ہیومن رائٹس واچ کی جانب سے فراہم کردہ خلائی سیارے سے لی گئی تصاویر سے بھی تصدیق ہوتی ہے۔ ان میں ریاست راکھین میں نیست و نابود دیہات کو دیکھا جا سکتا ہے۔ راکھین کے دارالحکومت ستوے سے معروف برطانوی صحافی پیٹر اوبورن نے تازہ صورت حال کو رپورٹ کیا ہے۔ وہ ڈیلی میل میں 4 ستمبر کو شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں:

’’ پانچ سال قبل شہر کی ایک لاکھ اسّی ہزار کے لگ بھگ آبادی میں پچاس ہزار روہنگیا مسلم اقلیتی گروپ سے تعلق رکھنے والے لوگ تھے لیکن آج شہر میں ان کی تعداد تین ہزار سے بھی کم رہ گئی ہے۔ وہ آزادانہ شہر میں گھوم پھر نہیں سکتے ہیں۔ وہ آہنی تار وں میں محصور ایک چھوٹی سی بستی میں الگ تھلگ رہ رہے ہیں۔ مسلح محافظ ان تک کسی کو پہنچنے نہیں دیتے اور روہنگیا مسلمانوں کو بھی اس بستی سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہے‘‘۔ مغربی حکومتوں کو برما میں برسر زمین موجود اپنے ایلچیوں اور نمائندوں کے ذریعے روہنگیا کے اس بحران کا پورا پورا علم ہے۔ وہ ان ناقابل تردید حقائق سے پوری طرح آگاہ ہیں لیکن وہ جان بوجھ کر ان سب کو نظر انداز کر رہی ہیں۔

تیل کی دولت
رامری جزیرے سے رپورٹ کرتے ہوئے ہیروارڈ ہولینڈ نے ’’ میانمار (برما) کے پوشیدہ خزانے کی تلاش ‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون لکھا ہے۔ برما میں تیل کے وسیع ذخائر موجود ہیں اور مغرب کی جانب سے جنتا حکومت کے عشروں تک بائیکاٹ کی وجہ سے اس تیل کو نکالا نہیں جا سکا ہے لیکن اب بھاری بولیاں دینے والے میدان میں آرہے ہیں۔ تیل کی بڑی کمپنیاں شیل ، ای این آئی ، ٹوٹل شیوران اور دوسری فرمیں اس ملک کے قدرتی وسائل سے استفادے کے لیے بھاری سرمایہ کاری کر رہی ہیں جبکہ چین ، جو کئی سال تک برما کی معیشت پر چھایا رہا تھا،اس کو اب آہستہ آہستہ پیچھے دھکیلا جا رہا ہے۔

درحقیقت اس وقت اس ملک کے پوشیدہ معدنی وسائل کو نکالنے کے لیے مخاصمانہ دوڑ اپنے عروج پر ہے۔ اس دولت کی بدولت ایشیا میں چین کی سپر طاقت کی حیثیت کو کم زور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اسی مقصد کے لیے مغرب نے آنگ سان سوچی کو اس ملک میں لیڈر کے طور پر کھڑا کیا جبکہ اس ملک میں بنیادی طور پر کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی ہے بلکہ اس کی شناخت تبدیل کر دی گئی ہے تاکہ ’’بِگ آئیل‘‘ کی ملک میں واپسی کی راہ ہموار کی جا سکے۔ تاہم روہنگیا اس تمام کھیل کی قیمت چکا رہے ہیں۔

روہنگیا مقامی ہیں
روہنگیا برما میں غیرملکی ، درانداز یا تارکین وطن نہیں ہیں۔ ان کی مملکت اراکان آٹھویں صدی عیسوی سے تعلق رکھتی ہے۔ اس کے بعد کے برسوں میں اس مملکت کے مکین عرب تاجروں کے ذریعے اسلام سے متعارف ہوئے تھے اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ مسلم اکثریتی علاقہ بن گیا۔ اراکان برما کی جدید دور کی ریاست راکھین ہے جہاں بارہ لاکھ کے لگ بھگ روہنگیا مسلمان رہ رہے ہیں۔
روہنگیا کو غیر ملکی قرار دینے کا جھوٹا نعرہ پہلی مرتبہ 1784ء میں بلند کیا گیا تھا جب برمی شاہ نے اراکان پر قبضہ کر لیا تھا اور وہاں سے ہزاروں مسلمان بے گھر ہونے پر مجبور کر دیے گئے تھے۔ ان میں زیادہ تر نے بنگال کا رُخ کیا تھا لیکن وہ کچھ عرصے کے بعد اپنے آبائی علاقوں کو لوٹ آئے تھے۔

بیسویں صدی کے دوران میں کئی مرتبہ روہنگیا کو حملوں کا نشانہ بنایا گیا ،انھیں راکھین سے بے دخل کرنے کی کوششیں کی گئیں ۔ گذشتہ صدی میں 1942ء ، 1948ء 1962ء اور 1977ء میں روہنگیا مسلمانوں کو ان کے آبائی علاقوں سے نکال باہر کرنے کے لیے منظم کارروائیاں کی گئی تھیں۔ 1982ء میں برما کی فوجی حکومت نے شہریت کے نئے قانون کی منظوری دی تھی۔ اس کے تحت بیشتر روہنگیا کو شہریت سے محروم کر دیا گیا تھا اور انھیں ان کے اپنے ہی ملک میں غیر قانونی آباد کار قرار دے دیا گیا تھا۔ روہنگیا کے خلاف موجودہ نئی جنگ کا آغاز 2012ء میں ہوا تھا۔

روہنگیا کے خلاف برمی حکومت اور فوج کے مظالم پر بین الاقوامی سطح پر خاموشی ہی چھائی رہی ہے اور صرف چند ایک معز ز شخصیات نے ان مظالم کے خلاف لب کشائی کی ہے۔ ان میں پاپائے روم پوپ فرانسیس بھی شامل ہیں۔ انھوں نے فروری میں ان کے لیے دعائیہ عبادات کا اہتمام کیا تھا اور کہا تھا:’’ روہنگیا اچھے لوگ ہیں۔ وہ پُرامن لوگ ہیں اور ہمارے بھائی اور بہنیں ہیں‘‘۔ لیکن افسوس ان کی روہنگیا سے انصاف کے لیے دہائی پر کسی نے کان نہیں دھرے ہیں۔

افسوس ناک خاموشی
آیندہ مہینوں اور برسوں کے دوران میں برما میں تشدد کو مہمیز مل سکتی ہے اور تشدد کا یہ سلسلہ دوسرے آسیان ممالک تک بھی پہنچ سکتا ہے۔ اس کی وجہ بڑی سادہ سی ہے کہ جنوب مشرقی ایشیا کے اس خطے میں مسلمان اور بدھ مت ہی دو بڑے نسلی اور مذہبی گروپ ہیں۔ اگر آسیان تنظیم اپنی افسوس ناک خاموشی کو نہیں توڑتی تو مغربی ممالک کے برما کی معدنی دولت کو اینٹھنے کے لیے فاتحانہ داخلے اور امریکا اور چین کی مخاصمت سے صورت حال مزید پیچیدہ ہو سکتی ہے۔ آسیان کو فیصلہ کن اور پُرعزم حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے اور برما پر روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی رکوانے کے لیے دباؤ ڈالنا چاہیے۔

آنگ سان سوچی کی اخلاقی ناکامیوں کو منظرعام پر لایا جانا چاہیے اور انھیں برما کی سیاسی ہیئت حاکمہ میں ان کے عہدے کی وجہ سے صورت حال کا ذمے دار ٹھہرایا جانا چاہیے۔ جنوبی افریقا کے بشپ ڈیسمنڈ ٹوٹو نے آنگ سان سوچی کی سرد مہری پر سخت سرزنش کی ہے۔ ہم اپنے ملک میں نسل پرستی کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے والے اس شخص سے کم سے کم یہی توقع کرتے ہیں اور ان مشہور الفاظ پر اپنی بات ختم کرتے ہیں:’’ اگر آپ ناانصافی کی صورت حال میں غیر جانبدار رہتے ہیں تو پھر آپ نے جابر کی طرف داری کا انتخاب کیا ہے‘‘۔

رَمزی بارود