سنگاپور کی مثال

سنگا پور 1965 تک ملائیشیا کا انتہائی پس ماندہ علاقہ ہوتا تھا‘ زمین دلدلی‘ ویران اور بنجر تھی‘ لوگ سست‘ بے کار اور نالائق تھے‘ یہ صرف تین کام کرتے تھے‘ بحری جہازوں سے سامان اتارتے تھے‘ چوری چکاری کرتے تھے ‘ بحری جہازوں سے چوہے نکال کر کھاتے تھے اور بس‘ ملائیشیا ان سے تنگ تھا لہٰذا بڑا مشہور واقعہ ہے‘ تونکو عبدالرحمن کے دورمیں سنگا پور نے آزادی مانگی اور پارلیمنٹ کے کل 126 ارکان نے سنگاپور کے حق میں ووٹ دے دیے۔ بل کے خلاف ایک بھی ووٹ نہیں تھا‘ پارلیمنٹ کا کہنا تھا‘ ہم نے ان بے کار لوگوں اور دلدلی زمین کو اپنے پاس رکھ کر کیا کرنا ہے اور یوں سنگا پور آزاد ہو گیا‘ یہ قدرت کی طرف سے سنگا پور کے لیے پہلا تحفہ تھا‘ دوسرا تحفہ اللہ تعالیٰ نے اسے لی کو آن یو کی شکل میں دیا۔ لی کو آن سنگا پور کے وزیراعظم بنے اور اس شخص نے ان دلدلی زمینوں کا مقدر بدل کر رکھ دیا اور بیس سال بعد 42 بائی 23 کلو میٹر کی یہ اسٹیٹ دنیا کی کام یاب اور تیزی سے ترقی کرتی ریاست بن چکی تھی‘ اس میں امن بھی تھا‘ خوش حالی بھی‘ روزگار بھی‘ سرمایہ بھی اور مستقبل بھی‘ سنگا پور دنیا کا پہلا ملک تھا جس نے اقوام عالم کو بتایا‘ ملکوں کے لیے وسائل نہیں قوت ارادی ضروری ہوتی ہے۔

ملکوں کو آبادی‘ ہنر مندی‘ رقبہ اور تیل بھی درکار نہیں ہوتا‘ ان میں بس آگے بڑھنے کا ارادہ ہونا چاہیے‘ لی کو آن یو ایک پوری یونیورسٹی تھے‘ اس شخص نے دو دہائیوں میں پوری قوم بدل کر رکھ دی‘ کیسے؟ انھوں نے پانچ اہم کام کیے‘ وزیراعظم لی نے سب سے پہلے ملک میں امن قائم کر دیا‘ مذہب کو ذاتی مسئلہ بنا دیا‘ آپ مسلمان ہیں یا سکھ‘ عیسائی‘ بودھ یا ہندو کسی کو کوئی غرض نہیں‘ مسجد کے ساتھ چرچ‘ مندر اور ٹمپل بنا دیا گیا اور یہ اعلان کر دیا گیا کوئی شخص‘ کسی شخص کے مذہب کے بارے میں سوال نہیں اٹھائے گا اور ایک مذہب کا پیروکار دوسرے مذہب کی عبادت گاہ میں جا سکے گا اور اس پر کوئی اعتراض کرے گا اور نہ تبلیغ‘ قانون کی نظر میں سب کو برابر کر دیا۔ ملک میں کوئی کلاس کلچر نہیں تھا‘ کسی کو کسی پر فوقیت نہیں تھی‘ سب برابر تھے اور ہیں‘ ملک میں ہر قسم کے احتجاج پر بھی پابندی لگا دی اور سڑکیں‘ گلیاں اور بازار ہر قیمت پر کھلے رہیں گے اور کوئی شخص کسی کے لیے سیکیورٹی رسک نہیں بنے گا‘ دو‘ لی کو آن یو نے چن چن کر اہل اور ایمان دار لوگ اہم عہدوں پر تعینات کر دیے اور انھیں کام کرنے کا بھرپور موقع دیا‘ لوگ آج بھی تیس تیس سال سے اپنے عہدوں پر بیٹھے ہیں اور کام کر رہے ہیں۔

ایمان داری کا یہ عالم تھا لی کوآن یو کے ڈیڑھ درجن منسٹر اور بیوروکریٹس کرپشن کے الزام کے بعد خودکشی کر گئے‘ حکومت اہل لوگوں کو دوسرے ملکوں سے بھی بھرتی کر لیتی تھی‘ مجھے سابق صدر ممنون حسین نے ایک بار بتایا‘ میں 1999 میں گورنر سندھ تھا‘ لی کو آن یو دورے پر آئے‘ میں نے انھیں کھانے پر بلایا‘ دعوت کے دوران میں نے ان سے کہا‘ ہم کراچی پورٹ کو بھی سنگا پور پورٹ کی طرح ڈویلپ کرنا چاہتے ہیں۔ آپ ہمیں کوئی ٹپ دیں‘ میری بات سن کر لی کو آن یو دیر تک ہنستے رہے اور پھر بولے‘ آپ کیپٹن سعید سے رابطہ کریں‘ یہ پاکستانی بھی ہیں اور کراچی کے شہری بھی ہیں‘ ہم نے ان کی مدد سے سنگاپور پورٹ ڈویلپ کی تھی‘ ممنون حسین یہ سن کر شرمندہ ہو گئے اور یہ دیر تک لی کو آن یو کی طرف دیکھتے رہے‘ تین‘ لی کو آن یو نے اپنا ملک پوری دنیا کے بزنس مینوں کے لیے کھول دیا‘ کوئی کہیں سے بھی آ سکتا تھا اور ملک میں کام کر سکتا تھا بس ایک شرط تھی‘ اس کے پاس پیسہ اور تجربہ ہونا چاہیے۔

مثلاً بھارت کے ایک مسلمان مشتاق احمد نے 1971 میں سنگاپور میں المصطفیٰ اسٹور بنایا‘ یہ اب ایک طویل کمپلیکس بن چکا ہے‘ مشتاق احمد نیک نیت بزنس مین ہے‘ منافع کم اور کوالٹی زیادہ پر یقین رکھتا ہے لہٰذا یہ اب تک کھرب پتی بن چکا ہے اور کسی نے آج تک اسے تنگ نہیں کیا اور یہ یہاں اکیلا نہیں ہے‘ ایسی سیکڑوں مثالیں موجود ہیں اور ہر شخص نے مشتاق احمدکی طرح ترقی بھی کی اور یہ دوسروں کے لیے روشن مثال بھی بنا‘ چار‘ لی کو آن یو نے تعلیم اور ہنر پر خصوصی توجہ دی‘ سنگا پور کے تعلیمی ادارے محض تعلیمی ادارے نہیں ہیں۔ یہ ہنر مند اور اہلیت کی لیبارٹریاں ہیں لہٰذا یہاں جہاں ایک طرف 96 فیصد لوگ تعلیم یافتہ ہیں وہاں یہ ہنر مند بھی ہیں‘ یہ خود بھی کما رہے ہیں اور ملک کو بھی کما کر دے رہے ہیں‘ لی کو آن یو نے پوری قوم کو تہذیب بھی سکھا دی‘ اس کا آغاز شخصی صفائی سے کیا گیا‘ لوگوں کو ٹوائلٹ استعمال کرنے کا طریقہ سکھایا گیا‘ ملک میں مسلم شاور اور ٹوائلٹ پیپر لازمی قرار دے دیا‘ ہاتھوں کی صفائی کو قانون بنا دیا۔

تھوکنے پر پابندی لگا دی‘ سنگاپور دنیا کا واحد ملک ہے جس میں آج بھی آپ اگر کسی سڑک یا عوامی جگہ پر تھوکتے‘ پان کی پیک گراتے یا ناک صاف کرتے پکڑے جائیں تو آپ سیدھے جیل جائیں گے لہٰذا آپ کو پورے ملک میں کوئی شخص گلا صاف کرتا یا تھو تھو کرتا دکھائی نہیں دے گا‘ آپ یہ جان کر بھی حیران ہوں گے اس پابندی کے بعد اب سنگا پور کے لوگوں میں تھوکنے کی خواہش ہی ختم ہو گئی ہے۔ مزید لی کو آن یو کا خیال تھا سگریٹ‘ پان اور چیونگم گند پھیلاتے ہیں لہٰذا اس نے ان پر بھی پابندی لگا دی‘ سنگاپور میں سگریٹ بہت مہنگا ہے اور پینے کے لیے جگہیں بھی مختص ہیں اگرکوئی شخص ان کے علاوہ کسی جگہ ہاتھ میں ڈبی یا سگریٹ پکڑ کر کھڑا ہو تو اسے پولیس پکڑ لیتی ہے‘ چیونگم پر آج بھی پابندی ہے آپ ملک میں چیونگم لا بھی نہیں سکتے اور پانچ ‘ لی کو آن یو نے پورے ملک میں انفرااسٹرکچر بچھا دیا‘ سنگا پور میں ہائی ویز‘ میٹروز اور پل اس وقت بنے جب مشرق میں ان کا تصور بھی نہیں تھا‘ پورے ملک میں پینے کا صاف پانی حکومت سپلائی کرتی ہے‘ آپ کسی بھی ٹونٹی کا پانی پی سکتے ہیں۔

میں نے آئی ایل او کی کانفرنس میں شرکت کی‘ کانفرنس میں 48 ممالک کے وفود آئے تھے لیکن کسی کے میز پر پانی کی بوتل نہیں تھی‘ پانی کے جگ تھے اور یہ جگ عملہ ٹونٹی سے بھر کر رکھتا تھا‘ ہوٹلوں کے اندر بھی ٹونٹیاں لگی ہیں‘ ائیرپورٹ کے بزنس لاؤنجز میں بھی پانی کی بوتلیں نہیں ہوتیں‘ بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ کا تصور تک نہیں تاہم وسائل کی بچت ضرور کی جاتی ہے‘ فالتو لائیٹ اور جلتا ہوا چولہا گناہ سمجھا جاتا ہے۔ ہم پاکستانی مسلمان ہیں اور پاکستانی مسلمانوں کی یہ خاص نشانی ہے ہم مانتے نہیں ہیں‘ مشتاق احمد یوسفی نے پاکستانی مسلمانوں کے بارے میں تاریخی فقرہ کہا تھا‘ میں اس فقرے کو قابل ہضم بنانے کے لیے اس میں تھوڑی سی تحریف کر رہا ہوں‘ یوسفی صاحب نے لکھا‘ مجھ سے ایک عربی نے کہا‘ بھائی مسلمان ہم بھی ہیں لیکن آپ لوگ کچھ زیادہ ہی کھسک گئے ہیں (کھسک کی جگہ ایک تیزابی لفظ تھا)‘ یہ بات سو فیصد درست ہے۔

ہم لوگ حقیقتاً خوف ناک حد تک کھسکے ہوئے ہیں لہٰذا ہم نے اپنے ملک اور اپنی دونوں کی مت مار دی‘ میں اب تک 105 ملک پھر چکا ہوں‘ آپ یقین کریں مجھے کسی ملک میں پاکستان جتنا پاگل پن دکھائی نہیں دیا‘ مجھے کوئی قوم اپنے آپ کو اس طرح پھانسی دیتی اور اپنی ہی لاش کو سڑکوں پر گھسیٹتی نظر نہیں آئی‘ آپ یقین کریں ہم تباہی اور خودکشی کی خوف ناک مثال ہیں‘ ہم ایٹمی طاقت بھی ہیں اور بھکاری بھی ہیں‘ دنیا کی سب سے بڑی فوج کے مالک بھی ہیں اور ہم سے ملک بھی نہیں چل رہا اور ہم مسلمان بھی ہیں اور جعلی آب زم زم بھی بیچ رہے ہیں چناںچہ میں کھل کر عرض کر رہا ہوں‘ ہم نے اگر اب بریک نہ لگائی تو ہم سال بھی نہیں نکال سکیں گے۔ ہم من حیث القوم منافق ہیں‘ہم مذہبی طور پربھی منافق ہیں‘ ہم اللہ اور رسولؐ کا نام لے کر دوسروں کو قتل تک کر دیں گے لیکن رسولؐ اور اللہ کا کوئی بھی حکم نہیں مانیں گے لہٰذا میرا پہلا مشورہ ہے پلیز مذہب کو ذاتی مسئلہ بنا دیں‘ دوسروں کے عقائد پر اعتراض اور مذہبی تہواروں کے دوران سڑکیں بند کرنے پر پابندی لگا دیں اورلاؤڈ اسپیکر بین کر دیں‘ پورے ملک میں مصر‘ تیونس‘ مراکو اور ازبکستان کی طرح ایک وقت میں اذان اور نماز ہو‘ قرآن مجید ترجمے کے ساتھ شایع ہو‘ خطبہ حکومت جاری کرے۔

مساجد کوئی بھی بنائے لیکن یہ چلیں حکومت کی نگرانی میں اور عقائد کے بجائے عوام کو مسجد میں مذہب کے ثقافتی اور اخلاقی پہلو سکھائے جائیں‘ دوسرا مشورہ ملک کو ہر قسم کی تجارت‘ صنعت کاری اور سرمایہ کاری کے لیے کھول دیں‘ دوبئی‘ سنگا پور اور ترکی کی طرح دنیا بھر کے سرمایہ کاروں کو آنے دیں اور کام کرنے دیں‘ کسی سے رقم کے بارے میں نہ پوچھیں‘ یہ یاد رکھیں سیاحت دنیا کی سب سے بڑی انڈسٹری ہے‘ آپ اس پر توجہ دیں‘ کراچی سے ایران کے بارڈر تک ڈیڑھ ہزار کلو میٹر کوسٹل لائین ہے۔ آپ یہ یورپی ملکوں کو دے دیں‘ یہ یہاں ٹیکس فری یورپی شہر بنائیں اور چلائیں‘ حکومت راستے میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہ کرے اور چوتھا مشورہ مہربانی فرما کر ملک میں استحکام پیدا کریں‘ فوج تمام سیاست دانوں کو بٹھائے‘30 سال کا پلان بنائے اور اس کے بعد جو اس پلان کی خلاف ورزی کرے اسے پکڑ کر الٹا لٹکا دیں‘ یہ ملک اس کے بغیر نہیں چل سکے گا‘ ہمیں لی کو آن یو بننا پڑے گا۔

خدا کی پناہ 683 مربع کلو میٹر کے سنگاپور کے مالیاتی ذخائر اڑھائی سو بلین ڈالر ہیں اور ہم ایٹمی طاقت ہوتے ہوئے بھی ایک ایک بلین ڈالر کے لیے کشکول لے کر پھر رہے ہیں‘ کیوں؟ کیوں کہ ہمیں آپس میں لڑنے سے ہی فرصت نہیں مل رہی‘ ہم پاگل پن کے اس لیول پر چلے گئے جہاں انسان لذت لینے کے لیے خودکشی تک کر جاتا ہے چناں چہ خدا خوفی کریں اور آنکھیں کھولیں‘ ہم برباد ہو چکے ہیں۔

جاوید چوہدری

بشکریہ ایکسپریس نیوز

سمندر کی تہہ کے نیچے قائم چینل ٹنل انجینئرنگ کا شاہکار

برطانیہ اور فرانس کو انگلش چینل کے نیچے ایک 32 میل لمبی سرنگ ملاتی ہے۔جب دونوں ممالک نے فیصلہ کیا کہ برطانیہ اور فرانس کو ملانے کیلئے ایک سرنگ سمندر کی تہہ میں تیار کی جائے تو انجینئرز کے سامنے ایک بہت بڑا چیلنج تھا۔ نہ صرف یہ کہ انہیں دنیا کی طویل ترین سرنگوں میں سے ایک سرنگ تیار کرنی تھی بلکہ یہ بھی کہ اتنی لمبی سرنگ میں مسافر محفوظ رہیں۔ اس وقت سرنگوں میں آگ لگنے کے واقعات عام تھے۔ چناچہ اس مسئلے کا یہ حل نکالا گیا کہ سرنگ کے ساتھ ایمرجنسی حالات میں باہر نکلنے کا بھی ایک راستہ تیار کیا گیا۔ یہ دنیا کی دوسری سب سے بڑی ریل ٹنل ہے جو 1994ء میں مکمل ہوئی۔ سب سے زیادہ طویل سرنگ جاپان میں سیکن ٹنل کے نام سے موجود ہے۔ چینل ٹنل کو یورو ٹنل بھی کہا جاتا ہے، یہ تین سرنگیں ہیں ، دو ٹیوبز بڑے اور مکمل سائز کی ہیں جہاں سے ٹرین ٹریفک گزرتی ہے جبکہ ان دونوں ریل ٹیوبز کے درمیاں ایک چھوٹی سی ٹنل ہے جو ایمرجنسی میں باہر نکلنے کیلئے ہے۔

سرنگ میں کئی دوراہے بھی بنائے گئے ہیں جہاں سے ٹرینیں ایک ٹریک سے دوسرے ٹریک پر راستہ تبدیل کر سکتی ہیں۔ چینل ٹنل کا منصوبہ ایک بہت مہنگا منصوبہ تھا جس کیلئے خصوصی تیار کردہ ٹنل بورنگ مشینوں کو انگلش چینل سے سینکڑوں فٹ نیچے یہ طویل سرنگ کھودنے میں تین سال لگے۔ برطانیہ اور فرانس کے درمیان ایک مستقل راستہ بنانے کا منصوبہ متعدد بار پیش ہوا۔ نپولین بوناپارٹ کے دور حکومت میں 1802ء میں ایک سرنگ کی تجویز پیش کی گئی تھی جس میں ہوا کی گزرگاہ کے لئے چمنیاں بنائی جانے اور اسے گیس لیمپوں کے ذریعے روشن کرنے کا مشورہ دیا گیا لیکن اس وقت تکنیکی اعتبار سے یہ ڈیزائن ممکن نہ تھا۔1880ء کی دہائی میں ٹنل کے کچھ حصے بنائے گئے لیکن برطانوی فوج کے اس خدشے اور اعتراض کی بنا پر کہ اس کے ذریعے برطانیہ پر بیرونی حملہ آسان ہو جائے گا حکومت نے یہ منصوبہ ترک کر دیا۔

1974ء میں دوبارہ یہ منصوبہ شروع ہوا لیکن مالی مشکلات کی وجہ سے ملتوی کرنا پڑا۔ اس کے بعد جب برطانیہ ” کامن مارکیٹ‘‘ (سابقہ نام ” یورپی یونین‘‘) میں شامل ہوا تو ایک مستقل راستے کی ضرورت محسوس ہوئی چناچہ 1986ء میں برطانیہ اور فرانس کے ایک مشترکہ کنسورشیم ” یورو ٹنل‘‘ کو اس کی تعمیر کا ٹھیکہ دے دیا گیا کہ وہ گاڑیوں کی ترسیل کیلئے ایک ریل شٹل سروس اور ایک مسافر ٹرین کیلئے سرنگیں تیار کرے، چناچہ 1994ء میں یہ منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچا۔ سمندر کی تہہ سے تقریبا ً150 فٹ نیچے واقع چینل ٹنل بیسویں صدی میں انجینئرنگ کا اہم ترین کارنامہ ہے۔ جب یہ منصوبہ شروع کیا گیا تو اس وقت یہ دنیا کا سب سے مہنگا تعمیراتی منصوبہ تھا جس کی تکمیل پر 21 ملین ڈالر لاگت آئی۔ یہ اخراجات گولڈن گیٹ برج کی تعمیر پر ہو نے والے اخراجات سے 700 گنا زیادہ تھے۔

اس چینل کی تعمیر کے لئے جو بورنگ مشینیں استعمال ہوئیں وہ خود فٹ بال کے دو گراؤنڈز کی لمبائی سے زیادہ تھیں اور روزانہ 250 فٹ بورنگ کر سکتی تھیں۔ چینل ٹنل 50 کلومیڑ لمبی ہے جس میں سے 39 کلومیٹر لمبی سرنگ سمندر کی تہہ کے نیچے ہے۔ پہلے پانچ سالوں میں یہاں سے گزرنے والی ٹرینوں سے 28 ملین مسافروں نے سفر کیا اور 12 ملین ٹن سے زیادہ سامان ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچایا گیا۔ آج اس ٹنل میں سے ٹرینیں 100 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گزرتی ہیں جنہیں ایک سرے سے دوسرے سرے تک سرنگ پار کرنے میں صرف 20 منٹ لگتے ہیں۔ اس چینل کے افتتاح کے صرف ایک سال بعد ہی یہاں پہلا حادثہ پیش آیا جب فرانس سے آنے والی ٹرین میں آگ لگ گئی اور 31 مسافر یہاں پھنس گئے لیکن سروس (ایمر جنسی) ٹنل کی وجہ سے تمام لوگ بحفاظت یہاں سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔

عبدالوحید

بشکریہ دنیا نیوز

پاکستانی پاسپورٹ ٹکے سیر کیسے ہوا؟

جدید پاسپورٹ کی عمر محض سو برس ہے۔ جب پہلی عالمی جنگ کے نتیجے میں جنگ سے متاثر لاکھوں لوگوں کی نقلِ مکانی اور آبادکاری کا مسئلہ درپیش ہوا تو لیگ آف نیشنز کے انیس سو بیس کے ایک خصوصی اجلاس میں رکن ممالک نے اس مسئلے سے بخوبی نپٹنے کے لیے راہداری کے اجازت نامے سے متعلق طرح طرح کی تجاویز پیش کیں۔ طے پایا کہ ایک ایسی دستاویز ریاستی سطح پر متعارف کروائی جائے جسے لیگ کے تمام رکن ممالک باہم تسلیم کریں۔ اس سفری دستاویز پر شہری کی تصویر اور بنیادی معلومات درج ہوں اور اس میں اتنے صفحات ہوں کہ آمد ورفت کے ریکارڈ کی خاطر مہر لگانے یا تحریری نوٹ درج کرنے کی گنجائش ہو۔ یوں امریکا انیس سو چوبیس کے امیگریشن ایکٹ کے تحت پہلا ملک بنا جس نے جدید پاسپورٹ اپنایا۔ اس پہل کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ کسی بھی بحران کے سبب یا بہتر زندگی کی تلاش میں سب سے زیادہ پناہ گزین امریکا کا رخ کرتے تھے۔

بھانت بھانت کے ان لوگوں کے بارے میں اندازہ نہیں تھا کہ کتنے جرائم پیشہ ہیں اور کتنے قانون پسند۔ چنانچہ نہ صرف امریکا نے اپنے شہریوں کے لیے بلکہ غیرملکیوں کے لیے بھی ایسی دستاویز کی شرط عائد کر دی جو ان کی ریاست نے جاری کی ہو۔ جو بھی یہ دستاویز دکھاتا اس پر نیویارک اور سان فرانسکو سمیت کسی بھی امیگریشن کے لیے نامزد بندرگاہ یا سرحدی راہ گزر پر پہنچتے ہی آمد کا ٹھپہ لگا دیا جاتا۔ ابتدا میں آنے والوں کے قیام کی مدت غیر معینہ تھی۔ رفتہ رفتہ ویزہ جاری ہونے لگا۔ اس سے پہلے ہزاروں برس سے انسان سرحدوں کے درمیان آزادانہ نقل و حرکت کے عادی تھے۔ سیاحت و تفریح کے لیے بیرونِ ملک جانے کا کوئی تصور نہیں تھا۔ فاصلے طویل اور انجان تھے۔ اقوام ایک دوسرے کے بارے میں زیادہ تر سنی سنائی معلومات رکھتی تھیں۔ تاجر طبقہ ، سرکاری عہدیدار، ظلم و ستم کے مارے یا پھر مفرور لوگ ہی ایک ملک سے دوسرے ملک آتے جاتے تھے۔ان کے کوائف متعلقہ کوتوال یا ناظم کے پاس درج ہو جاتے اور یوں انھیں قیام اور پناہ کا حق مل جاتا۔

پاسپورٹ دراصل بیسویں صدی میں انسان کے انسان پر شکوک و شبہات اور بین الاقوامی بدظنی کی دستاویزی پیداوار ہے۔ مگر پاسپورٹ پر سفر چند عشروں پہلے تک بہت آسان تھا۔ ویزے کے لیے اتنے زیادہ دستاویزی ثبوت مہیا نہیں کرنے پڑتے تھے۔ زبان پر زیادہ اعتبار تھا۔ اور ویزہ پیشگی لینے کی بھی ضرورت نہیں ہوا کرتی تھی۔ پاکستانی پاسپورٹ پر انیس سو پینسٹھ کی جنگ تک سوائے سوویت یونین اور مشرقی یورپ کی کیمونسٹ ریاستوں کے بھارت سمیت ہر ملک کے لیے پیشگی ویزے کے بغیر سفر کیا جا سکتا تھا۔ پینسٹھ کی جنگ کے بعد پاکستان اور بھارت نے اپنے اپنے شہریوں کے لیے پیشگی ویزہ حاصل کرنے کی شرط عائد کی اور وقت کے ساتھ ساتھ شرائط میں سختی بڑھتی چلی گئی۔ انیس سو ستر میں امریکا نے پاکستانی پاسپورٹ پر آن ارائیول ویزہ ختم کر کے پیشگی ویزہ حاصل کرنے کی شرط عائد کر دی۔

انیس سو بہتر میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے عام آدمی کے لیے پاسپورٹ کے حصول کا طریقِ کار انتہائی سہل بنا دیا۔ اس کے سبب خلیجی ممالک میں روزگار کے حصول کے لیے عام پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد سفر کرنے کے قابل ہوئی۔بھٹو سے پہلے عام شہری کو بین الاقوامی پاسپورٹ اتنی آسانی سے جاری نہیں ہوتا تھا۔ اسے صرف حج پاسپورٹ سہل انداز میں جاری ہوتا تھا۔ انیس سو چوہتر میں پاکستانی پاسپورٹ پر ایک اضافی مہر لگنا شروع ہوئی کہ یہ دستاویز سوائے اسرائیل اور جنوبی افریقہ کے ہر ملک کے سفر کے لیے کارآمد ہے۔ ( آج اسرائیل واحد ملک ہے جہاں پاکستانی پاسپورٹ پر جانے کی اجازت نہیں )۔ انیس سو اناسی میں افغان خانہ جنگی کے دوران مغربی ممالک اور ضیا حکومت میں ایک طرف یاریاں بڑھیں تو دوسری جانب انیس سو تراسی میں برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک نے پاکستانی پاسپورٹ پر سفر کے لیے آن ارائیول ویزے کی سہولت ختم کر دی۔ اور پھر رفتہ رفتہ یہ سہولت برادر خلیجی ممالک نے بھی واپس لے لی۔

نائن الیون کے بعد یہ بے توقیری مزید بڑھی۔ جیسے جیسے بین الاقوامی سطح پر دھشت گردی میں پاکستانی شہریوں کے ملوث ہونے یا انسانی اسمگلنگ و منشیات کی گذرگاہ کا تاثر جڑ پکڑتا گیا۔ پاکستانی پاسپورٹ کا اثر بھی سکڑتا چلا گیا۔ وہ پاسپورٹ جو چالیس برس پہلے کسی بھی ترقی یافتہ ملک کے پاسپورٹ کا ہم پلہ تھا۔آج یہ حال ہے کہ اس پر ایک سو ننانوے ممالک میں سے صرف بتیس ممالک کے لیے بغیر پیشگی ویزے کے سفر ممکن ہے۔ جب کہ بنگلہ دیش کے پاسپورٹ پر اکتالیس اور بھارت کے پاسپورٹ پر اکسٹھ ممالک کا بنا پیشگی ویزہ سفر ممکن ہے۔ پاکستان سے نیچے صرف شام، عراق اور افغانستان ہیں۔ جن کے شہری علی الترتیب تیس ، انتیس اور ستائیس ممالک میں بنا پیشگی ویزے کے داخل ہو سکتے ہیں۔ دو ہزار اٹھارہ کی فہرست میں ہم نیچے سے پانچویں تھے مگر ایک اور ملک نے پیشگی ویزے کی سہولت واپس لے لی اور اب ہم نیچے سے چوتھے نمبر پر ہیں۔ اور یہ رینکنگ کم و بیش دو ہزار سولہ کے بعد سے مسلسل برقرار ہے۔

پاکستانی پاسپورٹ ہولڈرز اس وقت اٹھائیس ممالک کے پیشگی ای ویزہ کے لیے آن لائن اپلائی کر سکتے ہیں (اینٹی گوا اینڈ باربادوس ، سورینام، بولیویا، سینٹ کٹس اینڈ نیوس ، ساؤتھ تومپ اینڈ پرنسپی، ایتھوپیا ، کانگو ، ڈی آر سی ، آئیوری کوسٹ ، گنی ، جنوبی افریقہ ، زمبیا ، زمبابوے ، بینن ، کینیا ، مڈغاسگر ، روانڈا، لیسوتھو ، ملاوی ، یوگنڈا ، کرغزستان ، تاجکستان ، آزر بائیجان ، ملیشیا ، میانمار ، کمبوڈیا ، یواے ای ، بحرین )۔ بیس ممالک میں ای ویزے کے ساتھ ساتھ ویزہ آن آرائیول کی سہولت ہے ( بینن ، کینیا ، مڈغاسگر ، روانڈا ، یوگنڈا ، پالاؤ ، برونائی ، برونڈی ، کیپ ویردی ، کوموروز ، گنی بساؤ ، مالدیپ ، ماریطانیہ ، نیپال ، سیشلز ، سیرالیون ، صومالیہ ، ٹوگو ، توالو ، بولیویا )۔ جب کہ دس ممالک میں پاکستانی ویزا فری داخل ہو سکتے ہیں ( قطر ، بیلاروس ، ڈومنیکا ، ڈومینیکن ری پبلک، ہیٹی ، مائکرو نیشیا ، سینٹ ونسنٹ اینڈ دی گریناڈائز ، سمووا ، ٹرینڈاڈ اینڈ ٹوباگو ، ونوتو)۔

دل پے ہاتھ رکھ کے بتائیے گا کہ مذکورہ ویزہ فری دس ممالک میں سوائے قطر کے کتنے پاکستانی باقی نو مقامات کی سیر ، روزگار یا تعلیم کے لیے جانا چاہتے ہیں۔ جب کہ پاکستان میں پینسٹھ ممالک کے باشندے ویزا آن آرائیول کی سہولت سے مستفید ہو سکتے ہیں۔ اور ہم ہیں کہ اپنے باشندوں کے لیے ان پینسٹھ ممالک سے بھی ویزا آن ارائیول کی سہولت نہ منوا سکے۔

وسعت اللہ خان

بشکریہ ایکسپریس نیوز

پیسا مینار، اپنی تعمیر کے فوراً بعد ہی جھکنا شروع ہو گیا

پیسا کا صحیح تلفظ اطالوی زبان میں ”پیزا‘‘ ہے۔ یہ وسطی اٹلی کا شہر ہے جو دریائے آرنو کے قریب واقع ہے۔ گیارہویں صدی کے آخر تک پیسا ایک طاقتور جمہوریہ بن چکا تھا۔ تیرہویں صدی عیسوی میں یہاں مجسمہ سازی کا ایک دبستان تھا جس کا بانی نیکولا پیزانو تھا۔ گیلیلیو گلیلی بھی اسی جگہ پیدا ہوا۔ پیسا مینار دنیا بھر میں پیسا کا ٹیڑھا یا خمیدہ مینار کہلاتا ہے۔ اس ٹیڑھے مینار نے پیسا شہر کو بڑی شہرت بخشی۔ 190 فٹ بلند یہ مینار جو عجائبات عالم میں شامل ہے اپنی تعمیر کے فوراً بعد ہی جھکنا شروع ہو گیا تھا۔ اب یہ عمود سے 14 فٹ ہٹا ہوا ہے۔ برطانیہ کی شاہی یادگاروں کی سوسائٹی کے ارکان ہر سال اس کے جھکائو کی پیمائش کرتے ہیں۔ ہر سال یہ مینار ایک انچ ضرور جھکتا ہے۔ اس مینار کی تعمیر کا مقصد کلیسا کے لئے گھنٹی گھر تھا تا کہ آواز سن کر لوگ عبادت کے لئے پہنچیں۔ اس کی تعمیر کا آغاز تو 1174ء میں ہوا تھا مگر تکمیل 1350ء میں ہوئی۔

اس کی جنوبی بنیاد ریت میں رکھی گئی اور ابھی بمشکل تین گیلریاں بنی تھیں کہ یہ مینار جھکنا شروع ہو گیا۔ پھر اس کی تعمیر کے منصوبے میں کچھ ردوبدل کیا گیا۔اسی چوک میں کلیسا بھی ہے۔ یہ دونوں عمارتیں رومن فن تعمیر کا اعلیٰ نمونہ ہیں ۔ قریب ہی قدیم قبرستان موجود تھا۔ اس قبرستان کے تقدس میں اضافے کے لئے یروشلم سے 35 جہازوں میں مٹی منگوائی گئی۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ شہرہ آفاق یادگار ”نیم دراز ‘‘ ہو گئی تھی۔ پوری دنیا کے لوگ اس مینار کے گرنے کے منتظر تھے۔ ہزاروں سیاح اسے دیکھنے آتے تھے۔ تقریباً دس سال تک اس مینار پر انسانی قدم نہیں پڑے تھے۔ یہ صورتحال اٹلی کی حکومت کے لئے تکلیف دہ تھی۔ بالآخر انہوں نے اس مینار کو سیدھا کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ چاہتے تھے کہ یہ یادگار کم از کم 16 انچ سیدھی ہو جائے تاکہ اس کی وجہ شہرت یعنی اس کا مشہور ٹیڑھاپن بھی برقرار رہے اور اس کے زمین بوس ہو نے کا خطرہ بھی نہ رہے۔

اس مینار کو سیدھا کرنے کا کام پولینڈ کے ماہر تعمیرات اور انجینئر مائیکل سیموئیل کوسکی کی سربراہی میں ماہرین کی ایک ٹیم کو سونپا گیا۔ ماہرین کی اس ٹیم نے مینار کے جھکائو کے مخالف سمت میں کھدائی کی۔ ٹیم نے 18 ماہ تک جانفشاتی سے کام کیا اور بالآخر کوششیں رنگ لائیں اور یہ مینار 12 سینٹی میٹر تک سیدھا ہو گیا۔ حیرت انگیز بات یہ کہ گزشتہ 800 سال سے اس شاندار مینار کو سیدھا کرنے کی کوشش ناکام ہو رہی تھی مگر جذبوں کے آگے اس مینار نے اپنی ضد چھوڑ دی اور سیدھا ہونے پر آمادہ ہو گیا۔ مینار کو سیدھا کرنے میں اور اس کا جھکاو کم کرنے میں تقریبا 26 ملین ڈالر کی لاگت آئی۔ مینار کو سیدھا کرنے کی کوششیں جزوی طور پر بار آور ثابت ہوئیں تو حکومت نے اعلان کیا کہ یہ مینار پہلے مرحلے پر بچوں کے لئے کھول دیا جائے، دنیا بھر کے لوگوں کو شدت سے انتظار تھا کہ یہ کھولا جائے۔

ان کا یہ انتظار رنگ لایا اور 17 جون 2000ء کو روم یونیورسٹی کے 200 طلباء نے مینار کی 293 سیڑھیاں چڑھ کر اس کی مضبوطی اور استحکام کا ثبوت دنیا کے سامنے پیش کیا۔ پیسا کا علاقہ سیاحوں کے لئے کشش کا باعث ہے۔ جن دنوں پیسا رومن کالونی تھا اُن دنوں کے کھنڈرات باقی ہیں۔ ان کھنڈرات کو محفوظ کر لیا گیا ہے۔ اس شہر کی تاریخی اہمیت اس وقت مزید بڑھ گئی جب گیارہویں صدی عیسوی میں اس پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا۔ 1284ء میں میلور کے پرے بحری لڑائی میں شکست کے بعد اس کی اہمیت کم ہو گئی۔ 1406ء میں فلورنس نے اسے فتح کر لیا ۔1859ء میں پیسا اٹلی کا حصہ بن گیا۔

مزمل حسین عابر

بشکریہ دنیا نیوز

ہنگول : جنگلی حیات کی جنت, پاکستان کا سب سے بڑا قومی پارک

ہم میں سے بہت لوگ سرکاری سر پرستی کے ہر پارک کو قومی یا نیشنل پارک سمجھتے ہیں۔ جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ عالمی یونین برائے قدرتی تحفظ ( آئی یو سی این ) کے مطابق، ” ہر وہ پارک یا علاقہ قومی پارک کہلانے کا حق محفوظ رکھتا ہے جو نایاب بناتات، آبی اور جنگلی حیات کو ایسا موافق ماحول فراہم کرتا ہو جو ان کی بقا کا ضامن ہو۔ یہاں نہ کوئی درخت کاٹ سکتا ہو ، نہ جانوروں کا شکار اور نہ ہی یہاں کسی قسم کی کھدائی کر سکتا ہو۔ گویا یہاں فطرت اور قدرت کا قانون ہی نافذ ہوتا ہو۔

قومی پارکوں کی اہمیت: اس حقیقت سے تو انکار ممکن نہیں کہ سمندروں اور جنگلات کے بعد قومی پارک ہی ہیں جن کی بدولت انواع و اقسام کی آبی اور خشکی کی مخلوق کو قدرتی اور فطری ماحول میں پھلنے پھولنے کے مواقع میسر آتے ہیں۔یہاں یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ حیاتیاتی تنوع کے عالمی معاہدے کے تحت پاکستان اس بات کا پابند ہے کہ وہ آبی اور زمینی مخلوق کی بقا کے لئے محفوظ علاقوں میں بالترتیب 10 سے 15 فیصد تک اضافہ کرے۔ دنیا میں قومی پارک کا تصور سب سے پہلے 1810ء میں ولیم ورڈز ورتھ نے دیا تھا۔ جبکہ دنیا کا سب سے پہلا قومی پارک 1872 میں ” ییلو سٹون نیشنل پارک ‘‘ کے نام سے امریکہ میں قائم کیا گیا تھا۔ اس وقت دنیا میں ساڑھے چھ ہزار کے لگ بھگ قومی پارکس ہیں جن میں سب سے بڑا پارک ” گرین لینڈ نیشنل پارک ‘‘ ہے۔ پاکستان میں اگرچہ اس وقت مجموعی طور پر 28 قومی پارک ہیں جن میں کیتھر قومی پارک، لال سوہانرا قومی پارک، خنجراب قومی پارک، چترال گول قومی پارک ، مارگلہ ہل قومی پارک، دیو سائی قومی پارک وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

پاکستان کا سب سے بڑا قومی پارک : ہنگول قومی پارک پاکستان کے سب سے بڑے قومی پارک کا اعزاز یوں رکھتا ہے کہ یہ 6 لاکھ 19 ہزار ایکڑ رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ یہ پارک کراچی سے 190 کلومیٹر کے فاصلے پر بلوچستان کی ساحلی پٹی پر واقع ہے۔ اس پارک کا نام اس کے جنوبی حصے میں بہنے والے دریائے ہنگول کے نام پر رکھا گیا ہے۔ اس پارک کو 1988ء میں قومی پارک کا درجہ دیا گیا تھا۔

دریائے ہنگول چونکہ بحیرہء عرب کے ساحل کے ساتھ بہتا ہے اس لئے اسے یہ انفرادیت حاصل ہے کہ یہ بہت بڑی تعداد میں آبی پرندوں اور سمندری حیات کی محفوظ پناہ گاہ کا درجہ رکھتا ہے۔ اس لحاظ سے یہ پاکستان کا واحد قومی پارک ہے جو بیک وقت بلوچستان کے تین اضلاع آواران ، گوادر اور لسبیلہ تک پھیلا ہوا ہے۔ اسی پر ہی بس نہیں بلکہ یہ اس لحاظ سے بھی ایک منفرد پارک ہے کہ یہ بیک وقت چار مختلف نوعیت کے ماحولیاتی نظام پر مشتمل ہے۔ اس میں دیکھنے کو جہاں صحرا ملیں گے وہیں آپ کو طویل پہاڑی سلسلہ بھی نظر آئے گا۔ ایک حالیہ سروے کے مطابق یہ پارک 289 کے لگ بھگ حیواناتی حیات اور 257 کے لگ بھگ نباتاتی انواع کا مسکن ہے۔ یہ اس لحاظ سے بھی ایک بڑا پارک ہے کہ اس میں آبی حیات، سمندروں اور خشکی پر رہنے والے جانور بشمول دنیا بھر سے آئے سینکڑوں قسم کے نایاب نسل کے پرندے کثرت سے شامل ہیں۔

اس سے بڑھ کر اس پارک کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہ دنیا بھر میں معدومیت کی جانب جاتی آبی اور زمینی مخلوق اور نایاب پرندوں کی بہت بڑی محفوظ پناہ گاہ کی شناخت کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اس پارک کو جنگلی حیات کی جنت بھی کہتے ہیں۔ مارخور جو پاکستان کا قومی جانور کہلاتا ہے یہاں کی ماحول دوست فضا میں کثرت سے پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اڑیال، چنکارہ، بارہ سنگھا، پہاڑی بکرا، لومڑی ، گیدڑ، جنگلی بلی، وغیرہ بھی فراوانی سے چلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ رینگنے والے جانوروں میں دلدلی مگر مچھ , لمبی چھپکلی, موٹی زبان والی عجیب شکل کی چھپکلی, عجیب وغریب اقسام کے کچھوے, کوبرا ناگ اور دیگر بے شمار زمینی مخلوق ہر سو متحرک نظر آتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان گنت اقسام کی مچھلیوں کے علاوہ بے شمار آبی جانور پانی میں تیرتے نظر آتے ہیں جہاں تک نباتات کا تعلق ہے ہنگول پارک میں بے شمار نایاب جڑی بوٹیاں ہر لمحہ مقامی طبیبوں اور علاقے کے باسیوں کی توجہ کا مرکز بنی رہتی ہیں۔

سیروسیاحت کے شائقین کہتے ہیں، اگر آپ جنگلی حیات کو قریب سے دیکھنے کے آرزو مند ہیں تو پاکستان میں ہنگول قومی پارک سے زیادہ موزوں اور کوئی جگہ نہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اس قومی پارک میں ایک خوبصورت جھیل بھی اس کے حسن میں اضافہ کرتی نظر آتی ہے جسے ” ہنگول جھیل ‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

مٹی فشاں : یہاں کی ایک منفرد دریافت مٹی فشاں ہیں جو اب رفتہ رفتہ دریافت ہوتے جا رہے ہیں۔ ان کے بارے قیاس کیا جاتا ہے کہ یہ زمانہء قدیم سے ہندو مت کے لئے مقدس جانے جاتے تھے۔ ان میں سے ایک مٹی فشاں کا نام ہندو عقیدت مندوں نے ” چندر گپ ‘‘ رکھا ہوا ہے۔ ہندو یاتری ابھی بھی دور دراز سے آ کر چڑھاوے کے طور پر اس میں ناریل ڈالتے رہتے ہیں۔

امید کی شہزادی : ہنگول پارک میں صدیوں سے چلتی آ رہی بڑی بڑی اور بلند و بالا پہاڑیاں اپنی ایک الگ شناخت رکھتی ہیں۔ ان پہاڑیوں نے جغرافیائی تبدیلیوں کے باعث اکثر مقامات پر انواع و اقسام کی قدرتی اشکال کا روپ دھار رکھا ہے۔ ایسے میں جب آپ کی نظریں انتہائی بلندی پر مغربی لباس میں ملبوس ایک خاتون کے مجسمے پر پڑتی ہیں تو آپ ششدر رہ جاتے ہیں۔ یہ مجسمہ جسے معروف اداکارہ انجلینا جولی نے 2004ء میں جب اپنے دورہء پاکستان میں پہلی مرتبہ دیکھا تو اس کے منہ سے بے اختیار ” پرنسس آف ہوپ نکلا۔ اسی دن سے اس پر کشش اور منفرد مجسمے کا نام ” امید کی شہزادی یا پرنسس آف ہوپ پڑ گیا۔

نانی ہنگلاج مندر : ہنگول پارک میں واقع ہنگلاج مندر ہندوؤں کا سب سے قدیم مندر ہے جس کے بارے تاریخ کی کتابوں میں سکندر اعظم کے جنرل موز کے حوالے سے پتہ چلا ہے جب اس نے ایک دفعہ یہاں کئی ہزار یاتریوں کو عبادت کرتے دیکھا تو اس نے کوئی مداخلت نہ کی۔ جس سے اس قیاس کو تقویت ملتی ہے کہ یہ اس سے بھی کہیں قدیم دور پہلے تک موجود تھا۔ موجودہ دور میں یہ ہندو مت کی ایک اہم عبات گاہ اور اہم مندر تصور ہوتا ہے ۔

کنڈ ملیر کا ساحل: ہنگول قومی پارک سے تھوڑا پہلے ” کنڈ ملیر‘‘ نامی ایک انتہائی خوبصورت ساحل ہے جو قدرتی مناظر اور دلفریب نظاروں سے مالا مال ہے۔ ہنگول قومی پارک کے پہاڑوں کے درمیان موجود پر کشش درخت وہاں کی خوبصورتی میں اور اضافہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان درختوں کے درمیان بل کھاتی ہنگول جھیل اس پارک کی خوبصورتی میں چار چاند لگاتی نظر آتی ہے۔

خاور نیازی

بشکریہ دنیا نیوز

شاہراہ ریشم، ایک عجوبہ جسے مغربی انجینئرز نہ بنا سکے

پاکستان اور چین کے درمیان لازوال دوستی ہے اور اس دوستی کی ایک مثال شاہراہ قراقرم ہے، اسے دوستی کی شاہراہ بھی کہا جاسکتا ہے ۔ یہ شاہراہ کیا ہے؟ بس عجوبہ ہی عجوبہ ہے! کہیں دلکش تو کہیں پراسرار، کہیں پُرسکون تو کہیں بل کھاتی شور مچاتی، کہیں سوال کرتی تو کہیں جواب دیتی۔ اسی سڑک کنارے صدیوں سے بسنے والے لوگوں کی کہانیاں سننے کا تجسس تو کبھی سڑک کے ساتھ ساتھ پتھروں پر سر پٹختے دریائے سندھ کی تاریخ جاننے کا تجسس !! شاہراہ قراقرم کی تعمیر کا آغاز 1966ء میں ہوا اور تکمیل 1979ء میں ہوئی۔ اس کی کُل لمبائی 1300 کلومیٹر ہے جسکا 887 کلو میٹر حصہ پاکستان میں اور 413 کلومیٹر چین میں ہے۔ یہ شاہراہ پاکستان میں حسن ابدال سے شروع ہوتی ہے اور ہری پور ہزارہ، ایبٹ آباد، مانسہرہ، بشام، داسو، چلاس، جگلوٹ، گلگت، ہنزہ نگر، سست اور خنجراب پاس سے ہوتی ہوئی چین میں کاشغر کے مقام تک جاتی ہے۔

اس سڑک کی تعمیر نے دنیا کو حیران کر دیا کیونکہ ایک عرصے تک دنیا کی بڑی بڑی کمپنیاں یہ کام کرنے سے عاجز رہیں۔ ایک یورپ کی مشہور کمپنی نے تو فضائی سروے کے بعد اس کی تعمیر کو ناممکن قرار دے دیا تھا۔ موسموں کی شدت، شدید برف باری اور لینڈ سلائیڈنگ جیسے خطرات کے باوجود اس سڑک کا بنایا جانا بہرحال ایک عجوبہ ہے جسے پاکستان اور چین نے مل کر ممکن بنایا۔ اس کی تعمیر میں 810 پاکستانی اور 82 چینی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ شاہراہ قراقرم کے سخت اور پتھریلے سینے کو چیرنے کے لیے 8 ہزار ٹن ڈائنامائیٹ استعمال کیا گیا اور اسکی تکمیل تک 3 کروڑ میٹر سنگلاخ پہاڑوں کو کاٹا گیا۔ شاہراہ قراقرم کا نقطہ آغاز ضلع ہزارہ میں ہے جہاں کے ہرے بھرے نظارے اور بارونق وادیاں تھاکوٹ تک آپ کا ساتھ دیتی ہیں۔ تھاکوٹ سے دریائے سندھ بل کھاتا ہوا شاہراہ قراقرم کے ساتھ ساتھ جگلوٹ تک چلتا ہے پھر سکردو کی طرف مڑ جاتا ہے۔

تھاکوٹ کے بعد کوہستان کا علاقہ شروع ہو جاتا ہے جہاں جگہ جگہ دور بلندیوں سے اترتی پانی کی ندیاں سفر کو یادگار اور دلچسپ بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ کوہستان کے بعد چلاس کا علاقہ شروع ہوتا ہے جو کہ سنگلاخ پہاڑوں پر مشتمل علاقہ ہے۔ چلاس ضلع دیا میر کا ایک اہم علاقہ ہے اسکو گلگت بلتستان کا دروازہ بھی کہا جاتا ہے۔ ناران سے بذریعہ بابو سر ٹاپ بھی چلاس تک پہنچا جا سکتا ہے۔ چلاس کے بعد شاہراہ قراقرم نانگا پربت کے گرد گھومنے لگ جاتی ہے اور پھر رائے کوٹ کا پل آجاتا ہے یہ وہی مقام ہے جہاں سے کورونا سے قبل فیری میڈوز اور نانگا پربت بیس کیمپ جانے کے لیے جیپیں کرائے پر ملتی تھیں۔ رائے کوٹ کے بعد نانگا پربت، دریائے سندھ اور شاہراہ قراقرم کا ایک ایسا حسین امتزاج بنتا ہے کہ جو سیاحوں کو کچھ وقت کے لیے خاموش ہونے پر مجبور کر دیتا ہے۔اس کے بعد گلگت ڈویژن کا آغاز ہو جاتا ہے جس کے بعد پہلا اہم مقام جگلوٹ آتا ہے جگلوٹ سے استور، دیوسائی اور سکردو بلتستان کا راستہ جاتا ہے۔

جگلوٹ کے نمایاں ہونے میں ایک اور بات بھی ہے کہ یہاں پر دنیا کے تین عظیم ترین پہاڑی سلسلے کوہ ہمالیہ، کوہ ہندوکش اور قراقرم اکھٹے ہوتے ہیں اور دنیا میں ایسی کوئی جگہ نہیں جہاں تین بڑے سلسلے اکھٹے ہوتے ہوں۔ جگلوٹ کے بعد شمالی علاقہ جات کے صدر مقام گلگت شہر کا آغاز ہوتا ہے جو تجارتی، سیاسی اور معاشرتی خصوصیات کے باعث نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ نلتر، اشکومن، غذر اور شندور وغیرہ بذریعہ جیپ یہیں سے جایا جاتا ہے۔ گلگت سے آگے نگر کا علاقہ شروع ہوتا ہے جس کی پہچان راکا پوشی چوٹی ہے۔ آپکو اس خوبصورت اور دیو ہیکل چوٹی کا نظارہ شاہراہ قراقرم پر جگہ جگہ دیکھنے کو ملے گا۔ نگر اور ہنزہ شاہراہ قراقرم کے دونوں اطراف میں آباد ہیں۔ یہاں پر آکر شاہراہ قراقرم کا حسن اپنے پورے جوبن پر ہوتا ہے۔ ایسا ہو نہیں سکتا کہ شاہراہ کے اس مقام پر پہنچ کر کوئی سیاح حیرت سے اپنی انگلیاں دانتوں میں نہ دباتا ہو۔ ”پاسو کونز‘‘ اس بات کی بہترین مثال ہے۔

ہنزہ اور نگر کا علاقہ نہایت خوبصورتی کا حامل ہے۔ بلند چوٹیاں، گلیشیئرز، آبشاریں اور دریا اس علاقے کا خاصہ ہیں۔ اس علاقے کے راکاپوشی، التر، بتورہ، کنیانگ کش، دستگیل سر اور پسو نمایاں پہاڑ ہیں۔ عطا آباد کے نام سے 21 کلومیٹر لمبائی رکھنے والی ایک مصنوعی لیکن انتہائی دلکش جھیل بھی ہے جو کہ پہاڑ کے گرنے سے وجود میں آئی۔ سست کے بعد شاہراہ قراقرم کا پاکستان میں آخری مقام خنجراب پاس آتا ہے۔ سست سے خنجراب تک کا علاقہ بے آباد، دشوار پہاڑوں اور مسلسل چڑھائی پر مشتمل ہے۔ خنجراب پاس پر شاہراہ قراقرم کی اونچائی 4693 میٹر ہے اسی بنا پر اسکو دنیا کی بلند ترین شاہراہ کہا جاتا ہے۔ خنجراب میں دنیا کے منفرد جانور پائے جاتے ہیں جس میں مارکو پولو بھیڑیں، برفانی چیتے، مارموٹ، ریچھ، یاک، مارخور اور نیل گائے وغیرہ شامل ہیں۔ اسی بنا پر خنجراب کو نیشنل پارک کا درجہ مل گیا ہے۔ اس سڑک پر آپ کو سرسبز پہاڑوں کے ساتھ ساتھ پتھریلے و بنجر پہاڑی سلسلے اور دیوقامت برفانی چوٹیوں، دریاؤں کی بہتات، آبشاریں، چراگاہیں اور گلیشیئرز سمیت ہر طرح کے جغرافیائی نظارے دیکھنے کو ملتے ہیں جو نا صرف آپکا سفر خوبصورت بناتے ہیں بلکہ آپ کے دل و دماغ پر گہرا اثر چھوڑتے ہیں۔ شاہراہِ قراقرم محض ایک سڑک نہیں ہے بلکہ یہ پاک چین دوستی کی اعلیٰ مثال ہے ۔

طیب رضا عابدی

بشکریہ دنیا نیوز

بلوچستان کے دلفریب سیاحتی مقامات

ویسے تو دنیا بھر میں ساحل سمندر ایک تفریح کی جگہ ہوتے ہیں لیکن کراچی کا ساحل سمندر آنے والے لوگ گندا کر دیتے ہیں۔ اس لئے کراچی کا ساحل سمندر تفریحی پوائنٹ ہونے کے باوجود لوگ دوسری جگہوں پر جانا زیادہ پسند کرتے ہیں ۔ ان میں ایک کنڈ ملیر بھی ہے۔ ہنگول نیشنل پارک اور قریبی کنڈ ملیر ساحل سمندر ہفتے کے آخر میں جانے کے لئے دلچسپ جگہ ہے۔ یہ علاقہ 6،100 مربع کلومیٹر ویران، سب ٹراپیکل چٹان اور پہاڑی علاقے میں پھیلا ہوا ہے۔ وسیع و عریض رقبے میں ریت بھی شامل ہے۔ کوسٹل ہائی وے ساحل سمندر کے ساتھ بھی چلتی ہے۔ پارک کے علاقے میں دریائے ہنگول اور بہت زیادہ نباتات اور حیوانات شامل ہیں۔ سندھ ایبیکس ، چنکارا گزیل ، ہندوستانی لومڑی، اور جنگل کی بلی ، پرندے ، رینگنے والے جانوریہاں موجود ہوتے ہیں۔

مارخور جانور بھی ملتا ہے۔ یہاں ایک کیچڑ کا آتش فشاں اور مشہور راجکماری کی چٹان کی تشکیل بھی ہے۔ ایک بار پارک کی کھوج کے ساتھ سیاح آرام کرنے کے لئے قدیم کنڈ ملیر کے ساحل پر جاسکتے ہیں۔ کنڈ ملیر کا صاف شفاف نیلگوں پانی اور پھر کنڈ ملیر سے تھوڑا آگے جائیں تو گولڈن بیچ بھی آتا ہے، اس کا ساحل سنہرے رنگ کا ہے، اس لئے اسے گولڈن بیچ کہتے ہیں ۔ یہاں سہولیات کم ہیں ، اس لئے لوگ رات گزارنے کیلئے اپنے ساتھ سرچ لائٹس اور جنریٹر لے کر جاتے ہیں ۔ یہاں ہٹس بھی ملتے ہیں لیکن وہ بہت مہنگے ہیں البتہ آپ کم پیسوں میں کیمپنگ کر سکتے ہیں۔ یہاں کا ساحل کراچی کے مقابلے میں بہت پرسکون اور صاف ستھرا ہے ۔

کوسٹل ہائی وے پر واقع یہ ساحل سمندر خوبصورت نظارہ پیش کرتا ہے۔ حکومت چاہے تو اس ساحل پر سیاحت کو فروغ دیا جاسکتا ہے ۔ دوسرا تفریحی مقام کراچی سے 530 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع مولا چھوٹوک نخلستان، بلوچستان کے ضلع خضدار میں، پہاڑوں اور صحراؤں سے گھرا ہوا ہے۔ کراچی سے اس خفیہ جنت تک پہنچنے کے لئے کوئٹہ سے خضدار تک جائیں، اور پھر پہاڑی کی بنیاد تک 4×4 گاڑی میں سفر جاری رکھیں۔ وہاں سے، صاف بہار کے پانی کے ساتھ وادیوں کی ایک بھولبلیاں میں دس منٹ کی اضافے سے آخر میں چشموں کا قدرتی تالاب کھل جاتا ہے۔ تالاب میں تیراکی کریں ، پتھریلی ڈھلوانوں کو نیچے سلائیڈ کریں اور تازہ پانی کے فالزکے نیچے کھیلیں۔ کراچی میں بہت سارے ٹور آپریٹرز مولا چھوٹوک کے 2 دن کے سفر کے لئے ٹور فراہم کرتے ہیں۔

نذیر بلوچ

بشکریہ دنیا نیوز

کشمیر کی خوبصورت وادی نیلم کی سیاحت کیسے کریں ؟

سیر و سیاحت کے فوائد کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ اور سیاحت میں جو لطف مستنصر حسین تارڑ کے سفر ناموں نے دیا ہے اس کا اپنا ہی لطف ہے۔ آج کل کی مصروف ترین زندگی میں ہر انسان کو سیاحت کیلئے سال میں کم از کم ایک ہفتہ ضرور نکالنا چاہیے۔ اور دنیا بھر میں بکھرے ہوئے قدرت کے شاہکاروں سے لطف اندوز ہونا چاہیے۔ مگر دنیا گھومنے سے پہلے اپنے پیارے پاکستان کی سیر و سیاحت کو پہلی ترجیح دیں ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے کیسے کیسے حسین قدرتی مناظر ہمارے ملک کو دیے ہیں آپ دیکھ کر دھنگ رہ جائیں گے۔ یہاں سمندر، پہاڑ، ریگستان، میدان، دریا، چشمے، آبشاریں کیا کچھ نہیں دیا اللہ تبارک وتعالیٰ نے۔ نیلم ویلی آزاد کشمیر کی خوبصورت ترین وادی ہے۔ طالب علمی کے دور میں اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے توست سے مجھے بھی اللہ تبارک وتعالیٰ نے پہلی مرتبہ 92-1991ء میں اس حسین وادی کے نظاروں کا موقع دیا۔ آج تک اس سفر کا سحر تاری ہے۔ ان دنوں بھارتی فوجی اکثر و بیشتر راہ گیروں پر فائرنگ کر کے اپنی دھشت بٹھانے کی ناکام کوشش کیا کرتے تھے جس کی وجہ سے مسافر رات کے اندھیرے میں اپنی گاڑیوں کی لائٹس بجھا کر کچھ علاقے عبور کرتے تھے۔

رات کے اندھیرے میں اٹھمقام سے شاردہ جاتے ہوئے ہماری گاڑی پر بھی انڈین آرمی نے فائرنگ کر دی۔ جس سے میرے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھا مسافر، جو پاک فوج کا جوان تھا اور ڈیوٹی پر جا رہا تھا شہید ہو گیا۔ اس شہید کا گرم گرم لہو میرے اوپر گرا ، جس کی گرمیش و خوشبو آج تک قائم ہے۔ جو آج بھی مجھے احساس دلاتا ہے کہ پاک فوج کے جوان، پاک دھرتی کی حفاظت کیلئے کس طرح اپنی جانوں کی قربانی دے کر ہمارا سکون و امن قائم رکھے ہوئے ہیں اور دشمن کے ناپاک ارادوں کو زمین بوس کر رہے ہیں۔ ڈرائیور کی دلیرانہ ڈرائیونگ کی وجہ سے مجھ سمیت باقی سب مسافر محفوظ مقام پر پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ واپسی کا سفر بھی بڑا دلچسپ رہا کیونکہ ہمارے شاردہ میں پڑاؤ کے دوران ہی طوفانی بارشوں کا سلسلہ شروع ہو گیا جس سے دریا بپھر گئے اور تمام پل بہا کر لے گئے۔ سلائڈنگ کی وجہ سے بیشتر جگہوں سے سڑک دریا برد ہو گئی۔

گاڑیوں کے لیے راستے بند ہو گئے۔ راقم نے راولپنڈی جمعیت کے ساتھی عبدالرحیم بھائی کے ساتھ شاردہ سے مظفرآباد تک پیدل ہی سفر کا آغاز کیا فجر سے مغرب تک پیدل تقریبآ پندرہ سے بیس کلومیٹر کا سفر طے کرتے رات کسی مسافر خانے یا سڑک کے کنارے سو جاتے صبح پھر چل پڑتے۔ یاد گار سفر تھا تقریباً پچہتر فیصد سفر پیدل اور پچیس فیصد سفر جیپوں پر طے کر کے بالآخر مظفرآباد پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ جس جگہ ہم پر جاتے ہوئے انڈین آرمی نے فائرنگ کی، واپسی پر پیدل وہاں سے گزرتے ہوئے دن کی روشنی میں بھارتی مورچوں کے سامنے ٹھیک اس جگہ نماز پڑھی جس کا بھی اپنا ہی لطف تھا۔ کچھ عرصہ بعد شیخوپورہ سے تعلق رکھنے والا میرا جگری دوست و شاگرد ریاض ناصر وٹو بھی اٹھمقام میں بھارتی گولہ باری سے شہید ہو گیا۔ نا جانے اور کتنے معصوم لوگ اس وادی میں انڈین آرمی کے ہاتھوں شہید ہوئے ہوں گے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ان کی شہادتوں کو قبول فرمائے، ان کے درجات بلند فرمائے اور مقبوضہ جموں و کشمیر کے مسلمانوں کو بھی بھارتی درندگی سے نجات دلانے۔

بہر حال انہیں شہادتوں کے نتیجہ میں آج نیلم ویلی میں کوئی خوف خطرہ نہیں پچھلے سال میرا بیٹا مصعب بن ناصر اپنے دوستوں کے ہمراہ شاردہ کیل وغیرہ کی سیر کر کے آیا ہے۔ اب گزشتہ کئی سالوں سے سیاح قدرت کے اس حسین شاہکار کا نظارہ کر رہے ہیں ۔ اسلامی جمعیت طلبہ کے سابق رہنما شبیر شہید و سردار ذوالفقار المعروف منشی کے آباؤ اجداد کے اس حسین علاقہ، خطہ زمین پر قدرت کی اس حسین وادی نیلم کی سیر و سیاحت کے خواہشمند لوگوں کی رہنمائی کے لئے بہت ہی پیارے دوست زاہد السلام بھائ نے کیا خوب رہنمائی فرمائی ہے، انہی کی زبانی ملاحظہ فرمائیں۔ وہ لکھتے ہیں۔ نیلم ویلی آزاد کشمیر کی سیاحت کا ارادہ رکھنے والے سیاح حضرات کی معلومات کے لیے عرض ہے کہ پاکستان کے کسی بھی شہر سے نیلم ویلی آنے کے لیے اسلام آباد سے پراستہ ایکسپریس ہائی وے مری سے ہوتے ہوئے آئیں۔

ایکسپریس ہائی وے کے اختتام پر بائٰیں جانب مری روڈ کے زریعے آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد کا سفر جاری رکھیں۔ (ہزارہ سے آنے والے معزز مہمان ایبٹ آباد مانسہرہ روڈ کا استعمال بھی کر سکتے ہیں)۔ اسلام آباد سے تقریباً 2 گھنٹے کے فاصلے پر نیلم ویو پوائنٹ کے نام سے دریا ئے جہلم کے کنارے مری والوں نے سیاحوں کو نیلم ویلی کا دھوکہ دینے کے لیے ایک کاروباری مرکز کھول رکھا ہے جس کا آزاد کشمیر یا نیلم ویلی سے سرے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یاد رکھیں یہ جگہ آزاد کشمیر یا نیلم ویلی قطعاً نہٰیں ہے لہٰذا دھوکہ کھانے سے بچیں۔ اسی مقام کے پاس کوہالہ پل کراس کرنے کے بعد آزاد کشمیر کی ریاست کا آغاز ہوتا ہے۔ کوہالہ سے تقریباً ایک گھنٹہ کے فاصلے پر مظفرآباد شہر واقع ہے۔ سیاح حضرات اپنے وقت کے حساب سے فیصلہ کر لیں کہ انہوں نے رات مظفرآباد میں قیام کرنا ہے یا نیلم ویلی کی طرف نکلنا ہے۔ عموماً رات کے وقت نیلم ویلی کا سفر سیاحوں کے لیے خطرناک ہوتا ہے۔

اگر آپ شام کے وقت مظفرآباد پہنچے ہیں تو رات مظفرآباد میں قیام کیجئے۔ مظفرآباد شہر میں 500 روپے فی کمرہ سے لے کر پی سی ہوٹل تک ہر معیار کے ہوٹلز موجود ہیں۔ اگر آپ دن کے وقت مظفرآباد پہنچے ہیں اور آپ کا ارادہ آگے بڑھنے کا ہے تو مظفرآباد شہر کی مرکزی شاہراہ یا براستہ نلوچھی گوجرہ بائی پاس روڈ چہلہ بانڈی کی طرف نکل جائیں ۔ چہلہ بانڈی سے نکل کر آپکا نیلم ویلی کا سفر شروع ہو جاتا ہے۔ چہلہ بانڈی سے تقریباً 4 گھنٹے کے فاصلے پر اٹھمقام کے مقام پر متعدد گیسٹ ہا ؤسز سیاحوں کی رہائش کے لیے موجود ہیں۔ رات کا قیام اٹھمقام میں کیجئے۔ اگر آپ کے پاس وقت ہے یا اٹھمقام میں رہائش کے لیے جگہہ موجود نہیں تو آپ اٹھمقام سے ایک گھنٹے کے فاصلے پر وادئ کیرن کے مقام پر بھی قیام کر سکتے ہیں۔ رات کے قیام کے بعد اگلی صبح ناشتہ وغیرہ کرنے کے بعد اگر آپکا ارادہ رتی گلی جھیل کا ہے تو کیرن سے تقریباً 45 منٹ کے فاصلے پر دواریاں گاؤں سے ایک لنک روڈ رتی گلی جھیل کی طرف جاتی ہے۔

اگر آپ کے پاس اپنی 4WD گاڑی نہیں ہے تو دواریاں سے جیپ کرائے پر لے لیں جو تقریباً 7 سے 8 ہزار روپے میں مل جاتی ہے۔ اگر آپکا پیدل ٹریکنگ کا ارادہ ہے تو اپنے ساتھ انسٹنٹ انرجی فوڈز جیسے انرجی بسکٹ، انسٹنٹ پاؤدر جوسز ، دودھ وغیرہ لازمی رکھٰیں۔ اس کے علاوہ آزاد کشمیر کی سوغات کلچہ بھی کافی کار آمد رہتا ہے۔ اگر آپ کے پاس اپنی 4WD گاڑی ہے تو بھی کوشش کریں کہ دواریاں سے کسی مقامی ڈرائیور کو ساتھ رکھ لیں جو مناسب دیہاڑی پر مل جائے گا۔ رتی گلی روڈ پر نا تجربہ کار حضرات خود ڈرائیونگ سے گریز کریں۔ دواریاں سے رتی گلی روڈ جہاں تک گاڑیاں جا سکتی ہیں تقریباً 12 کلومیٹر پر مشتمل ہے اور یہ 12 کلو میٹر کا فاصلہ تقریباً 2 گھنٹے میں طے ہوتا ہے۔ وہاں سے آگے تقریباً 2 گھنٹے کی پیدل ٹریکنگ کے بعد رتی گلی بیس کیمپ پر رات کا قیام کریں جہاں آپ اپنے ٹینٹ بھی لگا سکتے ہیں اور بصورت دیگر بیس کیمپ میں مناسب کرائے پر بھی ٹینٹ دستیاب ہوتے ہیں۔

رتی گلی بیس کیمپ میں رات کے قیام کے بعد صبح بیس کیمپ سے رتی گلی جھیل کی طرف پیدل ٹریکنگ کریں ۔ بیس کیمپ سے رتی گلی جھیل تقیباً 40 منٹ کے فاصلے پر ہے۔ اپنی زندگی کا حسین ترین دن رتی گلی جھیل پر گزار کر دن کو موسم کی صورتحال کا اندازہ کرنے کے بعد تقریباً 2 بجے واپس بیس کیمپ پہنچ کر واپس دواریاں کا سفر شروع کر دیجیے۔ شام کے تقریباً 7 بجے دواریاں پہنچ کر شاردہ کے لیے نکل جایئے۔ دواریاں سے شاردہ کا فاصلہ تقریباً 2.5 گھنٹے کا ہے۔ یاد رکھیں دواریاں سے آگے سڑک کی صورتحال زیادہ اچھی نہیں لہٰذا محتاط ڈرائیونگ کیجیئے۔ رات کا قیام شاردہ میں کیجیئے جہاں بہت سے ہوٹلز اور گیسٹ ہاؤسز موجود ہیں۔ اگر آپ کا آگے جانے کا ارادہ ہے تو انتہائی محتاط ڈرائیونگ کرتے ہوئے آپ شاردہ سے تقریباً 2.5 گھنٹے کے بعد کیل پہنچ جائیں گے۔ رات کیل میں قیام کے بعد اگلی صبح کیل سے بذریعہ چیئر لفٹ یا پیدل ٹریکنگ اڑنگ کیل کی خوبصورت وادی کا نظارہ کیجئے۔

شام کے تقریباً 3 بجے کیل واپس آکر کیل سے بذریعہ جیپ یا زاتی 4WD گاڑی تاؤ بٹ نکل جایئے۔ کیل سے تاؤبٹ کا فاصلہ تقریباً 40 کلومیٹر ہے جو تقریباً 4 گھنٹے میں طے ہو جاتا ہے۔ رات تاؤبٹ میں قیام کے بعد اگلی صبح تاؤبٹ کے قدرتی حسن سے لطف اندوز ہونے کے بعد اگر آپکا ارادہ واپسی کا ہے تو دن کو تقریباً 2 نجے واپس کیل کی جانب نکل آئیں۔ تقریباً 8 گھنٹے کی مسلسل مگر محتاط ڈرائیو کے بعد آپ واپس اٹھمقام پہنچ جائیں گے۔ بہتر یہی ہے کہ رات اٹھمقام میں قیام کیجیئے کیونکہ نیلم ویلی پہاڑی علاقہ ہے اور یہاں نیند کی حالت میں مسلسل ڈرائیو کرنا انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ رات اٹھمقام میں قیام کے بعد آپ اگلی صبح آرام سے مظفرآباد واپسی کا سفر کیجیے۔ نیلم ویلی آتے وقت اپنے ساتھ اپنی ضرورت کے مطابق گرم شالیں، کمبل، گرم کپڑے، کوٹ، ٹوپیاں، دستانے اور جرابیں ضرور رکھیں۔ اس کے علاوہ چونکہ نیلم ویلی میں ہسپتال وغیرہ تک جلدی پہنچنا ممکن نہیں ہے اس لیے اپنے ساتھ ایمرجنسی میڈیکیشنز جیسے بخار، زکام، دست، الٹی، قبض وغیرہ کی ادویات اور پٹیاں ، پا ئیوڈین بھی ساتھ رکھیں۔

اس کے علاوہ رتی گلی سطح سمندر سے انتہائی بلندی پر واقع ہے لہٰذا اپنی جلد کو الٹرا وائیلٹ شعاؤں سے بچانے کے لیے اچھے معیار کی سن بلاک کریمز کا استعمال بھی ضرور کیجیئے۔ آزاد کشمیر میں بہنے والے دریاؤں کی موجیں انتہائی طاقتور اور خطرناک ہوتی ہیں لہٰذا دریاؤں، ندی نالون میں اترنے سے گریز کیجیئے۔ ایک سیلفی یا کسی بھی نالے یا لکڑی کے پل پر ایک تصویر کا شوق آپ کی جان لے سکتا ہے۔ اپنی اور اپنے پیاروں کی جان کی حفاظت کیجیے۔اس کے علاوہ 4WD گاڑی کے علاوہ کوئی بھی گاڑی کچی یا سولنگ والی سڑکوں پر لے جانے کی کوشش مت کیجیئے کیونکہ یہ آپکی جان کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ براہ مہربانی کسی بھی علاقے کی سیر کے دوران اس علاقے کے قدرتی حسن کا خیال کیجیے اور اپنے ساتھ لائی ہوئی کھانے پینے کی اشیا کو وہاں پھینکنے کے بجائے کسی شاپنگ بیگ میں رکھ کر اپنے ساتھ واپس لے جایئے اور اپنے ذمہ دار اور با شعور شہری ہونے کا ثبوت دیجیئے۔ اس کے علاوہ کسی بھی علاقے کی سیر کے دوران وہاں کے مقامی لوگوں کی عزت اور پرائیویسی کا خیال رکھیئے اور بغیر اجازت کسی گھر یا عورت کی تصویر نہ بنائیے کہ یہ آپ کے لیئے جھگڑے اور بدمزگی کا سبب بن سکتا ہے۔

تمام معزز مہمانوں کو دل کی گہرائیوں سے نیلم ویلی میں خوش آمدید۔

شکریہ

کشمیر کی خوبصورت وادی نیلم کے بارے میں یہ معلوماتی مضمون فیس بک سے لیا گیا ہے۔

وینس : پانی کی سڑکوں پر چلتی بسوں کا شہر

دنیا میں بہت سارے شہر اپنے اوصاف کی نسبت سے مختلف ناموں سے مشہور ہو جاتے ہیں جیسے کراچی روشنیوں کا شہر، پشاور پھولوں کا شہر لاہور باغات کا شہر وغیرہ وغیرہ، لیکن اٹلی میں ایک ایسا شہر عرصہ دراز سے دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے جسکی پہچان ایک نہیں کئی ناموں سے ہے ، مثلاً ” اس شہر کو پانیوں کا شہر، پلوں کا شہر، روشنیوں کا شہر، تیرتا شہر نہروں کا شہر ،ایڈریاٹک کی ملکہ وغیرہ ۔ اٹلی کے شمالی حصے میں واقعہ اس شہر کو سیاحوں نے ” سیاحت کے ماتھے کا جھومر ‘‘ کا نام بھی دے رکھا ہے۔ اس شہر کی خوبصورتی اور اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا کہ ہر سال لاکھوں کی تعداد میں لوگ یہاں کھنچے چلے آتے ہیں۔ اس شہر کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اقوام متحدہ نے اس پورے شہر اور اس کی سمندری کھاڑی کو ” عالمی ورثہ‘‘ قرار دیا ہوا ہے۔ جی ہاں سیاحت کی دنیا کا یہ منفرد اور پر کشش شہر اٹلی کا وینس ہے۔ وینس کا نام اس کے قدیم ” وینیٹی‘‘ باشندوں کی نسبت سے اخذ کیا گیا تھا۔

جو دسویں صدی قبل از مسیح میں وہاں پر آباد تھے۔ تاریخی طور پر یہ شہر ریاست وینس کا صدر مقام ہوا کرتا تھا جسے صوبے کا درجہ حاصل تھا جس کے زیر انتظام 44 قصبے ہوا کرتے تھے۔ ریاست وینس زمانہ وسطی کی ایک بڑی بحری طاقت تھی اور ان علاقوں میں سے ایک تھی جہاں سے صلیبی جنگوں کا آغاز ہوا تھا۔ یہ اپنے زمانے کا ایک اہم تجارتی مرکز بھی تھا۔ جہاں ریشم ، اناج، مصالحہ جات وغیرہ کی تجارت ہوتی تھی۔ تیرہویں سے سترہویں صدی تک یہ آرٹ کے اہم مراکز میں بھی شمار کیا جاتا تھا۔ یہ اٹلی کا مردم خیز خطہ بھی تھا جس نے کئی نامور شخصیات کو جنم دیا۔ اگرچہ اس شہر کے وجود اور تاریخ بارے کوئی حتمی شواہد تو سامنے نہیں آئے تاہم مؤرخین علاقائی روایات اور دستیاب شواہد کو مدنظر رکھتے ہوئے اس نتیجہ تک پہنچے ہیں کہ رومی سلطنت پر بربریوں کے حملوں کے باعث پاڈو ، ایکو یلیا ، ٹریو لیو ،الٹینو اور کونکو رڈیا نامی شہروں کے لوگ نقل مکانی کر کے یہاں آ کر آباد ہوتے رہے۔ وینس نہروں کے منفرد جال اور بے شمار پلوں کے باعث دنیا بھر میں شہرت رکھتا ہے۔ وینس شہر 118 جزیروں کے جزیرہ نما پر مشتمل ہے جسے 150 نہریں جدا کرتی ہیں۔ جن جزیروں پر وینس آباد ہے اس کو کم وبیش 400 پلوں کے ذریعے آپس میں ملا دیا گیا ہے۔

ذرائع آمدورفت کی سہولیات
پرانے شہر میں نہریں ہی یہاں کی سڑکوں کا کام سرانجام دیتی ہیں کیونکہ ہر قسم کی آمدورفت پانی کے ذریعے یا پیدل ممکن ہے۔ جبکہ انیسویں صدی میں شہر کے دوسرے حصے کو ریل گاڑی کے ذریعے اٹلی کے دیگر شہروں تک رسائی دے دی گئی تھی جس سے ملک کے دیگر حصوں سے لوگ بشمول سیاحوں کے باآسانی وینس تک آ سکتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے وینس میں ریلوے سٹیشن بھی قائم کر دیا گیا تھا۔ جبکہ بیسویں صدی میں بذریعہ سڑک آمدورفت کا آغاز بھی کر دیا گیا تھا۔ اور اس شہر تک سڑک اور پارکنگ کی سہولت بھی مہیا کر دی گئی۔ چونکہ وینس میں سال بھر دنیا کے کونے کونے سے سیاحوں کی آمد کا سلسلہ جاری رہتا ہے اس لئے سیاحوں کی آسانی کیلئے وینس کی معروف شخصیت مارکوپولو کے نام سے منسوب ایک ائیر پورٹ بھی وینس کے ساحل سے تھوڑے فاصلے پر تعمیر کیا گیا ہے جہاں سے صرف 7 منٹ میں مسافروں کو واٹر بسوں کے ذریعے ہوائی اڈے تک پہنچا یا جا سکتا ہے۔ مارکو پولو ائیر پورٹ جدید سہولیات سے آراستہ اٹلی کے تین مصروف ترین ہوائی اڈوں میں شمار ہوتا ہے۔

جبکہ شہر میں شمال سے داخلے کیلئے خشکی کے ان راستوں کے علاوہ باقی شہر میں ذرائع آمدورفت قدیم روائتی طرز کے مطابق ہے جو پانی کے ذریعے یا پیدل ہے۔ وینس دنیا کا واحد یورپی شہر ہے جو ” کار فری ‘‘(بغیر کار یا گاڑیوں والا) علاقہ ہے۔ کیونکہ آمدورفت محض روائتی کشتیوں کے ذریعے جسے مقامی طور پر ” گوندولا ‘‘ کہتے ہیں کے ذریعے ہی ہوتی ہے۔ سیاحت ہو یا شادی بیاہ کی تقاریب آمدورفت کیلئے گوندولا ہی استعمال ہوتی ہے۔ جبکہ عمومی آمدورفت اب موٹر سے چلنے والی واٹر بسوں کے ذریعے ہوتی ہے۔ جنہیں مقامی طور پر ” واپو ریتو ‘‘ کہا جاتا ہے اور یہ بسیں شہر کی نہروں پر ایسے چلتی نظر آتی ہیں اور سہولیات مہیا کر رہی ہوتی ہیں جیسے بڑے شہروں میں عام بسیں چلتی ہیں۔ جبکہ پیدل چلنے والوں کیلئے پلوں کا جال بچھا ہوا ہے ۔ جن کے ذریعے ایک جگہ سے دوسری جگہ آنا جانا آسان ہے۔

وینس کے تفریحی مقامات
زٹیرا : وینس کے علاقے ڈورس ڈورو میں خاموش ، پرسکون اور قدرتی حسن سے مالامال تفریحی جگہ زٹیرا سیاحوں کی کشش کے سبب ہمیشہ سے انکی ترجیحات میں رہتی ہے۔

کاڈی اورو: یہ منفرد طرز کی ایک پر کشش عمارت ہے جو گرینڈ کینال کے ساتھ واقع ہے۔ اس کے لغوی معنی مقامی زبان کے مطابق ”سونے کا گھر‘‘ کے ہیں۔ یہ عمارت پندھرویں صدی میں تعمیر کی گئی تھی۔

لیڈو: وینس کی کھاڑی میں واقع ایک طویل اور تنگ جزیرہ بھی ہر وقت سیاحوں سے بھرا رہتا ہے۔

آرسینالے: اپنے زمانہ عروج میں یہ دنیا کا سب سے بڑا بحری اڈہ جو ہر لمحہ مصروف رہتا تھا اب بھی سیاحوں کی توجہ کا مرکزبنا رہتا ہے۔

سینٹ مارکس اسکوائر: یہ ایک چوک ہے جس کے اطراف میں زمانہ قدیم کی شاندار عمارتیں واقع ہیں جن کو دیکھ کر وینس کی قدیم سلطنت کی شان و شوکت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس کے بارے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ دنیا کا سب سے مشہور چوراہا ہے۔

برج آف سائے: یہ ایک منفرد طرز کا پل ہے جو مکمل طور پر اوپر کی طرف سے ڈھکا ہوا ہے۔ یہ پل دراصل ڈاگس پیلس اور ریو ڈی پلازو کو آپس میں ملاتا ہے۔

ریالٹو برج: اس پل کی تعمیر سے پہلے سان مارکو اور سان پولو کے اضلاع کے درمیان رابطے کا فقدان تھا چنانچہ اس کی تعمیر کا مقصد ان دونوں علاقوں کو ملانا تھا۔ اسکی تعمیر سولہویں صدی میں کی گئی۔

بورانو کا جزیرہ : یہ خوبصورت اور پر کشش جزیرہ دیکھنے والوں کو حیرت میں ڈال دیتا ہے۔ اس کی خاص بات یہ ہے کہ اس پر واقع چھوٹے چھوٹے بے شمار مختلف رنگوں سے مزین گھر سیاحوں کا دیکھتے ہی دل موہ لیتے ہیں۔ بورانو تک پہنچنے کیلئے سینٹ مارکس سکوائر سے واٹر بس کو استعمال کرنا پڑتا ہے۔

سینٹ مارکس کمپانائل: یہ ایک قدیم گھنٹہ گھر ہے جو سینٹ مارکس کمپا نا ئل کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ وینس کا بلند ترین گھنٹہ گھر اور مشہور ترین عمارتوں میں سے ایک ہے۔ 1902 میں اس کی عمارت تباہ ہو گئی تھی جبکہ 2008 میں اس کو دوبارہ تعمیر کیا گیا تھا۔

ڈاگس پیلس:یہ خوبصورت محل ایک زمانے میں وینس کی حکمرانی کا مرکز تھا۔ڈاگس نے ایک طویل عرصے وینس کی سلطنت پر حکمرانی کی۔

خاور نیازی

بشکریہ دنیا نیوز

برٹش ایئر ویز کی پاکستان کے لیے گیارہ سال بعد پروازوں کا آغاز

برٹش ایئر ویز کی پاکستان کے لیے 11 سال بعد پروازوں کا آغاز ہو گیا ہے، پہلا طیارہ اسلام آباد ایئر پورٹ پر لینڈ کر گیا۔ پرواز میں دو سو سے زائد مسافر سوار تھے، برٹش ایئرویز نے 2008 میں پاکستان کے لیے آپریشنز معطل کیے تھے۔  برٹش ایئرویز لندن اور اسلام آباد کے درمیان پروازیں شروع کرے گی. برٹش ایئر ویز کی جانب سے جاری کیے گئے پریس ریلیز کے مطابق ہفتے میں 3 پروازیں لندن اور اسلام آباد کے درمیان چلیں گی، جن کے لیے بوئنگ 787 طیارے استعمال کیے جائیں گے۔ اردو بولنے والے پاکستانیوں یا پاکستانی نژاد برطانوی شہریوں کی سہولت کیلئے اردو بولنے والوں کی خدمات ان پروازوں کیلئے بھی لی گئی ہیں۔ برٹش ایئر ویز کے چیف کمرشل آفیسر اینڈریو بریم نے کہا ہے کہ یہ نیا روٹ شروع کرنے پر برٹش ایئر ویز کو بہت خوشی ہے۔