طالبان کے حملے، امريکا کی نئی افغان پاليسی پر سواليہ نشان

افغانستان میں حالیہ چند ہفتوں میں پے در پے دہشت گردانہ واقعات رونما ہوئے ہیں، جن میں سینکڑوں افراد ہلاک اور زخمی ہوئے۔ ان حملوں سے ایک طرف تو افغانستان میں سکیورٹی کی انتہائی مخدوش صورت حال کا اظہار ہوتا ہے اور دوسری طرف ان بین الاقوامی کوششوں پر سوالیہ نشانات پیدا ہوتے ہیں، جو گزشتہ کئی برسوں سے افغانستان میں قیام امن کے لیے کیے جا رہے ہیں۔ ان حملوں سے افغان شہریوں میں عدم تحفظ کے احساس کے ساتھ ساتھ عوام کی سلامتی یقینی بنانے کے لیے کابل حکومت کی محدود قوت کا انداز بھی لگایا جا سکتا ہے۔ افغانستان میں ہونے والے حالیہ حملوں کی ذمہ داری طالبان اور ’اسلامک اسٹیٹ‘ نے قبول کی ہے۔

رواں برس کا آغاز اس شورش زدہ ملک کے لیے انتہائی خون ریز رہا ہے۔ بہت سے افغان شہریوں کے مطابق جنوری میں ہونے والے ان بڑے دہشت گردانہ واقعات یہ بتاتے ہیں کہ رواں برس ایسے حملوں کے اعتبار سے کس قدر بھیانک ہو سکتا ہے۔ چند ہفتے قبل طالبان اور کابل حکومت کے درمیان ہونے والے امن مذاکرات ان حملوں کے بعد اب ایک قصہ پارینہ دکھائی دے رہے ہیں۔ افغان سکیورٹی ماہر اے ڈی محمد عارف کے مطابق، ’’حالیہ حملے ہلمند، ننگر ہار، قندوز اور دیگر مقامات پر امریکی عسکری کارروائیوں میں اضافے کا ایک رد عمل ہو سکتے ہیں۔‘‘

عارف نے مزید کہا، ’’طالبان عموماﹰ اپنی کارروائیوں کا آغاز موسم سرما کے بعد کرتے ہیں، تاہم افغانستان کے لیے نئی امریکی حکمتِ عملی سامنے آنے کے بعد لگتا ہے کہ وہ اپنے حملوں کو وسعت دے چکے ہیں۔ وہ یہ بات باور کرا رہے ہیں کہ وہ اپنی شکست سے بہت دور ہیں۔‘‘ ماضی کے مقابلے میں اب طالبان نے اپنی بڑی کارروائیوں کا آغاز موسم سرما ہی میں کر دیا ہے۔ گزشتہ برس اگست میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان کے لیے نئی امریکی حکمتِ عملی کا اعلان کیا تھا۔ صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد میں اضافہ کریں گے اور یہ فوجی اس وقت تک وہاں موجود رہیں گے، جب تک وہاں ان کی ضرورت ہو گی۔

بشکریہ DW اردو

سپر کمپیوٹر : چین نے امریکہ کو پیچھے چھوڑ دیا

دنیا کے تیز ترین 500 سپر کمپیوٹرز کی فہرست میں سب سے زیادہ سپر کمپیوٹرز والے ملک کے حوالے سے چین نے امریکہ سے سبقت لے لی ہے۔ ایک تازہ ترین سروے کے مطابق دنیا کے تیز ترین 500 سپر کمپیوٹرز میں سے 202 چین میں موجود ہیں۔ اس کے مقابلے میں امریکہ میں 143 سپر کمپیوٹرز ہیں اور اس کے پاس دوسری پوزیشن ہے۔ 35 سپر کمپیوٹرز کے ساتھ جاپان تیسرے جبکہ 20 سپر کمپیوٹرز کے ساتھ جرمنی چوتھے نمبر پر تھا۔

25 سال قبل اس فہرست کا آغاز کیا گیا تھا اور ہر دو سال بعد اس کے تازہ اعداد و شمار شائع کیے جاتے ہیں۔ یاد رہے کہ گذشتہ فہرست میں امریکہ کے پاس 169 جبکہ چین کے پاس 160 سپر کمپیوٹرز تھے۔ رپورٹ کے مطابق چین کی برتری کی وجہ چین کی جانب سے تحقیق میں سرمایہ کاری میں اضافہ ہے اور اس وقت دنیا بھر میں تحقیق کے اخراجات کا 20 فیصد چین میں خرچہ جاتا ہے۔ سپر کمپیوٹرز بہت بڑے، اور مہنگے سسٹمز ہوتے ہیں جن میں ہزاروں پراسیسرز کو مخشوش انداز میں اکھٹا کیا گیا ہوتا ہے اور ان سے انتہائی مخصوص کیلکیولیشنز کروائی جاتی ہیں۔

سپر کمپیوٹرز سے لیے جانے کاموں کی چند مثالوں میں موسمیاتی تبدیلی کے جائزے، جوہری ہتھیاروں کی سیمیولیشنز، تیل کے ذخائر کی کھوج، موسم کی حال کی پیشگوئیاں، ڈی این اے سیکونسنگ وغیرہ شامل ہیں۔ سپر کمپیوٹرز کی تیزی ’پیٹا فلاپ‘ میں گنی جاتی ہے۔ ایک فلاپ کو آپ کیلکیولیشنز میں ایک آپریشن یا قدم کے طور پر سمجھ سکتے ہیں۔ ایک پیٹا فلاپ کا مطلب ایک سکینڈ میں ایک ہزار کھرب آپریشنز ہوتا ہے۔ دنیا کا تیز ترین سپت کمپیوٹر چین کا سنوے ٹائی ہو لائٹ ہے جو کہ 93 پیٹا فلاپس تک کام کر سکتا ہے۔ اس کے مقابلے میں امریکہ کا تیز ترین کمپیوٹر ٹائیٹن ہے جو کہ 17.6 پیٹا فلاپس تک جا سکتا ہے۔

سگریٹ سالانہ 4 لاکھ 80 ہزار امریکیوں کی موت کا سبب

امریکا میں سگریٹ نوشی سے 4 لاکھ 80 ہزار سے زائد افراد ہر سال موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ امریکی حکومت نے سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول ( سی ڈی سی ) کے حوالے سے رپورٹ جاری کی ہے، جس کے مطابق 5 میں سے ایک امریکی شخص سگریٹ نوشی کا عائد ہے. رپورٹ کے مطابق امریکا میں 20 اعشاریہ 1 فیصد شہری کسی بھی قسم کی تمباکو نوشی کرتے ہیں، جس میں سے ایک بڑی تعداد سگریٹ، سگار، پائپ یا کسی اور حالت میں تمباکو کا استعمال کرتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق امریکا میں انسداد سگریٹ نوشی کے حوالے سے کافی کوششیں کی جا رہی ہیں، ساڑھے 3 فیصد لوگ اسی حوالے سے ای سگریٹ کا استعمال کر رہے ہیں۔

امریکا نے انسداد دہشت گردی آپریشن کے لیے دیے گئے ہیلی کاپٹرز واپس مانگ لیے

امریکا نے پاکستانی وزارت داخلہ کو انسداد دہشت گردی آپریشن کے لیے دیے گئے ہیلی کاپٹرز واپس مانگ لیے۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق امریکا نے پاکستان کو بارڈر پیٹرولنگ کے لیے دیے گئے ہیلی کاپٹرز واپس مانگ لیے ہیں، امریکی ساخت کے یہ ہیلی کاپٹرز وزارت داخلہ کے پاس تھے اور یہ انسداد دہشت گردی آپریشن میں بھی استعمال ہوتے تھے جب کہ ان ہیلی کاپٹرز کو مظاہروں کی نگرانی کے لیے بھی استعمال کیا جا تا تھا اور ان کی پرواز سے قبل امریکی سفارت خانہ سے اجازت لی جاتی تھی۔

امریکا کی جانب سے ہیلی کاپٹرز کی واپسی کے مطالبے کے بعد ان کو واپس لے جانے کے لیے کارگو طیارہ پاکستان پہنچ گیا ہے۔ واضح رہے امریکا نے 2002 میں پرویز مشرف کے دور حکومت میں پاکستان کو 9 ہیلی کاپٹرز پاک افغان سرحد کی مانیٹرنگ کے لیے دیے تھے جن میں سے 4 ہیلی کاپٹر امریکا کو پہلے ہی واپس کر دیے گئے تھے۔

افغان امن کے لیے پاکستان امریکہ کی ضرورت ہے، امریکی تجزیہ کار

بھارتی وزیر دفاع نِرملا سیتا رمن نے امریکی وزیر دفاع میٹس کے ہمراہ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا کہ بھارت افغانستان میں اپنی افواج نہیں بھیجے گا، لیکن وہ افغانستان کی امداد جاری رکھے گا۔ دورہ بھارت کے بعد، امریکی وزیر دفاع، پاکستان نہیں گئے بلکہ وہاں سے افغانستان چلے گئے، جس سے یہ سوالات پیدا ہوئے کہ کیا امریکہ نے بھارت سے افغانستان میں اپنی فوج بھیجنے کے لیے کہا تھا اور کیا اب امریکہ افغان جنگ میں پاکستان کو نظر انداز کر رہا ہے۔ جب ایک امریکی تھنک ٹینک مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ میں قائم پاکستان سینٹر کے ڈائریکٹر ڈاکٹر مارون سے پوچھا گیا کہ آیا امریکہ نے بھارت سے اپنی افواج افغانستان بھیجنے کے لیے کہا تھا یا یہ بات مذاكرات کے دوران زیر بحث آئی تھی، تو ڈاکٹر مارون کا کہنا تھا کہ کسی کو علم نہیں کہ مذاكرات کے دوران کیا باتیں ہوئی، لیکن جو کچھ سامنے آیا ہے اس سے کوئی ایسا اشارہ نہیں ملتا کہ امریکی وزیر دفاع جیمس میٹس نے بھارت سے اپنی فورسز بھیجنے کے لیے کہا ہو۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغان پالیسی کے اعلان کرتے ہوئے بھارت سے کہا تھا کہ وہ افغانستان میں ایک وسیع تر کردار ادا کرے۔

ڈاکٹر مارون کا کہنا تھا کہ ایک بڑے تناظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہاں امکانی طور پر جو ہوا ہو گا وہ یہ ہے کہ بھارت کو مزید کچھ کرنے کے لئے کہا جا رہا ہے، اور بھارت کے وزیر دفاع نے یہ کہا ہے کہ ہم زیادہ کچھ تو کریں گے، لیکن اس میں افغانستان میں بھارتی افواج بھیجنا شامل نہیں ہے۔ سو ایک طرح سے ان کی یہ بات حفظِ ماتقدم کے طور پر کہی گئی کہ کہیں فورسز کے حوالے سے کوئی براہ راست درخواست نہ کر دی جائے۔ تاہم اُن کا کہنا تھا کہ ایسے اشارے سامنے نہیں آئے کہ اس دورے میں حقیقتا کوئی ایسی درخواست کی گئی تھی۔ سابق معاون وزیر خارجہ برائے جنوبی ایشیائی امور، کارل اِنڈرفرتھ سے جب بھارتی وزیر دفاع کے بیان سے متعلق پوچھا گیا تو ان کا جواب تھا کہ اُنہیں اس بیان پر کوئی حیرت نہیں ہوئی، کیونکہ بھارت کا ہمیشہ یہ موقف رہا ہے کہ وہ افغانستان میں فوج بھیجنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ بھارت کا فیصلہ بالکل درست ہے۔

انہوں نے کہا کہ نہ صرف یہ بھارت کا درست فیصلہ ہے بلکہ میرے خیال میں پاکستان بھی اس بات سے مکمل اتفاق کرے گا کہ بھارتی فوج کو أفغان سرزمین پر موجود نہیں ہونا چاہیئے۔ میرے خیال میں یہ بھارت کی جانب سے سرکاری سطح پر اپنی پالیسی کا اعادہ تھا، اور مجھے یقین ہے کہ وزیر دفاع میٹس نے یہ واضح طور پر سمجھ لیا ہے۔ اس سوال پر کہ امریکی وزیر دفاع بھارت سے سیدھے افغانستان چلے گئے اور پاکستان نہیں گئے، تو کیا امریکہ پاکستان کو نظر انداز کر رہا ہے؟ جواب میں کارل انڈر فرتھ کا کہنا تھا کہ پاکستان کو نظر انداز نہیں کیا جا رہا، لیکن ہوا یہ ہے کہ صدر ٹرمپ نے بڑی سخت زبان میں افغانستان میں پاکستان کے کردار اور اس کی طالبان کی حمایت کے معاملے پر تنقید کی تھی، جس کے بعد پاکستانی وزیر خارجہ نے امریکہ کا دورہ منسوخ کر دیا تھا ۔ آج کل امریکہ اور پاکستان کے تعلقات ٹھیک نہیں ہیں۔ اور اس بنا پر جیمس میٹس پاکستان نہیں گئے۔

تاہم ان کا کہنا تھا انہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ مستقبل قریب میں وہ اسلام آباد جائیں گے، اور جب وہ جائیں، تو اس وقت کے لیے ان کی ایک تجویز ہے اور یہی تجویز وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن کے لیے بھی ہے کہ وہ بھی جب اسلام آباد جائیں تو پاکستان اور بھارت کی اس بارے میں حوصلہ افزائی کریں کہ دونوں ملک براہ راست، بند دروازوں کے پیچھے افغانستان کے متعلق بات چیت کریں، اور یہ کام ان دونوں کو ہی کرنا ہے کیونکہ افغانستان میں طویل مدتی قیام ِامن کے لیے یہ چیز بہت ضروری ہے۔ ان کا کہنا تھا ایک اور کام جو امریکی وزیر دفاع کر سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ پاکستان کی اس بارے میں حوصلہ افزائی کی جائے کہ وہ بھارت کے ساتھ مل کر کسی نہ کسی طرح کی بات چیت کا آغاز کرے، جس میں دونوں ملک اپنے اُن باہمی شکوک اور مفادات کے بارے میں بات کریں، جو افغانستان میں ان کے لئے تصادم کا باعث ہیں۔

انہوں نے کہا کہ أفغانستان میں اس وقت تک امن قائم نہیں ہو سکے گا، جب تک بھارت اور پاکستان افغانستان کے حوالے سے اپنے تنازعات کو حل نہیں کرتے۔
دورہ بھارت اور افغانستان میں پاکستان کو نظر انداز کرنے کے حوالے سے ڈاکٹر وائن بام کا کہنا تھا کہ امریکہ افغانستان کے بارے میں پاکستان کی پالیسی پر مسلسل اپنی ناپسندیدگی کے بارے میں پیغام دیتا آ رہا ہے اور امریکی وزیر دفاع کا پاکستان نہ جانا اس بات کی علامت ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ اپنے اشتراک کو کم اہمیت دے رہا ہے۔ تاہم ایسا کوئی اشارہ نظر نہیں آ رہا جس سے یہ ظاہر ہو کہ امریکہ، کم از کم اس وقت، پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو ختم کرنے کا خواہاں ہے، اور جتنی بھی بیان بازی ہم سن رہے ہیں وہ دباؤ بڑھانے کے لیے ہے نہ کہ اس کا مقصد کسی قسم کا قدم اٹھانا ہے۔

ڈاکٹر مارون کا کہنا تھا کہ امریکہ نے جو کوئی بھی اقدامات اٹھائے ہیں وہ پاکستان کا تعاون حاصل کرنے کے لیے کیے ہیں۔ امریکہ کو اب بھی پاکستان کی شمولیت کی ضرورت ہے۔ اور وہ اس طرح سے کہ امریکہ وہاں کسی بھی بغاوت کے کامیاب انسداد کے لیے پاکستان کے کردار کو انتہائی اہم سمجھتا ہے۔ اس لئے وہ پاکستان کے کردار کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔

 نجم ہیرلڈ گل – واشنگٹن ڈی سی

 بشکریہ وائس آف امریکہ

کیا پاکستان اپنی سرزمین پر کسی مشترکہ فوجی کارروائی کی اجازت دے سکتا ہے؟

ایسے میں جب امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ پاکستان کے اندر مبینہ پناہ گاہوں کے خلاف سخت اقدامات کا اعادہ کر چکے ہیں اور اسلام آباد اور واشنگٹن کے درمیان تعلقات بظاہر کشیدہ ہیں، کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کی جانب سے کوئی ’’آوٹ آف باکس‘‘ حکمت عملی نقشہ تبدیل کر سکتی ہے۔ اور اس وقت امریکہ کا جھکاؤ اگر بھارت اور افغانستان کی طرف ہے تو پاکستان ایک بار پھر خطے میں عسکریت پسندی کے خاتمے میں مرکزی اہمیت حاصل کر سکتا ہے۔

سیدہ عابدہ حسین، پاکستان کی سینئر سیاستدان اور سابق سفیر ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ مشترکہ فوجی آپریشن کے فوائد ہیں۔ لیکن، پاکستان شاید ہی اس کی اجازت دے۔ تاہم، وہ افغانستان میں نیٹو فورسز کی کسی بڑی کامیابی کی مثال نہ ہونے پر تشکیک بھی رکھتی ہیں کہ ایسا کوئی مشترکہ آپریشن پاکستان میں کیسے کامیاب ہو سکتا ہے۔ وہ سمجھتی ہیں کہ پاکستان کی فوج نے تن تنہا بہت کامیاب کارروائیاں کی ہیں یہی وجہ ہے کہ آج ملک پہلے کی نسبت کہیں زیادہ محفوظ ہے۔

بریگیڈیر (ر) سعد محمد دفاعی تجزیہ کار ہیں۔ انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کبھی اپنی سرزمیں پر مشترکہ فوجی کاروائی کی اجازت نہیں دے گا اور افغانستان یا بھارت کے ساتھ تو بالکل نہیں۔ ان کے خیال میں پاکستان کی فوجی اور سیاسی قیادت پر اس حوالے سے اندرونی دباؤ بھی بہت ہو گا اور صورتحال کا فائدہ انتہائی دائیں بازو کی مذہبی جماعتیں اٹھا سکتی ہیں۔ تاہم، وہ یہ ضرور کہتے ہیں کہ پاکستان کو صدر ٹرمپ کے بیان کے بعد ایسے اقدامات ضرور کرنے چاہیں جس سے امریکہ اور اتحادی ملکوں کی تشفی ہو۔ ان کے بقول، افغان طالبان کے ایسے دھڑوں تک ضرور پہنچنا چاہیے تو مذاکرات کے حامی ہیں، اس طرح ان کو جنگ پر بضد گروپوں سے الگ کیا جا سکتا ہے۔

پاکستان کے وزیر داخلہ احسن اقبال اور وزیر خارجہ خواجہ آصف نے اپنے حالیہ بیانات میں کئی بار باور کرایا ہے کہ دہشتگردی ایک مشترکہ مسئلہ ہے اور اس کا حل عالمی اشتراک سے ہونا چاہیے۔ تاہم، پاکستان ملک کے اندر ڈرون حملوں یا کسی طرز کے سرجیکل حملوں کے امکانات کو بھی سخت انداز میں مسترد کرتا ہے اور اسے پاکستان کی سالمیت کے منافی خیال کرتا ہے۔

اسد حسن – واشنگٹن
بشکریہ وائس آف امریکہ