سی آئی اے کے سربراہ کی شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان سے “خفیہ” ملاقات

امریکی خفیہ ایجنسی “سی آئی اے” کے سربراہ مائک پومپیو نے شمالی کوریا کا خفیہ دورہ کیا ہے جہاں مبینہ طور پر ان کی شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان سے ملاقات ہوئی تھی۔ اس امر کا دعوی امریکی اخبار “واشنگٹن پوسٹ” اپنی حالیہ اشاعت میں کیا ہے۔ اس خبر کی تصدیق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان سے ہوتی ہے کہ شمالی کوریا سے اعلیٰ ترین سطح پر براہ راست بات چیت ہو رہی ہے۔ صدر ٹرمپ کے مطابق شمالی کوریا اور امریکہ کے حکام کی براہ راست بات چیت ہوئی ہے تاکہ دونوں ممالک کے رہنماؤں کے درمیان تاریخی ملاقات کے بارے میں معاملات طے کیے جا سکیں، تاہم امریکی صدر نے یہ نہیں بتایا کہ بات چیت میں کون شامل تھا۔

فلوریڈا میں صدر ٹرمپ نے جاپان کے وزیراعظم شِنزو آبے سے ملاقات کے موقعے پر بتایا کہ’ہماری اعلیٰ ترین سطح پر براہ راست بات چیت ہوئی ہے اور اس وقت پانچ مقامات زیر غور ہیں جہاں میری کم جونگ ان سے ملاقات ہو سکتی ہے۔‘ صدر ٹرمپ کے مطابق یہ ملاقات جون کے ابتدا میں یا اس سے کچھ دیر پہلے ہو سکتی ہے۔ جاپانی وزیراعظم شِنزو آبے نے شمالی کوریا کے رہنما سے ملاقات پر رضامند ہونے کے جرات مندانہ فیصلے کی تعریف کی۔ خیال رہے کہ جاپان کو خدشات ہیں کہ امریکہ اور شمالی کوریا کے درمیان باہمی بات چیت کے منصوبے میں جاپان نظرانداز ہو سکتا ہے۔

صدر ٹرمپ نے جاپانی وزیراعظم سے ملاقات کے دوران کہا کہ دونوں ممالک شمالی کوریا کے معاملے پر متحد ہیں تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ جاپانی وزیراعظم کے دورۂ امریکہ کا ایک مقصد امریکی صدر کو اس بات پر قائل کرنا ہے کہ مغرب شمالی کوریا کے خلاف سخت موقف سے پیچھے نہ ہٹے۔ رواں ماہ کے شروع میں امریکی حکام نے بتایا تھا کہ شمالی کوریا نے وعدہ کیا ہے کہ دونوں ممالک کے رہنماؤں کی ملاقات میں وہ امریکہ سے اپنے جوہری ہتھیاروں اور ان کے مستقبل کے بارے میں بات کرے گا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ ان کی ملاقات کی خبر مارچ میں سامنے آئی تھی اور وہ عالمی برادری کے لیے نہایت حیران کن تھی۔ واضح رہے کہ اس خبر کے آنے سے ایک سال قبل تک ان دونوں کے درمیان لفظی جنگ جاری تھی جس میں دونوں نے ایک دوسرے کی ذات پر حملے کیے اور دھمکیاں تک دی تھیں۔

شام کی لڑائی میں ترکی کہاں کھڑا ہے؟

مشرقِ وسطیٰ میں ایران اور شام دو ایسے ممالک ہیں جو روس کے ساتھ بڑی گہری وابستگی رکھتے ہیں۔ دراصل ان دونوں ممالک کی یہ وابستگی ان کی بقا کی حیثیت رکھتی ہے۔ شاہ ایران کے دور میں ایران اور امریکہ ایک دوسرے کے اتحادی ملک تھے لیکن ایران کے اسلامی انقلاب کے بعد ایران اور امریکہ کے تعلقات خراب سے خراب تر ہوتے چلے گئے جس کے نتیجے میں ایران امریکہ کی گود سے نکل کر روس آغوش میں جا گرا اور اس وقت سے روس ایران کے مفادات کا تحفظ کرتا چلا آرہا ہے اور دونوں ممالک اب ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم سمجھے جانے لگے ہیں۔

شام کے امریکہ کے ساتھ کبھی بھی قریبی تعلقات نہیں رہے بلکہ مشرقِ وسطیٰ میں شام ہی واحد ملک تھا جس کے سوویت یونین کےساتھ تعلقات اپنی بلندیوں کو چھو رہے تھےاور حافظ الاسد کے انتقال کے بعد بشار الاسد نے برسر اقتدار آنے پر اپنے والد سے ہٹ کر پالیسی اپنائی اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ ساتھ یورپی ممالک سے بھی تعلقات قائم کرنے کے لئےخصوصی توجہ دی اوراس دور میں بشار الاسد کو دنیا بھر میں مقبولیت بھی حاصل ہونا شروع ہو گئی۔ بشار الاسد نے اسی دوران ترکی کے ساتھ اپنے تعلقات جو کہ بہت ہی خراب تھے کو بہتر بناتے ہوئے ترکوں کے دلوں میں بھی جگہ بنائی۔

ترکی اور شام کے درمیان تعلقات میں گرم جوشی کا ایک دور ایسا بھی آیا جب
دونوں ممالک کی کابینہ کے مشترکہ اجلاس بھی منعقد ہوئے اور دونوں ممالک نے تعاون کے باون مختلف سمجھوتوں پر دستخط بھی کیے۔ بشار الاسد، صدر ایردوان کو اپنا بڑا بھائی سمجھنے لگے اور دونوں رہنما شیر و شکر ہو گئے۔ ترکی کے صدرایردوان نے مشرقِ وسطیٰ میں’’ بہارِ عرب‘‘ کے نام سے شروع ہونے والی نئی جمہوری تحریک کے بعد شام میں جمہوریت کو مضبوط بنانے اور ملک میں جمہوری اصلاحات کرنے کی تلقین کی اور بشار الاسد اس تلقین کو قبول کرتے ہوئے بھی دکھائی دئیے لیکن خفیہ قوتوں نے ان کو ایسا کرنے سے باز رکھا.

حالانکہ صدر ایردوان نے اس سلسلے میں بشار الاسد سے کئی بار قریبی رابطہ قائم کیا اور جمہوری اصلاحات متعارف کروانے کے لئے ہر ممکنہ تعاون کی بھی یقین دہانی کروائی لیکن یہ بیل منڈھے چڑھنے میں ناکام رہی اور دونوں رہنما ایک دوسرے سے دور ہوتے چلے گئےاور پھر شام میں شروع ہونے والی بہار عرب کی تحریک خانہ جنگی کا روپ اختیار کرتی چلی گئی اور اُس وقت سے اب تک شام خانہ جنگی کی لپیٹ میں ہے۔ شام میں گزشتہ آٹھ سالوں سے جاری خانہ جنگی کے دوران لاکھوں افراد جاں بحق ہو چکے ہیں اور لاکھوں ہی کی تعداد میں شامی باشندے ہمسایہ ممالک میں پناہ لئے ہوئے ہیں۔ اس دوران بشار الاسد انتظامیہ نے مخالفین سے چھٹکارا پانے کے لئے بمباری کے ساتھ ساتھ کیمیائی حملوں کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔

شامی انتظامیہ نے سب سے پہلے 19مارچ 2013ء کو اپنے ہی زیر کنٹرول علاقے خان الاصل میں اعصاب شکن گیس استعمال کی جس میں 26 افراد ہلاک ہوئے۔ ترکی کے صدر ایردوان نے سات اپریل کے شامی انتظامیہ کے حالیہ کیمیائی حملے کے بعد کہا کہ ’’ اگر امریکہ کے اتحادی 2013ء میں ہی شام کے ان کیمیائی حملوں کے خلاف کارروائی کرتے تو شام کو دوبارہ کیمیائی حملہ کرنے کی ہمت نہ ہوتی۔ شامی انتظامیہ نے 2013 ہی میں 21 اگست کو مخالفین کے زیر کنٹرول علاقے غوطہ پر کیمیائی حملہ کیا جس میں 14 سو سے زائد افراد مارے گئے ۔27 ستمبر 2013ء کو اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل نے شام کو اپنے کیمیائی ہتھیاروں کے ذخیرے تلف کرنے کاحکم دیا اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں طاقت کے استعمال کی وارننگ بھی جاری کی جس پر شامی انتظامیہ نے اکتوبر 2013ء میں کیمیائی ہتھیاروں کی مزاحمت کار تنظیم (OPCW) کی نگرانی میں اپنے کیمیکل ہتھیار تلف کرنا شروع کر دئیے اور 23 جون 2014ء کو OPCW نے شام میں تمام کیمیائی ہتھیار ناکارہ بنائے جانے کا اعلان کیا۔

لیکن مارچ 2017ء میں شام میں انسانی حقوق کی تنظیم سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے ادلب میں مخالفین کے زیر قبضہ ایک علاقے پر ایک مرتبہ پھر کیمیائی حملے میں 88 افراد کے ہلاک ہونے سے آگاہ کیا اور 7 اپریل 2018ء کے دوما میں حالیہ کیمیائی حملے نے امریکہ اور اس کے دو اتحادی ممالک کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور امریکہ، فرانس اور برطانیہ نے شامی دارالحکومت دمشق کے ضلعے برضح اور حمص کے قریب واقع دو حکومتی تنصیبات پر مجموعی طور پر 105 میزائل داغے۔ پینٹاگون کے مطابق ان حملوں میں شامی حکومت کے زیر استعمال کیمیائی ہتھیاروں کی تیاری کے تین مراکز کو نشانہ بنایا گیا۔ شامی خانہ جنگی میں مغربی ممالک کی یہ سب سے بڑی عسکری مداخلت ہے۔ تاہم امریکہ، فرانس اور برطانیہ کیمطابق ان حملوں میں فقط شام کی کیمیائی ہتھیاروں کی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا اور ان حملوں کا مقصد اسد حکومت کا خاتمہ یا شامی تنازعے میں مداخلت نہیں تھا۔

ترک صدر ایردوان نے دنیا کو بہت پہلے ہی شام میں جاری خانہ جنگی کے بارے میں متنبہ کیا تھا اوراس کے خاتمے کے لئے اپنی بھرپور کوششیں صرف کی تھیں۔ انہوں نے شامی پناہ گزینوں کو اپنے ملک میں پناہ دیتے ہوئے ان کے زخموں پر مرہم رکھا اور اس سلسلے میں امریکہ اور روس کے درمیان ثالثی کا کردار بھی ادا کرنے کی کوشش کی تاکہ شام میں معصوم انسانوں کو مرنے سے بچایا جا سکے۔ انہوں نے روس اور امریکہ کے رہنمائوں سے شام کے مسئلے پراحتیاط کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی۔ انہوں نے امریکہ کے صدر ٹرمپ اور روس کے صدر ولادِ میر پیوٹن سے ٹیلی فون پر بات چیت کرنے کے بعد ایران کے صدر حسن روحانی سے بھی ٹیلی فونک بات چیت کی۔ دیکھا جائے تو ترکی ہی علاقے میں واحد ملک ہے جو امریکہ اور روس دونوں کے ساتھ بڑے خوشگوار تعلقات قائم رکھے ہوئے ہے اور ان سپر قوتوں سے برابری کی سطح پر اپنی باتیں منوانے کا بھی حق رکھتا ہے۔ ترکی ایک طرف نیٹو کا رکن ملک ہے تو دوسری طرف اس کے روس کے ساتھ قریبی تعلقات بھی ہیں۔

اس سے ایس 400 میزائل خرید رہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ پہلا ایٹمی پلانٹ بھی روس ہی کے تعاون سے لگایا جا رہا ہے۔ ترکی اپنے ان تعلقات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے روس اور امریکہ کے درمیان شام کے معاملے پر ثالثی کا کردار بھی ادا کر رہا ہے اور اس سلسلے میں روسی پارلیمان کی دفاعی کمیٹی کے سربراہ، ولادیمیر شمانوف کہہ چکے ہیں کہ امریکہ اور روس کےفوجی سربراہان کے درمیان ترکی کے توسط سے رابطہ قائم ہوا ہے۔ نیٹو کے سیکرٹری جنرل ژاں اسٹولٹنبرگ بھی ترکی کے دورے پر پہنچے اور انہوں نے صدر ایردوان سے علاقے کی صورتِ حال پر بات چیت کی۔ گزشتہ ہفتے ہی انقرہ میں صدر ایردوان کی نگرانی میں شام کی صورتِ حال سے متعلق سہ فریقی سربراہی اجلاس منعقد ہوا تھا جس میں روس کے صدر ولادِ میر پوتن اور ایران کے صدر حسن روحانی نے شرکت کی تھی اور اب یہ سہ فریقی سربراہی اجلاس ایران میں منعقد ہو گا۔ شام سے متعلق سربراہی اجلاس سے ترکی شام کے حامی اور شام کے مخالف ممالک کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ ساڑھے تین ملین شامی مہاجرین کو پناہ دیتے ہوئے ایک ثالث اور انسان دوست ملک ہونے کا بھی ثبوت فراہم کر رہا ہے۔

ڈاکٹر فر قان حمید

ترک روسی میزائل ڈیل، نیٹو پریشان

انقرہ اور ماسکو کے مابین طے پانے والے ایک دفاعی معاہدے کے تحت ترکی روس سے زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل خریدے گا۔ اس دفاعی معاہدے کے بعد ترکی اور نیٹو اتحادیوں کے تعلقات مزید بگڑنے کا خدشہ ہے ۔  شامی علاقے عفرین میں امریکی حمایت یافتہ کردوں کے خلاف ترک فوج کی کارروائیوں کے باعث نیٹو اور ترکی کے مابین تعلقات پہلے ہی کشیدگی کا شکار تھے۔ ترکی اور روس کے مابین دفاعی معاہدے کی خبریں سامنے آنے کے بعد خدشہ ہے کہ ترکی کے نہ صرف امریکا کے ساتھ تعلقات مزید تناؤ کا شکار ہوں گے بلکہ ترکی کے مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی کا باعث بن سکتے ہیں۔ خیال رہے کہ ترکی خود بھی نیٹو کا رکن ملک ہے۔

جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں شام اور عراق کے کرد علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کرد فورسز کے خلاف ترکی کے عسکری آپریشن پر سراپا احتجاج ہیں۔ مظاہرین میں کردوں کی اپنی ایک علیحدہ ریاست کا مطالبہ کرنے والے بھی شامل ہیں۔ نیٹو اتحاد کی طرف سے گزشتہ کئی ماہ سے ڈھکے چھپے اور کھلے عام دونوں طریقوں سے ترکی کو اس طرح کے کسی معاہدے سے متنبہ کیا جاتا رہا ہے تاہم ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے اس کے باوجود اپنے ملک کے ایئر ڈیفنس نظام کو مضبوط بنانے کے لیے روسی زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل نظام S-400 ’’ٹرائمف‘‘ خریدنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ معاہدہ 2.5 بلین امریکی ڈالرز مالیت کا ہے۔

تاہم ابھی تک یہ بات مکمل طور پر واضح نہیں ہے کہ آیا ترکی اس معاہدے کو مکمل کر چکا ہے یا ابھی اس پر عملدرآمد کیا جانا باقی ہے۔ نیٹو کے سیکرٹری جنرل ژینس اشٹولٹن برگ نے کہا ہے کہ ترکی کو اس معاہدے کے حوالے سے اپنی پوزیشن واضح کرنی چاہیے۔ ان کی طرف سے یہ بیان رواں ہفتے ہونے والے نیٹو ممالک کے وزرائے دفاع کے اجلاس سے قبل سامنا آیا ہے۔ تاہم نیٹو کے بعض سفارت کاروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ان خیالات کا اظہار کیا ہے کہ یہ فیصلہ ابھی بھی واپس لیا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے یہ بات بھی اہم ہے کہ انقرہ نے 2013ء میں چین سے میزائل شکن نظام کی خرید کا ایک معاہدہ کرنے کا اعلان کیا تھا تاہم نیٹو کے احتجاج کے بعد ترکی نے اپنا یہ فیصلہ واپس لے لیا تھا۔

کیا امریکا افغانستان میں کنٹرول کھو رہا ہے ؟

امریکی حکومت کے سرکاری نگراں ادارے اسپیشل انسپکٹر جنرل فار افغان ری کنسٹرکشن نے ایک رپورٹ میں اعتراف کیا ہے کہ امریکا افغانستان میں کنٹرول کھو رہا ہے۔ امریکی حکومت کے سرکاری نگراں ادارے اسپیشل انسپکٹر جنرل فار افغان ری کنسٹرکشن (سگار) نے افغانستان کی صورتحال کے حوالے سے ایک رپورٹ تیار کی جو امریکی کانگریس، محکمہ دفاع اور محکمہ خارجہ کو بھیجی گئی۔ رپورٹ میں اعتراف کیا کہ امریکا افغانستان میں کنٹرول کھو رہا ہے اور امریکا کے زیر کنٹرول اضلاع کی تعداد کم ہو رہی ہے، اس کے مقابل ان علاقوں کی تعداد بڑھ رہی ہے جن پر طالبان کا قبضہ یا اثر و رسوخ ہے۔

سگار کی رپورٹ کے مطابق 2017 میں بم حملوں کے اعداد و شمار 2012 کی نسبت 3 گنا زیادہ ہیں اور افغانستان میں امریکی فوجیوں کے جانی نقصان میں بھی اضافہ ہوا جب کہ سپاہیوں کو ہلاک کیا جانا تقریباً روز مرہ کا معمول ہے، گزشتہ 11 مہینوں میں 11 امریکی فوجی ہلاک ہوئے، اکتوبر میں افغانستان میں فورسز نے دشمنوں کے ٹھکانوں پر 653 بم گرائے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ منشیات پر کنٹرول کے لیے 8 ارب 70 کروڑ ڈالر دی گئی لیکن اس کے باوجود گزشتہ سال افغانستان میں افیون کی پیداوار میں 87 فی صد اضافہ ہوا اور پوست کے زیر کاشت رقبے میں بھی 63 فی صد اضافہ دیکھنے میں آیا جب کہ افغان صوبے فرح میں تشدد کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے، مقامی آبادی کا کہنا ہے کہ طالبان نے کئی سرکاری چوکیاں تباہ کر دی ہیں۔

شام میں روسی جنگی جہاز کو مار گرایا گیا

شام کے شمال مغربی صوبے ادلیب میں باغیوں کے زیر کنٹرول علاقے میں روس کا ایک جنگی جہاز مار گرایا گیا ہے۔ روس کی وزارتِ دفاع کا کہنا ہے کہ سخوئی 25 جنگی جہاز کا پائلٹ جہاز تباہ ہونے سے پہلے اس سے نکلنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ روسی وزارتِ دفاع کے مطابق خیال کیا جا رہا ہے کہ پائلٹ جہادی گروہوں کے اتحاد حیات تحریر الشام کے زیر کنٹرول علاقے میں اترا جہاں اسے فائرنگ کے تبادلے میں مار دیا گیا۔ خیال رہے کہ روس شام میں حکومت کا اتحادی ہے اور یہ ادلیب میں شامی سکیورٹی فورسز کی باغیوں کے خلاف کارروائیوں میں مدد کر رہا ہے جہاں دسمبر میں آپریشن شروع کیا گیا تھا۔

سخوئی 25 جنگی جہاز ادلیب کے علاقے مسران میں جاری سکیورٹی فورسز کی زمینی کارروائیوں میں فضائی مدد فراہم کر رہا تھا جب اسے نشانہ بنایا گیا۔ شام کی صورتحال پر نظر رکھنے والے گروپس کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران روسی جہازوں نے درجنوں حملے کیے ہیں۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر جاری کی گئی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک جہاز کو نشانہ بنایا گیا اور زمین پر گرنے سے پہلے اسے آگ لگ چکی تھی۔ روسی وزارتِ دفاع کا کہنا ہے کہ’ جہاز کے پائلٹ کے پاس واقعے کی رپورٹ دینے کے لیے کافی وقت تھا کہ وہ اس علاقے میں اترا ہے جو شدت پسندوں کے قبضے میں ہے ۔ روسی وزارتِ دفاع کا کہنا ہے کہ پائلٹ کی لاش کو واپس لینے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔

دوسری جانب سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر اطلاع دی گئی ہے کہ بحیرہ روم میں تعینات روسی بحری جہازوں سے ادلیب میں ایک ساتھ کئی کروز میزائل ادلیب میں داغے گئے ہیں۔ روس کی وزارتِ دفاع نے بھی تصدیق کی گئی ہے کہ علاقے میں اپنے ہدف کو انتہائی درستگی سے نشانہ بنانے والے ہتھیاروں سے حملے کیے گئے ہیں۔ خیال رہے کہ روس نے 2015 میں شامی حکومت کی مدد کے لیے فضائی کارروائیوں کا آغاز کیا تھا اور اس دوران 2016 میں باغیوں نے اس کے ایک ہیلی کاپٹر کو مار گرایا تھا تاہم یہ پہلی بار ہے کہ اس کے جنگی جہاز کو گرایا گیا ہو۔ روس کی شام میں کارروائیوں کے دوران 45 کے قریب فوجیوں کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے جبکہ ہلاک ہونے والے کنٹریکٹرز کی تعداد کا اندازہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے نومبر 2015 میں ترکی نے روس کے ایک جنگی جہاز کو مار گرایا تھا جس میں ایک پائلٹ ہلاک ہو گیا تھا اور ایک کو ریسکیو کیا گیا تھا۔

طالبان کے حملے، امريکا کی نئی افغان پاليسی پر سواليہ نشان

افغانستان میں حالیہ چند ہفتوں میں پے در پے دہشت گردانہ واقعات رونما ہوئے ہیں، جن میں سینکڑوں افراد ہلاک اور زخمی ہوئے۔ ان حملوں سے ایک طرف تو افغانستان میں سکیورٹی کی انتہائی مخدوش صورت حال کا اظہار ہوتا ہے اور دوسری طرف ان بین الاقوامی کوششوں پر سوالیہ نشانات پیدا ہوتے ہیں، جو گزشتہ کئی برسوں سے افغانستان میں قیام امن کے لیے کیے جا رہے ہیں۔ ان حملوں سے افغان شہریوں میں عدم تحفظ کے احساس کے ساتھ ساتھ عوام کی سلامتی یقینی بنانے کے لیے کابل حکومت کی محدود قوت کا انداز بھی لگایا جا سکتا ہے۔ افغانستان میں ہونے والے حالیہ حملوں کی ذمہ داری طالبان اور ’اسلامک اسٹیٹ‘ نے قبول کی ہے۔

رواں برس کا آغاز اس شورش زدہ ملک کے لیے انتہائی خون ریز رہا ہے۔ بہت سے افغان شہریوں کے مطابق جنوری میں ہونے والے ان بڑے دہشت گردانہ واقعات یہ بتاتے ہیں کہ رواں برس ایسے حملوں کے اعتبار سے کس قدر بھیانک ہو سکتا ہے۔ چند ہفتے قبل طالبان اور کابل حکومت کے درمیان ہونے والے امن مذاکرات ان حملوں کے بعد اب ایک قصہ پارینہ دکھائی دے رہے ہیں۔ افغان سکیورٹی ماہر اے ڈی محمد عارف کے مطابق، ’’حالیہ حملے ہلمند، ننگر ہار، قندوز اور دیگر مقامات پر امریکی عسکری کارروائیوں میں اضافے کا ایک رد عمل ہو سکتے ہیں۔‘‘

عارف نے مزید کہا، ’’طالبان عموماﹰ اپنی کارروائیوں کا آغاز موسم سرما کے بعد کرتے ہیں، تاہم افغانستان کے لیے نئی امریکی حکمتِ عملی سامنے آنے کے بعد لگتا ہے کہ وہ اپنے حملوں کو وسعت دے چکے ہیں۔ وہ یہ بات باور کرا رہے ہیں کہ وہ اپنی شکست سے بہت دور ہیں۔‘‘ ماضی کے مقابلے میں اب طالبان نے اپنی بڑی کارروائیوں کا آغاز موسم سرما ہی میں کر دیا ہے۔ گزشتہ برس اگست میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان کے لیے نئی امریکی حکمتِ عملی کا اعلان کیا تھا۔ صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد میں اضافہ کریں گے اور یہ فوجی اس وقت تک وہاں موجود رہیں گے، جب تک وہاں ان کی ضرورت ہو گی۔

بشکریہ DW اردو

ترکی کا شام میں فوجی آپریشن

امریکہ نے شام میں دہشت گرد تنظیم ’’داعش‘‘ کے خلاف موثر کارروائی کرنے اور اس مقصد کے لئے ترکی میں برسر پیکار دہشت گرد تنظیم ’’پی کے کے‘‘ کی شام میں موجود ایکسٹینشن ’’پی وائی ڈی اور وائی پی جی‘‘ کو کچھ عرصے سے جدید اسلحے سے لیس کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا تھا۔ ترکی نے اسے ناقابلِ قبول قرار دیتے ہوئے توقع ظاہر کی تھی کہ امریکہ جلد ہی اپنی اس غلطی کا ازالہ کرے گا اور اپنے ستر سالہ اتحادی سے منہ نہیں موڑے گا۔ ترک وزارت خارجہ کے مطابق ’’وائی پی جی‘‘ کو مہیا کیا جانے والا ہر ایک ہتھیار ترکی کے لئے خطرہ ہے۔ ترکی کے صبر کا پیمانہ اس وقت لبریز ہو گیا جب شام میں امریکی دستوں کے کمانڈر کی جانب سے ترکی اور شام کی سرحدوں کے قریبی علاقے میں تیس ہزار کرد جنگجوئوں پر مشتمل ایک نئی سرحدی فورسSDF کی تشکیل دینےاورانہیں جلد ہی ٹریننگ دینے کا اعلان کیا جو جلتی پر تیل کا کام دے گئی.

ترک وزیر خارجہ مولو چاوش اولو نے فوری طور پر اپنے امریکی ہم منصب ٹِلرسن کو ٹیلی فون کرتے ہوئے ایسا نہ کرنے اور دہشت گرد تنظیموں کو مسلح کرنے سے باز رہنے سے متنبہ کیا اور واضح طور پر علاقے میں ان دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے کے لئے تنہا ہی ہر ممکنہ کارروائی کرنے سے بھی آگاہ کر دیا جس پر ٹِلرسن نے چاوش اولو کو اخبارات کی خبروں پر یقین نہ کرنےاور کسی نئی سرحدی فوج کو تشکیل دینے کا کوئی ارادہ موجود نہ ہونے سے آگاہ کیا لیکن ترک وزیر خارجہ نے شام میں امریکی کمانڈر کا بیان ان کے سامنے رکھ دیا۔ اس صورتِ حال پر امریکی وزیر خارجہ نےحالات کا نئے سرے سے جائزہ لینے کی یقین دہانی کروائی۔ لیکن اس کے باوجود امریکہ نے اپنے پرانے اتحادی ترکی کی پروا کیے بغیر شام میں اپنی پالیسی جاری رکھی اور کئے گئے وعدوں کی پاسداری نہ کی۔

ترکی نے اس صورتِ حال پر کہا کہ ترکی شمالی شام میں کرد جنگجوؤں کے حوالے سے امریکی یقین دہانی سے مطمئن نہیں اور اس نے تنگ آ کر 19 جنوری 2018 کو مقامی وقت کے مطابق رات سات بجے، شام کے ساتھ ملنے والے سرحدی شہر عفرین میں فضائی کارروائی کا آغاز کر دیا۔ اس فوجی آپریشن سے قبل ترک صدر ایردوان گزشتہ پندرہ دنوں سے اس بات کا برملا اظہار کرتے چلے آ رہے تھے کہ ’’ترک دستے اچانک شام میں داخل ہو سکتے ہیں‘‘۔ انہوں نے اس دوران روس اور ایران کے ساتھ قریبی رابطہ قائم کر رکھا تھا ۔ روس نے شام کی سرحدوں پر ترک طیاروں کی آمد روکنے کیلئےجدید ایس 400 اور ایس 500 قسم کے میزائل نصب کر رکھے ہیں اس لئے ترکی کو شام کے علاقے میں فضائی کارروائی کے لئے روس کی اجازت اور حمایت کی ضرورت تھی۔

اس مقصد کے لئے ترک مسلح افواج کے سربراہ جنرل حلوصی اقار اور خفیہ سروس MIT کے سربراہ حقان فدان نے ماسکو کا دورہ کیا اور روس کی مسلح افواج کے سربراہ اور دیگر اعلیٰ سرکاری حکام سے ملاقات کرتے ہوئے ترک طیاروں کو شام کی فضائی حدود میں داخل ہونے اور عفرین پر بمباری کرنے کی اجازت حاصل کی۔ اسی طرح ترکی نے شام میں شامی انتظامیہ کا مکمل ساتھ دینے والے ملک ایران سے بھی قریب رابطہ قائم کیا اور عفرین میں فضائی اور بری کارروائی سے متعلق معلومات فراہم کرتے ہوئے فوجی آپریشن سے متعلق اجازت حاصل کی۔ ایران نے اگرچہ ترکی کو شام میں فوجی آپریشن کرنے کی اجازت تو دے دی ہے لیکن اس کیساتھ ساتھ اپنے خدشات کا بھی اظہار کیا ہے۔ عفرین کے فوجی آپریشن سے قبل ترک وزارت خارجہ میں روس، ایران ، امریکہ، برطانیہ، فرانس اور چین کے علاوہ شام کے ہمسایہ ممالک کے سفیروں کو مدعو کرتے ہوئے عفرین میں شروع کئے جانے والے فوجی آپریشن سے متعلق معلومات فراہم کی گئیں۔

شام کے شہر عفرین جس پر کرد دہشت گرد تنظیموں ’’پی وائی ڈی اور وائی پی جی‘‘ نے امریکہ کی مدد سے 2012 سے سے قبضہ کر رکھا ہے علاقے میں مزید پیش قدمی کو روکنے کے لئے ترکی کے لئے ضروری ہو گیا تھا کہ وہ آپریشن کرے۔ اس لئے ترک مسلح افواج نے کرد دہشت گردف تنظیموں کے تین گروپوں کو نشانہ بنایا۔ صدر ایردوان نے اس فوجی آپریشن کی اطلاع دیتے ہوئے کہا کہ ’’عفرین میں ’’شاخِ زیتون‘‘ فوجی آپریشن شروع کر دیا گیا ہے۔ اگلی باری منبج کی ہو گی۔‘‘ منبج شام کا ترکی کے ساتھ سرحد کے قریب ایک دوسرا شہر ہے، جو دہشت گرد تنظیموں کے کنٹرول میں ہے اور عفرین سے مشرق کی جانب واقع ہے۔

ترک صدر ایردوان نے مزید کہا ہے کہ ’’عفرین میں دہشت گردوں کا مکمل صفایا کرتے ہوئے آپریشن کو جلد ہی مکمل کر لیا جائے گا ۔ ہم تنہا نہیں ہیں بلکہ ہمیں دنیا بھر کے مسلمانوں کی دعائیں حاصل ہیں اور ہم اس علاقے کو دہشت گردی سے پاک کرتے ہوئے اس کے باسیوں کے حوالے کر دیں گے۔ دہشت گرد تنظیمیں اس زعم میں نہ رہیں کہ انہیں امریکہ کی پشت پناہی حاصل ہے اور ترکی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔‘‘ ترک وزیراعظم بن علی یلدرم نے عفرین میں شروع کردہ فوجی آپریشن کے بارے میں کہا کہ کرد دہشت گرد تنظیموں کے خلاف جاری ملکی فوج کی کارروائی کے دوران ترک دستے شام میں داخل ہو گئے۔ ترک فورسز نے  پیپلز پروٹیکشن یونٹ (وائی پی جی) کے خلاف شام کے وقت فضائی کارروائی شروع کی تھی۔ ترک وزیر اعظم بن علی یلدرم نے استنبول میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ترکی افواج عالمی وقت کے مطابق صبح آٹھ بجکر پانچ منٹ پر عفرین ریجن میں داخل ہوئیں اور اس کارروائی کا مقصد دہشت گردوں کو ترک سرحد سے تیس کلو میٹر دور دھکیلنا ہے تاکہ دونوں ممالک کی سرحدوں پر ایک سیکورٹی زون قیام کیا جا سکے۔

ترک فضائیہ نے علاقے میں تا دمِ تحریر 153 ٹھکانوں کو نشانہ بناتے ہوئے انہیں مکمل طور پر تباہ کر دیا۔ فضائی آپریشن کے آغاز کے موقع پر ترک مسلح افواج کے سربراہ جنرل حلوصی اقار نے مسلح ہیڈکوارٹر میں بری، بحری اور فضائیہ کے سربراہان کے ہمراہ آپریشن سے متعلق معلومات فراہم کیں اور بری فوج کے آپریشن شروع ہونے کے موقع پر سرحدی علاقوں کا دورہ کیا۔ ترک مسلح افواج کے سربراہ جنرل حلوصی اقار نے امریکہ کی مسلح افواج کے سربراہ جنرل جوزف ڈونفورڈ اور روسی فوج کے سربراہ جنرل ویلری گراسیموف کو فوجی آپریشن سے متعلق معلومات دیں جس پر روسی فوج کے سربراہ نے علاقے سے روسی فوجیوں کے انخلا سے آگاہ کیا۔

اسی دوران ترک وزیر خارجہ نے اقوام متحدہ کو بھی اس کے چارٹرڈ اور بین الاقوامی قوانین کے تحت ترکی کو حاصل حقوق کی روشنی میں فوجی آپریشن کے آغاز کا بتایا۔ نیٹو کے سیکرٹری جنرل اسٹولٹن برگ کا کہنا ہے کہ ہر ملک کو اپنے دفاع کا پورا پورا حق حاصل ہے جبکہ فرانس کے وزیر خارجہ نے شام کے علاقے عفرین میں ترکی کی اس فوجی کارروائی کے خلاف ایک قرارداد پیش کی جس پر ترک وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ اس قرار داد کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کرنے سے یہ بات ظاہر ہو جاتی ہے کہ فرانس ترکی کے مخالف گروپ میں ہے۔ ترکی نے عفرین فوجی آپریشن کے دوران مقامی سطح پر تیار فوجی سازو سامان ہی زیادہ تر استعمال کیا ہے تاکہ امریکہ یا پھر مغربی ممالک کا فوجی سازو سامان استعمال کرنے سے کسی قسم کی پابندی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

ڈاکٹر فر قان حمید

کیا شام میں امریکی اور ترک افواج ایک دوسرے کے مقابل آسکتی ہیں ؟

ترکی کے سرکاری ذرائع ابلاغ نے بتایا ہے کہ امریکی حکام کی طرف سے ترکی کو بتایا گیا ہے کہ واشنگٹن نے شام کے کرد جنگجوؤں کو اسلحہ کی فراہمی روک دی ہے۔ امریکی حکام کی طرف سے یہ دعویٰ ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب شمالی شام میں ترک فوج کردوں کے خلاف گذشتہ نو دنوں سے کارروائی کر رہی ہے۔ امریکا نے متعدد بار ترکی سے کارروائی روکنے کا مطالبہ کیا ہے مگر ترکی کا کہنا ہے کہ کردوں کو امریکا کی عسکری حمایت حاصل ہے۔ خبر رساں داروں کے مطابق ترک حکام کا کہنا ہے کہ امریکا نے پیغام دیا ہے کہ اس نے کرد ملیشیا پیپلز پروٹیکشن یونٹ کو اسلحہ کی فراہمی بند کر دی ہے ۔  امریکا کی جانب سرکاری طورپر اس طرح کے کسی اقدام کی تصدیق یا ترید سامنے نہیں آئی۔ شام میں لڑنے والے کرد جنگجوؤں کو امریکا کی طرف سے فضائی مدد فراہم کرنے، اسلحہ پہنچانے اور ترکی مخالف کردستان ورکرز پارٹی کو دفاعی مدد بہم پہنچانے پرانقرہ واشگٹن کے خلاف سخت برہم ہے۔

خبر رساں ادارے اناطولیہ کے مطابق ترک ایوان صدر کے ترجمان ابراہیم قالن اور امریکی قومی سلامتی کے مشیر ایچ آر میکسماسٹر کے درمیان ٹیلیفون پر بات چیت ہوئی۔ بات چیت میں امریکی قومی سلامتی کے مشیر نے یقین دہانی کرائی کہ امریکا اب شام میں کردوں کو اسلحہ فراہم نہیں کرے گا۔ شام میں پہلے سے جاری کشیدگی کے دوران ایک ہفتہ قبل ترکی نے سرحدی علاقے عفرین میں کرد جنگجوؤں کے خلاف ایک نیا محاذ کھول دیا۔ یہ محاذ ایک ایسے وقت میں کھلا ہے جب امریکا اور ترکی کے درمیان بعض دیگر عالمی معاملات پر بھی کشیدگی پائی جاتی ہے۔

امریکی وزارت دفاع ’پینٹاگون‘ نے کہا تھا کہ ان کا ملک کرد پروٹیکشن یونٹس کو دیےگئے اسلحہ کی باریکی سے مانیٹرنگ کر رہے ہیں۔ بیان میں کہا گیا تھا کہ ترکی اور امریکا کے درمیان پائی جانے والی کشدیگی کو ختم کرنے کے لیے ہرممکن کوشش کی جائے گی۔ امریکا ترکی کے ساتھ موثر بات چیت کرنے کے لیے تیار ہے۔ ترک صدر نے کہا تھاکہ ترک فوج سرحدی علاقوں سے کرد باغیوں کو نکال باہر کرے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ عفرین میں آپریشن کی کامیابی کے بعد ہم مشرقی سرحد پر عراق کی طرف بھی آئیں گے۔ عراق کی سرحد کے قریب امریکی فوج کے اڈے موجود ہیں۔ امریکی اور ترک فوج ایک دوسرے کے آمنے سامنے آسکتی ہیں۔

ترکی کی فوج شام میں داخل

ترک میڈیا کا کہنا ہے کہ کرد ملیشیا وائی پی جی کے خلاف کارروائی کے دورانترکی کی فوج نے شام کی سرحد کے اندر پانچ کلومیٹر تک پیش قدمی کی ہے۔

ترک میڈیا کا کہنا ہے کہ کرد ملیشیا وائی پی جی کے خلاف کارروائی کے دوران ترکی کی فوج نے شام کی سرحد کے اندر پانچ کلومیٹر تک پیش قدمی کی ہے.

ترک صدر رجب طیب اردوغان کی جانب سے کرد جنگجوؤں کو ’بہت جلد‘ کچلنے کا عندیہ دیا ہے.

ترکی نے شام میں کرد ملیشیا کے خلاف کارروائی پر بین الاقوامی تنقید کو مسترد کیا ہے.

ترکی کے میڈیا کے مطابق عفرین میں داخلے کے بعد انہیں کسی قسم کی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا.

انقرہ نے کہا ہے کہ اس دوران کسی شہروں کو کسی بھی قسم کا نقصان نہیں پہنچا۔

ترکی نے وائی پی جی کو دہشت گرد تنظیم قرار دیتا ہے جبکہ شام میں شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کے خلاف جنگ میں اس تنظیم کو امریکی اتحاد کی حمایت حاصل ہے.

ترک فوج کے ٹٰینک سرحد عبور کر کے شام میں داخل

ترک فوج نے شمالی شام میں عفرین کے مقام پر کالعدم لیبر پارٹی سے منسلک کرد جنگجوؤں کے خلاف فضائی کارروائی کے بعد باضابطہ زمینی آپریشن کا آغاز کر دیا ہے۔ ترک فوج کے ٹینک اور دیگر فوجی گاڑیاں سرحد عبور کر کے شام میں داخل ہو گئی ہیں جہاں زمینی کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔ ’العربیہ‘ نیوز چینل کے نامہ نگار کے مطابق زمینی آپریشن کے لیے ترکی کے ٹینک اور بکتر بند گاڑیاں باب الھویٰ گیٹ سے شام کے سرحدی علاقے اعزاز میں داخل ہو گئی ہیں جہاں کرد ملیشیا کے خلاف زمینی آپریشن کی تیاری کی گئی ہے۔

قبل ازیں ترک حکومت کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ شمالی شام کے علاقے عفرین میں ’زیتون کی شاخ‘ کے عنوان سے آپریشن شروع کر دیا گیا ہے۔ پہلے مرحلے میں ترکی کے جنگی طیاروں نےعفرین میں امریکی حمایت یافتہ کرد ڈیمو کریٹک فورسز کے ٹھکانوں پر بمباری کی گئی۔ ترک وزیر اعظم بن علی یلدرم نے ایک بیان میں کہا کہ ترکی کی بری افواج شام کے علاقے عفرین میں’ضروری آپریشن‘ کرے گی۔ صحافیوں سے بات کرتے ہوئے وزیراعظم یلدرم نے کہا کہ ترک فوج نے امریکی حمایت یافتہ کرد ملیشیا کے خلاف فضائی کارروائی میں قریبا اپنے تمام اہداف کو کامیابی سے نشانہ بنایا ہے اوردہشت گردوں کے ٹھکانے تباہ کیے گئے ہیں۔

ترکی کے سرکاری ٹی وی پر دکھائی گئی تصاویر میں فوجی ٹرکوں کو ٹینک اور بکتر بند گاڑیاں اٹھائے شام کی سرحد عبور کرتے دکھایا گیا ہے۔ ترک خبر رساں ادارے’دوآن‘ کی رپورٹ کے مطابق ترک فوج کی بھاری نفری ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں کے ساتھ سرحدی علاقے اعزاز میں پہنچ گئی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ کرد پییپلز پروٹیکشن یونٹس کے کئی جنگجوؤں نے حلب کے نواحی علاقے مارع میں فری سیرین آرمی کے سامنے ہتھیار پھینک دیے ہیں۔ ادھر ترکی کےآرمی چیف نے ایک بیان میں کہا ہے کہ’زیتون کی شاخ‘ آپریشن کا مقصد شام میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں، ان کے اسلحہ، عمارتوں اور دیگر آلات کو تباہ کرنا ہے۔ ترک پارلیمان کے اسپیکر اسماعیل کہرمان نے زیتون کی شاخ آپریشن کی حمایت کی ہے اور کہا ہے یہ آپریشن دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عالمی قوانین کے عین مطابق ہے۔

درایں اثناء شامی رجیم نے عفرین آپریشن کے بعد ترک فوج کی دمشق کی جانب ممکنہ پیش قدمی کی تردید کی ہے۔ شامی حکومت نے ترک فوج کی کارروائی کو شام میں ننگی جارحیت قرار دیا۔ خیال رہے کہ ترکی نے اپنی سرحد کے قریب شامی علاقوں میں کرد جنگجوؤں کو منظم ہونے سے روکنے کے لیے نیا آپریشن شروع کیا ہے۔ ترکی اس سے قبل بھی شام میں کرد جنگجوؤں کو منتشر کرنے کے لیے فوجی مداخلت کر چکا ہے۔

الدود، ترکی شام – زیدان زنکلو، ایجنسیاں