ڈاکٹر شاہد مسعود کے الزامات کے بعد صحافت کے کردار پر بحث

پاکستان کے ٹی وی چینلز پر اہم اور حساس واقعات کی کوریج سمیت “سب سے پہلے خبر” دینے کی دوڑ میں بعض اوقات غلط یا “کچے پکے حقائق” پر مبنی خبریں نشر کرنے کی وجہ سے اکثر سوالات اٹھتے رہے ہیں۔ لیکن ضلع قصور میں رواں ماہ جنسی زیادتی کے بعد قتل ہونے والی کم سن بچی زینب کے معاملے پر ایک سینئر اینکر پرسن کی طرف سے ایسے الزامات کے بعد جنہیں وہ تاحال ثابت نہیں کر سکے، ایک بار پھر ذمہ دارانہ صحافت پر نئی بحث چھڑ گئی ہے۔ زینب کے مبینہ قاتل عمران علی کی گرفتاری کے بعد ایک نجی ٹی وی چینل کے اینکر پرسن ڈاکٹر شاہد مسعود نے اپنے پروگرام میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ ملزم ایک ایسے بین الاقوامی گروہ کا حصہ ہے جو بچوں کی غیر اخلاقی ویڈیوز انٹرنیٹ پر جاری کرنے میں ملوث ہے اور اس شخص کے غیر ملکی کرنسی کے کم از کم 37 بینک اکاؤنٹس ہیں۔

اینکر پرسن نے اپنے اسی پروگرام میں چیف جسٹس آف پاکستان کو مخاطب کرتے ہوئے ان سے اس معاملے کا نوٹس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا اس مقدمے میں رقوم کی غیر قانونی منتقلی کا معاملہ بھی پوشیدہ ہو سکتا ہے۔ لیکن جب عدالتِ عظمیٰ نے شاہد مسعود کو طلب کیا تو وہ اپنے الزامات سے متعلق کوئی واضح ثبوت فراہم نہ کر سکے۔ پاکستان کا مرکزی بینک یہ واضح کر چکا ہے کہ تحقیق سے یہ پتا چلا کہ ملزم عمران علی کا کوئی بینک اکاؤنٹ نہیں ہے۔ تاہم مذکورہ اینکر پرسن اب بھی اپنے الزامات پر قائم ہیں۔

شاہد مسعود کے دعوے کی تحقیقات کے لیے عدالت عظمیٰ نے ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دینے کی ہدایت کرتے ہوئے انھیں اس میں اپنے دعوے کے شواہد پیش کرنے کا کہا ہے۔ شاہد مسعود کی طرف سے تاحال ٹھوس شواہد فراہم نہ کیے جانے پر نہ صرف سوشل میڈیا بلکہ الیکٹرانک میڈیا میں بھی خبر کی صداقت اور معیار پر زور و شور سے بحث جاری ہے اور سینئر صحافیوں سمیت غیر جانبدار حلقوں کا کہنا ہے کہ ایک طویل عرصہ گزر جانے کے بعد اب ضروری ہے کہ میڈیا اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے اس بارے میں کوئی ٹھوس قدم اٹھائے۔

سینئر صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جب سے ٹی وی چینلز آئے ہیں ایک ایسا رجحان دیکھنے میں آیا ہے جس پر توجہ نہیں دی گئی۔ “یہ صرف ایک کیس کا معاملہ نہیں ہے۔ یہ ایک رجحان ہے۔ یہ ایک پیٹرن رہا ہے۔ جب سے ٹیلی ویژن چینل آئے ہیں اور یہ پیٹرن بڑھتا گیا اور اس کو چیک نہیں کیا گیا اور روکا نہیں گیا اور اسی وجہ سے پروگرام بھی اور خبریں بھی بغیر تصدیق کیے چلا دی جاتی ہیں۔” ان کا کہنا تھا کہ ضابطۂ اخلاق موجود ہے لیکن بدقسمتی سے اس کی پاسداری نہیں کی جاتی اور جب بھی اس طرح کے سوالات اٹھتے ہیں تو کچھ وقت کے لیے ہی عمل ہوتا ہے لیکن ان کے بقول شاہد مسعود کے دعوے کی تحقیقات سے میڈیا کے اپنے اندر تبدیلی لانے کی امید کی جا سکتی ہے۔

“امید ہے کہ اگر اب ادراک کیا گیا تو کیونکہ یہ معاملہ اب آگے بڑھے گا. جے آئی ٹی کی تحقیقات کے نتیجے میں جو بھی بات سامنے آئے گی چاہے وہ ڈاکٹر شاہد مسعود کے حق میں آتی ہے یا ان کے خلاف، ہر دو صورتوں میں میڈیا کے لیے ایک گائیڈ لائن ضرور ہوگی. اگر انھوں نے ثبوت فراہم کیے تو یہ گائیڈ لائن ہو گی کہ کوئی بھی صحافی تحقیقات کرنے کے بعد کوئی چیز دیتا ہے اور اگر وہ ثبوت نہیں دیتے تو یہ ہو گا کہ آپ کتنے ہی بڑے اینکر ہوں، کتنے ہی بڑے صحافی ہوں، لیکن اگر آپ کے پاس مکمل حقائق نہیں ہیں تو بہتر یہ ہوتا ہے کہ آپ وہ خبر نہ دیں۔ ” مؤقر غیر سرکاری تنظیم ‘ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان’ کے چیئرمین اور ابلاغیات کے ماہر ڈاکٹر مہدی حسن کہتے ہیں کہ وہ ایک عرصے سے اس بات پر زور دیتے آئے ہیں کہ نیوز چینلز میں ادارتی جانچ پڑتال کا مؤثر نظام وضع کیا جانا ضروری ہے لیکن ان کے بقول اس طرف توجہ نہ دیے جانے سے ایسی شکایات اور معاملات سامنے آتے رہتے ہیں۔

“میں بہت عرصے سے کہے جا رہا ہوں کہ میڈیا میں گیٹ کیپنگ کی ضرورت ہے اور یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کوئی سینئر آدمی جو چینل میں ہو وہ خبروں کو دیکھے. بعض لوگوں کو ناموری کا شوق ہوتا ہے اور اس میں وہ ایسی حرکتیں بھی کر جاتے ہیں جو میرا خیال ہے صحافتی اصولوں کے خلاف ہوتی ہیں اور اس سلسلے میں بھی میں سمجھتا ہوں کہ انھوں (شاہد مسعود) نے جو رویہ اپنایا وہ صحافتی اخلاقیات کے خلاف ہے۔” مظہر عباس بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اخبارات کی طرح ٹی وی چینلز کو بھی چاہیے کہ اگر کوئی خبر یا تبصرہ غلط ہو تو اس کی تردید یا معذرت ضروری کی جانی چاہیے۔

ناصر محمود

بشکریہ وائس آف امریکہ اردو

ڈاکٹر شاہد مسعود کا کیا قصور ہے؟

اگر یہ بات ڈاکٹر شاہد مسعود نے کہہ بھی دی تو کونسا ظلم کیا ہے۔ اس سے کونسی قیامت آ گئی ہے۔ اس کے لیے غیر جانبدارانہ تحقیقات کرائی جائیں۔ عام طور پر پاکستان میں ہر جرم کے پیچھے بااثر لوگ ہوتے ہیں وہ عام اور غریب لوگوں کو پہلے پھنسواتے ہیں۔ پھر ان کو چھڑواتے ہیں اور اپنے ووٹ پکے کرتے ہیں۔ ہمارے جمہوری نظام میں یہ لوگ تھانہ کچہری میں مجبور لوگوں کے معاملات کو نبٹانے کے لیے منتخب ہوتے ہیں۔ وہ قانون سازی کی طرف توجہ نہیں دیتے۔ ان قوانین کی خلاف ورزی بھی ہوتی ہے اور اس میں وہ سٹیٹس بناتے ہیں بلکہ ٹور بناتے ہیں اور اپنا رعب داب باقی رکھتے ہیں۔ وہ مصنوعی طور پر بڑے آدمی بن جاتے ہیں۔

بجائے اس کے کہ زینب کیس کی طرف پوری توجہ رکھی جاتی۔ الٹا اس شخص کے خلاف باقاعدہ انکوائری شروع ہو گئی ہے جس نے ایک بہت اہم اور معمول کے مطابق ظلم و ستم میں شریک بڑے لوگوں کے خلاف بات کی ہے۔ اب زینب کیس پیچھے رہ گیا ہے اور ڈاکٹر شاہد مسعود کے خلاف کیس پوری طاقت سے شروع ہو گیا ہے۔ اس سے پہلے بھی دس گیارہ ایسے واقعات قصور میں ہوئے ہیں۔ پولیس حکومت اور عدالت کہاں تھی؟ یہ صرف میڈیا کا کمال ہے کہ مجرم سامنے آیا اور مجرموں کے پیچھے بااثر افراد کو بھی سامنے لانے کی کوشش کی گئی ہے۔

یہ سانحہ کوئی معمولی نہیں ہے جس شخص کی تصویر سامنے آئی ہے وہ اکیلا اس قابل نہیں کہ کئی بچوں بچیوں کے ساتھ ظالمانہ کارروائی کر سکے پہلے ہونے والے واقعات کے لیے تو ڈاکٹر شاہد مسعود نے کوئی بات نہ کی تھی مگر کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ میری گزارش عدالت اور حکومت سے ہے کہ اس معاملے کو الجھانے اور پھیلانے کی بجائے اصل شرمناک واقعے کی طرف توجہ رکھی جائے اور اسے منطقی انجام تک پہنچایا جائے اور اس حوالے سے جو بھی لوگ ملوث ہیں اور فائدے اٹھاتے ہیں ان کو بے نقاب کیا جائے اور کیفر کردار تک پہنچایا جائے اور مجرم کو عبرت کا نشان بنایا جائے۔

میں اس حوالے سے چوتھا کالم لکھ رہا ہوں۔ میرا قلم روتا ہے۔ جیسے انسانیت کا سر قلم کر دیا گیا ہو۔ ڈاکٹر شاہد مسعود کی باتیں اہم ہیں۔ انہیں اگنور نہ کیا جائے۔ اگر کوئی اس سانحے کے پیچھے ہے اور ضرور ہو گا تو اس کے لیے منصفانہ اور غیرجانبدارانہ کارروائی کی جائے۔ قصور کے SHO سے پوچھنے والا کوئی نہیں کہ یہ کیوں ہوا۔ کیوں ہو رہا ہے اور تم نے اس کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں۔ وہ ابھی تک ڈٹ کر تھانے بیٹھا ہے۔ اس کے پیچھے بقول ڈاکٹر شاہد مسعود کوئی بین الاقوامی گروپ بھی ہو سکتا ہے۔ ہمارے ملک میں کہاں کہاں کئی بین الاقوامی گروپ بڑے دھڑلے سے کام کر رہے ہیں۔

یہاں جو این جی اوز اور دوسرے ادارے ہیں ان کے عالمی سطح پر روابط ہیں انہیں بڑی بڑی گرانٹس ملتی ہیں۔ وہ ”کام“ اپنے وطن میں کرتے ہیں اور فنڈز باہر سے لیتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے میں ناروے گیا تھا وہاں لوگوں کے پاس ایسی فلمیں تھیں تو یہ کاروبار بہت پھیلا ہوا ہے۔ اس حوالے سے کسی وزیر کا نام بھی آ رہا ہے۔ قصور کے ممبران اسمبلی اور بڑے لوگوں سے تفتیش کی جائے۔ انہیں باقاعدہ شامل تفتیش کیا جائے۔ جس شہر کا نام ہی قصور ہے وہاں شہر کے وارث لوگوں کو کیسے بے قصور قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ ان کا اپنا شہر ہے اور یہ ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ یورے ملک اور پوری دنیا میں ایک بدنامی رسوائی اور ظالمانہ صورتحال کی خبریں عام ہوئی ہیں۔

ایک بڑی اینکر پرسن نسیم زہرا کہتی ہیں کہ ڈاکٹر شاہد مسعود کا کیس مثالی ہو سکتا ہے۔ کیا زینب کیس مثالی نہ ہو گا ؟ ڈاکٹر شاہد مسعود نے چونکہ بڑے لوگوں کا نام لیا ہے تو صحافی بھی میدان میں اتر آئے ہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ڈاکٹر شاہد مسعود بھی صحافی ہیں۔ کبھی کہتے ہیں کہ وہ صحافی نہیں ہیں؟ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ اس معاملے میں صحافیوں کو کیوں ملوث کیا گیا ہے۔ اب یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ڈاکٹر شاہد مسعود معافی مانگ لیں۔ وہ کس بات کی معافی مانگیں۔ ایک ایسی بات جو زینب سانحے سے متعلق ہے کہہ دینے میں کونسی توہین عدالت ہوئی ہے یا توہین صحافت ہوئی ہے تو توہین صحافت کرنے والے لوگ ہمارے یہاں کئی ہیں۔ انہیں پوچھنے والا بھی کوئی نہیں۔

ہمارے صحافی صحیح خبریں دیتے ہیں۔ کبھی کبھی غلط خبریں بھی چلی جاتی ہیں۔ غلط خبر کے لیے پرویز رشید کو سزا دی گئی اور خواجہ آصف کو جزا ملی۔ ایک ہی غلطی کے لیے دو مختلف معیار مقرر کیے گئے۔ میرے خیال میں زینب کیس کے حوالے سے جو ظلم ہوا ہے اس پر توجہ رکھی جائے۔ ان لوگوں کے لیے بھی تحقیقات کر لی جائیں جن کی طرف ڈاکٹر شاہد مسعود نے اشارہ کیا ہے۔ اسے صرف ایک اطلاع کے طور پر لیا جائے۔ باقی قوم حکومت اور تفتیشی ٹیم کا ہے۔ جب کوئی مقدمہ ہو تو اس کے لیے سارے معاملات کو سامنے رکھا جاتا ہے۔ ممکن ہے اس میں کوئی بڑی تلخ حقیقت موجود ہو۔

ڈاکٹر محمد اجمل نیازی

زینب قتل کیس : ڈاکٹر شاہد مسعود کو ثبوت پیش کرنے کا حکم

چیف جسٹس نے اینکر ڈاکٹر شاہد مسعود کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ آپ غیر متعلقہ باتیں نہ کریں بینک اکاونٹس کے ثبوت دیں، اگر آپ کی خبر سچی نکلی تو آپ کو نمبر ایک صحافی ہونے کا اعزاز دیا جائے گا لیکن اگر یہ خبر غلط نکلی تو آپ سوچ نہیں سکتے کہ آپ کے ساتھ کیا ہو گا۔ سماعت کے دوران عدالت نے ریمارکس دیئے ڈاکٹر شاہد مسعود کا نام ای سی ایل میں بھی ڈال سکتے ہیں. یاد رہے کہ گزشتہ دنوں ڈاکٹر شاہد مسعود کی جانب سے اپنے پروگرام میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ زینب قتل کیس میں پکڑا گیا ملزم عمران کوئی معمولی آدمی نہیں بلکہ اس کے 37 بینک اکاؤنٹس ہیں اور وہ ایک بین الاقوامی گروہ کا کارندہ ہے اور اس گروہ میں مبینہ طور پر پنجاب کے ایک وزیر بھی شامل ہیں۔

اس دعوے کے بعد چیف جسٹس نے نوٹس لیا تھا اور انہیں سپریم کورٹ میں طلب کیا تھا، جہاں ڈاکٹر شاہد مسعود نے عدالت کو ملزم کے 37 بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات جمع کراتے ہوئے ایک پرچی پر ان شخصیات کا نام لکھ کر دیئے تھے۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے جے آئی ٹی کو رپورٹ پیش کی گئی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ اینکر پرسن کے دعوے کے بعد تحقیقات کی گئی لیکن مرکزی ملزم کا کوئی بینک اکاؤنٹ نہیں ملا۔ جس کے بعد ترجمان پنجاب حکومت  نے اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ ‘سرکاری طور پر اس بات کی تصدیق کرتا ہوں کہ ڈاکٹرشاہد مسعود کی رپورٹ بے بنیاد اور من گھڑت ہے اور ہم اس رپورٹ کے پیچھے چھپے محرکات سمجھنے سے قاصر ہیں جو انہوں نے نتائج کو دیکھے بغیر چلائی تھی۔

قاتل کی گرفتاری پر تالیاں کیسی ؟

رواں ماہ پنجاب کے شہر قصور سے ایک خبر سامنے آئی جس نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا، خبر ہی ایسی تھی۔ ایک سات سالہ بچی زینب کو انتہائی بے دردی سے زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کر کے کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دیا گیا تھا۔ یہ خبر پہلے سوشل میڈیا پر آئی اس کے بعد نیوز چینلز اور پھر ہر گھر ہر زبان پر زینب کا زکر ہونے لگا۔ قصور میں پرتشدد مظاہرے اور توڑ پھوڑ بھی ہوئی اور ان سب کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ قاتل کو گرفتار کیا جائے۔

زینب امین خود تو نہ رہی اور چند دیگر خاندانوں کے زخم بھی تازہ کر گئی، جب تحقیقات کرنے والے حکام نے یہ کہا کہ زینب کا قاتل قصور میں ہی چند دیگر بچیوں کو بھی ریپ کے بعد قتل کرنے والا دکھائی دیتا ہے۔ زینب امین کے قاتل کی گرفتاری کا باقاعدہ اعلان کر دیا گیا ہے، اور اب عدالت سے اسے سزا دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ قاتل گرفتار کر لیا گیا ہے اس بات کا اعلان کرنے کے لیے لاہور میں پریس کانفرنس کی گئی جس میں شرکت کے لیے زینب کے والد کو خصوصی طور پر قصور سے بلوایا گیا۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ زینب کے قتل کی تحقیقات 14 دن کی انتھک محنت کے بعد اختتام کو پہنچی ہے اور قاتل پکڑا گیا ہے۔

اس کے بعد وزیر اعلیٰ نے تحقیقات کرنے والے اہلکاروں سے کہا کہ وہ کھڑے ہو جائیں اور منہ میڈیا کے نمائندوں کی جانب کر لیں، انھوں نے ویسا ہی کیا اور پورے ہال میں تالیاں بجنے لگیں۔ تالیاں بجیں کیونکہ بقول وزیر اعلیٰ زنیب سمیت کئی دیگر بچیوں کی زندگی تباہ کرنے والا ’درندہ‘ پکڑا گیا ہے۔ لیکن تالیاں بجانے والوں نے ایک لمحے کو کیا سوچا ہو گا کہ اسی ہال میں اس زینب کا باپ بھی موجود ہے اسے یہ تالیاں کیسی لگیں گی؟ خیر پھر ان اہلکاروں سے کہا جاتا ہے کہ وہ بتائیں کہ کیسے انھوں نے ایک سیریل کلر اور ’درندے‘ کو پکڑنے میں مدد کی۔

ایک ہزار 150 ڈی این اے ٹیسٹ کرنے والے ڈی جی لیب جو پہلے سے ہی سلائیڈ شو تیار کر کے لائے تھے نے بتایا کہ کیسے انھوں نے ماضی کی طرح یہ کیس بھی حل کر دکھایا۔ لیکن جب باری آئی زینب امین کے والد کی تو صرف انھیں تحقیقاتی ٹیم، وزیراعلیٰ پنجاب، چیف جسٹس اور آرمی چیف کا شکریہ ادا کرنے کا موقع دیا گیا اور فوراً ان کا مائیک بند کر دیا گیا۔

سوشل میڈیا پر ردعمل
سوشل میڈیا پر وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور رانا ثنا اللہ پر ان کی ہنسی اور تالیوں کے حوالے سے کافی تنقید کی جا رہی ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ زینب کے والد کے سٹیج پر بیٹھے ہوئے ان اعلیٰ عہدیداروں کا ہنسنا اور تالیاں بجانا نہایت غیر موزوں تھا۔

ٹویٹر پر کالم نگار مہر تارڑ نے لکھا ایک تصویر لگائی ہے جس میں وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور وزیر قانون رانا ثنا اللہ کے علاوہ دیگر افراد کو ہنستے دکھایا گیا ہے جبکہ زینب کے والد بیچ میں سنجیدہ بیٹھے ہیں۔ اور انھوں نے لکھا ہے ’کچھ تو شرم کر لیں‘۔

نامور صحافی طلعت حسین نے ٹویٹ میں کہا کہ قصور کے ’سیریل کلر نے کم از کم سات مزید بچیوں کو نشانہ بنا کر مار ڈالا۔ شہباز شریف اس کا نشانہ بننے والی کم از کم ایک بچی کا نام تو لیتے اور ان کے خاندان والوں کو پریس کانفرنس میں بلاتے۔ لیکن وہ ایسا کیوں کریں گے؟ دیگر بچیاں اس وقت خبر نہیں ہیں۔‘

ایک اور صارف جیا جی نے ٹویٹ میں کہا شہباز شریف نے زینب کے والد کا مائیکرو فون بند کر دیا اور میڈیا کے سوالات کے جواب خود دیے۔

ذیشان علی
بی بی سی اردو، اسلام آباد

زینب قتل کیس کا مرکزی ملزم گرفتار

زینب قتل کیس میں اہم پیش رفت ہوئی ہے، پولیس نے کیس کے ملزم کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے اور کہا ہے کہ ملزم نے اعتراف جرم بھی کر لیا ہے۔
پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران نامی ملزم زینب کے گھر واقع کورٹ روڈ کا رہائشی ہے۔ پولیس ذرائع کے مطابق ملزم عمران کا ڈی این اے میچ کر گیا ہے، ملزم کو زینب کیس کے شبہ میں ایک بار پکڑ کر چھوڑ دیا گیا تھا، جس کے بعد ملزم کچھ دنوں سے غائب تھا، اب پولیس نے اُسے دوبارہ پکڑ لیا ہے۔ ملزم کی عمر 35 سے 36 سال ہے جو مقتول بچی کا دور کا رشتے دار بتایا گیا ہے۔

ذرائع کے مطابق مقتول بچی اور ملزم کے گھر والوں کے ایک دوسرے سے اچھے تعلقات تھے اور ایک دوسرے کے گھر آنا جانا تھا۔ ذرائع کا یہ بھی بتانا تھا کہ زینب کے قتل کے بعد قصور میں ہونے والے ہنگاموں کے دوران ملزم پہلے پاک پتن فرار ہوا اور پھر وہاں سے عارف والا چلا گیا۔ وزیر اعلیٰ شہباز شریف کو ملزم کی گرفتاری سے آگاہ کر دیا گیا ہے، وہ کچھ دیر میں اس حوال سے پریس کانفرنس کریں گے۔

یاد رہے کہ پنجاب کے ضلع قصور سے اغوا کی جانے والی 7 سالہ بچی زینب کو زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا تھا، جس کی لاش 9 جنوری کو ایک کچرا کنڈی سے ملی تھی۔ زینب کے قتل کے بعد ملک بھر میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی اور قصور میں پرتشدد مظاہرے پھوٹ پڑے تھے جس کے دوران پولیس کی فائرنگ سے 2 افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔ بعدازاں چیف جسٹس پاکستان اور چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے واقعے کا از خود نوٹس لیا تھا ۔  تحقیقات کے سلسلے میں قصور میں 100 سے زائد افراد کے ڈی این اے بھی لیے گئے تھے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ

زینب قتل کیس : سپریم کورٹ کا کیس کی تفتیش پر عدم اطمینان کا اظہار

سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں زینب قتل از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے سربراہ محمد ادریس نے عدالت میں تحقیقاتی رپورٹ پیش کر دی، تاہم عدالت نے کیس کی تفتیش پر عدم اطمینان کا اظہار کر دیا۔ چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی خصوصی بینچ نے لاہور رجسٹری میں از خود نوٹس کیس کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران زینب کے چچا اور ریپ کے بعد قتل کیے گئے دیگر بچوں اور بچیوں کے والدین بھی پیش ہوئے۔ سماعت کے دوران تحقیقاتی ٹیم نے عدالت بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ واقعہ 4 جنوری کو پیش آیا، جب زینب شام 7 بجے گھر سے قرآن پڑھنے کے لیے نکلی تھی۔

انہوں نے بتایا کہ زینب اپنی خالہ کے گھر قرآن پڑھنے جاتی تھی، جو 300 میٹر کی دوری پر ہے، کمیٹی نے بتایا کہ زینب کا بھائی عثمان اسکے ساتھ جاتا تھا لیکن جس دن واقعہ پیش آیا وہ ساتھ نہیں تھا۔ تحقیقاتی ٹیم نے بتایا کہ جب زینب گھر واپس نہیں پہنچی تو اسکے گھر والوں نے تلاش شروع کر دی اور 9 بج کر 30 منٹ پر پولیس کو 15 کے ذریعے اطلاع دی گئی۔ انہوں نے بتایا کہ جون 2015 سے اب تک 8 واقعات پیش آئے اور یہ واقعات تینوں تھانوں کی حدود میں پیش آئے اور ان میں ایک ہی شخص ملوث ہے، جس کا ڈی این اے ملا ہے جبکہ پہلے دو واقعات تھانہ صدر ڈویژن میں پیش آئے۔

اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ دو تھانوں کی حدود میں اتنے واقعات ہوئے، پولیس کیا کر رہی تھی؟ وہ کون سا ایس ایچ او ہے جو تین سال سے تعینات ہے، سنا ہے کہ لوگوں کی شکایات کے باوجود اس کو ہٹایا نہیں گیا۔
سربراہ جے آئی ٹی نے بتایا کہ ہم نے 800 کے قریب مشتبہ افراد کے ڈی این اے کیے، جس میں سے 8 ڈی این اے ٹیسٹ میچ ہوئے ہیں۔ جس پر ریمارکس دیتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ آپ صرف ایک ہی رخ پر تفتیش کر رہے ہیں، پولیس کے پاس تفتیش کے مزید روایتی طریقے بھی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جو پولیس کر رہی ہے ،اس طرح تو 21 کروڑ لوگوں کا ڈی این اے کرنا پڑے گا۔

سماعت کے دوران جسٹس منظور احمد ملک نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پولیس ڈی این اے سے باہر نکل کر بھی تفتیش کرے، ہم جانتے ہیں کہ پولیس اپنا روایتی طریقہ استعمال کرے تو ملزم تک پہنچا جا سکتا ہے۔ از خود نوٹس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے ججز نے ریمارکس دیئے کہ معصوم بچی کے ساتھ ظلم ہوا ہے، اگر پولیس 2015 میں اتنی سنجیدہ ہوتی تو آج 8 بچیاں زیادتی کے بعد قتل نہ ہوتیں۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ زیادتی کے 8 مقدمات کے حالات و واقعات یکساں ہیں تو اس رخ پر بھی تفتیش کی جائے۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے زینب کے لواحقین سے استفسار کیا کہ آپ کو اگر کسی قسم کی شکایات ہیں تو بتائیں؟ جس پر لواحقین نے عدالت میں بیان دیا کہ جے آئی ٹی تسلی بخش کام کر رہی ہے، ہم دعا گو ہیں کہ یہ جلد کامیاب ہو جائیں ۔  بعد ازاں عدالت نے مزید سماعت کے لیے جی آئی ٹی اور دیگر فریقین کو چیمبر میں طلب کر لیا۔ اس سے قبل گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ نے واقعے کا از خود نوٹس لیتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ میں چلنے والے زینب قتل کیس کی سماعت کو روکنے کی ہدایت کی تھی اور تمام تحقیقاتی ٹیموں کو سپریم کورٹ طلب کرلیا تھیں۔خیال رہے کہ قصور میں 6 سالہ بچی زینب کے قتل پر پہلے لاہور ہائی کورٹ نے از خود نوٹس لیا تھا، تاہم اس کے بعد سپریم کورٹ نے بھی اس واقعہ پر نوٹس لیا اور 15 جنوری کو کیس کو سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار سمیت جسٹس عمر عطاء بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل تین رکنی بینچ تشکیل دیا تھا۔

بشکریہ ڈان نیوز اردو

اپنے بچے کی آخری اطلاع کا انتظار مت کیجیے : وسعت اللہ خان

جب بچے پیدا ہوتے ہیں تو ہم ان کو پہلی بار سینے سے چمٹانے، کروٹ دلانے، نہلانے دھلانے سے لے کر خوراک، صحت، تعلیم اور تحفظ سمیت دنیا کا ہر آرام اور سہولت بساط سے بڑھ کے مہیا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم سب کی خواہش ہوتی ہے کہ بچہ ہم سے سب کچھ شیئر کرے، سکول میں کیا ہوا، چوٹ کیوں لگی، دیر کیوں ہو گئی، پڑھائی میں دھیان کیوں نہیں وغیرہ وغیرہ۔ جب یہی بچے، بچیاں دس بارہ برس کی عمر تک پہنچتے ہیں تو ہم یہ فرض کر لیتے ہیں کہ اب یہ اپنی بنیادی دیکھ بھال خود کر سکتے ہیں لہٰذا ضروری نہیں کہ وہ ہم سے یا ہم ان سے اسی طرح ہر بات شئیر کریں جس طرح پانچ چھ سال کی عمر تک کرتے تھے۔

حالانکہ بلوغت کی عمر میں داخل ہونے والے دور میں ہی بچوں کو سب سے زیادہ رہنمائی درکار ہوتی ہے، جب ان کے جسم نئی نئی تبدیلیوں سے گذر رہے ہوتے ہیں اور انہیں سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے اور کیوں؟ عین اسی دور میں والدین اور بچوں کے درمیان ججھک کا وہ پردہ حائل ہونا شروع ہو جاتا ہے جو اب تک نہیں تھا۔ والدین اور بچوں کے مابین ایک لاشعوری فاصلہ پیدا ہونے لگتا ہے۔ سگے تعلق میں سے بے ساختگی کم ہوتی چلی جاتی ہے اور دونوں جانب یہ سوچ پروان چڑھنے لگتی ہے کہ ہر بات بتانے کی نہیں، ہربات سننے یا سنانے کی نہیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں والدین اور بچوں کے درمیان عدم رابطے کے خلا میں کوئی تیسرا داخل ہو جاتا ہے۔ اس تیسرے کی کوئی بھی شکل ہو سکتی ہے۔

خوف دلانے اور اعتماد متزلزل کرنے والے دیواری و اخباری اشتہارات، فحش فلمیں، سستا جنسی لٹریچر، ہم جماعت، محلے کے نام نہاد جنسی دانشور، بڑی عمر کے کزنز، رشتے دار، خانساماں، ڈرائیور، چوکیدار، واقف کار خوانچہ فروش، گھر کے اندر یا باہر نت نئی گالیاں، رسیلے لطائف، کج رو اساتذہ، منہ پھٹ مولوی غرض کوئی بھی۔ اگر والدین پر زور دیا جائے کہ اپنے بچوں سے مسلسل کمیونکیشن ان بچوں کے بہتر اور محفوظ مسستقبل کے لیے کس قدر اہم ہے تو اکثر سرپرست شتر مرغ بن کے جوابی دلائل کی ریت میں سر دبا لیتے ہیں۔

مثلاً بچوں سے جسمانی تبدیلیوں پر بات کرنا مشرقی تہذیب نہیں، عمر کے ساتھ ساتھ بچے خود بخود اونچ نیچ سمجھ لیتے ہے جیسے مچھلی کے بچے کو کوئی تیرنا تھوڑی سکھاتا ہے، آج کل میڈیا نے سب سکھا پڑھا دیا ہے لہٰذا ہمیں بچوں سے جسمانی و ذہنی الجھنوں پر بات کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ گھر کی تربیت اچھی ہو تو بچے نہیں بگڑتے نہ کوئی انہیں ورغلا سکتا ہے۔ ہاں قریبی رشتے دار بچوں کا جنسی استحصال کر سکتے ہیں یا انہیں حراساں کر سکتے ہیں مگر ایسا مغرب میں زیادہ ہوتا ہے۔

ہمارے ہاں خاندانی نظام کی جڑیں اب بھی مضبوط ہیں اور ہر کوئی ہر کسی کے بارے میں جانتا ہے، یہ سب مغربی بالخصوص مخلوط تعلیم کا نتیجہ ہے، دینی مدارس میں تو ایسا کچھ نہیں ہوتا یہ محض یہودی پروپیگنڈہ ہے، کالی بھیڑیں تو ہر جگہ ہوتی ہیں اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ پورا معاشرہ خراب ہے، جب سے پردے کا رواج کم ہوا تب سے بے راہروی بڑھی ہے، اگر کسی خاندان میں یا گھر سے باہر ایسا کچھ ہوتا بھی ہے تو اس کی تشہیر سے بدنامی کے ساتھ ساتھ جنسی جرائم میں اضافہ ہوتا ہے۔ اگر دو چار کو سرِعام پھانسی پر لٹکا دیں تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ خرابی ہم میں نہیں ریاستی ڈھانچے اور قوانین میں ہے وغیرہ وغیرہ۔

اور جب کوئی المیہ رونما ہوتا ہے تو کسی کی سمجھ میں نہیں آتا کہ ان کے بچے کے ساتھ ایسا کیوں ہو گیا۔ دنیا جہان کی وجوہات تلاش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے سوائے اپنے محاسبے کے اور چند دن کی ہنگامہ آرائی اور سینہ کوبی کے بعد پھر امن ہو جاتا ہے۔ ہم پھر سے فرض کر لیتے ہیں کہ فلاں بچے کی قسمت خراب تھی۔ ہمارے بچوں کے ساتھ ایسا نہیں ہو سکتا۔ صرف اپنے بچے سے مسلسل بات کرتے رہنے کی بنیادی ذمہ داری سے بچنے کے لیے ہم ہزار جواز تلاش کر لیتے ہیں۔ چلیے مت کیجیے بات مگر کچھ ایسا کیجیے کہ اس کے بارے میں پہلی اطلاع آپ کو اپنے بچے ہی سے ملے نہ کہ آخری اطلاع دنیا سے ملے۔

وسعت اللہ خان
تجزیہ کار

سفاک مجرموں کو سرعام چوکوں چوراہوں پر لٹکایا جائے

ایک اور دل ہلا دینے والا واقعہ۔ ایک اور کمسن بچی کا اغوا، اُس معصوم کے ساتھ زیادتی اور پھر اُس کا بیہمانہ قتل۔ اس سے بڑا اور کیا ظلم ہو سکتا ہے؟ اُس معصوم جان پر کیا قیامت گزری ہو گی۔ اُس کے ماں باپ کس طرح اس صدمہ کو برداشت کر یںگے ؟؟ وہ کیسے اُس ظلم پر صبر کر پائیں گے جس کا شکار اُن کی سات سالہ پھول جیسی زینب کو بنایا گیا۔ جس کسی نے اس واقعہ کے بارے میں سنا انتہائی رنجیدہ ہوا۔ یہ واقعہ قصور میں ہوا۔ اس سے پہلے اسی شہر میں ایک سال کے دوران مبینہ طور پر کئی اور کم سن بچیوں کو ایسے ہی اغوا اور زیادتی کے بعد قتل کیا گیا۔ چند سال پہلے لاہور میں بھی ایک پانچ سالہ بچی کے ساتھ بھی ایسا ہی ظلم ہوا۔

پورے ملک میں ایسے واقعات کی تعداد کتنی ہے مجھے نہیں معلوم لیکن کیا ان واقعات میں ملوث کسی مجرم کو سزا ملی؟؟ ہمیشہ کی طرح اس واقعہ پر بھی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ ملوث ملزما ن کو جلد از جلد گرفتار کر کے کیفر کردار تک پہنچائیں گے۔ ایسے کتنے سفاک درندوں کو ماضی کے واقعات کے نتیجے میں کیفر کردار تک پہنچایا گیا۔ زینب کے اغوا، اُس کے ساتھ زیادتی اور قتل کرنے والے اگر گرفتار ہو گئے تو اُنہیں نشان عبرت کیسے بنایا جائے گا؟؟ کیا ہمارا نظام عدل ایسا ہے کہ گھناونے سے گھناونے جرم میں ملوث اور بڑے سے بڑے مجرم کو نشان عبرت بنایا جا سکے تاکہ معاشرہ میں موجود مجرمانہ ذہن رکھنے والوں کے دل میں ڈر پیدا ہو اور جرائم کو روکا جا سکے۔

کیا آرمی پبلک اسکول پشاور میں شہید کیے گئے ایک سو چالیس سے زیادہ بچوں کے قاتلوں کو ایسے سزا دی گئی کہ وہ نشان عبرت بنیں؟ کیا کراچی بلدیہ فیکٹری میں جلا کر مارے جانے والے تین سو افراد کے قاتلوں کو عبرت کا نشان بنا دیا ہے؟؟ میں پہلے بھی یہ کہہ چکا اور اب دوبارہ یہ مطالبہ کر رہا ہوں کہ گھناونے اور سنگین جرائم میں ملوث مجرموں کو اسلامی اصولوں کے مطابق سرعام سزائیں دی جائیں لیکن میری یہ بات کسی نے نہ سنی۔ کیوں نہ زینب کے قاتلوں سے ہم اسلامی سزائوں کا آغاز کریں اور ان درندوں کو سرعام پھانسی دی جائے اور اُ ن کی لاشوں کو دو تین دن تک قصور شہر کے اہم چوراہے پر لٹکتاچھوڑ دیا جائے تاکہ وہ صحیح معنوں میں نشان عبرت بن سکیں۔

تا کہ ایسے درندوں کو دوسروں کے لیے مثال بنایا جا سکے اور معاشرہ کو ایک پیغام دیا جائے کہ جو کوئی ایسے گھنائونے جرم میں ملوث پایا گیا اُس کے ساتھ ایسا ہی سلوک ہو گا۔ زینب کے ساتھ جو ہوا اُس پر ہمارے تمام سیاسی رہنمائوں اور حکمرانوں کی طرف سے سخت مذمتی بیان جاری ہوئے۔ یہ بھی کہا گیا کہ قاتلوں کو نشان عبرت بنایا جائے گا۔ تو میرا سوال ہے نواز شریف شہباز شریف سے، عمران خان اور بلاول بھٹو سے، وزیر اعظم سے، چیف جسٹس سے اور دوسرے ذمہ داروں سے کہ کیا وہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں زینب کو اغوا، اُس معصوم کے ساتھ زیادتی کرنے اور اُسے قتل کرنے والے سفاک مجرموں کو سرعام پھانسی دینے کا فیصلہ کریں گے؟؟

مجھے اس بات کا علم ہے کہ حکمرانوں، سیاستدانوں اور ذمہ داروں کی ایک بڑی تعداد اسلامی سزائوں کے حق میں ہے لیکن وہ مغربی دنیا، این جی اوز اور میڈیا کے ڈر سے اسلام کے نام پر قائم ہونے والے پاکستان میں اسلامی سزائوں پر عمل درآمد نہیں کرتے اور یہ وہ بنیادی وجہ ہے کہ جرائم میں ہمارے ہاں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے اور سفاکی بڑھتی جا رہی ہے لیکن ان سب کو کوئی روکنے والا نہیں۔ ہم نے تو مغربی دنیا کو خوش کرنے کے لیے موت کی سزا پر ہی عمل درآمد کئی سال تک روکے رکھا۔ ہم کہتے تو اپنے آپ کو مسلمان ہیں لیکن اسلامی سزائوں کے نفاذ سے گھبراتے ہیں ۔ اپنے رب سے ڈرنے کی بجائے مغربی دنیا سے ڈرتے ہیں۔

ہمارے ہاں تو پولیس اور عدالتی نظام میں بھی بہت خرابیاں ہیں جن کی وجہ سے مجرم طاقتور اور سفاک جبکہ مظلوم بے بس بنتے جا رہے ہیں ہے۔ پہلے تو مجرم پکڑا نہیں جاتا، پکڑا جائے تو چھوٹ جاتا ہے ۔ کسی کو سزا مل بھی جائے تو معاشرہ کو سزا ہوتے نظر نہیں آتی جس کی وجہ سے جرائم روز بروز اپنی سنگینی کے ساتھ بڑھتے نظر آتے ہیں۔ اب تو بیٹا ماں کو قتل کر کے اُس کی لاش کو جلا دیتا ہے، بہن اپنی سگی بہن کو چھری سے ذبح کر کے قتل کر دیتی ہے، اونچے گھرانوں کے بچے زرا زرا سی بات پر دوسروں کو سرعام قتل کر دیتے ہیں اور جب پکڑے جائیں تو بجائے شرمندگی اور پچھتاوے کے ٹی وی کیمرے کے سامنے ہنستے ہیں۔ اس بڑھتی ہوئی سفاکی کا علاج صرف یہی ہے کہ سنگین جرائم کے مجرموں کو اسلامی اصولوں کے مطابق سرعام چوکوں چوراہوں پر لٹکایا جائے اور یہی نشان عبرت بنانے کا یقیناً بہترین طریقہ ہے۔

انصار عباسی

زینب قوم کی بیٹی تھی، واقعہ نے قوم کا سر شرم سے جھکا دیا

چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار نے کہا کہ زینب قوم کی بیٹی تھی، واقعے سے پوری قوم کا سر شرم سے جھک گیا ہے، اس واقعے پر مجھ سے زیادہ میری اہلیہ گھر میں پریشان تھیں۔ الرازی میڈیکل کالج کیس کی سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان نے زینب قتل کیس سےمتعلق ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ دکھ اور سوگ اپنی جگہ لیکن ہڑتال کی گنجائش نہیں بنتی ہے۔ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ صحت اور عدلیہ جیسے شعبوں میں اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔
چیف جسٹس نے آئی جی پنجاب سےقصور میں معصوم بچی زینب سے زیادتی و قتل کے واقعے کی رپورٹ طلب کر رکھی ہے۔

قصور کی کم سن زینب کی کہانی

ایک بہت ہی دل کو ہلا دینے والا سی سی ٹی وی کا فوٹیج ہے ۔ ایک دھند لی سی تصویر ہے ۔ سڑک پر ایک مرد ایک چھوٹی سی لڑکی کی انگلی تھامے جا رہا ہے  بچی نے لال رنگ کی فراک پہنی ہوئی ہے ۔ جب ننھے منے بچے کسی کی انگلی پکڑتے ہیں تو عام طور سے انہیں ایسا لگتا ہے کہ ہم سے بڑا یہ شخص ہمارا محافظ ہے ۔ انہیں یہ گمان بھی نہیں گزرتا کہ یہ انسان نہیں، بلکہ ایک درندہ ہے ۔پھر ایک اور تصویر ہے ۔ کچرے کے ڈھیر میں ایک پھول پڑا ہے ۔ اس میں ہمیں زیادہ واضح طور پر نظر آتا ہے کہ بچی نے لال فراک اور دھاری دار ٹراؤزر پہنا ہے ۔ یہ کوئی بھی بچی ہو سکتی ہے، کسی کی بھی بچی ہو سکتی ہے۔ مگر اس کا ایک نام بھی ہے ۔ محمد امین انصاری کی لاڈلی بیٹی ’ زینب‘۔

آخر وہ اکیلی گھر سے نکلی کیوں؟ ایک ایسے معاشرے میں جہاں سیکیورٹی ‘محض ایک لفظ ہے، کوئی حقیقت نہیں ؟؟ زینب کے درد میں ڈوبے ہوئے باپ نے بتایا ’ ہم بچوں کو گھر سے اکیلا نہیں جانے دیتے۔ شام کے وقت قرآن شریف پڑھنے کے لئے گئی تھی اپنے کزن کے ساتھ ۔ راستے میں تھوڑا سا پیچھے رہ گئی ۔ جب وہاں پہنچ کر وہ نظر نہیں آئی تو اس بچے نے باہر نکل کر دیکھا لیکن وہ نہیں ملی‘۔ اس کے بعد پورا خاندان، پورا محلہ، پورا شہر اسے ڈھونڈتا رہا لیکن زینب نہیں ملی۔

بچی کے والد محمد امین ملازمت کے لئے سعودی عرب میں مقیم ہیں اور زینب کی امی عمرے کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب گئی ہوئی تھیں ۔’ جب ہم نے سنا تو فوری طور پر واپس آنا چاہتے تھے، لیکن پورے خاندان نے سمجھایا کہ سب سے زیادہ دعا کی ضرورت ہے۔ ہم رک گئے اور آج یہ خبر سنی ۔ خدا دنیا کے کسی بھی ماں، باپ کو یہ خبر نہ سنائے‘۔ ہمیں کچھ عادت سی تھی، قصور کے ساتھ لفظ ’ سوہنا ‘سننے کی۔ اسی شہر میں اس سے پہلے چھ بچیوں کو ریپ کے بعد مار دیا گیا ۔ کچھ ’ملزم‘ پکڑے بھی گئے لیکن ہمیں ان بچیوں کے علاوہ اور کسی کا انجام نہیں معلوم ۔ امین صاحب کہتے ہیں،’ فوٹیج بھی مل گیا تھا، شہر کے جس علاقہ میں وہ تھی وہ بھی پتا چل گیا تھا ۔ لیکن پولیس نے کو شش ہی نہیں کی ۔ نہ کوئی کارروائی کی ‘۔ پولیس نے فوری طور پر کارروائی تو کی ۔ زینب کے وحشیانہ قتل پر نہیں بلکہ اس کے خلاف احتجاج کرنے والوں پر فائرنگ کر کے ۔ دو معصوم شہریوں کو مار دیا ۔ میرے دل میں اس سے زیادہ طاقت نہیں ہے، اس بچی کے بارے میں بات کر نے کی ۔ محمد امین انصاری سے ہی سنئے ان کی بچی کا نوحہ۔

شہناز عزیز

بشکریہ وائس آف امریکہ