Monthly Archives: January 2018
Siberian Yenisei River Presents Breathtaking Landscapes
President Trump’s First State of the Union
طالبان کے حملے، امريکا کی نئی افغان پاليسی پر سواليہ نشان
افغانستان میں حالیہ چند ہفتوں میں پے در پے دہشت گردانہ واقعات رونما ہوئے ہیں، جن میں سینکڑوں افراد ہلاک اور زخمی ہوئے۔ ان حملوں سے ایک طرف تو افغانستان میں سکیورٹی کی انتہائی مخدوش صورت حال کا اظہار ہوتا ہے اور دوسری طرف ان بین الاقوامی کوششوں پر سوالیہ نشانات پیدا ہوتے ہیں، جو گزشتہ کئی برسوں سے افغانستان میں قیام امن کے لیے کیے جا رہے ہیں۔ ان حملوں سے افغان شہریوں میں عدم تحفظ کے احساس کے ساتھ ساتھ عوام کی سلامتی یقینی بنانے کے لیے کابل حکومت کی محدود قوت کا انداز بھی لگایا جا سکتا ہے۔ افغانستان میں ہونے والے حالیہ حملوں کی ذمہ داری طالبان اور ’اسلامک اسٹیٹ‘ نے قبول کی ہے۔
رواں برس کا آغاز اس شورش زدہ ملک کے لیے انتہائی خون ریز رہا ہے۔ بہت سے افغان شہریوں کے مطابق جنوری میں ہونے والے ان بڑے دہشت گردانہ واقعات یہ بتاتے ہیں کہ رواں برس ایسے حملوں کے اعتبار سے کس قدر بھیانک ہو سکتا ہے۔ چند ہفتے قبل طالبان اور کابل حکومت کے درمیان ہونے والے امن مذاکرات ان حملوں کے بعد اب ایک قصہ پارینہ دکھائی دے رہے ہیں۔ افغان سکیورٹی ماہر اے ڈی محمد عارف کے مطابق، ’’حالیہ حملے ہلمند، ننگر ہار، قندوز اور دیگر مقامات پر امریکی عسکری کارروائیوں میں اضافے کا ایک رد عمل ہو سکتے ہیں۔‘‘
عارف نے مزید کہا، ’’طالبان عموماﹰ اپنی کارروائیوں کا آغاز موسم سرما کے بعد کرتے ہیں، تاہم افغانستان کے لیے نئی امریکی حکمتِ عملی سامنے آنے کے بعد لگتا ہے کہ وہ اپنے حملوں کو وسعت دے چکے ہیں۔ وہ یہ بات باور کرا رہے ہیں کہ وہ اپنی شکست سے بہت دور ہیں۔‘‘ ماضی کے مقابلے میں اب طالبان نے اپنی بڑی کارروائیوں کا آغاز موسم سرما ہی میں کر دیا ہے۔ گزشتہ برس اگست میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان کے لیے نئی امریکی حکمتِ عملی کا اعلان کیا تھا۔ صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد میں اضافہ کریں گے اور یہ فوجی اس وقت تک وہاں موجود رہیں گے، جب تک وہاں ان کی ضرورت ہو گی۔
بشکریہ DW اردو
انڈین مسلمان پاکستانی ہیں کیا ؟
انڈیا کی شمالی ریاست اتر پردیش میں ایک سینیئر سرکاری افسر نے پوچھا ہے کہ کیا ہندوستانی مسلمان پاکستانی ہیں جو (ہندو) قوم پرست تنظیموں کے کارکن ان کے محلوں میں جا کر پاکستان مخالف نعرے بلند کرتے ہیں؟ بریلی کے ضلع میجسٹریٹ راگھویندر وکرم سنگھ نے اپنے فیس بک پیج پر لکھا ہے کہ ’عجب رواج بن گیا ہے، مسلم محلوں میں زبردستی جلوس لے جاؤ اور پاکستان مردہ باد کے نعرے لگاؤ۔ کیوں بھئی؟ وہ پاکستانی ہیں کیا؟‘ راگھویندر سنگھ نے یہ بات ریاست کے کاس گنج شہر میں مذہبی تشدد کے پس منظر میں کہی ہے۔
کاس گنج میں یومِ جمہوریہ کے موقع پر ہندو قوم پرست قومی پرچم لے کر ایک موٹر سائیکل ریلی نکال رہے تھے اور مسلمانوں کے ایک محلے سے گزرتے وقت ان کی مقامی لوگوں سے لڑائی ہوئی جس میں ایک ہندو نوجوان ہلاک ہو گیا جبکہ دونوں طرف سے متعدد افراد زخمی ہوئے۔ ضلع کے میجسٹریٹ نے ایک اخبار سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’قوم پرستی کے نام پر جو ہو رہا ہے اس سے انہیں بہت تکلیف پہنچی ہے۔‘ ایک اور پوسٹ میں انھوں نے کہا کہ’چین کے خلاف کوئی نعرے بلند کیوں نہیں کرتا حالانکہ وہ تو زیادہ بڑا دشمن ہے۔ ترنگا لے کر چین مردہ باد کیوں نہیں؟‘ کسی حاضر سروس افسر کے لیے اس طرح کی بات کہنا کافی غیر معمولی ہے کیونکہ اتر پردیش میں بی جے پی کی حکومت ہے اور ان کے بیان کو ڈسپلن کے خلاف ورزی کے زمرے میں تصور کیا جا سکتا ہے۔
ریٹائرڈ سینئر سرکاری افسران نے وزیراعظم نریندر مودی کے نام ایک کھلا خط لکھ کر کہا تھا کہ ملک میں اقلیتوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس خط پر دستخط کرنے والوں میں سابق سیکریٹری صحت کیشو دیسی راجو، سابق سیکریٹری اطلاعات و نشریات بھاسکر گھوش، سابق چیف انفارمیشن کمشر وجاہت حبیب اللہ سمیت 67 سابق بیورو کریٹ شامل ہیں۔ انھوں نے لکھا ہے کہ تشدد کے بدستور جاری واقعات اور قانون کا نفاذ کرنے والی ایجنسیوں کے ڈھیلے رویے پر وہ بہت فکر مند ہیں۔ انھوں نے کہا ہے کہ اقلیتوں کے ساتھ زیادتیوں سے، جس میں انھوں نے مسلمانوں کو کرائے پر مکان نہ دینے اور انہیں منظم انداز میں مکان نہ بیچنے کے واقعات کا بھی ذکر کیا ہے، پہلے سے زہر آلود ماحول اور خراب ہو گا اور مسلمانوں میں ناراضگی بڑھے گی۔
اپنے خط میں انھوں نے گذشتہ برس ملک کے مختلف حصوں میں پیش آنے والے قتل کے ان پانچ واقعات کا بھی ذکر کیا ہے جن میں مسلمان مارے گئے تھے۔ ان کے بقول انھوں نے جو مسائل اٹھائے ہیں ان پر وہ وزیراعظم سے فوراً وضاحت چاہتے ہیں اور یہ کہ تشدد کے ان واقعات میں ملوث لوگوں کے خلاف فوراً کارروائی کی جانی چاہیے۔ گذشتہ برس جون میں بھی ریٹائرڈ افسر شاہی نے ایک کھلے خط میں ملک میں بڑھتی ہوئی عدم رواداری سے لاحق خطرات پر توجہ مرکوز کرائی تھی۔
انڈیا میں جب سے بی جے پی کی حکومت آئی ہے، عام تاثر یہ ہے کہ عدم رواداری بڑھی ہے اور اس کے ساتھ ہی مسلمانوں میں عدم تحفظ کا احساس بھی۔ ملک میں گائے کے تحفظ کے نام پر مسلمانوں کے خلاف تشدد کے متعدد واقعات کے بعد سپریم کورٹ نے ریاستوں کو حکم دیا تھا کہ ’گئو رکشکوں‘ یا گائے کے خود ساختہ محافظین کی سرگرمیوں کو قابو کریں اور اسی کیس میں پیر کو عدالت نے اترپردیش، ہریانہ اور راجستھان کی حکومتوں کو توہین عدالت کا نوٹس بھی جاری کیا ہے۔ گئو رکشکوں کی سرگرمیوں کے خلاف وزیراعظم بھی کئی مرتبہ سخت زبان کا استعمال کر چکے ہیں لیکن حالات میں کوئی خاص بہتری نہیں آئی ہے۔
سہیل حلیم
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، نئی دہلی
ڈاکٹر شاہد مسعود کے الزامات کے بعد صحافت کے کردار پر بحث
پاکستان کے ٹی وی چینلز پر اہم اور حساس واقعات کی کوریج سمیت “سب سے پہلے خبر” دینے کی دوڑ میں بعض اوقات غلط یا “کچے پکے حقائق” پر مبنی خبریں نشر کرنے کی وجہ سے اکثر سوالات اٹھتے رہے ہیں۔ لیکن ضلع قصور میں رواں ماہ جنسی زیادتی کے بعد قتل ہونے والی کم سن بچی زینب کے معاملے پر ایک سینئر اینکر پرسن کی طرف سے ایسے الزامات کے بعد جنہیں وہ تاحال ثابت نہیں کر سکے، ایک بار پھر ذمہ دارانہ صحافت پر نئی بحث چھڑ گئی ہے۔ زینب کے مبینہ قاتل عمران علی کی گرفتاری کے بعد ایک نجی ٹی وی چینل کے اینکر پرسن ڈاکٹر شاہد مسعود نے اپنے پروگرام میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ ملزم ایک ایسے بین الاقوامی گروہ کا حصہ ہے جو بچوں کی غیر اخلاقی ویڈیوز انٹرنیٹ پر جاری کرنے میں ملوث ہے اور اس شخص کے غیر ملکی کرنسی کے کم از کم 37 بینک اکاؤنٹس ہیں۔
اینکر پرسن نے اپنے اسی پروگرام میں چیف جسٹس آف پاکستان کو مخاطب کرتے ہوئے ان سے اس معاملے کا نوٹس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا اس مقدمے میں رقوم کی غیر قانونی منتقلی کا معاملہ بھی پوشیدہ ہو سکتا ہے۔ لیکن جب عدالتِ عظمیٰ نے شاہد مسعود کو طلب کیا تو وہ اپنے الزامات سے متعلق کوئی واضح ثبوت فراہم نہ کر سکے۔ پاکستان کا مرکزی بینک یہ واضح کر چکا ہے کہ تحقیق سے یہ پتا چلا کہ ملزم عمران علی کا کوئی بینک اکاؤنٹ نہیں ہے۔ تاہم مذکورہ اینکر پرسن اب بھی اپنے الزامات پر قائم ہیں۔
شاہد مسعود کے دعوے کی تحقیقات کے لیے عدالت عظمیٰ نے ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دینے کی ہدایت کرتے ہوئے انھیں اس میں اپنے دعوے کے شواہد پیش کرنے کا کہا ہے۔ شاہد مسعود کی طرف سے تاحال ٹھوس شواہد فراہم نہ کیے جانے پر نہ صرف سوشل میڈیا بلکہ الیکٹرانک میڈیا میں بھی خبر کی صداقت اور معیار پر زور و شور سے بحث جاری ہے اور سینئر صحافیوں سمیت غیر جانبدار حلقوں کا کہنا ہے کہ ایک طویل عرصہ گزر جانے کے بعد اب ضروری ہے کہ میڈیا اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے اس بارے میں کوئی ٹھوس قدم اٹھائے۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جب سے ٹی وی چینلز آئے ہیں ایک ایسا رجحان دیکھنے میں آیا ہے جس پر توجہ نہیں دی گئی۔ “یہ صرف ایک کیس کا معاملہ نہیں ہے۔ یہ ایک رجحان ہے۔ یہ ایک پیٹرن رہا ہے۔ جب سے ٹیلی ویژن چینل آئے ہیں اور یہ پیٹرن بڑھتا گیا اور اس کو چیک نہیں کیا گیا اور روکا نہیں گیا اور اسی وجہ سے پروگرام بھی اور خبریں بھی بغیر تصدیق کیے چلا دی جاتی ہیں۔” ان کا کہنا تھا کہ ضابطۂ اخلاق موجود ہے لیکن بدقسمتی سے اس کی پاسداری نہیں کی جاتی اور جب بھی اس طرح کے سوالات اٹھتے ہیں تو کچھ وقت کے لیے ہی عمل ہوتا ہے لیکن ان کے بقول شاہد مسعود کے دعوے کی تحقیقات سے میڈیا کے اپنے اندر تبدیلی لانے کی امید کی جا سکتی ہے۔
“امید ہے کہ اگر اب ادراک کیا گیا تو کیونکہ یہ معاملہ اب آگے بڑھے گا. جے آئی ٹی کی تحقیقات کے نتیجے میں جو بھی بات سامنے آئے گی چاہے وہ ڈاکٹر شاہد مسعود کے حق میں آتی ہے یا ان کے خلاف، ہر دو صورتوں میں میڈیا کے لیے ایک گائیڈ لائن ضرور ہوگی. اگر انھوں نے ثبوت فراہم کیے تو یہ گائیڈ لائن ہو گی کہ کوئی بھی صحافی تحقیقات کرنے کے بعد کوئی چیز دیتا ہے اور اگر وہ ثبوت نہیں دیتے تو یہ ہو گا کہ آپ کتنے ہی بڑے اینکر ہوں، کتنے ہی بڑے صحافی ہوں، لیکن اگر آپ کے پاس مکمل حقائق نہیں ہیں تو بہتر یہ ہوتا ہے کہ آپ وہ خبر نہ دیں۔ ” مؤقر غیر سرکاری تنظیم ‘ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان’ کے چیئرمین اور ابلاغیات کے ماہر ڈاکٹر مہدی حسن کہتے ہیں کہ وہ ایک عرصے سے اس بات پر زور دیتے آئے ہیں کہ نیوز چینلز میں ادارتی جانچ پڑتال کا مؤثر نظام وضع کیا جانا ضروری ہے لیکن ان کے بقول اس طرف توجہ نہ دیے جانے سے ایسی شکایات اور معاملات سامنے آتے رہتے ہیں۔
“میں بہت عرصے سے کہے جا رہا ہوں کہ میڈیا میں گیٹ کیپنگ کی ضرورت ہے اور یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کوئی سینئر آدمی جو چینل میں ہو وہ خبروں کو دیکھے. بعض لوگوں کو ناموری کا شوق ہوتا ہے اور اس میں وہ ایسی حرکتیں بھی کر جاتے ہیں جو میرا خیال ہے صحافتی اصولوں کے خلاف ہوتی ہیں اور اس سلسلے میں بھی میں سمجھتا ہوں کہ انھوں (شاہد مسعود) نے جو رویہ اپنایا وہ صحافتی اخلاقیات کے خلاف ہے۔” مظہر عباس بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اخبارات کی طرح ٹی وی چینلز کو بھی چاہیے کہ اگر کوئی خبر یا تبصرہ غلط ہو تو اس کی تردید یا معذرت ضروری کی جانی چاہیے۔
ناصر محمود
بشکریہ وائس آف امریکہ اردو
Rio de Janeiro’s Drug War
Brazilian soldiers pour into Rio de Janeiro’s Rocinha slum in a bid to quell drug-related violence. Rogério da Silva, 36, also known as Rogério 157, was seized in an operation involving 3,000 Brazilian military and police. He was wanted for homicide, extortion and drug trafficking, and a $15,000 reward had been offered for his arrest. “He was arrested by the police in an integrated operation by police and armed forces in the Arará Park favela,” a spokesman for the security forces said. “He did not resist. He was surrounded.” Rio’s O Globo newspaper said he was caught hiding under a duvet after jumping the wall of his safe house. His arrest marks a rare success for police in a city where violent crime is soaring, and where a much heralded pre-Olympic plan, to pacify favelas with armed police bases, has fallen apart as drug gangs have reoccupied territory.