سید علی گیلانی کا وزیراعظم عمران خان کو خط

کشمیر کے بزرگ حریت رہنما اور کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین سید علی گیلانی نے مقبوضہ وادی کے حالات پر وزیراعظم عمران خان کو خط لکھا ہے اور کہا ہے کہ ہو سکتا ہے یہ آپ کے ساتھ میرا آخری رابطہ ہو۔ حریت رہنما سید علی گیلانی نے اپنے خط میں اقوام متحدہ میں بھارت کی جانب سے متنازع علاقےکی حیثیت کو تبدیل کرنے پر عمران خان کی جانب سے کی جانے والی تقریر کی تعریف کی ہے اور کہا ہے کہ موجودہ صورتحال میں آپ سے رابطہ قومی اور ذاتی ذمہ داری ہے۔ سید علی گیلانی نے خط میں لکھا ہے کہ کشمیری اپنی جدوجہد سے دست بردار نہیں ہوئے ہیں، بھارت کی جانب سے غیرقانونی فیصلوں کے بعد کشمیری عوام مسلسل کرفیو جھیل رہی ہے، نہتے کشمیریوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کرنے کے نوٹسز بھیجے جا رہے ہیں۔

سید علی گیلانی نےخط میں مزید لکھا ہےکہ کشمیری خواتین کو مسلسل ہراساں کیا جا رہا ہے، بھارتی اقدامات اقوام متحدہ کی قراردادوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے، بھارت نے غیر قانونی اقدامات کر کے اپنی طرف سے پاکستان سے ہوئے معاہدوں کو ختم کیا ہے، پاکستان کی طرف سے کچھ مضبوط اور اہم فیصلوں کی ضرورت ہے۔ سید علی گیلانی کا خط میں کہنا ہے کہ پاکستان کو حکومتی سطح پر کچھ کارروائی عمل میں لانے کی ضرورت ہے۔ سید علی گیلانی نے اپنے خط میں مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان بھارت کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کو ختم کرنے کا اعلان کرے، پاکستان دوطرفہ معاہدوں شملہ، تاشقند اور لاہور معاہدے سے دستبردار ہونے کا اعلان کرے۔ ایل او سی پرمعاہدے کے تحت باڑ لگانے کے معاہدے کو بھی ازسرنو دیکھنے کی ضرورت ہے، حکومت پاکستان ان سارے فیصلوں کو لے کر اقوام متحدہ بھی جائے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ

ایودھیا کیس کا فیصلہ، سیکولر بھارت کا ہندو ریاست بننے کی جانب ایک اور قدم؟

بابری مسجد اور رام مندر کی اراضی کے تنازع کے مقدمے میں سپریم کورٹ نے زمین مندر کی تعمیر کے لیے ہندوؤں کو دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس فیصلے پر ایک جانب جہاں یہ کہا جا رہا ہے کہ یہ فیصلہ بھارت کو ہندو ریاست بنانے کی جانب ایک بڑا قدم ہے۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (سی پی ایم – مارکسسٹ) کے رہنما جوگندر شرما نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے قبل بھارت کو ہندو ریاست میں تبدیل کرنے کے متعدد اقدامات کیے گئے ہیں۔ یہ فیصلہ بھی ان ہی میں سے ایک ہے۔ جوگندر شرما کے مطابق ملک میں کوئی بھی آئینی و قانونی ادارہ نہیں ایسا نہیں رہا جس کے اختیارات کو چھیننے کی کوشش نہیں کی گئی۔ تمام اداروں کی دھجیاں اڑا دی گئی ہیں۔ ملک میں قانون کا راج نہیں ہے۔  بابری مسجد اور رام مندر کی اراضی کے تنازع کے مقدمے میں سپریم کورٹ نے زمین مندر کی تعمیر کے لیے ہندوؤں کو دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

اس فیصلے پر ایک جانب جہاں یہ کہا جا رہا ہے کہ یہ فیصلہ بھارت کو ہندو ریاست بنانے کی جانب ایک بڑا قدم ہے وہیں دائیں بازو کے نظریات کے حامل تجزیہ کار اس سے اتفاق نہیں کرتے۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (سی پی ایم – مارکسسٹ) کے رہنما جوگندر شرما نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے قبل بھارت کو ہندو ریاست میں تبدیل کرنے کے متعدد اقدامات کیے گئے ہیں۔ یہ فیصلہ بھی ان ہی میں سے ایک ہے۔ جوگندر شرما کے مطابق ملک میں کوئی بھی آئینی و قانونی ادارہ نہیں ایسا نہیں رہا جس کے اختیارات کو چھیننے کی کوشش نہیں کی گئی۔ تمام اداروں کی دھجیاں اڑا دی گئی ہیں۔ ملک میں قانون کا راج نہیں ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ آخری عدالت عوام کی ہوتی ہے اور یقین ہے کہ عوام ان اقدامات کو تسلیم نہیں کریں گے۔

مودی حکومت مندر تعمیر کا کریڈٹ لینے کی کوشش کرے گی
بائیں بازو کے نظریات کے حامل تجزیہ کار اجے آشیرواد کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ نے حکومت کو مندر تعمیر کرنے کے لیے ٹرسٹ بنانے کی ہدایت دی ہے۔ اب مودی حکومت بڑھ چڑھ کر مندر تعمیر کا کریڈٹ لینے کی کوشش کرے گی۔ ان کے بقول میرا خیال ہے کہ بی جے پی حکومت کا راشٹرواد یا قوم پرستی کا ایجنڈہ ہندوتوا قوم پرستی میں بدل جائے گا۔

فیصلے میں بہت خامیاں ہیں

سپریم کورٹ کے فیصلے پر ‘آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ’ کے رکن کمال فاروقی نے کہا ہے کہ فیصلے میں بہت خامیاں ہیں لیکن ایک ذمہ دار کی حیثیت سے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ فیصلہ ہندو راشٹر کی سمت میں ایک قدم ہے۔ ان کے بقول ہندوؤں کی بہت بڑی اکثریت بھارت کو ہندو اسٹیٹ میں تبدیل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

کسی مندر کو توڑ کر مسجد تعمیر کی گئی؟
سینئر صحافی شیلیش کہتے ہیں کہ فیصلے میں بہت تضاد ہے۔ اس کا جائزہ لیے جانے کی ضرورت ہے۔ ان کے مطابق سپریم کورٹ نے تسلیم کیا کہ 1949 میں بابری مسجد میں غلط طریقے سے مورتیاں رکھی گئیں جبکہ 6 دسمبر 1992 کو غیر قانونی طریقے سے اسے منہدم کیا گیا جبکہ 1949 تک اس میں نماز ہوتی رہی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہندو فریق اور محکمہ آثار قدیمہ یہ ثابت کرنے میں ناکام رہے کہ کسی مندر کو توڑ کر مسجد تعمیر کی گئی۔ اس کے باوجود عدالت نے مندر کے حق میں فیصلہ دیا۔ اس فیصلے کا کافی دن تک جائزہ لیا جاتا رہے گا۔

مسلمانوں کے ساتھ اچھا نہیں ہوا

سپریم کورٹ کے ایک سابق جج جسٹس (ر) اے کے گانگولی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ فیصلہ ان کے لیے پریشان کن ہے۔ ان کے بقول قانون کے ایک طالب علم کی حیثیت سے وہ اسے سمجھنے سے قاصر ہیں۔ مسلمانوں کے ساتھ اچھا نہیں ہوا۔ جسٹس (ر) اے کے گانگولی نے مزید کہا کہ جب ہمارا آئین نافذ ہوا تھا تو بابری مسجد میں نماز ادا کی جا رہی تھی۔ وہاں 500 سال سے مسجد موجود تھی۔ عدالت کو اس کا ثبوت نہیں ملا کہ مندر توڑ کر مسجد بنائی گئی لیکن پھر بھی اس نے مسجد کو مندر بنانے کے لیے دے دیا۔

فیصلے کا اثر دیگر مقدمات پر پڑ سکتا ہے؟
بابری مسجد انہدام کی تحقیقات کرنے والے لبراہن کمیشن کے چیئرمین جسٹس ایم ایس لبرہان نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کا اثر بابری مسجد منہدم کرنے والوں کے خلاف چلنے والے مقدمے پر پڑ سکتا ہے۔ اس سوال پر کہ اس فیصلے کی بنیاد پر کیا بابری مسجد کے انہدام کو درست ٹھہرانے کی کوشش کی جائے گی تو ان کا کہنا تھا کہ عدالت میں ایسی کوشش کی جا سکتی ہے۔

سہیل انجم

بشکریہ وائس آف امریکہ

کشمیری خواتین کا دکھ تو ابھی بیان ہی نہیں کیا گیا

کشمیر میں بھارت کی حکومت کی پابندیوں سے باقی طبقات تو متاثر ہو ہی رہے ہیں لیکن خواتین کو ان پابندیوں سے سب سے زیادہ مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ایک ماں اسپتال میں موجود اپنے نومود بیٹے کی صحت کے بارے میں جاننے سے قاصر ہے تو نئی زندگی کا سفر شروع کرنے والی دُلہن اپنے ارمانوں کے مطابق شادی نہ کر سکی۔ اسی طرح ایک خاتون صحافی پیشے کو ایک طرف رکھ کر بھی خاتون ہونے کی وجہ سے بھارتی سیکیورٹی فورسز سے خطرہ محسوس کرتی ہیں۔ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں سیکڑوں ایسی خواتین کی کہانیاں بکھری ہوئی ہیں جن کا دکھ کشمیر میں جاری لاک ڈاؤن کے اندر ہی کہیں دفن ہو چکا ہے۔

امریکی خبر رساں ادارے ’اے پی‘ کے مطابق بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں گزشتہ تین ماہ سے عائد پابندیوں کے باعث مقامی افراد متعدد مشکلات کا شکار ہیں۔ لیکن کشمیری خواتین ایک ایسے دکھ سے گزر رہی ہیں جسے ابھی تک بیان ہی نہیں کیا گیا۔ بھارت کے ہزاروں غیر مقامی فوجی کشمیر کی گلیوں میں گھومتے نظر آتے ہیں۔ ہزاروں کشمیریوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ بعض پابندیوں میں نرمی کے باوجود اب بھی مواصلات کے متعدد ذرائع بحال نہیں ہو سکے ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ بدستور بند ہے جس سے عام کشمیریوں کی زندگی مشکلات کا شکار ہے۔ یہ تمام مناظر ہیں بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے جہاں بھارتی حکومت کی جانب سے ریاست کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کے بعد سے اب تک معمولاتِ زندگی بحال نہیں ہو سکے ہیں۔

لیکن کشمیری خواتین کی مشکلات اس سے کہیں زیادہ ہیں۔ کوئی اپنے اکلوتے بیٹے کی گرفتاری پر دکھی ہے تو کوئی اپنے شوہر کے انتظار میں دروازے پر نظریں جمائے بیٹھی ہے۔ وقت پر علاج میسر نہ ہونے کے سبب ایک حاملہ خاتون نے مردہ بچے کو جنم دیا تو وہیں ایک خاتون اپنے نومولود بیٹے سے اس کی زندگی کے ابتدائی 20 دن تک نہ مل سکی۔ ایسی کئی کہانیاں کشمیر میں عام ہیں۔ عتیقہ بیگم نامی خاتون سری نگر کی رہائشی ہیں۔ ان کا اکلوتا اور 22 سالہ بیٹا فیصل اسلم میر گھر کا واحد کفیل تھا۔ عتیقہ کے بقول جب کشمیر میں لاک ڈاؤن کا آغاز ہوا تو فیصل دوائیں لے کر گھر واپس آ رہے تھے لیکن انہیں بھارتی سیکیورٹی اہلکاروں نے گرفتار کر لیا۔

عتیقہ بیگم نے کہا کہ ان کے بیٹے کو بھارت کے کسی شہر کی جیل میں منتقل کر دیا گیا ہے اور ان کے پاس کوئی وسائل نہیں کہ وہ اپنے بیٹے سے مل سکیں۔
ایک اور کشمیری خاتون مہک پیر کشتی رانی کی کھلاڑی ہیں۔ ان کے بقول کشمیر میں جاری پابندیوں اور انٹرنیٹ کی بندش کی وجہ سے وہ کشتی رانی کے سہ ملکی ٹورنامنٹ میں شرکت سے محروم ہو گئی ہیں۔ مہک پیر کے بقول انہیں امید تھی کہ وہ کشتی رانی کے بین الاقوامی مقابلوں میں شرکت کریں گی۔ لیکن ملکی ٹورنامنٹ نہ کھیلنے کی وجہ سے اب یہ ممکن نہیں رہا۔ جواہرہ بانو نامی خاتون اپنی تین سالہ بیٹی کو گود میں اٹھائے ایک مظاہرے میں شریک تھیں۔ وہ سرینگر کے ایک نواحی علاقے میں موجود تھیں اور ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے گھر سے باہر نکل کر مظاہرہ کرنے کا موقع گنوانا نہیں چاہتیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ان کی نسبت کشمیری مردوں کو بہت زیادہ خطرہ لاحق ہے کہ وہ کبھی بھی گرفتار کر لیے جائیں گے۔ سرینگر کی رہائشی صباحت رسول ایک ڈاکٹر ہیں۔ انہوں نے ایک حاملہ خاتون کا واقعہ بتایا کہ ان کے اسپتال میں ایک حاملہ خاتون نے صرف اس لیے داخل ہونے سے انکار کر دیا کہ مواصلاتی ذرائع بند ہونے کے باعث وہ اس بات کی اطلاع اپنے گھر والوں تک نہیں پہنچا سکتی تھیں۔ صباحت رسول کے بقول اسی خاتون کو اگلے روز ان کے گھر والے بے ہوشی کی حالت میں اسپتال لائے جہاں خاتون کی جان تو بچ گئی لیکن ان کا بچہ نہیں بچ سکا۔ صباحت رسول کا کہنا تھا کہ خاتون کی صحت کے پیشِ نظر انہیں اسی روز اسپتال میں داخل کرنے کی ضرورت تھی جس دن وہ آئی تھیں لیکن خاتون کو یہ ڈر تھا کہ اگر وہ بغیر بتائے اسپتال میں ایک رات رہ گئیں تو ان کے گھر والے پریشان ہوں گے۔

مسرت زہرا کشمیر کی ایک مقامی صحافی ہیں جو سرینگر کے مضافات میں ہونے والے ایک مظاہرے کے کوریج کر رہی تھیں۔ خاتون صحافی نے بتایا کہ ایک مظاہرے کی کوریج کے دوران ایک پولیس والے نے دھمکی دی کہ وہ انہیں لات مارے گا۔ انہوں نے کہا کہ کشمیری خواتین مردوں کے بغیر اپنے گھروں سے نہیں نکل سکتیں کیوں کہ بھارتی فوجی انہیں ہراساں کرتے ہیں۔ مسرت زہرا کے بقول آپ یہاں چپ نہیں رہ سکتے۔ اگر آپ گھر سے نکل کر باہر آئیں گے اور بولیں گے تو کوئی نہ کوئی تو آپ کی آواز ضرور سنے گا۔ انہوں نے کہا کہ اپنے کام کے لیے باہر نکلنا ہی میرا احتجاج ہے۔ سُہانہ فاطمہ کشمیر میں کھیلوں کا میگزین نکالتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پابندیوں کی وجہ سے وہ اگست کا میگزین نہیں نکال سکی تھیں۔

زاہدہ جہانگیر سرینگر کے ایک نواحی علاقے لولب میں واقع اپنے گھر کے پاس اپنے دو ماہ کے بچے کو لیے کھڑی تھیں۔ محمّد کی پیدائش قبل از وقت ہوئی تھی لہٰذا اسے اسپتال میں رکھنا پڑا تھا۔ زاہدہ کو اس دوران بچے کی زندگی کے ابتدائی 20 دن تک اس سے دور رہنا پڑا۔ ان کا کہنا تھا کہ محمد تو اب صحت مند ہے لیکن ان 20 دنوں کے دوران انہیں جو دکھ سہنا پڑا وہ کوئی ماں ہی سمجھ سکتی ہے۔ اس کا افسوس انہیں زندگی بھر رہے گا۔ کلثومہ رمیز کی حال ہی میں شادی ہوئی ہے۔ ان کی شادی ایسے وقت میں ہوئی جب کشمیر میں لاک ڈاؤن جاری تھا جس کے باعث وہ اپنا شادی کا جوڑا بھی نہیں خرید سکیں جو ان کا ارمان تھا۔ کلثومہ کو کسی سے ادھار لیا گیا جوڑا پہننا پڑا اور ان کی شادی میں کچھ پڑوسی اور چند رشتے دار ہی شرکت کر سکے۔

سڑکیں بند ہونے کی وجہ سے انہیں رخصتی کے بعد پیدل سسرال جانا پڑا۔ سمیرا بلال کے شوہر بلال احمد کو بھارتی سیکیورٹی فورسز نے 5 اگست کی رات گرفتار کیا تھا۔ سمیرا نے کہا کہ ان کی دو سالہ بیٹی اکثر کھڑکی کی طرف اشارے کر کے اپنے والد کو پکارتی ہے کہ “بابا بابا آپ کب واپس آئیں گے؟” بیبا کے کزن کی 3 اگست کو موت ہو گئی تھی جس کی خبر ان تک تقریباً ایک ہفتے بعد پہنچی۔ انہوں نے کہا کہ میں جنازے اور فاتحہ خوانی میں شریک نہیں ہو سکی اور تعزیت کرنے بھی نہیں جا سکی۔ یہ سب ہمارے لیے بہت ضروری تھا۔

بشکریہ وائس آف امریکہ