ہماری کوشش ایران، سعودیہ، امریکا دوستی

عمران خان کا کہنا تھا ماضی میں دہشت گردی کیخلاف جنگ میں شرکت کر کے پاکستان نے بڑی قیمت ادا کی۔ ہماری سب سے بڑی کوشش ہو گی کہ ایران اور سعودی عرب میں دوستی کرا دیں۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے بھی کہا تھا کہ ہم امریکہ اور ایران کی دوستی کرا دیں۔ پاکستان دنیا میں امن کا داعی بنے گا۔ ملک مشکل وقت سے نکل رہا ہے، عظیم قوم بننے کا روڈ میپ دے رہا ہوں، قوم کی زندگی میں اچھے برے وقت آتے ہیں۔ انسان پر برا وقت اصلاح کے لئے آتا ہے‘ مالی وسائل میں بہتری کے ساتھ غریبوں کی فلاح کے لئے فنڈز مزید بڑھائے جائیں گے‘ اس سال نوجوانوں کو روزگار کی فراہمی پر توجہ دی جائے گی اس سلسلے میں سب سے بڑا پروگرام 50 لاکھ گھر تعمیر کرنے کا ہے جس کے تحت تنخواہ دار طبقے کو مکان تعمیر کرنے کے لئے بینک سے قرضے دیئے جائیں گے۔

بھارتی سپریم کورٹ کا کشمیر میں تمام پابندیوں پر نظرثانی کا حکم

بھارتی سپریم کورٹ نے جموں و کشمیر میں عائد انٹرنیٹ کی رسائی سمیت تمام پابندیوں کو ’اختیارات کا غلط‘ استعمال قرار دیتے ہوئے حکومت کو ان پر نظر ثانی کا حکم دیا ہے۔ خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق سپریم کورٹ نے حکومت کو یہ بھی حکم دیا کہ وہ کشمیر میں لاک ڈاؤن کے حوالے سے تمام احکامات کو عام کرے۔ عدالت کا کہنا تھا کہ انٹرنیٹ کی بندش آزادی صحافت پر اثرانداز ہو رہی ہے، جو آزادی اظہار رائے اور آزادی تقریر کا حصہ ہے۔ ’دا ہندو‘ کے مطابق جسٹس این وی رمنا کی سربراہی میں تین ججوں پر مشتمل سپریم کورٹ کے بینچ نے قرار دیا کہ انٹرنیٹ کی عارضی معطلی اور شہریوں کی بنیادی آزادیوں کو کم کرنا صوابدیدی نہیں ہونا چاہیے اور یہ معاملہ عدالتی جائزے کے لیے کھلا ہے۔

عدالت نے جموں و کشمیر کی انتظامیہ کو انٹرنیٹ کی بندش کے معاملے کا جائزہ لینے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ ’انٹرنیٹ کے استعمال کی آزادی آرٹیکل 19 (1) (اے) کے تحت آزادانہ تقریر کا ایک بنیادی حق ہے اور انٹرنیٹ کے ذریعے تجارت کو آرٹیکل 19 (1) (جی) کے تحت محفوظ کیا گیا ہے۔‘ بھارتی حکومت نے پانچ اگست 2019 کو آئین کے آرٹیکل 370 کے خاتمے کا اعلان کیا تھا، جس کے تحت اس کے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی گئی تھی۔ دوسری جانب خطے میں سخت کرفیو نافذ کر کے انٹرنیٹ اور ذرائع مواصلات کو بند کر دیا گیا تھا۔ حکومت کے اس فیصلے کے خلاف ’کشمیر ٹائمز‘ کے مدیر انورادھا بھاسن نے سپریم کورٹ میں درخواست دی تھی، جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ اس فیصلے سے پریس کی آزادی، ضروری سروسز خاص کر خاندانوں کے درمیان رابطے ختم کر دیئے گئے، جن سے لوگوں کو شدید مشکلات درپیش رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ریاست کی 70 لاکھ آبادی پر شک کرتے ہوئے انہیں قید کر دیا گیا اور بغیر کچھ سوچے دفعہ 144 نافذ کر دی گئی۔

تاہم جسٹس رمنا کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے سامنے جموں و کشمیر کی حکومت نے موقف اختیار کیا تھا کہ وادی میں حالات معمول پر آچکے ہیں اور لوگ خوش ہیں۔ کشمیر کی حکومت نے انورادھا بھاسن کے دعوے کو ’مبالغہ‘ قرار دے کر مسترد کر دیا تھا۔ جموں و کشمیر کی حکومت کے وکیل توشار مہتہ نے موقف اختیار کیا تھا کہ یہ پابندیاں خفیہ اداروں اور فوج کی معلومات کی بنیاد پر سوشل میڈیا پر اشتعال انگیز مواد اور تقاریر، جعلی خبروں اور ویڈیوز کی وجہ سے عائد کی گئی تھیں۔ مسٹر مہتہ نے تسلیم کیا تھا کہ انٹرنیٹ تک رسائی آزادی اظہار کے بنیادی حق کا ایک حصہ ہے لیکن ساتھ ہی انہوں نے خبردار کیا کہ ’جدید دہشت گردی انٹرنیٹ پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے۔‘ کیس کی گذشتہ سماعت میں وکیل مہتہ نے اس بات کا دفاع کیا کہ ’دہشت گردی میں سوشل میڈیا کو سب سے زیادہ مؤثر ہتھیار کی حیثیت حاصل ہے اور یہ عالمی سطح پر موجود ہے۔‘ جواب میں انورادھا بھاسن کے وکیل وریندا گروور نے فوری مداخلت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس انسانی حقوق کو بھی یہی اہمیت حاصل ہے۔

بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو

فخرو بھائی ہمیشہ زندہ رہیں گے

وہ اپنی مثال آپ تھے۔ اُن جیسا کوئی دوسرا نہیں ہے۔ وہ مجھے نہ ملتے تو شاید میری زندگی آج بہت مختلف ہوتی اور میں پاکستان سے باہر ہوتا لیکن یہ فخر الدین جی ابراہیم تھے جنہوں نے دو مرتبہ مجھے پاکستان نہ چھوڑنے کا مشورہ دیا۔ 7؍جنوری کو فخرو بھائی یہ دنیا چھوڑ گئے۔ آج ہمیں اپنے اردگرد ایسے بہت سے لوگ نظر آتے ہیں جن کی اصل طاقت اُن کی شخصیت و کردار نہیں بلکہ اُن کا عہدہ ہے اور وہ اِس عہدے سے چمٹے رہنا چاہتے ہیں لیکن فخرو بھائی نے اپنی زندگی میں پانچ اہم آئینی عہدوں سے استعفیٰ دیا۔ اُنہیں 1971 میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے اٹارنی جنرل آف پاکستان بنایا۔ ایک دن اُنہیں پتا چلا کہ حکومت نے اُن سے مشورے کے بغیر شریف الدین پیرزادہ کو ایک مقدمے میں اپنا وکیل بنا لیا ہے۔ فخرو بھائی نے اٹارنی جنرل کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔

بعد ازاں شریف الدین پیرزدہ کو 1977 میں جنرل ضیاء الحق نے اپنا اٹارنی جنرل بنایا اور اُنہوں نے بھٹو صاحب کی پھانسی کو ممکن بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ 1981 میں فخرو بھائی سپریم کورٹ کے ایڈہاک جج تھے۔ جنرل ضیاء الحق نے پی سی او لانے کا فیصلہ کیا تو جسٹس انوار الحق بڑی مشکل میں پھنس گئے۔ اُنہوں نے نصرت بھٹو کیس میں ضیاء کے مارشل لا کو اِس بنیاد پر جائز قرار دیا کہ وہ 90 دن میں الیکشن کرا دیں گے لیکن ہر ڈکٹیٹر کی طرح ضیاء اپنے وعدے سے مکر گئے اور چار سال کے بعد پی سی او لے آئے۔ جسٹس انوار الحق نے سپریم کورٹ کے تمام ججوں کو بلایا اور پوچھا کہ وہ پی سی او پر حلف لیں گے یا نہیں؟ فخر الدین جی ابراہیم سب سے جونیئر جج تھے، اُنہوں نے سب سے پہلے انکار کیا۔

دوسرے جسٹس درّاب پٹیل تھے۔ تیسرے خود جسٹس انوار الحق تھے۔ اِن تینوں نے پی سی او کا حلف لینے سے انکار کیا، باقی سب ججوں نے آئین سے وفاداری کے حلف کو فراموش کر دیا۔ 1988 میں محترمہ بینظیر بھٹو وزیراعظم بنیں تو اُنہوں نے فخرو بھائی کو گورنر سندھ بنایا۔ اُنہوں نے بطور گورنر سیٹیزن پولیس لائزن کمیٹی بنائی لیکن زیادہ عرصہ پیپلز پارٹی کے ساتھ نہ چل سکے اور استعفیٰ دیدیا۔ 1996 میں فاروق لغاری نے محترمہ بینظیر بھٹو کی دوسری حکومت کو برطرف کیا تو اپنی نگران حکومت میں فخرو بھائی کو بطور وزیر قانون و انصاف شامل کیا۔ یہ وہ دور تھا جب میں نے فخرو بھائی کو قریب سے دیکھا۔ نگران حکومت میں کچھ لوگ بروقت انتخابات کے بجائے احتساب کی طرف جانا چاہتے تھے۔ حکومت کو مشورہ دیا گیا کہ انتخابات ایک سال بعد کرا لئے جائیں لیکن فخرو بھائی ڈٹ گئے۔

اُنہوں نے ملک معراج خالد کی نگران حکومت چھوڑ دی اور یہ حکومت بروقت انتخابات کرانے پر مجبور ہوئی۔ 2012 میں فخر الدین جی ابراہیم نے مجھے بتایا کہ مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف اُنہیں چیف الیکشن کمیشنر بنانا چاہتے ہیں۔ یہ سن کر میں خاموش ہو گیا۔ فخرو بھائی نے اپنے مخصوص لہجے میں کہا ’’تُو بولتا کیوں نہیں؟‘‘ میں نے بڑے ادب سے کہا آپ اس چکر میں نہ پڑیں کیونکہ چیف الیکشن کمیشنر بڑا بے اختیار ہوتا ہے۔ الیکشن میں دھاندلی ہو گی اور آپ کا نام خراب ہو گا۔ یہ سن کر وہ خاموش رہے۔ میں نے کہا کہ مزید دوستوں سے مشورہ کر لیں۔ وہ مان گئے۔ حکومت اور اپوزیشن فخر الدین جی ابراہیم کے علاوہ کسی اور نام پر متفق نہ ہو سکے اور پھر فخرو بھائی کو جمہوریت اور پاکستان کے واسطے دیکر یہ عہدہ قبول کرنے پر مجبور کر دیا گیا۔ آخر وہی ہوا جس کا خدشہ میں نے ظاہر کیا تھا۔ 2013 کے انتخابات میں دھاندلی کا شور مچ گیا۔

فخرو بھائی نے اس دھاندلی کی تحقیقات کیلئے بہت کوشش کی لیکن نواز شریف حکومت نے ساتھ نہ دیا لہٰذا وہ اس عہدے سے بھی مستعفی ہو گئے اور پھر گوشہ نشینی اختیار کر لی۔ وہ پاکستان سے صرف محبت نہیں کرتے تھے بلکہ پاکستان کی پرستش کرتے تھے۔ 1947 میں پاکستان بنا تو وہ احمد آباد گجرات میں ’’ودیا پنتھ‘‘ کے طالبعلم تھے۔ یہ یونیورسٹی مہاتما گاندھی نے بنائی تھی اور وہ اس یونیورسٹی کے چانسلر بھی تھے۔ والدین کا خیال تھا کہ بیٹا ایل ایل بی کر لے تو پاکستان چلا جائے۔ فخرو بھائی نے ایل ایل بی کیا اور 1949 میں پاکستان آ گئے۔ سندھ مسلم لا کالج کراچی سے ایل ایل ایم کیا اور ہمیں پڑھانا شروع کر دیا۔
1953 میں سنٹرل جیل کراچی میں حسن ناصر سے ملاقات ہوئی اور انہوں نے جیل میں بند ڈیمو کریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے کچھ طلبہ کی ضمانت کرائی۔

نیشنل عوامی پارٹی کے رہنما حسن ناصر کو 1961 میں غائب کر دیا گیا تو فخرو بھائی نے جی جان سے ان کی بازیابی کیلئے قانونی جدوجہد کی لیکن حسن ناصر کو لاہور کے شاہی قلعے میں تشدد سے مار کر ان کی لاش غائب کر دی گئی۔ فخرو بھائی زندگی کے آخری دنوں تک حسن ناصر کو یاد کیا کرتے اور کہتے تھے کہ اگر پاکستانی معاشرہ حسن ناصر کی موت پر اٹھ کھڑا ہوتا تو کبھی لاپتا افراد کا مسئلہ پیدا نہ ہوتا۔ مارچ 2007 میں اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی برطرفی کی خبر میں نے جیو نیوز پر بریک کی تو مجھے فخرو بھائی کا فون آیا۔ اُنہوں نے کہا کہ بیٹا سچ بولنے اور مزاحمت کا وقت آگیا ہے، اگر ہم نے مشرف کو یہاں نہ روکا تو وہ آئین کو بھی برباد کرے گا۔ نومبر 2007 میں مشرف نے آئین معطل کر دیا۔ مجھ پر پابندی لگا دی گئی، ہمارے صحافی دوست شکیل ترابی کے بچوں کو اسکول میں گھس کر مارا گیا، پھر میرے بچوں پر حملہ ہوا۔

ایک یورپی ملک نے سیاسی پناہ کی پیشکش کی، ایک بڑی غیر ملکی میڈیا کمپنی نے نوکری کی پیشکش کی تو میں فخرو بھائی کے پاس پہنچا۔ انہیں سب پتا تھا کہنے لگے جنرل ایوب خان اور جنرل ضیاء کا مارشل لا زیادہ خطرناک تھا، زیادہ مشکل تھا، مشرف کی ایمرجنسی کا مقابلہ کرو، راہِ فرار مت اختیار کرو۔ میں نے کہا کہ میری وجہ سے بچوں کی جان کو خطرہ ہے۔ بولے، بچوں کو باہر بھیج دو۔ میں نے کچھ عرصہ کیلئے بچوں کو پاکستان سے باہر بھیج دیا اور مشرف کی پابندیوں کا سڑکوں پر مقابلہ کیا اور ایک دن فخرو بھائی نے صحافیوں کے جلوس میں شامل ہو کر ہماری حوصلہ افزائی کی۔ اُن کا جسم بوڑھا ہو چکا تھا ہمت جوان تھی۔ 19 اپریل 2014 کو کراچی میں مجھ پر حملہ ہوا تو فخرو بھائی آغا خان اسپتال کراچی میں مجھے دیکھنے آئے۔ اُس دن کچھ لوگ مجھے پاکستان چھوڑنے پر مجبور کر رہے تھے۔

نجانے کہاں سے ایک ایئر ایمبولینس آکر کراچی میں کھڑی تھی اور میرے علاج کے ذمہ دار ڈاکٹر انعام پال مجھے سمجھا رہے تھے کہ آپ کی زندگی بچائی جا چکی ہے، آپ کا علاج پاکستان میں ممکن ہے لیکن میں آپ کو باہر جانے سے نہیں روک سکتا۔ اِس موقع پر فخرو بھائی نے مجھے کہا تم باہر جا کر کیا کرو گے؟ میں نے جواب دیا ایک کتاب لکھوں گا۔ فخرو بھائی نے کہا ہاں میں جانتا ہوں تیری کتاب سپرہٹ ہو گی تجھے بہت پیسہ ملے گا تو اپنے دشمنوں کا منہ کالا کر دے گا لیکن تیرا پاکستان سے رشتہ ٹوٹ جائے گا۔ پاکستان سے مت جا۔ پھر اُنہوں نے مجھے ماتھے پر بوسہ دیا اور کہا تو میرا بہادر بیٹا ہے، تو میرا فخر ہے، تو فخرو کا فخر ہے، تو پاکستان سے نہیں جائے گا۔

فخرو بھائی رخصت ہوئے تو میں نے ڈاکٹر انعام پال کو اپنے فیصلے سے آگاہ کیا کہ میں کہیں نہیں جائوں گا اور پھر اُنہوں نے ایک صاحب کی مجھ سے ملاقات پر پابندی لگا دی۔ فخرو بھائی دنیا سے چلے گئے لیکن اُن سے وابستہ یادیں میرا سرمایہ ہیں۔ وہ چلتا پھرتا پاکستان تھے اور ہمیشہ کہتے تھے کہ پاکستان کا مستقبل بہت روشن ہے کیونکہ نئی نسل زیادہ ایماندار اور زیادہ بہادر ہے۔ آج کی نئی نسل کیلئے مشعلِ راہ فخر الدین جی ابراہیم کی زندگی ہے جنہوں نے اپنے اصولوں کی خاطر پانچ اہم آئینی عہدے چھوڑ دیے۔ ان کی طاقت اُن کا کردار تھا، عہدہ نہیں۔ وہ ہماری یادوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔

حامد میر

بشکریہ روزنامہ جنگ