فائزر نے کورونا ویکسین کی منظوری کیلیے ایف ڈی اے کو درخواست دیدی

فائزر اور بیون ٹیک نے کورونا وائرس کی ویکسین کی منظوری کے لیے امریکی ادارے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کو ہنگامی بنیادوں پر منظوری کے لیے درخواست دے دی ہے۔ عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی دواساز کمپنی فائزر نے جرمنی کی کمپنی بیون ٹیک کے اشتراک سے کورونا ویکسین تیار کر لی ہے اور اب ویکسین کی منظوری کے لیے دوا اور غذا کے لیے دنیا میں سب سے زیادہ مستند سمجھے جانے والے ادارے ایف ڈی اے سے رجوع کر لیا ہے۔ امریکا میں دواؤں کی فروخت کے لیے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن سے منظوری لازمی ہے اور دنیا بھر میں بھی ایسی دواؤں کو مستند جانا جاتا ہے جنہیں ایف ڈی اے نے منظور کیا ہو۔

اگر فائزر کی ویکسین کو منظوری مل جاتی ہے تو ایف ڈی اے اپروول حاصل کرنے والی یہ پہلی کورونا ویکسین بن جائے گی۔ ادھر ایف ڈی اے حکام کا کہنا ہے کہ ویکسین کمیٹی 10 دسمبر کو اس ویکسین کی ممکنہ طور پر ہنگامی منظوری پر غور کرے گی جس کے لیے اس عمل میں شفافیت کو یقینی بنایا جائے گا تاہم ابھی یہ واضح نہیں کہ منظوری کے لیے کتنا عرصہ درکار ہو گا۔ قبل ازیں یورپی یونین کمیشن کی سربراہ ارزولا فان ڈیر لائن نے بھی آئندہ ماہ کے اختتام تک فائزر کی کورونا ویکسین کی منظوری دینے کا عندیہ ہے جب کہ وہ فائزر سے 300 ملین خوراکیں 4.65 ارب یورو کے عوض خریدنے میں بھی دلچسپی رکھتی ہیں۔

 بشکریہ ایکسپریس نیوز

اگر آپ کرونا وائرس سے متاثر ہوں، تو آپ کو کیا کرنا چاہیے؟

دنیا بھر میں کورونا وائرس کی دوسری لہر اب تک لاکھوں انسانوں کو متاثر کر چکی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آپ اس وائرس سے متاثر ہوں، تو آپ کو کیا کرنا چاہیے؟ کورونا وائرس کی دوسری لہر اب تک پہلی لہر سے کہیں زیادہ افراد کو متاثر کر چکی ہے اور متاثرہ افراد کی تعداد میں روزانہ نمایاں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ یورپ کے کئی ممالک میں ایک مرتبہ پھر لاک ڈاؤن نافذ کر دیا گیا ہے۔ تاہم ترقی پذيز ممالک، جہاں اس وبا نے مزید غربت پیدا کی ہے، دوسرے لاک ڈاؤن کے متحمل نہیں۔ ایسے میں انتہائی اہم ہے کہ تمام افراد اپنے اپنے طور پر سماجی فاصلے، ماسک کے استعمال اور ہاتھوں کو بار بار دھونے جيسے عوامل پر عمل پیرا ہوں۔ ایسے میں ایک سوال یہ بھی اہم ہے کہ اگر آپ اس وائرس سے متاثر ہو جائیں، تو آپ کو کیا کرنا چاہیے؟

علامات سے اندازہ
خشک کھانسی، بخار اور بعض صورتوں میں خوشبو اور ذائقے کا احساس ختم ہو جانا وہ عمومی علامات ہیں، جو کووِڈ انیس کی صورت میں ہو سکتی ہیں۔ ایسے میں اہم ترین بات یہ ہے کہ آپ خود کو دیگر گھر والوں سے علیحدہ کر لیں اور خاص طور پر مشترکہ غسل خانہ اور بیت الخلا استعمال نہ کریں۔ ساتھ ہی جسم میں درد کی شکایت زیادہ ہو، تو پیراسٹامول یا ابوپروفین لے لیں۔ واضح رہے کہ ابتدا میں ابو پروفین سے متعلق ایسی خبریں سامنے آئی تھیں کہ یہ اینٹی انفلیمیٹری دوا کورونا وائرس کی صورت میں مزید خرابی کا باعث بن سکتی ہے، تاہم محققین نے تصدیق کی ہے کہ اس سلسلے میں کوئی شواہد سامنے نہیں آئے۔ ماہرین کے مطابق کھانسی کی صورت میں کمر کے بل نہ لیٹیں بلکہ پہلو پر لیٹیں۔ جب کہ بیٹھيں، تو سیدھے بیٹھیں۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایسے میں ایک چمچ شہد استعمال کیا جا سکتا ہے تاہم اگر مریض بارہ ماہ سے کم عمر بچہ ہے، تو کسی صورت شہد نہ دیں۔ ایسے میں کسی صورت کسی دوسرے شخص سے براہ راست رابطہ نہ رکھیں اور میڈیکل اسٹور بھی خود نہ جائیں۔ اگر ڈاکٹر کے پاس بھی جانا ہو، تو پہلے مطلع کر دیں، تاکہ وہ حفاظتی انتظام کر سکیں۔

اگر سانس اکھڑنے لگے
اگر سانس لینا شدید دشوار ہو تو کمرے کو قدرے سرد رہنے دیجیے۔ ایسے میں کھڑکی کھولنا یا کمرے میں ہیٹنگ کم کرنا بہتر ہے، تاہم کسی صورت پنکھے کا استعمال نہ کریں۔ ایسے میں نہایت آہستگی سے ناک کے ذریعے سانس اندر کھینچيں اور منہ سے ہوا خارج کریں۔ ایسے میں کرسی پر سیدھی کمر کے ساتھ بیٹھنا بہتر ہو گا۔ سانس اکھڑنے کی صورت میں بوکھلاہٹ کا شکار ہر گز نہ ہوں بلکہ اپنے اعصاب قابو میں رکھیں۔

وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کی کوشش
عام حالات میں کوئی شخص بیماری سے بچنے کی تدبیر کرتا ہے، تاہم وبائی صورت حال میں اس بیماری سے دوسروں کو بچانا اہم ترین راستہ ہے۔ علامات ظاہر ہونے کی صورت میں آپ کے لیے سب سے اہم یہ ہونا چاہیے کہ آپ سے یہ وائرس آگے نہ پھیلے۔ اس کے لیے سیلف آئیسولیشن اہم ترین قدم ہے۔ اگر آپ کا دوسروں سے الگ ہونا ممکن نہیں، تو ایسی صورت میں ہر وقت ماسک پہنیں اور فاصلہ برقرار رکھیں۔ چند حالات میں جانوروں میں کورونا وائرس کی منتقلی کی اطلاعات ہیں۔ ایسے میں احتیاطی طور پر جانوروں سے رابطہ محدود تر کر دیں۔ اگر پالتو جانوروں کی دیکھ بھال کے لیے کوئی اور موجود نہ ہو، تو ایسی صورت میں کسی بھی ناگزیر رابطے سے قبل اور بعد میں ہاتھ اچھی طرح سے دھوئیں۔

پانی پئیں اور آرام کریں
بیماری کی صورت میں کوشش کریں کہ زیادہ سے زیادہ مائع آپ کے جسم میں موجود رہے۔ پانی بیماری میں جسم کی وائرس سے لڑائی میں مدافعاتی نظام کے لیے نہایت ضروری ہوتا ہے۔ ایسے میں پانی کا زیادہ سے زیادہ استعمال کریں۔ اس کے علاوہ جسم کو زیادہ سے زیادہ آرام دیں۔

ہسپتال آخری حل
اگر آپ کا سانس لینا محال ہو اور آپ کو محسوس ہو کہ آپ کو طبی مدد کی ضرورت ہے، ایسے میں ہسپتال منتقلی ضروری ہے۔ ہسپتال منتقلی کے لیے طبی عملے سے رابطے پر آپ متعلقہ عملے کو مطلع کر دیں، تاکہ آپ تک پہنچنے والی ایمبولینس، نرسز یا ڈاکٹرز پہلے سے تیار ہوں اور اس وائرس سے متاثر نہ ہو جائیں۔

بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو

سربراہ تحریکِ لبیک پاکستان خادم حسین رضوی کون تھے؟

خادم حسین رضوی کا تعلق صوبہ پنجاب کے ضلع اٹک سے تھا۔ وہ حافظ قرآن اور شیخ الحدیث بھی تھے۔ وہ 22 جون 1966 کو اٹک کے علاقے نکہ توت میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد کا نام لعل خان تھا۔ انہوں نے چوتھی جماعت تک تعلیم اپنے گاؤں میں حاصل کی۔ اس کے بعد ان کے والد نے انہیں جہلم کے ایک مدرسے میں داخل کروا دیا جہاں انہوں نے قرآن حفظ کیا۔ سنہ 1980 میں وہ مزید تعلیم کے لیے لاہور چلے گئے اور جامعہ نظامیہ رضویہ میں درس نظامی کی تعلیم حاصل کرنا شروع کی جہاں سے وہ 1988 میں فارغ التحصیل ہوئے۔ انہیں پنجابی، اردو، عربی اور فارسی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔  وہ داتا دربار کے قریب واقع پیر مکی مسجد میں خطیب کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے جبکہ 1993 میں محکمہ اوقاف میں بھرتی ہوئے، وہاں سے فراغت کے بعد یتیم خانہ لاہور میں مسجد رحمت اللعالمین میں خطیب رہے۔

ایک ٹریفک حادثے میں ان کی دونوں ٹانگیں ضائع ہو گئیں جس کے بعد وہ ویل چیئر تک محدود ہو گئے تھے۔ وہ 2009 میں راولپنڈی سے لاہور جا رہے تھے کہ ان کے ڈرائیور کو نیند آگئی جس کے بعد یہ حادثہ پیش آیا۔ انہوں نے 1994 میں شادی کی۔ ان کے سوگواران میں دو بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں۔ خادم حسین رضوی اپنے انداز خطابت کے حوالے سے بہت معروف تھے۔ وہ زیادہ تر پنجابی زبان میں تقاریر کیا کرتے تھے جس میں وہ اکثر اوقات انتہائی سخت زبان استعمال کرتے تھے۔ ان کی تقاریر کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر بہت مقبول ہوئیں۔ خادم رضوی نے گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو قتل کرنے والے ممتاز قادری کی حمایت کی اور انہیں پھانسی دیے جانے کے بعد اسلام آباد میں احتجاج بھی کیا تھا جس کے بعد وہ خبروں میں آنا شروع ہوئے۔

اگرچہ ان کا احتجاج تو چند روز میں ختم تھا تاہم اس کے بعد مسلسل ان کے بیانات آتے رہے۔ نومبر 2017 میں ہی لاہور کے حلقہ 120 میں ضمنی الیکشن کے موقع پر تحریک لبیک سیاسی جماعت کے طور پر سامنے آئی اور سات ہزار کے قریب ووٹ بھی حاصل کیے۔ یاد رہے کہ اس الیکشن میں مسلم لیگ ن کی امیدوار سابق وزیر اعظم نواز شریف کی اہلیہ کلثوم نواز تھیں۔ خادم حسین رضوی کی جماعت، تحریک لبیک پاکستان نے 2018 کے عام انتخابات میں بھی حصہ لیا اور سندھ اسمبلی سے دو نشستیں حاصل کیں اور مجموعی طور پر پورے ملک سے 22 لاکھ ووٹ حاصل کیے۔

بشکریہ اردو نیوز

پندرہ ملکی تجارتی اتحاد : چین کی بڑی کامیابی

جنوبی کوریا، چین، جاپان، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ نیز دس مشرقی ایشیائی ملکوں کی جانب سے جو عالمی معیشت کے تقریباً ایک تہائی کے مساوی ہیں، گزشتہ روز دنیا کا سب سے بڑا تجارتی اتحاد قائم کیا جانا بین الاقوامی اقتصادیات پر یقیناً دور رس اثرات مرتب کرے گا۔ جامع علاقائی معاشی شراکت (آر سی ای پی) کا نام پانے والے اس معاہدے کو جس میں امریکہ شامل نہیں، ماہرین چین کی حمایت میں بننے والا سب سے بڑا تجارتی اتحاد قرار دے رہے ہیں۔ اس ضمن میں پچھلے آٹھ سال سے مذاکرات جاری تھے اور بالآخر ویتنام کی میزبانی میں آسیان کے ورچوئل اجلاس کے موقع پر معاہدے پر دستخط کیے گئے۔ معاہدے میں فاصلاتی مواصلات، ای کامرس اور مالیاتی و دیگر پیشہ ورانہ خدمات کے حوالے سے خصوصی شقیں موجود ہیں۔ معاہدے کے نتیجے میں کئی ایسے ملک میں ایک دوسرے سے جڑ گئے ہیں جو عام طور پر تجارت کے معاملے میں سفارتی تعلقات کی خرابی کی وجہ سے مل کر کام نہیں کرتے جیسے جاپان اور چین۔

یہی صورت آسٹریلیا اور چین کی بھی ہے۔ اس معاہدے کو خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ معاہدے میں شریک رہنماؤں کو امید ہے کہ اس کے باعث کورونا وائرس کی عالمی وبا کی وجہ سے پیدا ہونے والے بحران سے نکلنے میں مدد ملے گی۔ چین کے وزیراعظم لی کیچیانگ نے اس معاہدے کو کثیرالجہت سوچ اور آزاد معیشت کی فتح قرار دیا ہے۔ بھارت نے بعض تحفظات کے سبب ان مذاکرات سے پچھلے سال خود ہی علیحدگی اختیار کر لی تھی لیکن اتحاد میں اس کی شرکت کا راستہ کھلا رکھا گیا ہے۔ چین سے انتہائی قریبی دوستانہ روابط کے باوجود پاکستان کا اس معاہدے میں شامل نہ ہونا حکومت وقت اور اس کے معاشی حکمت کاروں کی جانب سے وضاحت طلب معاملہ ہے۔ اس اتحاد میں شمولیت اگر قومی معیشت کے لیے مفید ثابت ہو سکتی ہے تواس کی کوشش لازماً کی جانی چاہئے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ

کورونا کے بگڑنے کا انتظار نہ کریں

آپ میں سے جن لوگوں کا اپنے بارے میں خیال ہے کہ زندگی نے اُن کے ساتھ بہت نا انصافی کی ہے، وہ یہ واقعہ پڑھنے کے بعد فیصلہ کریں کہ کیا اُن کے ساتھ ڈاکٹر لی سے بھی زیادہ نا انصافی ہوئی ہے؟ چین کا ڈاکٹر لی وہ پہلا شخص تھا جس نے دنیا کو کورونا وائرس کے خطرے سے آگاہ کیا۔ یہ ڈاکٹر ووہان کے اسپتال میں کام کرتا تھا ، دسمبر 2019 میں جب وہاں اوپر تلے سات مریض داخل ہوئے جن میں ایک ہی قسم کی علامات تھیں تو اِس ڈاکٹر کا ماتھا ٹھنکا۔ اُس نے اپنے ساتھی ڈاکٹروں کے سامنے یہ بات رکھی اور اس خدشے کا اظہار کیا کہ اسے یہ سارس وائرس کی کوئی شکل لگ رہی ہے۔ چار دن بعد ڈاکٹر لی کو’عوامی تحفظ بیورو ‘ نے طلب کیا جہاں اسے ایک ’بیانِ حلفی‘ پر دستخط کرنے پر مجبور کیا گیا جس میں لکھا تھا کہ اُس نے جھوٹی افواہیں پھیلائیں ’’جس سے نظم اجتماعی کو سخت نقصان پہنچا‘‘۔

بیورو کے افسران نے اسے سخت لہجے میں تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم تمہیں متنبہ کر رہے ہیں کہ اگر تم نے اپنی ہٹ دھرمی جاری رکھی اور اسی لاپروائی کے ساتھ غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث رہے تو تمہیں قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا، بات سمجھ میں آ گئی ؟‘ ڈاکٹر لی نے خاموشی سے سر جھکا دیا اور ’جی جناب‘ کہہ کر وہاں سے نکل آیا۔ یہ 3 جنوری 2020 کا واقعہ ہے۔ چینی حکام کی جانب سے ڈاکٹر لی کو جاری کیا گیا یہ خط آج بھی بی بی سی کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔ 10 جنوری کو خود ڈاکٹر لی میں کورونا کی علامات ظاہر ہونا شروع ہو گئیں اور دو دن بعد اسے اسپتال داخل کر دیا گیا۔ 20 جنوری کو چین نے اِس وبا کے تناظر میں ہنگامی حالت کا اعلان کر دیا۔ چینی حکام نے ڈاکٹر لی سے معافی مانگی۔مگر اس وقت تک دیر ہو چکی تھی ۔ ٹھیک اٹھارہ دن بعد 7 فروری 2020 کو تینتیس سالہ ڈاکٹر لی وین لیانگ کی کورونا وائرس کی وجہ سے موت واقع ہو گئی۔

سنہ 2020 کورونا وائرس کا سال تھا ، اِس ایک سال میں جہاں یہ وائرس دنیا کو لاکھوں اموات دے گیا وہاں انسان کو یہ سبق بھی سکھا گیا کہ اپنی خواہش کے تابع کسی چیز کا انکار یا اقرار کرنے سے حقیقت تبدیل نہیں ہوتی۔ چینی حکام نے ڈاکٹر لی کی سرزنش تو کر دی مگر اُس سے کورونا وائرس کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ اِس پورے سال میں ہم نے کئی سازشی تھیوریاں سنیں ، کسی نے کہا کہ بل گیٹس اپنی ویکسین بیچنے کی خاطر یہ وائرس پھیلا رہا ہے اور کسی نے فائیو جی کے کھمبوں کو وائرس پھیلانے کا ذریعہ قرار دیا ۔ کسی نے وائرس کے متعلق عجیب و غریب پیشگوئیاں کیں تو کسی نے کووڈ کا علاج جڑی بوٹیوں سے بتایا۔  کوئی پیشگوئی درست ثابت ہوئی اور نہ ہی کوئی ٹوٹکا کام آیا، کسی سازشی تھیوری کا سراغ ملا اور نہ ہی فائیو جی کے کھمبے اکھاڑ کر کچھ نکلا۔ آج ہم سب کو اُس ویکسین کا انتظار ہے جو تیاری کے آخری مراحل میں ہے ، یہ ویکسین پچانوے فیصد تک موثر ہے ۔

ماہرین کے مطابق اس ویکسین کے استعمال سے اگلے موسم سرما تک دنیا اپنے معمول پر واپس آ جائے گی۔ ہمارا کام بس اتنا ہے کہ جب تک یہ ویکسین نہیں آتی، اُس وقت تک احتیاط کریں اور اگر خدانخواستہ آپ میں کورونا کی علامات ظاہر ہوں تو کچھ ایسی باتو ں پر عمل کریں جن سے یہ بیماری بگڑنے نہ پائے۔ یہ باتیں کیا ہیں؟ پہلی بات یہ ہے کہ بیماری کا انکار نہ کریں ۔ یہ درست ہے کہ ہر کھانسی یا بخار کورونا نہیں ہوتا، آج کل موسم تبدیل ہو رہا ہے جس سے لوگوں کو عام فلو بھی ہو رہا ہے مگر کورونا کی علامات مخصوص ہیں۔ جونہی یہ علامات ظاہر ہوں فوراً اِس کا ٹیسٹ کروائیں مگر ساتھ ہی اپنی چھاتی کا ایکسرے اور کچھ خون کے ٹیسٹ بھی کروا لیں، مثلاً سی بی سی ، ای ایس آر، ڈی ڈائمر وغیرہ ، پوری تفصیل آپ کو کسی مستند ڈاکٹر سے مل سکتی ہے، ویسے تو فدوی کے پاس بھی یہ تفصیل موجود ہے مگر فدوی چونکہ ڈاکٹر نہیں اس لیے (اعلان دستبرداری) دے دیا ہے۔

فائدہ اِس کا یہ ہو گا کہ کورونا کے ٹیسٹ سے پہلے یہ ٹیسٹ مل جائیں گے اور علاج فوراً شروع ہو سکے گا۔ اِس بیماری میں بروقت تشخیص بے حد ضروری ہے۔  ہمارے دلبر جانی ارشد وحید چوہدری کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ انہیں کچھ دنوں سے بخار، کھانسی وغیرہ تھی مگر وہ یہی سمجھے کہ عام موسمی بخارہے، اس میں کئی دن گزر گئے۔ جب تک کورونا کا ٹیسٹ کروایا اُس وقت تک بیماری بگڑ چکی تھی، ارشد کو وینٹی لیٹر پر ڈالا گیا اور پھر وہاں سے یہ ہیرے جیسا صحافی واپس نہیں آیا۔ کیا تیرا بگڑتا جو نہ مرتا کوئی دن اور! کورونا میں بروقت تشخیص کے دو فائدے ہوتے ہیں ، ایک تو ڈاکٹر آ پ کو اسی سنجیدگی سے لیتے ہیں جس سنجیدگی سے آ پ بیماری کو لیتے ہیں۔ اگر ڈاکٹر یہ دیکھے کہ آپ پورے ٹیسٹ لے کر اُس کے پاس آئے ہیں تو اسے علاج میں بھی آسانی ہو جاتی ہے اور دوسرا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اگر ایکسرے یا خون کے نمونوں میں کوئی بڑی خرابی نظر آئے تو پھر جان بچانے والی ادویات ، اینٹی بائیوٹک اور ضروری انجکشن وغیرہ بر وقت دیے جا سکتے ہیں۔

یہ سب کچھ اسی صورت میں ممکن ہے اگر مریض بیماری کا انکار کرنے کی بجائے حقیقت قبول کرے اور ٹوٹکوں کی بجائے میڈیکل سائنس کے مطابق علاج کروائے۔ اِس دوران مریض کو اپنا سیچوریشن لیول بھی دیکھتے رہنا چاہیے ، آج کل یہ اسمارٹ فون سے بھی دیکھا جا سکتا ہے ، اگر کسی دن یہ مسلسل چوبیس گھنٹوں تک 94 سے نیچے رہے تو ایسی صورت میں فوراً اسپتال داخل ہو جانا چاہیے ۔ اِس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ یہ وائرس اب اتنا خطرناک ہو چکا ہے کہ کسی ٹیسٹ میں ظاہر نہیں ہوتا لہٰذا اِس سے پریشان نہ ہوں ۔ یہ وہ چند باتیں ہیں جن پر عمل کر کے اِس موذی مرض کو بگڑنے سے روکا جا سکتا ہے ۔ رہ گئی احتیاط تو وہ آج بھی وہی ہے ، ماسک پہنیں ، ہاتھ دھوئیں ، ہجوم اور بھیڑ سے بچیں۔ البتہ حواس باختہ نہ ہوں، گھر کی چیزوں کو ، اپنے جوتوں یا کپڑوں کو پاگل پن کی حد تک صاف کرنے کی ضرورت نہیں ۔ دل کا میل البتہ ضرور صاف کرتے رہیں۔

یاسر پیر زادہ

بشکریہ روزنامہ جنگ

زوم اور اسکائپ بھی آپ کی جاسوسی کر سکتے ہیں

کووڈ 19 کے تناظر میں ہم اسکائپ اور زوم کے ویڈیو سیشن سے واقف ہو چکے ہیں۔ اس دوران ہم دیگر پلیٹ فارم پر ٹائپنگ بھی کرتے ہیں، ڈیٹا دیکھتے ہیں اور مختلف اکاؤنٹس میں پاس ورڈ شامل کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ہیکر حضرات بازوؤں کی حرکات و سکنات سے ٹائپ کئے جانے والے الفاظ کو جان سکتے ہیں اور اس کی تصدیق یونیورسٹی آف ٹیکساس اور یونیورسٹی آف اوکلاہوما نے کی ہے بلکہ انہوں نے اس کا عملی مظاہرہ کر کے ہر ایک کو حیران کر دیا ہے۔ جامعات کے ماہرین کہتے ہیں کہ وہ کسی شخص کو ویڈیو کےدوران ٹائپ کرتا دیکھ کر بہت آسانی سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ کیا لکھ رہا ہے۔ خواہ ٹائپنگ کرنے والا زوم پر ہو، اسکائپ پر یا گوگل کے کسی اور پلیٹ فارم پر ہو 93 فیصد درستگی سے لکھے جانے والے الفاظ معلوم کرنا اب کوئی مشکل عمل نہیں رہا۔

اس ڈیٹا میں عام ای میل ، بینک اکاؤنٹ کی تفصیلات اور پاس ورڈ معلوم کئے جا سکتے ہیں۔ جی ہاں! ویڈیو میں عموما! ہاتھ دکھائی نہیں دیتے لیکن یہ ماہرین کاندھوں کی حرکات سے اندازہ لگا سکتےہیں کہ وہ شخص کیا کچھ لکھ رہا ہے۔ یونیورسٹی آف ٹیکساس میں کمپیوٹر سائنس کے ماہر مرتضیٰ جدلی والا نے یہ طریقہ دریافت کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کورونا وبا کے دوران ویڈیو سیشن عام ہوئے اور اس تناظر میں محض کندھوں کی حرکات و سکنات سے معلومات حاصل کرنا ایک بہت تشویشناک بات بھی ہے۔ لیکن دلچسپ امر یہ ہے کہ اس میں مصنوعی ذہانت اور الگورتھم کی بجائے ویڈیو میں پکسل کی حرکت دیکھی گئی ہے۔ جیسے ہی ہم کندھے ہلاتے ہیں پکسل کی حرکات ہمیں بتاتی ہیں کہ ہاتھوں کی حرکت جنوب کی جانب ہے یا شمال کی جانب، پھر وہ مشرق کو جارہے ہیں یا پھر مغرب کو۔

مثلا ً اگر آپ CAT لکھ رہے ہیں تو C کے بعد ، A ٹائپ کریں تو مغرب میں آئیں گے اور T لکھتے ہوئے پھر مشرق کا رخ کریں گے۔ اس کا تعلق کاندھوں کی حرکت سے کرنے کے بعد ایک سافٹ ویئر بنایا گیا جو ہر لفظ کا سمتی پروفائل بناتا ہے۔ اس طرح کندھوں کی حرکات سے ٹائپ کردہ الفاظ کو بہت درستگی سے معلوم کیا جاسکتا ہے۔ تاہم تجربہ گاہ میں اس کے نتائج 75 فیصد اور گھر پر کام کرنے والے افراد میں 66 فیصد درستگی سے ٹائپ کردہ معلومات کو حاصل کیا گیا۔ اس تحقیق سے یہ مزید احتیاط کے سوالات ابھرے ہیں کیونکہ اس تناظر میں ہیکرز اپنا کام دکھا سکتے ہیں۔

بشکریہ ایکسپریس نیوز