ایشیا پیسیفک ممالک، تاریخ کے سب سے بڑے آزاد تجارت کے معاہدے پر دستخط

ایک دہائی پر محیط مذاکرات کے بعد 15 ممالک کے سربراہان نے پین ایشین تجارتی معاہدے’’ علاقائی جامع معاشی شراکت داری‘ کے معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں۔سنگاپور کے وزیراعظم لی سیان لونگ نے کہا کہ ہم نے آج آٹھ برس کی سخت جدوجہد کے بعد آر سی ای پی پر دستخط کر دیے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے خطے کے لئے یہ ایک بڑا اقدام ہے۔ بالخصوص ایسے وقت میں جب کثیر الجہتی نظام اپنا اثر کھو رہا ہے اور عالمی ترقی سست روی کا شکار ہے، آر سی ای پی میں ایشیائی ممالک نے آزاد اور مربوط سپلائی چینز، آزادانہ تجارت اور قریبی باہمی انحصار کے لئے حمایت کا اظہار کیا ہے۔ اس معاہدے میں عالمی اقتصادی پیداوار کا ایک تہائی حصہ شامل ہے اور اس خطے کے معاشی انضمام کے لئے ایک بڑا قدم ہے۔ یہاں پانچ چیزیں ہیں جو تاریخ کے سب سے بڑے تجارتی سودے کی وضاحت کرتی ہیں۔

آر سی ای پی کیا ہے؟
آر سی ای پی آزاد تجارت کے بڑے معاہدوں میں سے ایک ہے۔ یہ زیادہ تر موجودہ معاہدوں میں سے لیا گیا ہے جن پر جنوب مشرقی ایشیائی اقوام کی تنظیم کے دس رکن ممالک برونائی، کمبوڈیا، انڈونیشیا، لاؤس، ملائیشیا، میانمار، فلپائن، سنگاپور، تھائی لینڈ اور ویت نام نے دستخط کیے ہوئے ہیں، اور انہیں آسٹریلیا، چین، جاپان، نیوزی لینڈ اور جنوبی کوریا کے ساتھ ایک ہی کثیرالجہتی معاہدے میں ملا دیا گیا ہے برینڈیس یونیورسٹی میں بین الاقوامی مالیات کے پروفیسر پیٹر پیٹری نے کہا کہ کچھ اقدامات کی وجہ سے یہ تاریخ کا سب سے بڑا معاہدہ ہے۔ جو دنیا کی 30 فیصد آبادی کا احاطہ کرتا ہے۔ یہ معاہدہ اور بھی بڑا ہوتا لیکن 2019 میں بھارت اس سے باہر ہو گیا تھا اور اس نے واپس آنے سے انکار کر دیا ۔ جانز ہوپکنز یونیورسٹی کے بین الاقوامی معاشیات کے پروفیسرز مائیکل پلمر اور پروفیسر میٹری کے تخمینوں کے مطابق آر سی ای پی عالمی معیشت کے حجم میں 186 ارب ڈالر اور اس کے رکن ممالک کی مجموعی ملکی پیداوار میں 0.2 فیصد اضافہ کرے گا۔ سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والے ممالک میں جاپان اور جنوبی کوریا شامل ہیں لیکن سستے سامان کا فائدہ یورپ اور امریکا تک پھیل جائے گا۔

اس معاہدے میں کیا ہے؟
اس معاہدے میں آزاد تجارتی معاہدے کے تمام عمومی ابواب جیسے ٹیرف، کسٹمز ایڈمنسٹریشن، حفاظان صحت سے متعلق اقدامات، خدمات، سرمایہ کاری و دیگر شامل ہیں، تاہم دو عناصر خصوصی طور پر نمایاں ہیں۔ پہلا مقام کا اصول ہے کو کسوٹی طے کرے گا کہ مصنوعہ کہاں تیار کی گئی تھی۔ آسیان کے تمام تجارتی معاہدوں کے مقام کے حوالے سے مختلف اصول ہیں، مثال کے طور پر اگر کمپنی انڈونیشیا میں بائیسکل تیار کرتی ہے تو یہ جاپان کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدے کے تحت اہل ہو سکتی ہے لیکن معاہدے کے تحت جنوبی کوریا کے ساتھ تجارت کے لئے اہل ہونے کے لئے مختلف اجزاء کی ضرورت ہو گی۔ آر سی ای پی ان سب کا صفایا کر دے گا۔ سنگاپور میں آسیان ٹریڈ سینٹر کنسلٹنسی کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈیبورا ایلیمز نے کہا کہ جب آپ آر سی ای پی کیلئے مصنوعات تیار کریں گے تو یہ 15 ممالک کے لئے کارآمد ہو گی۔ اور اس کے لئے آپ کو صرف ایک کاغذ کے ٹکڑے کی ضرورت ہے۔ دوسرا اہم عنصر یہ ہے کہ اس کے ذریعے چین، جاپان اور جنوبی کوریا کے مابین پہلا آزاد تجارت کا معاہدہ ہوا ہے۔ اگرچہ کہ آر سی ای پی کافی حد تک ایک سطحی معاہدہ ہے ، تاہم یہ پھر بھی ایک بڑا اقدام ہے۔ پروفیسر پیٹری نے کہا کہ آر سی ای پی انہیں وہ سب کرنے کی اجازت دیتا ہے جو وہ اگر وہ خود کریں تو سیاسی طور انہیں مشکلات پیش آئیں۔

کیا رہ گیا؟
ٹرانس پیسیفک پارٹنرشپ تجارتی معاہدے کی متراکب تراکیب کے برعکس آر سی ای پی نسبتاََ غیرجانبدار ہے، ٹی پی پی میں تقریباََ 100 فیصد کے مقابلے میں 90 فیصد محصولات ختم کر دیے۔ زراعت بڑی حد تک غائب ہے اور خدمات کا احاطہ مخلوط ہے۔ آر سی ای پی مصنوعات کے لئے مشترکہ معیار طے کرنے کے لئے نسبتاََ کم کام کیا ہے۔ پروفیسر پیٹری نے کہا کہ آر سی ای پی کے بارے میں اہم پوائنٹس یہ ہے کہ بہت متنوع ہے۔ اس میں چھوٹےممالک ، بڑے ممالک، امیر ممالک اور چھوٹے ممالک ہیں۔ قوانین نے بنیادی طور پر ان تمام متضاد مفادات کو جگہ دی ہے ڈیبورا ایلمز نے کہا کہ ای کامرس کا باب خاص طور پرمایوس کن ہے۔ 15 ممالک سرحد پار سے اعدادوشمار کے بہاؤ کے بارے میں کسی اصول یا اعدادوشمار کی ترسیل سے متعلق کسٹم قانونی مہلت پر اتفاق کرنے سے قاصر رہے۔ تاہم، سب سے بڑی غیرحاضری بھارت کی ہے۔ نسبتاََ چند آزاد تجارتی معاہدوں کے ساتھ ایک بہت بڑی معیشت کے طور پر بھارت کی شمولیت کی وجہ سے تجارت میں ڈرامائی اضافہ ہو سکتا ہے۔ لیکن بھارت کو خدشہ ہے کہ اس کے مینوفیکچررز سستی چینی مصنوعات سے مقابلے کی دلدل میں دھنس جائیں گے۔ بہرحال ، معاہدے میں ایسی شرائط شامل کرنے کی توقع کی جارہی ہے کہ بھارت کو اس میں شمولیت کا انتخاب کرنا چاہئے۔

چین اور امریکا کیلئے اس کی کیا اہمیت ہے؟
آرسی ای پی پر کی جانے والی عمومی تنقید اس کے اندر چین کا اثررسوخ ہے۔ یہ خدشہ اس وقت مزید مستحکم ہو گیا جب بھارت اس سے نکل گیا۔ یہ معاہدہ چین کو علاقائی تجارت کے معیار طے کرنے کے لئے اہم آواز فراہم کرتا ہے اور اگر چین نے اس طاقت کو باہمی تعاون سے استعمال کیا تو اس کی مثبت کشش کی طاقت بڑھ جائے گی۔ پروفیسر پیٹری نے کہا کہ یہ ممکنہ طور پر چین کے لئے بہت اچھا ہے۔  ڈیبورا ایلمز نے کہا کہ چین کا ایک بڑا حصہ اسے معاہدے کے اندر ایک اہم کھلاڑی بنائے گا۔ انہوں نے کہا کہ آر سی ای پی کبھی بھی چین کی زیرقیادت نہیں رہا یا چین نے اسے نہیں چلایا۔ یہ آسیان کامعاہدہ تھا۔ لیکن جب ایک بار جب یہ معاہدہ نافذ ہو جائے گا تو آسیان کے لئے اس کی ڈرائیونگ سیٹ پر رہنا مشکل ہو جائے گا۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹی پی پی سے دستبرداری کے بعد امریکا اب ایشیا ء میں دونوں اہم تجارتی گروپس سے باہر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب ایشیاء اپنے تجارتی قوانین طے کرتا ہے توروایتی عالمی طاقتیں امریکا اور یورپی یونین دونوں کی ہی کوئی آواز نہیں ہو گی۔

آئندہ کیا ہو گا؟
آرسی ای پی کی توثیق کرنے میں کچھ وقت لگے گا اور چند محصولات کی دفعات نافذالعمل ہونے میں بھی کافی وقت درکار ہو گا۔ تاہم امکان ہے کہ آر سی ای پی ایشیاء میں تجارت کے مستقبل کی تشکیل کرے گا۔ پروفیسر پیٹری نے کہا کہ وقت کے ساتھ ساتھ آسیان کے معاہدوں میں بہتری کا آسکتی ہے۔ اب جبکہ یہ آر سی ای پی کے تناظر میں کر چکے ہیں، سب سے اہم اثرات میں سے ایک یہ ہو سکتا ہے کہ چین، جاپان، جنوبی کوریا کے مابین آزاد تجارتی معاہدے پر بات چیت میں تیزی آجائے۔ مذکورہ تینوں ممالک مینو فیکچرنگ اور ٹیکنالوجی کے پاور ہاؤسز ہیں، یہ عالمی تجارت کے لئے ایک بہت بڑی پیشرفت ہو گی۔ ڈیبورا ایلمز نے کہا کہ سب سے بڑا نتیجہ یہ ہو سکتا ہے کہ یورپ یا شمالی امریکا کی طرح ایشیاء کے بطور تجارتی زون ابھرنے کی جانب یہ پہلا قدم ہو۔ ایشیاء مربوط ہے لیکن یہ معاہدہ دیگر منڈیوں تک سامان کی فراہمی کے لئے ہے۔ آر سی ای پی اس میں تبدیلی لاتا ہے۔

 بشکریہ روزنامہ جنگ

ٹرمپ نے شکست تسلیم کر لی، اقتدار منتقل کرنے کی منظوری

امریکی صدر ٹرمپ نے انتخابات میں اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے نو منتخب صدر جوبائیڈن کو اقتدار منتقلی کی منظوری دیدی، اس طرح کئی ہفتوں سے جاری انتقال اقتدار کی جنگ ختم ہو گئی۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق امریکی سربراہ جنرل سروس ایڈمنسٹریشن ایملی مرفی نے جوبائیڈن کو خط لکھ کر آگاہ کر دیا ہے کہ ان کو اقتدار کی منتقلی کا عمل اب باضابطہ طور پر شروع کیا جا سکتا ہے۔ امریکی جنرل سروس ایڈمنسٹریشن کی سربراہ ایملی مرفی نے خط کے حوالے سے کہا کہ میں نے بغیر کسی دباؤ کے آزادانہ طور پر یہ فیصلہ کیا۔ اس فیصلے سے متعلق مجھ پر وائٹ ہاؤس کے ایگزیکٹو حکام کا کوئی دباؤ نہیں تھا۔ ایملی مرفی نے کہا کہ نو منتخب صدر کے استعمال کے لیے 63 لاکھ ڈالر کا ابتدائی فنڈ دستیاب ہو گا۔

خط کا مطلب یہ ہے کہ اب بائیڈن کی ٹیم کو آئندہ دو ماہ کے دوران اقتدار کی منتقلی تک ایک دفتر کے ساتھ وفاقی فنڈز بھی مہیا ہو سکیں گے۔ اب نو منتخب صدر جو بائیڈن اور ان کی نائب کمالہ ہیرس کو بھی اسی طرز پر نیشنل سکیورٹی بریفنگ ملنے لگے گی جیسے صدر ٹرمپ کو ہر روز دی جاتی ہے۔ ذرائع کے مطابق خط کا مطلب یہ ہے کہ انتظامیہ نے پہلی بار صدر ٹرمپ کی شکست کو تسلیم کر لیا ہے۔ ادھر صدر ٹرمپ نے اپنے حق کی لڑائی جاری رکھنے کا اعادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہماری قانونی جنگ جاری رہے گی، ہم اچھی طرح سے مقابلہ کرتے رہیں گے اور مجھے یقین ہے کہ ہم کامیاب بھی ہوں گے ۔ بہرحال ملک کے بہتر مفاد کے لیے میں نے ایملی اور ان کی ٹیم سے ابتدائی پروٹوکول کے لیے جو بھی مناسب ہو، وہ کرنے کی سفارش کی ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ خط ٹرمپ کی شکست تسلیم کرنے کی جانب پہلا قدم ہے۔ دوسری جانب نو منتخب صدر جو بائیڈن کی ٹیم نے بھی ان اقدامات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ انتظامیہ نے جو بائیڈن اور نو منتخب نائب صدر کمالہ ہیرس کی انتخابات میں بظاہر کامیابی کی نشاندہی کر دی ہے اور آنے والی انتظامیہ کو اقتدار کی ہموار اور پرامن منتقلی کے لیے ضروری وسائل اور مدد فراہم کرنے کی بھی یقین دہانی کرائی ہے۔ اقتدار کی منتقلی کی منظوری کے اعلان کے بعد بیشتر سٹاک مارکیٹوں میں مثبت اضافہ دیکھا گیا۔ لندن سٹاک مارکیٹ کے 100 انڈیکس میں 1.1 فیصد ، فرینکفرٹ کی سٹاک مارکیٹ میں 1 فیصد، ٹوکیو کی سٹاک مارکیٹ میں 2 فیصد جبکہ سڈنی کی سٹاک مارکیٹ میں ایک فیصد سے زائد کا اضافہ ہوا۔

بشکریہ روزنامہ جنگ