دنیا بھر کے تین ارب سے زیادہ افراد پانی کی قلت سے متاثر

دنیا کے 3 ارب سے زیادہ افراد کو اس تازہ پانی کی کمی کا سامنا ہے اور گزشتہ 2 دہائیوں کے دوران ہر فرد کے لیے دستیاب پانی کی مقدار میں 20 فیصد تک کمی آئی ہے۔ یہ بات اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک کی جانب سے جاری رپورٹ میں سامنے آئی۔ رپورٹ کے مطابق دنیا کے مختلف حصوں میں ڈیڑھ ارب افراد کو پانی کی شدید کمی یا قحط سالی کا سامنا ہے جبکہ موسمیاتی تبدیلیوں، بڑھتی طلب اور ناقص انتظام کی وجہ سے مختلف خطوں میں کاشتکاری بہت مشکل ہو چکی ہے۔ اقوام متحدہ نے خبردار کیا کہ اربوں افراد کو بھوک کا سامنا ہو سکتا ہے اور بڑے پیمانے پر خوراک کی قلت ہو سکتی ہے، جس کی وجہ پانی کے وسائل کے استعمال کرنے اور موسمیاتی بحران پر قابو پانے میں ناکامی ہو گی۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک کے ڈائریکٹر جنرل کیو ڈونگ یو نے بتایا ‘ہمیں پانی کی قلت (تازہ پانی کی طلب و رسد میں عدم توازن) اور پانی کی کمی (بارش برسنے کی شرح میں کمی) کو بہت سنجیدگی سے لینا ہو گا، کیونکہ اب ہمیں اسی حقیقت کے ساتھ زندگی گزارنا ہے، زراعت کے لیے پانی کی قلت اور کمی پر فوری طور پر قابو پانے کی ضرورت ہے’۔ انہوں نے بتایا کہ اقوام متحدہ کے ترقیاتی مقاصد، جن میں بھوک کا خاتمہ اور صاف پانی تک رسائی کو بڑھانا ہے، کا حصول اب بھی ممکن ہے مگر اس کے لیے دنیا بھر میں کاشتکاری کے طریقوں کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے اور وسائل کو مساوی بنیادوں پر فراہم کرنا چاہیے۔ ادارے کی رپورٹ میں دریافت کیا گیا کہ سب صحارا افریقہ کے 5 کروڑ افراد کو ہر 3 سال میں ایک بار شدید قحط سالی کے باعث تباہ کن صورتحال کا سامنا ہوتا ہے، دنیا کے 10 فیصد برساتی زرعی رقبے کو اکثر قحط کا سامنا ہے۔

زراعت کے لیے بارش پر انحصار 60 فیصد عالمی فصلوں کی پیداوار کی نمائندگی کرتا ہے اور اس کے تحت 80 فیصد زرعی اراضی کو کاشت کیا جاتا ہے۔ تاہم دنیا بھر میں 60 فیصد زرعی رقبے کے لیے پانی کا بہت زیادہ استعمال ہوتا ہے، بلکہ پانی کا ضیاع ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں زیرزمین پانی کے وسائل ختم ہو رہے ہیں اور ناقص نظام کے باعث کچھ کاشتکار پانی سے محروم ہو رہے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ چھوٹے پیمانے اور کاشتکار کے تحت زرعی نظام بڑے پیمانے کے منصوبوں سے زیادہ موثر ہے۔ رپورٹ کے مطابق ایشیا میں بڑے پیمانے پر ریاستی فنڈز پر چلنے والے منصوبوں میں براہ راست زیر زمین پانی پر انحصار کیا جاتا ہے، جس سے وسائل پر بہت زیادہ دباؤ بڑھ چکا ہے۔ دوسری جانب دنیا بھر میں چھوٹے کاشتکاروں کو اضافی مشکلات کا سامنا ہے۔

ادارے کی جانب سے زیادہ دیا گیا کہ خوراک کی کاشت کے عمل میں تبدیلی لائی جانی چاہیے تاکہ زہریلی گیسوں کے اخراج میں کمی آسکے اور موسمیاتی تبدیلیوں کو روکا جاسکے، مگر یہ اتنا بھی سادہ نہیں۔ عالمی ادارہ خوراک کے مطابق دنیا میں صحت بخش غذاؤں پر زیادہ زور دیا جارہا ہے اور اس کے لیے زیادہ پانی سے کاشت ہونے والی غذاؤں جیسے دالوں، گریوں، چکن اور دودھ کی مصنوعات کا استعمال کیا جارہا ہے، مگر پانی کے وسائل کا بہتر استعمال زیادہ ضروری ہے۔ اس سال عالمی ادارے کی رپورٹ میں پانی پر زیادہ زور دیا گیا مگر اس کا کہنا تھا کہ 2020 کے دوران کورونا وائرس کی وبا کے باعث بڑے پیمانے پر خوراک کی قلت بڑھی ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس سال دنیا بھر میں فصلوں کی کاشت عمومی طور پر اچھی رہی ہے مگر افریقہ کے کچھ حصوں میں ابھی خوراک کی شدید قلت کے مسائل موجود ہیں۔

بشکریہ ڈان نیوز

بھارت ۔ جمہوریت اور سیکولرزم کا شمشان گھاٹ

جنوبی ایشیا ایسا بد قسمت خطّہ ہے۔ جہاں علاقائی تعاون کی آرزوئیں خاک ہو رہی ہیں۔ دنیا بھر میں علاقائی تعاون کی تنظیمیں آسیان۔ یورپی یونین۔ افریقی یونین۔ نارتھ امریکن فری ٹریڈ ایگریمنٹ سب ایک دوسرے سے اشتراک کر رہی ہیں۔ تجارت، صنعت میں آگے بڑھ رہی ہیں۔ یورپی یونین تو ایک کرنسی یورو اختیار کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ پاسپورٹ ویزے کی ضرورت نہیں رہی۔ لیکن جنوبی ایشیا کی علاقائی تعاون کی تنظیم سارک قدم آگے نہیں بڑھا سکی۔ یہ دنیا میں سب سے زیادہ آبادی والا خطّہ ہے۔ ایک ارب 80 کروڑ انسان ان 8 ملکوں بھارت۔ پاکستان۔ بنگلہ دیش۔ نیپال۔ بھوٹان۔ سری لنکا۔ مالدیپ۔ افغانستان میں سانس لیتے ہیں۔ دنیا کی کُل آبادی کا قریباً 24 فیصد ۔ اتنی بڑی تعداد میں انسان زندگی کی بنیادی سہولتوں سے بھی محروم ہیں۔ امن اور سکون سے بھی۔ اور اس کی وجہ اس خطّے کے سب سے بڑے ملک بھارت کی انتہا پسندی۔ دہشت گردی اور کشمیر پر غاصبانہ قبضہ ہے۔ اب 2014 میں نریندر مودی کے دہلی راجدھانی سنبھالنے کے بعد سے تو بھارت انتہا پسند ہندو ذہنیت کا گڑھ بن گیا ہے۔

نہ تو بھارت کے اپنے لوگ خوش ہیں اور نہ ہی ہمسایوں میں سے کوئی آرام سے زندگی بسر کر سکتا ہے۔ دنیا تو کیا ہم بھی چھ دہائیوں سے بھارت کی جمہوریت، تحمل و برداشت کی مثالیں دیتے آرہے ہیں۔ اپنے ہاں مارشل لائوں کی مذمت کرنے کے لیے ہمارے دانشور، سیاسی رہنما، ادیب، شاعر اور قانون دان بڑی شد و مد سے کہتے رہے ہیں کہ بھارت میں ہمیشہ حکومت ووٹ سے تبدیل ہوتی ہے۔ وہاں فوج نے کبھی نظم و نسق نہیں سنبھالا۔ اور یہ بھی کہ وہاں سیکولرازم کا دور دورہ ہے۔ ہندو۔ مسلم۔ سکھ۔ عیسائی ۔ بدھ۔ جین سب مل جل کر رہتے ہیں۔ ان کے ہاں سادگی، کفایت شعاری ہے۔ وہاں عدلیہ آزادی سے فیصلے کرتی ہے۔ اخبارات، ٹی وی، ریڈیو آزاد ہیں لیکن آج کا بھارت جمہوریت، سیکولرازم کا شمشان گھاٹ ، دہشت گردی اور انتہا پسندی کا مرکز بن گیا ہے۔ وہاں ہندوئوں کی چھوٹی ذاتیں محفوظ ہیں نہ اقلیتیں۔ مسلمان آبادی ملک کا 13 فیصد ہیں۔ قریباً 20 کروڑ لیکن ہر لمحے اذیت اور بربریت کے شکار عیسائی پونے 3 کروڑ کے قریب وہ بھی مصائب سے دوچار ہیں۔

سکھ قریباً 2 کروڑ ان کے احتجاج اور علیحدگی پسندی کی خبریں آتی رہتی ہیں۔ ہندو توا پورے زوروں پر ہے۔ دوسرے تمام مذاہب پابندیوں اور قدغنوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکمرانی میں انتہا پسندی کی بھی انتہا ہو گئی ہے۔ بھارت اور پاکستان کے بعض امن پسند گروپ پہلے کوششیں کرتے تھے کہ دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان براہ راست رابطے ہوں تو شاید بھارت کے متعصب۔ تنگ نظر حکمرانوں پر قیام امن کے لیے دبائو بڑھے۔ لیکن بی جے پی سرکار کے بعد یہ کوششیں بھی بے سود ہو گئی ہیں ۔ دونوں ملکوں کی آزادی پر شمعیں جلانے والے کلدیپ نائر سورگباش ہو گئے۔ ادھر پاکستان سے ڈاکٹر مبشر حسن بھی اللہ کو پیارے ہوئے۔ حقوق انسانی کے حوالے سے جدوجہد کرنے والے دوسرے گروپ بھی اب جنوبی ایشیا میں امن کے لیے سازگار فضا نہیں پارہے ہیں۔ میرا بھی 1972 سے مختلف صحافتی ادبی اور علمی کانفرنسوں کے لیے بھارت جانا ہوتا رہا ہے۔ شملہ مذاکرات کی رپورٹنگ کے لیے گیا بعد میں وزیر اعظم اندرا گاندھی سے خصوصی انٹرویو کے لیے بھی 21 روز قیام رہا۔ آگرہ مذاکرات کیلئے گئے تو وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی سے خصوصی گفتگو ہوئی۔

بعد میں مشرف من موہن مذاکرات کی رپورٹنگ بھی کی۔ بھارت میں بہت سے ہندو، مسلمان، عیسائی ادیب شاعر ، صحافی دوست ہیں۔ اب بھی ان سے سوشل میڈیا پر رابطہ رہتا ہے۔ ایک دو سال بھارت کے کئی اخبارات میں بیک وقت کالم بھی چھپتا رہا۔ میرا تجربہ اور مشاہدہ ہے جو آپ کا بھی ہو گا کہ بھارت کے عام لوگ خطّے میں امن و سکون کے خواہاں ہیں۔ آرام سے زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں۔ مختلف شہروں میں رکشے ٹیکسی ڈرائیوروں دکانداروں ہوٹل کے ویٹرز سے بات ہوتی تھی۔ تو وہ یہی کہتے تھے یہ نیتا (سیاسی لیڈر) ہمیں آپس میں لڑواتے ہیں۔ ہمارا مسئلہ تو دو وقت کی روٹی ہے۔ اب نریندر مودی کے دَور میں تو کسی کانفرنس میں جانے کا ارادہ ہی نہیں کر سکتے۔ ویسے بھی قیام امن کے لیے اب کوئی مربوط کوشش نہیں ہو رہی ہے۔ اکھنڈ بھارت کا جنون زوروں پر ہے۔ پاکستان میں مستقل بد امنی پیدا کرنا، اپنے ایجنٹوں کے ذریعے تخریب کاری کی سازشیں بی جے پی کا ایجنڈا ہے۔ اپنے اس انتہا پسند پروگرام میں اس حد تک مصروف ہے کہ کورونا کی عالمگیر وبا سے اپنے شہریوں کی جانیں بچانے پر مطلوبہ توجہ نہیں دے سکی۔

اب تک مریضوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ ڈیڑھ لاکھ کے قریب اموات ہو چکی ہیں۔ اپنے لوگوں کی صحت بی جے پی کی ترجیحات میں نہیں ہے۔ اس لیے کورونا کی ابتدا سے ہی بھارتی حکمران موزوں حکمت عملی ترتیب نہیں دے سکے۔ میری تشویش یہ ہے کہ امریکہ اور یورپ میں جمہوریت کے تجربے کے نتیجے میں معاشرے مہذب ہوئے ہیں۔ تحمل، برداشت میں اضافہ ہوا ہے۔ لوگوں کی جانیں محفوظ ہوئی ہیں۔ لیکن یہ سب سے بڑی جمہوریت کے دعویدار بھارت میں انسانیت کا قتل کیوں ہو رہا ہے۔ تہذیب، اقدار کا جنازہ کیوں نکل رہا ہے۔ کیا جمہوریت کے دعوے فریب تھے۔ سیکولرازم ایک ڈھونگ تھا۔ اب تو پاکستان میں تخریب کاری اور دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے باقاعدہ ثبوت بھی دنیا کے سامنے رکھ دیے گئے ہیں۔ اگر امریکہ یورپ ان ثبوتوں کے باوجود بھارت کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتے تو ان کی جمہوریت، انصاف پسندی اور انسانیت نوازی بھی ایک سوالیہ نشان بن جائے گی۔

بھارت کی اس پاکستان دشمنی کے خلاف پاکستان سے ہر شہری ہر سیاسی کارکن ہر دانشور ہر سیاسی جماعت کو یک آواز ہونا چاہئے۔ خاص طور پر سمندر پار پاکستانیوں کو حرکت میں آنا چاہئے۔ یہ کسی ایک حکومت یا ایک سیاسی پارٹی کا مسئلہ نہیں ہے۔ بلکہ بحیثیت مملکت بقا کا سوال ہے۔ اس سال کے آغاز میں بھارت میں ہندوتوا کے خلاف ملک گیر احتجاجی ریلیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ مگر کورونا کے پھیلائو کے باعث اس میں تعطل آگیا۔ اس احتجاج کے مقابلے میں مودی سرکار بے بس ہو گئی تھی۔ یہ احتجاج یقیناً پھر شروع ہو جائے گا۔ یہ مملکت پاکستان۔ عمران حکومت۔ وزارت خارجہ۔ ساری قومی سیاسی پارٹیوں کی آزمائش ہے کہ وہ بھارت کو ایک انتہا پسند اور دہشت گرد مملکت قرار دلوانے کے لیے دنیا پر کیسے دبائو ڈالتے ہیں۔ اقوام متحدہ اور اسلامی ملکوں کی تنظیم۔ مسلم حکمرانوں کو اپنے اتحاد اور یکجہتی سے کیسے قائل کرتے ہیں۔ بھارت پر اقتصادی پابندیاں عائد کروانا ہی اس مسئلے کا حل ہے۔ کیونکہ بھارت نے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویٰ کر کے اپنی ایک ارب سے زیادہ صارفین پر مشتمل مارکیٹ کا لالچ دے کر امریکہ اور یورپ کو اپنا دیوانہ بنا رکھا ہے۔

محمود شام

بشکریہ روزنامہ جنگ