قرضے اور مالیاتی بحران

ایک عالمی رپورٹ کے مطابق پاکستان جیسے دنیا کے ترقی پذیر ممالک کو آنے والے چند مہینوں میں قرضوں کے تباہ کن بحران کا سامنا کرنا ہو گا۔ ستاروں کی پوزیشن بھی یہی بتاتی ہے۔ اس بحران کی وجہ سے ہو سکتا ہے کہ سیاسی سطح پر کوئی افہام و تفہیم ہو جائے لیکن اصل بات تو معیشت کی ہے جس میں کوئی قابل ذکر بہتری کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں ویسے بھی یہ خوفناک معاشی بحران جو دور نہیں ہے اگلے کئی سال تک جاری رہنے کا خدشہ ہے۔ رپورٹ بتاتی ہے کہ اس کی وجہ تیزی سے بڑھتا ہوا افراط زر، سست رفتار ترقی، بلند شرح سود اور ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت ہے چنانچہ دنیا بھر کے کئی ممالک کے لیے دیوالیہ پن اور معاشی مشکلات کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق غریب ممالک اس وقت امیر ممالک کے 200 ارب ڈالرز کے مقروض ہیں۔ روز افزوں شرح سود نے ڈالر کی قیمت میں اضافہ کر دیا ہے۔ عالمی کرنسیاں ڈالرز میں بدل کر امریکا کا رخ کر رہی ہیں کیونکہ زیادہ شرح سود منافع میں بڑھوتری کا باعث ہے۔

جب کہ جن ممالک نے قرضے لیے ہیں ان کے لیے قرضوں کی واپسی امریکی کرنسی کی شکل میں ایک سنگین آزمائش بن کر رہ گئی ہے۔ کساد بازاری کی طرف مائل عالمی معیشت کے لیے خطرات بڑھ چکے ہیں وجہ کووڈ افراط زر اور یوکرین جنگ کی وجہ سے مزید 10 کروڑ افراد خط غربت سے نیچے چلے گئے ہیں۔ اس وقت امیر ممالک کو عالمی کساد بازاری کا سامنا ہے وہ اپنے ملکوں میں خوراک اور توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے نمٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے ترقی پذیر غریب ممالک میں سرمایہ کاری میں کمی واقع ہو چکی ہے۔ ڈیفالٹ زدہ ملکوں کی وجہ سے امریکا جیسے ممالک کے لیے مقروض ملکوں کو برآمدات کرنا مشکل ہو جائے گا۔ چنانچہ عالمی معیشت مزید سست رفتار ہو جائے گی۔ جس کو معاشی اصطلاح میں RECESSION کساد بازاری کہا جاتا ہے۔ یعنی عالمی ڈیمانڈ کم ہو گی تو سرمایہ دار ترقی یافتہ ممالک کی فیکٹریاں اور صنعتیں یا تو کم پیداوار کرنے پر مجبور ہو جائیں گی یا بند ہو جائیں گی یہ صورت حال امیر ممالک میں بے روزگاری میں اضافہ کرتے ہوئے غربت میں بھی اضافہ کر دے گی۔ یہ بڑا منحوس چکر ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام ڈیمانڈ اور سپلائی شرح سود اور منافع پر قائم ہے۔ سوویت یونین کے کیمونسٹ سوشلسٹ نظام میں سود پر پابندی تھی کیونکہ ان کی ترجیح عام اور غریب انسان تھا۔ جب کہ سرمایہ دارانہ نظام میں اولین ترجیح مٹھی بھر سرمایہ داروں کو دی جاتی ہے۔ اس سال سری لنکا اپنے ڈیفالٹ کے قریب تر پہنچ گیا تھا۔ اس کے مرکزی بینک کو چائے کی پتی کے عوض ایران سے تیل خریدنے کا بندوبست کرنا پڑا۔ عالمی بینک نے پہلے ہی سے خبردار کر دیا ہے کہ آیندہ برس یعنی نئے آنے والے سال میں ایک درجن سے زائد ممالک کو ڈیفالٹ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ جب کہ آئی ایم ایک کی پیش گوئی ہے کہ کم آمدنی والے ترقی پذیر ممالک میں سے 60 فیصد کو معاشی بدحالی کا سامنا ہے یا شدید ترین خطرہ ان کا منتظر ہے۔ اس وقت ترقی پذیر ممالک کے زرمبادلہ کے ذخائر زبوں حالی کا شکار ہیں۔

پچھلے 18 مہینوں سے لے کر اب تک 12 ملک ڈیفالٹ کے ہائی رسک پر پہنچ چکے ہیں۔ اس وقت ترقی پذیر ممالک 200 ارب ڈالرز کے مقروض ہیں۔ اس کا وقتی حل تو یہی ہے کہ ان قرضوں کو ری شیڈول کیا جائے یعنی ایسے ممالک کو قرضوں کی واپسی میں رعایتی مدت دی جائے۔ پاکستان اپنے واجب الادا قرضوں کی واپسی کے لیے یہی کچھ کر رہا ہے۔ یا ان کے ذمے قرضوں کی شرح سود میں کمی کی جائے یا ان کے ذمے جتنے بھی قرضے ہیں ان کا اصل زر معاف کر دیا جائے۔ ایک بات چیت کے دوران آئی ایم ایف کی پہلی ڈپٹی منیجنگ ڈائریکٹر مس گوپی ناتھ کا کہنا ہے کہ قرضہ لینے والے ممالک اور قرض دہندگان کو کسی بھی ایسی خوش فہمی کا شکار ہونے سے گریز کرنا چاہیے جو انھیں ڈیفالٹ کی طرف جانے پر مجبور کر دے۔

اس وقت پاکستان کی صورتحال یہ ہے کہ اسٹیٹ بینک نے چار ارب ڈالرز کی ایل سیز کو روکا ہوا ہے۔ خدشہ ہے کہ جب ان ایل سیز پر سے پابندی ہٹائی جائے گی تو انٹر بینک میں ڈالر کی اڑان پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دے گی۔ درآمد کنندگان پریشان ہیں مرغیوں کی خوراک سویا بین، لہسن، ادرک، پیاز کی قیمتیں اپنے عروج پر ہیں۔ کورونا کا عذاب تو پوری دنیا کو سہنا پڑا لیکن حالیہ سیلاب کی وجہ جغرافیائی طور پر پاکستان کا دو موسموں کے سنگم پر واقع ہونا ہے۔ سیلاب نے دوسرے خطوں میں بھی تباہی پہنچائی لیکن جو تباہی حالیہ سیلاب نے پہنچائی ہے اس کی تاریخ میں مثال نہیں۔ کورونا اور اس کے بعد سیلاب نے ہماری معیشت کا کچومر ہی نکال دیا اوپر سے گزشتہ 9 مہینوں سے خوفناک سیاسی عدم استحکام۔ ﷲ ہم پر رحم کرے۔

زمرد نقوی

بشکریہ ایکسپریس نیوز

Leave a comment