رمیز راجہ اور پاکستانی کرکٹ

عمران خان اقتدار میں آئے تو قومی مسائل کے انبار اور اُن کی اپنی حکومتی ٹیم کی ’’پرفارمنس‘‘ نے انھیں خاصا پریشان کر دیا، معاشی، خارجہ ، دفاع اور داخلہ وغیرہ کی ٹیمیں بنانے میں انھیں خاصا وقت لگ گیا۔ شاید تبھی حکومت کے پہلے تین سال میں اُن کی نظروں سے کئی شعبے اوجھل رہے اور وزیراعظم چونکہ کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان تھے۔ اس لیے سب نے سوچا کہ اب ملک میں آؤٹ ڈور گیمز کا طوفان آجائے گا، مگر ایسا کچھ نہ ہو سکا، کیوں کہ انھیں کھیلوں کے حوالے سے طویل منصوبہ بندی بنانے کا موقع ہی نہ مل سکا۔ اب جب کہ 3 سال بعد حالات نسبتاََ نارمل ہو چکے ہیں، تو وزیراعظم آہستہ آہستہ دیگر شعبوں کی طرف بھی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ تبھی انھوں نے پی سی بی کا چیئرمین احسان مانی جیسے تجربہ کار ایگزیکٹو کے بعد سابق کرکٹر اور بین الاقوامی شہرت یافتہ کمنٹیٹر رمیز راجہ کو لگانے کا فیصلہ کیا ہے، وہ 13 ستمبر کو موجودہ چیئرمین احسان مانی کا دور مکمل ہونے کے بعد باقاعدہ عہدہ سنبھال لیںگے۔

لیکن اُن کے آنے سے پہلے ہی کرکٹ بورڈ اور پاکستانی کرکٹ میں خاصی ہلچل دیکھنے کو مل رہی ہے۔ یہ شاید اچھا شگن بھی ہے کیوں کہ کبھی کبھی جمود توڑنے کے لیے ہلچل پیدا کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ خیر اگر رمیز راجہ کے بارے میں بات کریں تو وہ کرکٹ بورڈ کے 35ویں چیئرمین ہوں گے، وہ یقینا بورڈ کے انتظامی ڈھانچے سے واقفیت رکھتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ وہ جنرل توقیر ضیا دور کے ابتدائی دنوں میں ایڈوائزری کونسل کا حصہ رہے اور بعدازاں اپریل 2003 میں اس وقت پی سی بی کے چیف ایگزیکیٹو افسر بنا دیے گئے تھے لیکن بدقسمتی سے وہ صرف 15 ماہ تک ہی اس عہدے پر رہے تھے۔ پاکستان کرکٹ کے جن عہد ساز لمحوں کو قطعی فراموش نہیں کیا جا سکتا، ان میں سے ایک لمحہ 25 مارچ 1992 کی ایک خوشگوار شام کو دیکھا گیا تھا جب رمیز راجہ نے مڈ آف پر کیچ پکڑ کر اپنے کپتان کو ان کی آخری بین الاقوامی وکٹ دلائی اور میلبرن کرکٹ گراؤنڈ سے ورلڈ کپ ٹرافی کے ساتھ ان کی فاتحانہ رخصتی کو ممکن بنایا۔

یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ موصوف میرے گورنمنٹ کالج لاہور اور پنجاب یونیورسٹی کے کالج فیلو اور ہم عصر دوستوں میں سے ایک تھے۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے ہم نے اکٹھے گریجوایشن کی اور پھر بعد میں پنجاب یونیورسٹی میں بھی اکٹھے تعلیم حاصل کرتے رہے، لیکن پنجاب یونیورسٹی میں میں ایم اے جنرلزم کا طالب علم تھا جب کہ رمیز بزنس کا اسٹوڈنٹ تھا، فرق اتنا تھا کہ وہ کرکٹ کا پلیئر تھا اور ہمیں ہاکی کے ساتھ شغل لگانے کا موقع میسر آجاتا تھا، اس لیے ہم اکثر گراؤنڈز میں اکٹھے ہوتے تھے۔ 1984 میں انگلینڈ کی ٹیم پاکستان کے دورے پر تھی تو رمیز پہلی مرتبہ ٹیم میں سلیکٹ ہوئے، تو ہم سب دوستوں کی نذر و نیاز اور دعائیں رمیز کے لیے ہوا کرتی تھیں، وہ جب میدان میں اُترتا تو ایسے لگتا جیسے ہم خود میدان میں اُتر گئے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ رمیز پہلے میچ کی دونوں اننگز میں ایک رنز سے زیادہ اسکور نہ بنا سکے تو ہر طرف سے اُس پر تنقید شروع ہو گئی۔

لیکن ہم اُن کے دفاع کے لیے اُس وقت ’’سوشل میڈیا‘‘کا کام سر انجام دیتے تھے، پھر آہستہ آہستہ اُن کی کارکردگی بہتر ہوئی اور انھوں نے 1987، 1992 اور 1996 کا ورلڈ کپ کھیلا۔ ٹیم میں اُن کی اچھی خاصی عزت بھی تھی، کیوں کہ وہ سب سے پڑھا لکھا کھلاڑی ہونے کے ساتھ پڑھے لکھے خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔  خیر 1997 میں رمیز کرکٹ سے ریٹائرڈ ہو گیا اور کمنٹری کی دنیا میں قدم رکھا اور وہ پاکستان کی پہچان بن گیا، ہر فورم پر اُن کے تبصروں کو تسلیم کیا جاتا، اور ہر کوئی اُن کی باتوں پر کان دھرتا۔ اس لیے مجھ جیسے کرکٹ شائق کی خواہش تھی کہ ہم اتنے بڑے ٹیلنٹ اور کرکٹ کی سمجھ بوجھ رکھنے والے شخص کو ضایع کر رہے ہیں، پھر میں سوچتا کہ کیوں کسی کی نظر رمیز راجہ پر نہیں جاتی کہ وہ پاکستان کی کرکٹ میں جدت پیدا کرے اور کھویا ہوا مقام و مرتبہ دوبارہ بحال کروائے۔ پھر یقینا وہ دن بھی آگیا اور ہماری خوشی کی انتہا نہ رہی کہ اب کرکٹ کی دنیا میں میرٹ پر فیصلے ہوںگے۔ لیکن ہمیں افسوس ہوا، ایسا افسوس ہوا کہ بقول شاعر

آنکھوں کا رنگ، بات کا لہجہ بدل گیا
وہ شخص ایک شام میں کتنا بدل گیا

یعنی رمیز راجہ کے آتے ہی مصباح الحق اور وقار یونس یعنی کوچنگ ٹیم نے ہی استعفیٰ دے دیا، یا شاید اُن سے استعفیٰ لے لیا گیا۔ حالانکہ ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ آنے میں محض ایک ماہ رہ گیا ہے، اور پھر کھلاڑیوں کو نئی کوچنگ ٹیم کے ساتھ ہم آہنگ ہونے میں کتنا وقت لگتا ہے واللہ علم۔ اور پھر اُن کے آنے کے بعد ورلڈ کپ کے لیے ٹیم کا جو اعلان کیا گیا اُس پر بھی خاصا شور شرابہ ہونے لگا، سب سے پہلے اُس کے بارے میں سن لیں کہ ٹیم میں بابر اعظم کپتان، شاداب خان نائب کپتان کے علاوہ دیگر کھلاڑیوں میں آصف علی، اعظم خان، حارث رؤف، حسن علی، عماد وسیم، خوشدل شاہ، محمد حفیظ، محمد حسنین، محمد نواز، محمد رضوان، محمد وسیم جونیئر، شاہین شاہ آفریدی اور صہیب مقصود شامل ہیں۔ پھر جیسے ہی ٹیم کی اناؤنسمنٹ ہوئی نئے تنازعات نے جنم لینا شروع کر دیا، جس کے لیے پی سی بی کے چیف ایگزیکٹو وسیم خان کو میدان میں آنا پڑتا ہے اور کہنا پڑتا ہے کہ ’’ٹیم سلیکشن کے سلسلے میں جو سمت اختیار کی گئی ہے ہمارے کپتان بابر اعظم مکمل طور پر اس کے پیچھے کھڑے ہیں۔‘‘

اس بیان کو دینے کی ضرورت اُس وقت پڑی جب کپتان بابر اعظم کے حوالے سے یہ اطلاعات سامنے آئیں کہ ٹیم سلیکشن میں اُن کے سخت تحفظات ہیں، اور راقم کی مخبری کے مطابق اسکواڈ میں شرجیل خان، فخرزمان، فہیم اشرف اور عثمان قادر کے نام دیے گئے تھے، جب کہ صہیب مقصود اور اعظم خان کے ٹیم میں شمولیت حیرانی کا باعث بنی۔ اب ہم کرکٹ کے ’’ماہرین‘‘ تو نہیں مگر اتنی سمجھ بوجھ رکھتے ہیں کہ کس کھلاڑی کو میرٹ پر ٹیم میں شامل کیا گیا ہے اور کس کھلاڑی کو ’’پرچی‘‘ پر یعنی سفارش پر۔ اب ٹیم میں شعیب ملک جیسے ہارڈ ہٹر اور تجربہ کار کھلاڑی کو بھی شامل نہیں کیا گیا۔ شعیب دباؤ میں کھیلنے والا بڑا کھلاڑی ہے، وہ فائٹر بھی ہے اور اُس جیسی پریشر میں فائٹ کوئی بھی نہیں کر سکتا۔ اس لیے اب ہمارا خیال تھا کہ پی سی بی کو پسند نا پسند کے چکر سے رمیز راجہ ہی نکالے گا، مگر ٹیم کی جو پہلی اناؤنسمنٹ ہوئی ہے، اُس نے سب کو مایوس کر دیا ہے۔

بادی النظر میں یہ رمیز راجہ کے شایان شان نہیں ہے، کیوں کہ جس طرح عمران خان قوم کی اُمید ہیں، یعنی اُن کے بعد ہمیں ملک سنبھالنے والا کوئی دور دور تک نظر نہیں آرہا، اسی طرح رمیز راجہ کے بعد بھی ہمیں پاکستان میں کرکٹ کا کوئی خیر خواہ نظر نہیں آرہا اور ہم نہیں چاہتے کہ خاکم بدہن کرکٹ کا حال بھی باقی کھیلوں خصوصاََ ہاکی جیسا ہو جائے۔ اس لیے راجہ صاحب آپ سے قوم کو بہت سی اُمیدیں ہیں، آپ قومی ٹیم میں اُن کھلاڑیوں کو شامل کریں جو میچ ونر ہوں، جو پریشر میں ٹیم کو بحران سے نکال سکیں۔ ورنہ آپ تنازعات میں ہی گھرے رہیں گے

ڈاکٹر توصیف احمد

بشکریہ ایکسپریس نیوز

آئی سی سی کا دوہرا معیار کیوں ؟ ٹوئٹر صارفین کی تنقید

انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کو دوہرا معیاراپنانے پر سوشل میڈیا پر تنقید کا نشانہ بنایا جانے لگا۔ بھارتی کرکٹ ٹیم کو آسٹریلیا کے خلاف تیسرے ایک روزہ میچ میں فوجی ٹوپیاں پہن کر میچ کھیلنے کی اجازت ملی تو سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر صارفین نے آئی سی سی کو ہدف تنقید بنا لیا۔ ٹوئٹر پر #MoeenAli کے ساتھ آئی سی سی کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے، صارفین کا کہنا ہے کہ 2014ء میں آئی سی سی نے انگلینڈ ٹیم کے مسلمان کرکٹر معین علی کے فلسطینیوں کی حمایت میں ’ رسٹ بینڈ‘ پہننے پر پابندی لگا دی تھی۔

معین علی کے رسٹ بینڈ پر ’سیو غزا‘ اور ’فری فلسطین ‘ کے الفاظ تحریر تھے اور ان دونوں فلسطین میں مسلمانوں کا قتل عام جاری تھا۔ مسلمان انگلش کرکٹر نے وہ رسٹ بینڈ اپنے بورڈ کی اجازت کے بعد پہنا تھا مگر آئی سی سی نے انگلش بورڈ کی اجازت مسترد کر دی تھی اور معین علی کو فلسطین اور غزا کی حمایت کرنے سے منع کر دیا تھا۔ ٹوئٹر پر صارفین نے کہا کہ ویرات کوہلی الیون نے آج کے میچ میں اس آرمی کو سپورٹ کیا جس نے گزشتہ 30 برسوں کے دوران 95 ہزار کشمیریوں کو قتل کیا ہے، تو کیا آئی سی سی کسی فوج کی مارکیٹنگ کی اجازت دیتا ہے؟

بھارت میں پاکستان کی فتح پر جشن منانے والے مسلمان گرفتار بغاوت کا مقدمہ

انڈیا کی ریاست مدھیہ پردیش میں کم از کم 15 افراد کو چیمپیئنز ٹرافی کے فائنل کے بعد مبینہ طور پر پاکستان کے حق میں اور انڈیا کے خلاف نعرے بازی پر گرفتار کیا گیا ہے۔ پولیس نے بی بی سی کو بتایا کہ ان مسلمان افراد کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ ان افراد کو ان کے ہندو ہمسائیوں کی شکایت پر گرفتار کیا گیا جن کے مطابق ان لوگوں نے میچ کے دوران آتش بازی کی اور ’پاکستان کے حق‘ میں نعرے لگائے۔

چیمپیئنز لیگ کے فائنل میں پاکستان نے انڈیا کو 180 رنز سے شکست دی تھی۔
تعزیراتِ ہند میں بغاوت کا شمار سنگین الزامات میں ہوتا ہے۔ جن افراد کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کیا جاتا ہے انھیں اپنے پاسپورٹ حکام کے حوالے کرنے پڑتے ہیں، وہ سرکاری نوکریوں کے لیے نااہل ہو جاتے ہیں، انھیں عدالت کے حکم پر پیش ہونا ہوتا ہے اور تمام قانونی کاروائیوں کے لیے رقم بھی ادا کرنی ہوتی ہے۔ روزنامہ انڈیا ٹوڈے کی ویب سائٹ کے مطابق پولیس کا کہنا ہے کہ ان افراد کے خلاف مقدمہ پاکستان کے حق میں نعروں پر نہیں بلکہ انڈیا کے خلاف لگائے گئے نعروں کے وجہ سے درج کیا گیا ہے۔

یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ انڈیا میں مسلمانوں کو پاکستان کے حق میں نعرے لگانے پر مشکل کا سامنا کرنا پڑا ہو۔ سنہ 2014 میں انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں 66 طلبا کو اتر پردیش کی یونیورسٹی سے نکال دیا گیا تھا اور ان پر فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو نقصان پہنچانے کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

میچ ایسے دیکھنا جیسے آخری ہو

ایک تو مجھے اس انشا پرداز کی تلاش ہے جس نے پاکستان اور بھارت کے لیے روائیتی حریف کی اصطلاح سرقہ کی۔ حالانکہ یہ اصطلاح ایشز ٹرافی کے دو دعوے داروں آسٹریلیا اور انگلینڈ کے لیے مختص ہے۔ پاکستان اور بھارت تو ایک دوسرے سے دوطرفہ سیریز بھی بمشکل کھیلنے پر آمادہ ہوتے ہیں تو روائیتی حریف کیسے ہو گئے؟ اور کوئی یہ بھی بتا دے کہ کرکٹ جیسے شرفا کے کھیل میں حریف کے پرخچے کب سے اڑائے جانے لگے اور چھکے کب سے چھڑائے جانے لگے اور شاہینوں، شیروں، کنگروز اور دیگر جانوروں نے کب سے پیڈنگ شروع کر دی؟

مگر کیا کریں؟ آج کل کے لمڈوں میں یہی اصطلاحات اور یہی چلن ہے۔ لہذا میں بھی اسی جذبے سے اپنے ’’جذباتوں‘‘ کا اظہار کرنے کی کوشش کروں گا۔ یہ تصور کر کے گویا کرکٹ کے میدان میں نہیں کسی رومن اکھاڑے کی سیڑھیوں پر بیٹھا ہوں کہ جہاں کسی بھی لمحے بھوکے سانڈوں اور گلیڈی ایٹرز کا زندگی و موت کا کھیل شروع ہوا ہی چاہتا ہے۔ ہمارے ابا یہ نصحیت کرتے کرتے دنیا سے چلے گئے کہ بیٹا ہر نماز ایسے پڑھنا جیسے آخری ہو۔ نماز تو خیر ہم ایسے کیا پڑھتے البتہ پاکستان اور بھارت کا ہر کرکٹ میچ ضرور ایسے ہی دیکھتے ہیں جیسے آخری میچ ہو۔ یہی ناہنجار بھارت اس بار جب آئی سی سی چیمپینز ٹرافی کے پول میچ میں پاکستان کو اپنے تئیں کچلتا ہوا آگے بڑھ گیا تو اس کے گمان میں بھی نہ ہو گا کہ ایک بار پھر حالات کچھ ایسے بن جائیں گے کہ فائنل میں

اک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا

قدرت خدا کی دیکھئے کہ ہمارے زخموں پر پہلا مرہم پول میچ میں سری لنکا نے بھارت کو سات وکٹوں سے ہرا کر لگایا اور پھر خود پاکستان سے ہار کر دوست ہونے کا حق ادا کر دیا اور پاکستان کو سیمی فائنل میں پہنچا دیا اور وہ بھی ڈک ورتھ لوئیس فارمولے کے بغیر۔ سچی بات تو یہ ہے کہ مجھے اس فارمولے کے بارے میں کدو نہیں پتہ۔ بس اتنا سنا ہے کہ یہ بارش کے بعد کھیلے جانے والے اوورز پر لاگو ہوتا ہے اور ساؤتھ افریقہ کو ہرانے میں یہی ریاضیاتی معمہ پاکستان کے کام آیا تھا۔

اور پھر کرنا خدا کا یوں ہوا کہ انگلینڈ جیسی ٹیم جس نے کوئی پول میچ نہ ہارا جب پاکستان جیسی آٹھویں نمبر کی ٹیم سے اس کا سیمی فائنل میں سامنا ہوا تو یقین نہ آتا تھا کہ یہ پاکستانی ٹیم ہی ہے۔ یقین آتا بھی کیسے، فیلڈنگ ایسی کہ انگلینڈ کو ایک چھکا مارنا بھی نصیب نہ ہوا، یوں لگا گویا وکٹ نے انگلش بلے بازوں اور بالرز کی ٹانگیں پکڑ لیں۔ اگر یہ کوئی خدائی مداخلت نہیں تھی اور خالصتاً پاکستانی ٹیم کا زورِ بازو ہی تھا تو پھر یہی زورِ بازو ہر میچ میں کیوں نظر نہیں آتا اور پاکستان بیشتر سیریز اور ٹورنامنٹس میں پاگل بن کے حلوہ کھانے کی اداکاری کیوں کرتا ہے؟

قصہ مختصر پاکستان پہلی بار آئی سی سی چیمپینز ٹرافی فائنل میں پہنچ گیا۔ دوسری جانب سے بھارت بھی حسبِ توقع بنگلہ دیش کو مارتا ہوا فائنل میں آ گیا۔ یوں بقول ایک ٹریکٹر ٹرالی ادیب پاکستان کو ’’وقت نے ایک بار پھر دلہن بنا دیا‘‘۔
ابھی فائنل میں ایک دن باقی ہے۔ مہنگے چینلوں نے تو بہت پہلے ہی سے اپنی اپنی حیثیت کے مطابق ایک دو تین چار سابق ٹیسٹ کرکٹرز پینل پر رکھ لیے۔ مگر غربا چینلز اپنے اینکروں کے پیچھے ہی گیند اور بلا بنا کے کم خرچ بالا نشیں کرکٹانہ مہارت کا تاثر دے کر اپنا وجود منوا رہے ہیں۔

جس طرح ایک ہی بیماری کی تشخیص کے باوجود کسی ڈاکٹر کا نسخہ دوسرے ڈاکٹر سے یکسر مختلف ہوتا ہے اسی طرح کرکٹ میں بھی کسی ماہر کی رائے کسی دوسرے ماہر سے اتفاق نہیں کرتی۔ ہر ایک کا اپنا اپنا منجن ہے اور کوئی بھی کسی سے کم مقدار اور قیمت پر بیچنے کو تیار نہیں۔ اگر پاکستانی ٹیم کل میدان میں اترنے کے بعد ایسے تمام بھانت بھانت کے ٹی ویانہ دانشوروں اور ناصحین کی خواہشاتی فرمائشوں اور مشوروں پر عمل کرتی ہوئی کمر بستہ ہو جائے تو صرف ان مشوروں کا بوجھ ہی ٹیم کی کمر توڑنے کے لیے کافی ہے۔ شکر ہے جہاں پاکستانی ٹیم ٹھہری ہوئی ہے وہاں اکا دکا پاکستانی چینلز ہی کمروں میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ ورنہ تو ان کمروں کو بدلے اور انتقام کی پکار اور تبصراتی و مشوراتی ٹیلی کاسٹ ایندھن سے ہی آگ لگ جائے۔

ہارنے کا تو خیر سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پھر بھی دعا کیجیے کہ اگر بدقسمتی سے بھارت ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کرے اور تین سو سے اوپر رنز بنا لے تو اس کی اننگز مکمل ہوتے ہی ساون ایسا ٹوٹ کے برسے کہ اوول میں گھٹنے گھٹنے پانی کھڑا ہو جائے اور پھر شام ڈھلے یہ فیصلہ ہو کہ پاکستان بس دو اوورز کھیلے اور بھارت کے تین سو سے زائد سوکھے رنز کے مقابلے میں محض پندرہ گیلے رنز بنائے اور ڈک ورتھ لوئیس فارمولے کے مطابق ایوریج رن ریٹ کی ضرب جمع تقسیم کے بل پر بھارت کی ناک رگڑ دے۔ اور اگر پاکستان ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کرے تو کم ازکم چار سو اکیس رنز بنا لے تا کہ ہمارے بالرز کو بھارت کی اننگ میں سات کھلاڑیوں تک جانے والے طویل بیٹنگ آرڈر کے پرخچے اڑانے کے لیے ٹھیک ٹھاک گنجائش مل سکے۔

دوسری صورت یہ ہے کہ پاکستان اگر پہلے بلے بازی کرتا ہے اور خدانخواستہ پوری ٹیم دو سو کے اندر لپٹ جاتی ہے تو پھر جائے نماز بچھا کر دعا کی جائے کہ جیسے ہی بھارت اپنی اننگز شروع کرے آسمان سے ایسی جھڑی لگے کہ ایک ہفتے تک رکے ہی نہیں۔ یوں فائنل ہی پانی میں بہہ جائے۔ اب آپ کہیں گے کہ میں کتنی گھٹیا سوچ رکھتا ہوں۔ اور یہ کیسی گری ہوئی ذہنیت ہے کہ مجھے کرکٹ سے بطور کھیل نہیں بس اس سے دلچسپی ہے کہ کسی طرح بھارت نہ جیتے۔ ہاں ایسا ہی ہے۔ ہاں میں گھٹیا ہوں۔ مگر میں اکیلا نہیں۔ میرے جیسے کروڑوں ہیں جو بھارت ہو کہ پاکستان ہر جگہ اسی طرح سوچتے ہیں۔ اس میں اعلی اور ادنیٰ کی کوئی قید نہیں۔ رشی کپور بھی یہی ٹویٹ کرتے ہیں کہ پاکستان کو فائنل میں آنا مبارک ہو۔ بھارتی ٹیم کی وردی بھی نیلی ہے اور ہم تمہیں بھی نیلا کرنے کے لیے ایک بار پھر تیار بیٹھے ہیں۔

وہ اور جنٹل مین ہوں گے جو کرکٹ کے میدان میں جوس، چپس، سینڈوچ اور سیب وغیرہ لے کر اپنے بچوں کے ہمراہ صرف کرکٹ انجوائے کرتے ہوں گے۔ ہم تو بھیا اپنے ساتھ ستر سال کا کوڑا کرکٹ لے کر گراؤنڈ میں جنگ دیکھنے اور کرنے جاتے ہیں۔ اور گھر میں ٹی وی کے سامنے بھی بیٹھے ہوں تو ہمارے گلاس میں جوس بھی پلک جھپکتے زہر اور دوسرے پل میں تریاق ہو جاتا ہے۔ آپ اپنی سیانپتی اپنے لیے بچا رکھیں۔ ہم ایسے ہی تھے، ہیں اور رہیں گے۔ بھلے فائنل کوئی بھی جیتے۔

وسعت اللہ خان